حیرت انگیز قرآن

(3)

قرآن حکیم کا اپنے سرکش مخالفین کے ساتھ تعامل بھی کم وبیش وہی ہوتا ہے، جو نفسیاتی نقطۂ نظر سے مائتھومینیا میں مبتلا شخص کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں ایک معجزہ نما آیت ہے:

یَآأیُّہَاالنَّّاسُ قَدْ جَائ تْکُمْ مَّوْعِظََۃٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَ شِفَائ لَّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ وَ ھُدَی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْ مِنِیْنَ۔  ﴿یونس: ۵۷﴾

’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے، یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے اور جو اسے قبول کرلیں ان کے لیے رہ نمائی اور حمت ہے‘‘۔

پہلی نظر میں یہ آیت بڑی مبہم اور غامض دکھائی پڑتی ہے— لیکن مذکوربالا مثال کی روشنی میں اس کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صدقِ نیت کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھنے والا یقینی طور پر ضلالت و تاریکی سے نجات پاتا ہے۔ قرآن حکیم نفسیاتی طریقۂ علاج استعمال کرتے ہوئے ، صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے فریب خوردہ لوگوں کی مسیحائی کرتا ہے اور ظلمتوں کے خوگر مریضوں کے سامنے حقائق اور واقعات کانور روشن کردیتا ہے۔ اس ضمن میں قرآن حکیم اکثروبیشتر لوگوں سے کہتا ہے:

’’اے لوگو! تم قرآن کے بارے میں ایسا ایسا کہتے ہو، لیکن فلاں فلاں چیز کے بارے میں تم کیا کہوگے؟ اور تم فلاں بات کیسے کہہ سکتے ہو جب کہ تم جانتے ہو کہ اس کے لازمی نتائج دوسری طرف اشارہ کر رہے ہیں‘‘۔

اس طرح قرآن حکیم اپنے قارئین کو مجبو رکردیتا ہے کہ وہ مسئلے کی تمام ابعاد (Dimensions) اور پہلؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی شئے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراس پورے پروسس (Process) میں، وہ انسان کو گم راہی کی تنگ نائیوں سے نکال کر ہدایت کی وسیع شاہ راہ پر لاکھڑا کرتا ہے۔ اس پر حکمت لائحۂ عمل کے ذریعے سے ، لاشعوری طور پر انسان کے حاشیۂ خیال تک سے یہ احمقانہ اعتقاد زائل ہوجاتا ہے کہ قرآن کریم میں بیان کردہ حقائق کسی انسانی ذہن کی اپج یا پینک ہیں۔

قرآن کریم کا یہ لوگو ںکو حقائق وواقعات کے ذریعے قائل کرنے والا انداز ہی متعدد غیر مسلموں کے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کا باعث بنا ہے۔ عصر حاضر کے ایک اہم علمی مرجع جدید کیتھولک انسائیکلو پیڈیا (New Catholic Encyclopedia) میں قرآن کریم سے متعلق قابل ذکر تبصرہ کیاگیا ہے۔ قرآن کریم کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے کیتھولک چرچ نے صراحت کے ساتھ یہ اعتراف کیا ہے: ’’ماضی کے مختلف ادوار میں قرآن کریم کے مصدر و منبعِ معلومات کے متعلق مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں، لیکن آج کسی عقلِ سلیم کے حامل انسان کے لیے ان میں سے کسی نظریے کو مان لینا ممکن نہیں‘‘۔

