علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں وہ اپنے دور کی عظیم شخصیت تھے۔ انھوں نے اسلوب اور معنویت دونوں اعتبار سے متنوع اور گوناگوں خدمات انجام دی ہیں۔ بیسویں صدی میں جتنی تحریکیں معرض وجود میں آئیں اُن پر علامہ شبلی کے اثرات نظر آتے ہیں۔ موصوف کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے تقریباً ایک صدی کا عرصہ گزرچکا ہے ، اُن کی شخصیت اپنی زندگی میں اپنے افکار وخیالات کے ذریعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے آرزو مند افراد کے لیے سرچشمہ توانائی بنی رہی۔ انیسویں صدی میں ہندوستان پر انگریز پوری طرح غالب آچکے تھے اور ہر طرف مغربیت اپنا چادر پھیلا ئے جارہی تھی تو اس وقت علامہ شبلی نے اپنی تحریروں کے ذریعے لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور نئی نسلوں کو نجات دلانے کی کوشش کی جو ذہنی مرعوبیت کے دلدل میں دھنسے جارہے تھے یہ ایسا دور تھا جب مغربی مفکرین کے حوالوں کے بغیر جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے نزدیک کوئی چیز معتبر نہیں سمجھی جاتی تھی مگر شبلی نعمانی نے مسلمانوں کے ذہنوں کو جلا بخشی اور ان کے اندر تاریخی شعور کو بیدار کیا ۔ جب کہ مغرب نے مسلمانوں کی تاریخ وتمدن وتہذیب کو داغ دار بنا کر اپنے ماضی پر اُن کے اعتماد کو کھرچنے کی بھرپور کاوشیں کی تھیں۔(معارف، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، نومبر ۲۰۰۸ء، ص: ۳۳۹(
علامہ شبلی نعمانی حقیقی معنوں میں ایک عبقری شخصیت کے حامل تھے ۔ بیدار مغز اورباخبر انسان تھے۔ وہ جس دور میں پیدا ہوئے وہ غلامی کادور تھا۔ ترکی کی حکومت بکھر رہی تھی اور مغربی شکنجہ ہندوستان کو اپنی سیاسی اور تہذیبی گرفت میں جکڑے ہوئے تھا۔ اس عہد میں یہ دلیر انسان (علامہ شبلی) اپنی قوم وملت کو بیدار ہونے اور جدوجہد کرنے کا پیغام دے رہا تھا۔ بقول سید سلیمان ندوی: ’’سیاست کا باب مولانا کے قلم کا موضوع نہ تھا تاہم وہ سیاست کے ہمیشہ دلدادہ رہے، لیکن ان کی سیاسیات بھی حقیقت میں ان کے کلامیات ہی کی وسعت کا ایک جزء ہے یعنی اسلامی تمدن، اسلامی تاریخ، اسلامی علوم وفنون سے جو شیفتگی تھی اس کا فطری اقتضاء یہ ہونا چاہیے تھا کہ ان کو اسلام کی حکومت عزیز ہو اور جی چاہتا ہو کہ وہ کتابوں میں جس کی تصویر دیکھتے رہتے تھے اس کو مجسم بھی دیکھ سکتے، دوسری طرف چمن اسلام کے پھولوں کو جن گستاخ ہاتھوں نے نوچ ڈالا ان کی طرف سے ان کو پورا انحراف ہو ۔ یہی ان کی سیاست تھی‘‘۔(مقالات یوم شبلی، شیخ عطاء اللہ، شبلی ایک پین اسلامسٹ، اردومرکز، لاہور، ۱۹۶۱ء(
