الحادِ جدید کا جوشِ تبلیغ

تحریر: عبداللہ بن صالح العجیری

ترجمہ: تنویر آفاقی

— ترجمہ تنویر آفاقی

(یہ مضمون ان کوششوں کا تعارف کراتا ہے، جو جدید ملحدین دنیا بھر میں الحاد کی ترویج کے لیے کررہے ہیں۔ اسلام کے دفاع اور دعوت کے کام میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ تعارف مفید ہوسکتا ہے۔ مدیر)

11 ستمبر کے حادثے کے جن اثرات و نتائج کی طرف لوگوں کی نظر نہیں گئی، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بعد الحاد کی جدید لہر میں غیر معمولی تیزی آگئی۔ ملحدین کو پرجوش بنانے کے سلسلے میں اس حادثے نے جو بڑا اثر ڈالا اس کے واضح ہونے میں کچھ وقت ضرور لگا۔

تاریخی اعتبار سے بہ حیثیت مجموعی مذہبی موقف کے سلسلے میں الحاد کا رجحان نسبتاً غیر جانب دار رہا ہے۔ اس کے پاس اتنا زیادہ جوش نہیں تھا کہ الحاد کے فروغ اور اس کی طرف دعوت کی وہ مہم چھیڑ دے۔ اس کے برعکس اس کےنزدیک عقیدے کا مسئلہ ایک ذاتی مسئلہ ہوا کرتا تھا جس کا تعلق فرد سے ہوتا ہے اور جو ملحدین کو بہت زیادہ غصہ نہیں دلایاکرتا تھا۔ ایک ملحد کی زبان حال یہی کہتی تھی کہ ایمان اور کفر کا مسئلہ ایک ذاتی مسئلہ ہے، جب تک کوئی دین دار میری ٹانگ نہ توڑے یا میری آنکھ نہ پھوڑے، تو اس کی مرضی ہے وہ جس پر چاہے ایمان رکھے، اور جس طرح کی چاہے دین داری اختیار کرے۔ تاہم ورلڈ ٹریڈ ٹاور سے دو جہازوں کے ٹکراتے ہی یہ اپروچ یکسر تبدیل ہو گئی۔ اکثر ملحدین کے شعور میں یہ بات پیوست ہو گئی کہ ایمان اور دین داری انسانیت کے لیے حقیقی خطرہ بن گئی ہے اور دین و مذہب کے تعلق سے خاموشی اور غیرجانب داری پر قائم رہنا اب پسندیدہ راستہ نہیں رہ گیاہے، اب ملحدین پر یہ ذمے داری عائد ہوگئی ہے کہ انسانی زندگی سےدین داری کے اصول کو ہی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اس کی جگہ الحاد کو راہِ نجات کے طور پر متعارف کرانے کے لیے سنجیدہ کوشش کریں۔

مثال کے طور پر سام ہیرس (Sam Haris) کی زندگی میں، جو کہ جدید الحاد کے سربرآوردہ لوگوں میں سے ایک ہے، یہ حادثہ نقطۂ تغیر بن گیا۔ سام ہیرس الحادی سیریز کی پہلی کتاب کا مصنف ہے۔ اس کے بعد دوسری تصنیفات بھی آئیں جو الحادِ جدید کے رجحان کے لیے مرکزیے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ حادثہ ستمبر پر ہونے والا ردعمل اس کتاب کا مرکزی موضوع ہے، جس کا انکشاف قاری پر اس کتاب کے عنوان کو پڑھتے وقت ہی ہو جاتا ہے۔ کتاب کا عنوان[1] ہے: ’ ایمان کا خاتمہ: مذہب، دہشت گردی اور عقل کا مستقبل‘(The End of Faith: Religion, Terror, and Future of the Reason) سام ہیرس نے ایک سے زائد مواقع پر اس کتاب کے اندر بھی اور کتاب سے باہر بھی یہ صراحت کی ہے کہ اس کتاب کی تالیف کا بنیادی محرک یہی واقعہ [حادثہ 11 ستمبر] بناہے۔ اسی قبیل کا ایک ویڈیو کلپ بھی ہے جو ’’سام ہیرس: الحاد کی جانب سفر جس کا آغاز 11 ستمبر کے حادثے سے ہوا‘ ’(Journey to Atheism Sparked by 9/11) نام سے ہے۔ اورسام ہیرس کے اوپر آپ اس حادثے کے اثرات کی گہرائی کا اندازہ لگا سکیں، اس کے لیے مذکور بالا کتاب ’’ایمان کا خاتمہ‘‘ کے آخر میں اس نے یہ صراحت کی ہے کہ اس کی تالیف کا آغاز اس نے 12 /ستمبر 2001، یعنی حادثہ واقع ہونے کے اگلے روز سے ہی کر دیا تھا۔

سام ہیرس تنہا شخص نہیں ہے جو اس حادثے سے [اس طرح ] متاثر ہوا ہے۔ رِچرڈ ڈاکنز، جو کہ الحاد کاسب سے مشہور مبلغ ہے، وہ اپنے ایک لیکچر ’’الحاد کی فوج‘‘ (جسے اس نے TED میں پیش کیا ہے) کہتا ہے:

’’مجھ سے اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ 11 ستمبر کے حادثے نے تمھیں کیسے تبدیل کر دیا؟ میں بتاتا ہوں کہ اس حادثے نے مجھے کس طرح بدلا ہے: ’’ہم سب کو (مذاہب کے تئیں) اس قابل نفرت مصنوعی احترام سے باز آجانا چاہیے۔ ‘‘

اتنا ہی نہیں، بلکہ اس نے حادثہ ستمبر کے محض چار دن بعد ہی اس حادثے سے متعلق ایک مضمون برطانوی میگزین ’’گارجِیَن‘‘ میں لکھا، جس کے آخر میں وہ کہتا ہے:

’’دنیا کو مذہب، یا ابراہیمی سلسلے کے مذاہب سے بھر دینا بالکل ایسا ہے جیسے شاہراہوں کو گولیوں سے بھری ہوئی بندوقوں سے پاٹ دیا گیا ہو۔ اگر ان بندوقوں کو استعمال کیا جائے تو آپ تعجب نہ کریں۔ ‘‘

