بابری مسجد فیصلہ

ہندو راشٹرکا سنگ بنیاد

ہندو راشٹر کے نقشوں میں عام طور پر برصغیر ہند کو یکساں زعفرانی رنگ میں ڈوبا ہوا دکھایا جاتا ہے۔ بھلے ہی کچھ لوگوں کو یہ رنگ اتحاد کی علامت نظر آئے، لیکن مجھے اس یکسانیت میں عمارتوں، ثقافتوں اور عوام کی اذیت ناک حک و تنسیخ دکھائی دیتی ہے جو اس یکسانیت کو پیدا کرنے کا لازمہ ہے۔ چھ دسمبر ۱۹۹۲ کو بلوائی ہندو ؤں کے ایک ہجوم نے ایسی ہی ایک تنسیخ کو انجام دیا تھا جب اس نے سولہویں صدی کی ایک نایاب تاریخی یادگار مسجد کو منہدم کرڈالا تھا۔ اس بھیڑ نے غیر عدالتی انداز میں جس کام کی داغ بیل ڈالی تھی، اِس سال عدالت عظمیٰ نے اس پر اپنی عدالتی رائے دے کر توثیق کی مہر ثبت کردی۔

۹؍نومبر ۲۰۱۹کو پانچ ججوں کی ایک بینچ اس نتیجہ پر پہنچی کہ عہد بابری کی مسجد کے باقیات پر ایک جدید طرز کا ہندو مندر تعمیر ہونا چاہیے، کیوں کہ بعض جدید ہندوؤں کا خیال ہے کہ عین اسی مقام پررام کی پیدائش ہوئی تھی۔ عدالت عظمی کا حتمی فیصلہ جدید اعتقاد پر مبنی ہے جس کا انیسویں صدی سے پہلے کی تاریخ سے کوئی علاقہ نہیں۔ تاہم، فیصلے کا بیشتر متن ماضی کی جستجو اور اس کی غلط بیانی پر مشتمل ہے۔ ہندوتوا نظریے سے ہم آہنگ اس فیصلے میں نہ صرف تاریخی حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ یہ مذہبی گروہوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کے ہر شائبے سے بھی دورہے۔

فیصلے کی تمہید میں دو نقطہ نظر پیش کیے گئے ہیں جو بنیادی طور پر غیر مساوی ہیں۔ فیصلے کے مطابق: ‘‘ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ یہ (ایودھیا کی متنازعہ اراضی) رام کی جائے پیدائش ہے، جو وشنو دیوتاکا اوتار ہیں۔ مسلم فریق کا دعوی ہے کہ یہ تاریخی مقام بابری مسجد ہے جسے پہلے مغل شہنشاہ بابر نے تعمیر کرایا تھا۔ ’’ عدالتی فیصلے نے ان دونوں بیانات کو قابل موازنہ گردانا، جبکہ تاریخی اعتبار سے حقیقت بالکل مختلف ہے۔

تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ سولہویں صدی کے اوائل سے ایک مسجد، جو بابری مسجد کے نام سے معروف ہے، ۱۹۹۲ تک متنازعہ مقام پر ایستادہ تھی۔ در حقیقت، بعض سنگین سازشی نظریات کے قائلین سے قطع نظر، تمام زندہ انسان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ۱۹۹۰ کے عشرے کے اوائل میں منہدم کیے جانے سے قبل تک ایک مسجد ایودھیا میں مذکورہ مقام پر موجود تھی۔ یہ مقدمے میں محض کسی مدعی کا ‘‘ دعویٰ’’ نہیں، بلکہ شواہد پر مبنی تاریخی حقیقت ہے۔

اس کے بر خلاف، رام کی جائے پیدائش کا تعلق اعتقاد سے ہے جس کا دعوی محض کچھ ہندو کرتے ہیں۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں، پوری تاریخ میں پائے جانے والے بیشتر ہندوؤں کو رام جنم بھومی کی چنداں پروا نہیں رہی۔ اس معاملے پر ان کی لاتعلقی کا اشارہ ماقبل جدید کے متون میں اس مسئلے پر عدم توجہی سے ملتا ہے۔ بابری مسجد کے مقام پر رام جنم بھومی کے نظریے کو پہلی بار انیسویں صدی کے وسط میں اس وقت اٹھایا گیا جب برطانوی استعمار سرگرمی سے ہندو مسلم تنازعے کو پیدا کرکے اپنی ‘پھوٹ ڈالو اور راج کرو ’کی حکمت عملی کو فروغ دے رہا تھا۔ زیادہ وسیع پیمانے پر، اس وقت زمین پر موجود بیشتر لوگ، جن میں ہندوؤں کی ایک قابل ذکر تعداد بھی شامل ہے، رام کی زندگی ، بشمول ان کی پیدائش ،کو تاریخی واقعات نہیں سمجھتے ہیں۔