مولانا شبلی علمی شخصیت تھے مگر زمانے کی سیاست سے بیگانہ بھی نہ رہے۔ قومی اور ملی درد رکھتے تھے۔ سیاسی حالات وواقعات سے متاثر ہوئے تو اپنے افکار وخیالات کو بے باکی وجرات کے ساتھ بیان کرنے میں تامل نہیں کرتے تھے۔ مولانا شبلی بین الاقوامی سیاست میں ترکوں کے حامی تھے اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں ترکی ہی خلافت کا صدر مقام تھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو یہ گمان تھا کہ ٹرکش امپائر برطانوی امپائر کو کمزور یا زیر کردے تو برطانوی حکومت کی سامراجیت ہندوستان میںڈھیلی پڑجائے گی اور اس کو غلامی کے شکنجے سے نجات مل جائے گی۔ (مولانا شبلی نعمانی پر ایک نظر، سید صباح الدین عبدالرحمن، معارف، دارالمصنّفین، اعظم گڑھ، ص:۱۲۰(
’مولانا شبلی نعمانی‘ کا بھی یہی خیال تھا اور اسی محبت میں انھوں نے ترکی کا سفر کیا جب وہاں سے واپس تشریف لائے تو برطانوی حکومت کو یہ خطرہ لاحق ہواکہ وہ کہیں اپنا سفرنامہ نہ لکھیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ اُن کے لیے مضر ثابت ہوگا۔ اس لیے سفرنامہ لکھنے کے ارادے کو ملتوی کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا۔ سفرنامہ لکھنے کا ارادہ تو بدل گیا مگر ان کے دل میں ترکوں کی محبت باقی رہی۔ ۱۹۱۱ء میں اٹلی نے طرابلس پر حملہ کیا تو برطانیہ نے ترکی کے خلاف اٹلی کی حمایت کی۔ پھر ۱۹۱۲ء میں برطانیہ اور یورپ کی دوسری سلطنتوں کے اشارے پر بلقان کی ریاستوں نے ترکوں کے خلاف لڑائی کا اعلان کیا۔ مولانا نے ’’شہر آشوب اسلام‘‘ کے نام سے ایک درد انگیز نظم لکھی۔ جس کا پہلا شعر یہ تھا۔
حکومت پر زوال آیا تو پھر نام ونشان کب تک
چراغ کشتہ محفل سے اٹھے گا دھوان کب تک
جب ترکوں کو ایڈریانوبل میں فتح ہوئی تو کہا۔
تو نے دکھادیا کہ تیری تیغ جانفشاں
اب بھی فنائے ہستی دشمن کا راز ہے
مولانا کی ان نظموں سے ہندوستانی مسلمانوں کے دلوں میں برطانیہ حکومت کے خلاف بڑی بیزاری پیدا ہوئی۔ برطانیہ کی حکومت نے ہی بہادر شاہ ظفر کے خاندان کو ختم کرکے ہندوستان کے اندر مسلمانوں کو سیاسی حیثیت سے تہی دامن کردیا تھا پھراگست ۱۹۱۳ء میں کانپور میں مسجد کے منہدم ہونے کا واقعہ پیش آیا۔ یہ انہدام برطانوی حکومت کی حکام کے اجازت سے ہوا اور وہاں سڑک بنائی جانے لگی۔ اس واقعہ سے مسلمانوں کے اندر ایک سَن سَنی دوڑ گئی کانپور کے انگریز ڈپٹی کمشنر نے مسلمانوں پر گولی چلوادی جس سے بہت سے لوگ ہلاک ہوگئے جن میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے اس حادثہ کو’’ شہداء اکبر‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس سے مسلمان بہت متاثر ہوئے اور مولانا شبلی نعمانی نے بھی ایک پردرد نظم لکھ کر اپنی محزونی اور شعلہ فشانی کا ثبوت دیا۔ (مولانا شبلی نعمانی پر ایک نظر، سید صباح الدین عبدالرحمن، معارف، دارالمصنّفین، اعظم گڑھ، ص:۱۲۲)
جب یہ واقعہ پیش آیا تو اس وقت مولانا بمبئی میں تھے اور انھیں اس بات کا افسوس تھا کہ وہ خود کشتگانِ کانپور میں نہیں رہے۔ لہذا اس بات کا اندازہ ان کے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے۔
شہیدان وفا کی خاک سے آتی ہیں آوازیں
کہ شبلی بمبئی میں رہ کے محروم سعادت ہے
