’’تعجب کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ عام طورپرجس انداز میں بیان کی جاتی ہے اس میں وہ شاہی خانوادوں، اہم تاریخی ادوار، مذہبی تحریکوں اور ذات پات کی کشمکش کی موجودگی کے باوجود اہم تاریخی کرداروں سے خالی نظرآتا ہے۔ چند ناموں کو چھوڑ دیں تو اہم تاریخی شخصیتوں کے حالات زندگی پردبیز پردے پڑے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دوسروں کوتوچھوڑئیے خودہندستان میں بھی لو گ انھیں فراموش کرچکے ہیں۔ یہ کتاب ہندوستان کی تاریخ کو پچاس ممتاز شخصیتوں کے حالاتِ زندگی کے ذریعے بیان کرنے کا ایک تجربہ ہے۔‘‘
—سنیل کھلنانی کتاب کے ’تعارف‘سے
تاریخ، فرد اور تاریخ نگاری
ہندوستان کی تاریخ قدیم بھی ہے اور طویل بھی۔ اس قدامت اور طوالت کے باوجود ہندوستانی تاریخ کا گھرمکینوں کی کمی کا شاکی ہے۔ شاہی خانوادے، علاقائی سردار، ذات برادریاں، مذہبی ثقافتیں،جنگیں، مقدس صحیفے، کتابیں، بھگوان، جانور، ندیاں، پہاڑ، جڑی بوٹیاں، کیا ہے جو تاریخ کے اس گودام میں نہیں ہے؟ اگر نہیں ہیں تو ایسے بھرے پرے انسان جن پرعقیدت کے پردوں کے بجائے تاریخیت کا گوشت پوست چڑھا ہو۔ ہندوستانی تاریخ نگاری کا یہ مزاج دل چسپ اور حیرت انگیز ہے۔عوامی یادداشت کا دامن بھی عظمائے ہند کے لیے تنگ ہی ثابت ہوا ہے،جب کہ اس نے اپنے اندر ان گنت گیت، لاتعداد واقعات اور بے شمارخرافات کو جگہ دے رکھی ہے اور اس ملک کی عمومی فضا بھی اکابرپرستی کےلیے بہت سازگارثابت ہوئی ہے۔
اس کی ایک اہم وجہ یہ سمجھ میں آتی ہےمعاصرہندوستان میں تاریخ نویسی کے کسی مکتبِ فکر نے تاریخی سوانح نگاری کے صنف کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے کیوں کہ جدید دور میں ہمارے مؤرخین کو اپنے پیش روؤں سے تاریخ نگاری کی جو روایت ملی اس میں فرد ایک بحران سے دوچار رہا ہے: یا تو غلو اور عقیدت مندی نے اسے عام انسانوں کی سطح سے اٹھاکر مافوق الفطرت ہستی بنا دیا، جس کے بعد تاریخی شواہد کی روشنی میں اس کی زندگی کا مطالعہ تقریباً ناممکن ہوگیا، یا پھر فرد اجتماعیت کی کسی شکل جیسے خاندان، قبیلہ، سماج، وغیرہ میں یوں مدغم ہوگیا کہ اس کی انفرادی ذات اور اختیار کے کوئی معنی باقی نہیں رہے۔
تاریخ، کہانی اور عرفانِ ذات
جب کہ تاریخ نگاری میں معیاری سوانحی ادب، یعنی شخصی احوال کے ذریعے تاریخی حقائق کی کھوج،کا اسلوب قصہ گوئی کے عناصر کی وجہ سے عوام کو تاریخ سے قریب بھی لاسکتا ہے۔ کیوں کہ انسان غارکے زمانے سے لے کر ہمارے خلائی سفرکےدورتک کہانیوں کا اسیر رہا ہے۔ تہذیبی اور لسانی ارتقا، معاشرتی اور سیاسی تبدیلیاں، مذہبی اور جغرافیائی حد بندیاں کبھی بھی انسان کے اس شوق اور ضرورت کی راہ میں حائل نہیں ہو سکیں۔ جنگل میں شام کوالاؤ کے اردگرد بیٹھ کر شکار اور شجاعت کی داستانیں (Odyssey) اور ’اوڈیسی‘(ایلیڈ) ہوں یا کسی لگژری ہوٹل کے آرام دہ ہال میں ’بک ریڈنگ سیشن‘، ہومر کی ’ایلیڈ‘ہوں یاکالی داس کی ’شکنتلم‘، بمبھٹکا کے غاروں کی منقش دیواریں ہوں یااجنتا اور ایلورا کے مجسمے، یونان کے المیے ہوں یا شیکسپئر اور گوگول (Gogol)کے شاہ کار، امرؤ القیس کی شاعری ہو یا الف لیلہ کی داستانِ ہزارشب، سب کے پیچھے انسان کا کبھی نہ ختم ہونے والا ’قصہ بھوک‘ ہی تو ہے۔ تاریخ اپنے کریہہ چہرہ پرجب داستان کا غازہ مل لیتی ہے تو عام لوگوں کے لیے اسے برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔
