بیت المال کے انتظام کی شکلیں
اس سلسلے میں فقہا نے بھی لکھا ہے، قاضی ابو یوسف نے زکوۃ جمع کرنے والے ملازمین کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: “ذمہ داران اس منصب پر ایسے لوگوں کو فائز کریں جن سے وہ خوش ہوں اور جن کے عقائد، طریقہ کار اور دیانت داری کے بارے میں پہلے سے معلومات حاصل کر لی گئی ہوں”۔ فقہا کا کہنا ہے کہ زکوۃ جمع کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کام میں مہارت رکھتا ہو اور ساتھ ہی ساتھ اس کے اندر حساب کتاب کرنے کی بھی صلاحیت ہو۔ امام الجوینی [وفات: ۴۷۸ھ / ۱۰۸۵ء] نے اپنی کتاب “الغیاثی” میں لکھا ہے: “صدقات و زکوۃ کا جمع کرنا ایک خاص کام ہے، جس شخص کے سپرد یہ کام کیا جائے اس کے اندر دو صفات ہونی چاہئیں: اول: حفاظت و دیانت، دوم: ذہانت اور اچھی لیاقت”۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بیت المال میں آنے والے سونے اور چاندی کو وزن کرانا شروع کیا تا کہ ان کی صحیح مقدار کا علم ہو سکے۔ وزن کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کا سہارا لیا گیا جو نبی کریم ﷺ کے زمانہ سے مدینہ میں وزن کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ ابن سعد نے اپنی کتاب “الطبقات” میں بیان کیا ہے کہ یہی وزن کر نے والے وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بیت المال میں موجود چیزوں کی سب سے پہلی فہرست اُس وقت تیار کی جب حضرت ابوبکر ؓ کے انتقال کے بعد بیت المال کو حضرت عمر ؓ کے سپرد کیا گیا تھا۔ بیت المال حضرت عمر ؓ کے سپرد ہونے کے بعد اس کا جائزہ لیا گیا تو اس میں ایک بھی دینار اور درہم نہیں ملا، البتہ بیت المال میں ایک گرد آلود تھیلا ملا، جب اسے جھاڑا گیا تو اس میں ایک درہم تھا۔ اس وقت لوگوں نے وزن کرنے والے سے بیت المال میں موجود دیگر چیزوں کی مالیت کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے اس کا تخمینہ دو لاکھ کے قریب بتایا۔
حضرت ابوبکر ؓ وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مالی طور پر اپنےبری الذمہ ہونے کا پروانہ اپنے بعد آنے والے خلیفہ کے سپرد کیا۔ ابن الجوزی نے اپنی کتاب “مناقب عمر” میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت عائشہ سے کہا کہ بیت المال کی جو چیزیں بھی انھوں نے استعمال کی ہیں وہ انھیں حضرت عمر ؓ کے حوالے کر دیں۔ کہا جاتا ہے کہ آمد وصرف کی تاریخوں کو لکھنے کی خاطر حضرت عمرؓ نے ہجری تاریخ کا آغاز کیا تھا۔ ابن الجوزی نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ ایک بار حضرت عمر ؓ کے پاس ایک رقعہ پہنچا جس میں کسی مال کے خرچ کرنے کی تاریخ “شعبان” لکھی ہوئی تھی۔ حضرت عمر ؓنے دریافت کیا کہ اس سے مراد گذشتہ سال کا شعبان ہے یا آئندہ سال کا شعبان ہے یا پھر موجودہ سال کا شعبان ہے۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں نے کیلنڈر کے آغاز کی تعیین کے بارے میں سوچا۔
جب بیت المال کو قائم کیا گیا اور رجسٹروں کا نظام بنایا گیا تو اسی وقت امیر المومنین [یعنی سربراہ مملکت] کا معاوضہ بھی طے کیا گیا۔ ابن الجوزی نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صرف متوسط درجہ کے کھانے اور کپڑے پر اکتفا کیا، بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر ؓ بیت المال سے قرض لیتے تھے اور جیسے ہی ان کا معاوضہ انھیں مل جاتا وہ بیت المال کے قرض کی ادائیگی فوری کر دیتے تھے۔ حضرت عمر ؓ کی وفات کے ایک ہفتہ کے بعد حضرت عثمان ؓ نے ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو ایک رقعہ دیا جس میں انھوں نے اس بات کی شہادت دی کہ ان کے والد حضرت عمر ؓ نے اپنا سارا قرض بیت المال کو واپس کر دیا تھا۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے گورنروں کو پابند کر رکھا تھا کہ وہ اپنے مال کا ریکارڈ رکھیں، اسے موجودہ دور میں “مالی انکشافی بیان” [Financial Disclosure Statement] کہا جاتا ہے۔ ابن سعد نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ جب کسی کو گورنر کے عہدہ پر فائز کرتے تو اس کے کُل مال کی فہرست بنا لیتے۔ گورنروں نے اس عہدہ پر فائز رہتے ہوئے جتنا مال حاصل کیا ہوتا حضرت عمر ؓ اس کا آدھا ان سے لے کر بیت المال میں واپس کر دیتے تھے۔ حضرت عمر ؓ نے ایک بار اپنے گورنروں سے کہا کہ وہ اپنے تمام مال کو لکھ کر دیں، پھر حضرت عمر ؓ نے اس کے دو حصے کر دیے، گورنروں کو نصف دیا اور نصف بیت المال میں رکھ دیا۔ شاید ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عمر ؓ اس شبہ کو دور کرنا چاہتے تھے کہ ان گورنروں نے اپنے عہدوں کے اثر و رسوخ سے کوئی بالواسطہ فائدہ اٹھا لیا ہو۔
افواہوں کے نتیجہ میں بسا اوقات خلیفہ کو بھی لوگوں کے سامنے آ کر اپنی صفائی دینی پڑتی تھی۔ خلیفہ ولید بن عبد الملک [وفات: ۹۶ھ / ۷۱۶ء] کے خرچوں کے تعلق سے لوگوں کے درمیان افواہیں عام ہونے لگیں، خلیفہ کے ایک محافظ نے ان سے کہا: “اے امیر المومنین، لوگ کہتے ہیں کہ ولید نے بیت المال کے مال کو غیر مناسب طریقے سے خرچ کیا ہے”۔ یہ سن کر خلیفہ نے حکم دیا کہ لوگوں کو مسجد اموی میں جمع کیا جائے، لوگوں کے جمع ہونے کے بعد خلیفہ نے صراحتًا لوگوں سے کہا کہ اُس تک اس طرح کی بات پہنچی ہے۔ خلیفہ نے حکم دیا کہ بیت المال کا سارا مال لا کر ڈھیر کر دیا جائے اور اس کا وزن کیا جائے۔ وہ مکمل مال اتنا زیادہ تھا کہ تمام لوگوں کے لیے آئندہ تین برسوں کے لیے کافی تھا۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ وہ مال آئندہ سولہ برسوں کے لیے کافی تھا۔ لوگ یہ دیکھ کر خوش ہو گئے اور انھوں نے تکبیر کہی۔
مخصوص مدیں اور خصوصی اختیارات
عہد اموی میں ہر طرح کے مال کے لیے ایک الگ صندوق بنا دیا گیا تھا۔ ابن عساکر [وفات: ۵۷۱ھ / ۱۱۷۶ء] نے اپنی کتاب “تاریخ دمشق” میں لکھا ہے کہ تابعی امام مکحول [وفات: ۱۱۲ھ / ۷۳۱ء] نے بیت المال کو مال دیا تو اسے صدقہ و زکوۃ کے صندوق میں رکھ دیا گیا۔
ملازمین کی تنخواہ ایک رقعہ کے ذریعے دی جاتی تھی جو رقعہ لکھ کر ان کے سپرد کیا جاتا تھا۔ الکندی نے “الولاۃ والقضاۃ” میں لکھا ہے کہ اُس رقعہ کی تحریر کچھ یوں ہوتی تھی: “بسم اللہ الرحمان الرحیم، یہ تحریر عیسی بن ابی عطاء الشامی [وفات: ۱۳۱ھ / ۷۵۰ء کے بعد] کی جانب سے بیت المال کے نگہبانوں کے نام ہے، عبد الرحمن بن سالم القاضی کو ربیع الاول اور ربیع الثانی ۱۳۱ھ کی تنخواہ ۲۰ دینار [موجودہ دور کے تقریبا ۴ ہزار امریکی ڈالر] دے دی جائے، اور یہ تحریر کیا جائے کہ انھیں تنخواہ دے دی گئی ہے۔ یہ تحریر بروز بدھ ۲۹ ربیع الاول ۱۳۱ھ کو لکھی گئی ہے”۔
مالی عہدہ کو ایک شخص سے واپس لے کر اسے دوسرے شخص کو منتقل کرنے کا عمل کبھی سہولت اور آسانی سے ہو جاتا تھا اور کبھی اس میں پڑی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ طبری نے لکھا ہے کہ جب اموی خاندان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو یزید بن عمر بن ہبیرہ [وفات: ۱۳۲ھ / ۷۵۰ء] نے عراق کے دیوان کو بہت سہولت اور آسانی کے ساتھ ابو جعفر المنصور [وفات: ۱۵۸ھ / ۷۷۶ء] کو منتقل کر دیا اور بیت المال کی مہر انھیں دے دی۔ ابن الاثیر نے اپنی کتاب “الکامل” میں لکھا ہے کہ جب سفاح کا انتقال ہوا اور ابو جعفر المنصور نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو عیسی بن موسی [وفات: ۱۵۵ھ / ۷۸۳ء] نے بیت المال، خزانوں اور رجسٹروں کو اپنے کنٹرول میں لے لیا، اور جب ان کے پاس ابو جعفر المنصور آئے تو انھوں نے وہ سب ان کے حوالے کر دیا۔
بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ گورنر اور اس کے حساب کتاب کرنے والوں پر کوئی الزام لگا تو ان سے بیت المال کے عہدوں کو زبردستی واپس لے لیا گیا۔ ہارون الرشید کے زمانہ میں مصر کے گورنر عمر بن مہران [وفات: ۱۷۶ھ / ۷۹۳ء کے بعد] نے اپنے سابق گورنر عیسی بن موسی [وفات: ۱۷۶ھ / ۷۹۳ء کے بعد] کو ان کے ظلم کے رویہ کے سبب گرفتار کر لیا، اور ان کے حساب کتاب کرنے والوں کو بھی گرفتار کر لیا، اس کے بعد انھوں نے مصر کے بیت المال، محکمہ خراج اور ان دونوں کی مہروں کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔
