(فلسطین نے—جو ایک صدی سے زیادہ عرصے سے امن و استحکام کا خواہاں ہے—خلافتِ عثمانیہ کے 401سالہ دورِ حکومت میں امن کا سب سے طویل عرصہ دیکھا، یعنی 1516 میں یروشلم کی فتح سے لے کر 1917 میں برطانوی انتداب کے آغاز تک۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوا؟)
ایک ایسے وقت میں جب اسرائیل مسلسل غزہ پر بھاری بمباری کر رہا ہے اور مغربی کنارے پر وحشیانہ قبضہ کر رہا ہے اور خود اپنے ملک میں تفرقہ انگیز قوانین نافذ کر رہا ہے، دنیا بھر کے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ اس خطے کی تاریخ اتنی خوں ریز کیوں ہے؟ شاید اس کی وجہ تاریخ سے ناواقفیت ہے، یا مغربی میڈیا میں طویل عرصے سے جاری مہم، جو تاریخی پہلوؤں سے جان بوجھ کر چشم پوشی کرتی ہے۔
فلسطین کے لیے مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب 1918 میں سلطنت عثمانیہ نے مجبور ہوکر اس علاقے کو لیگ آف نیشنز کے حوالے کردیا، جس نے اسے انتداب کے طور پر برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ جیسا کہ بعد میں انکشاف ہوا، برطانیہ اور فرانسیسیوں کے عزائم کچھ اور تھے۔ پہلے ہی 1916 میں خفیہ طور پر سائکس پیکوٹ معاہدے (Sykes-Picot Agreement)پر دستخط کیے جاچکے تھے اور 1917 میں بالفور اعلامیے(Balfour Declaration) کا عوامی طور پر اعلان کردیا گیا۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کو معلوم ہے۔ تاہم اس سے پہلے جو تھا اس کے بارے میں لوگوں میں معلومات کا فقدان ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی مسلسل، 401 سالہ طویل حکم رانی–ایک ایسا دور تھا جو امن، ربط باہمی اور مقامی ثقافت کے فروغ سے عبارت تھا۔
عثمانیوں کے لیے فلسطین کی اہمیت اس کے تاریخی دارالحکومت یروشلم سے تھی جو مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین شہر ہے۔ عثمانی خاندان جو اسلامی خلافت پر فائز تھا، ان سرزمینوں کی دیکھ بھال کو ایک مقدس فریضہ سمجھتا تھا۔
تاہم اس نے، یروشلم کو دو دیگر ابراہیمی مذاہب کے لیے مقدس حیثیت کو جانتے ہوئے، کبھی بھی اس کی اس ہم آہنگی اور ربطِ باہمی کو خراب کرنے کی کوشش نہیں کی جو ارضِ مقدس میں آباد تینوں مذاہب کے پیروؤں کے درمیان موجود تھا۔
رام اللہ سے تعلق رکھنے والے فلسطینی وکیل، مصنف اور ایوارڈ یافتہ فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیم الحق کے شریک بانی رجا شحادة نے راقم السطور سے اس موضوع پر گفتگو کی۔
انھوں نے اپنے عثمانی چچا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عہدِ عثمانیہ کے فلسطین کے تاریخی منظر نامے میں جھانکنے کا فیصلہ کیا، شاید اس امید کے ساتھ کہ زخموں پر یادیں کا مرہم رکھا جاسکے۔ 1997 میں شائع ہونے والی اپنی ادبی کتاب ’A Rift in Time‘ [وقت میں شگاف] کے ذریعے انھوں نے عثمانی شناخت کو اجاگر کیا ہے اور قارئین کو اس عہ کی زندگی کے بارے میں گہری بصیرت فراہم کی ہے۔
’’عہدِ عثمانیہ کا فلسطین،فلسطین کی تاریخ اور شناخت کو سمجھنے کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب تینوں توحید پرست مذاہب بغیر کسی تصادم کے ایک ساتھ رہتے تھے۔‘‘
فلسطین میں عثمانیوں کی آمد
سولہویں صدی عیسوی میں جب عثمانی حکم راں سلیم اول نے، جسے ’سلیم دی ریزولوٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ان علاقوں کو فتح کیا جو اب جدید شام اور فلسطین پر مشتمل ہیں، تو بلاد شام (Levant) اس سے قبل بہت سی شورشوں کا سامنا کر چکا تھا۔
1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہونے سے پہلے یورپی صلیبی جنگجوؤں نے فلسطین پر بہت سے حملے کیے تھے اور مسلم آبادی کے ایک بڑے حصے کو تہہ تیغ کیا تھا۔
