إِنَّ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِینَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِینَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِینَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِینَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِینَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِینَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِینَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِینَ اللَّهَ كَثِیرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِیمًا [الأحزاب: 35]
’’بےشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرمانبردار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاه کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان (سب کے) لیے اللہ تعالیٰ نے (وسیع) مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اس آیت میں مثالی شخصیت کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اس آیت میں مردوں کے اوصاف کے ساتھ ساتھ عورتوں کے اوصاف کا بھی خصوصیت کے ساتھ تذکرہ ہے۔ اگرایسا نہیں ہوتا تو بھی وہ اوصاف مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مطلوب مانے جاتے، جیسا کہ قرآن مجید کا عام انداز ہے۔
یہ آیت مسلم خواتین کو خاص طور سےاپنے نفس کے تزکیہ اور اپنی شخصیت کی تعمیر وترقی کی طرف متوجہ کرتی ہے۔
شخصیت کی تعمیر کی ذمے داری کس پر؟
ہونا تو یہی چاہیے کہ ہر شخص کی تعمیر و ترقی میں گھر اور سماج کا پورا حصہ رہے۔لیکن یہ مثالی صورت ہے۔ مثالی گھر اور مثالی سماج میں ایسا ہی ہوگا۔لیکن ہر گھر اور ہر سماج میں ایک لڑکی کو اپنی شخصیت کی تعمیر و ترقی کے لیے مناسب ماحول ملے،یہ ضروری نہیں ہے۔ اس لیے ہر لڑکی کے پاس شخصیت کی تعمیر وترقی کا اپنا ذاتی منصوبہ ہونا چاہیے، جس میں وہ سب کا تعاون تو حاصل کرے لیکن کسی پر منحصر نہ رہے۔
زندگی کے اعلی مقاصد اور نصب العین کا شعور بھی آپ خود حاصل کریں۔ زندگی کے مقصد کو سامنے رکھ کر زندگی کا منصوبہ بھی خود بنائیں اور اس میں رنگ بھرنے کے لیے اپنی شخصیت کو تیار کرنے کی ذمے داری بھی خود ہی اُٹھائیں۔
اس پورے سفر میں اگر آپ کو اپنے گھر، خاندان اور سماج سے تعاون ملے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ اور اگر کسی قسم کا تعاون نہ ملے توگلے شکوے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے لیے راہیں تلاش کریں اوراپنے دل میں خود آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
شخصیت کی تعمیر میں اعلی نمونے کی بہت اہمیت ہے، اگر آپ کو اپنے گردو پیش میں اعلی نمونے نہیں ملیں، تو تاریخ کے معتبر صفحات میں تلاش کریں۔
قرآنی نمونوں کو سامنے رکھیں
قرآن مجید میں عالی ہمت مومن عورتوں کے متعدد نمونے پیش کیے گئے ہیں۔مسلم خواتین کے لیے ان میں رہ نمائی کا بڑا سامان ہے۔
قرآن مجید میں بڑے کارنامے انجام دینے والی جتنی نیک عورتوں کا ذکر ہے، ان میں سے زیادہ تر نے خود اپنے بل پر وہ کارنامے انجام دیے۔ملکہ سبا نے خود اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا، جس کے بعد پوری قوم نے اسلام قبول کرلیا۔ فرعون کی بیوی نے فرعون کے نہایت شدید مظالم کا بے نظیر شجاعت کے ساتھ سامنا کیا۔ حضرت موسیؑ کی ماں نے شیر خوار بچے کو صندوق میں رکھ کر نہایت جرأت کے ساتھ دریا میں ڈال دیا۔ حضرت موسیؑ کی بہن نے تنِ تنہا فرعون کے محل تک جاکر نہایت مشکل اور خطرناک مہم کو انجام دیا۔ حضرت مریمؑ کی ماں نے پیٹ میں پل رہے بچے کو اللہ کے لیے وقف کرنے کا خود فیصلہ کیا۔ حضرت مریمؑ نے تنہا اپنی قوم کی اذیتوں کا سامنا کیا۔
اسی طرح قرآن مجید میں ایسی نیک خواتین کا بھی ذکر ہے جنھوں نے اپنے شوہروں کا مشکل ترین حالات میں ساتھ دیا اور ذرا کم زوری نہیں دکھائی۔ حضرت ابراہیمؑ کی بیوی نے ان کے ساتھ ہجرت کی۔ حضرت موسیؑ کی بیوی نے فرعون کی بادشاہت والے مصر کی طرف اپنے شوہر کے ساتھ سفر کیا۔ یہ دونوں ہی سفر سر پر کفن باندھ کر چلنے والے سفر تھے۔
محض اللہ کی خوش نودی کے لیے حضرت اسماعیلؓ کی والدہ نے مکہ کی بے آب و گیاہ سر زمین میں بسنا قبول کیا۔
قرآن مجید میں مومن عورتوں کے تذکرے نہایت حوصلہ بخش ہیں۔ ان کا بار بار مطالعہ کرنا چاہیے۔ ان سے جرأت و شجاعت اورقربانی کا سبق سیکھنا چاہیے۔
تاریخ کے بہترین نمونے سامنے رکھیں
امہات المومنینؓ اور صحابیاتؓ کی عظیم الشان سیرت میں بھی ہر دور کی مسلم خواتین کے لیے ہمت و حوصلے کا بڑا سامان ہے۔
حضرت خدیجہؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پیارے نبی ﷺ کی قدم قدم پر مددکی۔
حضرت زینب، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ نے نہایت مشکل حالات کا سامنا کیا اور مثالی بیٹی کا کردار اداکیا۔
حضرت عائشہؓ نے اللہ کے رسولﷺ سے اتنا علم سیکھا کہ خود علم کا سمندر بن گئیں۔
حضرت ام سلمہؓ نے حدیبیہ کے موقع پر حکمت و دانائی سے بھرپور مشورہ دیا۔
حضرت ام سلیمؓ اور حضرت ام عمارہؓ نے احد و حنین کی جنگوں میں اس وقت ثابت قدمی دکھائی جب بہت سے مردوں کے قدم اکھڑ گئے۔
حضرت خنسا ءؓنے اپنے چاروں بیٹے راہِ خدا میں قربان کیے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
حضرت اسماءؓ نے اپنے بیٹے عبداللہ بن زبیرؓ کی اس وقت ہمت بڑھائی، جب دشمنوں نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔
یہ چند مثالیں ہیں۔ پھر اس کے بعد کی تاریخ میں بھی شان دار نمونوں کی کمی نہیں۔ دورِ حاضر میں بھی کچھ مومن عورتوں نے عظیم کارنامے انجام دیے۔ دیگر باہمت عورتوں کے تذکرے بھی اپنے اندر سیکھنے کا سبق اور حوصلے بڑھانے کا سامان رکھتے ہیں۔ ان تمام اچھے نمونوں کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے۔ مجلسوں میں ان کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے۔ عورتوں کو اچھا خاصا حوصلہ بہادر اور بلند ہمت عورتوں کے واقعات سے ملتا ہے۔
عبادت کو سب سے بڑا شوق بنالیں
ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرنے کی فکر جس طرح مردوں کو بے تاب رکھے، اسی طرح عورتوں کو بھی بے تاب رکھے اور انھیں زیادہ سے زیادہ عبادت پر اکساتی رہے۔اللہ کے رسول ﷺ کی تربیت سے جن عورتوں نے فیض حاصل کیا،انھیں ذکر و عبادت میں بہت زیادہ لطف آتا تھا۔وَالذَّاكِرِینَ اللَّهَ كَثِیرًا وَالذَّاكِرَاتِ ’’اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں‘‘(سورة الاحزاب: ۳۵) کے الفاظ سے ان کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔
حضرت عائشہؓ کے بھتیجے قاسم بن محمد کہتے ہیں کہ میں جب صبح گھر سے نکلتا تو سب سے پہلے حضرت عائشہؓ کے گھر جاتااور انھیں سلام کرتا۔ ایک دن صبح کے وقت وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ کھڑی نماز پڑھ رہی ہیں، قرآن کی ایک آیت بار بار دہرارہی ہیں، رو رہی ہیں اور دعا ئیں مانگ رہی ہیں۔ میں دیر تک کھڑا رہا، یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکتا گیا، تو اپنی ایک ضرورت پوری کرنے بازار کی طرف چلا گیا، کافی دیر بعد وہاں سے آیا، تو دیکھا کہ وہ ویسی ہی نماز میں کھڑی رو رہی ہیں۔ (صفة الصفوة)
پرہیزگاری میں نمونہ بن جائیں
عورت اگر حرام مال سے بچنے کا پختہ ارادہ کرلے، تو گھر، خاندان اور سماج کی بہت سی برائیوں کا خاتمہ ہوجائے۔
امام احمد بن حنبل ؒ کے پاس ایک خاتون آئیں اور مسئلہ دریافت کیا، کہا: سرکاری مشعل کی روشنی ہماری چھت تک آتی ہے، ہم رات میں اُسی کی روشنی میں اپنی چھت پر سوت کاتنے کا کام کرتے ہیں۔ کیا ہمارے لیے اُس روشنی سے یہ فائدہ اٹھانا درست ہے؟ امام احمد نے پوچھا: اللہ آپ کو سلامت رکھیں آپ کون ہیں؟ انھوں نے کہا : میں بشر حافیؒ (مشہور پرہیزگار بزرگ) کی بہن ہوں۔ امام احمد روپڑے اور کہا: آپ کے گھر سے تو پرہیزگاری کی سچی شعاعیں نکلتی ہیں، آپ اُس سرکاری مشعل کی روشنی میں سوت نہ کاتیں۔(الرسالة القشیریة)
پرہیزگاری یہ نہیں ہے کہ انسان دولت کمانے کی کوشش نہیں کرے۔پرہیزگاری یہ ہے کہ حلال مال کمانے کی کوشش کرے۔حضرت بشر حافیؓ کی بہن سوت کاتنے کا کام کرتی تھیں، تاہم اس فکر کے ساتھ کہ ان کے مال میں حرام چیز کی کوئی آمیزش نہ ہوجائے۔
مسابقت کا جذبہ سدا جوان رہے
دنیا داری اور دین داری دونوں مسابقت مانگتی ہیں۔ دنیا داروں کی مسابقت دنیا کے لیے ہوتی ہے اور دین داروں کی مسابقت آخرت کے لیے ہوتی ہے۔آخرت کی کام یابی آخرت والی مسابقت مانگتی ہے۔
قرآن مجید میں ایمان والو ں کو ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اللہ کی بے حد وسیع وعریض جنت کی طرف دوڑ لگائیں۔ دوڑ اور مسابقت والی یہ زندگی مومن مردوں کو بھی گزارنی چاہیے اور مومن عورتوں کو بھی۔ ہمیں اسلام کی روشن تاریخ میں ایسی بہت سی خواتین ملتی ہیں جن کے اوپر مسابقت کی یہ دھن سوار تھی۔
سیدہ نفیسہ کے بارے میں ان کی بھتیجی زینب بیان کرتی ہیں: میں نے اپنی پھوپھی سیدہ نفیسہ کی چالیس سال تک خدمت کی، میں نے انھیں رات میں سوتے ہوئے اور دن میں بغیرروزہ کے نہیں پایا، سوائے عید اور تشریق کے دنوں کے۔ میں نے ان سے کہا: آپ اپنے نفس کے ساتھ ذرا نرمی نہیں کرتیں، انھوں نے کہا: میں اپنے نفس کے ساتھ نرمی کیسے کروں، میرے سامنے ایسی بڑی رکاوٹیں ہیں جنھیں وہی پار کرسکتے ہیں جو جیتنے کا تہیہ کرچکے ہوں۔
خالد وراق کہتے ہیں : میرے پاس ایک لونڈی تھی، وہ راہ خدا میں بہت محنت کرتی تھی، ایک دن میں نے اسے بتایا کہ اللہ بندوں پر بہت مہربان ہوتا ہے اور وہ ان کے معمولی اعمال کو بھی قبولیت عطا کرتا ہے۔ وہ رونے لگی پھر اس نے کہا: خالد، میں تو اللہ سے اتنی بڑی امید لگائے ہوئی ہوں کہ اگر پہاڑ وں سے انھیں اٹھانے کو کہا جائے تو وہ اٹھانے کی ہمت نہ کرسکیں، جس طرح وہ امانت اٹھانے کی تاب نہیں لاسکے۔ اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ اللہ کے کرم میں ہر گناہ گار کے لیے پناہ ہے۔ لیکن میں مسابقت کی حسرت کا کیا کروں۔خالد نے کہا: مسابقت کی حسرت کیا ہوتی ہے؟ اس نے کہا: حشر کے دن جب قبر سے سب کچھ نکال باہر کیا جائے گا اور نیکو کار بہترین اعمال کی سواری سے جنت کے دروازے کی طرف تیز رواں ہوں گے۔اس دن کوتاہ رہ جانے والوں کی حسرت کا کیا عالم ہوگا۔(صفة الصفوة)
ممکن ہے ان حکایتوں میں مبالغہ محسوس ہو، لیکن ان میں جس فکرمندی کا اظہار کیا گیا ہے وہ ہر خاتون کے دل میں ضرور بسنی چاہیے۔ جیت اور مسابقت کی فکر ہی زندگی کو اعمال سے معمور کرنے کا ذریعہ بنے گی۔ ورنہ غفلت تو دیمک کی طرح زندگی کے تمام اوراق چاٹ جاتی ہے، ان پر نیکیاں رقم کرنے کا موقع ہی نہیں دیتی ہے۔
شوق کو محدود نہ کریں
