۲۹ اور ۳۰ مئی ۲۰۲۲ کو ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ کی جانب سے ‘قرآن اور سائنس: قرب و بُعد کے پہلو اور تعاون باہم کی راہیں’کے عنوان سے سیمینار ہوا۔ اس کے افتتاحی سیشن میں امیر جماعت اسلامی ہند محترم سید سعادت اللہ حسینی نے صدارتی خطبہ پیش کیا، جس میں ‘قرآن اور سائنس’کے حوالے سے فکر انگیز نکات پیش کیے گئے۔ ان نکات پر گفتگو آگے بڑھانے کے لیے وہ خطبہ یہاں شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
اس سیمینار کے سرپرست اور ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے صدر مولانا سید جلال الدین عمری، معزز مہمانان گرامی، ادارہ کے سکریٹری اور سیمینار کے میزبان و منتظمین اور محترم شرکا بھائیو اور بہنو!
الحمد للہ ، ایک بہت ہی اہم موضوع پر ادارہ تحقیق و تصنیف کی جانب سے یہ نہایت اہم سیمینار منعقد کیا جارہا ہے۔ سائنس یا علوم عقلیہ اور کلام الہی میں تطابق یا تعارض کی بحث صدیوں پرانی ہے۔ امام غزالیؒ نے یہ بات بطور اصول بیان کی ہے۔ لا مَعانَدۃ بین الشرع المنقول والحق المعقول ( منقولہ شریعت اور صحیح معقول بات میں کسی طرح کاٹکراؤ نہیں ہے)۔ابن تیمیؒہ نے یہی بات اپنی کتاب درءُ تَعارُض العقل والنقل میں ثابت کی ہے بلکہ اس کتاب کا ایک اور عنوان موافقۃ صحیح المنقول لصریح المعقول ہے۔ اس کتاب کے عنوان ہی سے ابن تیمیہ ؒ کا موقف معلوم ہوجاتا ہے۔ یعنی نقل کردہ صحیح نصوص اور عقل سے صریح طور پر ثابت شدہ باتوں میں لازماً موافقت ہوگی۔
امام ابن تیمیہؒ نے ایک بڑا اہم استدلال اس حقیقت کا حوالہ دے کر کیا ہے کہ اس بات پر اہل علم میں اتفاق ہے کہ دو قطعی عقلی دلیلیں ایک دوسرے سے متضاد نہیں ہوسکتیں۔ اگر کہیں تضاد نظر آئے تو اس کا مطلب یہی لیا جاتا ہے کہ دونوں میں سے ایک بات قطعی نہیں ہوگی۔ بات کو سمجھنے میں کہیں عقل سے غلطی ہوئی ہوگی۔ اسی صورت حال کا اطلاق وہ عقلی و نقلی دلائل کے درمیان موازنے پر بھی کرتے ہیں کہ اگر عقلی دلیل اور نقلی دلیل (یعنی قرآن و سنت) میں کہیں تضاد نظر آئے تو یا تو عقلی دلیل قطعی نہیں ہوگی، ظنّی ہوگی یا قرآن وسنت کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہوگی۔
یہ بڑی اہم بات ہے اور اس سے سائنس اور قرآن کی بحثوں کو سمجھنے میں بڑی روشنی ملتی ہے۔ اس بات کا صحیح شعور نہ ہو تو اس سے وہ بہت سی الجھنیں جنم لیتی ہیں جو ہمارے دور میں نظر آتی ہیں۔
جدید سائنس نے یورپ کی نشأة ثانیہ کے مخصوص تہذیبی و تاریخی پس منظر میں جنم لیا ہے۔ اس پس منظر نے اہل مذہب اور اہل سائنس کو دو مختلف جماعتوں میں تقسیم کردیا تھا۔ اہل مذہب کی ہر بات مذہب کی بات سمجھی جانے لگی اور اہل سائنس کی ہر بات سائنس کی بات باور کرلی گئی۔ سائنس دانوں کے ذاتی رجحانات اور اُن کے تعصبات کو بھی سائنس کا حصہ سمجھ لیا گیا۔ پھر اس دور میں سائنس کا ایک مخصوص جدید واقعیت پسند تصور (positivism)بھی وجود میں آیا۔ اس نے بھی سائنس پر گہرا اثر ڈالا۔
