انسانی سماج کا مطالعہ، موجودہ دور کی علمی سرگرمیوں کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اس مطالعے کے لیے مختلف جہتوں سے کوششیں کی جاتی ہیں جن میں اجتماعی رجحانات و ترجیحات کو مشاہدے اور تجزیے کے ذریعے دریافت کیا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں زیادہ توجہ کسی سماج کی واقعی صورتحال کو، اعداد وشمار کی زبان میں بیان کرنے پر دی جاتی ہے۔ حالات کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ دورِ حاضر میں انسانوں کی فکر و عمل کی رہنمائی کا مقام، منظم نظریات کے بجائے، بعض مقبول نعروں کو حاصل ہوگیا ہے۔ مثلاًپچھلی ربع صدی میں گلوبلائزیشن (عالمیت) اور لبرلائزیشن (بے قید مساعی) جیسے نعرے سامنے آئے ہیں، جنہو ں نے معاشی سرگرمیوں کے علاوہ ملکوں کے قوانین اور سماجی روابط کو بھی متاثر کیا ہے۔ چنانچہ مشاہدے اور اعداد و شمار کے ذریعے سماج کے بارے میں جو کچھ معلومات حاصل ہوتی ہیں، اُن کے پیش نظر کسی گروہ یا خطے کے بارے میں تجزیہ کرنے والے، اپنی رائے بھی قائم کرتے ہیں۔ اگر زیرِ مطالعہ گروہ کا مزاج اور عمل، مقبولِ عام نعروں سے ہم آہنگ ہو تو اس کی تحسین کی جاتی ہے اور اس کے رویے کو قدرکی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، اگر زیرِ بحث سماج، آج کے پسندیدہ نعروں سے متاثر نظر نہ آتا ہو تو اُس کو قدامت پسند اور پس ماندہ (Backward) سمجھا جاتا ہے۔ تجزیہ کرنے والوں کا یہ طریق کار بتاتا ہے کہ سماجی مطالعے کے لیے ان دونوں پہلوؤں کی اہمیت انھوں نے تسلیم کی ہے یعنی معلومات اور معیارات۔ کسی گروہ، سماج یا خطے کے بارے میں تحقیق کرنے والے، وہاں کی واقعی صورتحال کو جاننا بھی چاہتے ہیں اور اس صورتحال کے پسندیدہ یا ناپسندیدہ ہونے کے سلسلے میں رائے بھی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ رائے قائم کرنے کے لیے آج جو معیار عموماً سامنے رکھا جاتا ہے وہ مقبول نعروں سے ہم آہنگی کا ہے۔
امتِ مسلمہ کی کیفیت کا مطالعہ
سماجی مطالعہ کرنے والے، جن گروہوں کے سلسلے میں تحقیق کرتے ہیں اُن میں اُمتِ مسلمہ بھی شامل ہے۔ اپنے معیارات کے مطابق (جو عصری نعروں سے ماخوذ ہیں) یہ مشاہدین، مسلمانوں کو ایک پس ماندہ گروہ پاتے ہیں چنانچہ مسلمانوں کی پس ماندگی دور کرنے اور ان کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے وہ کچھ تجاویز بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ اِن ناصحین میں وہ لوگ بھی ہوں، جو اپنے خیال کے مطابق حقیقتاً مسلمانوں کا بھلا چاہتے ہوں، لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے مزاج اور آج کے مقبولِ عام نعروں سے ہم آہنگ مزاج، میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ وہ ایک دوسرے کی ضد واقع ہوئے ہیں۔ چنانچہ تمام علمی محنت کے باوجود، مقبول عام نعروں سے متاثر تحقیق و تجزیہ کرنے والے، مسلمانوں کی ترقی کے سلسلے میں کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ ان کے پیش کردہ افکار، منصوبے اور خاکے، مسلمانوں کے لیے کوئی معنویت (Relevance) یا افادیت نہیں رکھتے۔
تاہم اُمتِ مسلمہ کی صورتحال اور کیفیت کا درست مطالعہ بہرحال ضروری ہے۔ اس لیے یہ کام مسلمان محققین کو خود انجام دینا چاہیے۔ قابلِ اعتماد مشاہدے اور محققانہ تجزیے کے ذریعے مسلمانوں کا جو حال سامنے آئے، اُس کو اسلامی معیارات پر پرکھا جانا چاہیے تاکہ ترقی اور تعمیر کے لیے وہ راہیں دریافت کی جاسکیں جو امت کے حقیقی مزاج سے ہم آہنگ ہوں۔ ایسی تجاویز کے بارے میں توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ محض کتابوں اور مقالات کی زینت نہیں بنیں گی بلکہ مسلمان سماج اُن کے قبول کرکے اُن سے فائدہ اٹھائے گا۔
