ذمہ داری کا شعور اور جواب دہی کا احساس

ذمہ داری کا شعور اور جواب دہی کا احساس انسان کا قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی اہمیت کو ہم قرآنی آیات اور حدیث سے سمجھنے کی کو شش کریں گے۔

قرآن و حدیث کے مطابق ہر انسان اپنے قول اور عمل کے لیے جواب دہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(1) مَا یلْفِظُ مِن قَوْلٍ إِلَّا لَدَیهِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ(ق:18)

( کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کر نے کے لیے حاضر باش نگراں موجود نہ ہو۔)

روز قیامت ہر شخص کے اقوال و افعال کا ریکارڈ پیش کر دیا جائے گا۔

(2) فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِینَ عَمَّا كَانُوا یعْمَلُونَ(الحجر:92-93)

(تو قسم ہے تیرے رب کی ہم ضرور ان سے پوچھیں گے کہ تم کیا کرتے رہے۔)

یعنی لا الہ الا اللہ کے زبانی اقرار کے بعد مخلصانہ عمل بھی کرتے رہے یا محض زبان سے ہی اقرار کیا اور اپنی عملی زندگی میں لا الہ الاللہ کے تقاضوں کو پور ا کر نے میں ناکام رہے۔

(3) وَقِفُوهُمْ إِنَّهُمْ مَسْئُولُونَ (صافات:24)

ذرا انھیں ٹھہراؤ ان سے کچھ پوچھنا ہے۔

یعنی انھیں رو کے رکھو تا کہ دنیا میں ان سے جو اقوال و اعمال صادر ہو ئے ہیں ان کی بابت پوچھ لیا جائے۔

(4)تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْـَٔلُونَ عَمَّا كَانُوا۟ یعْمَلُونَ (بقرہ:134)

( وہ کچھ لوگ تھے جو گزر گئے جو کچھ انھوں نے کمایا وہ ان کے لیے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے وہ تمہارے لیے ہے۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔)

قرآن مجید ہمیں صاف بتاتا ہے کہ اس دنیا میں ہر شخص اپنی جگہ ذمہ دار ہے اور ہر ذمہ دار اپنے دائرے میں جواب دہ ہے۔ اس لیے ہر شخص کے اندر ذمہ داری کا احساس اور جواب دہی کا احساس ضرور ہونا چاہیے۔ ہمارے اعمال و افعال کو قرآن کمانے سے تعبیر کرنا ہے۔ قیامت کے دن ہر انسان کو اپنے ہر عمل اور ہر قول کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ اپنی ہر ذمہ داری کا اسے سوالات کے ذریعہ سامنا کرنا ہوگا اور جب تک وہ تمام سوالات کا جواب نہ دے گا آگے قدم نہیں بڑھا پا ئے گا۔ آگے کے تمام مراحل اس کے جواب دینے پر ہی موقوف رہیں گے۔

آج ہم سمجھنا چاہیں گے کہ احساسِ جواب دہی ہے کیا ؟ در اصل احساسِ جواب دہی اخلاقی اور قانونی اقدار میں سے ایک قیمتی قدر ہے۔ یہ ایک ایسی قدر ہے جس میں ہر شخص اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ اس سے اس کے ہر عمل کے بارے میں مواخذہ کیا جائے گا۔

احساسِ جواب دہی دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک معاشرتی اور جماعتی احساسِ جواب دہی، اس میں اسے معاشرہ اور جماعت کے قوانین اور اس کے نظم کی پابندی کرنی ہوتی ہے۔ دوسرا ذاتی احساسِ جواب دہی ہے جس سے انسان کے اندر اپنے اعمال کے نتائج کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ ذاتی احساسِ جواب دہی کا مطلب ہی یہ ہے کہ آدمی سرد و گرم رد عمل کو برداشت کرنا سیکھے اور یہ صلاحیت اسی وقت پیدا ہوگی جب آدمی کا ضمیر ضبط نفس کا عادی ہو، جس ذمہ داری کو اس نے قبول کیا ہے اس سے اس کی وابستگی بھی ہو اور دیانت داری کے ساتھ اسے انجام بھی دے یہی ذاتی احساسِ جواب دہی ہے۔

ایمان داری و دیانت داری سے اپنی ذمہ داری کو ادا کر نے سے ہی عمل میں اخلاص پیدا ہوتا ہے۔ اور ثابت قدمی بھی آتی ہے۔ ایسے ذمہ دار کا لوگوں کے اندر اعتماد پیدا ہوتا ہے اور جماعت میں وہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ وہ شخص ہے جو مطلوب عمل کو وقت مقررہ پر انجام دیتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ذمہ دار کو یہ نتائج اسی وقت حاصل ہوں گے جب کہ اس کی تربیت بھی اسی انداز سے کی گئی ہو۔ اس کا شعور بھی پختہ ہو۔ اس کے اندر صلاحیت اور صالحیت بھی ہو اور یہ عمل مسلسل ہوتار ہے تا کہ وہ جمود کا شکار نہ ہو۔