مولانا شبلی کی یہ نظمیں ہر کسی کے زبان پر تھیں۔ جن سے برطانوی حکومت کے خلاف بیزاری پیدا ہوئی۔ علامہ شبلی نعمانی ملکی معاملات میں آزاد تھے اور آزاد رہے ۔مولانا اپنے ایک خط میں ایک صاحب کو لکھتے ہیں کہ جو کہ ’’معارف‘‘ میں شائع ہوچکا ہے کہ میں رائے میں ہمیشہ آزاد رہا۔ سرسید کے ساتھ ۱۶ برس رہا، لیکن پولٹیکل مسائل میں ہمیشہ ان سے مخالف رہا۔ اور کانگریس کو پسند کرتا رہا۔ اور سرسید سے بارہا بحثیں رہیں۔(معارف، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، نومبر ۱۹۲۳ء، ص: ۳۹۴(
خواجہ غلام الثقلین مرحوم جو سرسید اور مولانا شبلی کے زمانہ کے علی گڑھ کالج میں پڑھے ہوئے تھے یہ دونوں بزرگوں سے اچھی طرح واقفیت رکھتے تھے۔ یہ مولانا کی وفات پر اپنے مضمون شائع شدہ ’عصر جدید‘ میں لکھتے ہیں کہ: ’’سرسید احمد خاں مرحوم مذہب میں کچھ کم آزاد خیال نہ تھے۔ لیکن سیاسی معاملات میں وہ زیادہ تر قدامت پسند یا کنسرویٹو واقع ہوئے تھے اس لیے کالج کی پروفیسری کے زمانہ ہی سے مولانا شبلی کو سرسید کے سیاسی خیالات سے سخت کراہت تھی‘‘۔(حیات شبلی، سید سلیمان ندوی، معارف پریس، اعظم گڑھ، ۱۹۴۳ء، ص: ۶۔۸(
اس زمانے میں لکھنؤ سے کانگریسی لیڈر گنگا پرشاد ورما اخبارنکالتے تھے مولانا شبلی اسے بڑے شوق سے پڑھتے تھے اور اس سے متاثر بھی ہوتے تھے۔بہرحال مسلمانوں کے اندر سیاسی انقلاب پیدا کرنے کے لیے ایک آزاد اخبار کی سخت ضرورت تھی خاص طور سے یوپی میں جو کہ مسلمانوں کا تمدنی و سیاسی مرکز تھا لیکن یوپی اس قسم کے اخبار سے تہی دامن تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کمی کو پورا کرناچاہتے تھے اس لیے مولانا نے لکھنؤ کے ’سید میر جان‘ کو جو مولانا کی خدمت میں اکثر آیا جایا کرتے تھے۔ مشورہ دیا کہ وہ ایک آزاد مسلمان اخبارجاری کریں جس سےصحیح خیالات کی ترویج ہوگی انھوں نے اس کو قبول کیا اور مولانا نے اس کے مضامین کی نگرانی اپنے ذمہ لی۔ اس طرح سے ’مسلم گزٹ‘ کے نام سے ۱۹۱۲ء میں لکھنؤ سے اخبار نکلنا شروع ہوا۔
اس اخبار کی ابتدامولانا شبلی کی ہی رہین منت تھی۔ اس وقت تقسیم بنگال کی تنسیخ، بلقان کی جنگ، کانپور کی مسجد، مسلم لیگ کی اصلاح، مسلمانوں میں صحیح پالٹیکس کا مذاق پیدا کرنے کی ضرورت وغیرہ مسائل خاص اہمیت کے حامل تھے ان موضوعات پر علامہ شبلی کی نظمیں اور مضامین شائع ہوتے رہتے تھے۔ اس اخبار میں، مولانا کے جو سیاسی مضمون چھپے ان میں ’’مسلمانوں کی پولٹیکل کروٹ‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ جو کہ چار قسطوںمیں شائع ہوا۔ حقیقت میں یہ مضمون اس قدر مدلل اور پُرجوش تھا کہ اُس نے مسلمانوں کی سیاست کا رخ بدل دیا۔ (حیات شبلی، سید سلیمان ندوی، معارف پریس، اعظم گڑھ، ۱۹۴۳ء، ص:۶۱۲(
علامہ شبلی اور سرسید کے سیاسی نظریات
