جدید سائنس اور اسلام

اسلام رخی سائنس کی ضرورت(۹)

جب بھی جدید سائنس اور اسلام کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے سوال کیا جاتا ہے کہ جدید سائنس ہی کیوں صرف سائنس کیوں نہیں؟۔ دوسرا سوال جو اسی سے متصل رہتا ہے اور مذہب و سائنس کی بحث میں ہمیشہ اٹھتا ہے کہ کون سا مذہب؟ یا مذہب کس معنی میں؟ اور اسلام کے سلسلے میں توعلمی بد دیانتی کے عروج پر جا کر کہا جاتا ہے کہ کون سا اسلام؟ ترکی اسلام ؟سعودی اسلام؟ملائی اسلام؟ انڈونیشیائی اسلام؟ ہندی اسلام؟ پاکستانی اسلام؟ یا پھر متشدد اسلام، ترقی پذیر اسلام، جدید اسلام، وغیرہ وغیرہ۔

عام طور پر معتدل محققین بھی اس پروپیگنڈے کے جھانسے میں آ جاتے ہیں اور اس طرح اپنی تحریروں کو تحقیقی و علمی معیار کی کم تر سطح پر لے آتے ہیں۔

یہاں ہم جدید سائنس سے مراد وہ سائنس لیں گے جو ساڑھے تین سو برس کے دورانیے میں ارتقا پذیر ہوئی اور اسلام سے مراد وہ اسلام لیں گے جس کے بنیادی اصولوں پر مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

جدید سائنس اور مذہب کے متعلق چار بڑے بیانیے ہیں اور اس کے ماننے والے مذہب میں ویسی تفریق نہیں کرتے جیسی ہم کرتے ہیں۔ وہ آسمانی مذاہب، ساختی مذاہب، غیر ساختی مذاہب، رسوم و رواج بمعنی مذاہب، مذہبی فلسفے اور دیگر مذہبی نظر آنے والے نظریات، تخیلات، تصورات، فلسفے اور کلٹ موومنٹ کے بنانے والے دھرم گروؤں کے خیالات، ان تمام کو مذہب کی قبیل میں رکھتے ہیں۔

اسلام اور سائنس کے تعامل پر لٹریچر کا ایک خاصا ذخیرہ موجود ہے لیکن اسلام اور جدید مغربی سائنس پر کم کام ہوا ہے۔ اسلام اور سائنس کے حوالے سے عام طور پر عہد وسطی کے فلسفی اور یونانی سائنس کے تناظر میں ابن سینا، الکندی، الجاحظ اور دیگر حکما نے یونانی فلسفے اور اسلامی نظریہ علم و فن پر خاصا ذخیرہ چھوڑا ہے، لیکن یہ بعض وجوہ سے ناکافی ہے:

  • فلسفہ اور سائنس کی تقسیم کے بعد اساسی اور جوہری نوعیت کے سوالات تبدیل ہوگئے۔ فلسفہ ایک طرح سے ازکار رفتہ ٹھہرا اور سائنس بحیثیت ماخذ اور مصدرِ علم کے ارتقا پانے لگی۔
  • جدید سائنس کامل طور پر نہ تو ارسطوئی (Aristotelian) رہی ہے نہ نیوٹنی (Newtonian)، بلکہ ہمارے نزدیک، نہ صرف جدید سائنس بلکہ اس کا مرکزی فلسفہ نئے محور کی تلاش میں ہے۔ البتہ سائنٹزم نے اپنا محور الحاد کو بنالیا ہے۔

اسی طرح پچھلے پچاس برسوں میں جدید سائنس اور اس کی جستجو میں غیر معمولی تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کو یہاں نکات کی شکل میں بیان کیا جاتا ہے:

  • جدید سائنس نیچریت (naturalism) سے آگے بڑھ کر ڈاروینی نیچریت کی علم بردار بن چکی ہے۔

راقم کے نزدیک یہ محض نیچریت اور ڈاروینیت کا الحاق نہیں بلکہ یکسر ایک نئی تعبیر ہے، جس کے تحت فطری قوانین کے زیر اثر ایک خود ارتقائی کائنات کا وجود بغیر کسی حادث کے ممکن ہے۔ یعنی کائنات کا وجود ہوجائے تو بقیہ‘حادثات‘ کے لیے ارتقائی فریم ورک کافی ہے جس میں زندگی کی ابتدا سے لے کر انسان کے وجود تک کے لیے کافی جواب موجود ہے (زیادہ تر سائنس دانوں اور محققین کے نزدیک!)

  • پچھلے پچاس برسوں میں سائنسی فلسفے پر سب سے کڑی تنقید تخفیفیت (reductionism) پر ہوئی ہے۔تخفیفیت کسی واقعے یا مشاہدے کو اس کی اکائیوں میں بانٹ کر مطالعہ کرنے کو کہتے ہیں جب کہ اسے کل کی حیثیت میں دیکھ کر مطالعہ کرنے کا نام کلیت ہے۔ جہاں عام طور پر جدید سائنس کا رجحان تخفیفیت کی طرف رہا ہے وہیں اب کلیت کا شعور بھی بڑھ رہا ہے۔ لیکن تخفیفیت کے ناقد اور کلیت کے قائلین دونوں گروہ طبعی سائنس میں کوئی عملی کلی منہج (holistic methodology) دینے میں ناکام رہے ہیں۔
  • عام طور پر سائنس کو بے معنی (meaningless) اور بے مقصد (purposeless) بتایا جاتا رہا ہے۔ جدید سائنس نے بڑی حد تک انسانی فلاح و بہبود کو اپنا مرکز و محور بنایا ہے۔
  • ماضی میں طبعی سائنس اور سماجی سائنس میں کافی دوری تھی لیکن جدید سائنس کلیت کا دعویٰ کرتی ہے اور اس کے بعض مظاہر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ اس جہت میں انضمام ایک بڑے عمل کے طور پر جاری ہے۔