مسلمان سماج کے مطالعے کے بہت سے پہلو ہیں۔ ان سب پر تحقیق کرنے والے، توجہ دے سکتے ہیں۔ تحقیق و تجزیے کا مستحق ایک اہم موضوع، مسلمان سماج میں انجام پانے والی اصلاحی و تعمیری سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ اصلاح و تعمیر کی کاوشوں کا جائزہ لیا جائے۔ اس جائزے کے لیے ان معیارات کو متعین کرنا ہوگا جن کی روشنی میں مختلف تعمیری مساعی کو پرکھا جاسکتا ہے۔ غور کرنے سے چند معیارات ہمارے سامنے آتے ہیں: جامعیت(Holistic Preception) ، درست فکری اساس (Authenticity)، اسلامی اقدار کا التزام (Integrity)، تربیت (Growth) اور امت کی فعال شرکت(Organic Activity)۔ یہ معیارات تقاضا کرتے ہیں کہ ان کی روشنی میں اصلاحی و تعمیری کاوشوں کا تجزیہ کرکے اُن کو کوتاہیوں سے پاک کیا جائے اوراُنہیں زیادہ بامعنیٰ مکمل، نتیجہ خیز، مؤثر اور مفید بنایا جائے۔ ان تقاضوں کو سمجھنے کی ابتدائی کوشش، ذیل کی سطور میں کی جائے گی۔
جامعیت
انسانی زندگی کی وسعت، انسانی سماج کی نوعیت اور دین کا مزاج سب اس کا تقاضا کرتے ہیں کہ اصلاحی اور تعمیری سرگرمیاں، جامعیت کی صفت سے متصف ہوں۔ جامعیت کا مفہوم یہ ہے کہ انسانی مسائل کے ہر گوشے میں دینی بصیرت سے رہنمائی حاصل کی جائے اور تمام دینی ہدایات پر شعور، اخلاص اور باریک بینی کے ساتھ عمل کیا جائے۔ جامعیت کی صفت موجود ہو تو اس کا ثمرہ — عدل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ انسانی سرگرمیوں کے عدل پر استوار ہونے سے افراد کو اطمینانِ قلب نصیب ہوتا ہے، انسانی مسائل حل ہوتے ہیں، انسانی شخصیت کا صحت مند ارتقاء ہوتا ہے اور دینِ حق کی دل کشی واضح طور پر سامنے آتی ہے جس سے حق کے متلاشیوں کو صراطِ مستقیم کی تلاش میں آسانی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، اگر زندگی کے محض بعض شعبوں پر توجہ دی جائے یا دین کے کچھ تقاضوں کو نظر انداز کردیا جائے تو عدم توازن اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور انسانوں کے لیے دینِ حق کو پہچاننا اور اس کی قدروقیمت سے آگاہ ہونا مشکل ہوجاتا ہے۔
قرآنِ مجید، مختلف پیرایوں میں جامعیت کی تلقین کرتا ہے۔ اُن لوگوں کی روش کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے جنھوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔
إِنَّ ہٰذِہٖ أُمَّتُکُمْ أُمَّۃً وَاحِدَۃً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِo وَتَقَطَّعُوا أَمْرَہُمْ بَیْنَہُمْ کُلٌّ إِلَیْنَا رَاجِعُونo (الانبیاء: ۹۲،۹۳)
’’یہ تمہاری امت، حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں۔ پس تم میری عبادت کرو مگر (نادان) لوگوں نے آپس میں اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالا۔ سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر کہ ’’سب کو ہماری طرف پلٹنا ہے‘‘ تنبیہ کی گئی ہے کہ دین کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالنے کی روش پر، یومِ حساب میں گرفت ہوگی۔ اس دن کے آنے سے قبل لوگوں کو اس غیر سنجیدگی سے باز آجانا چاہیے۔ دوسرے مقام پر قرآنِ مجید، فلاح کے طلب گاروں کو حق کے لیے یک سو ہونے کی تلقین کرتا ہے:
فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلٰـکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o مُنِیْبِیْنَ إِلَیْہِ وَاتَّقُوہُ وَأَقِیْمُواالصَّلَاۃَ وَلَا تَکُونُوا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَo مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَہُمْ وَکَانُوا شِیَعاً کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُونَo (الروم: ۳۰ تا ۳۲)