ان سب عوامل کا نتیجہ یہ نکلا کہ سائنس کے نام پر جو علوم وجود میں آئے اُن میں ٹھوس سائنسی حقائق (قطعی عقلی دلائل)، سائنسی نظریات اور سائنسی مفروضے گڈ مڈ ہوگئے۔ عام لوگوں کے لیے ان کے درمیان تفریق دشوار ہوگئی اور اُن تک سائنس کے نام پر جو چیز پہنچی وہ دراصل ان تین چیزوں کا ملغوبہ تھی۔ اس میں پہلی چیز بے شک قطعی تھی لیکن باقی دو چیزیں ظنّی تھیں۔
انھی ظنّی باتوں کو لے کر مستشرقین نے اسلام پر شدید اعتراضات کیے۔ مسلمان اہل علم کی جانب سے ان کے رد عمل میں جو خیالات سامنے آئے ان کو اس موضوع کے ایک محقق نے چار رجحانات میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا رجحان متجددین (modernists) کا رجحان ہے۔ یہ وہ گروہ تھا جو سائنس کے نام پر ہر طرح کے رطب و یابِس سے حددرجہ مرعوب تھا۔ سائنسی حقائق اور نظریات و مفروضات کے درمیان فرق کرنے اور نظریات و مفروضات کی سنجیدہ تنقیح کے بجائے، اس نے قرآن و سنت کی نئی تاویلیں شروع کردیں۔ قرآنی متن کی کھینچ تان کر دور از کار تاویلات، معجزات کا انکار، مظاہر قیامت کی ‘سائنسی توجیہ’کی عجیب و غریب کوششیں وغیرہ اس مکتب فکر کی نمایاں علامات ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اس گروہ کی نمائندہ شخصیات میں شاید ہی کوئی تھا جس نے سائنس کا راست علم حاصل کیاہو۔ یہ شعرا و ادبا تھے یا روایتی مشرقی علوم کے تعلیم یافتہ لوگ ،قانون و علم انتظام و غیرہ علوم میں تربیت یافتہ برطانوی حکومتوں کے ملازمین یا مستشرقین کےوہ شاگرد جن کی سائنسی معلومات،راست سائنسی علوم سے کسب فیض کا نتیجہ نہیں بلکہ مغربی ادب و فلسفے کی بالواسطہ دین تھی۔ آج بھی اس رجحان کے حاملین ‘سائنس اور سائنسی خیالات ‘کی حد سے زیادہ مرعوبیت میں قرآن کی متعدد آیات اور قرآنی الفاظ و اصطلاحات کی عجیب وغریب تشریحات کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً جنات کا مطلب وائرس و بیکٹیریا، سبع سماوات كا مطلب سات سیارے،یقْذِفُونَ بِالْغَیبِ مِن مَّكَانٍ بَعِیدٍ کا مطلب ٹیلی فون یا انٹرنیٹ، دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ کا مطلب سیٹلائٹ وغیرہ۔ اس وقت ہمارے ملک، ہندوستان میں قدیم مذہبی اساطیر سے سائنس اور عصری ٹکنالوجی در آمد کرنے کی دائیں بازو کے عناصر کی کوششیں مذاق کا موضوع بنی ہوئی ہیں۔ مذکورہ بالادور ازکار تاویلات بھی ان سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ اس طرح کی تعبیرات فہم قرآن کو بھی متاثر کرتی ہیں اور اُن سے، سائنسی حقائق کو اسلام کے حق میں دلیل بنانے کا وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوسکتا جو اِن حضرات کے پیش نظر ہے۔ ان عجیب و غریب تشریحات سےعوام تو مرعوب ہوسکتے ہیں، سائنس کا کوئی سنجیدہ طالب علم متاثر نہیں ہوسکتا بلکہ ایسے دلائل کی سطحیت اُسے مذہبی معتقدات سے اور زیادہ متوحش کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