اوپر دیے گئے نکات کی روشنی میں ہم اسلام اور سائنس کے تعامل اور بطور خاص جدید سائنس اور اسلام کے تعامل اور اس پر وجود میں آنے والے لٹریچر کو دیکھتے ہیں تو درج ذیل چار بیانیے نظر آتے ہیں، یا دوسرے لفظوں میں اس تعامل پر موجود مسلم مفکرین اور مخالفین اسلام کے فکر کا نچوڑ درج ذیل خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے:

  • جدیدیت پسند (modernist): یہ وہ مفکرین ہیں جو جدید سائنس کو ضروری سمجھتے ہیں اور اس کے بنیادی فلسفے میں کوئی عیب نہیں پاتے۔ وہ سائنس کو قوت کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس فہرست میں جمال الدین افغانی، محمد عبدہ اور عبدالسلام اور اسی قبیل کے اہل علم کو رکھا جاسکتا ہے۔
  • اخلاقیت پسند: یہ لوگ مغربی سائنس کی بنیادوں اور اس کے بنیادی فلسفے سے اختلاف رکھتے ہیں، اس پر تنقید کرتے ہیں اور اسے مکمل طور پر رد کرتے ہیں، اور مانتے ہیں کہ جدید مغربی سائنس نے اخلاقی اقدار کا بحران پیدا کردیا ہے۔ اس میں حسین نصر اور ان کی فکر سے وابستہ افراد کو رکھا جاسکتا ہے۔
  • تیسری قبیل کے وہ مفکرین ہیں جو سائنس کے بنیادی فلسفے کو مکمل طور پر غلط نہیں سمجھتے۔ اس سے قوت کے حصول کو صحیح سمجھتے ہیں لیکن اس کے مغربی تصور حیات میں موجود خامیوں کی نشان دہی کرتے ہیں اور اس تصور حیات کے غلط اجزا کو چھانٹ کر اس کی نئی تعبیر پر زور دیتے ہیں، ساتھ ہی اس کے منہج کو مکمل طور سے غلط نہیں سمجھتے۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سیاق و سباق اور سائنس دانوں کے مذہبی، سیاسی اور تہذیبی پس منظر ان کی تحقیقات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ مفکرین سائنس کو پوری طرح اقدار سے بری (value-neutral) نہیں مانتے بلکہ عقیدے کی بنیاد پر ایک نئی سائنس کی بنیاد ڈالنے پر زور دیتے ہیں۔ اس ذیل میں فضل الرحمٰن، نضال قسوم، مہدی گولشانی وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
  • مذہب مخالف (antitheistic): یہ وہ مفکرین و محققین ہیں جو مذہب کو ہر برائی کی جڑ مانتے ہیں، سائنس اور مذہب کی دو یکسر مختلف حیثیتوں کے قائل ہیں، سائنس کو علم کے حصول کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں اور مذہب و سائنس کے درمیان تصادم کے قائل ہیں، نیز مذہب و سائنس میں کسی بھی قسم کی تطبیق کے منکر ہیں۔ وہ صرف یہی نہیں مانتے کہ مذہب و سائنس ایک دوسرے کے ساتھ چل نہیں سکتے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ کہتے ہیں کہ سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب ہی ہے۔ مذہبی کنڈیشننگ انسان سے تخلیقیت اور ندرت چھین لیتی ہے۔ اس کے لیے وہ مذہب کے ماننے والے ممالک اور مذہب کے نہ ماننے والے ممالک کو بطور ثبوت پیش کرتے ہیں اور ان ممالک کی تمدنی ترقی کو براہِ راست لامذہبیت سے جوڑتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جو ملک یا سوسائٹی مذہب کو مانتی ہے وہ تمدنی و ٹکنالوجی کی ترقی میں بہت پیچھے رہ جاتی ہے۔ اس کے لیے وہ عالم اسلام کے ممالک کا ڈیٹا پیش کرتے ہیں۔

اسلام کے معاملے میں تعصب کی بنا پر ان کی مخالفت دوآتشہ ہوجاتی ہے۔ یہاں صرف ایک مثال پیش کی جاتی ہے:

ٹینر ایڈس (Taner Edis) نے اپنی کتاب An Illusion of Harmony: Science and Religion in Islam میں لکھا ہے:

مسلمانوں کی سائنسی کارکردگی اور سائنس کے تئیں ان کا عمومی رجحان اس بات سے میل نہیں کھاتا کہ اسلام کامل منطقی مذہب ہے۔[1]

اسلام کو سائنس اور بطور خاص جدید سائنس کے مخالف بتانے، اسے قدامت پسند اور غیر سائنسی اور غیر عقلی قرار دینے کا یہ رویہ نیا نہیں ہے لیکن ٹینر ایڈس نے اس رویے کو بالکل نئی جہت دی ہے، اگرچہ یہ غیر سائنسی ہے۔ مثلاً وہ تحقیقی مقالات کی تعداد کو کسی بھی ملک کی ترقی کا اشاریہ مانتے ہیں۔ اسی طرح پیٹنٹ کی تعداد اور ٹکنالوجی کی دریافت یا نوبل پرائز کی تعداد کو براہِ راست اسلامی ذہنیت یا اسلامی تصور حیات سے جوڑنے لگتے ہیں۔ ہر چند کہ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ سب اشاریے مذہب کے علاوہ بھی دوسرے عوامل پر منحصر ہیں۔ اس طرح وہ تناقض کا شکار ہوجاتے ہیں، اور اپنی فکر کی خود ہی نفی کر بیٹھتے ہیں۔

