اللہ تعالیٰ نے انسان (مرد و عورت ) کے بارے میں اپنی خاص نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یعْلَمْ ’’اللہ نے انسان کو وہ علم دیا جو اس کے پاس نہیں تھا‘‘ [العلق: 5]
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردو عورت ) پر فرض ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
اللہ کے رسول ﷺ کا یہ ارشاد عورتوں کی تعلیم کی اہمیت بتانے کے لیے کافی ہے کہ کسی آدمی کے پاس لونڈی ہو، وہ اسے تعلیم دے اور عمدہ تعلیم دے، سلیقہ سکھائے اور عمدہ سلیقہ سکھائے، پھر اسے آزاد کردے اور اس سے شادی کرلے، تو اس کے لیے دوہرا ثواب ہے۔ (صحیح بخاری) عرب کے معاشرے میں لونڈیوں اور غلاموں کو جانوروں کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ اللہ کے رسول نے لونڈی کو تعلیم دینے کی اتنی بڑی فضیلت بیان کرکے دراصل لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت بالکل نمایاں کردی ہے۔
علامہ ابن حزم ؒنے اپنی کتاب میں دین کی تعلیم پر بہت زور دیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ صراحت کے ساتھ مردوں اور عورتوں دونوں کو یکساں طور سےخطاب کرتےہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہر ہر شخص پر فرض ہے کہ وہ جتنا زیادہ ہوسکتا ہے، یہ جاننے کی کوشش و محنت کرے کہ اللہ نے اس سے کیا تقاضے کیے ہیں۔‘‘
دین کے بہت سے احکام و تعلیمات کا ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن حزم ؒلکھتے ہیں: ’’مرد ہوں یا عورتیں، آزاد ہوں یا غلام، ان باتوں سے ناواقف رہ جانے کی گنجائش کسی کے لیے نہیں ہے۔ ان کے اوپر فرض ہے کہ وہ بالغ ہوتے ہی یہ سیکھنے لگیں، یا اگر بالغ ہونے کے بعد اسلام لائے ہوں تو اسی وقت سیکھنا شروع کردیں۔‘‘ (الإحكام فی أصول الأحكام)
علامہ ابن حزمؒ مردوں اور عورتوں سب کے لیے علم حاصل کرنا اس قدر ضروری قرار دیتے ہیں کہ:
’’جو لوگ کسی دیہات میں ہوں اور وہاں دین کے احکام سکھانے والا کوئی نہ پائیں، تو ان سب پر فرض ہے کہ وہ اس جگہ کا سفر کریں جہاں کوئی عالم ہو جو انھیں دین کی تعلیم دے یا اپنے یہاں کسی عالم کو بلائیں جو وہاں رہ کر انھیں دین کی تعلیم دے، اور اگر حاکم اس صورت حال سے واقف ہو تو وہ ان کے یہاں کسی عالم کو تعلیم دینے کے لیے بھیجے۔‘‘ (الإحكام فی أصول الأحكام)
خطیب بغدادیؒ نے اپنی کتاب الفقیہ والمتفقہ میں ایک باب باندھا جس کا عنوان رکھا: ’’وہ روایتیں جو بتاتی ہیں کہ مرد اپنی عورتوں اور بچوں کو تعلیم دیں اور آقا اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو تعلیم دیں۔‘‘ اس باب میں انھوں نے کئی ارشادات رسولﷺ ذکر کیے۔
علم کے سلسلے میں قرآن مجید اور احادیث رسولﷺ کی عمومی تعلیمات کے ہوتے ہوئے وہ تمام تصورات باطل قرار پاتے ہیں جو زیادہ علم حاصل کرنا مرد وں کا خاص حق قرار دیتے ہیں اور عورت کو زیادہ علم حاصل کرنے سے روکتے اور کم سے کم علم پر اکتفا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
علم حاصل کرنے کے سلسلے میں مردوں اور عورتوں کے درمیان کسی بھی طرح کی تفریق کرنے کی دین میں کوئی بنیاد نہیں ہے، بلکہ ایسی کوئی بھی تفریق سراسر غلط ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس زمین پر کارِ خلافت انجام دینے کی ذمے داری مردوں اور عورتوں دونوں پر ڈالی ہے۔ آخرت کی کام یابی کے لیے اس دنیا کو امتحان گاہ دونوں کے لیے بنایا ہے۔ حق و باطل کی کشمکش میں حق کی نصرت کرنادونوں پر فرض کیا ہے۔ اس لیے کارِ خلافت کی انجام دہی، آخرت میں سرخ روئی اور حق کی پشت پناہی کے لیے جو بھی علم درکار ہے اسے مردوں اور عورتوں دونوں کو سیکھنا چاہیے۔
مسلمانوں کے اندر جب بھی تعلیمی بیداری کے لیے کوئی مہم چھیڑی جائے تو وہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے ہونی چاہیے۔ تعلیم کے مواقع دونوں کے لیے مہیا کیے جائیں اور تعلیم کی سہولتیں دونوں کو فراہم کی جائیں۔
جس طرح لڑکوں کے اندر اعلی سے اعلی اور بہتر سے بہتر تعلیم کے حصول کا جذبہ ہوتا ہے، اسی طرح یہ جذبہ لڑکیوں میں بھی ہونا چاہیے۔ اگر لوگ اس جذبے کو مہمیز نہیں لگائیں تو لڑکیوں کو خود اپنے اس جذبے کی آبیاری کرنی چاہیے۔
سیکھنے کا شوق پیدا کریں
حضرت عائشہؓ نےمدینے کی عورتوں کو سراہتے ہوئے فرمایا: ’’بہترین عورتیں انصار کی عورتیں ہیں۔ انھوں نے دین کا گہرا علم حاصل کیااور شرم کو اس راہ کی رکاوٹ نہیں بننے دیا۔‘‘(صحیح بخاری)