اُس دور میں “ماہرین کی مہر” کی اصطلاح بھی بہت عام رہی۔ اس سلسلے میں قدیم ترین متن غالبا وہ گفتگو ہے جو منصور عباسی اور اُس شاعر کے درمیان ہوئی تھی جسے انھوں نے دس ہزار درہم بطور انعام دیے تھے۔ انعام دیتے ہوئے منصور عباسی نے شاعر سے کہا تھا: “اسے رکھ لو، ہم اس کے علاوہ تمھیں کچھ نہیں دے سکتے”، شاعر نے انھیں جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسے “ماہرین کی مہر” کے ساتھ محفوظ رکھے گا۔ اس واقعہ کو امام سیوطی نے “تاریخ الخلفاء” میں نقل کیا ہے۔
ایسا بھی ہوا کہ بیت المال کے نگہبان نے مطلوبہ رقم کو ادا کرنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ انھیں لگا کہ اگر ادائیگی کر دی جائے تو وہ بیت المال کے منظور شدہ اخراجات کے قوانین کی خلاف ورزی کے زمرہ میں آئے گا۔ ابن قوطیہ [وفات: ۳۶۷ھ / ۹۷۸ء] نے اپنی کتاب “افتتاح الاندلس” میں لکھا ہے کہ اندلس کے عوامی بیت المال کے نگہبانوں نے مغنّی زریاب الموصلی [وفات: ۲۴۳ھ / ۸۵۸ء] کو اُس رقم کے ادا کرنے سے منع کر دیا جس رقم کی ادائیگی کا حکم سلطان عبدالرحمان الاوسط [وفات: ۲۳۸ھ / ۸۵۲ء] نے دیا تھا۔ انھوں نے سلطان کو یہ جواب دیا: “اگرچہ ہم سلطان [اللہ انھیں سلامت رکھے] کے مالیاتی معتمد ہیں لیکن درحقیقت ہم مسلم عوام کے بھی مالیاتی معتمد ہیں”۔ گویا اس طرح ان لوگوں نے یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں کا پیسہ مسلمانوں کے مفاد میں ہی خرچ کیا جانا چاہیے۔
وزیر ہی صدقات و زکوۃ کے جمع کرنے کے مالی سال کے آغاز کا تعین کرتا تھا۔ الصولی [وفات: ۳۳۶ھ / ۹۴۶ء] نے اپنی کتاب “اخبار الراضی والمتقی” میں تحریر کیا ہے کہ سن ۳۲۴ ھ مطابق ۹۳۶ء کے محرم میں وزیر نے فیصلہ کیا کہ اس مہینہ سے محکمہ خراج کا آغاز کیا جائے، یعنی انھوں نے مالی سال کا آغاز کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سال نظم و ضبط کے ساتھ کام کرنے کا آخری سرکاری مالی سال تھا، کیوں کہ اس کے بعد کے حالات کے بارے میں ابن اثیر نے اپنی کتاب “الکامل” میں اس طرح بیان کیا ہے: “اُس وقت کے بعد دواوین اور وزارت کالعدم کر دیے گئے، کسی بھی کام کاج میں وزیر کا عمل دخل نہیں رہا، سارا مال و دولت امراء کے پاس جانے لگا اور وہ اس میں اپنی مرضی سے تصرّف کرنے لگے، ان کے دل میں جتنا آتا اُتنا وہ وزیر کے لیے چھوڑ دیتے، اس طرح بیت المال کا منظم نظام ختم ہو گیا”۔
اجتہاد کا عمل دخل
فقہ کی کتابوں میں بیت المال کے مالی وسائل اور اس میں جمع ہونے والی رقم کے تعلق سے سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ مالی وسائل کی تعداد اور فقہ کی کتابوں میں موجود ان سے متعلق دیگر تفصیلات میں جائے بغیر ذیل میں پانچ اہم ترین وسائل کا ذکر کیا جا رہا ہے:
۱–مال غنیمت: قاضی ابو یوسف نے اپنی کتاب “الخراج” میں لکھا ہے کہ مال غنیمت وہ مال ہے جو مسلمانوں کو مشرکین سے جنگ کے بعد حاصل ہو۔ حاصل شدہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ بیت المال میں جمع کیا جاتا ہے۔ مال غنیمت ہی کی طرح “فئ” کا مال ہے، ماوردی کا کہنا ہے کہ “فئ” ہر وہ مال ہے جو مسلمانوں کو مشرکین سے لڑائی کے بغیر حاصل ہو جائے، “فئ” کا پورا مال سرکاری خزانہ اور بیت المال میں جمع کیا جاتا ہے۔
۲–رِکاز: یعنی ریاست کی معدنیاتی دولت۔ رِکاز کی تعریف کرتے ہوئے قاضی ابو یوسف کہتے ہیں کہ یہ ہر وہ معدنیاتی مال ہے جو ریاست کو سونا، چاندی، تانبا، لوہا اور سیسہ کی شکل میں ملے۔
۳–خراج: یہ وہ ٹیکس ہے جو ریاست ان شہریوں پر لگاتی ہے جو اس کی زراعتی زمینوں کو استعمال کرتے ہیں۔
۴–عُشور: یہ وہ ٹیکس ہے جو غیر مسلم ممالک سے مسلم ملک میں آ کر تجارت کرنے والے تاجروں سے ریاست حاصل کرتی ہے۔