فیصلے کی تمہید میں بیان کردہ بے اصل مماثلت میں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کا کہیں زیادہ لحاظ کیا گیا ہے۔ ایک آفاقی طور پر مسلمہ دستاویزی تاریخی صداقت کو قطعی غلط طریقے سے ایک ناقابل ِثبوت اعتقادی امر کے مساوی قرار دیا گیاہے، جبکہ وہ ایک کمیونٹی کے کچھ افراد کا عقیدہ ہے۔ فیصلے میں گویا مسلم حقیقت سے ہندو عقیدے سے موازنہ کرنا روا رکھا گیاہے۔

پورے فیصلے میں، ججوں نے مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کے لیے کہیں زیادہ ہم دردی کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر، عدالت دونوں فریقوں کے لیے شواہد کے مختلف معیار اور پیمانے استعمال کرتی ہے۔ فیصلے میں مسلم فریقوں کی ‘‘اس عرصے میں (یعنی ۱۵۲۸ ء سے ۱۸۵۷ء تک) نماز پڑھے جانے کا ثبوت نہ فراہم کرپانے’’کی نکتہ چینی تو کی گئی ہے، لیکن نو سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ججمنٹ میں کہیں بھی دونوں ہندو فریقوں سے یہ ثابت کرنے کے لیے نہیں کہا جاتا ہے کہ وہ رام کی پیدائش کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر ثابت کریں۔

فیصلے میں مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں کے بارے میں زیادہ تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ لفظ ‘ہندو’۲۹۹ مرتبہ وارد ہوا ہے، جبکہ ‘مسلمان’ کا ذکر محض ۱۷۴ مرتبہ آیا ہے۔ فیصلے میں دونوں گروہوں کی تعریف متعین کیے بغیر اس طرح ‘زمرہ بند’ کردیا گیاہے کہ اس علمی لاابالی پن سے کوئی بھی دانش ورصدمے سے دوچار ہوجائے۔ ‘ہندوؤں’ کے مستحکم، یکساں گروہ ہونے کے مفروضے سے مستشرقی عصبیت جھلکتی ہے جنھوں نے ہندوستانیوں اور ہندوستان کو ہر تاریخی تبدیلی کے بیرون میں واقع سمجھ لیا تھا۔ عدالت نے اس لازمانی افسانویت (fiction of timelessness) سے ایک نسبتاً جدید عقیدے ، یعنی رام کی عین جائے پیدائش، کو قانونی بنیاد فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔

کہیں کہیں فیصلے میں مسلمانوں کو دی گئی شاذ ہم دردی کے بعد معنی خیز سکوت طاری ہوجاتا ہے۔ جیسے، بابری مسجد کے مقام پر ۲۰۰۳میں ہندوستان کے محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) ہی کی مثال لے لیجیے۔ آثار قدیمہ کی کھدائی اس لیے کروائی گئی تھی تاکہ مسجد سے پہلے کبھی موجود رہیں عمارات کے بارے میں کھوج نکالی جائے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے: ‘‘اے ایس آئی کے ماہرین کو ہدایت دی گئی تھی کہ جہاں رام کی مورتی نصب کی گئی تھی، اور مورتی کے ارد گرد دس فٹ تک کا حصہ نہ چھیڑا جائے۔ اے ایس آئی کو یہ ہدایت بھی دی گئی تھی کہ وہ اس جگہ پر پوجا پاٹ کرنے سے نہ روکیں۔ ’’ مجھے یہ پڑھ کر اچانک خیال آیا کہ کیا مسلمانوں کے جذبات کا بھی اسی طرح خیال رکھا گیا تھا–یعنی کیا مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا تو نہیں گیا تھا۔ لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ ایک ہندو بھیڑ نے ۲۰۰۳ سے بہت پہلے ہی مسجد کے تمام سراغ مٹاڈالے تھے۔