اللہ کے رسول ﷺ مسجد نبوی میں روزانہ علم کی مجلس آراستہ فرماتے۔ اس مجلس میں کچھ خواتین بھی شریک ہوکر استفادہ کرتی تھیں، لیکن مردوں کا غلبہ رہتا اور انھیں سیکھنے کا موقع کم مل پاتا تھا۔ اس لیے ان کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ ان کی خصوصی مجلس ہوا کرے، جس میں وہ آزادی کے ساتھ سوال کرسکیں۔ انھوں نے اپنے اس شوق کا آپ کے سامنے اظہار کیا اور آپ نے ان کی درخواست قبول فرمالی۔ ایک خاتون کا گھر متعین ہوا،وہاں متعین وقت پر خواتین جمع ہوتیں اور آپ انھیں وعظ ونصیحت فرماتے اور دین کی تعلیم دیتے۔ (صحیح بخاری)
علم حاصل کرنے کا شوق دل میں پیدا ہوجائے تو دماغ راستے بھی سُجھاتا ہے۔ربّ علیم کو خوش کرنے کے لیے علم حاصل کیا جائے تو اس کی مدد اور توفیق شاملِ حال رہتی ہے۔
ایک دور تھا جب علم کا ہر طرف دور دورہ تھا، علم کے سفر میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شریک تھیں۔ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں حدیث کے علم میں ماہر خواتین کی تعداد لگ بھگ ۳۳۴ تھی۔ اس زمانے میں حدیث کا کوئی عالم ایسا نہیں ملتا جس کے اساتذہ میں خاتون محدث نہ ہوں۔امام ابن حجر جیسے متعدد مشہور علمائے حدیث نے خواتین سے علم حاصل کیا تھا۔ ہندوستان کے معروف محقق ڈاکٹر محمد اکرم ندوی نے اسلامی تاریخ کی ان خواتین کے تذکرے جمع کیے جو حدیث کے علم سے وابستہ تھیں تو انھوں نے دس ہزار مسلم خواتین کے تذکروں پر مشتمل ۴۳ جلدوں میں الوفاء بأسماء النساء کے نام سے شان دار کتاب تیار کردی۔
لیکن اب صورت حال تسلّی بخش نہیں ہے۔علم کے میدان میں مسلمانوں کے درمیان قحط الرجال کی کیفیت ہے، نئے حالات میں رہ نمائی کرنے والے معتبر علمائے دین تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں اور علم کے میدان میں قحط النساء تو اتنا شدید ہے کہ خاتون عالمات کا نام دور دور تک سننے میں نہیں آتا۔ سہولیات کے اس زمانے میں مرد و خواتین کے لیے علم حاصل کرنے کے مواقع بہت بڑھ گئے ہیں، لیکن شوق بیمار بلکہ نیم مردہ سا ہے۔ایسے میں اگر آپ اپنے اندر عالمہ بننے اور علم کی کسی شاخ میں خصوصی مہارت حاصل کرنے کا شوق پیدا کرلیں تو امت میں زبردست علمی تحریک برپا ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ علم وہ چراغ ہے جس سے بہت سے چراغ روشن ہوتے ہیں۔ ایک خاتون عالمہ بن جائے تو سیکڑوں عالم اور عالمہ تیار ہوسکتے ہیں۔
اہل علم سے سیکھنے میں پیچھے نہ رہیں
اس دور میں دینی علم کے ماہرین عام طور سے مرد ہوتے ہیں، اور ان سے راست علم حاصل کرنے کا موقع بھی زیادہ تر مردوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شوق رکھنے کے باوجود عورتیں پیچھے رہ جاتی ہیں اور علمِ دین کی ماہر نہیں بن پاتی ہیں۔
اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ عورتوں کی بڑی تعداد علم ِدین میں اتنا مقام پیدا کرے کہ عورتوں کے سماج کی علمی وفکری رہ نمائی کرسکے تو مرد علما سے علم حاصل کرنے کی راہیں آسان کرنی ہوں گی۔
آپ اپنے ذہن سے یہ خیال نکال دیں کہ عورتیں مردوں سے علم حاصل نہیں کرسکتی ہیں۔ ہماری روشن علمی تاریخ میں اس کی سیکڑوں مثالیں ہیں کہ عورتوں نے مرد علماسے علم حاصل کیا اور اس کی بھی سیکڑوں مثالیں ہیں کہ مردوں نے خواتین عالمات سے علم حاصل کیا۔
آپ کے لیے جہاں بھی ممکن ہو شرعی ضابطوں کا لحاظ کرتے ہوئے علم وفکر اور تحقیق کے ماہرین سے استفادے کی راہیں نکالیں۔
اب تو بڑی سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ علما کے آن لائن کلاسوں میں گھر بیٹھے شرکت کی جاسکتی ہے، ان سے مباحثہ کیا جاسکتا ہے، اپنے علمی اشکالات کو ان کی خدمت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ جہاں موقع ہو ان کی علمی مجلسوں میں حاضر ہوکر بھی ان سے سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شریعت میں مردوں اور عورتوں کی ملاقاتوں کے سلسلے میں ضابطے اسی لیے بنائے گئے ہیں کہ ان ضابطوں کا خیال رکھتے ہوئے دینی مقاصد کی تکمیل کی جائے۔
یہاں اس بات پر زور دینا مقصود ہےکہ آپ کو بھی علم و فکر کے بلند مقام پر پہنچنے کا حق حاصل ہے۔ آپ بھی اس کا خواب دیکھ سکتی ہیں اور اپنے اس مبارک شوق کی تکمیل کے راستے تلاش کرسکتی ہیں۔ دینِ اسلام آپ کے سامنے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرتا ہے۔ شرم وحیا اور دین واخلاق سے آراستہ رہتے ہوئے حصولِ علم کی ہر راہ کو آپ اختیار کرسکتی ہیں۔