۵–زکاۃ: زکاۃ تجارتی دولت سے حاصل کی جاتی ہے، خواہ وہ سامان ہو یا سونا و چاندی ہو یا جانور ہوں یا کھیتی باڑی ہو۔ ریاست مال دار شہریوں سے زکاۃ حاصل کرتی ہے، زکاۃ کو خرچ کرنے کے مصارف دیگر وسائل کے مصارف سے مختلف ہیں۔
قاضی ابو یوسف بیان کرتے ہیں کہ اپنی خلافت کے دوران حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے لوگوں کے وظیفے برابری سے متعین کیے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سب سے پہلے ان وعدوں کو پورا کیا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کیے تھے۔ وعدوں کو پورا کرنے کے بعد بیت المال میں جو کچھ بچا اسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے تمام لوگوں کے درمیان برابر سےتقسیم کر دیا، خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، آزاد ہو یا غلام اور مرد ہو یا عورت۔ اس طرح ہر ایک کے حصہ میں سات اور تہائی درہم آیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے اپنی خلافت کے مکمل دور میں اسی پالیسی پر عمل کیا۔
حضرت عمر ؓنے بیت المال کے مال کی تقسیم کے سلسلے میں حضرت ابوبکر ؓسے مختلف پالیسی اختیار کی، بایں طور کہ انھوں نے فضیلت کی بنیاد پر لوگوں کے وظیفے متعین کیے۔ ابن سعد نے اپنی کتاب “الطبقات” میں لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے لوگوں کے مقام و مرتبہ کا خیال رکھا اور یہ دیکھا کہ اسلام قبول کرنے میں، اسلام کی راہ میں قربانیاں دینے میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت میں کسے سبقت حاصل ہے۔ حضرت علیؓ کا حال یہ تھا کہ وہ اپنی خلافت کے دوران بیت المال کی ایک ایک چیز کو تقسیم کر دیا کرتے تھے۔
اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ [وفات: ۱۰۱ھ / ۷۲۰ء] نے بھی لوگوں کے درمیان برابری سے وظیفے متعین کیے۔ وہ اپنے ذاتی کام اور سرکاری کام کے درمیان فرق کو بھی بہت باریکی کے ساتھ ملحوظ رکھتے تھے، انھوں نے حکم دے رکھا تھا کہ جس پانی سے وہ وضو اور غسل کرتے ہیں اُسے عوامی مطبخ میں گرم نہ کیا جائے جہاں ضرورت مندوں کے لیے کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ اس پالیسی پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس شخص کو ایک سال زکوۃ دی گئی اُس کے اگلے سال اُس شخص کے پاس اونٹ تھے جن کی اُسے زکوۃ نکالنی تھی۔
محمد بن سعد نے “الطبقات الکبری” میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے بہت سارے اصلاحی اقدامات کیے، کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ابوبکر بن محمد بن حزم [وفات: ۱۲۰ھ / ۷۳۹ء] کو مالی تفتیش اور معائنہ کی ذمہ داری سونپی اور انھیں حکم دیا کہ: “دواوین [یعنی مالی رجسٹروں] کا حساب بے باق کرو۔ معلوم کرو کہ اگر مجھ سے پہلے کسی مسلمان یا مُعاہد پر کوئی زیادتی ہوئی ہے تو اسے یا اس کے ورثاء کو اُس کا حق واپس کر دو”۔ پھر انھوں نے مظلوموں کے حقوق کی ادائیگی بیت المال سے کرنا شروع کر دی حتی کہ کوفہ کے بیت المال کی ساری چیزیں ختم ہو گئیں۔ کوفہ کے بیت المال کے نگہبان ابو الزناد بن ذکوان [وفات: ۱۳۰ھ ۷۴۸ء] کا قول ہے: “ہم نے مظلوموں کے حقوق کو بیت المال سے ادا کرنا شروع کیا حتی کہ عراق کے بیت المال کا سارا مال ختم ہو گیا۔ پھر حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ بیت المال کے لیے شام سے مال لے کر آئے”۔
الحموی نے “معجم البلدان” میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کو خلافت کی باگ ڈور سونپی گئی تو انھوں نے کہا “میں دیکھ رہا ہوں کہ بیت المال کی رقم سے دمشق کی مسجد میں بہت سارا پیسہ [نقش و نگار جیسے] غیر ضروری کاموں میں خرچ کیا گیا ہے، لہذا میں اس مسجد سے جتنا واپس حاصل کر سکتا ہوں وہ حاصل کروں گا اور اسے بیت المال میں جمع کر دوں گا”۔
اسراف و احتیاط کے متضاد رویے
