پاکستان کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نواز شریف کو کرپشن میں ملوث پائے جانے کی وجہ سے بر طرف کر کے عملی سیاست سے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ ان کی خالی نشت پر ان کی بیوی، بیگم کلثوم نواز نے الیکشن لڑا۔ پاکستان کی عوام نے اسی کرپٹ شخص کی بیگم کو 62 ہزار کے قریب ووٹ دے کر کامیاب بنادیا۔ اس طرح بیگم نواز شریف نے 13 ہزار ووٹوں سے عمران خان کے امیدوار کو ہرا دیا۔ نواز شریف کے خلاف بد عنوانی کا کیس سب سے پہلے عدالت تک لے جانے اور اس میں کلیدی کردار جماعت اسلامی پاکستان اور اس کے امیر نے ادا کیا۔ یہاں تک کہا جانے لگا کہ اگر ملک کے تمام سیاست دانوں پر بد عنوانی کا مقدمہ چلایا گیا تو جناب سراج الحق کے علا وہ باقی تمام سیاست داں بد عنوانی کی وجہ سے نا اہل قرار دے دئے جائیں گے۔ ان سب کے با وجود، جماعت کے امیدوار کو اس ضمنی انتخابات میں صرف 592 ووٹ ہی مل سکے۔ وہیں،کم نام، تحریک یا رسول اللہ نے سات ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے تیسرا مقام حاصل کر لیا،اور حافظ سعید کی بالکل نو عمرپارٹی کے امید وار نے چھ ہزار کے قریب ووٹ حاصل کرکے چوتھا مقام حاصل کیا۔ لیکن جماعت ہزار ووٹ بھی حاصل نہیں کر پائی۔ کیا یہ المیہ نہیں ہے؟ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں عوام کی اکثریت، ایک طرف تو اسی شخص کی حمایت کرتی ہے، جسے عدالت اعظمی نے بد عنوان قرار دیدیا، دوسری طرف وہی عوام جماعت کے جلسوں میں پل بھر میں لاکھوں کی تعداد میں جمع ہو جاتی ہے ، لیکن جب وقت اقتدار دینے کا آتا ہے تو وہ جماعت کو ووٹ نہیں دیتی ہے، یعنی صالح قیادت کوحکومت میں دیکھنا نہیں چاہتی ہے؟ یہ خودجماعت کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ وہ عوام کے مجمع کو ووٹ میںتبدیل کیوں نہیں کر پاتی ہے؟ کیا اسے اپنی حکمت عملی میں تبدیل لانی ہوگی؟
جناب سرفراز فیضی صاحب کا ایک عمومی تبصرہ ہے، لیکن کیا یہ یہاں چسپاں نہیں ہوتا کہ: ’مسلم ممالک کی اسلامی جماعتوں کو آر ایس ایس سے سبق لینا چاہیے جو ہندستان کی انتخابی سیاست سے باھر رہ کر سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔بلکہ ہندستان میں اس وقت کی سب سے بڑی سیاسی طاقت ہے۔آر ایس ایس اگر سیاسی پارٹی بناکر الیکشن لڑنا شروع کردے تو اس کا بھی وہی حال ہوگا جو مسلم ممالک میں اسلامی جماعتوں کا ہوتا ہے’۔
جس طرح بھارت میں راشٹریہ سیوک سنگھ (RSS) نے خود الیکشن لڑنے کے بجائے، پہلے تمام تر توانائیاں افراد سازی میں لگا دیا اور پہلے مختلف پارٹیوں، شعبہ جات اوراداروں میں اپنے افراد پیدا کردئے۔ خود الیکشن لڑنے کے بجائے پارٹیوں کو اپنا ہم خیال بنا لیا۔ ہر پارٹی، ہر محکمہ میں اپنی ذہنیت کے افراد پیدا کر لئے۔ ساتھ ہی ایک سیاسی پارٹی بھی بنائی، حیرت انگیز طور سے اس پارٹی کی جیت اور عروج تو سنگھ کا عروج کہلاتا ہے، لیکن اس کی ہار اور زوال، سنگھ کا زوال نہیں ہوتا ہے۔ اسی لئے پارٹی کی ہار اور جیت سے سنگھ کے عزائم اور کارکردگی پر زیادہ اثر نہیں ہوا ۔اور اس نے ہر پارٹی سے کچھ حد تک اپنا کام نکلوا ہی لیا۔
