آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی بات ہے، میرے بزرگوں نے مجھے بتایا:
یہ سن۱۸۳۱ء کی بات ہے۔ ایک روز صبح کے وقت شام کے بڑے شہر دمشق میں شور مچا کہ ابراہیم پاشا شام کے مشہور عالمِ دین شیخ سعید حلبی کی مسجد میں ان سے ملنے جانے والا ہے۔
وہی ابراہیم پاشا ، جو اپنے ظلم و ستم اور دہشت وبربریّت کے لیے بے حد مشہور تھا۔
وہی ابراہیم پاشا جس کی نگاہ اور زبان کی حرکت سے پہلے اس کا ہاتھ اس کی تلوار کی طرف بڑھتا تھا۔
وہی ابراہیم پاشا ،شام پر پر قہر ڈھانے والا ، اور شام پرتانا شاہی کرنے والا تھا۔
اس خبر کا پھیلناتھا کہ شہروالوں کے ہوش اڑ گئے۔ لوگ چکر میں پڑ گئے۔آپس میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ آخر کریں تو کیا کریں؟کیونکہ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ شیخ سعید کسی دنیا پرست کو ذرّہ برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔
وہ بادشاہت کی بنا پر کسی بادشاہ کی تعظیم نہیں کرتے۔
وہ مالداری کی بنا پر کسی مال دار کا احترام نہیں کرتے۔
وہ لوگوں کو ان کے(زرق برق) لباسوں سے نہیں ناپتے۔
وہ لوگوں کو ان کے مال سے بھری ہوئی تجوریوں سے بھی نہیں ناپتے۔
وہ لوگوں کوسرکاری املاک سے لوٹ کھسوٹ کر کے ملنے والی تنخواہوں سے بھی نہیں ناپتے۔
وہ تو لوگوں کو اس بات سے ناپتے ہیں کہ ان کے یہاں اخلاق کی بلندی ہے یا نہیں،ان کے دلوں میں ایمان کی حرارت ہے یا نہیں، ان کے سروں میں علم وآگہی ہے یا نہیں۔
لوگ باہر سے دیکھتے ہیں توانھیں ڈھول بھاری بھرکم اور بڑے بڑے نظر آتے ہیں۔ جبکہ شیخ سعید اندر سے جھانک کر دیکھتے ہیں تو انھیں یہ ڈھول کھوکھلے اور بے وزن نظر آتے ہیں۔
لوگوں کوبے چینی تھی کہ شیخ کا یہ بے لاگ رویّہ پاشا کے لیے باعثِ اذیّت ثابت ہوگا۔ اس لیے وہ پاشا سے مل کر وہاں نہ جانے کی درخواست کرنا چاہتے تھے۔ لیکن اس سے ملیں تو کیسے ملیں۔ وہ تو محل میں رہتا ہے۔ اس کے ارد گرد مسلح سپاہیوں کا سخت پہرا رہتا ہے۔ اس کے آس پاس پھٹکنا ایک نہیں، سیکڑوں موتوںکو دعوت دینا ہے۔ موت جو اس کے محل کی محافظ اور اس کے دروازوں کی پہرہ دار ہے۔
لوگوں کے سامنے دوسرا راستہ یہ تھا کہ شیخ سعید سے جاکر ملیں، انہیں نرمی اورمداہنت کا مشورہ دیں۔ لیکن شیخ تو سَو جابر بادشاہوں سے بھی کہیں زیادہ بلند تر تھے۔ہیبت وعظمت ان کی محافظ تھی۔ تقویٰ ان کی مضبوط ڈھال تھی۔ فرشتے ان پر رحمت وحفاظت کے پَر بچھائے رہتے۔
