مولانا سید جلال الدین عمری، امیر جماعت اسلامی ہند ہر برس مرکز جماعت کے کیمپس میں واقع مسجد اشاعتِ اسلام میں عیدین کا خطبہ دیتے ہیں، جسے سننے کے لیے لوگ دور دور سے حاضر ہوتے ہیں اور بہت توجہ اور انہماک سے خطبہ سنتے ہیں۔ امسال مسجد اشاعتِ اسلام کے توسیع شدہ حصے میں نماز عید الاضحی ادا کی گئی۔ نمازیوں کی بہت بڑی تعداد شریک تھی۔ مولانا نے اب کی بار جو خطبہ دیا اس میں ملک کے موجودہ حالات میں قرآن و سنت کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے رہنمائی فراہم کی۔ انہوں نے فرمایا کہ ان حالات میں مسلمانوں کو ملک کی رہ نمائی کے لیے آگے آنا چاہیے۔ یہ ان کی ذمہ داری ہے، اس کے بغیر وہ ملک سے اپنے تعلق کا حق ادا نہیں کرسکتے۔ خطبہ کی افادیت کے پیش نظر اسے ذیل میںشائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
حمد و صلوٰۃ کے بعد!
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ – بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ڬ دِيْنًا قِــيَمًا مِّلَّةَ اِبْرٰهِيْمَ حَنِيْفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْن ۚ قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۚ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ
’’کہو، بے شک میرے رب نے مجھے صراطِ مستقیم دکھائی ہے، یعنی سیدھا او رمضبوط دین، ابراہیم کی راہ، جو یکسو تھے اور مشرکین میں سے نہ تھے۔ کہو، بے شک میری نماز، میری قربانی، میری عبادت، میرا جینا اور مرنا، سب اللہ کے لیے ہے، جو رب العالمین ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اللہ کے فرماں برداروں میں سے ہوں۔(الانعام:۱۶۱-۱۶۳)
بزرگو، بھائیو، عزیزو، محترم خواتین، بہنو اور بیٹیو!
میں صمیم قلب سے آپ سب کو عید الاضحی کی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
عید الفطر کے وقت ہمارے ملک کے جو حالات تھے وہی اس وقت بھی ہیں۔ دو ماہ دس دن بعد ان میں کوئی فرق نہیں واقع ہوا ہے، بلکہ حالات زیادہ ہی خراب رُخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ملک میں لاقانونیت بڑھ رہی ہے۔ جس کے ہاتھ میں طاقت ہے وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھ رہا ہے۔ ہجومی تشدد [Mob Lynching]کے واقعات اسی کا نتیجہ ہیں۔ اقلیتوں اور کم زور طبقات کو جور و ستم کا ہدف بنایا جا رہا ہے۔ خواتین کی عزت و آبرو اپنے گھر اور خاندان تک میں محفوظ نہیں ہے۔بدکاری( ریپ) کے واقعات روز افزوں ہیں، بے سہارا لڑکیوں کی پناہ گاہوں کے دروازے ہوس پرستوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا میں خواتین سب سے زیادہ ہندوستان میں غیر محفوظ ہیں۔ ہم جنسی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ملک بعض پہلوؤں سے ترقی کر رہا ہے، لیکن معاشی عدم مساوات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملکی معیشت پر چند سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ امیر اور غریب کا فرق بڑھ رہا ہے۔ آزادیِ رائے اور اظہارِ خیال پر بندشیں ہیں۔
یہ سب کچھ ہماری نگاہوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان حالات میں ہم مہر بہ لب رہیں اور خاموشی ہی میں عافیت سمجھیں؟
اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ اس ملک میں خود ہمارے مسائل ہیں اور بہت سنگین مسائل ہیں، جن کو حل کرنے میں ہماری توانائی صرف ہو رہی ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ نہ بھولیے کہ یہ ملک ہمارا ملک ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کے حالات و مسائل سے بے تعلق نہ رہیں اور اسے غلط رخ پر نہ جانے دیں۔ ملک کے بگاڑ سے ہماری بے تعلقی اس کے ساتھ سخت ناانصافی ہوگی۔ اس کی خیرخواہی کا شدید تقاضا ہے کہ اسے صحیح رخ دینے کی سعی کی جائے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ملک غلط رخ پر جائے گا تو ہم بھی اس کے نتائجِ بد سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
رسول اللہﷺ کی بعثت کے بعد صحابۂ کرامؓ سخت آزمائشوں سے گزر رہے تھے۔ قرآن مجید نے انہیں صبر و ثبات اختیار کرنے کا حکم دیا، دوسری طرف رسول اللہﷺ سے کہا گیا کہ آپ انہیں اپنے سے قریب رکھیں اور ان کی تربیت کا اہتمام کریں:
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَيْنٰكَ عَنْهُمْ ۚ تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ۚ (الکہف: ۲۸)
’’اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جمائے رکھو جو اپنے رب کو صبح و شام اس کی رضا کے لیے پکارتے ہیں۔ تمہاری نگاہیں حیاتِ دنیا کی زیب و زینت کی طلب میں ان سے ہٹنے نہ پائیں‘‘۔
برادرانِ محترم اور محترم خواتین!