’’پس (اے ایمان والو!) یک سو ہوکر اپنا رخ اس (سچے) دین کی سمت میں جمادو۔ قائم ہوجاؤ اس فطرت پر جس پر اللہ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جاسکتی۔ یہی (اللہ کا نازل کردہ دین) بالکل راست اور درست دین ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ (قائم ہوجاؤ اس دین پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے، اور اُس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور اُن مشرکوں میں سے نہ ہو جاؤ، جنھوں نے اپنا اپنا دین الگ بنالیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں۔ ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے۔‘‘
درجِ بالا آیات میں اُن لوگوں کی روش کو غلط ٹھہرایا گیا ہے جنھوں نے پورے دین کو اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ اختیار کرنے کے بجائے، دین کے محض بعض اجزاء پر قناعت کرلی ہے۔ اس روش کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں: غیر سنجیدگی، ایمان کی کمزوری، اخلاص میں کمی، قلتِ علم، فسادِ ذوق، اجتہادی بصیرت کا فقدان اور غفلت۔ قرآن مجید کی تلقین یہ ہے کہ دین کی جزوی پیروی کی روش غلط ہے۔ اس کے اسباب کا سراغ لگا کر اُن کو دور کرنا چاہیے۔ دین کے بعض اجزاء سے وابستگی کو کافی سمجھنا اور اسی جزو ی دین داری میں مگن رہنا نادانی ہے۔ اس نادانی کا نتیجہ تفرقہ اور انتشار کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ جو لوگ دین کے ٹکڑے کردیتے ہیں، اُن کا اجتماعی شیرازہ بھی منتشر ہوجاتا ہے۔
اِن حقائق کے پیش نظر، تعمیر و اصلاح کی سعی کرنے والوں کو اپنی سرگرمیوں میں پورے دین کو سامنے رکھنا چاہیے اور انسانی زندگی کے ہر گوشے پر توجہ دینی چاہیے۔ یقینا مختلف پہلوؤں کے درمیان ترجیحات قائم کی جاسکتی ہیں لیکن ان ترجیحات کی ترتیب مَن مانے انداز میں نہیں ہو سکتی۔ ترجیحات بھی دینی بصیرت کی روشنی ہی میں طے کی جائیں گی۔
تعمیری و اصلاحی سرگرمیاں افراد بھی انجام دیتے ہیں اور ادارے اور تنظیمیں بھی۔ ان کے درمیان تقسیمِ کار ممکن ہے بلکہ عقل اور مصالح تقاضا کرتے ہیں کہ تقسیمِ کار کے امکانات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر ادارہ اور تنظیم، تمام ضروری کاموں کو اپنے منصوبے میں شامل کرے۔ کام کرنے والے، کسی خاص شعبے میں خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ جامعیت کا تقاضا صرف یہ ہے کہ کسی خاص پہلو سے دین کی خدمت کرنے والے، دوسرے پہلوؤں کی اہمیت اور ناگزیریت کا انکار نہ کریں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی خاص شعبے پر توجہ کرنے والے، دوسرے شعبوں میں انجام پارہی خدمات میں ممکن حد تک تعاون کریں اور اپنے مشوروں سے نوازیں۔ جامعیت کا کلیدی تقاضا یہ ہے کہ عملی سرگرمیوں میں (تقسیمِ کار پر مبنی) محدودیت کے باوجود فکر میں محدودیت نہ ہو بلکہ اظہارِ خیال، پیغام کی ترسیل اور تبادلہ خیال میں اسلام کی جامع فکر کو سامنے رکھا جائے اور اُسے اساسی حیثیت دی جائے۔
درست فکری اساس
انسانی عمل کی بنیاد فکر پر ہے اور فکر کے لیے درست اساس، ہدایتِ الٰہی سے فراہم ہوتی ہے۔ فکر و عمل کی صالحیت کے لیے لازم ہے کہ انسان، اللہ تعالیٰ سے رہنمائی کا طالب ہو اور اس رہنمائی کو صدقِ دل سے قبول کرے۔ جو لوگ اللہ کی ہدایت کو ماننے کے بجائے، کسی اور منبع سے رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں، اُن کے رویے کو قرآن مجید ’’جاہلیت‘‘ سے تعبیر کرتا ہے:
وَأَنِ احْکُمْ بَیْنَہُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللّٰہُ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہْوَائَ ہُمْ وَاحْذَرْہُمْ أَنْ یَفْتِنُوْکَ عَنْ بَعْضِ مَا أَنْزَلَ اللّٰہُ إِلَیْکَ فَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ أَنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ أَنْ یُصِیْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ وَإِنَّ کَثِیْراً مِّنَ النَّاسِ لَفَاسِقُونo أَفَحُکْمَ الْجَاہِلِیَّۃِ یَبْغُوْنَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکْماً لِّقَوْمٍ یُوْقِنُوْنَo (المائدۃ: ۴۹،۵۰)