آپ لڑکی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کا شوق گھر کی چہار دیواری میں سمٹا رہے اور کوئی بڑی امنگ دل میں کروٹ نہ لے۔اللہ کے رسول ﷺ نے جن مسلم خواتین کی تربیت کی،ان کے دل میں تو ایسے ایسے شوق پیدا ہوتے کہ عقل حیران ہوجائے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے اللہ کے رسول ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ کی امت کے کچھ لوگ سمندر کے دوش پر سوار اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے رواں دواں ہیں، آپ نے اپنے خواب کا ذکر کیا، اسے سن کر صحابیہ ام حرامؓ کے دل میں شوق نے انگڑائی لی، انھوں نے بے تابی سے کہا : اللہ کے رسول میرے لیے دعا فرمادیجیے، میں بھی اس لشکر میں شامل ہوجاؤں، اللہ کے رسول ﷺ نے دعا فرمادی اور ام حرامؓ کو آخر کار سمندری لشکر میں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔(صحیح مسلم)
یاد رہے کہ اس زمانے میں عربوں کے یہاں جنگ کی خاطر سمندری سفرکو سب سے زیادہ پُر خطر مہم سمجھا جاتا تھا۔کسی عورت کا ایسی پُرخطر مہم کی تمنا کرنا بتاتا ہے کہ عورت کے دل میں بھی بہت بڑےارادوں کے لیے جگہ ہوتی ہے۔ دل کو موہ لینے والی بات یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ ایسے شوق عورتوں کو زیب نہیں دیتے، بلکہ ان کے شوق کی تکمیل کے لیے دعا کی۔
اپنے شوق کو خود دریافت کریں
ہمارے سماج میں لڑکوں کے شوق پر تو بہت بات ہوتی ہے۔ ان سے پوچھا جاتا ہے کہ بڑے ہوکر کیا بنوگے؟ لیکن لڑکیوں کے شوق کو موضوعِ گفتگو نہیں بنایا جاتا۔ بلکہ اکثر اوقات تو انھیں اپنے شوق کے بارے میں سوچنے کا خیال تک نہیں آتا ہے۔ لڑکیوں کے تعلق سے سماج کے جمود کا اثر خود لڑکیوں پر اس طرح پڑتا ہے کہ وہ یہ سوچ ہی نہیں پاتیں کہ وہ کوئی کارِ نمایاں انجام دے سکتی ہیں۔
یہ صورت حال اچھی نہیں ہے۔ ہماری تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں کہ عورتوں نے بڑے کاموں کا بیڑا اٹھایا اور انھیں انجام دیا۔ ایسی بھی مثالیں ہیں کہ عورتوں نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھالی اور بہترین طریقے سے حکومت کی۔
سلجوقی سلطان طغرل بک کی بیوی ترنجان کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں کہ وہ ’’بہت دین دار خاتون تھیں، بھلائی کے کاموں میں نمایاں تھیں، بہت خیرات کرتی تھیں، اس پر مزید یہ کہ وہ سوجھ بوجھ، قوت فیصلہ اور اصابت رائے کی حامل تھیں۔ ان کا شوہر ان کی بات سنتا اور مانتا تھا۔ امور سلطنت ان کی رائےسے انجام پاتے تھے، وہ لشکروں کی قیادت کرتیں، اور دشمن فوجوں کے مقابلے کے لیے سلطان کو کمک پہنچاتی تھیں۔ ‘‘(النجوم الزاھرة)
ویسے تو بہت سی عورتوں نے ملکوں کی باگ ڈور سنبھالی، لیکن ہم نے ترنجان کی مثال اس لیے دی ہے کہ تاریخ میں ان کی دین داری اور نیکی وبھلائی کے حق میں گواہی دی گئی ہے۔
یہاں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ بڑے کاموں کو انجام دینے کے لیے حکومت کے ایوانوں تک پہنچنا ضروری نہیں ہے۔ کارنامے انجام دینے والوں کے سامنے حکومت و اقتدار کے علاوہ بھی بہت سی دنیائیں ہوتی ہیں۔ علم وفکرکی دنیا، درس و تدریس کی دنیا، اصلاحِ معاشرہ کی دنیا، دعوتِ دین کی دنیا، سماجی خدمت کی دنیا، فنون لطیفہ کی دنیا اور اس کے لیے علاوہ ایسی بہت سی دنیائیں جن میں فعال کردار ادا کرکے ایک خاتون تہذیب و تمدن کے معماروں میں شامل ہوسکتی ہے۔
جلیلہ تمرہان مصر میں رہتی تھیں، والدہ دایہ تھیں۔ انھوں نے اپنی والدہ سے یہ فن سیکھا، پھر اس میں مہارت حاصل کی اور اسی فن میں محكم الدلالة فی أعمال القبالة نامی کتاب لکھی۔ غرض اپنے شوق کے مطابق اپنے لیے ایک میدان طے کیا، اس میں مہارت حاصل کی اور امتیازی مقام پر فائز ہوئیں۔ بڑے لوگوں کی تاریخ میں ان کا نام بھی درج کیا گیا۔(الأعلام، زركلی)
جس چیزکا شوق ہو اس میں مہارت حاصل کریں
مصر کی عائشہ تیموریہ جب شعور کی عمر کو پہنچیں تو انھیں ایک عجیب کشمکش سے دوچار ہونا پڑا، اس کا ذکر وہ خود کرتی ہیں:
’’جب کچھ سیکھنے کے لائق ہوئی، تو شفقت وطہارت کی پیکر اور جانکاری وتجربے سے مالا مال شخصیت، یعنی میری والدہ، (اللہ کی ان پر رحمت ہو) بُنائی اور کڑھائی کے سامان کے ساتھ میری طرف متوجہ ہوئیں۔ وہ مجھے سکھانا چاہتیں، اس کے لیے لاکھ جتن کرتیں اور میں تھی کہ وہ سب کچھ سیکھ ہی نہیں پاتی، نہ ہی سیکھنے پر طبیعت آمادہ ہوتی۔ جس طرح پرندہ کھڑکی سے باہر نکل بھاگنا چاہتا ہے، میں بھاگنے کی راہیں تلاش کرتی۔ میرا شوق کتابیں تھیں، کاغذ پر قلم کے چلنے کی آواز مجھے بے پناہ لطف دیتی، میں قلم کاروں کے گروہ میں شامل ہوجانے کا خواب دیکھتی، اس شوق کا عالم یہ تھا کہ میں لکھنے والوں کی نقل میں کاغذ پر قلم کو رگڑتی اور اس کی رگڑ کی آواز پر سر دھنتی۔ میری والدہ آکر مجھے ڈانٹتیں مگر مجھ پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ بہرحال میرے مرحوم والد نے مداخلت کی اور کہا: اس بچی کو کاغذ اور قلم کے ساتھ رہنے دو، اب اس ننھی کا دل اور مت توڑو، اگر ہماری بیٹی کاغذ اور دوات سے شغف رکھتی ہے، تو اس کے شوق کی راہ میں رکاوٹ مت ڈالو، ایسا کرو کہ دونوں بیٹیوں کو ہم آپس میں بانٹ لیتے ہیں، عفت کو تم لے لو اور عصمت (عائشہ) کو مجھے دے دو، اگر یہ آگے چل کر ادیب وشاعر بنتی ہے تو مرنے کے بعد میری روح کو ٹھنڈک ملے گی۔ انھوں نے میرا ہاتھ تھاما اور مجھے اہل قلم کی محفل میں لے گئے، وہاںایک استاد کو مجھے فارسی اور دوسرے استاد کو عربی سکھانے کی ذمے داری دی۔‘‘