غرض یہ کہ 11 ستمبر کے حادثے نے زبردست رد عمل کی صورت میں ملحدین کے اندر الحاد کا مواد زبردست مشنری کردار کے ساتھ ترویج دینے کاحوصلہ بڑھایا۔ دل چسپ واقعہ یہ ہے کہ اپنے افکار کی ترویج کے سلسلے میں بعض ملحدین کا جوش اس حد کو پہنچا ہوا ہے کہ وہ اسی انداز اور طریقوں کو اختیار کرنے لگے ہیں جو بعض عیسائی مبلغین کے ساتھ مخصوص ہیں۔ یعنی یہ لوگ الحادی پلے کارڈ اٹھا کر سڑکوں دعوت دینے لگے ہیں، راستوں پر آوازیں لگا لگا کر الحاد کی طرف بلاتے ہیں۔ ایک ملحد نے تو خود کو ’الحاد کا مسیح‘ ہونے کا خطاب دے دیا ہے۔ چارلس ڈاروین سے نسبت جوڑتے ہوئے اپنا نام بدل کر ’ڈاروین‘ رکھ لیا اور بالکل وہی کردار اختیار کرلیا جو عیسائیت کے مبلغین وعظ ونصیحت اور عیسائی اقدار کی تذکیر کرنے کے سلسلے میں اختیار کرتے ہیں۔ [2]

اس صورت حال کو یہاں محض اس کے انوکھے پن کی وجہ سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ یہ صورت حال الحاد کے عام دعوتی اسلوب کی نمائندگی کرتی ہے۔ البتہ الحاد کی تبلیغ کے تعلق سے جوش وہ چیز ہے جو بلاشبہ نئے الحادی رجحان کے اندر موجود ہے۔

دعوتِ الحاد کے سلسلے میں اسی جوش اور سرگرمی کی وجہ سے ’’اللہ کے وجود‘‘ کا سوال مغربی میڈیا میں نمایاں مقام پر آ گیا ہے اورخدا کے وجود پر مباحثہ (The God Debate) ایسا موضوع بن گیا ہے جو مغربی سوسائٹی کے اندر جدید اور روایتی میڈیا میں پوری قوت کے ساتھ موجود ہے۔ الحاد کے سربرآرودہ لوگ میڈیا اسٹار بن گئے ہیں حتی کہ انھیں زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہو رہی ہے یہاں تک کہ تفریح کی سطح پر بھی۔ چناں چہ رِچرڈ داکنز کی شخصیت، ایک مزاح کار کے طور پر ہی سہی، ساوتھ پار ک (South Park) اور دی سِمپسنز (The Simpsons) وغیرہ جیسے بعض مشہور مزاحیہ کارٹونی سیریلوں میں نمایاں ہوئی۔

جدید ملحدین کے یہاں دعوتی فکر پالنے اور متبعین ومرتدین کا دل جیت لینے کا معاملہ جدید الحادی ذہنیت میں نمایاں طور پر موجو دہے۔ چناں چہ یہی رِچرڈ اکنز اپنی کتاب ’معبود کا وہم‘ (The God Delusion)میں کہتا ہے: ’’اگر اس کتاب نے وہی اثر دکھایاجو میرے پیش نظر ہے تو مذہبی طبقے کا فرد اس کتاب کو شروع کرنے سے ختم کرنے تک ملحد بن چکا ہو گا۔ ’’ اسی کتاب کے غلاف پر بیرونی حصے میں موجود تاثرات میں یہ عبارت بھی ہے: ’’معبود کا وہم‘‘ دانش وری، شفقت اور سچائی کی کتاب ہے، برف کی طرح، آگ کی طرح سچی ہے۔ اگر یہ کتاب دنیا کو تبدیل نہ کر سکی تو ہم سب کے لیے تباہی ہے۔ ’’

الحاد کے اس تبلیغی منہج نے مختلف شکلیں اختیا رکی اور متعدد راہیں اپنائی ہیں، جن میں سے اہم ترین یہ ہیں:

تصنیف وتالیف

اس میدان میں متعدد تالیفات پے بہ پے سامنے آئی ہیں، جنھوں نے جدید الحاد اور اس کے ٹھوس بیج کو قوت محرکہ فراہم کی ہے۔ اپنے حسنِ اسلوب، سحر انگیز عبارت، افکارو نظریات کی شفافیت اور برجستگی کی وجہ سے یہ کتابیں عام فضا میں نفوذ حاصل کرنے میں کام یاب رہی ہیں، خاص طور سے اس لیے بھی کہ ان مصنفین میں اکثریت ان کی ہے جنھوں نے‘‘پوپ سائنس‘‘ (عوامی سائنس) کے میدان میں تصنیفی شہرت پائی ہے، جسے علوم طبیعیات کے میدان میں عوامی تحریرکہہ سکتے ہیں۔ چناں چہ یہ ملحدانہ افکاراشرافیہ کے محدود اور تنگ حلقوں سے نکل کر وسیع عوامی دائرے میں پھیل گئے۔

اپنی ان تصانیف کی بدولت ان کے مصنفین جدید الحاد کی علامت بن گئے ہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جو اس جدید اعتقادی رجحان کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور واقعتاؒ یہ صورت حال قابل توجہ ہے کہ ان کتابوں کی خریداری اور انھیں چاٹ جانے کا شدید رجحان ہے، کیوں کہ اس طرح کی زیادہ تر کتابیں کثرت سے فروخت ہونے والی کتابوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسی طرح ان کتابوں کے مصنفین کو تصنیف سے وابستہ متعدد اداروں کی طرف سے مختلف طرح کے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔ ان کتابوں کے ترجمے بھی مختلف زبانوں میں ہوئے ہیں۔ کتابوں کی فروخت کا دائرہ بعض واوقات ہزاروں،بلکہ لاکھوں نسخوں سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ ان میں اہم ترین کتابیں، جن کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے جدید الحاد کی لہر برپا کی ہے، بازار میں آمد کی ترتیب سے پیش کی جا رہی ہیں:

ایمان کا خاتمہ (The End of Faith)

اس کتاب کا مصنف سام ہیرِس ہے، جو علوم اعصاب (نیوروسائنس) کا ماہر ہے۔ یہ ایک تنقیدی کتاب ہے جس میں مذہبی و دینی رجحان کے تعلق سے عمومی انداز میں جارحانہ رخ اختیار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح یہ دینی رجحان، مصنف کے دعوے کے مطابق، عقلی و منطقی انداز فکر کی راہ میں رکاوٹ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کی آغوش بنا کرتا ہے۔ یہ کتاب 2004 میں منطر عام پر آئی تھی اور جدید الحاد پر اولین کتاب کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب پر مصنف کو پین امریکن سینٹر (PEN American Center)سے ایوارڈ بھی حاصل ہو چکا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی فہرست برائے کثیر الاشاعت کتب(بیسٹ سیلر بُکس) میں بھی یہ کتاب شامل رہی اور مسلسل 33 ہفتوں تک اس فہرست میں اس کا نام شامل رہا۔