فخرنسواں شُھدَہ دینوری
ایک خاتون دین داری اور پرہیزگاری کا پیکر بھی ہو۔ علم کی طلب میں گھر سے نکلے اور بہت سے مرد علما سے علم حاصل کرکے وقت کی بڑی عالمہ بن جائے اور پھر بے شمار مردوں اور عورتوں کو اپنے علم سے بہرہ مند کرے، ہمارے دور میں اس کا تصور بھی مشکل ہے، لیکن پانچویں صدی ہجری میں یہ بالکل تعجب خیز نہیں تھا۔
امام قرطبی ؒکہتے ہیں: ’’ہمیں شیخ فقیہ امام ابو القاسم عبداللہ نے اپنے والد شیخ فقیہ امام محدث ابو الحسن علی بن خلف بن معزوز کومی تلمسانی کے حوالے سے بتایا: وہ کہتے ہیں کہ یہ روایت شیخہ عالمہ فخرنسواں شُھدَہ بنت ابو نصر احمد بن فرج دینوری کے اپنے گھر واقع دار السلام میں پڑھ کر سنا ئی گئی، ان سے کہا گیا کہ آپ کو شیخ اجل عالم نقیب نقباء ابو الفوارس طراد بن محمد زینی نے بتایا جب کہ یہ روایت ان کے سامنے پڑھی جارہی تھی اور آپ سن رہی تھیں، انھوں نے کہا کہ ہمیں اس روایت کی خبر دی علی بن عبداللہ بن ابراہیم نے۔ ۔۔‘‘ (تفسیر قرطبی: تفسیر سورة الحجر، آیت: ۹)
اس قدر اہتمام سے جس خاتون کا اس روایت میں تذکرہ ہے وہ بغداد میں پیدا ہوئیں، باپ محدث بھی تھے اور سوئیوں کے تاجر تھے، بیٹی کی ذہانت و صلاحیت دیکھ کر اس کے اندر علم حدیث کا شوق پیدا کیا اور حدیث کے متعدد اساتذہ کے یہاں تعلیم حاصل کرنے میں مدد کی، یہاں تک کہ وہ عالم اسلام کی مشہور خاتون محدث شمار ہوئیں۔ شہدہ نے وقت کے ممتاز خوش نویس سے فن خطاطی بھی سیکھا اور اس میں کمال درجے کی مہارت حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے زمانے میں بغداد میں اتنا عمدہ خوش نویس کوئی اور نہیں تھا۔ نوے سال کی لمبی عمر پائی۔ (۴۸۴ھ تا ۵۷۴ھ)۔ عباسی خلیفہ مقتدی بامر اللہ نے ایک بڑا باغ ان کے نام کردیا، انھوں نے وہاں ایک بڑی درس گاہ دار سجہ کے نام سے قائم کی، سیکڑوں طلبہ تعلیم حاصل کرنے آتے اور ان کے قیام وطعام اور تعلیم کے تمام اخراجات شیخہ شہدہ کے ذمے رہتے۔ خدمت خلق کے بہت سے کار خیر ان کے ذریعے انجام پاتے۔ انھوں نے بہت سے مرد اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ ان کے طلبہ میں خواتین بھی شامل ہیں، تاہم مرد حضرات کی بہت بڑی تعداد ہے۔حدیث کی سندوں میں بغداد کی سب سے اونچی سند ان کی تھی۔ ابن عساکر، ابن جوزی اور سمعانی جیسے مشاہیر امت نے ان سے علم حاصل کیا اور روایت کی۔ وقت کے علما نے انھیں فخر النساء یعنی عورتوں کی شان کا لقب دیا۔
بنت الشاطی : دورِ حاضر کی مشہور مفسرخاتون
شیخہ شہدہؒ نے اپنے والد کی ترغیب اور تعاون سے علمی دنیا میں اونچا مقام حاصل کیا۔ جب کہ دور حاضر کی ایک خاتون نے اپنے والد کے عدم تعاون کے باوجود علم کی دنیا میں امتیازی مقام حاصل کیا۔
عائشہؒ ۱۹۱۳ میں مصر کے شہر دمیاط میں پیدا ہوئی، اس کے والد عالم دین تھے، وہ بچیوں کو اسکول بھیجنے کے قائل نہیں تھے، انھوں نے عائشہ کی دینی تعلیم کا انتظام گھر پر ہی کیا۔ عائشہ نے بچپن میں قرآن حفظ کیا، سات سال کی عمر میں مدرسے میں داخلہ لینا چاہا لیکن والد نے اجازت نہیں دی۔ عائشہ نے گھر پر ہی پڑھائی جاری رکھی، صرف امتحان دینے جاتی اور امتیازی نمبرات سے کام یاب ہوتی۔ میٹرک کے بعد اپنی ماں کی مدد سے قاہرہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور عربی ادب میں گریجویشن کیا۔ اس کے بعد امتیازی پوزیشن کے ساتھ ایم اے کی تکمیل کی۔ عائشہ نے یونیورسٹی کے استاذ اور وقت کے مشہور ادیب ومفکر اور تفسیر بیانی کے پیشوا استاذ امین خولی سے شادی کی، ساتھ ہی ڈاکٹریٹ کی تکمیل بھی کی۔ عائشہ نے نو عرب ملکوں کی مختلف جامعات میں تدریس کی خدمت انجام دی۔ بیس سال مراکش میں قرویین یونیورسٹی میں تفسیر اور اسلامیات کی تعلیم دی اور پروفیسر کا مقام حاصل کیا۔ عائشہ نے اٹھارہ سال کی عمر سے ہی اخبارات ورسائل میں مضامین لکھنا شروع کردیا تھا۔ باپ کی ناراضی سے بچنے کے لیے اپنا قلمی نام بنت الشاطی (ساحل کی بیٹی) رکھ لیا تھا۔
یہ کہانی ہے اس خاتون کی جس نے اسلامیات اور تاریخ وادب میں چالیس کتابیں لکھیں۔
وہ پہلی خاتون تھیں جنھیں اسلامی اور ادبی خدمات کے لیے شاہ فیصل ایوارڈ پیش کیا گیا۔ اسی طرح وہ پہلی خاتون تھیں جنھیں مجمع بحوث اسلامیہ قاہرہ اور ایسی دیگر اہم علمی اکیڈمیوں کا رکن بنایا گیا، جہاں ان سے پہلے کسی خاتون کا داخلہ نہیں ہوا تھا۔۱۹۹۸ میں مصر میں ان کا انتقال ہوا تو جنازے میں اہل علم کا سیلاب امنڈ پڑا۔