ان کے بالکل مقابلے میں دوسرا رجحان مسترد کردینے (rejection) کا تھا۔ان حضرات نے جدید تحقیقات و اکتشافات کو اسلامی علم و فکر کے ارتقا میں ایک ذریعے کے طور پر اختیار کرنا ہی ضروری نہیں سمجھا۔ ان کے نزدیک سلف صالحین کا فہم اور ان کے فراہم کردہ وسائل دین کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں، اب کسی نئے علم یا وسیلے کی کوئی حاجت نہیں ہے، بلکہ نئے علوم اصلاً اسلام کے حریف ہیں جن کا دفع و ابطال مطلوب ہے۔ان کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات کے نتائج مسلسل بدلتے رہتے ہیں۔ آج کسی بات کو حقیقت مان کر اسے دلیل بنایا جائے تو کل وہ غلط بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ اس سے قرآن کی صداقت مشکوک ہوسکتی ہے۔
ان دو رجحانات کے درمیان دو قدرے معتدل رجحانات ہیں۔ایک رجحان وہ ہے جس کے حاملین کو مذکورہ محقق نے موکلین کا نام دیا ہے۔ ان حضرات نے جدید سائنسی تحقیقات کو قرآن میں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ سائنسی تحقیقات کو بنیاد بناکر قرآن کے بعض الفاظ کو مسلمہ معنوں سے ہٹ کر نئے معنی بھی پہنانے کی کوشش کی۔ اس رجحان کی نمایاں ترین علامت فرانسیسی نومسلم سائنس دان موریس بوکلے ہیں جن کی کتاب قرآن، بائبل اور سائنس کافی مشہور ہوئی۔
چوتھا رجحان اعتدال پسندوں کا رجحان ہے جس کی علامت کے طور پر سید قطب، حسن البنا، عبد اللہ دراز وغیرہم کے نام لیے گئے ہیں۔ ان حضرات نے قرآن کے فہم و تفسیر میں سائنس کے استعمال کو مسترد نہیں کیا لیکن اس کی کچھ حدیں مقرر کیں۔ پہلی حد یہ کہ قرآن کے وہی مطالب لیے جائیں گے جو سیاق و سباق، قرآنی الفاظ کے معروف معنوں اور تفسیر کے مسلمہ اصولوں سے متصادم نہ ہوں اور دوسری حد یہ کہ فہم قرآن میں صرف قطعی سائنسی حقائق کا استعمال ہوگا سائنسی نظریات یا مفروضوں کا نہیں۔
ہمارے خیال میں یہی چوتھا رجحان انتہائی معقول رجحان ہے۔ اوپر امام ابن تیمیہ اور امام غزالی کے حوالوں سے جن اصولوں کا ہم نے ذکر کیا ہے، ان سے بھی یہ اصول ہم آہنگ ہیں۔ سائنسی تحقیقات نے قرآنی اعجاز کا ایک بالکل نیا شعبہ یعنی قرآن کے سائنسی اعجاز کا شعبہ بلاشبہ وا کیا ہے۔لیکن مذکورہ اصولوں کی سختی سے پابندی کرتے ہوئے ہی اس شعبے میں کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ کائنات کے رازوں سے جیسے جیسے پردہ اٹھے گا، خالق کائنات کے کلام کے نئے معنی بھی ضرور آشکاراہوں گے۔ ان معنوں کی کھوج فہم قرآن کی یقیناً ضرورت ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ انسان کے سامنے جو نئے حقائق منکشف ہورہے ہیں ان کو قرآن کے کلام الہی ہونے کی دلیل کے طور پر جہاں بھی استعمال کیا جاسکتا ہو وہاں ضرور استعمال کیا جائے۔
