(ہندوستان کے حالیہ واقعات میں مسلم خواتین نے جس طرح ایک خالص ملی مسئلے کے لیے اپنی اقدامی اور مزاحمتی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے، اس کے بعد اسلامی تحریک میں اس بحث کو چھیڑنا ضروری ہوگیا ہے کہ کس طرح اسلامی تحریک میں عورتوں کی فعال شرکت کو یقینی بنایا جائے، کہ یہ تحریک پورے معاشرےیعنی مردوں اور عورتوں کی یکساں طور پرترجمان بنے؟ اس سلسلے میں ماہ نامہ زندگی نو کےصفحات آپ کی تجاویز کا استقبال کریں گے۔ادارہ)
ہندوستان میں اسلامی تحریک کے عین آغاز میں بانی تحریک مولانا ابوالاعلی مودودی ؒ نے تحریک اسلامی میں خواتین کی شرکت کی اہمیت کا مکمل اعتراف کرتے ہوئے ایک محتاط آغاز کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں:
فی الواقع ہمارے لیے یہ سوال بہت اہم ہے کہ عورتوں کو کس طرح اپنے ساتھ لیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب تک عورتیں ہمارے ساتھ نہ ہوں پچاس فیصدی آبادی مستقل طور پر ہم سے غیر متعلق رہے گی۔ اور وہ پچاس فیصدی آبادی بھی وہ ہوگی جس کی گود میں بقیہ پچاس فیصدی آبادی تیار ہوتی ہے۔ لہذا ہماری تحریک کی ترقی کے لیے عورتوں کا اس میں شامل ہونا اتنا ہی ضروری ہے جتنا مردوںکا شامل ہونا۔ لیکن ہمارے لیے یہ کام اتنا سہل نہیں ہے جتنا دوسری تحریکوں کے لیے ہے۔ دوسری تحریکیں تو عورتوں کو آزادی کا سبق پڑھاکر گھروں سے باہر نکال لاتی ہیں، اور انھیں مردوں کے دوش بدوش دوڑ دھوپ کے لیے تیار کرلیتی ہیں، لیکن ہمیں جو کچھ کرنا ہے اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے ان حدود کے اندر کرنا ہے جو شریعت نے مقرر کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کو بحالت موجودہ اس معاملہ میں مشکلات سے سابقہ پیش آرہا ہے۔سردست میرے نزدیک عورتوں میں اس تحریک کو پھیلانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ ہمارے رفقاء اور ہمدرد خود اپنی ماؤں اور بہنوں ، بیٹیوں اور اپنے خاندان کی دوسری خواتین میں اپنے خیالات پھیلائیں، اپنے عملی اخلاق سے ان کو متاثر کریں۔ ان میں جو تعلیم یافتہ ہوں ان کو لٹریچر پڑھوائیں، اور جو تعلیم یافتہ نہ ہوں ان کو خود تعلیم دیں۔ اس طرح جب ایک کافی مدت تک کوشش کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں جب عورتوں کی ایک کافی تعداد ہماری ہم خیال بن جائے گی تب یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ خود عورتوں میں ایسی کارکن خواتین ہمیں مل جائیں جو دوسرے گھروں تک ہمارے خیالات اور اخلاقی اثرات پھیلاسکیں۔ (روداد حصہ سوم ص ۱۵۱)
عالمی سطح پراسلامی تحریکات پر تقریباکئی دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اسلامی تحریک کے عالمی مفکر علامہ راشد غنوشی اس پر شدیدفکر مندی کاا ظہار کرتے ہیں کہ طبقہ نسواں سے اسلامی تحریک کی دوری کم نہیں ہوتی، ان کے الفاظ میں:
معاشروں کے مستقبل پرمعاشرے کے نسائی طبقے کی اثر اندازی کی اہمیت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے، یہ جان لینا کافی ہے کہ کم از کم آدھا معاشرہ عورتوں سے بنتا ہے، اور دوسرا آدھا ان کی گود میں پرورش پاتا ہے، اس سے ہم اس طبقے کی بے انتہا اہمیت کا ادراک کرسکتے ہیں ، جس کےساتھ اسلام پسندوں کا تعلق بہت محدود ہے، اس وجہ سے کہ انھیں اس کا شعور نہیں ہے کہ زوال کی طویل صدیوں کے دوران عورتیں کس کس طرح کے مظالم اور اہانتوں سے دوچار ہوئیں اور ابھی تک دوچار ہیں، ان کے انسانی آفاق کو اور زندگی اور تہذیب میں ان کے کردار کو تنگ کردیا گیا، ان کی شخصیت کو کچل ڈالا گیا اور انھیں ایک چیز ، محض ایک سامان میں بدل کر رکھ دیا گیا۔ یہ سب اسلام کے نام سے ہوا، جب کہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔پھر جب مغرب کی یلغار آئی ،ہماری ہر طرح کی قدروں کو تباہ کرتے ہوئے، اور ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو زمین بوس کرتے ہوئے، اور آزادی ترقی اور مساوات جیسی پرکشش قدروں کی علم بردار بن کر، تو یہ فطری بات تھی کہ عورت (جو طرح طرح کے مظالم کے نیچے دبی کراہ رہی تھی) مغرب کی دل فریبیوں سے متاثر ہو، اورگویا کہ ان مظالم کے لیے وجہ جواز وہ اسلام میں پاتی ہے ، کھوٹ والے اسلام میں، خاص طور سے جب کہ مذہبی شخصیات کی ان مظالم کے سلسلے میں خاموشی بھی سامنےہو، اور یہ بھی فطری بات تھی کہ ان فرسودہ شکلوں کے خلاف بغاوت اسلام کے باہر سے ہو، اور جنگ کا رخ اسلام ہی کی طرف پھیر دیا جائے، اور عورت کے ذہن میں یہ بٹھادیا جائے کہ اس کے لیے اسلام کا مطلب محض حجاب ہے، اور حجاب کا مطلب ہے گھر بیٹھنا اور مرد کا سامان بن کر جینا، اس لیے نہ علم ، نہ آزادی ، اور نہ ہی ملک اور انسانیت کے مستقبل کی تعمیر میں کوئی حصہ داری، جس کامطلب یہ ہے کہ آزادی اور علم اور اپنا وجود منوانےکاایک ہی راستہ ہے ، اور وہ ہے اسلام اور اس کے آداب جیسے حجاب کے خلاف بغاوت، اور ہر تلخ وشیریں میں مغرب کی نقالی۔
ایسےمیں جب اسلامی تحریک نے آغاز کیا تو اپنے آپ کو ایسے معاشرے کے سامنے پایا جو انحراف اور بے راہ روی کا شکار تھا، اسلامی تحریک نے بس اس کی سطح کو دیکھا، یعنی عریانیت ، نمائش، گھر سے نکلنا اور اختلاط۔ اس کا ساراغصہ اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے ان مظاہر کے خلاف نکلا، جس نے عورت کے پاس ایک کھلا ہوا تاثر چھوڑاکہ اسلام کی طرف واپسی کا مطلب دوبارہ گراوٹ والے حالات میں جینا، نسوانیت کی بے وقعتی کا شکار ہونا، اپنی شخصیت کا تحلیل ہوجانا اور اپنے مستقبل کے سلسلے میں فیصلہ کرنے کے اپنے حق سے محروم ہوجانا ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ۔ اسلام پسندوں نے عورت کے مسئلے کےاخلاقی پہلو کو جب اس طرح پیش کیا کہ یہ عریانیت نمائش اختلاط اور گھر کے باہر کام کرنے مسئلہ ہے، تو فطری بات تھی کہ اسے عورتوں کی طرف سے رد کردیا گیا، اس پر توجہ نہیں دی گئی، بلکہ اس کا مقابلہ کیا گیا ، اور ان کا جھکاؤ اسلامی تحریک کے دشمنوں کی طرف ہوگیا جو آزادی نسواں کےبربط پر گانا گاتے رہے اور ابھی بھی گائے جارہے ہیں۔ یہ نعرہ صحیح ہے، شرط یہ ہے کہ اس کے مفہوم کو صحیح طور سے متعین کیا جائے۔
عورت کے مسئلےپر معاشرتی فلسفیانہ گفتگو یہاں تک پہونچتی ہے کہ عورت کا مسئلہ عریانیت نمائش اور اختلاط سے بہت دورکا ہے، اسے تو دراصل اجنبیت ظلم اور غلامی کا مسئلہ درپیش ہے، ایک ایسے انسان کا مسئلہ جس سے دین کےغلاف میں لپٹی ہوئی گراوٹ نے اس کی انسانیت اور اس کا خود اپنے مستقبل کو طے کرنے کا اختیار چھین لیا ہے، اور اسے ایک چیز، محض ایک سامان کی حیثیت دے دی ہے۔ مغرب اپنے مادی فلسفے کے ساتھ اس کی آزادی کا دعوے دار بن کر آیا، اور اس نے اس کی بییڑیوں کو اور غلامی کو بڑھانے کا ہی کام کیا۔ اس نے جو کچھ کیا وہ یہ کہ غلامی کے مقامات بدل دیے۔ پہلے عورت ایک مرد یا ایک خاندان کی غلام تھی تو مادہ اور منفعت کے فلسفے کے زیر سایہ وہ سیاسی صحافتی اور سرمایہ دارانہ بڑے اداروں کی غلام بن گئی، وہ اس کے جسم کی تجارت کرتے ہیں، اس کو ایک خوب صورت گڑیا بنادیتے ہیں، جس سے بازاروں کے دروازے سجائے جاتے ہیں، اور اسے اشتہار ، مارکیٹینگ اور مردوں کی سیاسی مہمات کے لیے ایک سامان بناکر استعمال کیا جاتا ہے۔