مذہب مخالف مفکرین کا بیانیہ اپنی جگہ لیکن ایک معتدل جائزہ یہ بتاتا ہے کہ یہ تشدد دونوں جانب ہے۔ مثلاً بطور خاص جب جدید مغربی سائنس پر تنقید کی جاتی ہے تو مسلم مفکرین کے یہاں جدید مغربی سائنس اور اس کے بنیادی فلسفے اور منہج پر تنقید اسی شدت پسندی کا شکار ہوجاتی ہے۔ جس کا شکار ٹینر ایڈس ہوئے ہیں۔ مثلاً حسین نصر ایک غیرمعمولی شخصیت کے مالک ہیں۔ ہمارے نزدیک سائنس و اسلام کے میدان میں ان کی حیثیت اس کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ہے۔ ان کے تمام تر احترام و عقیدت کے باوجود ذیل کی مثال اس تشدد پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نصر کہتے ہیں:

کئی مسلم ممالک میں جب سے بچے یہ سیکھنے لگے کہ پانی آکسیجن اور ہائیڈروجن سے مل کر بنتا ہے تو وہ گھر آکر عبادت کرنا بند کردیتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں جس نے کسی نہ کسی درجے میں درحقیقت مغربی سائنس کے غیرمعمولی اثر اپنے نظریاتی نظام پر نہ دیکھے ہوں۔[2]

یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ نصر اس مکتب فکر کے بانی یا موجد ہیں جو علم کی وحدانیت کا قائل ہے، اور خردہ کاری (fragmentation) یا ثنویت علم کو یکسر رد کرتا ہے۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ پانی والی مثال کسی روا روی میں دے دی گئی ہو (یہ ایک لکچر کا حصہ ہے جو بعد میں شائع ہوا تھا) پھر بھی یہ کہنا کہ پانی کی حقیقت سے عقیدے پر ضرب پڑنے لگی ہے، نہ صرف دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے بلکہ قرآن کی اللہ کی نشانیوں اور اس کے قوانین پر غور کی بہ تکرار تاکید سے بھی متصادم ہے۔ یہ حقیقت معروف منہج سے ثابت ہے اور اس کے براہِ راست ثبوت موجود ہیں کہ پانی ان دو عناصر ہی سے مل کر بنتا ہے۔

اسی طرح اجمالی مکتب فکر جس کے بانی ضیاء الدین سردار ہیں اور جنھیں Britain‘s very own polymath کہا جاتا ہے، وہ بھی مغربی سائنس کے فلسفے اور منہج پر تنقید میں اسی شدت پسندی کے شکار نظر آتے ہیں:

کیا ہو اگر فطرت کو بجائے ایک ریسورس کے طور پر نہیں بلکہ ایک امانت کے طور پر دیکھا جائے جس کی آبیاری اور نمو ضروری ہے۔ تو پھر زندہ اجسام کی چیر پھاڑ ( vivisection – دواؤں اور سائنسی تجربات کے لیے زندہ جانوروں پر تجربات) کو کس منہج سے تبدیل کیا جاسکے گا؟[3]

جدید سائنس اب فطرت کو ایک ’’ریسورس‘‘ کی طرح نہیں دیکھتی۔ جدید سائنس کارتیسی (Cartesian) تصور حیات یا سارتر کے بیانیوں سے بہت آگے آچکی ہے۔ سائنس میں اخلاقی قدروں کو شامل کرنے کی بحث بھی کافی آگے بڑھ چکی ہے۔ اس کو نظر انداز کرکے عمومی بیان (sweeping statement) دینے کو تشدد ہی کہا جاسکتا ہے۔ چیر پھاڑ سرطان جیسے موذی مرض کو سمجھنے اور اس کے لیے دوائیں بنانے میں بڑی حد تک کام یاب رہی ہے۔ بہت سی اقسام کے سرطان اب لاعلاج نہیں رہے۔ یہ چیر پھاڑ کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ مزید یہ کہ پوری دنیا میں تمام تر کوششوں کے باوجود اس طریقے کے متبادلات وجود میں نہ آسکے۔ اب جدید دورمیں ہائی تھروپٹ کمپیوٹنگ اور ان سلیکو تحلیل کی مدد سے اس میدان میں غیرمعمولی کام ہوا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اس کے متبادلات آنے کی امید بڑھی ہے۔ ایسے متشدد رویے کی ایک مثال انوار الجندی کے ہاں بھی ملتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

اسلام نے مغربی تجربی سائنس، اس کے اصول اور انطباقات پر تحدیدات و تحفظات عائد کیے ہیں۔ درحقیقت مغربی سائنس ایک ایسی عیارانہ نخوت سے ابھری ہے جو خالقِ حیات و کائنات سے منکر ہے اور فطرت کو خدا کے درجے پر فائز کرتی ہے، یہی مغربی سائنس کی فاش غلطی ہے۔ مزید برآں یہ مادی فلسفے پر تکیہ کرتی ہے اور انسانی حیات کے تمام روحانی و اخلاقی پہلوؤں کو جھٹلاتی ہے جس سے انسان، سائنس اور خدا کے درمیان اہم کڑیاں نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔ ڈارون اور بگ بینگ کےنظریات دونوں ہی کالعدم ہیں، ڈارون کے نظریے کی تو اہم کڑی ہی موجود نہیں۔ کوئی نظریہ جو اہم عنصر کو نظرانداز کردے کیسے سائنس کی اگلی صفوں میں جگہ پاسکتا ہے اور ایک صدی سے زیادہ عرصے تک غالب نظریے کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے۔ بگ بینگ کے نظریے میں شواہد کا فقدان ہے اور محض قیاسات پر مبنی ہے۔ قرآن ایسے قیاسات کو رد کرتا ہے، خصوصاً کائنات کی تخلیق کے حوالے سے۔ [4]