عہد عباسی میں مالیاتی پالیسی بہت مختلف رہی ہے، الجہشیاری کا کہنا ہے کہ مالیات کے سلسلے میں خلیفہ منصور بہت باریک بیں اور محتاط رہے جب کہ خلیفہ مہدی نے کافی اسراف سے کام لیا۔ عہد عباسی ہی میں قاضی ابو یوسف نے اپنی کتاب “الخراج” لکھ کر مالیات کے سلسلے میں نظریہ سازی کی کوشش کی۔ عہد عباسی میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ خلفا کم زور پڑنے لگے تو وزرانے ہی مالیاتی پالیسیاں بنانا شروع کر دیں۔ پالیسیاں بنانے کے سلسلے میں مختلف وزرا کے رویے مختلف رہے ہیں، مثلا عباسی وزیر علی بن الجراح [وفات: ۳۳۵ھ /۹۴۶ء] مالیات اور حساب کتاب میں بہت ہی زیادہ باریک بینی سے کام لیتے تھے۔
سلجوقی وزیر نظام الملک مالیاتی منصوبہ بندی اور خرچ کرنے میں کفایت شعاری کی حوصلہ افزائی کے لیے جانے جاتے تھے۔ دوسری جانب بادشاہ یا وزیر کے حواشی کو تحائف سے خوش کرنے کے لیے چند گورنروں نے رشوت کا بھی سہارا لیا۔ سرکاری منصوبوں کو منظور کرنے کے لیے یہ حضرات اُن کی لاگت میں کافی اضافہ کر دیتے تھے۔ الصابی نے بیان کیا ہے کہ وزیر ابن جراح جب مصر کے مالیاتی رجسٹروں کی آڈٹ کر رہے تھے تو ان کے سامنے یہ بات آئی کہ ایک پُل جس کی دیکھ بھال کے لیے صرف دس ہزار دینار سالانہ کافی تھے اُس کے لیے گورنر، بادشاہ سے سالانہ ساٹھ ہزار دینار وصول کرتے تھے۔
عہد اموی کے اندلس میں عبد الرحمان الناصر [وفات: ۳۵۰ھ / ۹۶۰ء] نے ایک ایسی مالی پالیسی اختیار کی جس کے خد وخال نہایت واضح اور جس کی منصوبہ بندی متوازن تھی۔ ابن عذاری المراکشی [وفات: ۶۹۵ھ / ۱۲۹۵ء] نے اپنی کتاب “البیان المُغرِب” میں لکھا ہے: “الناصر نے جمع ہونے والے مال کو تین تہائیوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک تہائی فوج کے لیے، دوسری تہائی تعمیرات کے لیے اور تیسری تہائی بچت کے لیے”۔
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ ابتدائی دنوں میں اخراجات کے کم ہونے کے سبب ریاست کسی طرح کا ٹیکس عائد نہیں کرتی ہے۔ لیکن جیسے جیسے اخراجات بڑھتے جاتے ہیں، ملازمتوں کی کثرت ہوتی جاتی ہے اورحکمراں طبقہ کے عیش و عشرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے تو ریاست ٹیکس میں اضافہ کر دیتی ہے۔ یہ صورتِ حال بازاروں پر منفی اثر ڈالتی ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شہر متاثر ہوتا ہے اور ریاستی امور میں خلل پڑتا ہے۔ خلیفہ اور اس کے وزراء کے نقطہائے نظر و قابلیت و صلاحیت اور وسائل کی کثرت یا کمی اور اس کی بہتر یا ناقص تقسیم کے لحاظ سے اسلامی ریاست کی عمومی مالیاتی پالیسی تاریخ کے مختلف ادوار میں مختلف رہی ہے۔
المقریزی نے اپنی کتاب “المواعظ والاعتبار” میں لکھا ہے کہ عباسی خلیفہ مہدی اسلام کی تاریخ میں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے دکانوں سے سن ۷۹۳ء میں خراج وصول کیا۔ سن ۲۵۰ھ کے بعد جب مصر کے خراج کی ذمہ داری احمد بن محمد بن مدبر کو دی گئی تو وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے خراج کے مال کے علاوہ مال کے حصول کےنئے ذرائع اختیار کیے۔ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ عباسی اور فاطمی ریاست کے اواخر میں ٹیکس کو بہت زیادہ بڑھا دیا گیا، حتی کہ حج کے دوران حاجیوں پر بھی تاوان عائد کیے گئے۔ ایسا ہی طوائف الملوکی کے دور میں اندلس میں ہوا۔
اس کے بالمقابل مراکش اور اندلس میں سلطان یوسف بن تاشفین [وفات: ۵۰۰ھ / ۱۱۰۶ء] نے ٹیکس ختم کر دیے۔ عبد اللہ بن بلقین الصنہاجی [وفات: ۴۸۳ھ / ۱۰۹۰ء کے بعد] نے اپنی یادداشت “الاحاطۃ” میں لکھا ہے کہ اندلس کے عوام مرابطین کو زیادہ پسند کرتے تھے کیوں کہ انھوں نے عوام پر سے ٹیکس ختم کر دیا تھا۔ ابن خلدون کا کہنا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی [وفات: ۵۸۹ھ / ۱۱۹۳ء] نے اپنی ریاست میں ٹیکس بالکلیہ ختم کر دیا تھا۔