عائشہ عبدالرحمان بنت الشاطی ؒ مسلم خواتین کے لیے ایک نمونہ ہیں۔ باپ اور خاندان کی رکاوٹ کے باوجود انھوں نے اسلامی تعلیمات کے سائے میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو مقامی روایات کی بندشوں سے آزاد کیا، علم میں بہت اونچا مقام حاصل کیا اور پھر پوری زندگی علم کی خدمت اور اسلام کا دفاع کرتے ہوئے گزاری۔ انھوں نے مسلم عورتوں کو غیر اسلامی سماجی پابندیوں سے آزاد کرانے اور انھیں صحیح مقام دلانے کے لیے کوششیں کیں۔ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ اسلامی تعلیمات کی پابندی کرتے ہوئے ایک عورت علم و فکر کی اونچی سے اونچی چوٹی سر کرسکتی ہے۔
ان کی عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ دور جدید میں ہونے والے تفسیری کارناموں کا تذکرہ عائشہ بنت الشاطیؒ کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ان کی مشہور زمانہ تفسیر ’التفسیر البیانی للقرآن الکریم‘ ان کے تعارف کا سب سے بڑا ذریعہ بنی۔
عالم باپ کی عالمہ بیٹی
جب معاشرے میں لڑکیوں کے لیے علمی ترقی کا مناسب اور حوصلہ بخش انتظام نہ ہو تو باپ کا عالم ہونا بیٹی کے لیے ایک سنہری موقع ہوتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ باپ کو بھی اس کی فکر ہو اور بیٹی کو بھی سچی طلب اور شوق ہو۔اس طرح سے باپ کا گھر بیٹی کے لیے درس گاہ بن جاتا ہے اور عالم باپ بیٹی کا بہترین معلم ہوتا ہے۔ اس کی مثالیں زمانہ قدیم میں زیادہ ملتی ہیں۔ بعد کے دور میں اس کا اہتمام بہت کم رہ گیا۔ ایک عمدہ مثال عالمہ و فاضلہ أمة الغفور دہلوی ؒکی ہے۔ وہ عبادت گزار و پرہیزگار ہونے کے ساتھ بڑی عالمہ بھی تھیں۔ فقہ و حدیث میں گہرا علم حاصل تھا۔ ان کے استاذ خود ان کے والد شیخ محمد اسحاق دہلویؒ تھے، جو شاہ ولی اللہؒ کے نواسے اور دہلی کے عظیم محدث و فقیہ تھے۔ أمة الغفور نے طویل مدت تک ان کے ساتھ رہ کر علم حاصل کیا۔بعد میں ایک عالم شیخ عبدالقیوم صدیقی سے نکاح ہوا اور وہ انھیں رخصتی کراکے بھوپال لے آئے۔ان کی علمی شان یہ تھی کہ شیخ عبدالقیوم ؒکو جب فقہ اور حدیث میں کوئی دشواری پیش آتی تو گھر میں تشریف لے جاتے اور اپنی اہلیہ کے علم کی مدد سے اس دشواری کو دور کرتے۔(نزہة الخواطر)
علم وعقل کو ترقی دیں
اسلامی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جن عورتوں نے اپنی عقل کی قدر کی اور علم حاصل کرکے اسے پروان چڑھایا، زمانے نے ان کی خوب قدر کی۔ عقل مند اور دانا مسلم خواتین میں ایک نام مراکش کے شہر قیروان کی خدیجہ بنت سحنونؒ کا ملتا ہے۔ ان کے والد امام سحنونؒ (وفات: 240 ه)مالکی مسلک کےسرکردہ فقہا میں شمار ہوتے ہیں۔ سوانح نگاروں نے لکھا ہے: وہ دانا اور عالم خاتون تھیں۔ پرہیزگار اور دین دار تھیں۔ ان کے والد (امام سحنون) ان سے اہم ترین مسائل میں مشورہ کرتے تھے، یہاں تک کہ جب انھیں قضا کا منصب پیش کیا گیا تو اپنی بیٹی سے مشورہ کرنے کے بعد ہی قبول کیا۔ باپ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے (علامہ محمد بن سحنونؒ) بھی اہم معاملات میں بہن سے مشورہ کرتے تھے۔یہی نہیں، اس زمانے کی خواتین کے لیے وہ مرجع تھیں، دین ودنیا کے مشکل معاملات میں وہ ان سے رائے مانگتی تھیں۔ قاضی عیاض نے لکھا ہے: ان کا شمار بہترین لوگوں میں تھا اور وہ بہترین اور عقل مند ترین خاتون تھیں۔(ترتیب المدارك)
خاتون خدیجہ ؒ کو بہت بڑے عالم باپ کی صحبت میسر آئی اور انھوں نے ان سے علم حاصل کرنے میں سستی سے کام نہیں لیا۔ ٹیکنالوجی اور معلومات کے اس جدید دور کی مسلم خواتین کے پاس بھی سیکھنے اور علم وعقل کو ترقی دینے کے بے شمار مواقع ہیں۔ انھیں کام میں لانے کی ضرورت ہے۔
انوکھی شخصیت والی خواتین
علامہ ابن ملقن ؒکی صاحب زادی خدیجہ کے بارے میں سوانح نگار لکھتے ہیں کہ بچپن میں کچھ قرآن پڑھا تھوڑا علم سیکھا اور خطاطی سیکھی۔ علم سیکھنے کا شوق تھا، مطالعہ کو اپنا معمول بنالیا، اسی طرح خطاطی کی مشق جاری رکھی اور مختلف انوکھے خطوط نکالے۔ اللہ نے علم میں برکت دی، انھوں نے اپنے والد سے امام مالک کی کتاب الموطا پڑھی، اور پھر بہت سے فاضل علما نے ان سے اس کتاب کی تعلیم کا شرف حاصل کیا۔ (الضوء اللامع، سخاوی)
ایک اور خدیجہ علامہ ابن البیلونی ؒکی صاحب زادی تھیں، محدثہ تھیں، انھیں صحیح بخاری کی روایت کی اجازت حاصل تھی، ان کے والد اورسب بھائی شافعی مسلک کے علما تھے، لیکن انھوں نے اپنے سلسلے میں ایک انقلابی فیصلہ لیا اور امام ابوحنیفہ کا مسلک اختیار کرلیااور حنفی مسلک کی ایک کتاب بھی حفظ کرلی۔ (الكواكب السائرة)