’’معبود کا افسانہ‘‘ (The God Delusion)

ڈاروینی نظریے کے حامل معروف ماہر حیاتیات(بایولوجسٹ) رِچرڈ ڈاکِنز کی ہے،جس نے ڈاروینی نظریے کو ہی پیش کرنے والی The Selfish Gene اور Blind Watchmaker وغیرہ جیسی کتابیں بھی لکھی ہیں۔ متعدد زبانوں میں اس کتاب کے ترجمے ہوچکے ہیں اور 2006 میں منظر عام پر آنے کے بعد 2010ءتک اس کتاب کے بیس لاکھ سے زیادہ نسخے فروخت ہو چکے تھے۔ نیویارک ٹائمز کی فہرست برائے کثیر الاشاعت کتب (بیسٹ سیلر) میں کئی ہفتوں تک یہ کتاب سرفہرست رہی اور اس کے بعد بھی 51 ہفتوں تک اس فہرست میں یہ کتاب شامل رہی۔

’سحر کا توڑ: مذہب بطور قدرتی مظہر‘

(Breaking the Spell: Religion as a Natural Phenomenon)

اس کا کتاب کا مصنف امریکی فلسفی ڈینئیل ڈینیٹ ہے۔ یہ کتاب 2006 میں منظر عام پر آئی تھی۔

’’اللہ: ایک ناکام مفروضہ‘‘ از ماہر طبیعیات وِکٹر اسٹینجر

یہ کتاب بھی 2007 کے دوران نیویارک کی فہرست برائے کثیر الاشاعت کتب میں رہ چکی ہے۔ مصنف کے اپنے دعوے کے مطابق یہ کتاب علوم طبیعیات اور تجریبی علوم کی روشنی میں خالق کائنات کے وجود کے مسئلے سے متعلق الحادی نظریے کو پیش کرتی ہے۔

’’اللہ عظیم نہیں ہے: مذہب کس طرح ہر چیز کو زہر آلود کرتا ہے‘‘

(God is Not Great: How Religion Poisons Everything)

اس کا مصنف کریسٹوفر ہِچینز نام کا ایک صحافی ہے۔ کتاب 2007 میں منظر عام پر آئی تھی۔ کتاب تمام برائیوں کا رشتہ مذاہب سے جوڑتے ہوئے ان پر جارحانہ حملے کرتی ہے۔ اس کتاب کی رو سے مذاہب ’’تشدد پسند، غیر عقلی، غیر روادار، نسل پرستی کے حامی، قبائلی سوچ کے حامل، اندھے متعصب، جہالت میں غرق، آزادی رائے کے مخالف ہوتے ہیں، عورت کو حقیر تصورکرتے ہیں اور بچوں پر ظلم کرتے ہیں۔ ’’ اس کتاب کو بھی وسیع شہرت حاصل ہوئی اور کثیر الاشاعت کتب کی فہرست میں شامل رہی۔ مختلف زبانوں میں بھی اس کے ترجمے ہوئے ہیں۔

یہ وہ اہم کتابیں ہیں جسن کی بنیاد پر جدید الحاد کی تاسیس ہوئی ہے۔ یہ کتابیں، جیسا کہ آپ نے دیکھا، مختلف جہتوں پر کام کرتی ہیں۔ ان کتابوں کے مصنفین بھی محتلف علوم کے ماہرین ہیں۔ اس تنوع نے جدید الحاد کو موثر بنانے اور شہرت دینے میں مزید کردار ادا کیا ہے اور اس تاثیر کے لیے مختلف قسم کے ماحول پیدا کیے ہیں۔

جہاں تک ان کتابوں کے مصنفین کا تعلق ہے، یہ کتابیں ان کی آخری کتابیں نہیں ہیں، بلکہ اس میدان میں ملنے والی کام یابی نےانھیں مزید لکھنے اور اپنے اثرات پیدا کرنے کا حوصلہ دیاہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ الحادی کتابوں کی تخلیق و اشاعت کا سلسلہ موقوف نہیں ہوا۔ وہ ان چند ناموں تک محدود بھی نہیں رہا بلکہ اس فہرست میں اضافہ ہوتا رہا۔ اگرچہ مذکورِ بالاکتابیں اس رجحان کا مرکزی لٹریچر ہیں اور ان کے بعد آنے والی کتابیں اس منطر نامے میں الحادی رجحان کو راسخ کرنے کا کام کرتی ہیں۔

اسی طرح بعض کتابوں کی زبان کو زیادہ آسان اور سادہ رکھا گیا ہے، تاکہ یہ الحادی رجحان مختلف ذہنی سطح اور متنوع ثقافتیں رکھنے والے وسیع تر حلقوں کے اندر نفوذ کر سکے۔ چناں چہ اس رجحان کو عوامی کتابیں حاصل ہیں جو سماج کے تمام طبقات کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔ ’’کم سمجھ رکھنے والوں کے لیے‘‘ (For Dummies) کے نام سے سلسلہ کتب کے اندر وہ کتاب بھی شامل ہے جو ’’الحاد برائے احمقاں‘‘ (Atheism for Dummies) کے نام سے ہے۔ یہ آسان اور سادہ انداز کی کتاب ہے جو الحادی رجحان کی تاریخ پیش کرنے کے علاوہ اس کے متعلقہ تصورات کو بھی کسی حد تک پیش کرتی ہے اور ملحد کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا نقشہ کار بھی پیش کرتی ہے۔ کتابوں کی ایک دوسری عوامی سیریز ’’آپ کی ہر معلومات غلط ہے‘‘ (Everything You Know is Wrong)کے نام سے ہے۔ اس سلسلۂ کتب میں ایک کتاب کانام ’’اللہ کے بارے میں آپ جو کچھ جانتے ہیں، غلط ہے‘‘(Everything You Know about God is wrong) کے نام سے ہے۔ یہ کتاب مختلف نوعیت کے آسان مضامین کا مجموعہ ہے جن میں اللہ کے موجود ہونے کے تصور، مذاہب کے تعلق سے موقف اور الحاد کے تعلق سے موقف کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی طرح کی سادہ انداز کی ایک کتاب ’الحاد 101‘ (Atheism 101) بھی ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو الحاد کےمطالعے کے ضمن میں مبتدی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک دوسری کتاب ’’عدمِ ایمان: نوجوانوں کے لیے الحاد کے موضوع پر ذاتی رہ نما‘‘(Disbelief 101: A Young Person‘s Guide to Atheism) کے نام سے ہے۔ اسی قبیل کی ایک کتاب ’’کم سن ملحدوں کی بقا کے لیے رہ نما کتاب: سیکولر بچوں کے ارتقامیں معاون‘‘(The Young Atheist‘s Survival Guide: Helping Secular Students Thrive) بھی ہے۔