سن ۶۵۶ھ / ۱۲۵۸ء میں تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کے سقوط سے کچھ قبل عباسی خلفاء نے بیت المال میں مالی اصلاح کی آخری کوششیں کی تھیں۔ اصلاح کی یہ کوششیں خلیفہ ظاہر بامر اللہ [وفات: ۶۲۳ھ / ۱۲۲۰ء] نے کی تھیں، ابن الاثیر کا کہنا ہے کہ خلیفہ ظاہر بامر اللہ نے پروانہ جاری کیا تھا کہ ریاست کے ٹیکس کو ۸۰ فیصد کم کر دیا جائے، حالاں کہ مالی سربراہوں نے خلیفہ کے اس فیصلہ کی یہ کہتے ہوئے مخالفت کی تھی کہ “بیت المال کی آمد تو اتنی ہی ہے، پھر اس کمی کی بھرپائی کیسے کی جائے گی”۔
دولت کی افراط
بیت المال میں موجود مال و دولت درحقیقت ریاست کی انتظامی طاقت اور وسعت کی خبر دیتے ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسلامی حکومت کے بعض ادوار میں بیت المال بہت ہی وسیع ہو گیا تھا۔ جہاں ایک جانب حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں بیت المال کی آمد صرف ۲ لاکھ درہم [موجودہ زمانہ کے حساب سے تقریبا ۴ لاکھ امریکی ڈالر] تھی جیسا کہ ابن سعد نے “الطبقات” میں بیان کیا ہے، وہیں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں صرف بحرین سے آنے والے مال و دولت کی مالیت ۵ لاکھ درہم تھی۔ الماوردی نے “الاحکام السلطانیۃ” میں لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں عراق سے آنے والا مال ۲۴ کروڑ درہم کے بقدر تھا۔
ابن عساکر نے لکھا ہے کہ ولید بن عبد الملک اموی کے دور حکومت کے دوران ایک سال بیت المال میں موجود رقم ۳۰ کروڑ درہم تک پہنچ گئی تھی۔ الجہشیاری کا کہنا ہے کہ عباسی خلیفہ منصور کی وفات کے وقت بیت المال میں موجود رقم ۹۰ کروڑ درہم [موجودہ زمانہ کے حساب سے تقریبا ۸ء۱ بلین امریکی ڈالر] تھی۔ الذہبی [وفات: ۷۴۸ھ / ۱۳۴۷ء] نے اپنی کتاب “تاریخ الاسلام” میں لکھا ہے کہ عباسی خلیفہ مقتدر کی بیعت کے وقت بیت المال میں موجود رقم سالانہ ایک کروڑ پچاس لاکھ دینار [موجودہ زمانہ کے حساب سے تقریبا ۳ بلین امریکی ڈالر] تک پہنچ گئی تھی۔
چوتھی صدی ہجری کے نصف اول میں عہدِ اموی کے اندلس کے بیت المال میں موجود دولت بہت زیادہ ہو گئی تھی۔ ابن خلدون نے اپنی کتاب “المقدمۃ” میں قابل اعتماد مورخین کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ “عبد الرحمان الناصر کے انتقال کے وقت بیت المال میں ۱۵ بلین دینار [موجودہ زمانہ کے حساب سے تقریبا ۳ ٹریلین امریکی ڈالر] موجود تھے۔
بیت المال میں آنے والے مال کو مختلف مصارف میں خرچ کیا جاتا تھا مثلًا سرکاری ملازمین، فوج، کم زور طبقات کا سماجی تحفظ، ملک کے عمومی مفادات مثلًا تعلیم و صحت کی خدمات اور سڑکوں، پل، دیواروں اور قلعوں کی تعمیرات۔ اس کے علاوہ حکمراں طبقے کے محلات کے اسراف اور بدعنوانیوں میں بھی بیت المال کا مال خرچ کیا جاتا تھا۔
عام لوگوں سے بیت المال کا تعلق گر چہ براہ راست نہیں تھا، لیکن بیت المال نے ہمیشہ اخراجات سے متعلق لوگوں کی مشکلات کو حل کیا اور ضرورت کے مطابق اپنی پالیسی میں تبدیلی کی۔ ہر زمانہ میں خصوصًا خلفائے راشدین کے عہد میں لوگوں کی ضرورتوں کو بیت المال بلا تفریق مذہب و ملت پورا کرتا تھا۔ قاضی ابو یوسف نے اپنی کتاب “الخراج” میں ایک نابینا یہودی کا واقعہ نقل کیا ہے جو جزیہ کی رقم کی ادائیگی کے لیے لوگوں سے بھیک مانگا کرتے تھے۔ جب حضرت عمرؓ نے انھیں دیکھا تو ان سے پوچھا کہ وہ کون سے اہل کتاب ہیں، انھوں نے بتایا کہ وہ یہودی ہیں۔ حضرت عمرؓ نے ان سے پوچھا کہ وہ کس مجبوری کی وجہ سے بھیک مانگ رہے ہیں، انھوں نے جواب دیا کہ وہ جزیہ، ضرورت اور عمر کی زیادتی کے سبب بھیک مانگ رہے ہیں۔ حضرت عمر ؓ اس یہودی کو لے کر اپنے گھر گئے اور انھیں اپنے گھر سے کچھ چیزیں دیں، اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے بیت المال کے خازن سے کہا: “ان کے اور ان جیسے دوسرے لوگوں کے مسئلہ پر غور کرو، خدا قسم اگر ہم ان سے ان کی جوانی میں جزیہ لیں اور پھر بڑھاپے میں انھیں بے سہارا چھوڑ دیں تو ہم ان کے ساتھ انصاف کرنے والے نہیں ہوں گے”۔ حضرت عمرؓ نے ان سے اور ان جیسے لوگوں سے جزیہ ختم کر دیا اور ان کے لیے وظیفے متعین کر دیے۔