لوگوں کو اس بات کا ذرا بھی اندیشہ نہ تھا کہ شیخ کو کوئی تکلیف پہنچے گی۔ ان کے دل ودماغ میں شیخ کی عظمت وجلال کا سکّہ بیٹھا ہوا تھا۔وہ شیخ پر جان چھڑکنے کو تیار تھے۔ ہاں انھیں اس بات کا ضرور خدشہ تھا کہ کہیں شیخ،پاشا کے لیے قیامت نہ بن جائیں اور پاشا لوگوں کے لیے موت کا پروانہ نہ بن جائے۔
غرض لوگ اندیشوں کا بوجھ اٹھائے پاشا کا پرجوش استقبال کرنے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہوگئے۔
وہ ایک بڑے جابر کی گزرگاہ سجانے اور سنوارنے کے لیے استقبالیہ محراب تیار کرنے اور پرچم لہرانے میں لگ گئے۔ اس پر پھولوں کی بارش کرنے کے لیے ’غوطہ‘ کے (چمن زاروں) سے عمدہ سے عمدہ پھول چننے لگے۔۔۔ شام ہوتے ہوتے ساری تیاریاں مکمل ہوگئیں۔
اب ابراہیم پاشا کی آمد کا بس انتظار تھا۔
لیجیے، یہ دیکھیے، ابراہیم پاشا آگیا۔
ابراہیم پاشا پرشوکت قافلے، سپاہیوں، اسلحوں اور قدموں کی چاپ کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔۔۔ یہاں تک کہ مسجد کے دروازے تک آپہنچتا ہے۔ دروازہ چھوٹا ہے۔ پاشا کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے۔ گویا وہ اس سے کہہ رہا ہوتا ہے: اے پاشا یہاں سے واپس لوٹ جا ،یا پھر اپنی دنیا کو پیچھے چھوڑ آ، کیونکہ تو خدا کے دربار میں ایک عاجز وتابع انسان کی حیثیت سے داخل ہورہا ہے، اور اگر تو خدائی کا جھوٹا دعویدار بن کر ہزار بندوں اور ہزار کپڑوں کے ساتھ داخل ہونا چاہتا ہے تو ایسا ناممکن ہے!کیونکہ توحید و مساوات پر قائم نبوّت کی میراث کبھی شرک اوربھید بھاؤ پر مبنی جاہلیّت کے رسم ورواج کے ساتھ یکجا نہیں ہوسکتی، کسی ایک کومٹنا ہوگا۔
راوی بیان کرتے ہیں؛ پاشا نے چند لمحے رک کو سوچا، پھر اپنے حواریوں کو دور ہٹا دیا اور ننگے پاؤں تنِ تنہا مسجد میں داخل ہوا۔ چٹائی پر گدا بچھا ہوا تھا،اور شیخ سعید اس پر پاؤں پھیلائے بیٹھے ہوئے تھے۔اور وعظ فرمارہے تھے؛
جب آدمی صحیح معنوں میں خدا سے ڈرتا ہے تو ساری چیزیں اس سے ڈرتی ہیں۔کیونکہ اللہ اکبر، ہاںاللہ اکبر کا کلمہ ہر بڑی چیز کو اس کے نزدیک چھوٹا بنا دیتا ہے۔ یقیناً اس کلمہ کے اندر خدائی راز پوشیدہ ہے۔ لیکن مسلمانوں کے یہاں آج یہ کلمہ بے معنی اور اجنبی سا بن کر رہ گیا ہے۔ معنی سے خالی،مطلب سے دور وہ محض اس کے الفاظ دہرارہے ہیں۔اللہ نے ایک مسلمان پر یہ نہیں فرض کیا ہے کہ وہ اپنی نمازوں میں کم سے کم پچاسی بار اس کلمہ کو دہرائے اور کم از کم تیس مرتبہ مسجد کے مناروں سے اسے سنے۔ نہیں، بلکہ اسے جاننا چاہیے کہ دنیا میں خدا سے بڑھ کر کوئی نہیں ہے۔ اسے جاننا چاہیے کہ جو اللہ کے ساتھ رہتا ہے اسے کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔نہ بادشاہ کی، نہ بیماری کی، نہ دہشت وخوف کی۔ اگر ایک مسلمان اس کلمہ کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی معنویت کو سمجھ لے تو ذلت ورسوائی کا کوئی امکان نہیں،ڈر اور بزدلی کا کوئی نام نہیں، سستی اور کاہلی سے دوردور کا کوئی واسطہ نہیں۔
حلقہ درس سے ایک شخص کی آواز آتی ہے:
معزّز شیخ! چاہے بادشاہ اسے قتل کردے یا بیماری اسے ہلاک کردے تب بھی وہ نہیں ڈرے گا؟
شیخ: سبحان اللہ! کیا ایک مسلمان قتل ہونے سے ڈرجاتا ہے؟ کیا ایک مسلمان موت کو ناپسند کرتا ہے؟
بلاشبہ موت گراں گزرتی ہے۔ کیونکہ دنیا میں جینے والے اور دنیا کی لذّتوں سے لطف اندوز ہونے والے کافر کے نزدیک موت کی وجہ سے لذّتیں لٹ جاتی ہیں۔ دنیا برباد ہوجاتی ہے۔رہا وہ شخص جو دنیا میں رہ کر ابدی زندگی کی تیاری کررہا ہو، جو دنیا میں اس طرح رہ رہا ہو جس طرح کسی سفر پر نکلنے والا سفر کی تیاری میں ہمہ تن مصروف ہو، جو اپنے ایک ایک پل کا اس طرح منتظر ہو جس طرح ایک مسافر ٹرین کے وقت کا منتظر رہتا ہے، جو اس انتظار میں بیٹھا ہو کہ کب دنیا سے رخصت ہو اور اپنے رب سے جاملے۔ ایسے شخص کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی اپنے وطن واپس لَوٹ رہا ہو تاکہ (جلد سے جلد) اپنے گھر والوں اور اپنے دوست واحباب سے ملاقات کرے۔۔۔ جس کی یہ شان ہو وہ موت کو موت نہیں سمجھتا بلکہ موت کے اندر ایک نئی زندگی اور زندگی کا نیا آغاز دیکھتا ہے۔ہم نے اپنے بزرگوں کی اس بات کو محفوظ کرلیا ہے کہ: ’’افضل ترین شہید وہ ہے جو ایک ظالم وجابر حاکم کے سامنے حق بات کہنے کے جرم میں قتل کردیاجائے۔‘‘
پاشا گھمنڈ اور تکبر سے بھرے انداز میں حلقہ درس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ شیخ سعید نے اسے دیکھا مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ انھیںذرامحسوس نہیں ہوا کہ انھوں نے عام آدمی سے زیادہ اس کے اندر کچھ دیکھا ہو۔جس طرح دوسروں سے کہتے اسی طرح اس سے اشارہ کرکے کہا:بیٹھ جاؤ۔ پاشا نے ضبط کرلیا اور مجبوراً بیٹھ گیا۔۔۔وہ اب حاضرین کے چہروں کو ٹٹول رہا تھا۔ ان کے اندر وہ چیز ڈھونڈ رہا تھا جو ان کے یہاںتھی ہی نہیں۔اس کی تعظیم ۔ وہ تعظیم جسے وہ ہمیشہ اپنے ارد گرد دیکھنے کا عادی تھا۔ وہ منتظر تھا کہ لوگ اس کے احترام میں کھڑے ہوں گے، اس کے سامنے صف لگائیں گے۔ لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ اس قوم کی اپنی الگ ہی دنیا ہے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ شیخ سعید نے انھیں بلندی کی چوٹی تک پہنچادیا ہے۔ انھیں اس قدر بلند کردیاہے کہ وہ دنیا کو جہاز کی کھڑکیوں سے یا بادل کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھتے تو انھیں پوری زمین پرندے کے گھونسلے جیسی نظر آتی۔ انھیں پاشا کے اندر ایک چیونٹی سے زیادہ کوئی چیز نظر نہیں آرہی تھی۔۔۔ تو بتاؤ کون ہے جو چیونٹی کے لیے جشن منائے؟
پاشا جب اپنی نگاہ حاضرینِ مجلس پر دوڑاتا تو گھوم پھر کر اس کی نگاہ شیخ کے پاؤںپرجا پڑتی۔وہ پاؤں پر جو اس کی طرف پھیلے ہوئے تھے۔انہیں دیکھ کر اس کی بڑائی اور بادشاہت آگ بگولہ ہورہی تھی۔ اس نے ان کے پاؤں میں عجیب بات دیکھی ،ان میں اس کی عظمت جیسی عظمت اور اس کے جلال جیسا جلال نظر آرہا تھا۔پاؤںپھیلانے کا یہ انداز اس کے اقتدار کا مذاق اڑارہا تھا۔ وہ پیر اس کی آنکھ میں تنکے کی طرح چبھ رہا تھا۔اس نے یوں محسوس کیا کہ گویا وہ شہتیر بن کر اس کی آنکھوں میں گھس گیا ہے۔ وہ حاضرین کو دیکھتا ، کیا کوئی ہے جو ان میں سے اپنی تلوار نکالے اوروہ پاؤںقلم کرکے پاشا کے مقرّبین میں شامل ہوجائے؟
پاشا یہ سب کچھ اپنی بصارت کی اس مادّی آنکھ سے دیکھ رہا تھا جس نے اس کی معنوی بصیرت کی آنکھ پر پٹّی باندھ رکھی تھی۔وہ اپنے محل اور تخت کا موازنہ شیخ کے مکان اور ان کی چٹائی سے کررہا تھا۔ وہ اپنے لاؤ لشکر کا مقابلہ شیخ کے شاگردوں سے کررہا تھا۔ اسے یقین تھا کہ شیخ کی ساری دنیا اس کی تلوار کے سامنے پل بھر بھی نہ ٹک سکے گی، وہ تلوار جس کے سامنے خلیفہ عثمانی کی دنیا بھی نہ ٹک سکی تھی۔۔۔ وہ خود کو شیر سمجھ رہاتھا ،مگر اس کی مثال اس نادان شیر جیسی تھی،جس کے بارے میں لوگوںمیں مشہور ہے کہ ایک بار اس کا گزر راستے میں پڑے ایک تباہ کن بم کے پاس سے ہوا۔۔۔ بم دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا۔ اسے حقیر سمجھ کر بولا:ہائے تمہاری بے بسی اور ذلت وپستی! تمہارے دانت کہاں ہیں؟ تمہارے پنجے کہاں ہیں؟ بتاؤ تو سہی، کہاں ہیں؟ ہائے رے ذلت، جس پر مسلط ہوتی ہے اس کا کیا حال کردیتی ہے! پھر اس نے اپنے پیر سے بم کو ٹھوکر ماری ا اور بم پھٹ پڑا!
مگر یہاں تو شیخ کے منھ سے نکلنے والے الفاظ اس کے دل ودماغ میں بم کی طرح زیروزبر کررہے تھے!