’’پس (اے نبی)، تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنے میں ڈال کر اُس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو خدا نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔ پھر اگر یہ اُس (ہدایت) سے منہ موڑیں تو یہ جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کی پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ کرہی لیا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں۔ (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ جو لوگ (اللہ پر) یقین رکھتے ہیں، اُن کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہوسکتا ہے؟‘‘
درجِ بالا آیات میں اُن لوگوں کے رویے کو غلط ٹھہرایا گیا ہے جو اپنے معاملات میں اللہ کی ہدایت کے مطابق فیصلہ نہیں چاہتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ہدایتِ الٰہی کو تسلیم کرنے سے ’قولاً یا عملاً‘ انکار کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی ہدایت کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں، جن کاحکم فی الواقع، اللہ نے نہیں دیا ہے۔ قرآن مجید ایسے لوگوں کی روش پر بھی گرفت کرتا ہے اور انہیں تنبیہ کرتا ہے:
وَإِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَیْہَا آبَآئَ نَا وَاللّٰہُ أَمَرَنَا بِہَا قُلْ إِنَّ اللّٰہَ لاَ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ أَتَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَo قُلْ أَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَأَقِیْمُوْا وُجُوْہَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُودُوْن فَرِیْقاً ہَدَی وَفَرِیْقاً حَقَّ عَلَیْہِمُ الضَّلاَلَۃُ إِنَّہُمُ اتَّخَذُوْا الشَّیَاطِیْنَ أَوْلِیَآء مِن دُوْنِ اللّٰہِ وَیَحْسَبُوْنَ أَنَّہُم مُّہْتَدُونَo (الاعراف: ۲۸ تا ۳۰)
’’یہ (راہ راست سے بھٹکے ہوئے) لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں، ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقے پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان سے کہو، اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا۔ کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں؟ (اے نبی) اِن سے کہو، میرے رب نے تو راستی اور انصاف کا حکم دیا ہے، اور اس کا حکم تو یہ ہے کہ عبادت میں اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اُسی (اللہ) کو پکارو، اپنے دین کو اس کے لیے خالص رکھ کر۔ جس طرح اُس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے، اُسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤگے۔ ایک گروہ کو اُس نے سیدھا راستہ دکھادیا ہے، مگر دوسرے گروہ پر گمراہی چسپاں ہوکر رہ گئی ہے، کیونکہ انھوں نے خدا کے بجائے، شیاطین کو اپنا سرپرست بنالیا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم سیدھی راہ پر ہیں۔‘‘
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَآئَ ہُ أَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکَافِرِیْنَo وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ أُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَo (زمر: ۳۲،۳۳)
’’پھر اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اُس کے سامنے آئی تو اسے جھٹلا دیا۔ کیا ایسے لوگوں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے؟ اور جو شخص، سچائی لے کر آیا اور جنھوں نے اس کو سچ مانا، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں۔‘‘
إِنَّمَا یَأْمُرُکُمْ بِالسُّوْئِ وَالْفَحْشَآئِ وَأَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ o (البقرۃ: ۱۶۹)