نوع بہ نوع اخراجات
مالیاتی رجسٹروں کے مندرجات کا مطالعہ کرنے کے بعد الصابی نے عوامی مصالح [Public Utility] پر ہونے والے اخراجات کے چند متعین مصارف کا ذکر کیا ہے، مثلا موذنین، ائمہ اور دربانوں کی تنخواہ، چٹائیوں اور چراغ کے تیلوں کی قیمت، پانی اور عطر کے اخراجات کے لیے ماہانہ ۱۰۰ دینار متعین تھے۔ جیلوں اور قیدیوں کے اخراجات کے لیے ماہانہ ۱۵۰۰ دینارمتعین تھے۔ اور شفاء خانوں بشمول ڈاکٹروں، شفاء خانوں کے مطبخوں کے سپروائزرس اور باورچیوں کے اخراجات کے لیے ماہانہ ۴۵۰ دینار متعین تھے۔
وزیر علی بن عیسی بن الجراح کے حکم سے جیلوں میں صحت سے متعلق اصلاحات کی گئیں اور السواد میں طبی مہم چلائی گئی۔ “اخبار العلماء باخبار الحکماء” میں سنان بن ثابت الحرانی [وفات: ۳۳۲ھ / ۹۴۳ء] کی سوانح بیان کرتے ہوئے جمال الدین القطفی [وفات: ۶۴۶ھ / ۱۲۴۸] نے لکھا ہے کہ وزیر نے سنان بن ثابت الحرانی کو حکم دیا تھا کہ وہ ایسے طبیبوں اور ادویات و مشروبات کا ذخیرہ رکھنے والوں کی تقرری کریں جو السواد میں چکر لگائیں”۔ یہ طبی مہم بلا تفریق مذہب و ملت تمام لوگوں کے لیے تھی۔
حساب کتاب کرنے والوں اور ماہرین [جہابذۃ] کے تعلق سے یہ تصور عام تھا کہ وہ انتہائی ذہین، حساب کتاب میں مشّاق اور بے انتہا صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہیں۔ قاضی محسن التنوخی [وفات: ۳۸۴ھ / ۹۹۴ء] نے اپنی کتاب “الفرج بعد الشدۃ” میں لکھا ہے کہ ریاست میں مختلف نوعیت کے حساب کتاب کرنے والے ہوتے تھے، ان میں سے بیت المال میں خراج کا حساب کتاب کرنے والوں کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ وہ زراعتی حساب کتاب اور اکاونٹنگ کے تمام قوانین اور دیگر پہلوؤں سے مکمل طور پر واقف ہوں، جب کہ باقی حساب کتاب کرنے والوں کو عدالتی، پولیس و فوجی اور تعمیراتی کام کاج میں لگایا جاتا تھا۔
الصابی نے لکھا ہے کہ وزیر علی بن فرات کہتے تھے: “حساب کتاب کرنے والوں میں جو شخص بہتر انداز سے حساب کتاب اور اکاونٹنگ کرتا ہے، خط کتابت میں دلائل کو بہتر انداز میں واضح کرتا ہے اور کام کرنے والے کو اُسے تفویض کردہ کام کا پابند رکھتا ہے وہ شخص درحقیقت اُس کام کا حقدار ہے جو اسے سونپا گیا ہے”۔ یعنی کام یاب منتظم وہ ہے جو حساب کتاب کرنے اور اسے ضبط تحریر میں لانے میں مہارت رکھتا ہو، اپنی رائے کو واضح دلائل کے ساتھ پیش کرتا ہو اور اپنے زیر نگرانی ملازمین کے فرائض کو اچھی طرح سے تحریر کرتا ہو۔
حساب کتاب کا جائزہ اور معائنہ کرتے ہوئے بسا اوقات مالیات میں فراڈ اور غبن کا بھی انکشاف ہوتا تھا۔ الجہشیاری نے لکھا ہے کہ خلیفہ عمر بن عبد العزیزؓ نے خراسان کے گورنر یزید بن مہلب [وفات: ۱۰۱ھ / ۷۲۰ء] کو حکم دیا تھا کہ مرکزی بیت المال کے ۶ ملین درہم جو ان کے ذمہ ہیں، وہ اُسے واپس کر دیں، اور انھیں یہ بھی کہلا بھیجا: “مجھے تمھیں قید کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ اللہ سے ڈرو اور جو امانت تمھارے سپرد کی گئی تھی اُسے واپس کر دو “۔ اس کے بعد بھی گورنر نے پیسے لوٹانے سے منع کر دیا تو خلیفہ عمر بن عبد العزیزؓ نے انھیں قید خانہ میں ڈلوا دیا۔
قاضی محسن التنوخی نے اپنی کتاب “الفرج بعد الشدۃ” میں لکھا ہے کہ بسا اوقات کسی مخصوص علاقہ کے ذمہ دار کی اچانک سے انتظامی تحقیق و تفتیش شروع ہو جاتی، تحقیق و تفتیش کے اس کام کو کرنے کے لیے مخصوص افراد ہوتے تھے، یہ کام وزیر کے سپرد نہ کر کے عمومًا کسی حساب کتاب کرنے والے کے سپرد کیا جاتا تھا۔
بد دیانتی کے سائے
جب خلفا کم زور پڑ گئے اور انھوں نے وزراکے مالی لین دین کا جائزہ لینے میں غفلت سے کام لیا تو وزرا نے براہ راست یا نئی شقوں کا اضافہ کر کے پیسوں میں ہیرا پھیری شروع کر دی۔ الصابی کے مطابق علی بن الفرات نے ۷ لاکھ دینار کا غبن کیا تھا۔ ریاست کے مالیاتی کنٹرول میں کم زوری کی ایک وجہ وزارت کی غفلت اور سستی تھی۔