سادہ انداز میں ملحدانہ تصورات کوپیش کرنے کے سلسلے میں ان سے بھی زیادہ موثر کتابیں وہ ہیں جو بچوں کے اندر ملحدانہ فکر کو ترویج دینے کے لیے تصنیف کی گئی ہیں۔ اس طرح کی کتابوں میں سے ایک ’’ میں محوِ حیرت ہوں‘‘(I Wonder) ہے۔ اس کی مصنف سام ہیرس کی بیوی ’اناکا ہیرس‘ ہے۔ اسی سلسلے کی بعض کتابوں کے نام‘‘کس چیز پر تمھارا ایمان ہے؟‘‘( What Do You Believe?) اور ’’ہمارا شجرہ نسب: ارتقا کی کہانی‘‘(Our Family Three: An Evolution Story) ہیں۔ سلسلہ کتب ’’کائنات ہمیں ہماری زمین کی کہانی سناتی ہے‘‘ بھی ہے۔ خود رِچرڈ ڈاکنز نے کم سنوں اور بچوں کے لیے ایک کتاب لکھی ہے جو کہ تازہ ترین کتاب ہے۔ اس کتاب کا نام ہے: ’’حقیقت کا سحر: کیسے جانیں کہ اصل حقیقت کیا ہے؟‘‘( The Magic of Reality: How We Know What‘s Reality Ture)۔

اسی ضمن میں دوسری وہ کتابیں بھی ہیں جو ملحدانہ نقطہ نظر سے بچوں کی پرورش و تربیت کے سلسلے میں ہدایت و رہ نمائی پیش کرتی ہیں۔ اس سلسلے کی کتابوں میں مثال کے طور پر‘‘بچوں کی بعید از عقیدہ تربیت‘‘(Parenting Beyond Belief)، ’’ملحدوں کی تیاری کے لیے رہ نما کتاب‘‘(A Manual for creating Atheists)، ’’آزاد خیالوں کی پرورش‘‘(Raising Freethinkers) ہیں۔ یاد رہے کہ آزاد خیالی کی اصطلاح ان اصطلاحات میں سے ایک ہے جو ’الحاد‘ کی اصطلاح کے متبادل کے طور پر متعارف کرائی گئی ہے، کیوں کہ عوامی شعور میں میں لفظ الحاد منفی مانا جاتا ہے۔

یہ ہے تصنیف کے میدان میں بعض الحادی سرگرمیوں کا ایک تعارف۔ یہ سلسلۂ تصنیف بڑھتا ہی جا رہا ہے، اگرچہ تمام کتابوں کوالحاد کی ابتدائی رجحان ساز کتابوں جیسی شہرت حاصل نہیں ہوئی۔

ٹی وی اور ریڈیو پروگرام

ملحدین نے خاصی تعداد میں مختلف نوعیت کے میڈیائی پروگرام بھی تخلیق کیے ہیں، جن میں‘ ٹاک شو‘ اور تعلیمی و دستاویزی فلمیں بھی شامل ہیں، بلکہ تفریحی فلموں اور سیریلوں کی بڑی تعداد ایسی ہی ہے جن میں بعض اوقات الحادی فکر ہی مرکزی نکتہ ہوتی ہے جس پر پورا فوکس ہوتا ہے۔ یا کچھ نہیں تو کم از کم اس کے اندر ملحدانہ پس منطر والے مناظر شامل ہوتے ہیں۔ اس نوعیت کی نسبتاً جدید فلمیں جن میں الحادی فکر اچھی طرح براجمان نظر آتی ہے، یہ ہیں : ’زمین کا آدمی‘‘(The Man from Earth)، ’رابطہ‘(Contact)، ’کام کی چیز‘(Whatever Works)، ’محدود غروب‘(The Sunset Limited)، ’اگورا(Agora)‘، ’پال‘(Paul)، ’بندروں کا سیارہ‘(Planet of Apes)، ’تخلیق‘(Creation)، ’کنارا‘(The Ledge)، ’راہ نجات‘(Salvation Boulevard)، ’جھوٹ کی ایجاد‘(The invention of Lying) ہیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سی فلمیں ہیں۔ جب کہ ایسی فلمیں جن میں جزوی طور پر یا فلم کے حاشیے میں الحادی مضامین در آتے ہیں، لاتعداد ہیں۔ اس میں فلموں اور سیریلوں کا حال یکساں ہے۔ میں یہاں گمنام اور غیر مشہور فلموں اور سیریلوں کی بات نہیں کررہا ہوں،بلکہ یہ وہ فلمیں اور سیریل ہیں جو شایقین کے درمیان بام شہرت پر ہیں اور ان کی مقبولیت کا عوامی دائرہ بہت بڑا ہے۔ اس نوعیت کے سیریلوں میں مثال کے طور پرLost (ضائع شدہ)، Supernatural(مافوق الفطرت)،House MD )ہاوس ایم ڈی(، Bones(ہڈیاں)، Battlestar Galactica (بیٹل اسٹار گلاکٹیکا)،Family Guy (گھریلو فرد)،Big Bang Theory (انفجار کبیر کا نظریہ)، Community(کمیونٹی) وغیرہ بے شمار سیریل ہیں۔