تاریخ میں اپنی اسلام دشمنی میں بدنام کیتھولک چرچ کو بھی مجبوراً قرآن حکیم کو انسانی دماغ کی پیداوار سمجھنے والے نظریات کو غیر معقول قرار دیناپڑا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قرآن حکیم تمام عیسائی چرچوں کے لیے ہمیشہ سے بڑا دردِسر رہا ہے۔ ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ قرآن حکیم سے کوئی ایسی دلیل ڈھونڈ نکالیں، جس کے ذریعے سے قرآن حکیم کو الہامی کلام کے بجائے انسانی کلام قرا ر دیا جاسکے، لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ اِس سلسلے میں کیتھولک چرچ دیگر چرچوں سے اس بات میں ممتاز ہے کہ اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مروجہ تمام احمقانہ توجیہات کو لغو قرار دیا ہے۔ کنیسا (Church) کی تصریح کے مطابق گزشتہ چودہ صدیوں میں قرآنی مظہرہ (Phenomenon)  کی کوئی منطقی ومعقول تفسیر پیش نہیں کی جاسکی ہے۔ بالفاظ دیگر اس کو اقرار ہے کہ قرآن حکیم کا قضیہ اتنا آسان نہیں کہ اسے درخورِ اعتنا ئ ہی نہ سمجھا جائے۔ بلاشبہ دوسرے لوگ اتنے علمی اعتراف واحترام کے بھی روادار نہیں ہوتے، بل کہ ان کا عام ردعمل یہی ہوتا ہے کہ ’’یہ قرآن حکیم ہوسکتا ہے اس طرح تصنیف دیا گیا ہوگا یا اس طرح‘‘۔ ان ٹامک ٹوئیوں میں سرگرداں یہ حضرات بیشتر اوقات خود اپنے اقوال کی نامعقولیت اور باہمی تناقض کا ادراک نہیں کرپاتے ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ کیتھولک کنیسا کی یہ تصریح خود عام عیسائی حضرات کے لیے دشواری پیدا کردیتی ہے، کیوں کہ اس تصریح کی موجودگی میں ان کا قرآن کریم کے تئیں معاندانہ رویہ اپنا مذہبی اعتبار کھودیتا ہے۔ چوں کہ ہر عیسائی شخص کے دینی فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنے چرچ کے احکام وفرامین کا پابند رہے گا۔ اب اگر کیتھولک چرچ اعلان کرتا ہے کہ قرآن حکیم کے بشری تخلیق ہونے سے متعلق بازار علم میں جو بھی نظریات پھیلے ہوئے ہیں ان پر کان نہ دھرا جائے ، تو ایک عام عیسائی اس مخمصے کا شکار ہوجاتا ہے کہ اگر کوئی دوسری توجیہ معتبر نہیں ہے تو آخر مسلم نقطۂ نظر سے اس پر غور کیوں نہ کیا جائے؟ اس کا اعتراف تو سبھی کرتے ہیں کہ قرآن حکیم میں کچھ تو ہے، جس کو تسلیم کیاجانا چاہیے۔ لہٰذا جب کسی دوسری تفسیر کا اعتبار نہیں تو آخر کیوں قرآن حکیم سے متعلق مسلم عقیدے کے لیے معاندانہ موقف کو برقرار رکھا جائے؟ مجھے معلوم ہے کہ مسئلے کے اس پہلو پر وہی غیر مسلم حضرات غوروتدبر کرسکیں گے جن کی بصیرت کو اندھے دینی تعصب نے بالکل محو نہیں کردیا ہے اور جو حقائق کو کسی خاص فکر ونظریے کی عینک سے دیکھنے کے عادی نہیں ہوئے ہیں۔

موجودہ کیتھولک چرچ کے صف اول کے ممتاز رہنمائوں میں ایک نام مسٹر ہانس (Hans) کا آتا ہے۔ موصوف نے ایک مدت دراز تک قرآن حکیم پر ریسرچ کیا ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے متعدد اسلامی ممالک میں لمبے عرصے تک قیام بھی کیا ہے۔ کیتھولک دنیا میں ان کو کافی اعتبار حاصل ہے۔ اپنے طویل ریسرچ کے خلاصے کے طور پر انھوں نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جو حالیہ دنوں میں شائع بھی ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ میں انھوں نے لکھا ہے : ’’اللہ رب العزت نے محمد ﷺ کے واسطے سے انسان سے ہم کلامی کی ہے‘‘۔ ایک بار پھر ایک ممتاز غیر مسلم دینی را ہ نما نے، جو اپنے حلقوں میں معتبر بھی خیال کیاجاتا ہے ، اس بات کی شہادت دی ہے کہ قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کیتھولک بابا (Pope) نے اس رائے کو مان لیا ہوگا، لیکن اس کے باوجود ، عوامی مقبولیت کے حامل کسی معروف دینی راہ نما کا قرآن حکیم کے تئیں مسلم نقطۂ نظر کی تائید کرنا اپنے آپ میں کافی سے زیادہ وزن رکھتا ہے۔ مسٹر ہانس اس ناحیے سے بھی تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس واقعی حقیقت کا اعتراف کیا کہ فی الواقع قرآن کریم میں ایسا کچھ ہے جسے آسانی سے نظراندا زنہیں کیا جاسکتا اور ایسا اس لیے ہے کہ درحقیقت قرآنی کلمات کا مصدر ومنبع خود ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔

جیسا کہ ہم واضح کرچکے ہیں کہ قرآن حکیم سے متعلق تمام احتمالات ختم ہوجاتے ہیں۔ مزید کسی ایسے احتمال کا امکان نہیں رہ جاتا جس کی موجودگی میں قرآن حکیم کا انکار لازم آتا ہو۔ قرآن کریم اگر وحی ربانی نہیں ہے تو وہ ایک دھوکا اور فریب ہے، اور اگر وہ دھوکا اور فریب ہے تو ہر انسان کو حق پہنچتا ہے کہ وہ معلوم کرے کہ اس عظیم الشان فریب کا مصدر کیا ہے اور کس کس مقام پر یہ کتاب ہمیں دھوکا دے رہی ہے؟ سچ بات تو یہ ہے کہ ان سوالات کے صحیح جوابوں پر ہی بڑی حد تک قرآن حکیم کی صداقت و صحت کا انحصار ہے اور ان سوالات پر چپ سادھ لینا اشارہ کرتا ہے کہ دعوے داروں کے پاس اپنے موقف کی تائید میں کچھ نہیں ہے۔ اتنا سب کچھ جان لینے کے باوجود اگر مخالفین کو اصرار ہے کہ قرآن حکیم محض ایک فریب ہے ، تو انھیں اس دعوے کے کچھ دلائل بھی پیش کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ اب دلائل دینے کی ذمے داری ان کی بنتی ہے اور یہ کوئی صحتمند رویہ نہیں کہ کوئی بھی شخص کسی معقول دلیل کے بغیر اپنے گھسے پٹے نظریے کو بس پیش کرتا رہے۔ میں ایسے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں: ’’مجھے قرآن حکیم میں موجود کوئی ایک دھوکا یا جھوٹ لاکر  دکھاؤ۔ اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو اس کو مکر وفریب یاجھوٹ کہنا بند کرو‘‘۔

قرآن حکیم کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ غیر متوقع طور پر رونما ہونے والے حادثات کو بھی الگ اور انوکھے انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ حوادث صرف زمانۂ ماضی پر موقوف نہیں ہوتے، بل کہ ان میں سے کچھ دراز ہوتے ہوتے ہمارے عہد سے بھی متعلق ہوجاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر قرآن حکیم اپنے منکرین کے لیے جس طرح کل ایک محیرالعقول مسئلہ بنا ہوا تھا اُسی طرح آج بھی ہے۔ قرآن حکیم ہرگزرتے لمحے کے ساتھ اپنی تائید میں دلائل کا اضافہ کرتا جاتا ہے جو اس بات کااشارہ ہے کہ قرآن حکیم آج بھی وہ حیرت انگیز طاقت ہے جس کے ساتھ آسانی سے لوہا نہیں لیاجاسکتا ۔ میں ایک مثال دیتا ہوں، قرآن کریم کی ایک آیت ہے:

أَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوآأَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْا ٔرضَ کَانَتاَ رَتْقاً فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآئِ کُلَّ شَیْ ئِِ حَیِّ أَفَلَا یُوْمِنُوَْ﴾ ﴿الانبیآء: ۳۰﴾

’’کیا وہ لوگ جنھوں نے ﴿نبیﷺ  کی بات ماننے سے﴾ انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے انھیں جدا کیا اورپانی سے ہرزندہ چیز پیدا کی، کیا وہ ہماری اس خلاّقی کو’’نہیں مانتے ‘‘ ؟

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آیت کریمہ میں مذکور بعینہ انھی معلومات کے نام نہاد انکشاف کرنے پر ۱۹۷۳میں انکارِ خدا کے قائل دو ملحدوں کو نوبل پرائز (Nobel Prize) سے نوازا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن حکیم نے صدیوں پہلے اس کائنات کی  ابتداء کے بارے میں وضاحت فرما دی تھی۔ لیکن انسانیت آج تک قرآن حکیم میں مذکور اس کائناتی سچائی کو ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔

آج سے چودہ سو سال پہلے کے انسانی معاشرے میں اس حقیقت کا اعلان آسان نہیں تھا کہ کائنات میں زندگی کا آغاز پانی میں ہوا تھا۔ آپ تصور کرلیں کہ آپ چودہ سو سال پہلے کی دنیا میں کسی سنگلاخ صحرا کے وسط میں کھڑے ہیں اور اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی سے کہہ رہے ہیں:’’یہ جو کچھ تم دیکھ رہے ہو، یہ سب پانی سے تشکیل پایا ہے‘‘۔ یقینا اگر آپ ایسا کہتے تو کوئی آپ کی تصدیق نہ کرتا۔ اس حقیقت کو ثابت کرنے میں انسانیت کو خُردبین کے ایجاد ہونے کاانتظار کرناپڑا اور اس طویل انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ انسانی جسم جن خلیوں (Cells) سے تشکیل پاتا ہے ان کی حیات کا بنیادی مادہ (Cytoplasm) پانی سے بنتا ہے۔ ایک بار پھر واقعات نے ثابت کردیا کہ گردشِ ایام کی رفتار قرآن حکیم کے پائے استقلال کو سرِمو نہیں ہلاسکی۔

قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ قرآن کریم کی صداقت کی بعض مثالیں وہ ہیں جو ماضی میں قرآن حکیم کے حق میں شہادت دے چکی ہیں اور کچھ ایسی شہادتیں بھی ہیں جو ماضی وحال دونوں کو اپنے حلقۂ اثر میں لیے ہوئے ہیں۔ قرآن حکیم کی صداقت جانچنے کے بعض پیمانے وہ تھے جو ماضی میں اللہ تعالیٰ کی عظمتِ کاملہ اور علمِ مطلق کی گواہی دے کر ناپید ہوگئے جب کہ دوسرے کچھ پیمانے ایسے ہیں جو آج بھی کسی ناقابلِ تسخیر چیلنج کی طرح ہمارے درمیان موجود ہیں۔ پہلی قسم کی مثال میں قرآن کریم کی اس تصریح کو پیش کیاجاسکتا ہے جو ابولہب کے متعلق کی گئی تھی۔ قرآن حکیم میں سورہ لہب میں دعویٰ کیاگیا تھا کہ اللہ عالم الغیب ہے اور وہ جانتا ہے کہ ابولہب اپنی شرپسندی کو چھوڑ کر اسلام نہیں لاسکتا ہے، اس لیے اس کا دوزخی ہونا مقدر ہے۔ اس سورت کے ذریعے جہاں اللہ کے علم مطلق اور اس کی لامحدود حکمت کا اثبات مقصود تھا، وہیں اس کے واسطے سے ابولہب اور اس کے ہم شاکلہ لوگوں کو ڈرا بھی مقصود تھا۔ سب نے دیکھا کہ قرآن حکیم کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف صادق آئی۔ دوسری قسم کی مثال میں وہ آیات پیش کی جاسکتی ہیں جن میں مسلمانوں اور قومِ یہود کے باہمی تعلقات کو زیر بحث لایاگیا ہے۔ ان آیات میں قرآن حکیم کے پیش نظر یہ نہیں ہے کہ وہ دونوں دینوں کے متبعین کے باہمی تعلقات کو کم سے کمتر کرنا چاہتا ہے، بل کہ یہاں اس کا مقصد واقعی زندگی میں موجود دونوں جماعتوں کے اجتماعی تعلقات کا خلاصہ ہے۔ قرآن کریم نے دوٹوک انداز میں اس بات کی پیشین گوئی کی ہے کہ یہودیوں کے مقابلے میں عیسائی حضرات کا رویہ مسلمانوں کے تئیں قدرے بہتر ہوگا:

لَتَجِدَنَّ أَ شَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْالْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْلَّذیْنَ قَالُوْااِنَّا نَصَارٰی۔﴿المائدہ:۸۲﴾

’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پائوگے اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پائوگے جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں‘‘۔

اس تصریح میں چھپی گہری حقیقت کا شعور اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس کے حقیقی معنی کا اس کے جملہ ابعاد (Dimensions) و اطراف کے ساتھ ادراک کرسکیں۔ یہ درست ہے کہ تاریخ میں بہت سارے عیسائی اور یہودی حضرات نے اسلام قبول کیا ہے ، لیکن اگر ہم اس موضوع کو ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہود اپنی کٹر اسلام دشمنی میں زیادہ مشہور رہے ہیں۔ میرے خیال میں بہت کم لوگوں کو احساس ہوگا کہ اس قسم کی آسمانی صراحت کتنے دوررس اندیشوں کو ہوا دے سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس آیت کے ذریعے یہودیوں کے ہاتھ اسلام کے ابطال اور قرآن حکیم کو غیر منزل من اللہ ثابت کرنے کا ایک سنہرا موقع میسر آگیا ہے۔ ان کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ وہ عالمی سطح پر اتفاق کرکے چند برسوں کے لیے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرلیں کیوں کہ اس کے بعد وہ ببانگ دہل اعلان کرسکتے ہیںکہ اب تمہارا مقدس قرآن حکیم تمہارے بہترین  کرم فرماؤں  کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ وہ یہود ہیں کہ عیسائی؟ دیکھو تمھارا قرآن ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے جب کہ ہمارا عمل تمھارے ساتھ اس کے برعکس ہے، کیا اب بھی یہ قرآن تمھارے نزدیک کلام الٰہی ہے؟

جی ہاں! قوم یہود کو قرآن حکیم کو غلط ثابت کرنے کے لیے صرف اتنا کرنے کی ضرورت ہے ، لیکن مسئلے کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ وہ گزشتہ چودہ سو سال میں ایسا نہیں کرسکے ہیں اور یہ حیرت انگیز عرض (Offer) آج بھی لامتناہی مدت صلاحیت (Validity) کے ساتھ موجود ہے۔