یہ کام افراط و تفریط سے اسی وقت پاک ہوگا جب اس میں کچھ شرطیں پائی جائیں۔ سب سے پہلی شرط تو یہ ہے کہ اس کام کے لیے وہ لوگ آگے بڑھیں جو قرآن، اس کے مزاج، اس کے پیغام اور اس کی روح کو بھی سمجھتے ہوں اور سائنس کے متعلقہ شعبے کا بھی راست علم رکھتے ہوں،جو لوگ سائنس کے راست طالب علم ہوں گے وہ سائنسی حقائق، سائنسی نظریات اور سائنسی مفروضوں میں فرق کرسکیں گے۔ مرعوبیت کے بغیر خود سائنس کی اندرونی کم زوریوں کا شعور بھی رکھیں گےاور زیادہ بالغ نظری کے ساتھ اس بحث کو آگے بڑھاسکیں گے۔
اصل معیار وہی ہے جو امام ابن تیمیہ ؒنے دیا ہے ، یعنی دلیل قطعی عقلی اور دلیل قطعی نقلی میں کوئی تناقض نہیں ہوسکتا۔ اگر تناقض ہے تو یا تو دلیل عقلی ظنی ہوگی یا دلیل نقلی ظنی ہوگی۔ اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ دلیل عقلی یعنی سائنس کی کون سی باتیں قطعی (یعنی سائنسی حقائق ) ہیں اور کون سی باتیں ظنی (یعنی سائنسی نظریات یا سائنسی مفروضے ) ہیں اور اسی طرح یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ دلیل نقلی (یعنی قرآن و حدیث) کی کون سی باتیں قطعی ہیں جن میں دوسرے معنوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور کون سی باتیں ظنی ہیں، یعنی محض قرآن و سنت کی انسانی تشریحات و تعبیرات ہیں جنھیں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور جن کی نئی تعبیرات کا امکان باقی ہے۔یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں جو دونوں علوم کا گہرا ادراک رکھتے ہوں۔
میری ناقص تجویز یہ بھی ہے کہ سائنس اور قرآن کی بحث کوصرف اعجاز قرآن کی بحث تک یا قرآن کی سائنسی تفسیر تک محدود نہیں ہوناچاہیے۔ سائنس کی روشنی میں قرآن کو دیکھنے سے زیادہ اہم کام یہ ہے کہ سائنسی تحقیقا ت کے لیے قرآن سے روشنی و رہ نمائی حاصل کی جائے اورقرآن کی روشنی میں سائنس و ٹکنالوجی کے طریق کار (methodology) اور قدروں کی بحث کو آگے بڑھایا جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے اور اس کا اعتراف سائنسی تاریخ کے معتبر ماہرین نے بھی کیا ہے کہ جدید سائنس اپنے ارتقا کے لیے قرآن مجید کی مرہون منت ہے۔قرآن کی تعلیمات نے تحقیق و اکتشاف کی نئی روایتوں کو پروان چڑھایا جس کے نتیجے میں عرب سائنس یا عہد وسطی کا روشن اسلامی دور (Islamic golden age) ظہور پذیر ہوا۔قرآن مجید نے تین طریقوں سے یہ راہ ہم وار کی ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کہ قرآن مجید نے غور و فکر کے عمل کی ہمت افزائی کی ہے۔ کائنات اور مظاہر کائنات کو اللہ کی نشانی آیات اللہ قرار دیا ہے۔کثرت سے مظاہر کائنات کو زیر بحث لایا ہے اور ان پر غور و فکر کے لیے بہ تکرار ابھارا ہے۔قرآن نے خلق خدا میں تفکر و تدبر کو عبادت قرار دیا ہے بلکہ اللہ کو یاد کرنے والوں کی نشانی یہ بتائی ہے کہ وہ اس کی خلق میں غور و تدبر کرتے ہیں۔