ان فلموں کے توسط سے الحاد کی جو خوراک منتقل کی جا رہی ہے اس کے حجم و تاثیر کو بیان کرنے کے لیے میں ایک فلم کے فکری محور کا خلاصہ پیش کرتا ہوں۔ فلم کا نام ’ جھوٹ کی ایجاد‘ (The invention of Lying)ہے۔ اس خلاصے سے واضح طور پر یہ سامنے آجائے گا کہ کس طرح کھلے طور پر ان تفریحی فلموں کے ذریعے سے ملحدانہ پیغامات منتقل کیے جا رہے ہیں۔ اس فلم کا ہیرو‘ رِکی گروائس ’(Ricky Dene Gervais) ہے، جو اپنے الحادی نظریات کے لیے مخلص سمجھا جاتا ہے۔ گروائس نے اس فلم میں ’مارک‘ نام کے شخص کا کردار ادا کیا ہے جو ایک ایسی انسانی نسل کے درمیان رہتا ہے جہاں کوئی بھی جھوٹ بولنا مطلق نہیں جانتا، بلکہ جھوٹ بولنا تو دور، اس لفظ کا مفہوم سمجھنے کی بھی صلاحیت کوئی نہیں رکھتا ہے۔ جو بھی وہ، یا اس کے ساتھ رہنے والے لوگ بولتے ہیں وہ صرف سچ ہوتا ہے۔ نتیجہ کار جو کچھ بھی کہا جاتا ہے لوگ اسے قبول کر لیتے ہیں کیوں کہ اس بات کے سچ ہونے کے علاوہ کوئی دوسرا تصور پایا ہی نہیں جاتا اور جھوٹ کا واقع ہونا ناممکنات میں سے سمجھا جاتا ہے۔ فلم کا آغاز مارک کی ایسی زندگی سے ہوتا ہے جو ناکامیوں اور ناامیدیوں سے بھری ہوئی ہے۔ اس وجہ سے اس کے آس پاس رہنے والے لوگ اسے پسند نہیں کرتے ہیں اور اسے یہ بات برملا بتاتے بھی ہیں۔ پھر اس شخص کو اس کے کام سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فلیٹ کے اخراجات ادا کرنے میں ناکام رہتا اور وہاں سے بھی نکال دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد جب وہ جھوٹ کو دریافت کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے تو اس کی زندگی میں انقلاب آ جاتا ہے۔ بینک سے زائد رقم نکالنے کے لیے وہ یہ جھوٹ بولتا ہے۔ فلم کے ایک سین میں، جب کہ مارک جھوٹ بولنے میں مہارت حاصل کر چکاتھا، اسپتال میں اپنی والدہ سے ملاقات کے لیے گیا، جو دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے داخل کی گئی تھی۔ وہاں پر موجود ہر شخص نے اس کی والدہ سے یہی کہا کہ آج رات اسے دوسرا دورہ پڑے گا، جس کی وجہ سے اس کا انتقال ہو جائے گا۔ مارک کی والدہ موت اور مرنے کے بعدعدم میں چلے جانے کا خوف ظاہر کرنے لگی۔ اس کے بیٹے نے اسے تسلی دی، یعنی جھوٹ بولا، کہ وہ ایک خوب صورت مقام پر چلی جائے گی، جہاں پہلے سے ہی اس کی سہیلیاں اور اس کا شوہر موجود ہیں۔ وہاں وہ سکون و مسرت کے ساتھ ایک بڑے سے محل میں رہے گی۔ اس کے بعد مارک کی ماں خوشی اور اطمینان کے لمحات میں دنیا سے رخصت ہو جاتی ہے۔ [ماں بیٹے کی] اس گفتگو کو ڈاکٹر اور نرسنگ کے عملے نے سنا تو وہ زندگی بعد موت پر ایمان لے آئے۔ انھیں بھی یہ یقین ہو گیا کہ انسان موت کے بعد ایک خوب صورت مقام کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ انھوں نے لوگوں کے درمیان وہ خبر پھیلادی۔ مارک گھر واپس آیا تو وہاں لوگوں کا ایک ہجوم تھا جنھوں نے اس سے موت کے بعد کی زندگی کے متعلق معلومات جاننی چاہیں۔ وہ تیزی سے گھر کے اندر گیا اور گہرے غور و فکر کے بعد پیزا کے دو ڈبے اپنے ہاتھ میں اٹھائے باہر آیا۔ ان ڈبوں پر دس وصیتیں لکھی ہوئی تھیں۔ اس نے ان وصیتوں کو لوگوں کے سامنے پڑھ کرسنانا شروع کیا۔ پہلی وصیت یہ ہے کہ آسمان میں ایک شخص رہتاہے جو ہر چیز کو کنٹرول کرتا ہے۔ زمین میں جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کی وجہ سے اور اس کے ارادے سے ہی ہوتا ہے۔ اور اسی شخص نے اسے [مارک] کو بھی ان تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ اس کے بعد اچھے اور برے کاموں سے متعلق وصیتیں سنانے لگا۔ یہ بھی بتایا کہ موت کے بعد انسان کو جزا اور سزا ملتی ہے۔ ان وصیتوں کو بیان کرنے کے بعد لوگوں کی نظر میں مارک کی شخصیت نبی کے مشابہ ہوگئی، بلکہ بعد کے ایک سین میں مارک کی داڑھی اور سر کے بال بڑھے ہوئے بھی دکھائے گئےتاکہ وہ مغربی مسیحی تصور کے مطابق مسیح علیہ السلام سے مشابہ ہیئت میں نظر آئے۔ اس طرح یہ نظریہ ترویج دیا جاتا ہے کہ اللہ کا وجود محض انسانی اختراع ہے، اُخروی زندگی (حیات بعد الموت) محض افسانہ ہےاور ان جھوٹی باتوں کا اختراع کرنے والے وہ جھوٹے لوگ ہیں جن کا محرک انھیں عام کرکے بعض فلاسفہ کے بقول انسانوں کے مفادات حاصل کرنا ہےکہ لوگوں کے اندر اطمینان کی روح پھونکی جائے اور اخلاقی نظم و ڈسپلن پیدا کرنے کے لیے انھیں اخروی زندگی پر ایمان لانے کی ترغیب دجائےاور نفس کا سکون اور موت سے مصالحت کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ یہ صرف ایک مشہور زمانہ فلم کی کہانی ہے۔ اسی طرز پر دوسری دسیوں فلمیں ہیں۔

اسی طرح بچوں کے لیے بعض کارٹون فلمیں بھی ہیں جو بالواسطہ طور پر الحادی مضامین بچوں کے ذہنوں میں اتار دیتے ہیں۔ اس قسم کی فلموں کی مثالوں میں ’’پرمسرت قدم‘‘(Happy Feet) اور ’کائینا: نبوت‘‘ (Kaena: The Prophecy) و غیرہ جیسی فلمیں ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ایسی متعدد عیسائی ویب سائٹیں ہیں جو ہولی ووڈ اور دوسرے اسٹوڈیو میں بنائی جانے والی فلموں پر نگاہ رکھتی ہیں اور مختلف اخلاقی و عقائدی معیارات کے مطابق ان کی تشخیص کرتی ہیں۔ یہ ویب سائٹیں اس سلسلے میں مفصل رپورٹیں بھی پیش کرتی ہیں۔ بعض ویب سائٹ یہ ہیں:

http://www.movieduide.org/

http://www.christiananswers.net/spotlight/

http://www.crosswalk.com/culture/movies/

تفریحی فلموں کا طریقہ تو وہ ہے جس کے ذریعے سے ملحدانہ خیالات کو زیادہ تر بالواسطہ طریقے سے پیش کیا جاتا ہے، لیکن ایک بڑی تعداد ان دستاویزی اور تعلیمی فلموں کی بھی ہے جو الحاد کے موضوع پر براہ راست گفتگو کرتی ہیں۔ ان میں سے بعض فلمیں جدید الحاد کے سربرآوردہ لوگوں کی ہیں۔ مثلاً رچرڈ ڈاکنز نے ’’تمام برائیوں کی جڑ‘‘ (The root of All Evil) کے عنوان سے کئی دستاویزی فلموں کا سیریز پیش کیا ہے۔ اس سلسلے کی ایک قسط ’’معبود کا وہم‘‘ کے نام سے اور دوسری ’’ایمان کا وائرس‘‘ کے نام سے ہے۔ اس کی دوسری سیریز فلمیں بھی ہیں مثلاً ’’چارلس ڈارون کی عبقریت‘‘(The Genius of Charles Darwin)، اور ’’مذہبی مدارس کا خطرہ‘‘(Faith School Menace) وغیرہ۔ رچرڈ ڈاکنز بعد میں ایک فلم ’’غیر مومنین‘‘ (The Unbelievers) میں لورنس کراوس (Lawrence Maxwell Krauss)کے ساتھ بھی نظر آیا ہے۔ اس میں اس نے بعض ملحدین کے ساتھ الحاد کے مسئلے پر انٹرویو لیے ہیں۔ الحادی نظریے پر مبنی فلموں کا ایک ٹھکانا وہ بہت سے پروگرام ہیں جنھیں ڈسکَوَری چینل اور نیشنل جیوگرافک نشر کرتے ہیں۔ یہ پروگرام براہ راست الحادی یا الحاد سے مربوط موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں۔

چوں کہ ہم فن کاری کے میدان میں الحاد کے وجود کی بات کرر ہے ہیں، اس لیے ریکارڈ میں درج کرنے کے قابل مشاہدات میں سے ایک یہ ہے کہ مغربی میڈیا میں مشاہیر فن کار مرد و خواتین کی بڑی تعداد ملحد ہے۔ ان میں سے بعض اپنی ملحدانہ شناخت کو بیان کرنے میں عملاً پرجوش ہوتےہیں۔ الحاد کے موضوع پر ان کی آرا اور بیانات بھی ہیں۔ محض مثال کے طورپر ان مشہور ادارکاروں میں سے چند ووڈی ایلن، کیوین بیکن، سیمون بیکر، مونیکا بیلوچی، جیک بلیک، جورج کلونی، ولیَم ڈیوِس، کیری فیشر، جوڈی فوسٹر، اسٹیفن فرائی، رکی گروائس، سیٹھ گرین، انجلینا جولی، کیرا نائللی، ہف لوری، جان میلکووِچ، ایان میکلین، جولین مور، کیلین مرفی، جیک نیکلسن، پیٹن اوزوالٹ، سیمون پین، کریس پائن، براڈ پِٹ، نیٹلی پورٹمین، ڈینئیل ریڈکلف، کینو ریویز، رے رومانو، بروس ویلیز، وغیرہ کا نام لیا جاسکتا ہے۔ [3]

فن کاری کی مختلف اقسام، جن میں ملحدین نے نفوذ کیا ہے اور ان کے ذریعے سے بہت سے الحاد ی پیغامات کو آگے بڑھایا ہے، وہ نغمے (Songs) اور ویڈیو کلپ ہیں۔ اس سلسلے کا مشہور گانا یا نغمہ جون لینین (John Lennon)ہے جو Imagine کےنام سے ہے۔ اس کے الفاظ ہیں:

’’تصور کرو۔۔۔ جنت کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔۔ کوشش کرکے دیکھو۔۔۔ یہ تصور کرنا آسان ہے۔۔۔ ہمارے نیچے کوئی دوزخ نہیں ہے۔۔۔ ہمارے اوپر صرف آسمان ہے۔۔۔ تصور کرو۔۔۔ کہ تمام انسان۔۔۔ آج کے لیے جی رہے ہیں۔ تصور کرو۔۔۔ کسی ملک کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔۔ یہ تصور کرنا مشکل نہیں۔۔۔ ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس کے لیے۔۔۔ مرا یا جیا جائے۔۔۔ اور۔۔۔ کسی مذہب کا وجود بھی نہیں ہے۔۔۔ تصور کرو۔۔۔ سارے لوگ۔۔۔ امن کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ‘‘[4]

الحاد کے مشہور نغموں میں سے ایک ’’ میرے پیارے خدا‘‘(Dear God) بھی ہے۔ یہ نغمہ خیر و شر اور عدل خداوندی کےسوال پر ضرب لگاتا ہے۔ اور یہی وہ مرکزی موضوع ہے جس کے گرد بیشتر الحاد پر مبنی نغمے، مثلاً ’’خوف ناک جھوٹ‘‘(Nine Inch Nails-Terrible Lie)، ’’خدا کی محبت‘‘(Bad Religion-God‘s Love) گھومتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک نغمہ ہولی نیئر کا ’’میں خوف زدہ نہیں ہوں‘‘[5] بھی ہے۔ اس نغمے کا مطلع اس طرح ہے:

’’میں تمھارے یہوہ سے خوف زدہ نہیں ہوں۔۔۔ میں تمھارے اللہ سے خوف زدہ نہیں ہوں۔۔۔ میں تمھارے عیسیٰ سے خوف زدہ نہیں ہوں۔۔۔ میں اس سے خوف زدہ ہوں جو تم اپنے خدا کے نام پر کرتے ہو۔ ’’[6]۔ اس کے علاوہ ’’ملحد کا سلام‘‘، ’’برا مذہب‘‘، ’’ارادے کی آزادی‘‘، ’’ایمان سے خالی‘‘، ’’اللہ کے نام پر‘‘، ’’آزادی‘‘، ’’مجھے مذہب کی ضرورت نہیں‘‘، وغیرہ بہت سے نغمے موجود ہیں۔

الحاد پر مبنی ادارے

الحادی سرگرمیاں اب برجستہ سرگرمیاں نہیں رہ گئی ہیں، جو صرف انفرادی کوششوں پر منحصر رہتی ہوں، بلکہ بعض ادارے بھی موجود ہیں جو الحاد کی تبلیغ و دعوت پر توجہ دیتے ہیں، ملحدین کی سرپرستی کرتے ہیں، سیکولر اداروں کو حمایت و تقویت فراہم کرتے ہیں اور مذہب وسیاست کے درمیان تفریق کے اصول کو ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ الحاد پر مبنی چند مشہور ادارے بطور مثال یہ ہیں:

عالمی اتحاد برائے ملحدین (Atheist Alliance International)

ایسوسی ایشن برائے ملحدین (Atheist Nexus)

رچرڈ ڈاکنز فاونڈیشن برائے عقل وسائنس (Richard Dawkins Foundation for Reason and Science)