دونوں بزرگوں کے خیالات میں اختلاف کچھ کم نہ تھا۔ شبلی نعمانی شروع سے جمہوریت پسند تھے جب کہ سرسید احمد خاں شخصی حکومت کو پسند کرتے تھے۔ ۱۸۹۷ء میں روم ویونان کی لڑائی میں ترکوں کو فتح ملی تو اس فتح سے انگریزوں کودکھ ہوا مگر ہندوستان کے مسلمانوں کو خوشی ہوئی۔ سرسید نے ۱۸۵۷ء کے پُرآشوب منظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے ۔ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں ان واقعات کو پھر سے دہرایا نہ جائے اس لیے اس اظہارِمسرت کے خلاف سخت مضمون لکھا جو اتحاد اسلامی کے حامی مسلمانوں کو نشتر کے مانندلگا۔ ناپسندکرنے والوں میں علامہ شبلی نعمانی بھی تھے۔ (حیات شبلی، سید سلیمان ندوی، معارف پریس، اعظم گڑھ، ۱۹۴۳ء، ص:۲۹۵(
علامہ شبلی نے تقریر کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ ’’دوسری قوموں کی ترقی یہ ہے کہ آگے بڑھتے جائیں لیکن مسلمانوں کی ترقی یہ ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے جائیں یہاں تک کہ صحابہ کی صف سے جاکر مل جائیں‘‘ ۔
’’سرسید احمد خاں کے خیال میں مسلمانوں کی زبوں حالی سے نجات کا صرف یہی ایک راستہ ہے کہ وہ مذہب کے علاوہ پورے کے پورے انگریز ہوجائیں۔ جب کہ علامہ شبلی کا خیال تھا کہ نئے دور کی صرف اچھائیوں کو اپنایا جائے۔ مولانا کا کہنا تھا کہ اگرمشرقی علوم نہ رہے، عربی تعلیم نہ رہے تو پھر وہ مسلمان کہاں رہیں گے جن کی ترقی سرسید کے پیش نظر ہے‘‘۔)تاریخ ساز جوانیاں، محمد جاوید خالد، اسلامک بک فاؤنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۶۵(
جب ’ندوۃ العلماء‘ کا قیام ۱۸۹۴ء میں عمل میں آیا تو مولانا شبلی ذہنی طور پر اس سے زیادہ قریب تھے اور خوشی محسوس کرتے تھے بقول سید سلیمان ندوی ندوۃ العلماء کے مقاصد اور اجلاس کے اعلان کے جواب میں سب سے پہلے لبیک کہنے والوں میں شبلی کا نام تھا۔
)حیات شبلی، سید سلیمان ندوی، معارف پریس، اعظم گڑھ، ۱۹۴۳ء، ص:۳۰۵(
علامہ شبلی نے اڪپنے مضمون ’’مسلمانوں کی پولٹیکل کروٹ‘‘ میں مسلمانوں کو سیاست میں شریک ہونے کی تحریک دی اور شریک نہ ہونے پر تنقید کی یہ اظہارخیال سرسید احمد خاں کے سیاسی نظریہ کے خلاف تھا ۔علامہ شبلی کو افسوس تھاکہ لوگ کہتے ہیںکہ ’’ ابھی وقت نہیں آیا ہے ابھی ہم کو پولٹیکس کے قابل بننا ہے۔‘‘ اس قدر یہ الفاظ دہرائے گئے تھے کہ قوم کی رگوںمیں پیوست ہوگئے تھے۔ علامہ شبلی کے نزدیک : ’’اس سیاسی رویہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی عام جماعت میں جب پالیٹکس کا نام آتا ہے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھا نوجوان تعلیم یافتہ گراموفون کی طرح ان الفاظ کو دہراتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدوجہد سعی کوشش، حوصلہ مندی، قوت عمل سرگرمی، جوش اور ایثار نفس کے لحاظ سے سناٹا چھاگیا‘‘۔(مسلمانوں کی سیاسی کروٹ، مقالات شبلی (ج۸)، قومی واخباری مضامین کا مجموعہ، معارف پریس، اعظم گڑھ، ص ۱۵۸)
شبلی ایک مفکر ومجتہد تھے وہ تقلید محض کے قائل نہیں تھے بلکہ نئے حالات کے مطابق نئی اسٹریٹچی بنانے کے قائل تھے۔لکھتے ہیں کہ:
’’کیا ہماری تمام عقل وسمجھ، دل ودماغ، تجربہ ومشاہدہ، جذبات و احساسات، سب اس لیے بیکار ہوجانا چاہیے کہ کسی ریفارمر نے کسی زمانہ میں ہمیں اس قسم کی تعلیم دی تھی‘‘۔