قصوں میں ایسا کیا ہے جس کے سحر میں انسان غاروں سےبرج خلیفہ کے عہد تک گرفتارہے؟ میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر انسان خود ایک قصہ ہے۔ اس کی زندگی ایک اسکرپٹ ہے جس میں ماہ وسال واقعات و حوادث کی شکل میں رنگ آمیزی کرتے ہیں اور جذبات و احساسات سے اس میں گہرائی اور گداز پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے قصہ گوئی یا قصہ خوانی دراصل اپنی ذات کی دریافت اور بازیافت ہے۔ تاریخ بس اتنا کرتی ہے کہ اس کے کینوس کو بہت وسیع کردیتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ کو پڑھنا، سوچنا اور سمجھنا دراصل اپنے آپ کو پانے کا عمل ہے۔ خاص کر مسلمانوں کواس جانب توجہ کرنے کی ضرورت ہےکیوں کہ حال میں ان کی شناخت کا مسئلہ، اجتماعی رویوں کی تشخیص اور اپنے صحیح مقام اور ذمہ داریوں کا شعور پیچیدہ تاریخی عوامل کی سمجھ کے بغیر ممکن نہیں۔
انکارنیشنز: اے ہسٹری آف انڈیا ان ففٹی لاؤز
آئیڈیا آف انڈیا معاصر ہندوستان میں تاریخ، سیاست اور تہذیب کے تعامل اور اس کے نتائج پرنظررکھنے والے ممتاز مبصر اور Incarnations: A History of India in 50 Lives جیسی بے مثال کتاب کے مصنف پروفیسر سنیل کھلنانی کی تصنیف تاریخ نگاری میں ایک ایساہی تجربہ ہے جس میں تاریخ کے اجتماعی عمل کی کہانی اس کے ممتازترین کرداروں کے اردگردگھومتی ہے۔ بی بی سی ریڈیو ۴ کے ایک پروگرام کے لیے لکھی جانے والی یہ تحریر برطانیہ اور ہندوستا ن میں،علی الترتیب، ۲۰۱۶، اور ۲۰۱۷ میں کتابی صورت میں شائع ہوئی۔
اس میں تاریخ نگاری کا جو اسلوب اپنا یا گیا ہے وہ فارسی اور اردو میں قدیم شعرااور صوفیا کے سوانحی تذکروں سے یک گونہ مماثلت رکھتا ہے۔ مگردونوں میں ایک بنیادی فرق بھی ہے۔ قدیم تذکرےتحقیق و تنقید کے جدیدعلمی میزان میں بہت ہلکے ثابت ہوئے ہیں اس لیےانہیں تاریخ کے بجائے عقیدت مندانہ ادب کے خانے میں رکھنا زیادہ صحیح ہوگا۔ ہاں، ایک بالغ نظرتاریخ داں کے لیے ان تذکروں کا مطالعہ بھی فائدے سے خالی نہیں کہ خزف ریزوں کے اس ڈھیر میں کہیں کہیں گوہرِ نایاب بھی مل جاتا ہے اور ہمیں ان شخصیات کے متعلق معاصردنیا کی رائے بھی معلوم ہوجاتی ہے۔
کھلنانی کے یہاں عقیدت کے بجائے تحقیق ہے اور مبالغہ آرائی کی جگہ حقیقت پسندی۔ وہ اول وآخران عظیم شخصیات کو انسان ہی سمجھتے ہیں اس لیے ان کے کم زورپہلوؤں سے نظریں بچا کرنکلتے نہیں ہیں بلکہ ان کے متعلق اپنی رائے کا اظہار بے باکی اور غیرجانبداری سےکرتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے باوجودان سے اختلاف رائے کی پوری گنجائش ہے۔ بلکہ، جیسا کہ آگے چل کرہمیں معلوم ہوگا، وہ اپنے قارئین سے یہی توقع بھی کرتے ہیں۔