طوالت کے خوف سے صرف ان تین مثالوں پر اکتفا کیا گیا ہے لیکن در حقیقت ایسی بہت سی مثالیں اس لٹریچر میں مل جائیں گی۔ مندرجہ بالا مفکرین اور محققین نے مغربی سائنس پر تنقید ہی نہیں کی بلکہ اس سے آگے بڑھ کر انھوں نے فکری بنیادوں پر ایک اسلامی سائنس کے لیے انٹلکچوئل ایکٹوزم کی بھی بنا ڈالی۔ اس کا مختصر تذکرہ ضروری ہے تاکہ قارئین جان سکیں کہ اس ضمن میں کیا کچھ کوششیں کی گئی ہیں۔

حسین نصر کے نزدیک وحدانیت سب سے بڑی سچائی ہے اور ’علم اور سچائی‘ ایک ہی ہے۔ اس لیے اسلامی سائنس کا مقصد اسی وحدانیت کو اجاگر کرنا ہے۔ (حسین نصر پہلے مفکر و محقق فلسفی ہیں جنھوں نے ’’اسلامی سائنس‘‘ کی اصطلاح استعمال کی)۔ اس طرح جدید سائنس کے بنیادی فلسفے سے اختلاف کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ طبعی محسوس دنیا اور محسوسات سے پرے ایک اور روحانی دنیا ہے جسے منطق اور حسیات سے نہیں پہچانا جاسکتا۔ ان کے نزدیک انسان ان دو دنیاؤں کی حقیقت کی بہترین مثال ہے۔ اس کا طبعی جسم اور شعور اور روح دو مختلف دنیائیں ہیں۔

ان بنیادی اصولوں کا استعمال کرتے ہوئے حسین نصر اور ان کے تلامذہ نے علم کو دو خانوں میں تقسیم کیا ہے۔ (یقینی علم جو قرآن میں واضح طور پر وحی کے ذریعے محفوظ کردیا گیا اور ظنی علم جو انسان مختلف طریقوں سے حاصل کرتا ہے اور سائنسی منہج اس کا ایک طریقہ ہوسکتا ہے۔)

اس طرح نصر بنیادی طور پر اعداد و شمار پر مبنی سائنسی طریقے اور وجدانی طریقے کو مربوط کرکے ایک حقیقی سائنس کو تشکیل دینے کی بات کرتے ہیں۔ نصر کے اس تجزیے پر کئی تنقیدیں موجود ہیں۔ ان کے سب سے بڑے ناقد ضیاء الدین سردار ہیں۔

نصر کے اس نظری فریم ورک کی گو کہ اپنی اہمیت ہے لیکن عملی طور پر اس ضمن میں زیادہ کام نہیں ہوسکا ہے۔

اس کے بالمقابل اسلامی سائنس یا جدید سائنس اور اسلام کے تعامل کے فریم ورک اور رہ نما اصولوں کے وضع کرنے کے سلسلے میں دوسرا اہم نام اسمٰعیل راجی الفاروقی کا ہے۔ اسمٰعیل راجی الفاروقی ایک فلسطینی امریکی محقق تھے۔ انھوں نے اسلامائزیشن آف نالج کے تصور کی بنیاد ڈالی اور اسی کے تحت ایک وسیع منصوبہ بھی بنایا اور اس پر کام کیا۔ (اس پروجیکٹ کو اب بھی بڑی حد تک انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک تھاٹ (IIIT) کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔ اسلامائزیشن آف نالج کے پورے خد و خال کو انھوں نے اپنے ایک مقالے Islamization of Knowledge: General Principles میں پیش کیا ہے۔ دیکھیے[5]۔

اس کے مقاصد کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

  • قرآنی رہ نمائی میں ایک اسلامی اپیسٹیمولوجی کا نظام تشکیل دینا۔
  • قرآن اور حدیث کی بنیاد پر علم اور تہذیب کے مصادر تشکیل دینا۔
  • جدید تہذیب اور جدید سائنس کے ذریعے پیدا شدہ بحران کے حل کے لیے اسلامی سائنس کی تشکیل کرنا۔

مندرجہ بالا مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے درج ذیل طریقہ تجویز کیا:

  • جدید سائنس پر دسترس حاصل کرنا اور اس پر تحقیق و تجزیہ کرنا۔
  • اسلامی سائنسی ورثے کا تجزیہ کرنا۔
  • تمام علوم جدید کا اسلام سے تعلق اجاگر کرنا۔
  • علوم کو اسلامی فریم ورک میں لا کر ان کی تجدید کرنا۔
  • نصابی کتب میں ان کو داخل کرنا۔

بیک نظر بہت متاثر کن نظر آنے والے اس منصوبے پر اسمٰعیل راجی الفاروقی اور ان کے بعد ان کے شاگردوں پر کافی تنقیدیں ہوئیں۔ نصر کے نظری فریم ورک کی طرح اس پروجیکٹ کو بھی خاطرخواہ کام یابی نہیں ملی۔

تیسرا اہم ترین کام جو اسلامی سائنس کے ذیل میں ہوا وہ اجمالی گروپ کی جانب منسوب کیا جاسکتا ہے۔ ضیاء الدین سردار اس اجمالی گروپ کے بانی ہیں۔

اجمالی گروپ بنیادی طور پر دو مقدمات پر مبنی تھا۔

اپنی مابعد الطبیعیاتی بنیادوں اور اپنی ٹکنالوجی کے اعتبار سے جدید سائنس گم راہ کن (flaccid) اور خطرناک ہے۔

اسلام علم (science) کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرتا ہے، نیز اخلاقی قدروں اور انسان اور فطرت کے درمیان مطابقت و ہم آہنگی کا قائل ہے۔

اجمالی گروپ کی تفصیل اور ضیاء الدین سردار کے اسلامی سائنس کے وژن کو سمجھنے کے لیے دیکھیں[6]۔ Islamic Science: The Way Ahead