جنگ مرج دبیق کے بعد، جس میں سلطان سلیم نے مملوکوں سے یروشلم اور گردو نواح کے فلسطینی علاقوں کو فتح کیا تھا، اس تاریخی علاقے میں تعمیر نو کا عمل شروع ہوا۔ متعدد انتظامی صوبوں میں منقسم فلسطین نے اپنے متنوع معاشرے کے اتحاد اور ہم آہنگی کی وجہ سے استحکام کے 401 سالہ طویل عرصے کا مشاہدہ کیا۔
’عثمانی چچا‘کے ساتھ سفر
نجیب نصار، رجا شحادۃکے بڑے چچا، ایک عیسائی فلسطینی تھے جو 19 ویں صدی کے اواخر اور 20 ویں صدی کے اوائل میں فلسطین میں مقیم تھے یعنی برطانوی انتداب شروع ہونے سے ٹھیک پہلے۔ انھوں نے دیگر تمام شناختوں کو مسترد کر دیا تھا اور خود کو’عثمانی‘ کہتے تھے۔
شحادۃ کے بقول، ایک صدی بعد، نجیب کا سفر ہمیں اپنے تخیل کے ذریعے ’’کھلی سرحدوں کے ایک بہتر، پرامن عہد میں غاصب اسرائیل سے دور، موجودہ محدود حقیقت سے پرے لے جاتا ہے۔‘‘
چچا نجیب اپنے وطن میں عثمانیوں کی موجودگی کے کٹر حامی تھے، یہاں تک کہ تین سال یا اس سے زیادہ عرصہ انھوں نے پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شمولیت کی کھل کر مخالفت کی وجہ سے عثمانی فوجیوں سے بچنے بچانے میں صرف کیے۔ تاہم اس کے باوجود، وہ’عثمانیت‘ کے ساتھ اپنی وفاداری نبھانے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔
عثمانی شناخت کے ساتھ نجیب کی مضبوط وابستگی کی وجہ کیا تھی؟ اسے سمجھنے سے یہ نکتہ روشن ہوسکتا ہے کہ عہدِ عثمانیہ کے فلسطین میں متنوع برادریوں جذبات کیوں مشترک تھے۔
ایک شفیق ریاست
فلسطین کی کثیر مذہبی آبادی کے لیے ہم آہنگی کو برقرار رکھنا سلطنت عثمانیہ کے اس عزم کا نتیجہ تھا کہ وہ خطے میں نوآبادیات قائم نہیں کرے گا۔
شحادۃ نے اپنی کتاب میں اپنے چچا کا قول نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’عثمانیوں کو اصلاحات کی ضرورت ہو سکتی تھی، لیکن انجام کار یہ وہ کثیر نسلی حکومت تھی جس نے کبھی اس خطے کو نوآبادیاتی بنانے کی کوشش نہیں کی۔‘‘
یہ بقائے باہمی عثمانی انتظامی میکانزم سے پیدا ہوئی جسے ’باجرا نظام‘ (millet system)کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے تاریخ دان اور استنبول تکریت یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر میم کمال اوکی (Mim Kemal Oke) نے بجا طور پر معاشرتی ہم آہنگی کا ’طلسم‘قرار دیا ہے۔
اصطلاح ’باجرا‘ کا استعمال، جس کی تعریف عام طور پر ’مذہبی برادری‘ کے طور پر کی جاتی ہے، عثمانیوں نے غیر مسلم مذہبی برادریوں کی نمائندگی کے لیے کیا تھا۔
مرکزی اتھارٹی نے اقلیتی گروہوں کی ان کے نسلی پس منظر کی بنیاد پر درجہ بندی نہیں کی، بلکہ انھیں ان کی مذہبی وابستگیوں کے مطابق منظم کیا تھا۔ ان مذہبی برادریوں کے رہ نماؤں کے ساتھ مذاکرات کے ایک منظم سلسلے کے ذریعے باجرا کا نظام غیر علاقائی خودمختاری کی ایک کام یاب مثال کے طور پر ابھرا۔
پروفیسر اوکی نے بتایا کہ سلطنت نے ایک ہی حکومت کے تحت مختلف مذہبی اقلیتی گروہوں پر حکم رانی کی اور ان کے درمیان مصالحتی کردار ادا کیا۔ یہ ریاست کی مشفقانہ و پدرانہ اصولِ حکم رانی کا فطری نتیجہ تھا، جو مختلف گروہوں کے مابین تعاملات کی نگرانی اور رابطہ کاری کرتا تھا۔
مرکزی اتھارٹی نے عیسائیوں میں یونانی آرتھوڈوکس، آرمینیائی، کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں جیسے مختلف مذہبی گروہوں کو تسلیم کیا، انھیں اپنے رہ نماؤں کی تقرری، اپنے اندرونی معاملات کا انتظام کرنے، اپنی زبان کے تحفظ و سلامتی، آزاد عدلیہ کو برقرار رکھنے اور مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی آزادی دی۔ ان برادریوں کے ارکان اکثر حکومت میں نمایاں کردار ادا کرتے تھے اور مختلف معاشی اور پیشہ ورانہ کوششوں کو آگے بڑھاتے تھے۔