جہاں تک اخوان المسلمین کی بات کی جائے تو اس نے افراد سازی کی حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ اور کافی عرصہ بعد اس نے ایک الگ پارٹی تشکیل دی اور وہ پارٹی الیکشن میں ووٹ حاصل کرکے اقتدار تک پہنچ بھی گئی، لیکن بد قسمتی سے فوج، جو ریاست کا سب سے طاقت ور شعبہ ہے، اسے اپنا ہم خیال بنانے اور اس میں اثر و رسوخ پیدا کرنے میں بالکل نا کام رہی۔ اس لئے اسے اقتدار حاصل کرنے کے با وجود جلد ہی حکومت سے ہاتھ دھوناپڑا۔ ویسے بھی موجودہ دور میں مسلم ممالک کی افواج کی تربیت اور اٹھان مغربی طاقتوں کے ذریعہ ان ہی کے نظریات،خیالات اور تعلیمات پر ہوتی ہے، جس میں ملکی پارٹیوں کا عمل دخل اور اثرات بالکل نہیں ہوا کرتے، اسی لئے افواج مغربی طاقتوں کے اشاروں پر مسلم ممالک میں جمہوری حکومتوں کو اکھاڑ کر اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ خدشہ تو ہمیشہ جمہوری حکومتوں کو لگا رہے گا۔ اس سے کس طرح محفوظ رہا جائے یہ ایک الگ بحث ہے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر مسلم ممالک میں اسلام پسند جماعتیں کیا کریں؟ ان ممالک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بطور خاص پاکستان میں اسلام پسند جماعت یہ کر سکتی ہے کہ یکسوئی کے ساتھ تمام تر قوت افراد سازی کرنے اور تمام اداروںکے لئے افراد تیار کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر اداروں میں نفوذ بھی کرے۔ ساتھ ہی مختلف اہم شعبوں سے متعلق اداروں اور تعلیم گاہوںکے قیام کے ساتھ ساتھ میڈیا میں نفوذ اور دیگر وسائل پر بھی گرفت مضبوط کرکے رائے عامہ ہموار کی جائے۔موجودہ دور میں میڈیا سب سے اہم اور طاقت ور شعبہ ہےجس کے اثرات عوام پر بہت زیادہ پڑتے ہیں۔ موجودہ دور میں بغیر میڈیا کی رائے عامہ ہموار کرنا فعل عبث ہے۔ یہ بات بالکل بر حق ہے کہ میڈیا انفارمیشن اورخبروں کا ذریعہ نہیں ہے،بلکہ یہ ایک ایسا آلہ جنگ ہے، جس سے عوام کے افکار، نظریات اور اقدار کو نشانہ بناکر انھیں اسیر کیا جا تا ہے۔ یہ الگ موضوع بحث ہے کہ فی الوقت دنیا کیcorporate کمپنیوں نے ‘طاقتور میڈیا’ کو خرید لیا ہے جو عالمی استعماریت کے لئے کام کر رہی ہیں۔
یہ ہیں اصل کرنے کے کام۔ان سب سے راہ فرار اختیار کرکے سیدھا الیکشن میں کود جانا نادانی کے مترادف ہوتا ہے، اور اس بات کی موجودہ تاریخ گواہ ہے۔ اگر الیکشنی سیاست کے لئے راستہ ہموار ہو چکا ہو تو اصل جماعت کو ہی انتخابی دلدل میںشریک کرنے کے بجائے دوسرے نام سے ایک الگ سیاسی پارٹی بنائی جا سکتی ہے جو ڈھال کی طرح ثابت ہوگی۔ علیحدہ پارٹی کے ذریعہ زوال، ہار، برائیوںاور بدنامیوں کے تباہ کن اثرات سے اصل تحریک اور جماعت کو بہت حد تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ دیر پا اور بہت محنت طلب کام ہے، لیکن، نتائج کے اعتبار سے دور رس ثابت ہوسکتا ہے ۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2017