شیخ گویا ہوئے: انسان کی تخلیق میں اللہ کی عجیب وغریب کاریگری نظرآتی ہے۔عام حیوان کی طرح اسے بھی ایک حیوان بنایا ہے۔ لیکن اس کے اندر ایک فرشتہ اورایک شیطان بھی رکھ دیا۔ لہذا جس کا مقصد دنیا سے صرف اپنے پیٹ اور شرمگاہ کی لذّت سمیٹنا ہو، اسے حلال طریقے سے حاصل کرنے کی تگ ودو میں لگا ہو، اس کے علاوہ اسے کچھ خبر نہ ہو تو (جان لو) وہ نِرا جانور ہے۔وہ گدھے کی طرح چرے گا اور گدھے کی طرح اپنی خواہشات پوری کرے گا۔ اور جس کا مقصد حلال وحرام طریقے سے لذّت اندوزی ہو، جو گناہوں کا ارتکاب کرکے بھی بے فکر ہو تو (سمجھ جاؤ) وہ نرا شیطان ہے۔ بچھو اور کنکھجورا بھی اس سے کہیں بہتر ہیں۔ کیونکہ ان دونوں کا انجام مٹی میں مل کر سڑ گل جانا ہے جبکہ شیطان صفت انسان کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اور جس کا مقصد یہ ہو کہ وہ اس دنیا میں اس طرح زندگی گزارے گا جس طرح وہ کسی درس گاہ میں رہ رہا ہو تاکہ حصولِ کمال کے طور طریقے سیکھے اور باکمال طریقے کی زندگی جی سکے تو (یقین جانو) وہ حقیقی انسان ہے۔ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ کی حیرت انگیز خلّاقیت کارفرماہے۔ اللہ نے اس کے اندر ایک فرشتہ رکھ دیا ہے۔ وہ خواہ کتناہی بھٹکا ہو، فاسق ہو، ظالم ہو۔فرشتہ اسے بیدار رکھنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ تاکہ وہ شیطان کوبھگاتا رہے اوراپنی حیوانیت کو لگام دے سکے۔ایسی صورتِ حال میں تم اسے وعظ نہیں کرتے بلکہ خود اس کا نفس اس کے لیے واعظ بن جاتا ہے۔
اس کا اجر وثواب جنت میں ملنے والا ہے۔اور جنت محض آرزو اورتمناسے ملنے والی چیز نہیں ہے۔ جنت تو جہدِ مسلسل اور عملِ صالح سے حاصل کی جانے والی چیز ہے۔
بتاؤ تو ذرا! اگر ایک طالبِ علم نے اپنا پورا سال کھیل تماشے میں گزاردیا ہوپھر وہ کامیابی کی تمنا کرے تو کیا وہ کامیاب ہوسکتا ہے؟ اگر ایک شکاری اپنی بندوق پھینک دے، اسے نہ چلائے،جال ڈال دے، اسے زمین میں پیوست نہ کرے، پھر وہ شکار کا خواب دیکھے تو کیا اس کے خواب ہرن کا پیچھا کرکے اسے دبوچ کر اس کے قدموں میں ڈال دیں گے؟کیا مچھلی خود بخود اس کے پاس آجائے گی؟کیا اس کی پیٹھ پر نمک اور مرچ ہوگا اور وہ اس سے کہے گی کہ آمجھے کھالے؟۔۔۔
ایک شخص: میرے محترم شیخ! مگر جب دل سخت ہو جائیں تو اس کا علاج کیا ہے؟
شیخ: شیطان انسان کو یہ احساس دلا کر اس کے اوپرمسلط ہوتا ہے کہ وہ کمال کے مرتبہ کو پہونچ چکا ہے۔اس لیے تم اپنے نفس کو کمی اور کوتاہی کا احساس دلاتے رہو۔ صحت کی حالت میں بیماری لاحق ہونے اور اور زندگی میں موت آنے کی یاددہانی کراؤ۔ ہم نے اپنے ایسے بزرگ بھی دیکھے کہ جب وہ دل میں سختی محسوس کرتے تو دل کی اصلاح کے لیے یا تو اسپتال کا رخ کرتے یا پھر قبرستان کا۔ وہ اپنے نفس کو بیماری سے ڈراتے، اوراسے موت کی یاد دلاتے۔ مومن جب تک خوف وامید کی حالت میں جیتا ہے تب تک وہ خیر وعافیت کی دولت سے مالامال رہتا ہے۔ مگر جب وہ ڈرنا چھوڑدیتا ہے اور امید توڑ لیتا ہے تو پھر خواہشِ نفس کے پیچھے چل پڑتاہے۔