محمد الغزی ؒکی بیٹی زینب تھیں، خود عالمہ تھیں اور ان بیٹا بھی بڑا عالم ہوا، علم کا شوق ایسا انوکھا کہ خود اپنے بیٹے سے کچھ کتابیں پڑھیں۔ان کے بارے میں ان کے بھائی کا بیان ہے: وہ عجوبہ روزگار اور اپنے زمانے کی نادر خاتون تھیں۔(الكواكب السائرة)
مکی الحرانی ؒکی بیٹی زینب کے بارے میں سوانح نگار لکھتے ہیں کہ وہ فقیہہ تھیں، علم دین حاصل کرنے والے طلبہ کا ان کے یہاں اژدحام ہوتا۔ان کے اساتذہ میں بھی مرد و خواتین تھے اور طلبہ میں بھی۔ نوے سال سے زیادہ عمر پائی اور ساٹھ سال سے زیادہ عرصے تک حدیث کا درس دیتی رہیں۔ صالحیت، عبادت گزاری اور ذکر وفکر ان کی خاص صفات تھیں۔(الوافی بالوفیات)
قاضی عمر بن اسعد تنوخی ؒکی بیٹی ست الوزراء فقیہ بھی تھیں اور محدثہ بھی۔سوانح نگاروں کے مطابق اپنے زمانے میں وہ مرکز اسفار بن گئی تھیں، دور دور کے دیسوں سے لوگ سفر کرکے ان کے پاس پہنچتے اور ان کے علم سے فیض یاب ہوتے۔ علامہ ابن کثیر ؒنے انھیں شیخہ صالحہؒ (بزرگ صالح خاتون ) لکھا۔(البدایة والنہایة)
زیدی امام مہدی لدین اللہ ؒکی بیٹی فاطمہ ؒکے بارے میں علامہ شوکانی ؒنے لکھا ہے کہ وہ علم کے حوالے سے مشہور تھیں۔ ان کے والد کا شمار زیدی مسلک کے ائمہ میں ہوتا ہے، اور یہ اپنے والد سے مختلف مسائل پر مباحثہ کرتی تھیں۔ خود ان کے والد نے کہا کہ احکام کے استنباط میں فاطمہ کی اپنی رائے ہوتی ہے۔ان کے شوہر امام مطہر بھی بہت بڑے عالم تھے، تاہم جن مسائل کو حل کرنے میں انھیں دشواری ہوتی، وہ اپنی اہلیہ کی طرف رجوع کرتے۔ کہتے ہیں کہ جب طلبہ سے ان کی کسی مسئلے پر بحث ہوتی اور طلبہ انھیں تنگ کرتے تو وہ گھر میں فاطمہ کے پاس جاتے اور وہ مسئلہ حل کردیتیں۔ جب وہ جاکر طلبہ کو مسئلے کا حل بتاتے تو وہ کہتے یہ آپ کی بات نہیں ہے، یہ پردے کے پیچھے کی بات ہے۔ (البدرالطالع)
سہسوان کی لحاظ النسا خاتونؒ (وفات: ۱۳۰۳ھ)کے بارے میں مولانا عبدالحی حسنی ؒلکھتے ہیں: ان کی یاد داشت تیز اور فہم عمدہ تھا۔ انھوں نے پوری زندگی حدیث و تفسیر کے مطالعہ میں گزاردی۔ تلاوت قرآن اور شب بیداری ان کا معمول تھا۔(نزہة الخواطر)
شمس النساء سہسوانیؒ ( وفات: ۱۳۰۸ھ) اپنے زمانے کے بڑے محدث سید امیر حسن سہسوانی ؒکی بیٹی تھیں،فن تجوید، فن کتابت، عربی زبان اور دینی علوم میں مہارت حاصل کی۔ اپنے والد سےصحاح ستہ کا درس لیا۔بلا کی ذہانت اور یاد داشت پائی تھی۔ سند کے ساتھ حدیثیں یاد تھیں۔ عورتوں میں وعظ و تذکیر کرتی تھیں۔ (نزہة الخواطر)
اورنگ زیب عالم گیر ؒکی بیٹی زیب النساء نے سات سال کی عمر میں قرآن حفظ کیا، فن خطاطی میں مہارت حاصل کی۔ علم وادب کی تحصیل وقت کے بڑے علما سے کی۔انھیں والد کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ زیب النساء بیگم نے علم دوستی و ادب نوازی کی عظیم الشان مثال قائم کی۔ ان کی لائبریری قیمتی کتابوں کا خزانہ تھی، اہل علم کی سرپرستی ان کا شوق تھا، ان کی مجلس علما و شعرا سے آباد رہتی تھی۔ ان کی سحر انگیز فارسی شاعری کا سارے عالم میں شہرہ تھا۔ عورتوں میں اس اعلی معیار کی شاعری کی مثالیں بہت کم ہیں۔
حضرت عائشہؓ کی عظیم درس گاہ
حضرت عائشہؓ کی شخصیت میں مسلم خواتین کے لیے بہت سے نمونے ہیں۔ یہاں ہم ان کی شخصیت کے ایک خاص پہلو کو پیش کریں گے۔ حضرت عائشہؓ کی اپنی اولاد نہیں تھی۔ لیکن اس وجہ سے ان کی زندگی میں کوئی خلا نہیں تھا۔ انھوں نے نہایت اعلی مشغلہ اختیار کیا ہوا تھا۔ وہ یتیم بچوں اور بچیوں کو اپنے گھر میں رکھتیں، محبت سےان کی پرورش کرتیں اچھی تعلیم وتربیت سے آراستہ کرتیں اور شادی کرکے رخصت کردیتیں۔ ان کے علاوہ اپنے رشتے دار بچوں اور بچیوں کو بھی اپنے گھر میں رکھتیں۔ ان کے بھتیجے اور بھانجے بلکہ بھتیجوں اور بھانجوں کے بچے بھی اچھا خاصا وقت ان کے یہاں گزارتے۔ خاص بات یہ تھی کہ ان کا گھروقت کی بہترین درس گاہ تھا۔ ان کے گھر پرورش پانے والے اوراپنے گھر سے آنے والےبچے اور بچیاں ان سے علم حاصل کرتے۔ اس درس گاہ سے فیض حاصل کرنے والے مرد وخواتین امت کے مشاہیر میں شمار ہوئے۔ حضرت عائشہؓ علم کا سمندر تھیں، اور ان کے شاگرد علم کے دریا تھے۔ان میں قاسم،عروہ اور عمرہ کو خاص شاگرد ہونے کا اعزاز ملا۔ان تینوں کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
حضرت عائشہؓ کی شاگرد حضرت عمرہؒ