اوپر جتنی بھی مثالیں مذکور ہوئی ہیں، وہ دلائل کی معروضی (Subjective) قسم سے تعلق رکھتی ہیں، آئیے اب ہم موضوعی (Objective) انداز میں بھی قرآن حکیم کی حقیقت کا جائزہ لیں۔یہ جاننا حیرت سے خالی نہ ہوگا کہ قرآن کریم کی صداقت کو ریاضی (Mathematics) کے کسی فارمولے (Rule of Probability)  سے بھی ثابت کیا جاسکتا ہے۔ میں پہلے اس کی وضاحت کے لیے ایک مثال دیتا ہوں: اگر ایک شخص کے پاس کسی سوال کے جواب میں دو آپشن ہیں اور وہ اپنے اندازے سے کسی ایک کو اختیارکرتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ ہر دوبار میں ایک مرتبہ درست ہو، کیوں کہ اس کے پاس دو احتمالات میں ایک قطعی طور پر درست ہوگا۔ جیسے جیسے مسائل کی کثرت ہوتی جائے گی اندازے کی اصابت کا احتمال کم سے کم ہوتا جائے گا۔ اب ہم ا س مثال کو قرآن کریم پر آزماتے ہیں— سب سے پہلے ہمیں ان تمام موضوعات کی تعداد شمار کرنا ہوگی جن پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن حکیم نے اپنی کسی رائے کا اظہار کیا ہے۔واضح رہے کہ ان موضوعات پر قرآن کریم میں مذکور بیانات کی صحت کا احتمال، ریاضی کے سابق الذکر اصول کی روشنی میں بے حد کم ہے۔ بل کہ قرآن حکیم میں مذکور موضوعات کی تعداد اس قدر زیادہ اور متنوع ہے کہ عملی طور پر اس قاعدے کی روشنی میں ان کی صحت کا احتمال صفر سے کم بچتا ہے۔ اب اگر قرآن حکیم کے سامنے لاکھوں احتمالات غلطی کے ہیں اور وہ مسلسل درست اندازہ دیے جارہا ہے تو اس کا سیدھا نتیجہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب کے مؤلف نے اس کی تیاری میں ظن وتخمین کے بجائے قطعی حقائق سے استفادہ کیا ہے۔ میں تین مثالیں دوں گا، ان شائ اللہ ان کی روشنی میں ثابت ہوجائے گا کہ قرآن حکیم اپنے درست بیانات کے ذریعے کس طرح ممکنہ غلط احتمالات کی تردید کرتا آیا ہے۔ قرآن کریم میں تذکرہ ملتا ہے کہ شہد کی مکھی اپنے چھتے کو چھوڑ کر غذا کی تلاش میں باہر نکلتی ہے :

وَأَوْحَیٰ رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ أَنِ اتَََّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتاً وَّ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا یَعْرِشُوْنَ۔ ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کّلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکَ ذُلَلّایَّخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَ لْوَانُہُ فِیَہِ شِفَائِ لِّلنَّاسِ اِنِّی فِیْ ذٰلِکَ َلآیٰۃً لِّقَوْمِ یَّتَفَکَّرُوْنَ۔   ﴿النحل: ۶۸،۶۹﴾

’’اور دیکھو تمھارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کردی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے۔ یقینا اس میں بھی ایک نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں‘‘۔

اب کوئی شخص اندازے سے کہہ سکتا ہے : ’’یہ جو مکھی تم لوگ اپنے آس پاس اڑتی دیکھتے ہو، ممکن ہے کہ وہ مذکر (Male) ہو اور ممکن ہے کہ وہ مؤنت (Female) ہو، میں اپنے اندازے سے کہتا ہوں کہ وہ مؤنث ہے‘‘۔ یقینا اس صورت میں اس کے دو میں سے ایک احتمال قطعی درست ہوگا۔ یہ کہنے کا امکان رہتا ہے کہ اس جگہ قرآن حکیم غیر علمی بنیاد پر اندازے سے درست بات ذکر کر بیٹھا ہے۔ لیکن صورت واقعہ یہ ہے کہ نزول قرآن کریم کے وقت لوگوں کا اعتقاد اس کے برعکس تھا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ شہد کی مکھی کے مذکر ومؤنت ہونے میں کیا فرق ہوتا ہے؟ بے حد باریک فروق تو کوئی اس میدان کا متخصص (Specialist) ہی بتا پائے گا، یہاں صرف اتنا جان لیجے کہ حالیہ تحقیقات نے یہ انکشاف کیا ہے کہ مذکر مکھی کبھی غذا کی تلاش میں چھتے سے باہر نہیں آتی۔ ہینری چہارم (Henry the Fourth) لکھے گئے شیکسپیئر کے ڈرامے میں بعض کردار ، شہد کی مکھی پر اپنی قیمتی آراء  کا اظہار کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں: دراصل یہ شہد کی مکھیاں افواج ہیں اور ان کاایک بادشاہ ہوتا ہے‘‘۔ شیکسپیئر کے عہد میں لوگوں کا یہ اندازہ تھا۔ یہ مکھیاں جو انسان اپنے آس پاس مشاہدہ کرتا ہے وہ مذکر مکھیوں کا لشکر ہے، جو اپنے بادشاہ کو جواب دہ ہوتا ہے۔ مگر جدید سائنس کی رو سے یہ نظریہ درست نہیں— حقیقت یہ ہے کہ یہ سب مکھیاں مؤنث ہوتی ہیں اور ان کی زمامِ کار کسی ملکہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ بڑی بحث وتحقیق اورطول طویل ریسرچ کے بعد اس حقیقت کا ادراک عصر حاضر میں ہوا ۔ لیکن قرآن کریم نے جس وقت اس حقیقت کا برملا اظہار کیا تھا اس وقت تخمیناتی قاعدے کی رو سے اس کی صحت کا احتمال نصف فیصد تھا، لیکن جدید علم نے قرآن حکیم کے بیان کو صد فی صد درست قرار دیا ہے۔