مختصراً یہ کہ سردار یہ مانتے ہیں کہ اسلامی سائنس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ مغربی سائنس (جدید سائنس) کے تمام تر تصورات کو رد کر دے جو جدید سائنس انسان، کائنات اور فطرت کے تئیں رکھتی ہے۔ نیز جدید سائنس کے تمام تر منہج (میتھیڈولوجی) سے براءت کا اظہار کرے۔ اس کی بنیاد پر اجمالی گروپ کے اہم رکن منور انیس نے اجمالی گروپ کے سائنسی وژن کے ان پہلوؤں کا احاطہ کیا اور بتایا کہ اسلامی سائنس کیا ’نہیں‘ ہوسکتی۔ جن میں تخفیفیت (reductionism) نیز) سماجی طور پر غیر ضروری (socially irrelevant) عناصر وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے[7]۔

اسلامی سائنس کیا نہیں ہوسکتی اس کا فیصلہ کرلینے کے بعد منور انیس اور اجمالی گروپ نے بتایا کہ اسلامی سائنس کا نظری فریم ورک کیا ہوگا۔ یہ سات اہم ستونوں پر کھڑا ہوگا: 1۔ توحید 2۔ خلافت 3۔ عبادت 4۔ علم 5۔ حلال 6۔ عدل 7۔ استصلاح۔[8]

بغور دیکھا جائے تو عدل اور استصلاح جدید مغربی سائنس کے فریم ورک میں شامل ہوچکے ہیں۔ کم از کم نظریاتی حد تک، یعنی جدید سائنس کم از کم اس کے بطن سے پیدا ہونے والی ٹکنالوجی کے لیے مساوات کی بات کرتی ہے۔ تمام انسانوں تک اس کا فائدہ پہنچے اس کا اہتمام کم از کم کاغذ پر سہی، کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

اسی طرح سائنس کے ذریعے جہالت کا خاتمہ ہو یہ بھی جدید سائنس کا ایک اہم ستون ہے اور یہ جہالت انسانوں کے عقیدے سے متعلق نہیں بلکہ توہم پرستی سے متعلق ہے۔ مثلاً عورتوں کی ناپاکی سے متعلق بہت سی غیرسائنسی باتیں دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مذہب میں موجود ہیں۔ سائنس اس جہالت کو دور کرنے کے لیے مقامی تہذیب اور عقیدے کا احترام کرنا اپنے آپ پر واجب قرار دیتی ہے۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ جدید سائنس میں اس کے بنیادی فلسفے میں اور اس کے انطباق (ٹکنالوجی) میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یقیناً ہے لیکن جدید سائنس کو ماضی کے فلسفے کے چشمےسے نہیں دیکھا جا سکتا۔

ہمارے نزدیک جدید سائنس تھامس کہن، ہیگل، فریبینڈ اور ریوٹز وغیرہ کے دیے ہوئے فلسفوں اور بیانیوں سے آگے نکل چکی ہے۔ جدید سائنس کے ان تمام فلسفیوں کے ذریعے دیے گئے تینوں ستونوں میں دراڑ پڑ چکی ہے۔ بعض کے نزدیک یہ ڈھے گئے ہیں۔ یہ تین ستون ہیں:

  1. معروضیت (objectivity): عام طور پر مانا جاتا رہا ہے کہ سائنس اپنے فلسفے اور منہج میں معروضیت کو اپناتی ہے۔ لیکن اب یہ بات ظاہر ہو چکی ہے کہ تمام کی تمام سائنسی کاوش معروضی نہیں ہوسکتی۔ سائنس کی مختلف شاخوں میں، سائنس کے طریقہ کار میں، سائنس دانوں میں، اعداد و شمار میں، نتائج کے اخذ کرنے میں کام میں ’کامل معروضیت‘ رکھنا ناممکنات میں سے ہے۔
  2. غیر جانب داری (neutrality): سائنسی فلسفے کا دوسرا اہم ستون غیر جانب داری ہے۔ لیکن سائنس کے فلسفے کی اس اہم ترین قدر کے سلسلے میں یہ بات تسلیم کی جاچکی ہے کہ کامل اعتدال برتنا ممکن نہیں ہے۔ نہ مفروضات میں، نہ تجربات کے ڈیزائن میں، نہ تجربے سے حاصل شدہ ڈیٹا میں، نہ اس ڈیٹا سے حاصل شدہ استنباط اور استخراج میں، نہ نتائج میں۔ غرض اعتدال لانا انتہائی مشکل کام مانا جاتا ہے۔
  3. سائنس کی آفاقیت (universality):اس تصور کے مطابق سائنس طریقہ کار اور نتیجہ کے اعتبار سے آفاقی ہے۔ یعنی ایک طبعی قانون یا تجربہ ہندوستان میں جو نتائج دے گا وہی نتائج دنیا میں کہیں بھی ایک جیسے ہوں گے۔ لیکن یہ بات اب مسلم ہے کہ مقام کے اعتبار سے نتائج بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔

اوپر دیا گیا تفصیلی تجزیہ دراصل اس فطری سوال کی طرف ہمیں لے جاتا ہے جو یہ ہے کہ کیا ایک اسلامی سائنس ممکن ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں کیا ایک اسلام متاثر سائنس ممکن ہے؟ اگر ہم اصطلاحات کے جنگل کو چھوڑ دیں تو زیادہ سادہ لفظوں میں یہ سوال ہوگا: کیا اسلامی نظریاتی بنیادوں پر ایک جدید سائنس کی تشکیل کرنا ممکن ہے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ اسلامی سائنس کے بجائے اسے اسلام رخی سائنس (Islam-inspired science) کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