’’وہ (شیطان) تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے (کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں)۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاح کے طالب شخص کو اچھی طرح تحقیق کرنی چاہیے کہ اللہ نے کیا ہدایت دی ہے اور کیا احکام نازل کیے ہیں۔ کوئی ایسی بات جو اللہ نے نہ فرمائی ہو، اُس کو اللہ کی طرف منسوب کرنا — بہت بڑا جرم ہے اور تباہی کا راستہ ہے۔ چنانچہ اصلاح و تعمیر کی سعی کرنے والوں کو امتِ مسلمہ کے اندر یہ شعور بیدار کرناچاہیے کہ وہ رہنمائی کے لیے، صرف ہدایتِ الٰہی کی طرف رجوع کریں۔ ہدایتِ الٰہی کو جاننے کا ذریعہ قرآنِ مجید ہے اور اُس کی وہ مستند- قولی و عملی- تشریح ہے جو نبی ﷺ نے فرمائی ہے۔ اس درست فکری اساس سے وابستگی میں کوتاہی کی جائے گی تو اُمت کی اصلاح نہ ہوسکے گی۔
اسلامی اقدار کا التزام
اصلاح و تعمیر کی سعی کرنے والوں کا انفرادی واجتماعی طرزِ عمل، بڑی اہمیت رکھتا ہے اس لیے کہ وہ اُمت کے افراد کے سامنے نمایاں ہوکر سامنے آتا ہے۔ چنانچہ اس امر کا اہتمام ضروری ہے کہ اسلامی اقدار کا صحیح فہم حاصل کیا جائے اور عملاً اُن کی پابندی کی جائے۔ بنیادی اقدار جو اجتماعی امور سے تعلق رکھتی ہیں، یہ ہیں: خدا و رسول کی اطاعت، امانت، عدل، شورائیت اور استغنا۔ قرآن مجید نے اِن سب اقدار کی تلقین کی ہے:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أَطِیْعُوْا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ وَأُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْکُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلاًo (النساء:۵۹)
’’اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی صحیح طریقِ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔‘‘
إنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّوْا الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا وَإِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ أَن تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہِ إِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعاً بَصِیْراًo (النساء: ۵۸)
’’(اے مسلمانو!) اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں، اہلِ امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔ اللہ تم کو عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘
وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَأَقَامُوْا الصَّلَاۃَ وَأَمْرُہُمْ شُورَیٰ بَیْنَہُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنفِقُونَ o (الشوریٰ: ۳۸)
’’یہ (ایمان لانے والے) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں اور ہم نے جو کچھ رزق اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَۃُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوّاً فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فَسَاداً وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ o (قصص: ۸۳)
’’وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے لیے مخصوص کردیں گے جو زمین میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقین ہی کے لیے ہے۔‘‘
اصلاح و تعمیر کی سعی کرنے والے، اسلامی اقدار کے پابند ہوں گے تو اُن کے ہاتھوں، توقع ہے کہ اُمت کی اصلاح ہوسکے گی۔ اس طرح یہ قدریں ہمارے سامنے وہ معیار سامنے رکھ دیتی ہیں، جسے احتساب کی بنیاد بننا چاہیے۔
تربیت