بین الاقوامی یونین برائے انسانی وا خلاقی امور (International Humanist and Ethical Union)

بین الاقوامی رابطہ برائے غیر مذہبیان و ملحدین (جرمنی) Internationaler Bund der Konfessionslosen und Atheisten

بعض ادارے ایسے ہیں جو عالمی سطح پر اپنے اثرات رکھتے ہیں۔ ان میں کے بہت سے ادارے تو عملاً دنیا کے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور مقامی طور پر اپنی سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں۔

انٹرنیٹ پر الحادی ویب سائٹیں

انٹرنیٹ پر الحادی فکر کی حامل ویب سائٹس کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ملحدانہ رجحان سے متعلق بہت بڑی مقدار میں مواد پیش کرتی ہیں۔ یہ ویب سائٹیں الحادی فکر کے سلسلے میں دعوتی و تبلیغی کردار بھی ادا کرتی ہیں۔ ان میں بعض ویب سائٹیں ذاتی بلاگ کی شکل میں، لیکن الحادی منظر نامے میں بڑی موثر ہیں۔ بعض ایسی بھی ہیں جو کسی ادارے کے ماتحت ہیں اور وہ سب سے زیادہ موثر ہیں۔

علاوہ ازیں فیس بک پیج اور سوشل میڈیا پر بھی ملحدین موثر انداز میں موجود ہیں۔ جس طرح خاص نوعمر بچوں کے لیے کتابیں تصنیف کی گئی ہیں، اسی طرح بعض الحادی ویب سائٹیں بھی ہیں جو خاص بچوں کے لیے بنائی گئی ہیں۔ اسی طرح کی ایک ویب سائٹ kidswithoutgod.com ہے۔ اس ویب سائٹ کا ہدف چھوٹے بچے، کم عمر نوجوان، اور والدین ہوتے ہیں اور اس پر الحاد کے سلسلے میں ہدایات و رہ نمائی اور مواد فراہم کیا گیا ہے۔

الحاد کو فروغ دینے کے لیے ایک اسٹریٹیجی یہ اختیار کی جاتی ہے کہ سماجی سطح پر الحاد کو معمول کی بات بنا دیا جائے۔ اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ملحدین کو ابھارا جاتا ہے کہ وہ علانیہ اپنی شناخت کو ظاہر کریں۔ ملحدین کے یہاں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ سوسائٹیوں کے اندر ملحدین کی تعداد توقع سے کہیں زیادہ ہے، نیزاپنے الحاد کو پوشیدہ رکھنے والوں کی تعداد ظاہر کرنے والوں سے بہت آگے ہے۔ چناں چہ اس مخفی تعداد کو منظر عام پر لے آنے سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہو جائے گی جو سماج کے اندر ان کی قبولیت کے توازن کو یکسر تبدیل کر دے گی۔ اس کے بعد الحاد کا پھیلانا آسان سے آسان تر ہو جائے گا۔ انھیں یہ بھی یقین ہے کہ اس بڑے پیمانے پر ظہور کا وہی اثر ہوگا جو برفانی گیند (snowball effect) کا ہوتا ہے۔ جوں جوں یہ گیند لڑھکتی جاتی ہے اس کے گرد چپک جانے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح جب معاشرے کے اندر مزید ملحدین کا ظہور ہوگا تو یہ چیز دوسرے ملحدین کو بھی سامنے آنے کا حوصلہ دے گی اور اس طرح یہ سلسلہ بڑھتا رہے گا، یہاں تک کہ ملحدین کے وجود کی صورت حال معاشرے میں فطری طور پر قابل قبول حد پر آ جائے گی۔ پھر نہ تو ملحدین کی موجودگی قابل مذمت رہے گی، نہ قابل نفرت۔

خود کو علی الاعلان ملحد ظاہر کرنے کی بعض دعوتی و ترغیبی کوششیں جدید الحاد کی سرکردہ شخصیات اور بعض بڑے الحادی اداروں کی طرف سے ہوئی بھی ہیں۔ مشہور ترین کوشش وہ ہے جسے رچرڈ ڈاکنز نے RDFRS ادارے کی ویب سائٹ پر لانچ کیا ہے۔ یہ ادارہ خود ڈاکنز نے قائم کیا ہے۔ اس کوشش کا نام اس نے The Out Campaign (خروج کی مہم) رکھا ہے۔ اس مہم کے تحت ڈاکنز ملحدین کو دعوت دیتا ہے کہ وہ الحاد سے متعلق اپنے تجربات اور واقعات کو بیان کرتے ہوئے علانیہ طور پر سامنے آئیں اور الحاد کی طرف اشارہ کرنے والی شرٹیں پہن کر اپنی ملحدانہ شناخت کو نمایاں کریں، یا ایسے ہیٹ پہنیں جن کے اوپر لفظ Atheist کا پہلا حرف A لکھا ہوا ہو، گاڑی پر الحاد کو ظاہر کرنےو الے اسٹیکر لگائیں وغیرہ۔ اصل اور اہم یہ ہے کہ ملحدانہ شناخت کو ظاہر کیا جائے اور سماج کے اندر الحاد کو معمول کی بات بنانے کی کوشش کی جائے۔

اسی سلسلے کی کوششوں میں سے ایک www.weareatheism.com ویب سائٹ بھی ہے۔ یہ ملحدین کا ایک وسیع سماجی نیٹ ورک ہے، جس میں تصویریں، ویڈیو کلپ اور تبصروں کے ذریعے سے ان کی ملحدانہ شناخت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ اپنے گھریلو ماحول کے دائرے میں یا وسیع تر سماجی دائرے میں اپنے ملحد ہونے کا اعلان کرنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ہدایات اور مشورے بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

محسوس یہ ہوتا ہے کہ الحاد پر مبنی سماجی روابط پیدا کرنا اکثر ملحدین کے نزدیک اہم ترین مسئلہ قرار پایاہے۔ ان کے نزدیک یہ ایسا معاملہ ہے جس کی فکر ہونی چاہیے۔ چناں چہ ملحدین کے یہاں الحاد سے وابستگی کو پروان چڑھانے کی اہمیت کا شعور مسلسل بڑھ رہا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مذاہب جب اجتماعا ت اور رسوم و رواج پر عمل کی ترغیب و دعوت اور دوسرے ذرائع سے اس رجحان کو پروان چڑھا سکتے ہیں تو ملحدین کو بھی ایسا کرنا چاہیے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں ملحدین نے کنڈا، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ جیسے متعدد ممالک میں بعض ’ملحد چرچ‘ بھی قائم کر لیے ہیں۔ الحاد سے نسبت و تعلق رکھنے والے بعض مواقع مثلاً ڈاروِن کا جشن پیدائش، عالمی یوم الحاد، بلکہ یوم زندقہ، یومِ کفر اور یوم گستاخی رسول بھی منایا جاتا ہے۔ یوم گستاخی رسول منانے کا اعلان تو 2009 میں ہی سی ایف آئی (سینٹر فار انکوائری) کی طرف سے ہوا ہے۔ یہ دن 30 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس تاریخ کو مختض کرنے کا سبب یہ ہے کہ اسی تاریخ کو ڈنمارک کے اخبار نے نبیﷺ کی شان میں گستاخانہ کارٹون شائع کیا تھا۔