حضرت عائشہؓ کی علمی قدر و منزلت سے تو ساری دنیا واقف ہے، لیکن ان کی خاص شاگرد اور علمی جانشین حضرت عمرہؒ سے بہت سی خواتین آگاہ نہیں ہیں۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ایک بار قاسم بن محمد (حضرت عائشہ کے بھانجے) نے مجھ سے کہا: اے نوجوان، میں دیکھتا ہوں کہ تمھیں علم حاصل کرنے کی بڑی فکر ہے۔ میں تمھیں علم کے برتن کا پتہ نہیں بتاؤں؟ میں نے کہا ضرور بتائیں۔ انھوں نے کہا: عمرہ سے جاکر سیکھو، وہ سیدہ عائشہؓ کے گھر میں رہتی تھیں۔ ابن شہاب کہتے ہیں: میں ان کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہ تو علم کا کبھی خشک نہیں ہونے والا دریا ہیں۔ حضرت عمرہ کے علمی مقام کو بتانے میں تمام سوانح نگار بہت بلیغ تعبیریں استعمال کرتے ہیں۔ ان کے لیے حجة کا لفظ ذکر کرتے ہیں، یعنی وہ شخصیت جس کی ثقاہت پر سب کا اتفاق ہو اور جو سب کے لیے مرجع کی حیثیت رکھتی ہو۔ حضرت عائشہؓ کے علم سے وہ سب سے زیادہ واقف اور ان کے سلسلے میں سب سے معتبر راوی تھیں۔ عمر بن عبدالعزیز ان سے سوالات کیا کرتے اور ان کی باتوں کو محفوظ کرنے کی ہدایت دیتے۔ حضرت عمرہ ؒ فقہ اور حدیث دونوں میں بلند ترین مقام پر فائز تھیں۔ (سیر أعلام البنلاء)
علمی ترقی کے لیے کچھ عملی مشورے
جہاں تک ممکن ہو تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں
یہ بات درست ہے کہ لڑکیوں کے لیے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے میں زیادہ دشواریاں آتی ہیں۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک تعلیمی مرحلے کو مکمل کرنے کے بعد اگلے مرحلے کے تعلیمی ادارےسکونت کے مقام سے دور ہوتے ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایسے تعلیمی ادارے میسر نہیں آتے جہاں لڑکیوں کے لیے مناسب ماحول ہو، کبھی تعلیم کے لیے دور بھیجنے پر گھر والے تیار نہیں ہوتے اور کبھی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔دورانِ تعلیم شادی ہوجانے کی صورت میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا کبھی مشکل ہوجاتا ہے۔
ان تمام مسائل کے باوجود تعلیم جاری رکھنے کے امکانات کو تلاش کرتے رہنا چاہیے۔ فاصلاتی تعلیم اور پرائیویٹ داخلوں کی سہولت سے خواتین کو خاص طور سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ضرورت پڑنے پر تعلیمی جہت کو تبدیل کرنے پر بھی سوچا جاسکتا ہے، مثال کے طور پر اگر سائنس کی کسی مطلوبہ شاخ میں تعلیم جاری رکھنے کے لیے سہولت میسر نہ ہو تو اچھی طرح سوچ سمجھ کر سائنس کی کسی دوسری شاخ کی طرف منتقل ہوجائیں یا علم کا کوئی دوسرا میدان منتخب کرکے اس میں تعلیمی سفر کو آگے بڑھائیں۔
گھر بیٹھے سیکھنے کی سہولت سے فائدہ اٹھائیں
انفارمیشن ٹکنالوجی کے اس زمانے میں تعلیم کالج کی چہاردیواری تک محدود نہیں رہی، بلکہ اب ایسے انتظامات میسر ہیں کہ آپ گھر بیٹھے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔انٹرنیٹ کی دنیا میں آن لائن کورسوں کی بھرمار ہے۔بہت سے مفید کورس بہت کم فیس پر دستیاب ہوسکتے ہیں۔آپ کمپیوٹر سے متعلق کوئی کورس کرنا چاہیں، کوئی نئی زبان سیکھنا چاہیں، کسی ہنر میں مہارت حاصل کرنا چاہیں، اعلی دینی تعلیم حاصل کرنا چاہیں، غرض گھر بیٹھے آپ علم و فن کے مختلف میدانوں میں فتح کا پرچم لہرا سکتی ہیں۔ بعض کورس لمبی مدت یعنی سال دو سال کے ہوتے ہیں تو بعض کورس چند روز میں مکمل ہوجاتے ہیں۔
آج کل خواتین کے درمیان یوٹیوب دیکھ کر نئے نئے پکوان بنانے کا رجحان کافی عام ہوا ہے۔ یہ سیکھنے کے ایک نئے دروازے کا انکشاف ہے۔ یاد رہے کہ اس دروازے سے بے شمار علوم و فنون تک پہنچنا ممکن ہوگیا ہے۔
کوویڈ کے زمانے میں خواتین کو بھی موقع ملا کہ وہ زوم اور گوگل میٹ جیسے متعدد ایپ کے استعمال سے مانوس ہوجائیں۔ اب علم و فن کی مختلف درس گاہوں سے رابطہ اور استفادہ ان کے لیے مشکل نہیں رہا۔
ڈگری کو شرطِ لازم نہ سمجھیں
بعض لوگ تعلیم کو ڈگری سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ڈگری کا حصول تعلیم کا محرک بنتا ہے اور جب ڈگری ملنے کی امید نہیں رہتی تو تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ بھی نہیں رہتا۔ڈگری اور اسناد کی اہمیت سے انکار نہیں ہے، مختلف مواقع پر وہ کام آتی ہیں۔ لیکن اُن کے حصول پرتعلیم کا انحصار نہیں ہونا چاہیے۔
اگر کسی عالم یا عالمہ سے عربی زبان اور دینی علوم سیکھنے کا موقع ملتا ہے، تو اس قیمتی موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔آپ کی محنت کا پھل آپ کو ڈگری کی صورت میں تو نہیں مگر علم کی صورت میں تو ضرور ملے گا۔