مورخ بشارة دوماني (Beshara B. Doumani) لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی کے اواخر تک فلسطین کے عوام اپنے فیصلوں میں بے حد خود مختار اور آزاد تھے۔ عہدعثمانیہ کا سورج غروب ہونے کے وقت، 1917 کے بالفور اعلامیہ کی رو سے یہودیوں کو تو ’قومی وطن‘ کے قیام کے لیے خصوصی سیاسی استحقاق دیے گئے۔ تاہم، غیر یہودیوں کو، جو اس وقت آبادی کے 90 فیصد پر مشتمل تھے، محض شہری و مذہبی حقوق کی یقین دہانی کرائی گئی۔
تنوع اور رنگارنگی
عہدِ عثمانیہ کے فلسطین میں اقلیتی برادریوں کی خود مختاری کے تاریخی اثرات ممکنہ طور پر خطے کی تاریخ کی تشریح کرنے کے طریقے کو تبدیل کرسکتے ہیں، جس میں یکسانیت کے بجائے تنوع پر زور دیا جاتا ہے۔
پروفیسر دومانی کہتے ہیں کہ سیکڑوں سال تک عہدِ عثمانیہ میں فلسطینی سرزمین کو ’’ہر گاؤں، قصبے اور شہر اور بڑے پیمانے پر دیہاتوں اور پورے خطوں کے گروپوں کو علیحدہ ثقافتی ذائقہ، اسطور اور تاریخی یادیں فراہم کیں۔‘‘
نجيب نصار کی طرح سلطنت کی رعایا کا وسیع تر تنوع بھی اپنے ثقافتی ورثے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا، جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ ان کے لیے ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری برقرار رکھنا آسان ہو گیا تھا۔
فلسطینی ورثے پر ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف رجا نے نجیب کی یادوں پر اپنی تحقیق کے دوران جو پایا وہ یہ تھا کہ ان کے چچا کے ہم عصروں میں بھی عیسائی شناخت مضبوط تھی۔ انھوں نے عیسائی اور عثمانی ہونے کے درمیان کوئی تضاد نہیں پایا اور محسوس کیا کہ انھیں ان کے حقوق میں اور اپنے مذہب پر عمل کرنے میں پوری آزادی حاصل تھی۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے تھے کہ وہ بغیر کسی روک ٹوک کے سیاسی زندگی میں عیسائیوں کی حیثیت سے حصہ لے سکتے تھے۔
ابراہیمی اتحاد
دوسری طرف فلسطین کی مسلم آبادی بنیادی طور پر استنبول میں مرکزی اتھارٹی کے ساتھ اپنی وفاداری کی کا دم بھرتی تھی، یہ دیکھتے ہوئے کہ عثمانی سلطان دنیا بھر میں ملت اسلامیہ کے سربراہ اور خلیفہ کا کردار ادا کرتا تھا۔ پروفیسر اوک کے مطابق وہ خود کو صرف سلطنت کی رعایا کے بجائے شہری سمجھتے تھے اور یہ وسیع عثمانی شناخت تنگ نسلی وابستگیوں پر مقدم تھی۔
خطے کی مختلف خصوصیات کی طرح، یہ صورت حال بھی انیسویں صدی میں دنیا کے دوسرے حصوں میں قوم پرستی کے عروج سے متاثر ہوکر تبدیلیوں سے گزر رہی تھی۔ اس کے بعد بیسویں صدی میں عثمانی علاقوں میں عرب قوم پرستی کا ظہور ہوا۔
رام اللہ کے اس مصنف نے لکھا ہے کہ آج، ہر مذہبی گروہ پر لاگو منفرد قوانین دینے کا عثمانی طرزِ عمل اب بھی مشرق وسطی کے بیشتر ممالک میں اپنایا جاتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا ہے کہ ’’اس کے باوجود عثمانی دور میں جس قسم اور جس حد تک ہم آہنگی موجود تھی وہ اب ممکن نہیں ہے، جس کی بنیادی وجہ وہ مذہبی سیاست ہے، جو اس وقت نہیں تھی۔‘‘
یروشلم کے پرانے شہر کے جافا گیٹ پر ایک کتبے پر آج بھی اس ہم آہنگی کی تحریر نقش ہے، جسے سلیمان اول نے—جسے ’سلیمان اعظم‘کے نام سے جانا جاتا ہے— وہاں کندہ کرائی تھی۔ اس میں لکھا ہے: لاالہ الا اللہ ابراھیم خلیل اللہ ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ابراہیم اس کا دوست ہے۔‘‘ یہ تحریر تینوں ابراہیمی مذاہب پیروؤں کو متحد کرنے کا کام کرتی ہے، کیوں کہ وہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک برگزیدہ ہستی کے طور پر احترام کرتے ہیں۔
شحادۃ کے نزدیک آج کے مقبوضہ فلسطین کے تناظر میں تاریخی حقائق کا مطلب یہ ہے کہ ’’آج بھی لوگ عہدِ عثمانیہ کو کسک اور تڑپ کے ساتھ یادکرتے ہیں جب ریاستوں کے درمیان وہ سرحدیں اور دیواریں نہیں ہوا کرتی تھیں، جنھیں پہلی جنگ عظیم کے بعد مغربی استعمار اور غاصب ریاست نے کھڑا کردیا ہے۔‘‘ n
(بشکریہ ٹی آرٹی ورلڈ)
مشمولہ: شمارہ جنوری 2024