مسکویہ [وفات: ۴۲۱ھ / ۱۰۳۱ء] نے اپنی کتاب “تجارب الامم” میں وزیر ابو علی الخاقانی [وفات: ۳۱۲ھ / ۹۲۴ء] اور اس کے بیٹے کی انتظامی کم زوری کا ذکر کیا ہے۔ ان دونوں کے پاس مالیاتی حساب کتاب کی رپورٹیں آتی تھیں اور یہ لوگ اسے پڑھتے ہی نہیں تھے اور اگر پڑھتے بھی تو اُس وقت جب ان رپورٹوں سے متعلق کام مکمل ہو چکا ہوتا۔ محصولات اور ان کی رسیدوں سے متعلق رپورٹیں بیت المال میں ہی پڑی رہ جاتیں، انھیں کھولا تک نہیں جاتا، لہذا معلوم ہی نہیں ہوتا کہ یہ رپورٹیں کن چیزوں سے متعلق ہیں، نتیجہ یہ ہوا کہ بیت المال کا معاملہ خراب ہوتا چلا گیا۔
ایک ایسا واقعہ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بیت المال میں غبن کرنے کے سبب بیت المال کے مرکزی ذمہ دار کو پھانسی کی سزا دے دی گئی اور اس کی جائداد ضبط کر لی گئی۔ الذہبی نے اپنی کتاب “تاریخ الاسلام” میں لکھا ہے: “مخزن کے نگہبان ابو طاہر بن الجزری [وفات: ۵۱۲ھ / ۱۱۱۸ء] کو گرفتار کر کے پھانسی دے دی گئی۔ ان کے گھر سے ۴ لاکھ دینار [موجودہ زمانہ کے حساب سے تقریبا ۸۰ ملین امریکی ڈالر] برآمد کیے گئے۔
صلاح الدین الصفدی [وفات: ۷۶۴ھ / ۱۳۶۳ء] نے اپنی کتاب “اعیان العصر” میں ذکر کیا ہے کہ مملوکی عہد میں دمشق کے بعض سربرآوردہ لوگوں نے بیت المال کے نگہبان شمس الدین غبریال المسلمانی [وفات: ۷۳۴ھ / ۱۳۳۳ء] پر غبن کا الزام لگایا تھا۔ شام کے بیت المال کے ناظر اور محتسب عز الدین القلانسی [وفات: ۷۳۶ھ / ۱۳۳۶ء] سے اس بارے میں دریافت کیا گیا، تو انھوں نے کہا: “اس سلسلے میں، میں کیسے گواہی دے سکتا ہوں؟ جب کہ انھیں ان کی طویل خدمات کے عوض ہر ماہ دس ہزار درہم تنخواہ دی جاتی ہے”۔ اس طرح غبریال کو بری قرار دیا گیا اور انھیں بیت المال کی نگہبانی پر سن ۷۳۲ھ / ۱۳۳۲ء تک باقی رکھا گیا۔ پھر سن ۷۳۲ھ / ۱۳۳۲ء میں انھیں بدعنوانی کے الزام میں اپنے عہدے سے برطرف کر دیا گیا اور ان کے پیسے ضبط کر لیے گئے۔ غیربال نے ۲۰ لاکھ درہم ادا کیے، اس کے بعد ان کی توہین کی گئی اور ان کے گھر والوں کے مال کو بھی ضبط کر لیا گیا۔ یہ واقعہ الذہبی نے “العبر” میں بیان کیا ہے۔
ابتداء میں تقرری اور برطرفی چابی دے کر اور واپس لے کر کی جاتی یا زبانی طور پر کی جاتی تھی۔ المحب الطبری [وفات: ۶۹۴ھ / ۱۲۹۵ء] نے اپنی کتاب “الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ” میں لکھا ہے کہ سب سے پرانا استعفی شاید حضرت عبداللہ بن ارقمؓ اور حضرت معیقبؓ کا ہے جو انھوں نے حضرت عثمانؓ کے زمانے میں اپنے بڑھاپے کے سبب بیت المال کی ذمہ داریوں سے دیا تھا۔
سب سے پہلی برطرفی جو ہمارے علم میں آ سکی وہ اُس وقت ہوئی تھی جب کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد [وفات: ۶۷ھ / ۶۸۷ء] نے کوفہ کے بیت المال کے خازن شقیق بن سلمہ [وفات: ۸۲ھ / ۷۰۱ء] کو برطرف کیا تھا، کیوں کہ موخر الذکر نے گورنر کے کچن میں ہونے والے حد سے زیادہ اخراجات پر اعتراض کیا تھا۔ عبید اللہ بن زیاد نے برطرفی کے وقت شقیق بن سلمہ سے کہا تھا: “چابھی رکھ دو اور اپنا راستہ ناپو”۔ یہ واقعہ ابن الجوزی نے “مناقب عمرؓ” میں بیان کیا ہے۔
بعد کے دور میں بیت المال میں ہونے والی تقرریاں ایک واضح خط کے ذریعے ہونے لگیں، تقرری نامہ میں اہلکار کی مہارتوں، اس کے فرائض اور تنخواہ کا ذکر ہوتا، مثلًا ایک تقرری نامہ میں جسے ابن ابو الحدید نے جاری کیا، لکھا تھا: “جس کی تقرری کی جا رہی ہے اُسے فلاں فلاں کام کرنے ہوں گے”۔ اگر بیت المال کے نگہبان پر کسی طرح کی تہمت ثابت ہوتی تو بسا اوقات اُسے سزا دی جاتی، اُس کا مال ضبط کر لیا جاتا اور اس کا گھر منہدم کر دیا جاتا۔ الذہبی نے “تاریخ الاسلام” میں لکھا ہے کہ حسن بن نصر بن الناقد [وفات: ۶۰۴ھ / ۱۲۰۷ء] کواس طرح سزا دی گئی کہ خلیفہ نے اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکا، اس کے گھر کو تباہ کر دیا اور اسے قید کر لیا۔ (اصل عربی مضمون الجزیرہ کی ویب سائٹ پر موجود ہے)
مشمولہ: شمارہ مارچ 2024