ایودھیا فیصلے میں تاریخی شواہد کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا ہے، اکثر ایسے دعوے کیے گئے ہیں جو تاریخ کو مسخ کرنے کی وسیع تر ہندتوا حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ مثال کے طور پر، فیصلے میں چار تاریخ نویسوں کی ۱۹۹۱ کی رپورٹ(Ram Janmabhoomi-Babri Masjid: A Historians Report to the Nation مصنفہ آر ایس شرما، ایم اطہر علی، ڈی این جھا، سورج بھان) اور اے ایس آئی کی ۲۰۰۳ کی رپورٹ، دونوں کا ذکر آیا ہے۔ تاہم، مذکورہ فیصلہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ‘‘مورخین کی رپورٹ، جو اے ایس آئی کی رپورٹ سے پہلے کی ہے، کوئی وزن نہیں رکھتی کیوں کہ اُنھیں اس مواد کا تجزیہ کرنے کا موقع نہیں ملا جو اے ایس آئی کی رپورٹ سے سامنے آیا ہے۔’’ یہ تجزیہ تاریخی طریقہ کار کے نقطۂ نظر سے غلط ہے۔ تاریخ وہ مضمون ہے جو ہر لحظہ نموپذیر ہے، جو تمام متعلقہ شواہد کا محتاط انداز میں جائزہ لیتا ہے ، اور ہر لحظہ بڑھتی ہوئی نزاکتوں سے معمور ہے۔ نئی تشریحات و تعبیرات کو پرانے دلائل کے ساتھ تولاجاتا ہے، گمان کی بنیاد پر پرانے دلائل کو رد نہیں کیا جاتا۔

جیا مینن اور سپریا ورما آثار قدیمہ کی وہ ماہرین ہیں جنھوں نے ایک مسلم فریق ، سنی وقف بورڈ، کی جانب سے محکمہ اے ایس آئی کی ۲۰۰۳ کی کھدائی کا مشاہدہ کیا تھا۔ انھوں نے بہت سی بے قاعدگیوں، فرسودہ طریقوں، اور رپورٹ کے ناقص نتائج پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔ ایک شکایت میں ،انھوں نے دکھایا ہے کہ ‘‘ اے ایس آئی نے اپنے مفروضے کو ثابت کرنے کے لیے شواہد سے چھیڑ چھاڑ کی ہے، جو پیشہ ورانہ طور پر انتہائی نامعقول حرکت اور علمی بدیانتی ہے۔’’ جیا مینن اور سپریا ورما نے‘‘کھدائی کے طریقہ کار میں متعدد مسائل’’ کے حوالے سے مجموعی طور پر ۱۴ شکایات درج کیں، جن کا انھوں نے ذاتی طور پر کم سے کم تین مہینے تک مشاہدہ کیا تھا۔ ۲۰۱۰ کے ایک مضمون میں انھوں نے لکھا ہے کہ ان مسائل کے ڈانڈے اے ایس آئی کے اندر موجود بڑے مسائل سے جا ملتے ہیں،ان کے بقول ‘‘علمی طور پر، اے ایس آئی کے ماہرین نے جو کام کیا ہے اُس کی ہندوستان اور بیرون ملک میں معاشرتی علوم میں کوئی حیثیت نہیں ۔ تحقیقی و علمی حوالے سے موضوع سے دل چسپی کا شدید فقدان پایا ہے۔ ’’ ان کے دلائل مضبوط ہیں اور یہ سجھاتے ہیں کہ اے ایس آئی کی رپورٹ کو محض حالیہ تحقیق کی بنیاد پر بہترترجمانی قرار دینا تو دور کی بات ہے، اسے علمی طور پر درخورِاعتنا سمجھنا بھی مناسب نہیں۔

لیکن ہندوتوا حامی مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ وہ پہلے سے قائم شدہ مفروضوں کے موافق کسی نئے خیال کو، قطع نظر اس کے ماخذ یا اہلیت کے، پہلے کے تمام علمی کاموں کا قاطع قرار دیتے ہیں۔ مغالطہ انگیزی کے لیے یہ ایک عمدہ حربہ ہوسکتا ہے، لیکن علمی دنیا میں اس کی کوئی حیثیت یا وزن نہیں ہوتا۔