عظیم شخصیات کی زندگیوں کو خالص علمی اور تحقیقی نقطہ نظر سے پڑھنے کےبہت سارے علمی فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ عمومی تاریخ میں جو باتیں سرسری یا اختصار کے ساتھ ہمیں ملتی ہیں وہ یہاں تفصیل کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ اس سے اس دور کے واقعات اور ان کے پس منظر کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ جن شخصیتوں کی شبیہ کسی وجہ سے منفی بن جاتی ہےان کی سوانح حیات انھیں عوامی بحث و مباحثے میں واپس لے کرآتی ہے اور تعصب وجانب داری سے پاک مؤرخین ان کا مقدمہ تاریخی شواہد کے ساتھ دوبارہ عوام کی عدالت میں رکھتے ہیں۔ ۲۰۱۷ میں اور نگ زیب عالمگیر پر آدری ترشکی کی شائع ہونے والی کتا ب اس کی تازہ ترین مثال ہے: Aurangzeb: The Life and Legacy of India’s Most Controversial King۔
تاریخ کی کشادہ راہیں
زیرِ نظرمضمون معروف معنوں میں تبصرہ نہیں ہے۔گو اس کا تانابانا اسی کتاب کوسامنے رکھ کر بنا گیا ہے مگراس کا دائرہ اصل کتاب سے بہت وسیع ہے۔ اس میں ان پچاس شخصیات کے ذیل میں ہندوستانی تاریخ، فلسفہء تاریخ، تاریخ نگاری، ماضی اور حال کے باہمی رشتے، وغیرہ پر بھی جگہ جگہ روشنی ڈالی گئی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ کھلنانی صاحب اور ہم کبھی صبح تڑکے تو کبھی شام ڈھلےکسی تاریخی کردار کے ساتھ لمبی سیر پرسوشل ڈسٹنسنگ کاخیال رکھتے ہوئے نکل پڑتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہم دونوں کے پاس فرصت ہی فرصت ہے۔ تاریخ کے قید خانے سے جس کردار کو ہم باہرنکالتے ہیں اسے بھی واپس جانے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی ہے کیوں کہ اسےاپنے ماضی کو حال کے اسکرین پر دیکھنے کا اتنا ہی شوق ہے جتنا ہمیں اپنے حال میں ماضی کی پرچھائی دیکھنے کا تجسس۔ کھوئے ہوؤں کی اس جستجو میں کھلنانی صاحب اور ہم سیر کے لیے حال کا کوئی پارک نہیں بلکہ ماضی کی طویل شاہراہ کا انتخاب کرتے ہیں: پانچویں صدی قبل مسیح کے نیپال اور بہار کے میدانی علاقوں سے بیسویں صدی عیسوی کے عروس البلاد ممبئ تک ڈھائی ہزارسالہ اس سفر میں ہماری ملاقات ۵۰ ایسے ممتاز ترین افراد سےہوتی ہے جن کی شخصیت، فکر، فیصلوں اور خدمات نے ہندوستانی تاریخ پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور، کھلنانی صاحب کے مطابق، ان افراد کی زندگی اور فکرونظرمیں موجودہ ہندوستان کے مسائل کا حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
کھلنانی صاحب اپنے وسیع علم و مطالعے کی وجہ سے گفتگو میں اختصارسے کام لیتے ہیں جو ان کی علمیت کے شایانِ شان ہے۔ ہم جیسے کم سواداپنی لن ترانی کےپردے میں کم علمی کا عیب چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے تیسرے ساتھی کی مثال ‘سلیپنگ پارٹنر’ کی سی ہے۔ وہ خاموشی سے ہم دونوں کی باتیں سنتے یا سنتی ہیں۔ باتیں جو خود انھیں کے متعلق ہوتی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ انھیں ہم دونوں کی باتوں پررائے زنی کا حق نہیں کیوں کہ اس صورت میں کھلنانی صاحب نے ان کے سرپر ’’ہٰذا فراق بینی و بینک” کی تلوار لٹکادی ہے۔
تاریخ، تبدیلی اور مقتدرہ
آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کتاب میں شامل نہیں کیے جانے کے باوجود یہاں وہاں نظرآجاتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کی تاریخ کو ایک ایسے نوشتے سے تعبیر کیا تھا جس پر ہرآنے والی نسل پچھلی نسل کی تحریر کوختم کیے بغیرکچھ نیا لکھ کر اسے آئندہ نسل کوسونپ دیتی ہے۔ لیکن نہروجی کی اس تعبیر سے کھلنانی صاحب کو اتفاق نہیں ہے کیوں کہ ا س سے ہندوستان کی تاریخ اور سماج کے متعلق یہ تصورابھرتا ہے کہ وہ سماجی تبدیلی، ارتقا، اور کشمکش سے خالی ہے۔ کھلنانی صاحب کے مطابق ہندوستانی تاریخ، شخصیات اور سماج سب زندہ، متحرک اور حال کے سروکار سے مربوط ہیں۔ مقتدرہ، نوکرشاہی اور سماج جب، جہاں اور جس طرح چاہتےہیں انھیں استعمال کرتے ہیں۔ مہاتما گاندھی، اکبر، رانا پرتاپ، جھانسی کی رانی، اور نگ زیب، پرانے جھگڑے، سماجی و سیاسی اختلافات اور مختلف تاریخی لڑائیاں اس کی مثال ہیں۔اس ذہنیت کی ایک مثال بی جے پی کے رہ نماؤں کا نہروجی کے متعلق رویہ بھی ہے جس میں وہ معاصرمسائل کے لیے نہرواور کانگریس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
ہمہ گیر تبدیلی اور تاریخ کی لاچاری
میں تاریخ پر جب اس لحاظ سے نظر ڈالتا ہوں کہ کن زمانوں اور کن علاقوں میں سماج میں ایسی تبدیلیاں آئیں جنھوں نے اسے اپنے ماضی اور روایات سے بہت حد تک کاٹ کر ایک نئے تاریخی عمل کا حصہ بنادیا تو مجھے تین زمانے اور علاقےایسے نظرآتے ہیں جہاں ’مکمل تبدیلی‘نے اپنی جڑیں گاڑدیں : بیسویں صدی کا اشتراکی روس اور چین، نشاة ثانیہ-تحریک اصلاح اور روشن خیالی کا یوروپ اور ساتویں صدی کا جزیرہ نمائے عرب۔
لیکن ان ’’ہمہ گیر‘‘سماجی تبدیلیوں والے زمانوں اور علاقوں کے علاوہ ہمارا ملک بھی تہذیبی اور معاشرتی سطح پر ایک ایسی تجربہ گاہ رہا ہے جہاں روایتوں پرجان دینے والے اور جدتوں کے لیے جان پر کھیلنے والے ہمیشہ آس پاس ہی موجود رہے ہیں۔ اقتدار کے لیے خونی رشتوں کا خون کرنے والے اور اعلیٰ روحانی مقاصد اور مراتب کے حصول کے لیے اقتدار کا تیاگ کرنے والے دونوں ہی اسی خاک سےجنم لیتے رہے ہیں۔ مذہبی صحیفوں کی تدوین بھی یہیں ہوئی ہے اور مذہبی معتقدات کی کھلیاں بھی یہیں اڑائی گئی ہیں۔
لیکن ان تبدیلیوں کے نقیب، بہرحال، انسان تھے۔ ان کی فکری توانائی اور مستقل مزاجی نے تاریخ کے دھارے کو موڑا ضرورلیکن انھیں تنقید سے بالاترسمجھنا خود تاریخ کے ساتھ کھلواڑہوگا کیوں کہ ایسی سوچ کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی فکرکچھ اور توہوسکتی ہے مگرتاریخ نہیں۔ ان کے متعلق کھلنانی صاحب کا یہ خیال فکرانگیز ہے کہ ان تاریخی شخصیات کے تذکروں کی بنیاد پر ہمارا ذہن ان کی جو تصویر بنا تا ہے وہ اکثرحقیقت سے دور اور افسانوں سے قریب تر ہوتی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ان کی حقیقی زندگیاں ہمارے لیے زیادہ دل چسپ اور مفید ہیں۔ یہ شکوہ تو مسلم صوفیا پرتحقیق کرنے والوں کو بھی ہے۔ یہ مشترکہ غم ہے۔ عوامی یادداشت اور سیاسی مفاد جب ایک ساتھ مل جاتے ہیں تو پھرتاریخ سماج کے حاشیے پرچلی جاتی ہے۔ مثلاً، عوامی یادداشت عظیم لوگوں کا جو پیکرتراش کر اجتماعی ذہن کے میوزیم میں نصب کرتی ہے وہ اس کے خلاف کسی تحقیق کو خاطرمیں نہیں لاتی۔ مثال کے طورعالمی شہرت یافتہ لائبریری اور تاریخی تحقیقی ادارہ ‘بھنڈارکر اور ینٹل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ’، پونےپر۲۰۰۴ میں ‘سمبھا جی بریگیڈ ‘کے رضاکاروں نے اس لیے حملہ کردیا تھاکہ امریکی ماہرِ مذہبیات اور تاریخ داں جیمس لین نے شیواجی کے متعلق اپنی کتاب میں، حملہ آور وں کے مطابق، ان کےلیے قابلِ اعتراض جملے استعمال کیے تھے: Shivaji: Hindu King in Islamic India۔
علم، مغرب اور اجارہ داری
موجودہ عالمی سیاست اور معیشت میں ہندوستان کے زیادہ مضبوط ہونے کی وجہ سے مصنف کو اس بات کی امید ہے کہ ان کی اس کتاب کے ذریعے اہلِ مغرب کےلیے اس بات کو سمجھنا آسان ہوگا کہ افکارونظریات اور ذہنی ارتقا کے میدان میں اس کے افکارونظریات کے متبادل یا مماثل افکارونظریات دوسری تہذیبوں میں بھی موجود ہیں۔
ہندوستان کی قدیم اور طویل تاریخ میں سماج، سیاست اور فرد کے متعلق جو خیالات پیدا ہوئے اور جو تجربات کیے گئے وہ اب عام انسانی تہذیب کا ورثہ ہیں۔ علم کے ‘مغرب -مرکزی تصور’کے دن اب لد چکے ہیں۔ انسانی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف قوموں نے علم کے قافلے کی سربراہی کی ہے اور گذشتہ کئی صدیوں سے اس کی قیادت اہلِ مغرب کے ہاتھوں میں ہے۔ ا نسانی تاریخ میں علم وتحقیق کے سفر اور ارتقا کی کہانی کو کسی مخصوص مذہب، تہذیب اور زبان کے حوالے سے بس اسی قدردیکھنا رو اہوگا کہ سربراہی کرنے والی قوم کے عقائد ونفسیات کا پرتو اس سفر پرتوپڑتا ضرورہے مگر اس پورے عمل میں فیصلہ کن عنصر انسان کا ذوقِ تجسس اور تحقیق ہی ہوتا ہے۔ ہاں، قوموں کے مابین باہمی قدرشناسی اور حق شناسی کے جذبےکو پروان چڑھانے کی ضرورت ہمشہ باقی رہے گی۔ اس کی ابتدا، دوسری بہت سی اہم باتوں کی طرح، ہمارے گھروں اور درسگاہوں سے ہونی چاہیے۔ اگرتعصب اور من و تو کے خودساختہ امتیازات کو ختم کرکے ہم یہ پہل کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں تو ہماراملک اور پھراس کے بعد ہماری یہ دنیا واقعتاً ’الخلق عیال اللہ ‘اور ’واسودیواکٹمبکم ‘کی سچی تصویر بن جائے گی۔
تعارفِ کتاب کے اختتامیہ میں مصنف کا مقصدِ تالیف اور ہندوستان کی ’فطرت‘کاعطرسمٹ کرآگیا ہے:
But I also hope that readers will argue strenuously about the fifty names I‘ve chosen – to dispute those who have been left out and to make alternative selections.
For that‘s how I see Incarnations, in the end: as an open invitation to a different kind of conversation about India‘s past, and its future. And among my hopes is that, after finishing the last of these fifty portraits, a reader might share at least some of what I‘ve come to feel strongly: that India‘s capacity to change itself, and to challenge its own dogmas (and sometimes those of the wider world), is not just a historical relic. It‘s a still-available capacity, one more necessary than ever.
