’’جارحانہ قوم پرستی — ایک جائزہ‘‘ فروری ۲۰۱۴ء پیش نظر ہے۔ میرے نزدیک وقت کا یہ اس قدر اہم موضوع ہے جس کے ہر پہلو پر تفصیل کے ساتھ بحث ہونی چاہیے تھی۔ قائدین ملت اور دانشوران قوم کو اس موضوع پر سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کرنا چاہیے تاکہ قوم کی صحیح رہنمائی ہوسکے۔ اسی سلسلے میں چند باتیں عرض کرناچاہتا ہوں:
(۱) آپ نے تحریر کیا ہے: ’’ان کا مطالبہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے عقائد، شعائر، تہذیب اورثقافت سے دستبردار ہوجائیں‘‘۔ سوال اٹھتا ہے کہ صرف مسلمانوں ہی سے ایسا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ عیسائی، بودھ، جین اور سکھ بھی عقائد وتہذیب اور زبان جیسے کئی معاملات میں ہندوئوں کے ساتھ بہت کچھ اختلافات رکھتے ہیں۔ خود ہندوئوں میں بھی آپس میں بہت سے بنیادی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ایسا وہ اس لیے چاہتے ہیں کیونکہ وہ مسلمانوں اور اسلام سے اپنی تہذیب، کلچر، مذہب اور ایک حد تک اپنے اقتدار کے لیے بھی خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ اس لیے ان کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کو اس قدر کمزور اور دباکر رکھا جائے کہ یہ لوگ کبھی بھی سر ابھارنے کی ہمت نہ کرسکیں۔ ان کا اصل مطالبہ وہی ہے جو آپ نے آگے چل کر تحریر کیا ہے: ’’مسلمان چاہیں تو ذاتی زندگی میں مسلمان رہیں لیکن معاشرتی اور سیاسی زندگی میں اسلام کو ترک کردیں اور ملت ہونے کے احساس سے عملاً عاری ہوجائیں‘‘۔ ہندو مسلم فسادات، مسجدوں پر حملے، دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنا اور مسلم پرسنل لا وغیرہ یہ سب اسی سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔ جب تک مسلمانوں کی طرف سے ہندوئوں کا یہ خوف دور نہیں ہوگا، مختلف بہانوں سے مسلمانوں کو اسی طرح خوف زدہ کیا جاتا رہے گا۔ الا یہ کہ حالات ہی تبدیل ہوجائیں۔
(۲) افراد اور ہر گروہ کو اپنے مذہب اور عقائد پر عمل کرنے اور اس کی دعوت وتشہیر کی آزادی ہونی چاہیے۔ سیکولرزم اگر اسی کا نام ہے تو اس اصولی بات سے کس کو اختلاف ہوسکتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ’’میثاق مدینہ‘‘ کے تحت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا اس میں ایک بات یہ بھی تھی کہ دونوں گروہوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہوگی۔ آج کے دور میں اسی رواداری کا نام اگر سیکولرزم ہے تو ایسے سیکولرزم سے ہمیں کیا پریشانی ہوسکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیکولرزم اصل مسئلہ نہیں ہے بلکہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ مذہب اور اسٹیٹ کی حدود کیا ہیں؟ اس سلسلے میں مسلمانوں کا موقف بالکل واضح ہے۔ ہم مسلمان جب اپنے مسلم پرسنل لا کی بات کرتے ہیں تو اس لیے نہیں کرتے کہ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے بلکہ ہمارا یہ مطالبہ صرف اس لیے ہے کیونکہ ہمارے نزدیک یہ عدل وانصاف اور حق کا معاملہ ہے۔ مذہب ہو یا اسٹیٹ دونوں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ عدل وانصاف کے تقاضے ہر قیمت پر پورے کیے جائیں۔
(۳) آگے آپ نے تحریر کیا ہے: ’’بہرصورت جارحانہ قوم پرستی کے علمبرداروں کی یہ رائے ہے کہ مسلمانوں نے سیکولرزم کا نام صرف حربے کے طور پر استعمال کیا ہے‘‘۔ صرف جارحانہ قوم پرست افراد ہی نہیں بلکہ اس طرح کے مسائل پر غوروفکر کرنے والے دیگر افراد بھی ہمارے بارے میں ایسا ہی سوچتے ہیں ۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی بات کا صاف صاف اظہار کرتے ہیں جبکہ دوسرے کچھ افراد تھوڑا تکلف سے کام لیتے ہوئے اپنے خیالات کے اظہار میں تھوڑا حتیاط سے کام لیتے ہیں۔ میرے نزدیک مسلمانوں کو اس سلسلے میں اپنی پوزیشن صاف کرنا چاہئے— اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ حقیقی شارع صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اس کے حکم اور مرضی کے خلاف قانون بنانے یا حکم دینے کا اختیار کسی کو نہیں ہے۔ خواہ وہ ملک کے عوام ہی کیوں نہ ہوں۔ لیکن ساتھ ہی اسلام لوگوں کو یہ آزادی بھی دیتا ہے کہ وہ چاہیں تو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کسی غیر اسلامی نظام زندگی کو اپنے لیے پسند کرسکتے ہیں۔ اسی آزادی کا نام اگر جمہوریت ہے تو اسلام بھی لا اکراہ فی الدین کی تعلیم دیتا ہے۔ جس طرح کانگریس، بی جے پی ، کمیونسٹ ، سماجوادی پارٹی اور ملک کی دیگر پارٹیوں کو حق حاصل ہے کہ وہ رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کی کوشش کریں، عوام اگر موقع دیں تو حکومت کریں اور اگر ضرورت محسوس کریں تو ملک کے دستور میں بھی تبدیلی کرسکتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی یہ دستوری حق حاصل ہے کہ وہ ملک اور انسانیت کی بھلائی اور عدل وانصاف کے قیام کے لیے لوگوں پر اسلامی تعلیمات کا حق ہونا واضح کریں ، یہاں تک کہ ملک کی غالب اکثریت اسلامی نظام کو بحیثیت نظام زندگی قبول کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ لیکن ملک کے عوام اگر اسلامی نظام کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ ہوں تو کیا قوت کے ذریعے اسلامی احکام کی پابندی کرنے پر لوگوں کو مجبور کیاجائے گا۔ ظاہر ہے اسلامی تعلیمات کا معمولی سا علم رکھنے والا انسان بھی اس طرح کی باتوں کا انکار کرے گا۔ ملک میں جب جمہوری نظام کی بات ہوتی ہے تو کچھ لوگ اسلام اور موجودہ لادینی جمہوریت کا موازنہ شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ ہندوستان کے موجودہ حالات کے پیش نظر موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ اسلامی نظام کیا ہے یا موجودہ لادینی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت میں بنیادی فرق کیا ہے؟ بلکہ فی الحال ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق موجودہ جمہوریت کے ساتھ ہماراطرز عمل کیا ہونا چاہئے۔
(۴) آگے آپ نے تحریر کیا ہے: ’’غیر مسلموں سے ساری گفتگو اور ربط میں اسلام کا ذکر کہیں نہیں آنے دیتے اور نتیجتاً دعوتی کام سے قاصر رہتے ہیں‘‘۔ مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ جمہوریت اور سیکولرزم کے تعلق سے ہماراذہن خود ہی صاف نہیں ہے۔ اس لیے صاف صاف اسلام کی بات کرتے ہوئے ہم لوگ ڈر رہے ہوتے ہیں کہ کہیں جمہوریت مخالف اور انتہا پسند ہونے کا الزام ہم پر نہ آجائے۔ عام محفلوں میں ہم لوگ اپنے کو سیکولرظاہر کرنے کے لیے لگی لپٹی باتیں کیا کرتے ہیں۔ سامنے والا بھی خوب سمجھ رہا ہوتا ہے کہ یہ سب کھٹی میٹھی باتیں صرف دکھاوے کے لیے کی جارہی ہیں۔ دعوت دین کے اعتبار سے ہمارا یہ انتہائی کمزور پہلو ہے کہ ہم لوگ ابھی تحریر وتقریر اور سیمینار ، سمپوزیم سے آگے نہیں بڑھ پائے ہیں۔ عالمی اور ملکی حالات کے پیش نظر، جماعت کی حیثیت سے کوئی مضبوط پلاننگ اور منظم کوشش ہمارے یہاں نظر نہیں آتی۔ آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے حالات پر اگر غور کیا جائے تو ایک طرف جہاں مخالفین اسلام نے مسلمانوں کو دبانے ، کچلنے اور کمزور کرنے کے لیے منظم کوشش کی ہے وہیں ہمارا کردار بھی یہ رہا ہے کہ ہماری اصل قوت قومی مسائل کو لے کر صرف ہورہی ہے اور اس طرح ہندو مسلم قومی کشمکش کو بڑھاوا دے کر ہم لوگ غیر شعوری طور پر اپنے مخالفین کا کام آسان کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک داعی گروہ کی حیثیت سے ملک کی تعمیر وترقی میں ہمارا کوئی مثبت کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ کہاجاتا ہے کہ جیسے بھی جو کچھ بھی ہیں یہ مسلمان ہی تو اسلام کی اصل قوت ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کے قومی مسائل کو کس طرح نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلمانوںکی بھلائی اسلام کے ساتھ وابستہ ہے یا پھر ان کی بھلائی اس میں ہے کہ وہ بھی دوسری قوموں کی طرح قوم پرستی کا شکار ہوجائیں۔ یہ صحیح ہے کہ مسلمانوں کے قومی مسائل سے بھی بے نیاز نہیں ہوا جاسکتا لیکن قوم سے جائز اور بے جا محبت میں فرق ہوا کرتا ہے۔ قوم سے جائز محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ قومی مسائل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اصلاح اور دعوت حق پر بھی پوری توجہ دی جائےورنہ خدا کےفیصلے بے لاگ ہوا کرتے ہیں۔ بنی اسرائیل کی بدعہدیوں کا ذکرکرتے ہوئے مسلمانوں کو نصیحت کی جاتی ہے :
’’پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں ۔ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے آخرت بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے‘‘۔(سورہ بقرہ،۸۶۔۸۵)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2014