جہاں تک متنازعہ اراضی پر ہندو دعوے کے سب سے بنیادی سوال کا تعلق ہے، فیصلے میں وہ سوال کیا ہی نہیں گیا۔ یعنی، کیا رام واقعی کسی تاریخی ہستی کا نام تھا؟ اگر رام کو ہندو دیوتا وشنو کا اوتار تسلیم کریں تو ازروئے تعریف وہ تاریخ کی حدود سے باہر نکل جاتے ہیں کہ تاریخ خدائی ہستیوں کے وجود کا احاطہ نہیں کرتی۔ اگر رام کو انسان مانیں تو ان کو دیوتا تسلیم کرکے مندر بنانے کا سوال محلِ نظر ہے۔ عدالت کی رام کی تاریخیت میں عدم دل چسپی ہندوؤں کی بڑی اکثریت کے خیالات کی آئینہ دار ہے۔

اگرچہ رام بھکت بخوبی جانتے ہیں کہ رام جس عہد میں رہتے تھے وہ تریتا یگ تھا ۔ ہندو اساطیر میں مدارجِ کائنات کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے جس کا دوسرا دور تریتا یگ کہلاتا ہے۔ البتہ بہت کم بھکتوں کو معلوم ہوگا کہ یہ عہد کب تھا۔ ایک دستاویزی فلم ساز آنند پٹوردھن نے ۱۹۹۰میں بہت سے کارسیوکوں کا انٹرویو لیا تھا، اور ان میں سے بعض کو اپنی ڈاکیومنٹری ‘رام کے نام’ میں شامل بھی کیا تھا۔ انھوں نے کار سیوکوں سے رام کی اصل کے حوالے سے بعض سوالات پوچھے تھے۔

ہدایت کار: رام کس صدی میں پیدا ہوئے تھے؟

پہلا کار سیوک: یہ قدیم تاریخ ہے… بتانا بہت مشکل ہے۔

ہدایت کار: آپ یہ تو جانتے ہیں کہ رام کہاں پیدا ہوئے، لیکن کب پیدا ہوئے یہ نہیں معلوم؟

پہلا کار سیوک: نہیں۔ تاریخ بتانا میرے لیے ناممکن ہے۔

ہدایت کار ( دوسرے اور تیسرے کارسیوک کی جانب دیکھتے ہوئے): کیا آپ کچھ بتا سکتے ہیں؟

دوسرا کار سیوک: نہیں۔

تیسرا کارسیوک : نہیں… یہ تاریخ کا موضوع ہے اور کوئی تاریخ کاماہر ہی یہ بتاسکتا ہے۔

در حقیقت، ماہرین نے اس پر رائے زنی کی ہے کہ رام کا عہد کب واقع ہوا تھا۔ رابرٹ گولڈمین نے، جو والمیکی کی رامائن کے ایک سرکردہ ماہر ہیں، لکھا ہے کہ ‘‘رام کے بارے میں روایتی عقیدہ ان کا عہد تریتا یگ کو قرار دیتا ہےجو آٹھ لاکھ سڑسٹھ ہزار ایک سو دو (867102) قبل مسیح کے آس پاس تھا۔ ’’ جدید سائنس کہتی ہے کہ ہومو سیپی اینس (Homo sapiens) کا ظہور تقریباً دولاکھ سال پہلے ہوا تھا،اور نیئنڈرتھل (Neanderthals)شاید تین لاکھ سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ اگر آپ رام کو معروف انسانی تاریخ میں رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس سے بھی پہلے کی انسان نما مخلوق کے دور میں ہوئے ہوں گے جنھیں ہومو اِریکٹس (Home erectus)کہا جاتا ہے۔ یہ حقیقت دراصل ایودھیا فیصلے کے عین مطابق ہوسکتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ رام کو کسی کارپوریشن یا جہاز کی طرح ‘عدالتی ہستی’ (juridical person) قرار دیئے جانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ‘انسانی فطرت’ کے حامل ہیں۔ اس صورت میں بھی، ہمیں زیادہ مسلمہ علمی نقطہ نظر پر قائم رہنا ہوگا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ رام کبھی مجسم وجود کی حیثیت سے موجود تھے،اور گولڈ مین ہی کے بقول ، والمیکی کی رامائن کو زبردست ‘‘تخئیلی کارنامہ ’’ (work of imagination) قرار دیا جاتا ہے۔