’’لیکن مجھے یہ بھی توقع ہے کہ قارئین ان پچاس ناموں کے بارے میں سخت بحث کریں گے جو میں نے منتخب کیے ہیں، جو چھوٹ گئے ہیں ان پر اختلاف اور متبادل انتخاب کرنے کے لیے۔ اس لیے میں اس کتاب کو ہندوستان کے ماضی اور اس کے مستقبل کے بارے میں ایک مختلف قسم کی گفتگو کے لیے کھلی دعوت کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اور مجھے یہ بھی توقع ہے کہ ان پچاس خاکوں کو ختم کرنے کے بعد قاری کم از کم اس احساس کا حامل تو ہوگا جو میں نے شدت سے محسوس کیا ہے ، وہ یہ کہ ہندوستان کی خود کو تبدیل کرنے کی اور اپنے معتقدات کو چیلنج کرنے کی صلاحیت (بعض اوقات وسیع تر دنیا کے معتقدات کو بھی) محض ایک تاریخی اثر نہیں ہے، بلکہ یہ اب بھی موجود ہے ، اور پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔‘‘
یعنی کھلنانی اپنے قاری سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کےانتخاب پرتنقیدی نگاہ ڈالیں گے اور خود بھی ایک متبادل فہرست تیارکریں گے۔ کیوں کہ اس کتاب کا مقصد ہی ہندوستان کے ماضی اور مستقبل کے بارے میں آزادانہ بحث و مباحثہ ہے۔وہ یہ بھی امید کرتے ہیں کہ کتاب ختم کرنے کے بعد قارئین ان کے اس خیال سے اتفاق کریں گے کہ ہندوستان میں خودکوتبدیل کرنے اور اپنی کمیوں کودورکرنے کی جو صلاحیت پہلے تھی وہ اس میں اب بھی بدرجۂ اتم موجود ہے۔
تاریخ، تعبیر اور ترسیل
میری لائبریری کی جو کھڑکی گلی میں کھلتی ہے وہ بہت دنوں سے بند پڑی تھی۔ چند دنوں پہلے خیال آیا کہ کیوں نہ اسے کھول دیا جائے!اس کے کھلتے ہی قدرتی روشنی اور تازہ ہوا نے کمرے کی فضا کو اچانک بدل دیا۔ میں نے اپنے ذہن پربھی اس تبدیلی کا خوش گوار اثر محسوس کیا۔ روشنی اور ہوا تبدیلی اور بہتری کے استعارےبھی بن سکتے ہیں یہ اب سے پہلے مجھے معلوم نہیں تھا۔
میں نے کمرے پرایک طائرانہ نظرڈالی۔ سب کچھ پہلے ہی جیسا تھا: دیوار سے اایستادہ کتابوں کا وہی پرانا ریک، وہی کونے میں پڑی میز، ایک جانب بچھا بستر، کچھ کتابیں، پینٹنگز اور پرنٹر۔ سب کچھ تو پہلے ہی جیسا تھا۔ کچھ بھی تو نہیں بدلاتھا۔ اگربدلا تھا توکمرے کی کھڑکیوں کا زاویہ، اور بس۔ میرے کمرے میں محسوس ہونے والی خوش گوار تبدیلی اور تاریخ کی نوع بنوع تعبیروتشریح دونوں کا انحصارزاویہ اور نقطہ نظرکی تبدیلی پرہی ہے۔
نئی نسلوں تک ماضی کی ترسیل دراصل اس آکسیجن کی منتقلی ہے جس پر مستقبل کی زندگی کا انحصار ہے۔ یہ عمل نازک بھی ہے اور ناگزیر بھی۔ اس کی نزاکت اور ناگزیریت ایک دوسرے کے مرہونِ احسان ہیں۔ منتقلی کا یہ عمل جدت، تخلیقیت اور صبرکا طالب ہے۔ لیکن ہمارے تعلیمی اداروں میں تاریخ کے موضوع کی مثال میری لائبریری میں بند پڑی کھڑکیوں کے مانند ہے جس کے ایک جانب گھٹن اور پژمردگی ہے اور دوسری جانب تازگی اور کھلا پن ہے۔