احساسِ جواب دہی کے یہ مثبت نتائج ہیں۔ اس کے بر عکس اگر احساسِ جواب دہی کا فقدان ہو اور اس کا احساس تک آدمی کے اندر نہ ہوتو ظاہر ہے کہ اس کے نتائج بھی منفی اور مختلف ہوں گے۔

ایک ذمہ دار کو جواب دہی کے احساس کی کمی کو دور کر نے کے لیے چند تدابیر کا اختیار کر نا ضروری ہے جو مندرجہ ذیل ہیں۔

ذمہ دار کو اپنی ذمہ داری کی معرفت حاصل کرنی ہو گی۔

ذمہ دار کو اپنے کام کی اہمیت اور ضرورت کو جاننا ہوگا۔

اسے خود کو اس ذمہ داری میں مشغول رکھنا ہوگا جو اس پر ڈالی گئی ہو۔

اسے غیر اہم کاموں میں مشغول رہ کر اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

ذمہ دار کو اپنی ذمہ داری ادا کر نے میں کسی روٹین کا پابند نہیں ہو نا چاہیے بلکہ اسے یہی فکر دامن گیررہنی چاہیے کہ کام اپنے مقررہ وقت میں پورا ہو جائے چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگے اور چاہے آفس میں ہی رات گزارنی پڑجائے۔

ذمہ دار کو اپنے ذمے کے کاموں کو ملتوی نہیں کرنا چاہیے اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے پاس کاموں کا انبار لگ جائے گا پھر اس کی ادائیگی میں مشکلات پیش آئیں گی۔

ایک ذمہ دار کو اپنی ذمہ داری سے محبت ہونی چاہیے اسے اپنے کام سے عشق ہونا چاہیے اگر ایسا ہوگا تو نتائج بھی بہتر نکلیں گے۔

اپنے کام کو پائے تکمیل تک پہنچا نے کے لیے وقت اور محنت دونوں ہی درکار ہوں گے۔

ایک ذمہ دار کو اپنے کام انجام دینے میں سستی اور کاہلی سے دور رہنا چاہیے۔ اسے اپنے کام سے اکتانا نہیں چاہیے کیوں کہ سستی اور اکتاہٹ دونوں ہی چیزیں عمل کی ادئیگی میں رکاوٹ ڈالیں گی۔

ذمہ داری کی بہتر ادائیگی کے لیے مندر جہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اس سے نتائج بہترنکلیں گے۔

پہلی چیز یہ ہے کہ ایک ذمہ دار دوسروں کے احساس اور شعور کو بھی سمجھے۔

دوسری چیز یہ ہے کہ وہ صحیح اندازہ لگا ئے۔ کبھی غلط اندازوں سے ناکامی ملتی ہے۔

تیسری چیز یہ ہے کہ مشتر کہ کاموں میں دوسروں کا تعاون حاصل کرے۔ٹیم ورک کرے۔

چوتھی چیز یہ ہے کہ اپنے ارادوں اور مقاصد کو پورا کر نے میں عزم و حوصلہ اور ہمت دکھا ئے کیوں کہ کبھی منفی سوچ کی وجہ سے کم زور ی اور ضعف پیدا ہوتا ہے اور ایک وہمی خوف سے کام بہت متاثر ہو جاتا ہے۔

پانچویں چیز یہ ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق کما حقہ محنت کرے نیز اس کے اندر اس بات کے لیے جرأت ہو کہ حسب ضرورت اپنے منصوبہ میں تبدیلی لا سکے۔

چھٹی چیز یہ ہے کہ وہ اپنے ارادے پر عمل کر نے میں مکمل آزاد ہو۔

ساتویں چیز یہ ہے کہ ایک ذمہ دار کو ہمیشہ صبر کا پیکر ہونا چاہیے۔ وہ صبر سے کام کرے اور اپنے کسی کام پرکسی دوسرے شخص کے رد عمل کا سکون سے سامنا کرے۔

آٹھویں چیز یہ ہے کہ استقامت کے ساتھ اپنے کام میں منہمک رہے۔

نویں چیز یہ ہے کہ ایک ذمہ دار کو مشکل حالات میں مسائل کے حل تلاش کرتے رہنا چاہیے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے ذمہ داری اور جواب دہی کے بارے میں بہت واضح رہنمائی دی ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ آگاہ ہو جاؤ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس امام ( امیر) لوگوں پر نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔ مرد اپنے گھروالوں کا نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھروالوں اور اس کے بچوں کی نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ اور کسی شخص کا غلام اپنے سردار کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے بارے میں سوال ہوگا۔ آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں پر سش ہوگی۔‘‘ (بخاری : حدیث :7138)

یہ ایک جامع حدیث ہے اس میں ذمہ داری اور جواب دہی کے ہمہ جہت پہلوؤں کی نشان دہی کر دی گئی ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے وقت رضائے الٰہی اور فلاح آخرت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اگر اللہ کی رضاحاصل ہو جائے اور آخرت کی کامیابی مل جائے تو یہی تو ہماری جدو جہد کا مطلوب ہے۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2025

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223