جدید قانونی معیارات کے مطابق، ہندو دعویداروں کے پاس رام کی زندگی اور جائے پیدائش سے متعلق کوئی قابلِ قدر ثبوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس، قانونی طور پر مسلم دعویدار بابری مسجد کے وجود کو معلوم انسانی تاریخ کے اندر ثابت کرسکتے ہیں۔ عدالت حقائق کے اس عدم توازن کی تلافی ہندو جذبات کو وزن دے کر کرتی ہے۔ جیسا کہ قدیم ہندوستانی تاریخ میں تخصص رکھنے والی نامور مورخ رومیلا تھاپر نے لکھا ہے کہ ‘تاریخ پر عقیدے کو مقدم رکھنے کا یہ موقف سپریم کورٹ کی ساکھ کو مجروح کرتا ہے’۔ مجھے اس بات سے اتفاق ہے۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ عدالت نے جس کام کے کرنے سے انکار کیا ہے، وہ ضرور کیا جانا چاہیے، یعنی اس ہم رنگ (monolithic)، الگ تھلگ اعتقاد کی نوعیت کے بارے میں جانچ پڑتال کی جائے۔

ہارورڈ میں ہندوستانی مذاہب کی اسکالر، ڈیانا ایک (Diana Eck)لکھتی ہیں کہ ۱۹۸۰کے عشرے کے اواخر تک، ایودھیا میں ایک درجن سے زیادہ ایسےمندر موجود تھے جو رام جنم بھومی ہونے کا دعوی رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنی کتاب ‘India: A Sacred Geography’ میں لکھا ہے: ‘‘رام جنم بھومی کے ایسے دعووں کی بہتات ہونا عام بات ہے، اور ان میں دشمنی او رقابت کا جذبہ نہیں ہوتا بلکہ یہ کثرت پسندی کی ہندو روایت سے عین مطابقت رکھتا ہے۔ کوئی بھی مقام جو دہرائے جانے کے لیے واقعی اہم ہوتا ہے اسے متعدد مقامات پر پھیلادیا جاتا ہے۔’’ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رام کی جائے پیدائش کے متعلق ہندو ؤںمیں اتنی ساری روایات موجود ہیں تو پھر صرف ایک واحد روایت پر اصرار کیوں۔ اس کا بظاہر ایک ہی جواب ہے کہ کثرت پسندی کی ہندو روایت سے مسلمانوں کو کوئی صدمہ نہیں پہنچتاجو درحقیقت اکثریتی سیاست کا مطلوب و مقصود ہے۔

ایودھیا فیصلے میں ۱۹۹۲ کے بابری مسجد انہدام کا ذکر کئی بار کیا گیا ہے۔ لیکن اس انہدام کے ذمہ داروں کا نام لینے سے گریز کیا گیا ہے۔ بابری مسجد کا انہدام کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں تھا، ایک ہندو ہجوم نے اسے قصداً منہدم کیا ، جسے اس وقت کی مرکزی و ریاستی سرکاروں کی خاموش سرپرستی حاصل تھی۔ یہ ہجوم یکسانیت اور تشدد پسند ہندو تشخص سے تحریک پاتا ہے جو مسلمانوں کے خلاف نفرت کو کلیدی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ اس تشدد پسند ہندوتشخص کے ہندوتوا سے مضبوط تعلقات ہیں، لیکن یہ اس سے بھی آگے گزرنے کا آرزو مند ہے۔ ہندوتوا نظریے کے حاملین نے ایودھیا تنازعہ کو ہندو ہونے کے حدود کا تعین کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہندوؤں کے اس تنگ نظر تشخص کو قبول کیا ہے۔ ان ہندوؤں کا کیا جو یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ رام بابری مسجد کے مقام پر پیدا ہوئے تھے؟ ان ہندوؤں کے جذبات کا کیا جو ایک مسجد کے ملبے پر مندر کی تعمیر نہیں چاہتے ہیں؟ سپریم کورٹ کی رو سے ایسے ہندوؤں کا سرے سے وجود ہی نہیں ۔