شہد کی مکھی کے علاوہ قرآن کریم نے سورج اور خلا میں اس کی حرکاتی کیفیت کے متعلق بھی تبصرہ کیا ہے۔ یہاں پھر ہمارے سامنے دو آپشن آجاتے ہیں، اول: سورج ہوا میں پھینکے گئے پتھر کے مانند حرکت کرتا ہے، دوم: سورج کی حرکت اس کی اپنی ہوتی ہے۔ قرآن دوسرے احتمال کا ذکر کرتا ہے، قرآن حکیم کی رو سے سورج اپنی ذاتی حرکت کی رو سے چلتا ہے۔ قرآن کریم نے خلا میں سورج کی حرکت کو ’سبح‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے:

لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَآ أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبِحُوْنَ۔  ﴿یٰسین:۴۰﴾

’’نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جاپکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جاسکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں‘‘۔

عربی زبان میں سبح کے معنی تیرنے کے ہیں۔ لیکن اس میں باعتبارِ تضمن یہ شامل ہے کہ تیرنے والا اپنی کوشش وقوت استعمال کرکے تیر رہا ہو۔ کیوں کہ بے جان تنکے کی طرح پانی میں تیرتے رہنے کے لیے عربی زبان میں طفایطفواطفواً، کا فعل آتا ہے ،جو کہ یہاںنہیں استعمال کیاگیا۔ قرآن کریم نے سورج کی خلائی حرکت کے لیے ’’سبح‘‘ کا لفظ استعمال کرکے آشکارا کیا ہے کہ فضا میں سورج کی حرکت بے ضبط وقید نہیں ہے۔ وہ کسی پھینکی ہوئی چیز سے مشابہ نہیں، بل کہ وہ اپنی حرکت اور اپنے سفر میں خود بھی گھوم رہا ہے۔ یہ توقرآنی بیان ہے۔ لیکن ذرا سوچیے کیا اس چیز کا جان لینا آسان بات ہے؟ کیا کوئی عام آدمی بتا سکتا ہے کہ سورج اپنی حرکت کے دوران میں خود بھی گردش کرتا ہے؟ صرف عصرِ حاضر میں اس بات کا امکان پیدا ہوسکا ہے کہ ہم بینائی کھودینے کا خطرہ مول لیے بغیر سورج کا بہ غور مطالعہ کرسکیں اور اس کی تصویریں اتار سکیں۔ ان تصاویر کے ذریعے پہلی بار ہمارے علم میں یہ بات آسکی ہے کہ سورج کی ظاہری پرت پر تین دھبے (Spots) ہیں جو روزانہ پچیس بار گھومتے ہیں۔ دھبوںکی اس حرکت نے تاریخ میں پہلی بار قطعی طور سے ثابت کردیا کہ سورج محور پر گھومتا رہتا ہے۔ اس طرح قرآن حکیم کے ایک اور کائناتی بیان کی تصدیق، جو اب سے چودہ صدیوں قبل دیاگیا تھا ، ناقابل تردید بنیادوں پر ہوگئی۔

اگر ہم آج سے چودہ سو سال پہلے کی دنیا میں لوٹ جائیں تو ہم پائیں گے کہ اس وقت کے ترقی یافتہ متمدن معاشروں کو بھی مناطق زمنیہ یا بالفاظ دیگر ٹائم زون (Time Zone) کے متعلق کچھ خبر نہ تھی۔ لیکن قرآن کریم اس ضمن میں جو اظہار خیال کرتا ہے وہ انتہائی حد تک حیرت انگیز ہے۔ یہ تصور کہ ایک خاندان کے بعض افراد کسی ملک میں صبح کا ناشتہ تناول فرما رہے ہوں، دریں اثنائ اسی خاندان کے بعض دوسرے افراد کسی دوسرے ملک میں ڈنر ٹیبل پر تشریف رکھتے ہوں، اپنے آپ میں بڑا تعجب خیز ہے اور آج بھی اس کو اعجوبہ سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کا انسان اپنے کمزور وسائل سفر کے باعث اس قابل نہیں ہوسکا تھا کہ عام حالات میں وہ ایک دن میں تیس میل سے زیادہ مسافت طے کرسکے۔ مثال کے طور پر صرف ہندستان سے مراکش کا سفر کئی مہینوں میں ہوتا تھا اور گمان غالب یہی ہے کہ مراکش میں موجود ہندستانی مسافر دوپہر کا کھانا تناول کرتے ہوئے یہی خیال کرتے ہوں گے کہ ہندستان میں ان کے اہل خانہ بھی اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔

قرآن حکیم چوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،جس کا علم مطلق ہے اور جس سے کائنات کی کوئی حقیقت پوشیدہ نہیں ، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم جب قیامت کی بات کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ قیامت کا معاملہ پلک جھپکتے واقع ہوگا :

وَمَآأَ مْرُالسَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِأَوْھُوَ أَقْرَبُ۔            ﴿النحل: ۷۷﴾

’’اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بل کہ اس سے بھی کچھ کم‘‘۔

تو وہ کہتا ہے کہ یہ قیامت بعض لوگوں کو دن میں آلے گی اور بعضوں کو رات میں آدبوچے گی:

أَفَأَ مِنَ أَھْلُ الْقُرَیٰ أَنْ یَأتِیْہُمْ بَأْسُنَا بَیَاتاً وَّہُمْ نَآئِمُوْنَ۔ أَوْأَمِنَ أَھْلُ الْقُرَیٰ أَنْ یّأْتِیَہُمْ بِأْسُنَا ضُحیً وَّہُمْ یَلْعَبُوْنَ۔أَفَأَمِنُوْا مَکْرَاللّٰہِ فَلاَ یَأْمَنُ مَکْرُاللّٰہِ اِلّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ۔          ﴿الاعراف: ۹۷۔۹۹﴾

’’کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آجائے جب وہ سوتے پڑے ہوں؟یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘۔

ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ وقت کے مختلف مناطق کا علم کائنات کے خالق کے کلام میں موجود ہے، جب کہ یہ معلومات چودہ صدیوں پہلے کسی کے حیطۂ خیال میں نہیں تھیں۔ ٹائم زون کی آفاقی سچائی ، قدیم انسان کی نظروں سے اوجھل اوراس کے تجربات کے دائرے سے خارج تھی اور تنہا یہ حقیقت قرآن کو منزل من اللہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

گزشتہ مثالوں کی روشنی میں اگر آپ متبادل احتمالات کا فارمولا استعمال کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر مثال کے ذریعے قرآن کی صداقت کچھ اور واضح ہوگئی ہے۔ اور بھی ایسی سیکڑوں مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان کے ساتھ صحیح احتمالات کی فہرست بھی طویل ہوتی جائے گی۔ ہم ان تمام قرآنی موضوعات سے سردست نہ تعرض کرتے ہوئے صرف یہ عرض کریں گے کہ یہ احتمال کہ محمد ﷺجو ایک ناخواندہ انسان تھے ، انھوں نے بے شمار موضوعات پر بالکل درست اندازے لگائے اور اپنے کسی بھی اندازے میں ان سے غلطی کا ارتکاب نہ ہوا، بذات خود اس احتمال کی صحت کاتناسب اس درجے کم ہے کہ عقل سلیم کا حامل کوئی اسلام کا بدترین دشمن بھی اس کو نہ مانے گا۔ لیکن قرآن حکیم اس احتمال کے چیلنج کو بھی بڑے معقول انداز میں ختم کردیتا ہے۔

یہاں میں ایک مثال پر اپنی بات ختم کروں گا، اگر کوئی اجنبی شخص آپ کے علم کی حد تک پہلی بار آپ کے ملک میں داخل ہوتا ہے اور آپ سے کہتا ہے: میں تمہارے والد کو جانتا ہوں، میں پہلے ان سے مل چکا ہوں تو یقیناآپ اس نووارد کے بیان پر شک کریں گے اورآپ کا سوال ہوگا: تم یہاں ابھی پہلی بار آئے ہو، تمھیں میرے والد سے تعارف کیسے ہوگیا؟ آپ اس سے متعلق چند باتیں بھی دریافت کریں گے مثلاً میرے والد کاقد کیسا ہے؟یا وہ کس رنگ کے ہیں؟ اگر اس نوواردنے ان تمام سوالات کے صحیح جوابات دے دیے تو آپ مطمئن ہوجائیں گے آپ کہیں گے: مجھے یقین ہے کہ تم میرے والد کو جانتے ہو وغیرہ البتہ مجھے نہیں معلوم کہ تم نے انہیں کیسے جانا؟ قرآن حکیم کا اپنے مخاطبوں کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ ہے ، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خالقِ ارض وسمائ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ سارے انسانوں کا حق ہے کہ وہ اپنے طور پر سوالات اور مباحثوں کے ذریعے اس کی صداقت کے با رے میں اپنا اطمینان کرلیں، اگر یہ خالق کونین کا کلام ہے تب یہ فلاں فلاں چیز کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوگا… وغیرہ۔ اس ضمن میں یقینی بات یہ ہے کہ جو بھی خود سے قرآن میں بحث وتحقیق کرے گا وہ خود ہی حقیقت کا ادراک کرلے گا۔ ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن حکیم ایک ایسا خزانہ ہے جو رہتی دنیا تک کو اپنے بیش بہا لعل وجواہر سے نوازتا رہے گا اور جو انسان جتنا اس کی گہرائی میں غواصی کرے گا اتنے ہی قیمتی موتی اس کی جھولی میں آتے جائیں گے۔ چنانچہ ہر صاحب عقل انسان پر لازم ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے میںوہ اس کتابِ ہدایت سے مستنیر ہوتا رہے۔