رسول اللہﷺ کی بعثت کے وقت عرب میں وہ ساری خرابیاں تھیں جو موجودہ دور اور ہمارے ملک میں پائی جاتی ہیں۔ ان حالات میں آپ کو حکم ہوا: قُلْ اِنَّنِيْ هَدٰىنِيْ رَبِّيْٓ اِلٰي صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍکہو، بے شک میرے رب نے مجھے صراطِ مستقیم کی ہدایت کی ہے۔‘‘
یہ اس حقیقت کا اظہار ہے کہ انسان اپنے لیے جو بھی راستہ نکالے گا وہ خامیوں سے پاک نہ ہوگا۔ اس سے زندگی لازماً غلط رخ اختیار کرے گی۔ ا س کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت چاہیے۔ آپﷺ نے اپنی قوم سے، جو آپ کی اولین مخاطب تھی، کہا کہ تم راہِ راست سے منحرف ہوچکے ہو۔ زندگی کی پرپیچ راہوں میں صراط مستقیم کیا ہے؟اللہ تعالیٰ نے وہ مجھے دکھائی ہے،اسے اختیار کر کے تم اپنی زندگی سنوار سکتے ہو۔ یہ اللہ کا نازل کردہ دین ہے، جو پوری زندگی کے لیے راہ نمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ دھوکا یا فریب نہیں، بلکہ اس کی بنیادیں انتہائی مضبوط ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے، جو توحید خالص کے علم بردار تھے اور اللہ کی عبادت میں یکسو تھے۔ وہ راستہ یہ ہے کہ آدمی پوری طرح خود کو اللہ تعالیٰ کے حوالہ کردے۔ اسی کا آپ کو حکم ہوا:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ. لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (الانعام:۱۶۲،۱۶۳)
’’کہو، بے شک میری نماز، میری قربانی اور میری عبادت، میرا جینا اور مرنا، سب اللہ کے لیے ہے، جو رب العالمین ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اللہ کے فرماں برداروں میں سے ہوں‘‘۔
یہ بات دوسری جگہ ان الفاظ میں کہی گئی ہے:
قُلْ اِنِّىْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّيْنَ وَ اُمِرْتُ لِاَنْ اَكُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِيْنَ
’’کہو، بے شک مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت اس طرح کروں کہ پورا دین اسی کے لیے خالص ہوجائے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلا فرماں بردار ہوجاؤں‘‘۔ (الزمر: ۱۱،۱۲)
انسان جب اپنی پوری زندگی اس طرح اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیتا ہے تو اسے للہیت او رخدا پرستی کی معراج حاصل ہوتی ہے اور وہ دنیا اور آخرت کی فوز و فلاح سے ہم کنار ہوتا ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَاۗءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ لَھُمُ الْبُشْرٰي فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَاوَ فِي الْاٰخِرَةِ ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ ھُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ (یونس:۶۲-۶۴)
’’سنو! بے شک جو اولیاء اللہ (اللہ کے دوست) ہیں ان کے لیے نہ خوف ہوگا اور نہ وہ رنج و غم میں مبتلا ہوں گے۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنھوں نے تقویٰ اختیار کیا، ان کے لیے دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے۔ اللہ کے قانون میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ یہی فوز عظیم ہے‘‘۔
ہمارے کرنے کے دو کام ہیں:
ایک یہ کہ اسلام نے جو صراطِ مستقیم دکھائی ہے اس پر خود گام زن ہوں۔ اپنی پوری زندگی اللہ کے احکام کے تابع کردیں۔ اللہ کے رسول جس طرح اعلان کرتے ہیں ’اَناَ اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ‘ آپ بھی اس موقف میں ہوں کہ کہہ سکیں کہ اللہ کے دین پر عمل کرنے میں ہم سب سے آگے ہیں۔ آپ کا دین و ایمان آپ سے زندگی بھر اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کا مطالبہ کرتا ہے۔ وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلّاَ وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ (تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم اللہ کے فرماں بردار رہو) یعنی جب بھی موت آئے تمہیں اللہ کا فرماں بردار پائے۔ سوچیے، کیا ہماری زندگی اس کا ثبوت فراہم کر رہی ہے یا یہ ہدایات صرف ہمارے لیے بحث اور گفتگو کا موضوع ہیں؟
دوسرا کام یہ کہ اللہ نے جو صراطِ مستقیم دکھائی ہے، دنیا کو اس کی دعوت دیجیے۔ رسولِ اکرمﷺ سے کہا گیا:
قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (یوسف:۱۰۸)
’’کہو، یہ میرا راستہ ہے۔ میں اللہ کی طرف دعوت دے رہا ہوں۔ میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور پاک ہے اللہ شرک سے (جس کا ارتکاب یہ کر رہے ہیں) اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔‘‘
دوستو اور ساتھیو!
آج دنیا اپنی تمام تر ترقیوں کے باوجود ظلمت میں بھٹک رہی ہے۔ آپ اللہ کے عطا کردہ نورِ ہدایت کو عام کیجیے۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جس ملت کے پاس اللہ تعالیٰ کا تاب ناک دین ہے، جو نور ہی نور ہے، جو آفتابِ ہدایت ہے، وہ دوسروں سے زندگی کا راستہ پوچھتی پھر رہی ہے۔ آپ دریوزہ گر بن کر نہ رہیے، پیکر جود و عطا بنئے۔ دنیا کے پیچھے چلنے والے نہیں، اس کے رہبر و راہ نما بنئے۔ یہی آپ کا صحیح مقام ہے۔ اس سے ملک بھی سیدھی راہ پر چلے گا اور آپ کے مسائل بھی حل ہوں گے۔ اللہ میری اور آپ کی مدد کرے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2018