عائشہ تیموریہ اپنے دور کی ممتاز شاعر ہ تھیں۔ شاعری کا شوق ہوا تو سینکڑوں شعری دیوان یاد کرلیے۔ عربی، فارسی اور ترکی تین زبانوں میں زبردست مہارت حاصل کی اور تینوں زبانوں میں اعلی درجے کی شاعری کی۔
کہا جاتا ہے کہ مسلم خواتین کی تعلیم کی تحریک چلانے والی وہ پہلی خاتون تھیں۔ اس کے ساتھ حجاب کی بھی وہ زبردست علم بردار تھیں۔ حجاب کے خلاف آواز اٹھانے والوں کا انھوں نے منھ توڑ جواب دیا تھا۔
عائشہ تیموریہ نے شاعری کی دنیا میں بلند ترین مقام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ اپنے چھوٹے بھائی احمد تیمور (مشہور عربی ادیب ومحقق)، اپنے دو بھتیجوں محمد تیمور(ممتاز ڈراما نگار) اور محمود تیمور (معروف ناول نگار)کی ادبی نشوونما میں حصہ لیا۔
عائشہ تیموریہ کی سوانح میں دور حاضر کی خواتین کے لیے بڑا سبق ہے۔ شیخ علی طنطاویؒ لکھتے ہیں:
’’آپ حضرات جانتے ہی ہیں کہ اس دور میں عورتوں کی حالت کیا تھی۔ وہ جہالت، تنگ نظری اور مردانہ استبداد کی اسیر تھیں، ایسے میں یہ عجوبہ ہی ہے کہ ایک اعلی معیار کی شاعرہ اور بہترین ادیبہ پروان چڑھے، جو اپنے زمانے کے تمام ادیبوں سے آگے بڑھ جائے اور جذباتی مرثیہ گوئی میں تمام زمانوں کو پیچھے چھوڑ دے۔ اس ایک شخصیت میں دو عجوبے جمع ہوگئے تھے۔ ایک یہ کہ وہ اعلی درجے کی شاعرہ تھیں، جب کہ عورتوں میں معیاری شاعر نایاب ہیں، صرف عربی میں نہیں بلکہ دنیا کی تمام زبانوں میں ملا کر سو کی تعداد میں بھی اعلی معیار کی شاعرات نہیں ملیں گی، جب کہ اعلی معیار کے ہزاروں مرد شعرا گزرے ہیں۔ دوسرا عجوبہ یہ کہ وہ ایسے زمانے میں پروان چڑھیں جب کہ عورت کی سماجی حالت دگرگوں تھی۔‘‘(رجال من التاریخ: عائشہ تیموریہ)
عائشہ تیموریہؒ کی بلند پرواز شخصیت اور اسلام پسند طبیعت نے شیخ طنطاویؒ کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے تاریخ کے نمایاں افراد میں ان کا تذکرہ شامل کیا۔
جتنے ہنر سیکھ سکیں سیکھ لیں
حضرت نسیبہؓ بیان کرتی ہیں: ’’میں نے اللہ کے رسول ﷺ کے ساتھ سات مہمات میں شرکت کی۔ مرد محاذ پر ہوتے اور میں پیچھے ان کے سامان کی دیکھ بھال کرتی، ان کے لیے کھانا بناتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور بیماروں کی نگہداشت کرتی۔‘‘(صحیح مسلم)
پر خطر مہم پر نکلنے کی ہمت کرنا،سفر کی صعوبتیں برداشت کرنا، ایک بڑی جمعیت کے لیے کھانا پکانا، گہرے زخموں کا علاج کرنا، بیماروں کی نگہداشت کرنا، یہ سب اسی کے بس کی بات ہے جس نے اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کیا ہو۔
بچپن میں والدین اپنی بچیوں کی تربیت کرتے ہوئے اس پر توجہ دیں کہ ان کے اندر ہمت، جفاکشی اور مختلف مفید علوم وفنون میں مہارت پیدا ہو۔بڑی ہوکر لڑکیاں خود اس پہلو سے اپنی شخصیت پر توجہ دیں۔آپ ایسے ہنر سیکھیں جن سےاپنی اور دوسروں کی مدد کرسکیں۔
ہنگامی صورت حال میں آپ دوسروں کے کام آسکتی ہوں۔
فرسٹ ایڈ سے آپ اچھی طرح واقف ہوں۔
اپنی اور دوسروں کی حفاظت کے طریقے آپ جانتی ہوں۔
سائیکل، اسکوٹر اور کار چلانا آپ کو آتا ہو۔
مختلف ضرورتوں کے لیے فارم بھرنے اور درخواست جمع کرنے میں آپ دوسروں کی مدد کرسکتی ہوں۔
مختلف رفاہی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے میں آپ ضرورت مندوں کی مدد اور رہ نمائی کرسکتی ہوں۔
آپ اپنے علم وشعور کی بنا پر اپنے متعلقین کو کسی دھوکے اور فراڈ کا شکار ہونے سے بچاسکتی ہوں۔
اپنی بات کہنے کا ہنر سیکھیں
آپ نے ان صحابیہ کا نام سنا ہوگا جنھیں خطیبة النساء (oratrix)کہا جاتا ہے۔یزید بن سکن کی بیٹی اسماءجرأت مند اور بے باک خاتون تھیں۔ انھیں اپنی بات رکھنے کا سلیقہ تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ کی مجلس میں جاکر صحابہ کی موجودگی میں آپ سے بے جھجک سوال کرتیں بلکہ بسا اوقات بحث ومباحثہ کرتیں۔ آپ ان کی بات توجہ سے سنتے اور اطمینان بخش جواب دیتے۔ (تاریخ دمشق)
اللہ کے رسول ﷺ نے ان سے یہ نہیں کہتے کہ مردوں کی مجلس میں عورتوں کو بولنا نہیں چاہیے، بلکہ ان کی باتیں سنتے اور ان کی رہ نمائی کرتے۔
صحابہ کے زمانے میں ایسی کئی خواتین کا تذکرہ ملتا ہے، جو مردوں کی مجلس میں اپنی بات پوری قوت اور اعتماد کے ساتھ کہتی تھیں۔ حضرت علیؓ کو ایسی بے باک اور حق گو خواتین کا خاص طور سے ساتھ ملا تھا۔ ان میں دارمیة الحجونیة کا امیر معاویہؓ کے سامنے مکالمہ پڑھنے کے لایق ہے، جس میں وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے امیرمعاویةؓ کے مقابلے میں حضرت علیؓ کا ساتھ کیوں دیا تھا۔ (العقد الفرید)
اسی طرح أم الخیر بنت الحریش البارقیة ، عکرشة بنت اطرش اور زرقاء بنت عدی کا تذکرہ ہمیں تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ خواتین صفین کی جنگ کے موقع پر حضرت علیؓ کی فوج میں شامل تھیں۔ اور ولولہ انگیز تقریریں کرکے فوج کے جوش کو بڑھارہی تھیں۔ ان کی فصاحت وبلاغت اور قوت بیان کے سامنے کوئی نہیں ٹھہر پاتا تھا۔ (العقد الفرید)
آج ملت کو ایسی مسلم خواتین کی ضرورت ہے جو حق کی صف میں علانیہ کھڑی ہوں اور دنیا کے سامنے اپنا موقف پوری قوت اور اعتماد کے ساتھ رکھ سکیں۔وہ ملت کے اندر اپنا مقدمہ پیش کریں اور غیر اسلامی رواجوں کے تحت ان کے جو حقوق سلب کرلیے گئے ہیں ان کی بحالی کا مطالبہ کریں۔ وہ ملت کے اندر اور باہر کے ان تمام لوگوں کو فصیح و بلیغ جواب دیں جوخود ان کے بارے میں اور ان کے متعلق دینِ اسلام کے سلسلے میں غلط فہمیاں پھیلا رہے ہیں۔