ضمیمہ

ٹورنٹو یونیورسٹی کے ایک فاضل انجینئر (Engineer) کو علم نفسیات میں گہری دلچسپی تھی اور اس سلسلے میں انھوں نے کافی کچھ مطالعہ بھی کیا تھا۔ انجینئر موصوف نے مصاحبین کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر ’اجتماعی مباحثوں کی قوتِ تاثیر (Efficiency of Group Discussions) کے موضوع پر ریسرچ کیا ہے۔ اس ریسرچ کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ مجموعے کی وہ کیا تعداد ہوتی ہے جو بحث و مناقش میں زیادہ سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ریسرچ کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ کافی چونکا دینے والے ہیں۔ اس ریسرچ کی روسے کسی بھی قسم کے مباحثے یا مناقشے کے لیے موزوں ترین تعداد دو افراد کی ہوتی ہے۔ کسی کو بھی اس ریسرچ سے ایسے نتیجے کی توقع نہیں تھی، لیکن اسی نصیحت کو قرآن کریم نے بہت پہلے دنیا کے سامنے پیش کردیا تھا:

قُلْ اِنَّمَا أَعْظُکُمْ بِوَاحِدَۃِِ أَنْ تَقُوُمُوْا لِلّٰہِ مَثْنَی وَفُرَادَی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِکُمْ مِنْ جِنَّۃِِ اِنْ ھُوَ اِلّاَ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَی عَذَابِِ شَدِیْدِِِ۔  ﴿سبأ: ۴۶﴾

’’اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ میں تم کو بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں ۔ خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑائو اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر ایسی کون سی بات ہے جو جنون کی ہے؟ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے‘‘۔

اس کے علاوہ قرآن حکیم کی سورۃ الفجر میں ایک شہر کا نام ’ارم‘ (Iram) آیا ہے:

أَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادِِ۔ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۔ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلَہَا فِی الْبِلَادِ۔  ﴿الفجر: ۶۔۸﴾

’’تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتائو کیا اونچے ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ، جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی‘‘۔

قدیم تاریخ میں یہ شہر غیر معروف تھا، بل کہ مؤرخین کے حلقوں میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں پایا جاتا تھا۔ نیشنل جیوگرافک (National GeograPhic)میگزین نے ۱۹۷۸ئ کے ماہ دسمبر کے اپنے شمارے میں اس شہر کے متلق کچھ حیرت ناک انکشافات کیے ہیں۔ اس میگزین کے مطابق ۱۹۷۳؁ء میں ملک سوریا ﴿شام﴾ میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے ذریعے ’البا‘ (Elba) نامی شہر کا انکشاف ہوا ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ اس شہر کی عمر تقریباً چار ہزار تین سو سال ہے، لیکن اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کھدائی کرنے والوں نے اس شہر میں ایک مقام سے جوغالباً سرکاری استعمال میں تھا، ایک قدیم زبان میں لکھا رجسٹر بھی برآمد کیا ہے۔ اس رجسٹر میں ان تمام شہروں کے نام درج ہیں جن کے ساتھ اہلِ ’البا‘ کے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ اب آپ کو یقین آئے یا نہ آئے اس رجسٹر میں ’ارم‘ نامی ایک شہر کا نام بھی درج ہے۔البا شہر کے باشندے کے ’’ارم ‘‘ نامی شہر کے ساتھ تجارتی روابط رکھتے تھے۔

آخر میں محترم قارئین سے التماس ہے کہ براہ کرم اس آیت کریمہ پر ضرور غور فرمائیں:

وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ آیَاتٌ مِّنْ رَّبِّہ قُلْ اِنَّمَا اْلآیَاتُ عِنْدَاللّٰہِ وَاِنَّمَا أَنَا نَذِیْرٌمُّبِیْنٌ۔ أَوْلَمْ یَکْفِیْہِمْ أَنَا أَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ اِنِّیْ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّذِکْرٰی لِقَوْمِِ یُّؤمِنُوْنَ۔   ﴿العنکبوت: ۵۱﴾

’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پرنشانیاں اس کے رب کی طرف سے ، کہو نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں، اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر ۔ اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ ﴿نشانی﴾ کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں‘‘۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223