اگر ہم عدالت کا انصاف کے لیے عقیدے کو بنیاد بنانا تسلیم کرلیں تو ہمیں بہت سے ایسے ناپسندیدہ مذہبی اعتقادات کے بارے میں سوالوں کا جواب دینا پڑے گا جن پر ہندوستانی قانون نے روک لگائی ہے۔ کیا عورتوں پر ایپا مندر میں داخلے پر پھر سے پابندی لگادی جائے گی کہ بہت سے عقیدت مند انھیں ناپاک تصور کرتے ہیں؟ کیا ایک گاؤں کی نصف آبادی بقیہ آبادی کو ذات پات کی بنیاد پر قانونی طور پر کنویں کے استعمال سے روک سکتی ہے؟ بہت سے ہندو خواتین اور مخصوص ذاتوں پر ایسی پابندیوں پر کو حق بجانب مانتے ہیں جنھیں رسمی طہارت قائم رکھنے کے لیے عائد کیا گیا ہے۔ نیز، رام جنم بھومی کے نظریے کے برعکس، ان تصورات کے بعض پہلوؤں کے شواہد کو ماقبل جدید عہد میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ کیا عدالت ان معاملات کو بھی ‘‘عبادت گزار کے اعتقاد پر قیاس کرے گی’’، جیسا کہ اس کا دعوی ہے کہ ایودھیا کے معاملے میں ایسا کرنا ‘‘لازمی ’’ ہے؟

ان میں سے کسی سے یہ عقدہ نہیں کھلتا کہ آخر عقیدہ حقیقت سے متصادم کیسے ہوسکتا ہے۔ اس معنی میں، ایودھیا فیصلے کے بارے میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ، شاید وہی ہے جسے حذف کردیا گیا ہے۔ عدالتی رائے میں اس بات کا تذکرہ تک نہیں آیا کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعدکئی ماہ تک ہندو ہجوموں نے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔

فیصلے میں جذبات کو مجروح کرنے والے اس حکم پر کہ ایک مذہبی عمارت کی تعمیر دوسری مذہبی عمارت کے باقیات پر کی جائے، خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی جبکہ فیصلہ اس سوال پر تواچھی خاصی توجہ صرف کرتا ہے کہ آیا بابری مسجد کی تعمیر کسی ہندو مندر کے باقیات پر کی گئی تھی یا نہیں۔ ہرچند کہ ججوں نے قدرے ہچکچاہٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے کوئی شواہد موجود نہیں، تاہم وہ اس بات میں کسی شبہ کی گنجائش بھی نہیں رہنے دیتے کہ اگر یہ نظریہ سچ ثابت ہوتا تو وہ بابری مسجد کو نفرت اور تباہی کی یادگار قرار دے دیتے۔ ہم اس رام مندر کے بارے میں کیا کہیں گے جسے قصداً ایک مسجد کے باقیات پر بنایا جائے گا؟

اس فیصلے میں یہ تسلیم نہیں کیا گیا جس دن تاریخی بابری مسجد کو منہدم کردیا گیا تھا، اس دن تمام ہندوستانی اپنے ورثے کا ایک حصہ کھو بیٹھے تھے۔ بابر کے عہد کی گنی چنی عمارتیں ہی باقی ہیں، اور جو موجود ہیں وہ ہندوستان کے مشترکہ ثقافتی ورثے کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں۔ اس کے باوجود، عدالت بابری مسجد کو صرف مسلمانوں کے لیے قیمتی سمجھتی ہے ، اور یہ فرض کرلیتی ہے کہ تمام غیر مسلم ہندوستانی اس مسجد کو ہندوستانی تاریخ کا ایک بدقسمت باب سمجھتے ہیں۔ عدالت چار سو سال قبل مسجد کی تعمیر کے بارے میں ایک بحث کے حوالے سے متنبہ کرتی ہے، ‘‘ قانون وقت میں پیچھے جاکر ہر اس شخص کو انصاف نہیں دے سکتا جسے اس موڑ سے اتفاق نہیں ہے جو تاریخ نے اختیار کیا۔’’ آخر میں، فیصلے کا یہ جملہ عدالت کے مطلوبہ معنی سے مختلف بازگشت پیدا کرتا ہے۔ تاریخ کا غلط موڑ، ہجوم کے ہاتھوں سے رونما ہونے والی وہ تباہی تھا جو تمام ہندوستانیوں کی تاریخی میراث، سولہویں صدی کی مسجد کے انہدام کی شکل میں ظہورپذیر ہوا ۔ عدالت عالیہ کی مندرجہ بالا تنبیہ کی رو سے دراصل ۲۰۱۹ کے اس فیصلے کے بارے میں یقینی ہوجاتا ہے کہ اب ہندوستانی عدلیہ اس غلطی کا ازالہ نہیں کرنے والی ۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223