تقریری صلاحیت پروان چڑھائیں
سماج پر اثر انداز ہونے کے لیے تقریری صلاحیت کا اہم رول ہوتا ہے۔ جس طرح مردوں کے درمیان مرد حضرات تقریر کرتے ہیں اور ان کے فکر و عمل میں تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح عورتوں کے درمیان کوئی خاتون تقریر کےذریعے بڑی تبدیلی لانے کی کوشش کرسکتی ہے۔
خواتین کس طرح اپنی تقریری صلاحیت کو ترقی دے کر مفید تر بنائیں، اس کے لیے مولانا مودودیؒ نے مشورہ دیا تھا:
’’جن مستورات کو اللہ تعالی نے تقریر کی صلاحیت بخشی ہے ان کو چاہیے کہ ہمارے لٹریچر کو غور سے پڑھیں۔ جب خیالات اور ذہن صاف ہوجائیں گے تو تقریر کا ڈھنگ خود بنتا جائے گا۔ خطبات سے اس سلسلے میں خاص طور پر مدد لی جاسکتی ہے۔ انداز بیان آسان سے آسان اور صاف ہو تاکہ کم سے کم لیاقت کا آدمی بھی آپ کی بات سمجھ سکے۔ مخاطب لوگوں کے ذہن اور خیالات کا لحاظ نہایت ضروری ہے۔ ابتداءً کچھ غلطیاں ہوں تو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے سارے کاموں کی طرح یہ کام بھی کرنے سے ہی آتا ہے۔‘‘(روداد، پنجم)
یہ مشورے بہت قیمتی ہیں۔ اچھی کتابوں کا مطالعہ اور موقع تلاش کرکے تقریر کرتے رہنے سے تقریری صلاحیت خوب ترقی پاتی اور نکھر تی جاتی ہے۔ اسی طرح جب نیت آسان انداز میں بات رکھنے کی ہو تو پھر مشق کا رخ بھی ادھر ہی ہوتا ہے اور انداز آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ آسان انداز میں جو بات کہی جاتی ہے وہ زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے۔
تقریر کا ایک روایتی تصور ہے، جس میں سامعین کے سامنے کھڑے ہوکر تقریر کی جاتی ہے۔
موجودہ دور میں اپنی بات رکھنے کے بہت سے طریقے سامنے آئے ہیں، جیسے: سیمینار اور ویبینار، گروپ ڈسکشن، ٹیبل ٹاک اور انٹرویو وغیرہ۔
اپنی تقریری صلاحیتوں کے ارتقا میں ایسی تمام صورتیں سامنے رکھنی چاہئیں۔کسی صورت سے نامانوس ہونے کی وجہ سے شروع میں دشواری پیش آتی ہے اور پرفارمینس اچھی نہیں ہوتی، لیکن مشق ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے۔ کمال حاصل کرنے کا شوق کارکردگی کو بہتر بناتا ہے۔
جو لوگ پہلی بار کسی مجمع میں تقریر کرنے کھڑے ہوتے ہیں، بہت گھبراتے ہیں۔ دھیرے دھیرے ہچکچاہٹ دور ہوجاتی ہے اور ماہر مقرر بن جاتے ہیں۔
اسی طرح کیمرے کے سامنے کھڑے ہوکر بولنا بعض لوگوں کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، لیکن بار بار کیمرے کا سامنا کرنے پر وہ مشکل بھی دور ہوجاتی ہے۔
غرض بہتر سے بہتر ادایگی کی نیت ہو اور مسلسل مشق ہو تو اپنی بات پیش کرنے کی مختلف صلاحیتیں ترقی پاسکتی ہیں۔
سیکھنے کے مواقع اگر اسکول میں ملیں تو وہاں ضرور فائدہ اٹھائیں۔ اگر اسکول میں یہ مواقع نہ مل سکیں تو بچیوں اور خواتین کے پروگرام کرکے ان کی مشق کریں اور کرائیں۔
تحریری صلاحیت کو ترقی دیں
تعلیم کے زمانے میں تو لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ مشغول رہتی ہیں۔ لیکن تعلیم مکمل ہونے کے بعد بہت سی خواتین کے پاس مردوں سے زیادہ وقت رہتا ہے۔ وہ دن بھر گھر میں رہتی ہیں اور پھر کام کرنے والیاں گھر کے سارے کام کردیتی ہیں۔ ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ وہ اپنے وقت کا کیا استعمال کریں؟
تحریر کا میدان ایسی بہت سی خواتین کے لیے بہترین جولان گاہ بن سکتا ہے۔ وہ تعمیری کہانیاں، افسانے اور ناول لکھ سکتی ہیں۔ اصلاحی مضامین اورفکر انگیز کتابیں لکھ سکتی ہیں۔
اچھا لکھنے کے لیے تین باتیں بہت ضروری ہیں۔
اچھی کتابیں پڑھنا، اچھا لکھنے کی مشق کرنا اور اپنی تحریر کی اصلاح لینا۔
اچھی کتابوں میں اعلی درجے کی فکر ساز کتابیں، معتبر درجے کی معلوماتی کتابیں اور معیاری ادب کی کتابیں شامل ہیں۔
اچھا لکھنے کی مشق کرنے کا مطلب یہ ہے کہ مضمون پر اتنی محنت کی جائے کہ وہ دل کش اور رواں ہوجائے۔ خوب صورت الفاظ اور محاورے ہوں، باتوں کو سلیقے کے ساتھ ترتیب دیا گیا ہو، کہیں الجھاؤ نہیں ہو، مشکل الفاظ کی جگہ آسان الفاظ ہوں اورجو مضمون لکھیں اس کے متعلق اچھی خاصی معلومات ہوں۔
اصلاح لینے کا اصول یہ ہے کہ مضمون پر پہلے خود اچھی طرح سے محنت کی جائے اور اپنی طرف سے یہ یقینی بنالیا جائے کہ کوئی کم زوری نہیں رہ گئی ہے۔ اس کے بعد کسی ماہر قلم کار کو اصلاح کی غرض سے دیا جائے۔ وہ جن مقامات کی اصلاح کرے ان کو اچھی طرح سے سمجھ لیا جائے اور نوٹ کرلیا جائے۔ اگلی تحریر میں یہ یقینی بنایا جائے کہ اس طرح کی خامیاں دوبارہ نہیں پائی جائیں گی۔
فنون لطیفہ کی صلاحیتیں اجاگر کریں
اللہ تعالی نے بہت سے انسانوں میں فنون لطیفہ کی صلاحتیں ودیعت کی ہیں۔ ان صلاحیتوں کو دریافت کرنا، نکھارنا اور پھر ان کا بامقصد تعمیری استعمال کرنا ان صلاحیتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنا ہے۔
کہانی نگاری، شعر ی اور نثری ادب پارے، نغمہ گوئی، طنز و مزاح، جائز حدود میں موسیقی و مصوّری، جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرکے السٹریشن اور ویب ڈیزائننگ وغیرہ، فنون لطیفہ کی بہت سی صلاحیتیں ہیں جنھیں ترقی دے کر جائز حدود میں ان کا بامقصد استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دینی جذبہ رکھنے والی خواتین کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔
ٹکنالوجی میں مہارت حاصل کریں
سائنسی ایجادات کے میدان میں خواتین کی حصہ داری بہت کم نظر آتی ہے۔ اس میدان میں ایک مسلم خاتون کا نام کافی نمایاں ہے۔
اسطرلاب (astrolabe) ایک آلہ ہے جو زمانہ قدیم سےزمین کی جغرافیائی سطح اور ناہموار سطح کی پیمائش کے لیے مستعمل ہے۔قرون وسطی کے زمانہ میں یہ آلہ فلکیات اور ریاضی کے اہم ترین آلات میں شمار کیا جاتا تھا۔
اسطرلاب کی تاریخ میں ایک نمایاں نام مریم اسطرلابی کا ہے۔ وہ دسویں صدی عیسوی میں شام کے شہر حلب میں تھیں۔ ان کے والد بھی علم فلکیات اور اسطرلاب کی انجینئرنگ کے ماہر تھے۔ تیئیس سال کی عمر میں مریم نے سادہ اسطرلاب سے آگے بڑھ کر تہہ دار اسطرلاب ایجاد کرنے میں کام یابی حاصل کی۔ جو سادہ اسطرلاب سے زیادہ پہلوؤں کا حامل تھا۔ اس طرح انسانی ایجادات کی تاریخ میں ایک مسلم خاتون کا نام ثبت ہوگیا۔ (دیکھیں ویکی پیڈیا: Al-Ijliyyah)
دورِ حاضر میں جتنی اہمیت ایجادات کی ہے، اس سے کم اہمیت ایجادات کے استعمال کی نہیں ہے۔ انفارمیشن ٹکنالوجی کو ایجاد کرنے والوں نے انسانی زندگی پر گہرا اثر ڈالا ہے، انفارمیشن ٹکنالوجی کو استعمال کرنے والے بھی انسانی زندگی پر گہرا اثر ڈال رہے ہیں۔
اِس زمانے کی مسلم خواتین اگر حالات کے ناموافق ہونے کی وجہ سے ٹکنالوجی کی ترقی میں حصہ نہیں لےسکتیں، تو کم از کم اعلی مقاصد کی خاطرجدید ٹکنالوجی کا بھرپور استعمال تو کرہی سکتی ہیں۔
ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے بعض خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن ان کی انتھک جدوجہد اور وسیع خدمات کا اعتراف کرنا انصاف کا تقاضا ہے۔ انھوں نے اعلی دینی تعلیم حاصل کی، قرآن مجید کی تعلیم کو اپنا خاص موضوع بنایا اور جدید ذرائع ابلاغ کا استعمال کرکے دنیا کے بہت سے ملکوں میں قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام کیا، جس سے لاکھوں کی تعداد میں مسلم خواتین نے فائدہ اٹھایا۔
جدید ٹکنالوجی نے عورت کے گھر سے نکلنے کی بحث کو نیا رخ دیا ہے۔صنعتی دور میں صنعت و تجارت میں حصہ لینے کے لیے عورت کا گھر سے باہر نکلنا اور مردوں کے ساتھ اختلاط سے دوچار ہونا ضروری سا تھا، لیکن جدید ٹکنالوجی نے ایسے امکانات پیدا کردیے ہیں کہ مسلم عورتیں گھر میں رہتے ہوئے بہت سی معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ جدید ٹکنالوجی کے استعمال کی مہارت حاصل کریں۔
مفید سے مفید تر چیزیں سیکھیں
کسی انسان کے لیے بڑی خوبی کی بات یہ ہے کہ اس کی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچے۔ ایک حدیث کے الفاظ ہیں: أحب الناس إلى الله تعالى أنفعهم للناس (طبرانی) ’’انسانوںمیں اللہ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو انسانوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہوتا ہے۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے: خیر الناس أنفعهم للناس (طبرانی) ’’انسانوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو انسانوں کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش ہوتا ہے۔‘‘
نفع بخش بننے کے لیے سچا جذبہ ضروری ہے، جب جذبہ صادق ہوگا تو یقینًا نفع بخش علوم اور مہارتیں حاصل کرنے کی طرف توجہ بڑھے گی۔
ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ اپنی بیوی حضر ت حفصہؓ کے گھر تشریف لے گئے، وہاں ایک صحابیہ حضرت شفاؓ تشریف رکھتی تھیں۔ آپ نے فرمایا: شفا تم نے جس طرح حفصہ کو لکھنا سکھادیا ہے، اسی طرح پھوڑے پھنسی کا علاج کرنا بھی سکھادو۔ (سنن أبی داود)
علامہ شیخ محمد عبدہ لکھتے ہیں:
’’ عورت پر اپنے دین کے عقائد، آداب اور عبادات کی صورت میں جتنا کچھ سیکھنا واجب ہے، وہ متعین اور محدود ہے۔ لیکن اپنی گھرداری، اولاد کی تربیت اور دنیا کے دیگر امور ومعاملات کے لیے جو کچھ سیکھنا مطلوب ہے، اس کا دائرہ وسیع ہے اور وہ زمان ومکان اور حالات کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے۔‘‘(تفسیر المنار)
اپنی حفاظت کے لیے تیار رہیں
غزوہ خندق کے موقع سے اللہ کے رسولﷺ نے تمام عورتوں کو ایک قلعہ میں ٹھہرادیا تھا۔ ایک یہودی قلعہ کی طرف پتہ لگانے آیا کہ اندر مرد بھی ہیں یا صرف عورتیں ہیں۔ وہ آکر دیوار سے اندر جھانکنے لگا۔ حضرت صفیہؓ کی نگاہ پڑ گئی، انھوں نے ایک بانس لیا اور اس پر ایسا وار کیا کہ وہ مر گیا۔ اس کے بعد اس کا سر کاٹ کر دور یہودیوں کی طرف اچھا ل دیا۔اپنے ساتھی کا یہ حشر دیکھ کر ان کے دل میں خوف بیٹھ گیا کہ اندر مرد سپاہی موجود ہیں۔ پھر انھوں نے ادھر کی طرف پھٹکنے کی جرأت نہیں کی۔ (سیر أعلام النبلاء)
اس طرح اللہ کے رسولﷺ کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اپنی قوت و ہمت اور دانائی سے تمام عورتوں کو تحفظ عطا کیا۔
مردوں کو عورتوں کا محافظ مقرر کیا گیا ہے۔ جو عورتیں اپنے مردوں کو بزدل اور عیش کوش بناتی ہیں، وہ نہ ان کے حق میں اچھا کرتی ہیں نہ اپنے اور نہ سماج کے حق میں۔عورتوں کو فطرت کے اس انتظام کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اپنے محافظ مردوں کی قوت اور ہمت بڑھانی چاہیے۔
لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی حفاظت کے لیے مرد ہر وقت موجود ہوں یا تنہا ان کی حفاظت کے لیے کافی ہوں۔ اس لیے عورتوں کو اپنی حفاظت خود کرنے کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے۔ نسوانی حدود اور قانونی دائرے میں رہتے ہوئے اپنے دفاع کے لیے جو کچھ سیکھا جاسکتا ہو اور جو وسائل حاصل کیے جاسکتے ہوں، ان میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔
اس وقت نہ صرف ہمارے اپنے ملک میں، بلکہ پوری دنیا میں عورت بہت غیر محفوظ ہوگئی ہے اور اس کے خلاف ہونے والی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ ساتھ ہی اس کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے کہ عورتیں اپنا دفاع کرنے کی تربیت حاصل کریں۔یہ بات شریعت کے خلاف نہیں ہے۔ بلکہ اپنی جان اور آبرو کی حفاظت کرنا تو شریعت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔
مولانا مودودیؒ عورتوں کو مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں:
’’عورتوں کو اس کے لیے تیار ہونا چاہیے کہ بوقت ضرورت اپنی حفاظت خود کرسکیں، ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوسکیں اور مصیبت کے وقت مردوں کے لیے بار اور رکاوٹ بننے کے بجائے ان کی قوت میں اضافہ کرنے کا موجب ہوں۔ میں تو یہ مشورہ دوں گا کہ بھائی اپنی بہنوں کو اگر ممکن ہوسکے تو گھروں کے اندر سائیکل کی سواری بھی سکھادیں تاکہ ضرورت کے وقت اس سے کام لیا جاسکے۔‘‘ (روداد، پنجم)
یہ پرانے زمانےکی بات ہے، اب تو اس کےمواقع ہیں کہ عورتیں پردے کا خیال کرتے ہوئے گھر کے باہر نہ صرف سائیکل چلانا سیکھ لیں، بلکہ موٹر سائیکل اور موٹر کار بھی چلانا سیکھ لیں۔
وہ مارشل آرٹ بھی اتنا سیکھ لیں کہ اپنی حفاظت خود کرسکیں۔
وہ حکومت کی طرف سے فراہم کی گئی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دفاعی ہتھیاروں کی ٹریننگ بھی لے سکتی ہیں۔ جیسے این سی سی وغیرہ۔
اس کے علاوہ ناگہانی صورت حال میں اپنے بچاؤ کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے، اس سلسلے میں ضروری آگاہی ایک خاتون کو ضرور ہونی چاہیے۔
تاریخ میں آتا ہے کہ ایک اموی گورنر کے زمانے میں مدینہ چوروں اور لٹیروں کی آماج گاہ بنا ہوا تھا۔ اس زمانے میں حضرت اسماءؓ حفاظت کے لیے اپنے سرہانے ایک خنجر رکھا کرتی تھیں۔ (تاریخ دمشق)
ذاتی ارتقا کے لیے وقت نکالیں
ذاتی ارتقا کے منصوبوں پر عمل کرنے میں بہت بڑی رکاوٹ روز مرہ کی مصروفیات ہوتی ہیں۔ یہ مصروفیات لڑکیوں کو خاص طور سے پیش آتی ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف انھیں تعلیم پر توجہ دینی ہوتی ہے دوسری طرف گھر کے کاموں کی ذمے داریاں بھی انھی پر ہوتی ہیں۔ چائے بنانے سے لے کر کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور استری کرنے سے لے کر گھر کی صفائی تک، گھر میں رہتے ہوئے گھر کے بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔ شادی کے بعد روز مرہ کی مصروفیات اور بڑھ جاتی ہیں۔
لیکن اگر وقت کی صحیح تنظیم کی جائے اور وقت ضائع کرنے والی بہت سی عادتوں سے چھٹکارا پالیا جائے، تو ذاتی ارتقا کے منصوبوں پر عمل کرنے کے لیے بھی وقت نکل سکتا ہے۔
وقت اور مصروفیات کا صحیح جائزہ
حقیقی مصروفیات کا عذر اپنی جگہ ہے، لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ جن گھروں میں کام کرنے والیاں ہوتی ہیں، ان گھروں کی خواتین بھی مصروفیات کا گلہ کرتی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ بہت سے گھروں میں روز مرہ کی مصروفیات اصل رکاوٹ نہیں ہیں، بلکہ ان مصروفیات کا بہانہ اصل رکاوٹ ہے۔
اس کا اندازہ کرنے کے لیے اپنے سے زیادہ مصروف خواتین کو دیکھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر جن لڑکیوں کی ابھی شادی نہیں ہوئی ہے، یا شادی ہوئی ہے مگر ابھی بچے نہیں ہیں، وہ ان خواتین کو دیکھیں جن کے بچے ہیں اور سوچیں کہ ان کے پاس بچوں کی پرورش کے لیے الگ سے اتنا زیادہ وقت کہاں سے نکل آیا۔
جن گھروں میں کام والیاں آتی ہیں، وہ ان خواتین کو دیکھیں جن کے گھر میں کام والیاں نہیں آتی ہیں اور سوچیں کہ ان کے پاس گھر کا سارا کام کرنے کے لیے کہاں سے وقت نکل آتا ہے۔
اسی طرح جو خواتین بچوں کی پرورش بھی کرتی ہیں اورباہر ملازمت بھی کرتی ہیں انھیں دیکھیں کہ انھیں ملازمت کے لیے کہاں سے اتنا وقت مل جاتا ہے۔
اس طرح کے جائزے سے یہ حقیقت آشکارا ہوگی کہ ہمارا بہت سا وقت روزانہ بغیر کسی صحیح استعمال کے گزر جاتا ہے۔دانائی کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت کا سراغ لگایا جائے اور اسے اپنے ذاتی ارتقا کے لیے استعمال کیا جائے۔
ایک مجلس میں خواتین کے کردار کا تذکرہ ہورہا تھا، ایک صاحب نے جوشیلے لہجے میں کہا: ہم اپنی خواتین سے روز روز بریانی اور قورمہ بنانےکی فرمائش کرتے ہیں، بھلا انھیں کیسےدین کے کام کے لیے وقت مل سکتا ہے۔اس پر دوسرے صاحب نے لقمہ دیا: ان خواتین کی بات چھوڑیے جو اپنے گھر والوں کو قورمہ اور بریانی کھلانے کی مشقت اٹھاتی ہیں، المیہ تو یہ ہے کہ جو خواتین اپنے گھر والوں کو صرف سادہ کھانے کھلاتی ہیں، وہ بھی دین کا کام نہیں کرتی ہیں۔اصل مسئلہ وقت کی کمی کا نہیں ہے، وقت کے بامقصد اور بھر پور استعمال کا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وقت کچھ نہ کچھ سبھی کے پاس ہوتا ہے، بس اسے استعمال کرنے کی طرف سنجیدہ توجہ نہیں جاتی۔
شخصیت کو چمکانے والے کام پہلے کرلیں