ظاہر ہے کہ دنیا کی اصلاح کے طالبین کو سب سے زیادہ اپنی اصلاح اور ترقی کی کوشش کرنی چاہیے۔ انسان کی تربیت کا مقصود یہ ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے بچے اور اللہ کے احکام کی مخلصانہ پیروی کرے۔ اس تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ایمان لانے کے بعد اُس کو زندہ رکھنے کی طرف توجہ کی جائے۔ یہ اہتمام بھی ناگزیر ہے کہ معصیت سے اجتناب اور فرائض کی انجام دہی کا پختہ عزم کیا جائے اور اللہ پر اعتماد کرتے ہوئے انسان، اُس کی اطاعت و بندگی کی راہ پر چل پڑے۔ اس سفر کو جاری رکھنے اور بھٹکنے سے محفوظ رہنے کے لیے ذکر و تذکیر، احتساب اور توبہ — ضروری تدبیریں ہیں۔
اصلاح و تعمیر کے داعی، بسا اوقات — تربیت کی جانب ضروری توجہ نہیں کرپاتے۔ وہ اپنا پیغامِ عمل بیان کرتے وقت اسے کافی سمجھتے ہیں کہ حالات کا تجزیہ کردیں اور درکار کاموں پر مشتمل ایک لائحہ عمل یا منصوبہ پیش کردیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے کو صحیح سمت میں متحرک کردینے کے لیے محض لائحہ عمل کی پیش کش کافی ہے، لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عمل پر آمادگی کے لیے، لوگوں کو مصلحین کے پیش کیے ہوئے منصوبے پر اطمینان ہونا چاہیے کہ وہ پروگرام — دین کی رہنمائی میں ترتیب دیا گیا ہے اور حالات کے درست تجزیے پر مبنی ہے۔ اس اطمینان کے بعد، جو مخلصین، عملاً پیش قدمی کے لیے آمادہ ہوں اُن کی تربیت بھی ضروری ہے۔ تربیت کے بغیر، انسان راہِ راست پر تسلسل کے ساتھ گامزن نہیں رہ سکتا اور منصوبوں پر اطمینان کے باوجود، اُن کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا۔ ہر اصلاحی و تعمیری تحریک کے داعیوں کو جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ انھوںنے اپنی اور اپنے ہم سفروں کی تربیت کا کتنا اہتمام کیا ہے۔ اخلاص اور استقامت، تربیت کی علامت بھی ہیں اور ذریعہ بھی۔
قرآن مجید بتاتا ہے کہ انسان، گناہوں سے بچنے کے اہتمام میں کوتاہ ہو تو اندیشہ ہے کہ آزمائش کے مواقع پر وہ ثابت قدم نہ رہ سکے گا۔
إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ إِنَّ اللّٰہَ غَفُورٌ حَلِیْمٌo (آل عمران: ۱۵۵)
’’تم میں سے جو لوگ (جنگِ احد میں) مقابلے کے دن، پیٹھ پھیر گئے تھے، اُن کی اس لغزش کا سبب یہ تھا کہ ان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے شیطان نے اُن کے قدم ڈگمگادیے تھے۔ اللہ نے انہیں معاف کردیا، اللہ بہت درگزر کرنے والا اور بردبار ہے۔‘‘
اگر ایسے مواقع پر کوتاہی ہوجائے تو انسان کو ازسرِ نو اپنی تربیت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ صدقہ اس کی ایک تدبیر ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِم بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلاَتَکَ سَکَنٌ لَّہُمْ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo (التوبہ: ۱۰۳)
’’(اے نبی، جہاد میں پیچھے رہ جانے والے مخلص) لوگوں کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کرو اوران کا تزکیہ کرو اور اُن کے حق میں دعائے رحمت کرو۔ کیونکہ تمہاری دعا اُن کے لیے وجہِ تسکین ہوگی۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
تربیت عمل پر آمادہ کرتی ہے اور میدانِ عمل کی کمزوریاں، تربیت کی اہمیت یاد دلاتی ہیں۔
امت کی شرکت
امتِ مسلمہ، شہادت علی الناس کے فریضے پر مامور ہے۔ یہ کام پوری امت کے سپرد کیا گیا ہے، محض چند افراد کو یہ ذمہ داری نہیں دی گئی ہے:
وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُوْا شُہَدَآئِ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیْداً وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْہَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن یَنقَلِبُ عَلَی عَقِبَیْہِ وَإِنْ کَانَتْ لَکَبِیْرَۃً إِلاَّ عَلَی الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ إِیْمَانَکُمْ إِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِیْمٌo (البقرۃ: ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تم (مسلمانوں) کو امتِ وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔‘‘