پس عورت کو کیسی شدید ضرورت ہے ایک ایسی تحریک کی جو اسے اس کی ذات کی طرف لوٹائے، اس کی فطرت کی طرف، کہ وہ انسانی ورثے کی امین ، اور کارزار حیات میں مرد کی ساتھی بنے۔ وہ خود کو اور مرد کو آزاد کرے، دنیا بھر کی ظلم واستحصال کی طاقتوں کے خلاف جہاد کی تحریک برپا کرکے، وہ اپنے آپ کو آزاد کرے ہر اقتدار اور ہر پیروی سے سوائے اپنے رب کی۔ (الحرکۃ الاسلامیۃ ومسألۃ التغییر ، راشد غنوشی ۔ص ۴۸تا ۵۰)
مسلم خواتین کی طاقت ور تحریک چھیڑنے کے سلسلے میں امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی نے متعدد مضامین لکھے ہیں، ان کی یہ عبارت تحریک اسلامی کے اہل فکر کے سامنے اس موضوع کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے:
آخر کیا وجہ ہے کہ مسلم سوسائٹی میں اور خاص طور پر عورتوں کے درمیان ان سب انحرافات کے خلاف بغاوت کی کوئی مضبوط تحریک نہیں اٹھتی؟ جو عورتیں اپنے حقوق کے سلسلہ میں حساس ہیں انھیں اس بات کا اطمینان ہونا ضروری ہے کہ جو حقوق اسلام نے انھیں دیے ہیں وہ صرف کتابوں میں لکھے ہوئے نہیں ہیں بلکہ عملاً بھی دیے جارہے ہیں۔ اور اگر نہیں دیے جارہے ، تو انھیں دلانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ان کے جائز حقوق کے لیے صرف مغرب زدہ نام نہاد نسوانی تحریکیں ہی کوشاں نہیں ہیں بلکہ ان سے زیادہ اخلاص کے ساتھ اسلام پسند حلقے کوشاں ہیں۔ عورتوں کو ’’مغرب کی گود میں جانے‘‘ سے بچانے کے لیے اس یقین کا پیدا کیا جانا اولین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عورتوں میں عمومی اسلامی بیداری کے لیے ہورہی کوششوں کے ساتھ، اسلام پسند خواتین ایک عملی اسلامی نسائی تحریک چلانے کی کوشش کریں۔ ایک ایسی تحریک جس کے ذریعہ عورتوں کو ان کے جائز حقوق مل سکیں اور ان حقوق کے حصول کے لیے انھیں کھڑا کیا جاسکے۔
ہندوستان میں اس نسائی تحریک کے کئی اہداف ہوسکتے ہیں۔ خواتین میں تعلیم کافروغ، صحیح دینی بیداری، صحت و صفائی سے متعلق بیداری، اس کے چند اہم اہداف ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس تحریک کو شوہروں کے مظالم سے ان عورتوں کوبچانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ ہندوستان میں کئی کرسچین مشنریاں اس مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اسلامی تنظیمیں بھی آسانی سے اور زیادہ کامیابی کے ساتھ یہ کام اپنے ذمہ لے سکتی ہیں۔
ایک مرتبہ ممبئی میں ایک سوئس جوڑے سے ملاقات ہوئی جو ۳۲ سال قبل سوئزرلینڈ سے ہندوستان آیا تھا، اور گزشتہ ۳۲؍ سالوں سے دونوں میاں بیوی گھریلو خادماؤں کی بہبود کے لیے کام کررہے ہیں۔ انھوں نے ساری زندگی اس کام کے لیے لگادی ہے اور آج ان کی انجمن سے تقریباً ۲۸؍ لاکھ گھریلو خادمائیں وابستہ ہیں اور انھیں اپنا مسیحا سمجھتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی مثالیں اسلام پسند حلقوں میں کیوں نہیں ملتیں؟