اسی طرح جو خواتین دینی مدرسے سے فارغ ہیں، انھیں جدید علوم و فنون سے بھی آراستہ ہونا چاہیے، خواہ ان کی اسناد انھیں نہ مل سکیں۔
مطالعہ کا شوق کبھی سرد نہ پڑے
بہت سے طلبہ و طالبات کی زندگی میں یہ المیہ پیش آتا ہے کہ وہ مختلف علوم و فنون کی کتابیں پڑھنا تو سیکھ لیتے ہیں لیکن پڑھنا سیکھنے کے بعد پڑھتے نہیں ہیں۔تعلیمی سلسلہ مکمل ہوتے ہی کتابوں سے ان کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔یہ بڑی نادانی کا رویہ ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کا مقصد علم سے زندگی کا رشتہ قائم کرنا ہے۔ اگر یہ رشتہ قائم نہیں ہوتا ہے تو پھر تعلیم بے نتیجہ قرار پاتی ہے۔ آپ نے جن میدانوں میں تعلیم حاصل کی ہے، ان میدانوں میں لکھی جانے والی بہترین کتابیں آپ کے مطالعہ میں رہیں گی تو آپ کا علم تازہ اور اپ ڈیٹ ہوتا رہے گا۔اس کے علاوہ جن میدانوں میں آپ کی دل چسپی ہے، یا جن سے آپ کی عملی وابستگی ہے، ان میدانوں کی بہترین کتابیں ضرور مطالعہ میں رہنی چاہئیں۔
کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ آپ اسلامی زندگی تو گزارنا چاہتی ہیں لیکن اسلامی کتابوں کا مطالعہ نہیں کریں، آپ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنا چاہتی ہیں لیکن بچوں کی تربیت پر عمدہ کتابیں آپ کے مطالعہ میں نہیں رہیں، آپ اپنی سوسائٹی میں ایک با اثر فرد بن کر رہنا چاہتی ہیں، لیکن با اثر شخصیت بننے کی رہ نمائی کرنے والی کتابیں نہ پڑھیں؟
اسی طرح کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ آپ تاریخ میں گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ہونے کے باوجود، تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ چھوڑ دینے کی وجہ سے اس فن میں نابلد ہوجائیں، جس میں آپ نے زندگی کے کئی سنہری سال لگائے۔
اور یہ تو بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ آپ اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال گزار کر دینی مدرسے سے فارغ ہوجائیں، پھر نہ آپ تفسیر پڑھیں، نہ حدیث، نہ فقہ پڑھیں نہ دیگر دینی علوم، اور پھر آپ دھیرے دھیرے سب کچھ بھول جائیں اور اپنے خاندان اور معاشرے کی دینی رہ نمائی کے قابل نہ رہیں۔
تعلیمی سلسلہ مکمل کرنے کے بعد مطالعہ جاری رکھنا سیکھے ہوئے علوم کو باقی رکھنے اور ترقی دیتے رہنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔یہ درست ہے کہ تعلیم حاصل کرتے ہوئے ہم ایسی بہت سی چیزیں پڑھتے ہیں، جو ہماری زندگی میں کام آنے والی نہیں ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ سارا کچھ پڑھنے کے بعدہمارے اندر یہ صلاحیت تو پیدا ہوجاتی ہے کہ مفید چیزوں کو پہچان سکیں اور انھیں خود سے پڑھ کر سمجھ سکیں۔ اس لیے کتابوں کے مطالعہ کو اپنا شوق بنائیں اور اس شوق کی تکمیل کے لیے مفید کتابوں کا مطالعہ کرتی رہیں۔
سیکھی ہوئی زبانوں کو ہرگز فراموش نہ کریں
یہ خوش نصیبی ہے کہ آپ دورانِ تعلیم تین چار زبانیں سیکھ لیتی ہیں۔ اردو، ہندی، انگریزی اور عربی یہ چارزبانیں کئی مدرسوں میں مکمل تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ بعض مدرسوں میں فارسی بھی پڑھائی جاتی ہے۔ اسکولوں میں ہندی اور انگریزی کے علاوہ مقامی زبان بھی سکھائی جاتی ہے۔بعض اسکولوں میں اردو اور عربی بھی شامل درس ہوتی ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ تعلیم مکمل کرلینے کے بعد ایسی کئی زبانوں سے ہمارا رشتہ بالکل کٹ جاتا ہے۔مادری زبان میں اخبارات و رسائل اور تفریحی لٹریچر پڑھ بھی لیتے ہیں، مگر دوسری جو زبانیں سیکھی تھیں، ان میں کچھ نہیں پڑھتے۔ دھیرے دھیرے وہ زبانیں جنھیں سیکھنے پر ہم نے کئی برس صرف کیے تھے، ہمارے لیے بالکل اجنبی ہوجاتی ہیں۔ یہ بڑا خسارہ ہوتا ہے۔
اس کا علاج یہ ہے کہ ہم نے جتنی زبانیں سیکھی ہیں ان میں کچھ آسان پرلطف کتابیں ہمیشہ اپنے مطالعے میں رکھیں۔ آسان کتابیں اس لیے کہ انھیں پڑھنا بوجھ نہ لگےاور پرلطف اس لیے کہ بوریت کا احساس نہ ہو۔ اگر پابندی سے آپ نے اس پرعمل کیا تو نہ صرف یہ کہ آپ کی زبان محفوظ رہے گی بلکہ دھیرے دھیرے اس میں ترقی بھی ہوتی رہے گی۔
ان زبانوں میں کچھ دل چسپ ویڈیوبھی دیکھیں، اس سے بھی زبان سے رشتہ مضبوط رہے گا۔
یہی نہیں، اگر تعلیم کے زمانے میں کسی زبان میں آپ کم زور تھیں، تو بھی بعد میں کتابیں پڑھنے اوراس زبان کے ویڈیو دیکھنے اور سننے سے اس میں مضبوطی آتی جائے گی۔