اس لیے پوری امت کو اپنے فرض کی انجام دہی کے لیے متحرک ہونا چاہیے۔ اتنا کافی نہیں ہے کہ محض ایک خانقاہ کے متوسلین، ایک درس گاہ کے فارغین، ایک شخصیت کے محبیّن، ایک تنظیم کے کارکنان، ایک دانش ور کے شاگرد یا ایک ادارے کے وابستگان— سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری اُمت کو بیدار کیا جائے اور اصلاح و تعمیر کی سعی میں شرکت کے لیے ہر صاحبِ ایمان کو آمادہ کیا جائے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اللہ کی بندگی اختیار کرنے والا ہر مخلص فرد قیمتی ہے۔ وہ اس کا مستحق ہے کہ اُس کو اہمیت دی جائے اور راہِ حق پر آگے بڑھنے میں اُس کی مدد کی جائے۔
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰـکَ عَنْہُمْ (کہف:۲۸)
’’اور(اے نبی!) اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُس کو پکارتے ہیں اور اُن سے ہر گز نگاہ نہ پھیرو۔‘‘
أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَیo فَأَنْتَ لَہُ تَصَدَّیo وَمَا عَلَیْْکَ أَلَّا یَزَّکَّیo وَأَمَّا مَنْ جَاء کَ یَسْعَیo وَہُوَ یَخْشَیo فَأَنْتَ عَنْہُ تَلَہَّیoکَلَّا إِنَّہَا تَذْکِرَۃٌo فَمَن شَاء ذَکَرَہُ o (عبس: ۵ تا ۱۲)
’’(کیا یہ مناسب ہے کہ) جو بے پروائی برتتا ہے، اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور ڈر رہا ہوتا ہے، اُس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو ایک نصیحت ہے۔ جس کا جی چاہے، اسے قبول کرے۔‘‘
اصلاح و تعمیر کے داعی کبھی کبھی شاید یہ سوچتے ہیں کہ ایمان و عمل میں کمزور نظر آنے والے افراد کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ قرآنِ مجید اُن ایمان لانے والوں کو بھی اللہ کے فضل کے مستحقین میں شامل کرتا ہے جو اپنے نفس پر ظلم کرگزرتے ہیں۔
وَالَّذِیْ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ مِنَ الْکِتَابِ ہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ إِنَّ اللّٰہَ بِعِبَادِہِ لَخَبِیْرٌ بَصِیْرٌ o ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْکِتَابَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہِ وَمِنْہُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللّٰہِ ذَلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیْرُ o جَنَّاتُ عَدْنٍ یَدْخُلُونَہَا یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ أَسَاوِرَ مِن ذَہَبٍ وَلُؤْلُؤاً وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرo (فاطر: ۳۱ تا ۳۳)
’’(اے نبی!) جو کتاب ہم نے تمہاری طرف وحی کے ذریعے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے، اُن کتابوں کی جو اس سے پہلے آئی تھیں۔ بے شک اللہ، بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے۔ پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنادیا اُن لوگوں کو جنھیں (اس وارثت کے لیے) ہم نے اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ اب کوئی تو اُن میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی اوسط درجے کا ہے اور کوئی اللہ کے اِذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے۔ یہی بہت بڑا فضل ہے۔ ہمیشہ رہنے والی جنتیں ہیں جن میں یہ لوگ داخل ہوں گے۔ وہاں انہیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے آراستہ کیا جائے گا، وہاں اُن کا لباس ریشم ہوگا۔‘‘
اصلاح و تعمیر کے داعی، مخلص افراد کا مزاج، طرزِ ترسیل اور منصوبہ ایسا ہونا چاہیے کہ اُن کے پیغام سے امت کا ہر فرد فائدہ اٹھا سکے اور اصلاحی سرگرمیوں میں سب کی شرکت ہوسکے۔ تب وہ منظر سامنے آسکے گا جس کا نقشہ شاعر نے کھینچا ہے:
کچھ اس طرح سے چمن کا شعور جاگا ہے
کلی کلی نظر آتی ہے گلستاں کی طرح
مشمولہ: شمارہ مارچ 2018