)معارف، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ، نومبر ۲۰۰۸ء، ص:۳۴۲(
۱۹۰۹ء میں رفارمر اسکیم سامنے آئی تو اس سے اختلاف ظاہر کیا۔ اس اسکیم کے تحت مردم شماری کی نسبت مسلمانوں کی تعداد کونسل میں کچھ زیادہ معین کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ علامہ شبلی کا خیال تھا کہ اس طرح کی تبدیلی کے باوجود بھی مسلمان (اقلیت)میں رہیں گے۔ جب کہ مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور ملک کے مستقبل کی تعمیر میں ان کا قائدانہ کردار ہی اُن کے مسئلےکا واحد حل ہے۔ اس طرح مسلمان (اقلیت) ہونے کے باوجود اپنی قدروقیمت کو منواسکتے ہیں ۔مولانا کو علی گڑھ سے شکوہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں مولانا محمدعلی، سجاد حیدر یلدرم، اور ظفر علی خاں جیسے صحافی، انشاء پرداز اور دلیر افراد کو جنم دیا وہیں بدر الدین طیب جی وسید علی امام جیسے سیاست دانوں کو منظر عام پر نہ لاسکا۔ ان کا خیال تھا کہ جسم کے اگر کسی حصے کو کام میں نہ لایا جائے تو وہ بے کار ہوجاتا ہے کسی کام کا نہیں رہتا۔ مولانا نے سرسید احمد خاں کے اس خدشہ کو غلط ثابت کیا کہ اگر کوئی مسلمان کونسل میں کام کرنے کے لائق نکل بھی آئے تو اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ بذاتِ خود روپیہ صرف کرکے کلکتہ اور شملہ میں قیام کرسکے گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
’’کاش آج سرسید زندہ ہوتے اور دیکھتے کہ ایک مسلمان نہیں کئی کلکتہ اور شملہ کا سفر کرتے ہیں اور ہفتوں وہاں موجود رہتے ہیں۔ اور ہر قسم کے مصارف برداشت کرتے ہیں۔‘‘ ) مسلمانوں کی پولٹیکل کروٹ، ص: ۱۶۸(
ان دونوں بزرگوں کے بارے میں ’مظہر مہدی‘ کا کہنا ہے کہ شبلی نے سرسید کی سیاست کو بدلے ہوئے حالات میں فرسودہ قرار دیا۔ جو شمع رات کے وقت جلائی جائے وہ دن میں رہنمائی نہیں کرسکتی گرچہ وہ سرسید کی بہادری اور دلیری کی بھی تعریف کرتے تھے۔ شبلی مسلم لیگ کو لاحاصل سمجھتے تھے کیوں کہ ان کے بنیادی نظریات شملہ ڈیبوٹیشن کے سیاسی فہم پر منحصر تھے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندؤں نے اپنی تیس سال کی سیاسی کوششوں سے جو ملکی حقوق حاصل کیے ہیں ان میں مسلمانوں کا بھی حصہ ہو۔ شبلی نے اس کیفیت کو اپنی نظم’’کفرانِ نعمت‘‘ میں پیش کیا ہے اس میں کانگریس کو شیر اور لیگ کو لومڑی سے تشبیہ دی ہے انہوں نے لیگ کو متوجہ کیا کہ یہ ان امورکو اپنا نصب العین قرار دے۔ جن پر ملک کی قسمت کا فیصلہ موقوف ہے یہ بھی مشورہ دیا کہ مشترک مسائل میں لیگ اور کانگریس کو ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور پیدا کرنے کے لیے اہم کتب کا ترجمہ کرنے کابھی مشورہ دیا۔
مولانا کا خیال تھا کہ برطانوی سامراج کی اصلیت کو سامنے لانے کے لیے سیاسی شعور پیدا کرنا وقت کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ مولانا شبلی قوم کو نظری سیاست اور عملی سیاست دونوں سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔(اردو دانشوروں کے سیاسی میلانات، ص: ۱۷۰)