گزشتہ دنوں دہلی کی ایک لڑکی نے اپنے جہیز کے لالچی سسرالی رشتہ داروں کے خلاف عین شادی کے دن پولس بلاکر بڑا ہنگامہ کھڑا کردیا تھا۔ اگر مسلم لڑکیوں میںیہ بیداری آجائے اور دوچار ایسے واقعات چند مسلم گھرانوں میں پیش آجائیں تو یہ ہزاروں تقریروں اور لاکھوں مضامین سے زیادہ تیز اور تیر بہ ہدف نسخہ ہوگا۔ مجوزہ نسائی تحریک یہ بغاوت پیدا کرسکتی ہے۔
اسلام پسند خواتین کی تحریک اس مقصد کے لیے کام کرسکتی ہے کہ عورتیں لازماً وراثت میں اپنا حصہ وصول کریں۔ اگر ضرورت مند نہ ہوں تب بھی، اور اگر وہ چاہیں تو اپنے بھائیوں یا دیگر رشتہ داروں کو بعد میں اپنا حصہ ہبہ کردیں، لیکن تقسیم کے وقت بہر صورت انھیں اپنا حصہ ملے۔
اسلامی تحریک روایتی مسلم سوسائٹی میں عورتوں کو مالی و تعلیمی حقوق دلانے کے لیے کوشش کرسکتی ہے۔ فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی شمولیت بڑھانے کے لیے جدوجہد کرسکتی ہے۔ اس بات کے لیے کوشش کرسکتی ہے کہ خواتین اپنی بنیادی گھریلو ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اپنی لیاقتوں و صلاحیتوں کو ملک و قوم کے اہم تر معاملات کے لیے بھی استعمال کریں۔ مجوزہ تحریک طلاق کے صحیح طریقوں کے نفاذ کے لیے کوشش کرسکتی ہے، اور عورتوں کو اس پریشانی سے بچاسکتی ہے جو طلاق کے غلط طریقوں کی وجہ سے انھیں درپیش ہوتی ہے۔
تحریک توہمات کے خلاف مہم چلاسکتی ہے۔ مسلم سوسائٹی میں ہر جگہ بہ کثرت ایسے گھرانے ہیں جہاں اگر مرد بیمار ہوں تو ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں، اور اگر عورتیں بیمار ہوں تو کسی عامل یا مولوی سے رجوع کرتی ہیں۔ توہمات اور فرسودہ عقائد کے نتیجہ میں علاج و معالجہ کے بنیادی انسانی حقوق سے وہ محروم کردی جاتی ہیں۔ مجورزہ تحریک بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان ناروا تفریق کے خلاف مہم چلاسکتی ہے۔
اسلام پسند خواتین کی کوششوںکا دائرہ کار صرف متوسط طبقہ کی پڑھی لکھی خواتین تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا اصل دائرہ کار وہ جھگی جھونپڑیاں ہونی چاہئیں جہاں مسلمان عورت کو واقعتا بیرونی تحفظ اور سپورٹ کی ضرورت ہے۔
عام نسوانی تحریک کے برخلاف خواتین کی اس اسلامی تحریک کو دو جنسوں کے درمیان کشمکش کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ تحریک مردوں کے خلاف نہیں ہوگی بلکہ غیر اسلامی روایات کے خلاف ہوگی، استحصالی رویوں کے خلاف ہوگی اور ان رواجوں کے خلاف ہوگی جن کا کوئی تعلق اسلام سے نہیں ہے۔
اس طرح کی کاوشوں کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے سماج میں کشمکش اور انتشار پیدا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ انسانی تاریخ میں آج تک اصلاح و ریفارم کا کون سا کام کشمکش کے بغیر انجام پایا ہے؟ یہ کشمکش کیا واقعی اتنی بڑی چیز ہے کہ اس سے بچنے کے لیے ان گنت اللہ کی بندیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا جائے؟ کیا بدعات کے خلاف مہم نے کشمکش پیدا نہیں کی؟ کیا عقیدہ کی درستگی کی کوششوں نے کشمکش نہیں پیدا کی؟ جیسا کہ کہا گیا کہ اسلامی نسائی تحریک کو دوجنسوں کے درمیان کشمکش کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے لیکن اگر صحیح خطوط پر ریفارم میں چند شیطانی قوتیں مزاحم ہوتی ہیں تو ان سے لازماً کشمکش ہونی ہی چاہیے۔ (خواتین میں اسلامی تحریک، سید سعادت اللہ حسینی ۔ ص ۲۵ تاص ۲۷)
مشمولہ: شمارہ مئی 2020