تاریخ کا مواد، عام طورپر،یکساں رہتا ہے۔ اس میں بنیادی تبدیلی کسی انقلابی تحقیق کی وجہ سے عرصہ درازمیں کبھی ہوتی ہے۔ لیکن اس مواد کو برتنے کا عمل ہر نسل، ہر استاد، ہر طالبِ علم، ہر ادارہ، ہرسماج اور پھرسماج کے مختلف طبقوں میں الگ الگ ہوتا ہے۔ کسی نسل، کسی استاد، کسی طالبِ علم، کسی ادارہ اور کسی سماج پر طاری ہونے والے مختلف حالات اس ’برتنے کے عمل‘پر اثر انداز ہوتےہیں۔ ترکی ڈرامہ ’ارطغرل غازی‘اس کی ایک مثال ہے۔ متن کب ذیلی متن اور حاشیہ بن جائے اور حاشیہ اور ذیلی متن کب متن جتنا اہم بن جائیں اس کا مطالعہ تاریخ، سماجیات، سیاسیات اور نفسیات کا ایک کلائیڈواسکوپ بن جاتا ہےجو اپنے مطالعہ کرنے والوں کے اندر’نظر‘پیدا کرتا ہے اور یہی تاریخ کے مطالعے کا بلند ترین مقصد ہے۔
کھلنانی کا مقصد کیا ہے؟ ان جیسا بالغ نظر دانش ور اس کتاب سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟
وہ اس کی وضاحت اس کتاب سے متعلق اپنے ایک لیکچر میں کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ برسوں سے ہندوستانی تاریخ کو بیان کرنے کے ایک غیر روایتی مگر علمی متبادل اور نئے طریقےکی تلاش میں تھے۔ اور آخرِکاران کی یہ تلاش ۵۰ شخصیات کی سوانح کے ذریعے ہندوستان کی تاریخ بیان کرنے کے اس طریقے کی دریافت پر ختم ہوئی۔
تاریخ، فرد اور آثار
ہندوستان کی تاریخ کو، بالخصوص قدیم تاریخ کو، گذشتہ پندرہ برسوں سے پڑھنے اور سوچنے کے بعد بھی یہ بات کبھی شعوری طور پرمیں نے محسوس نہیں کی کہ اس دور میں ہندوستانی تاریخ کا اسٹیج انفرادی کرداروں سے یکسر خالی ہے۔ اسٹیج پر ایک بے نام بے چہرہ بھیڑچال ہے جس کے ذریعے تاریخ کا ڈرامہ آگے بڑھتا ہے۔ یہ لکھتے ہوئے میرا ذہن قدیم یونانی المیوں کی طرف چلا گیا جن میں ’کورس‘اپنی بے چہرگی اور گم نامی کے باوجود ڈراموں کا اہم حصہ ہوتے تھے۔ قدیم ہندوستان کی تاریخ میں مہاتما بدھ ایسی پہلی ‘تاریخی’ شخصیت ہیں جن پر متن کا گوشت اور مادی شہادتوں کا پوست دونوں ہیں۔ ان سے پہلے وادئ سندھ کی تہذیب اپنے مادی آثارکے اعتبار سے تو مالامال ہے مگر اس کا رسم الخط، اگر وہ رسم الخط ہی ہے تو، ہنوز ایک معمہ ہے۔ اس کے ہزارسال بعد آنے والی ہندآریائی تہذیب ایک زبردست فلسفیانہ اور اخلاقی دستاویز کی حامل ہے مگر یہ مادی شواہد اور آثارسےتہی دامن ہے۔ اس لیے یہ بات تحقیقی اور تاریخی ہردواعتبار سے مناسب ہے کہ ہندوستانی تاریخ کے پچاس ممتاز ترین شخصیات کے مختصر سوانحی کوائف پر مشتمل اس کتاب کا آغاز مہاتما بدھ کی سرگزشت سے ہو۔
مہاتما بدھ کی یہ سرگزشت سات صفحات پر مشتمل ہے۔ پڑھنے کے بعد میں نے خود سے سوال کیا:
’’تو؟۔ ۔۔‘‘یعنی مجھے اس میں کیا ملا؟
’’کیا چاہتے تھے؟ ‘‘ اب سوال مجھ سے تھا۔
’’بصیرت‘‘ میرا جواب مختصرتھا۔
’’اچھا۔ ‘‘(ذرا توقف کے بعد) ’’واقعی کچھ نہیں ملا؟ ‘‘
’’ذرا ٹھہرو۔ کچھ وقت گزرنے دو۔ ممکن ہے کوئی نیا پہلو تمھارے سامنے آجائے۔ ‘‘
اور واقعی کچھ گھنٹوں مسلسل یہ سوال سوچنے کے بعد کہ کھلنانی جیسے بلند پایہ دانش وراور نظریہ ساز کی کتاب میں کچھ نہ ملے، یہ بات آسانی سےہضم نہیں ہوتی ہے۔ میری نظر اچانک سرورق پرپڑی جہاں ولیم ڈارلمپل کا یہ جملہ راستہ دکھا رہا تھا:
The best possible introduction to both the complexities and the charms of Indian history.