شبلی کی نظمیں سیاسی شعور کی غمازہیں۔ اور ان کی سیاسی بصیرت کوظاہرکرتی ہیں۔ مسجد کانپور کے حادثہ پر ان کی نظم ’’ہم کشتگان معرکہ کانپور ہیں‘‘ مشہور ہے جنگ طرابلس وبلقان پر ترکوں سے خطاب، شہر آشوب اسلام، علمائے زندانی، خیر مقدم ڈاکٹر انصاری سب ایسی نظمیں ہیں جو سامراجیت کے خلاف اور ملی ووطنی جذبہ کے تحت وجود میں آئیں۔ بیسویں صدی میں مسلمان سیاسی طور پر غفلت کاشکارتھے جس کاعلامہ شبلی کو افسوس تھا۔ علامہ شبلی مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کے نقیب تھے۔ علامہ شبلی نعمانی کی مشہور نظم کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے جو انھوں نے ’شہر آشوب اسلام‘ کے عنوان سے لکھی تھی اس کے اشعار آج بھی دل کی آواز ہیں۔ کہ آج بھی ہم امریکہ کے چیرہ دستیوں کے خوفناک مناظر مشرقِ وسطیٰ میں دیکھ رہے ہیں وقار عظیم رقم طراز ہیں کہ:
یہ آواز ایک صاحب بصیرت مؤرخ کی بھی ہے ایک حق پسند سیاسی مبصر کی بھی اور ایک بے باک شاعر کی بھی جس نے تاریخ اور سیاست کے حقائق کو شاعری کے سانچے میں ڈھالا ہے اور شاعر کو مصلحت کی راہ چھوڑ کر حق گوئی کا مسلک اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے۔
(ہندوستانی مسلمان، مجلس تحقیقات، لکھنؤ، ۱۹۶۱ء، ص: ۱۷۳)
مولانا ابوالحسن علی ندوی نے شبلی کے اس کارنامے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے:
’’مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کے سلسلے میں مولانا شبلی نعمانی مرحوم کے حصہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنھوں نے ’الہلال‘‘کی نظموں اور ’’مسلم گزٹ‘‘کے مضامین کے ذریعہ برطانیہ کی وفاداری کی پالیسی اور مسلمانوں کی کمزور سیاست پر سخت تنقید کی اور تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہن کو متاثر کیا۔ (ہندوستانی مسلمان، مجلس تحقیقات، لکھنؤ، ۱۹۶۱ء، ص: ۱۷۳)
علماء کے فرائض علامہ شبلی کی نگاہ میں بہت وسیع تھے۔ وہ بذاتِ خود اُن پر عامل تھے اور دوسروں کو بھی ادائیگی کی دعوت دے رہے تھے۔ اپنی متعدد مضامین اور نظموں کے ذریعے مسلم لیگ کے نظریے کو بدلنے کی کوشش کی ۔ احرار اسلام کی رہنمائی کی اور ان کی بے راہ روی پر تنبیہ بھی کرتے رہے۔ عالمگیر اتحاد کے داعئ اول تھے۔اوقافِ اسلامی، وقف علی الاولاد، تعطیل جمعہ، اور دیگر مسائل کوحکومت وقت کے سامنے پیش کرکے تحریک کو کامیابی کی منزل تک پہنچایا۔ علماء کے طبقہ کومولانا نے جدید خیالات سے متعارف کرایا اور ان کے خاموش وجود میں حرکت پیدا کرنی چاہی ۔ان کے ذہن میں انقلاب کے لیے جس تدریج کی ضرورت تھی اُس کاخاکہ وہ اپنی تصنیفات میں پیش کرنے کی کوشش کرتے تھے اور لوگوں کو اس پر عمل کرنے کی دعوت دیتے تھے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2015