اوپر جن کتابوں، فلموں اور نغموں کا ذکر ہوا ہے وہ سب کے سب بلاشبہ طور پر الحاد کی حقیقت کو بڑے پیمانے پر ایک معمول کی سطح پر لانے اور اس کے تعلق سے حساسیت اور ممانعت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

الحاد کی طرف دعوت اور اس کی موجودگی کو معمول کی شے باور کرانے کا ہی ایک مظہر شاہراہوں پر ایسے اشتہاری بورڈ لگانا ہے جو الحاد کی دعوت دیتے ہیں۔ ملحدین مختلف میدانوں میں چھوٹے بڑے اشتہاری بورڈ کرایے پر لے لیتے ہیں اور ان پر الحاد کی طرف دعوت دینے والی عبارتیں لکھ دیتے ہیں۔

بسوں پر الحاد سے متعلق عبارتیں لکھ کر بھی اس کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ میں اس کے لیے ’الحاد بس‘ مہم چلائی گئی۔ اس مہم کی نگرانی و سرپرستی رچرڈ ڈاکنز ہی کر رہا تھا۔ اس مہم کے تحت ان لوگوں نے برطانیہ کی بسوں کے ایک کونے میں موجود اشتہار کے لیے مخصوص جگہ کرائے پر لے لی اور اس پر یہ عبارت لکھ دی: ’’غالب امکان یہی ہے کہ خدا نہیں ہے۔ اس لیے پریشان ہونا چھوڑیں اور اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں۔ ’’ اس کے بعد اسی خیال کو امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اختیار کیا گیا۔

الحاد کا اشتہار اور پروپیگنڈہ کرنےوالی ہورڈنگ بھی بے شمار ہیں، جن پر اس قسم کی عبارتیں لکھی ہوتی ہیں: ’’مذاہب سب کے سب خرافاتی افسانے ہیں۔ ‘‘ ، ’’اللہ پر ایمان نہ لائیں۔ ایسا کرنے والے آپ اکیلےنہیں ہوں گے۔ ‘‘، ’’اللہ پر ایمان نہ لائیں، کلب سے جڑ جائیں۔ ‘‘، ’’ابتدا میں انسان نے ہی رب کی تخلیق کی تھی۔‘‘، ’’معبود نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘، ’’لاکھوں لوگ اللہ کے بغیر اچھے حال میں ہیں۔‘‘، ’’اکثر معبودوں کے تعلق سے ہم سب ملحد ہی ہیں، جب کہ بعض لوگ صرف ایک معبود کا انکار کرنے والے ملحد ہوتے ہیں۔ ‘‘، ’’آپ کوآرزوکرنے، دل چسپی لینے، محبت کرنے اور زندگی گزارنے کے لیے اللہ کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘، ’’میں اتنا بڑا تو ہو ہی گیا ہوں کہ کسی خیالی دوست پر یقین نہ کر سکوں۔ ‘‘وغیرہ وغیرہ۔ اب تو بات اس حد پہنچ گئی ہے کہ نیویارک شہر کے عین وسط میں ’ٹائمز اسکوائر‘ میں کرسمس کے دن سانٹا کلوز کے مجسمے کے نیچے یہ عبارت لکھ دی گئی: ’’تمھاری خوشی برقرار رہے۔ ‘‘ اور عیسی مسیح کی تصویر کے نیچے لکھ دیا گیا: ’’خرافات کو پھینک دو۔ ‘‘

ملحدانہ شناخت کو پختہ اور یقینی بنانے کے لیے ملحدین کچھ ایسی ٹی شرٹ اور لباس پہنتے ہیں جن پر الحاد والی شناخت کو ظاہر کرنے والی عبارتیں لکھی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ گاڑیوں پر ایسے اسٹیکر لگے ہوتے ہیں جو ملحدانہ عبارتوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اسی طرح ملحدین اس خیال سے بعض چیزوں کا مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ ان چیزوں کا مطالبہ کرنا ان کا حق ہے۔ اس کے لیے مظاہرے اور جلوس بھی نکالتے ہیں۔ بعض الحاد پسند ادارے سیکولرزم اور مذہب و سیاست کے درمیان تفریق کے اصول کو راسخ کرنے کے لیے قانون کا سہارا لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح ڈارونییت کو عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انٹیلی جینٹ ڈیزائن کے نظریے، یا نظریہ تخلیق کو اسکولی نصاب میں داخل کیا جاتا ہے۔ ڈارون کے نظریے پر اعتراضات کے اظہار یا اس کی خامیوں اور عیوب کومحض عیاں بھی کر دیا جاتا ہے، تو ایسی کوششوں کا تعاقب کرتے ہیں۔ اس سلسلے کا معروف واقعہ ’کِٹز مِلر بمقابل وی ڈوور (Kitzmiller vs Dover) کا ہے۔ اس واقعے میں نیشنل سینٹر فار سائنس ایجوکیشن بھی شامل تھا، جس کی صدارت ڈاروینی نظریے کی حامل ملحد خاتون ’ایوجین اسکوٹ‘ کرتی ہے۔ یہ خاتون امریکہ میں ڈاروینیت کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک سے پرجوش انداز میں آمادہ جنگ رہتی ہے۔

(عربی کتاب کا نام : ملیشیا الالحاد: مدخل لفہم الالحاد الجدید)

حوالہ جات

[1] اصل کتابیں انگریزی زبان میں ہی ہیں۔ اردو میں صرف ان کے ناموں کا ترجمہ کیا گیا ہے، ضروری نہیں کہ اس نام سے یہ کتابیں اردو میں موجود بھی ہوں۔

[2] یوٹیوب پر دستاویزی پروگرام The Trouble with Atheism دیکھیں۔

[3] مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والے مشہور ملحدین کی بہت سی فہرستیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔

[4] Imagine there‘s no heaven

[5] I Ain‘t Afraid-Holy Near.

[6] I ain‘t afraid of your Yahweh.

اپریل 2024

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2024

شمارہ پڑھیں