ہندوستان کی تاریخ کی پیچیدگیوں اور دل کشی کا ممکنہ طور پر بہترین تعارف۔
میری نظر یں لفظ تعارف (introduction)پرٹھہر گئیں، اور پھر یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ کتاب دل کش اور تہہ دار ہندوستانی تاریخ کا ایک تعارف ہے اور اس کو اسی نقطہ نظرسے پڑھنا چاہیے۔
تاریخ، اسلوب اور ہماری پہلی سیر
اگرآپ اس طویل تاریخ کے مختلف پہلوؤں سے پہلے ہی سے متعارف ہیں تو شاید اس میں آپ کےلیے، اسلوب کی جدت، اختصارکے حسن اور زبان کی سلاست کے علاوہ، بہت کچھ نہ ہو۔ ویسے، زاویہ والی بات تو آپ بھولے نہیں ہوں گے!اور اگرآپ ‘خوش قسمتی’سے ابھی تک انسانی تاریخ کے اس دل چسپ حصے سے کسی وجہ سے نامانوس ہیں تو پھر اس کتاب میں آپ کی دل چسپی اور معلومات دونوں کے لیے بہت کچھ ہے۔ خواہ اس کتاب سے آپ کے تعلق کی نوعیت جو بھی ہو ایک بات طے ہے کہ یہ کتاب قاری کے اندر اپنے موضوع سے دل چسپی پیداکردیتی ہے۔ کتاب ختم ہوتے ہوتے آپ ۵۰ لوگوں کے بارے میں ۱۰۰ فی صد جاننے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں۔
ہندوستان میں بدھ مت کی تاریخ سوالوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس عظیم سماجی اور فلسفیانہ تحریک کا زوال خود اس کی جنم بھومی میں کیسے ہوگیا جب کہ جنوب مشرقی ایشیا کے بہت سے ممالک میں یہ آج بھی بہت سی تبدیلیوں کے باوجود باقی ہے؟
اس سوال کا جواب، شاید، ہمیں اسی کتاب میں شنکر آچاریہ (۸) کو پڑھ کر ملے۔ فی الحال یہ اقتباس دیکھیے:
The Sanskrit roots of the word ’Buddha‘ mean ’someone who has woken up‘. In India, Buddhism seemed to sleep for centuries. It was only the anguished choice of one of modern India‘s founding figures that summoned the Buddha back to life. (p.7)
یعنی، سنسکرت میں ’بدھ‘کے معنی بیدار اور باشعورکے ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں اپنے زوال کے بعد بدھ مت پر صدیوں کے لیے نیند طاری ہوگئی۔ ہمارے دورمیں بدھ مت کو اس نیند سے بیدار کرکے نئی زندگی دینے کا سہرا جدید ہند کے معماروں میں سے ایک بھیم راؤ رامجی امبیڈکرکے سر جاتا ہے۔
عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں ہر علاقے کا ایک’سرپرست صوفی‘یا ’سرپرست صوفیہ‘ ہوتی ہے جو اس علاقے اور اس کے باشندوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ جدید ہندوستان میں بھی بڑے لوگوں، تنظیموں اور جماعتوں نے اپنی اپنی سہولت، ضرورت اور پسند کے مطابق قدیم تاریخ کے میوزیم سے کسی شخصیت کو اپنے لیے منتخب کرلیا ہے۔ کچھ نے گاندھی کو، کچھ نے بھگت سنگھ کو، کچھ اور نے ساور کرکو، مزید کچھ اور نے پیریار کو چنا ہے۔ امبیڈکر نے مہاتما بدھ کو چنا۔ ہندوستان میں یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ نہ ماضی حال کی ضرورتوں کو مایوس کرتا ہے اور نہ حال ماضی کو فراموش۔ یہ دل چسپ اور عجیب رشتہ ہندوستانی تاریخ کہلاتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2022