اگر اس سوال کا جواب ہاں ہے، تو اس سائنس کا نظری فریم ورک کیا ہوگا! اور یہ فریم ورک ماضی کے اور حال کے فلسفیوں یا مفکرین و محققین کے ذریعے دیے گئے فریم ورک میں کیا اضافہ کرے گا؟ اس ضمن میں درج ذیل نکات پیش کیے جاتے ہیں:

جدید سائنس کا فلسفہ اور منہج دونوں کا الگ الگ تجزیہ کیا جانا چاہیے۔ یہ بات کامل طور پر صحیح نہیں ہے کہ فلسفے اور منہج میں کوئی ایسا تعلق ہے جسے توڑنے سے جوہری نوعیت کے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔ بطور خاص طبیعی علوم میں منہج کی اپنی دنیا وجود میں آچکی ہے۔ اور یہ منہج عمومی طور پر پوری سائنسی تاریخ میں ارتقا پذیر رہا ہے۔ اصلاً یہ مشاہدہ- مفروضہ- تجربہ- نتیجہ ہی کے محور پر رہا ہے۔ مسئلہ اصل میں اس محور کے ہر نکتے کے اضافی ہونے پر ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ طبیعی علوم میں منہج پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جو منہج ایک لمبے عرصے میں ارتقا پذیر ہوچکا ہے۔ اس میں بعض چیزوں کو تبدیلیوں کے ساتھ اسلام رخی سائنس کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

عمرانیات میں منہج پر نسبتاً زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ مغربی سائنس کے تصورحیات کا اثر عمرانیات میں زیادہ دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ تصور حیات انسان، کائنات اور اس کے رشتے کو یکسر مختلف انداز میں دیکھتا ہے۔ ’انسان سماجی جانور ہے‘ جیسے زبان زد عام جملے اسی تصور حیات کی پیداوار ہیں۔ پچھلے 20 برسوں میں سماجی ڈاروینیت کے تحت عمرانیات اور اس قبیل کی دوسری شاخوں میں جو ریسرچ ہوئی ہے۔ اس کے منہج میں یہ اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔

اصلاً اسلام رخی سائنس ’کیسے‘ کا جواب ہوگی ’کیوں‘ کا نہیں۔ یعنی ’معرفت خالق‘ اس کاوش کا بالآخر مطمح نظر ہوگا۔

اسلامی سائنس میں بطور خاص طبیعی علوم کے لیے منہج کی سطح پر ’تخفیفیت‘ کے لیے جگہ ہوگی لیکن ’حریص تخفیفیت‘ (greedy reductionism) سے یہ سائنس پاک ہوگی۔

تخفیفیت کا ایک سادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی پیچیدہ نظام کو اکائیوں میں تقسیم کرکے اس کا مطالعہ کیا جائے۔ یہ اسلامی سائنس میں صحیح مانا جائے گا۔ اس اضافے کے ساتھ کہ ان اکائیوں کے مطالعے سے حاصل شدہ نتائج کو مکمل نظام کے ساتھ مستنبط کیا جائے، اور نظام اور اکائی دونوں میں تعامل اور ارتباط کو بھی دیکھا جائے۔

ایک دوسرا مطلب تخفیفیت کا یہ ہوتا ہے کہ ہر شے کی سائنسی تشریح کی جاسکتی ہے۔ مثلاً کسی تاریخی واقعہ کی تشریح سماجی و سیاسی اصطلاحات میں کی جاسکتی ہے اور جو بالآخر انسانی عضویات (human physiology) اور پھر فزکس اور کیمسٹری کے اصولوں کے مطابق کی جاسکتی ہے۔ بدنام زمانہ الحاد کے علم بردار ڈینیل ڈینٹ اسے greedy reductionism سے موسوم کرتے ہیں، اور یہ مانتے ہیں کہ یہ عین ممکن ہے۔ بس سائنس ابھی تک اس درجے پر نہیں پہنچی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دیوانے کی بڑ کے سوا کچھ نہیں۔

جدید کونیات (cosmology) کی رو سے واحد (singularity) سے سب کچھ وجود میں آیا ہے۔ اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تخلیقی لمحے (moment of creation) کا تصور دوبارہ کونیات میں داخل ہو رہا ہے یا کیا جاسکتا ہے۔ اسلام رخی کونیات اس پر خصوصی کام کر سکتی ہے۔

سائنس اور منطق دونوں میں علت (causality)کی بحث بہت پرانی اور دقیق ہے۔ طبیعی علوم میں علت اور معلول پر بہت کچھ لکھا اور بولا جاچکا ہے، لیکن فیصلہ کن تصور یا بیانیہ اب بھی تخلیق نہیں دیا جاسکا۔ نیچری ڈاروینیت (naturalistic Darwinism) بھی اس ضمن میں خاموش ہے یا کوئی تشفی بخش جواب دینے سے قاصر ہے۔ اسلام رخی سائنس اس پہلو سے نئے زاویے تلاش کرے گی۔

اسلام رخی سائنس میں آسانی کے لیے محدود اور مثبت خردہ کاری (fragmentation) کی گنجائش رہے گی۔ اس سے قبل کے نصر، سردار،اور الفاروقی ماڈلوں میں خردہ کاری کوجدید سائنس کا علی الاطلاق عیب مانا جاتا رہا ہے، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ خردہ کاری سے جدید سائنس کی مختلف شاخوں میں غیر معمولی ارتقا ہوا ہے۔

اسلام رخی سائنس میں معنی اور مقصد دونوں مقدم رہیں گے۔ عام طور پر جدید سائنس کو بے معنی اور بے مقصد بتایا جاتا ہے، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ سائنس اپنی تطبیق کے اعتبار سے خود کوخادمِ انسان کے طور پر متعارف کرواتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ تہذیبی سیاق اس انطباق کو انسانیت کے لیے نقصان دہ بنادے۔ اسلام رخی سائنس کا ایک بڑا مقصد اس جستجو کی تسکین کا سامان بھی ہوگا جو قرآن میں حضرت ابراہیم کے حوالے سے مذکور ہے:

’’اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے جب ابراہیم نے کہا تھا میرے مالک مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے؟ فرمایا کیا تو ایمان نہیں رکھتا۔ اس نے عرض کیا ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔‘‘ (البقرة:260)

اسلام متاثر سائنس کا یہ انتہائی اہم پیراڈائم ہوگا۔ عام طور پر یہ سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ جب کن فیکون کی بات آہی گئی تو پھر اسلامی سائنس میں تجسس کہاں باقی رہا؟ ایک بار یہ بات مان لی گئی کہ خالق ایک ہے تو پھر کونیات، سالماتی حیاتیات، جینیاتی پیراڈائم میں کیا خاک کام ہوگا۔ لیکن قرآن کا مطالعہ بتاتا ہے کہ انسانی تجسس کی تحسین ایک جلیل القدر نبی کی زبانی کروا کر اس اہم پیراڈائم کے لیے دروازہ کھلا رکھا گیا ہے۔

اسلام رخی سائنس انواع کے ظہور میں آنے، کائنات کے وجود میں آنے، ستاروں اور سیاروں کی تخلیق، جین کے انضباط میں اسی اطمینان کی تلاش کرے گا جس کا سوال حضرت ابراہیم ﷣نے باری تعالیٰ سے کیا تھا۔ اور اس طرح معرفت کے درجے طے کرتا چلا جائے گا۔ اسلامی تصور حیات رکھنے والے سائنس داں کے لیے نیچری فریم ورک کی کوئی حاجت نہیں رہے گی۔ وہ اپنے فطری تجسس کی تشفی کے لیے ہر قسم کے صحرائے علم کی خاک چھانے گا، اور اس کے ذریعے وہ نفس مطمئنہ بننے کی طرف پیش قدمی کرے گا جسے ایک مومن کی معراج کہا جاسکتا ہے۔ اور اس طرح اس آیت کی عملی تشریح بن جائے گا جس میں باری تعالیٰ انسانوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے:

’’تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤگے پھر پلٹ کر دیکھو،کہیں بھی کوئی خلل نظر آتا ہے‘‘۔(سورہ الملک: 3،4)

اسلام رخی سائنس میں ٹکنالوجی کے فلسفے کی حیثیت جداگانہ رہے گی حالاں کہ سائنس کے فلسفے کے ساتھ اس کا اشتراک (overlap) رہے گا۔ (اس پر اگلے مضمون میں بحث آئے گی!)

اسلام رخی سائنس مقاصد شریعت کو اپنے وسیع تر، جامع تر اور متفقہ مفہوم میں حاصل کرنے کی کوشش کرے گی یا اس کے لیے راہیں ہم وار کرے گی، یا اس کے لیے بحیثیت ایک آلہ کام کرے گی، یا دوسرے آلات کے ساتھ مل کر اس کام میں معاون و مددگار ہوگی۔

اوپر دیے گئے نکات کے علاوہ اسلام رخی سائنس کے نظری فریم ورک کو درج ذیل نکات کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے:

اسلام رخی سائنس غیر نیچری ڈاروینیت کے پیراڈائم میں کام کرے گی۔

معرفت خالق یا علت و معلول کا باہمی ربط (causality) یا قوت (causal force ) اس کا فوکس ہوگا۔ یہی اس کا آخری مقصد بھی ہوگا۔

اسلام رخی سائنس تخلیق کے روایتی بائبلی ڈیزائن والے ماڈل سے اجتناب کرے گی لیکن تخلیق کے میکانیکی پہلوؤں سے بحث کرنے والے نظریات جیسے تصور ارتقا سے مثبت تعامل کرے گی۔

کوانٹم میکانکس کے ذریعے پیدا شدہ لمحہ تخلیق اسلام رخی سائنس کی کونیات کا ایک اہم اور بنیادی پیراڈائم رہے گا۔

اسلام رخی سائنس ’اعجاز قرآن‘ کے خالص غیر سائنسی مشمولات کو رد کرے گی اور اعجاز قرآن کے نئے زاویے اور نئے پہلوؤں کی جستجو کرے گی۔ اسلام رخی سائنس اعجاز قرآن کے نام پر نامعقول عملی مظاہر (جیسے جنوں سے توانائی کا حصول، قرآنی آیات کی تلاوت سے پانی کے طبعی اور کیمیائی خصائص کی تبدیلی، زم زم پر قرآنی آیات پڑھے جانے پر ہونے والے اثرات کا مشین کے ذریعے جائزہ، وغیرہ) کا بھی رد کرے گی۔

اسلام رخی سائنس سماجی ڈاروینیت کے پیراڈائم کو رد کرے گی، اور انسانی خلافت کے تصور کو عمومی شعور انسانی میں داخل کروانے کی جد و جہد کرے گی۔ معرفت خالق کے ساتھ اسلام رخی سائنس کا ایک اہم مقصد انسان بحیثیت خلیفہ ارض کے تصور کو علمی دنیا میں قبول عام دلوانا بھی ہے۔

اس کے علاوہ اسلام رخی سائنس کے درج ذیل بنیادی کام ہوں گے:

  • جدید سائنس میں موجود علمی خلا کی نشان دہی
  • اس علمی خلا پر تنقید
  • متبادل عملی فریم ورک اور اشخاص کار کی تلاش
  • نالج کی تخلیق
  • نالج کی ترویج
  • محققین اور مفکرین کے اجماع کی کوشش

اسلام رخی سائنس اپنی پیش رو کوششوں سے درج ذیل اعتبار سے مختلف ہوگی:

پچھلی کوششوں میں سائنس اور جدید سائنس کی تفریق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا، اسی طرح جدید سائنس کے فلسفہ کے ارتقا کا لحاظ نہیں رکھا گیا ہے، جس کا لازمی اثر یہ ہوا کہ یہ تمام کوششیں ابتداءً کام یابی کے بعد سرد مہری کا شکار ہو گئیں۔ اسلام رخی سائنس میں اس فلسفیانہ ارتقا کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

منہج کے اعتبار سے یکسر نئے میتھڈ کی تلاش کار عبث ہے۔ سائنس کے منہج کا ارتقائی سفر ایک طویل عرصے کومحیط ہے۔ اس لحاظ سے منہج کے اعتبار سے ان تمام کوششوں میں ایک طرح کا خلا موجود تھا۔ اسلام رخی سائنس میں منہج کو شروع سے بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ موجود منہج کے ان حصوں سے اجتناب کیا جاسکتا ہے جو ہمارے نظری فریم ورک سے متصادم ہیں یا اس میں شامل (accommodate) نہیں کیے جاسکتے۔

اسلامائزیشن کے ماضی کے بیشتر ماڈلوں میں جدید مغربی سائنس کو شجر ممنوعہ کے طور پر دیکھا گیا ہے، اور یہ فلسفہ اور منہج دونوں سطحوں پر ہوا ہے، حتی کہ اس کے انطباق یعنی ٹکنالوجی کی سطح پر بھی۔ اس لحاظ سے ان کوششوں کا مغربی سائنس سے صحت مند تعامل نہ ہوسکا۔

تعامل کے اس خلا نےماضی میں ہوئی اسلامائزیشن آف نالج کی تمام تر تحریکوں اور اس کی مختلف شکلوں اور اس قبیل کی تمام کوششوں کو ایک خاص فریم میں قید کردیا جس کی وجہ سے ایک طرح کا ’بند نظام‘ تشکیل پا گیا۔

اسلام رخی سائنس میں مغربی سائنس کے فلسفے اور منہج دونوں سطحوں پر تعامل کی گنجائش رہے گی۔

طبیعی علوم میں کلی منہج (holistic methodology) کا ارتقا غیرمعمولی جدت طرازی اور ندرت چاہتا ہے۔ اس کی غیر موجودگی میں کلیت محض ایک کاغذی تصور ہے۔ ان کوششوں کے ضمن میں توجہ نہیں دی جاسکی ہے۔

اسلام رخی سائنس میں طبیعی علوم کے منہج کو برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ صرف ان حصوں کی تجدید کی جاسکتی ہے جو ہمارے نظری فریم ورک سے براہِ راست ٹکرا رہے ہوں۔

عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ اسلامی سائنس ممکن نہیں۔ مثلاً معروف سائنس داں پروفیسر پرویز امیر علی ہود بھائی اس ضمن میں کافی سخت رویہ رکھتے ہیں۔ وہ اس کی تین وجوہ بتاتے ہیں

۱۔اسلامی سائنس نہ تو کوئی وجود رکھتی ہے اور نہ اس کی تشکیل کی مساعی کام یاب ہوسکی ہیں۔

۲۔اخلاقی اور الہیاتی اصولوں کو متعین کرنے سے کسی سائنس کی تشکیل نہیں کی جاسکتی۔

۳۔اسلامی سائنس کی نہ تو کوئی متفقہ تعریف موجود تھی اور نہ ہے۔

اوپر دیے گئے تینوں نکتوں پر تفصیلی بحث ہو سکتی ہے اور اس کی غیر معروضیت واضح ہے، لیکن بالآخر پرویز ہود بھائی جس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر سائنس کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔

ہمارے نزدیک اصطلاحات کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے تو اسلامی تصور حیات کے مطابق ایک بالکل نئی قسم کی سائنس کا ارتقا کیا جاسکتا ہے۔ اس کا نام چاہے جو رکھا جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح قدیم یونانی (Hellenistic) تہذیب کے تصورحیات میں اس کا ارتقا ممکن ہوا، پھر یونان میں، اس کے بعد عرب میں اور حالیہ نشاة ثانیہ کے بعد یوروپ میں۔

اصل بات وہی ہے کہ تصور حیات کے مطابق انسانی تہذیب کی تمام کاوشیں ری ڈیزائن کی جاسکتی ہیں۔ سائنس بھی ایسی ہی ایک کاوش ہے۔ اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والی ٹکنالوجی بھی۔ چناں چہ ہر دوسری کاوش کی طرح اس کی تجدید نو، ترتیب نو، تعمیر نو اور تشکیل نو سب کچھ ممکن ہے۔

[1] Edis, Taner,  An Illusion of Harmony: Science and Religion in Islam (New York: Prometheus books 2007 p.8)

[2] Islam and Modern Science (mit.edu)

[3] Sardar, Ziauddin, Desperately Seeking Paradise: Journeys of a Skeptical Muslim (London: Granta books, 2004, p. 328).

[4] Guessome Nidhal, Islam‘s quantum question: Reconciling Muslim tradition and modern science,( London and New York  I.B. Tauris 2011 p104)

[5] Ismail Raji al Faruqi, Islamization of Knowledge: General Principles and Work Plan, International Institute of Islamic Thought Herndon, Virginia, U.S. Printed in the United States of America by International Graphics. 10710 Tucker Street, Beltsville, MD 20705-2223 USA

[6] Sardar, Ziauddin ’Islamic science: The Way Ahead, in Ehsan Masood (ed), How Do You Know? (London: Pluto Press, 2006, p. 161-192).

[7] Ibid, p. 182.

[8] Hoodbhoy, Pervez,Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality(London and New Jersey: Zed Books, 1991, p. 77-80).

مشمولہ: شمارہ اپریل 2022

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223