ہم نے سنا ہے کہ بعض بزرگوں کا حال یہ تھا کہ اپنا ہاتھ چراغ کے قریب کرتے اور کہتے: اے نفس! تیری شامت آئی ہے، اگر تو اس آگ کی لَو برداشت نہیں کرسکتا ،تو بتا جہنم کی آگ کیسے جھیلے گا؟
مومن کے دل میں تو جب کبھی نفسانی خواہش بھڑکتی ہے تو وہ اسے جنت کی نہروں سے بجھا دیتا ہے یا جہنم کی آگ سے جلا دیتا ہے اور اس سے نجات پالیتا ہے۔۔۔ اگر عقل نہ ہو تو انسان انسان کہاں رہ جاتا ہے؟ اور عقل کے ساتھ ایمان نہ ہو تو پھر وہ عقل ہی کہاں رہ جاتی ہے؟
ایسا انسان اس کے سوا کیا رہ جاتا ہے کہ پیدائش سے پہلے حقیر سا نطفہ اور مرجانے کے بعد سڑی ہوئی لاش۔ یقیناً بادشاہت کا ایک نشہ ہوتا ہے، اس لیے لوگوں کے او پراقتدار کا نشہ جسے مدہوش کرنے لگے ،اسے خدا کے مقابلے میں اپنی ناتوانی اور بے بسی یادکرنی چاہیے۔ اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ نے مچھر جیسی کمزور مخلوق کے ذریعے نمرود جیسے طاقتور بادشاہ کو ہلاک کردیا تھا۔ہائے انسان تیری ابتدا مٹی سے ہوئی ہے اور یاد رکھ تیری انتہا بھی مٹی ہی ہوگی!
شیخ گفتگو فرمارہے تھے اور پاشا محسوس کررہا تھا کہ گویا وہ کسی صندوق میں قید تھااور اب وہ اپنی آنکھیں کھول رہا ہے اور صاف ستھری آزادہوا میں سانس لے رہا ہے۔یا اسے یوں لگ رہا تھا کہ گویا وہ پہلے کسی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جی رہا تھا اور اچانک شیخ سعید اس کے لیے روشن سورج بن کر نمودار ہوئے۔جس کے سامنے وہ پھیکا پڑرہاہے۔ اسے اپنی کم مائیگی کا احساس ہورہاہے۔اس کے اعضاء ڈھیلے پڑرہے ہیں۔ وہ گھٹنے کے بل بیٹھ جاتا ہے۔تمام لوگوں کے سامنے وہ خود کو حقیر پاتا ہے۔کیونکہ وہ سب اس کے بالمقابل شیخ سے زیادہ قریب اور جڑے ہوئے ہیں۔ اب اس کے لیے شیخ کو دیکھنا پریشان کن نہ تھا۔ حالانکہ شیخ ابھی بھی اپنے پاؤں پھیلائے بیٹھے تھے۔۔۔ اب وہ خود کو ڈوبتا ہوا دیکھ رہا تھا اور شیخ کے پاؤں کو نجات کا سہارا سمجھ رہا تھا۔شیخ کا پاؤں اسے بہت بلند نظر آرہا تھا،اتنا بلند کہ جیسے آسمان کی بلندیوں میں منڈلاتا ہوا شاہین کا بازو ہوتا ہے۔ اب تو شیخ کے پاؤں میں اسے کوئی بھی ناگوار چیز نظر نہیں آرہی تھی۔یقیناً شیخ سعید نے اس کی فکر ونظر کو یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔اب پاشا کو شیخ کے پیکر میں ایک بلند خیال دکھائی دے رہا تھا۔ایک حقیقت جس نے انسان کی صورت اختیار کرلی تھی۔
راوی بیان کرتے ہیں؛’’پاشا نے مجلس سے لوٹنے کے بعد اپنے کارندے کے ہاتھ ایک ہزار خالص سونے کی اشرفیوں سے بھری تھیلی شیخ کی خدمت میںبھیجی۔ اس کاکارندہ آیا، اور ان کے سامنے تھیلی رکھ دی، شیخ نے مسکراتے ہوئے تھیلی اسے واپس کردی۔ اورکہا: جاکر اپنے آقا کو میرا سلام کہنا اور کہہ دینا: جواپنے پاؤں پھیلاتا ہے وہ اپنا ہاتھ نہیں پھیلاتا ہے‘‘۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2019