الَّذِینَ یذْكُرُونَ اللَّهَ قِیامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَیتَفَكَّرُونَ فِی خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا مظاہر کائنات پر سے سرسری گزرجانا اور ان پر توجہ نہ دینا اور غور نہ کرنا، قرآن کے نزدیک ایک ناپسندیدہ عمل ہے۔وَكَأَین مِّنْ آیةٍ فِی السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یمُرُّونَ عَلَیهَا وَهُمْ عَنْهَا مُعْرِضُونَ۔
دوسرے یہ کہ قرآن نے کائنات اور وسائل کائنات کی تسخیر و امانت کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے انسان کی علمی تاریخ میں دو انتہائیں نظر آتی ہیں۔ ایک طرف دنیا کے مختلف مذاہب نے خصوصاً مشرکانہ تصورات نے کائنات کے تقدس کا نظریہ پیش کیا اور کائنات کی ہر چیز کو مقدس قرار دیا۔ وحدت الوجود جیسے نظریات نے بھی کائنات اور اس کے وسائل کو خدا کے وجود کا حصہ قرار دیا۔ مقدس چیزیں کبھی تحقیق و تفتیش کا موضوع نہیں بن سکتیں اس لیے ان افکار کے نتیجے میں کبھی وسائل کائنات علمی جستجو کا موضوع نہیں بن سکے اور انسانوں کی علمی و عقلی تگ ودو فلسفیانہ اور تجریدی موضوعات تک محدود رہی۔ دوسری طرف جدید سائنس نے فطرت پر فتح،فطرت کو تابعدار بنانے (subjugation of nature)اور فطرت کے مالک اور قابض بننے (master and possessor of nature)کا خواب دکھایا۔ اس کے نتیجے میں تحقیقات تو بہت ہوئیں، لیکن فطری وسائل کے بے دردانہ استحصال نے ماحولیاتی بحران اور دیگر سنگین مسائل پیدا کیے۔قرآن نے اس کے مقابلے میں یہ تصور دیا کہ وسائل کائنات انسان کے لیے مسخر کیے گئے ہیں۔ البتہ انسان کے پاس یہ بطور امانت ہیں اور ان کے سلسلے میں خدا کے حضور جواب دہی ہونی ہے۔ یہ متوازن تصور وسائل کائنات پر تحقیق کی بھی ہمت افزائی کرتا ہے اور ان کے سلسلے میں ذمے دارانہ رویہ کو بھی پید ا کرتا ہے۔
تیسرے یہ کہ قرآن مجید نےمنطق استقرائی (inductive logic)کو فروغ دیا۔ کلاسیکی علمی روایات زیادہ تر ارسطو کی منطق استخراجی (Aristotelian deductive logic) یا Syllogism پر مبنی تھی۔ قرآن کے طریقہ استدلال سے متاثر ہوکر جابر بن حیان، الکندی اور پھر بو علی سینا جیسے مسلمان فلسفیوں نے استقرائی منطق کے وہ طریقے ایجاد کیے جنھوں نے تجرباتی سائنس کی راہیں ہم وارکیں۔
یہ قرآنی عقلی روایت سائنسی تحقیقات کے لیے مہمیز بھی فراہم کرتی ہے اور اس کے لیے ایک جداگانہ فریم ورک بھی فراہم کرتی ہے۔ سید حسین نصر جیسے مفکرین نے اس حوالے سے جو گراں قدر کام کیا ہے، اس نے معاصر سائنسی فکر پر گہرا اثر ڈالا ہے لیکن خود مسلمانوں کے اندر اس حوالے سے کوئی سنجیدہ سائنسی تحریک پیدا نہیں ہوسکی۔ وحی الہی کی روشنی میں آزادانہ تجربہ و تحقیق کی جو روایت قرآن کی روشنی میں اسلام کے روشن دور میں وجود میں آئی تھی اس کا احیا ہی جدید سائنس اور قرآ ن کریم کے درمیان تعاون و مطابقت کی اصل فضا پیدا کرسکتا ہے۔ ہمارے سائنس دانوں کو اعجاز قرآنی کی دور ازکار تاویلات پر غیر متوازن زور دینے کے بجائے، قرآن کی روشنی میں مختلف سائنسی علوم کے طریقہ کار کے ارتقا پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ میری یہ بات سید حسین نصر کے ایک اقتباس سے واضح ہوگی۔ لکھتے ہیں:
“پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی اسلامی عقلی روایت کی جڑوں سے پیوستہ رہتے ہوئے جدید سائنس پر مکمل دسترس حاصل کریں۔ پھر اگلا قدم اسلامی فریم ورک کے اندر رکھیں، جدید سائنس کے فریم ورک کے اندر نہ رکھیں۔ کوئی مسلمان طبیعیات داں یہ ہرگز نہیں کہے گا کہ وہ کوانٹم میکانیات کی دریافتوں کی پروا نہیں کرتا۔ یہ فضول بات ہے۔ ضرورت جس بات کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے کوانٹم میکانیات کو سمجھا جائے۔ پھر اُس کی تشریح اُس طریق سے سے بالکل مختلف طریقے سےکی جائے جس طریق سے کوپن ہیگن اسکول نے کی تھی۔ یعنی ڈیکارٹ کے فلسفۂ ثنویت کے اُصول پر جس کی بنیاد پر جدید سائنس کا سارا کارخانہ کھڑا کیا گیا ہے۔ اگر ہم ایسا عقلی سطح پر کرسکیں اور عالم خارجی کا مستند اسلامی فلسفہ یا مابعد الطبیعیات تخلیق کرسکیں اور دوسرے یہ کہ ہم اپنی سائنسی روایت اور مغربی سائنس دونوں کے امتزاج سے عالم خارجی کی اسلامی سائنس وضع کرسکیں اور تیسرے یہ کہ مغربی سائنس کو ہم اپنی سائنسی روایت میں جذب کرسکیں تو پھر ایسی سائنس کی بنیاد پر ہمارے لیے اپنی ٹکنالوجی پیدا کرنا ممکن ہوسکے گا۔”
اسی بحث کا دوسرا نہایت اہم پہلو سائنس کا اطلاقی پہلو یا ٹکنالوجی کا پہلو ہے۔ قرآن مجید جس تہذیب کی صورت گری کرتا ہے وہ ٹکنالوجی کو بھی ایک خاص سمت میں آگے بڑھاتی ہے۔ اس موضوع پر میں اپنی ہی ایک تحریر کا اقتباس پیش کرنا چاہوں گا۔
“یہ اہلِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی ٹکنالوجیوں کو فروغ دیں، جو اسلام کے مقاصد کے مطابق، مثلاً ظلم و استحصال کو کم کرنے والی اور مساوات کو فروغ دینے والی ہوں۔ غریبوں کے صحت کے مسائل کو آج بھی وہ اہمیت نہیں مل سکی ہے کہ جس کے وہ مستحق ہیں۔ ایسی ٹکنالوجیاں جن کے ذریعے حکومتوں کا کام زیادہ شفاف ہوجائے یا ظالم کے لیے ظلم کرنا مشکل ہوجائے، ابھی صرف ناولوں ہی میں پائی جاتی ہیں۔ وہ ٹکنالوجیاں جو کم قیمت پر غریبوں کی دیہی زندگی کو آسان بنائیں اور دیہی معیشت کے لیے سہولتیں پیدا کریں یا کم قیمت پر صاف پانی، اور آسان اور ارزاں توانائی فراہم کریں، یا جو اُن حادثوں اور آفات سے حفاظت کی ضمانت دے سکیں، جو عام غریب انسانوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت کا سبب بنتے ہیں، ہنوز تکمیل طلب خواب ہیں اور اہلِ اسلام کی فکرمندی اور اقدام کے منتظر ہیں۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کا جو کردار پیش کیا ہے، اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ انھوں نے ایک پریشان حال قوم کا ایک پیچیدہ مسئلہ حل کیا تھا اور ایسی دیوار تعمیر کر دی تھی جس سے وہ قوم یاجوج ماجوج کے شر سے محفوظ ہوگئی تھی۔ اس واقعے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ذوالقرنین نے افرادی قوت اسی قوم کی استعمال کی تھی: فَاَعِیْنُونِی بِقُوَّۃِ اَجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَھُمْ رَدْمًا [الکہف ۱۸: ۹۵] “تم بس محنت سے میری مدد کرو، میں تمھارے اور ان کے درمیان بند بنائے دیتا ہوں۔” اس قوم نے اس کام پر آنے والے مصارف کا خرچ بھی مہیا کرنے کی پیش کش کی تھی، لیکن ذوالقرنین نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کے پاس وسائل اور افرادی قوت موجود تھی لیکن وہ اِس فن سے واقف نہ تھی اور ذوالقرنین کے پاس آئیڈیا اور ٹکنالوجی تھی جس کا استعمال کرتے ہوئے انھوں نے اس قوم کا مسئلہ حل کر دیا۔ مطلوب اور مفید ٹکنالوجیوں کا فروغ اور ان کے ذریعے انسانی مسائل کے حل کا یہ ذوالقرنینی کردار، قرآن اور سائنس کی بحث کا اہم موضوع بننا چاہیے۔
ہرتہذیب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اختراع و ایجاد کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ کسی بھی تہذیب کا محل صرف مانگے کے چراغوں سے روشن نہیں ہوسکتا۔ اسلامی حدود میں فلم سازی، ٹی وی اور انٹرنیٹ کا استعمال آج ہم کرنا چاہیں تو ضرور کریں، لیکن یہ نہ بھولیں کہ یہ سب اُس مخصوص تہذیب کی پیداوار ہیں، جو بے مقصد تفریح پر حد سے زیادہ اصرار کرتی ہے۔ جدید مغربی تہذیب کو ناچ گانے اور بے مقصد تفریحات سے جو دل چسپی ہے، اسی کے نتیجے میں آج دسیوں ٹکنالوجیاں وجود میں آئی ہیں۔ شاید یہ ٹکنالوجیاں اسلامی تہذیب کے زیرسایہ وجود میں نہیں آتیں۔
لیکن دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسی بہت سی ٹکنالوجیاں ہوسکتی ہیں، جو اسلامی تہذیب کی ضرورت ہوتیں اور چوں کہ مسلمان کئی صدیوں سے ٹکنالوجی میں پیچھے ہیں، اس لیے وہ وجود میں ہی نہیں آئیں۔ اسلام کے تہذیبی مقاصد اس کے اپنے تہذیبی ذرائع چاہتے ہیں، اور ان ذرائع کی کھوج ذہانت، اُپج اور اختراعی صلاحیتوں کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں، جو اسلام کے بھی مزاج شناس ہوں اور ٹکنالوجی بھی جانتے ہوں۔ ایسے لوگ تقلید جامد کی فضا سے نکل کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروے کار لائیں تو ایسی سیکڑوں نئی چیزیں، نئے فنون اور نئی ٹکنالوجیاں ایجاد ہوسکتی ہیں، جو اسلام کے تہذیبی مقاصد کی تکمیل بھی کریں اور اس کے مزاج سے ہم آہنگ بھی ہوں۔”
مجھے امید ہے کہ سیمینار میں ان سب پہلوؤں سے گفتگو ہوگی اور ان حوالوں سے کچھ ٹھوس امور کی طرف پیش رفت میں اس سیمینار سے مدد ملے گی
مشمولہ: شمارہ نومبر 2022