اگر آپ ان غیر ملکی زبانوں میں جو آپ نے سیکھ رکھی ہیں، جیسے عربی انگریزی وغیرہ، اسلام پسند خواتین کے مختلف آن لائن فورموں سے وابستہ ہوجاتی ہیں، تو جہاں آپ کو بہت سے نئے تجربات سے واقفیت حاصل ہوگی وہیں آپ کو ان زبانوں میں بھی زیادہ عبور حاصل ہوگا۔
بچوں کو تعلیم کی راہ میں رکاوٹ نہ بننے دیں
خواتین کی زندگی میں ایک نازک موڑ اس وقت آتا ہے جب وہ بچوں کی ولادت اور پرورش کے مرحلے سے گزرتی ہیں، اس وقت انھیں لگتا ہے کہ اب تعلیم کا جاری رکھنا ممکن نہیں ہے اور وہ یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے منقطع کردیتی ہیں۔ لیکن ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا ہے۔ بعض خواتین تعلیم جاری رکھتے ہوئے ان مرحلوں سے گزرجاتی ہیں اور اس طرح ان کا تعلیمی سفر جاری رہتا ہے۔ بعض خواتین سال دو سال کے لیے وقفہ کرتی ہیں اور اس کے بعد پھر اپنا تعلیمی سفر دوبارہ جاری کرتی ہیں۔ہر عورت کی صحت، حالات اور تعلیم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے اس لیے سب کے اوپر کوئی ایک اصول چسپاں کرنا مناسب نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ یہ عزم و حوصلہ ضروری ہے کہ اس موڑ پر تعلیم کا سلسلہ اگر روکنا ضروری بھی ہوا تو وہ ہمیشہ کے لیے نہیں رکے گا۔
وقفہ بچے کی پیدائش و پرورش کی وجہ سے ہویا کسی اور وجہ سے، لیکن اسے ضرورت سے زیادہ طویل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر خواہش زندہ رہے تو دوبارہ تعلیمی سفر جاری رکھنے کی راہیں آسانی سے نکل آتی ہیں۔
ہر مفید علم کی طلب کریں
علم کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ ایک مومن ایسے ہر علم کو اپنی میراث سمجھتا ہے جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو۔ مسلم خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ علم کے کسی محدود دائرے میں خود کو نہ سمیٹیں، بلکہ علم کے وسیع آسمانوں میں پرواز کرنے کا شوق رکھیں۔ اس معاملے میں ام المومنین حضرت عائشہؓ مسلم خواتین کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ایک طرف انھیں احادیث رسول کے سلسلے میں سب سے بڑے مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ دوسری طرف وہ فقہ میں بھی اونچا مقام رکھتی تھیں، طب میں بھی مہارت انھیں مہارت حاصل تھی، اور عربوں کی شاعری سے بھی بہت زیادہ واقف تھیں۔ حضرت عروہ بن زبیرؒ کا بیان ہے: میں نے کوئی شخص عائشہؓ سے زیادہ فقہ، طب اور شاعری کا علم رکھنے والا نہیں دیکھا۔ (استیعاب) میراث کی تقسیم کا علم مشکل سمجھا جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ اس میں بھی ماہر تھیں۔ حضرت مسروقؒ کا بیان ہے کہ میں نے بزرگ صحابہ کو عائشہؓ سے میراث کے مسائل پوچھتے دیکھا۔ (استیعاب)
خلاصہ یہ ہے کہ مسلم خواتین کے سامنے علم کے تمام دروازے کھلے رہنے چاہئیں۔ وہ اللہ کی مرضی کے مطابق دنیا کی تعمیر اور آخرت کی کام یابی کے لیے علم کے جس میدان کو چاہیں منتخب کریں اور اس میں درجہ کمال کو حاصل کریں۔
خلاصہ کلام
یہ معلومات کے انفجار کا زمانہ ہے۔ علم کو سب سے بڑی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔علم کی کسی بھی شاخ میں کمال حاصل کرکے اور کسی بھی میدان میں مہارت حاصل کرکے انسان تہذیب و تمدن کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے اور انسانی سماج پر بہت گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔
اگر یہ حقیقت ہے کہ علم بہت بڑی طاقت ہے، اور بے شک یہ حقیقت ہے، تو پھر اس میدان میں دینی جذبہ رکھنے والی مسلم خواتین کوتمام خواتین سے آگے رہنا چاہیے۔
آج تہذیب و تمدن کی باگ ڈور اگر بے دین اور خدا بے زار طبقے کے ہاتھوں میں ہے، تو اس میں جہاں ان کی محنت کا دخل ہے وہیں دین دار مرد و خواتین کی غفلت و کوتاہی کا بھی بڑا دخل ہے۔ مسلم عورتوں کی تعلیمی پسماندگی کے پیچھے مسلم سماج بھی ذمے دار ہے کہ اس میں قرآن و سنت کی پاکیزہ تعلیمات کی جگہ بعض غلط تصورات رواج پاگئے ہیں۔
اس دنیا کی تعمیر و ترقی اللہ کی ہدایت کےسائے میں ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان مردوں کے ساتھ ساتھ ہر مسلمان لڑکی اپنے لیے ایک بڑا علمی منصوبہ بنائے اور زندگی کے نشیب و فراز کے باوجود توجہ و لگن کے ساتھ اس کی تکمیل جاری رکھے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2022