شخصیت کو چار چاند لگانے والے کاموں سے غفلت کی ایک وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ ان کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا ہے، لیکن اس کی دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان کی اہمیت کا خوب احساس ہوتا ہے، مگر آپ کے خیال میں انھیں ابھی کرنا ضروری نہیں ہوتا، بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ بہت سے کام وہ ہوتے ہیں جن سے آپ کو کچھ خاص فائدہ نہیں ہوتا ہے، لیکن انھیں آپ ابھی کرنا ضروری سمجھتی ہیں۔
مثال کے طور پر آپ تجوید کے کلاس لینا چاہتی ہیں، عربی یا انگریزی زبان سیکھنا چاہتی ہیں، یا رسالے میں اشاعت کے لیے مضمون لکھنا چاہتی ہیں، یا درس قرآن کی تیاری کرنا چاہتی ہیں، یا کمپیوٹر کا کوئی کورس کرنا چاہتی ہیں، مگرآپ اسے ٹالتی رہتی ہیں، کیوں کہ آپ کو لگتا ہے کہ یہ کام ابھی کرنا ضروری نہیں ہیں، بعد میں بھی کیا جاسکتا ہے۔
لیکن ٹی وی سیریل پوری پابندی سے اس کے وقت پر دیکھتی ہیں۔
واٹس اپ پر ہورہی فضول بحث میں جم کر حصہ لیتی ہیں، اور دیر تک اس میں مشغول رہتی ہیں۔
شخصیت کو ترقی دینے کے لیے کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ٹی وی اور موبائل کی ان چیزوں کو جو اہم اور ضروری نہیں ہیں، نظر انداز کرکے وہ وقت شخصیت کی تعمیر کے کسی منصوبے میں لگایا جائے؟
دینی لٹریچر کا مطالعہ کرنے کے لیے روزانہ ایک گھنٹہ مخصوص کرنا آپ کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے، جب کہ روز آپ کے پاس کسی نہ کسی سہیلی کا فون آجاتا ہے اور آپ اس سے دیر دیر تک باتیں کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ باتیں دل لگی اور وقت گزاری کے لیے ہوتی ہیں، ان کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ وقت کا ضیاع ہی ہوتا ہے، آپ گفتگو مختصر بھی کرسکتی ہیں، لیکن آپ ایسا نہیں کرتی ہیں، کیوں کہ آپ اپنے وقت کی قدر و قیمت کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔
آپ کا قیمتی وقت کہاں صرف ہورہا ہے، اس کا سختی سے جائزہ لیں۔
واٹس اپ آپ کا کتنا وقت لیتا ہے؟
فیس بک کے صفحات پلٹتے رہنے میں آپ کا کتنا وقت صرف ہوجاتا ہے؟
فون پر غیر ضروری گفتگو کتنی دیر ہوتی ہے؟
صبح سے شام تک دیکھے جانے والے ویڈیو میں کتنے مفید اور کتنے غیر مفید ہوتے ہیں؟
کتنا وقت غیر ضروری تبصروں اور لاحاصل گفتگو میں گزرتا ہے؟
اور کتنا زیادہ وقت ہے جو کچھ بھی کیے بغیر گزرتا رہتا ہے؟
شخصیت کے ارتقا کا راز یہ ہے کہ شخصیت کو چمکانے والے اہم ترین کام آپ کے نزدیک ضروری اور فوری قرار پائیں۔
جو سیکھنا ہے، وہ آج سے شروع کریں، تبھی انھیں سیکھنا ممکن ہوگا، ورنہ دن، مہینے اور سال گزرتے رہیں گے۔
پیش قدمی آپ کو کرنی ہوگی
عظیم صحابیاتؓ کی سیرت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خواتین کو دین کے راستے میں عظیم کردار ادا کرنا ہے تو انھیں خود پیش قدمی کرنی ہوگی۔بڑے کام کرنے والے کبھی اس کا انتظار نہیں کرتے کہ انھیں کوئی اکسائے اور ان کے لیے راستہ ہم وار کرے۔ بڑے کام کرنے والے خود آگے بڑھ کر اپنا راستہ بناتے ہیں۔ پیش قدمی کا یہ رویہ ہمیں عظیم صحابیاتؓ کے یہاں نمایاں نظر آتا ہے۔
علم حاصل کرنے کا جذبہ انھیں اللہ کے رسولﷺ کی بارگاہ میں لے گیا اور انھوں نے درخواست کی کہ آپ ان کی تعلیم کے لیے ایک دن مخصوص فرمائیں۔روایت کے الفاظ ہیں: ایک عورت اللہ کے رسولﷺ کے پاس آئی اور کہا: اے اللہ کے رسول، آپ کی تمام باتیں مرد لے اڑتے ہیں، ہمارے لیے ایک دن مخصوص فرمائیں، جس دن ہم آپ کے پاس آئیں اور آپ ہمیں وہ کچھ بتائیں جو اللہ نے آپ کو بتایا ہے۔ آپ نے ایک دن متعین فرمایا، خواتین ایک جگہ جمع ہوئیں، اللہ کے رسولﷺ ان کے پاس آئے اور انھیں اللہ کی دی ہوئی تعلیمات سمجھائیں۔(مسلم)
اسی طرح جب دشمنوں سے مقابلے کے لیے مسلمان تیار ہوکر نکلتے تو مسلم عورتیں بھی ان کی پشت پناہی کے لیے نکل پڑتیں۔ ایک روایت کے مطابق: خیبر کے موقع پر چھ عورتیں بھی لشکر میں شامل ہوگئیں، جب اللہ کے رسول ﷺ کو معلوم ہوا تو آپ نے انھیں بلایا اور پوچھا کہ تم کس کی اجازت سے آئی ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہم اس لیے آئے ہیں کہ مردوں کو تیر اٹھاکر دیں، لوگوں کو ستو گھول کر پلائیں، ہمارے پاس زخمیوں کے علاج کا سامان بھی ہے، ہم اللہ کے راستے میں مدد گار بننا چاہتے ہیں۔بہرحال اللہ کے رسولﷺ نے انھیں(کسی مصلحت کے تحت) واپس کردیا۔ (مسند احمد)
حضرت ام ورقہؓ کہتی ہیں کہ جب نبی ﷺ بدر کے موقع پر تیار ہوکر نکل رہے تھے، تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول، مجھے جنگ میں شامل ہونے کی اجازت دیجیے، میں بیماروں کی تیمار داری کروں گی، ہوسکتا ہے کہ اللہ میری آرزوئے شہادت بھی قبول فرمالے۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: آپ گھر میں رہیں، اللہ تعالی شہادت کی آرزو پوری کرے گا۔ اس خوش خبری کے بعد ان کا لقب شہیدہ ہوگیا۔ (سنن ابی داود)
غرض اللہ کے رسولﷺ حسب ضرورت و موقع ان عورتوں کو ساتھ جانے کی اجازت دیتے، جن کی شرکت مفید معلوم ہوتی اور باقی کو تسلی دے کر رخصت کردیتے۔
یہ کچھ مثالیں ہیں، جو بتاتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ کی تربیت یافتہ خواتین خود بڑھ کر مواقع تلاش کرتیں، اپنی خدمات پیش کرتیں اور کسی کے مہمیز لگانے کا انتظار نہیں کرتی تھیں۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2022