توازن و اعتدال ۔ مفہوم اور تقاضے

(2)

 خود مرکزیت

آج انسان پیسہ کمانے کی مشین بن گیاہے، خود غرض ہو گیا ہے۔ خود غرضی کی مثال آج سے اچھی کبھی نہیں ملی۔آج انسان روٹی کپڑا مکان کے حصول میں مصروف ہوگیا ہے۔ وہ اپنی زندگی کو ایک عیش و آسائش سمجھتا ہے۔ وہ بنگلہ اور گاڑی ،شراب اوردیگر لغویات چاہتا ہے ۔خواتین کے استحصال اور فحش و بے حیائی میں ڈوباہے۔صنف ناز ک کا بھی یہ معاملہ ہے کہ وہ عزت لٹانے کے لیےبے قرار ہے اور اس پر ہائے بھی، روئے بھی اور ماتم بھی کرے  ۔

نظام سرمایہ داری نے فرد کو ہر ممکن طریقے سے دولت کمانے کا غیر مشروط اورغیر محدود اجازت نامہ دے دیا ہے ۔ نئے فلسفہ اخلاق نے ہر اس طریقہ کو حلال اور اچھا ٹھہرا دیاہے جس سے دولت کمائی جا سکتی ہے، خواہ ایک شخص کی دولت مندی کتنے ہی اشخاص کی تباہی کا نتیجہ ہو ۔اس طرح تمدن کا سارا نظام ایسے طریقے پر بنا کہ جماعت کے مقابلے میں ہر پہلو سے فرد کی حمایت اورفرد کی خود غرضیوں کے مقابلے میں جماعت کے لیے تحفظ کی کوئی صورت نہ رہی۔ کمانے کے چکر میں ایک شخص اٹھا، اس نے شراب لا کر رکھ دی۔دوسرا اٹھا، اس نے سود خوری کا جال پھیلا دیا ۔تیسرا قمار بازی لایا۔پھر عورتوں کو پروڈکٹ کی طرح مارکیٹ میں پیش کیا گیا ۔اس سے لوگوں کی جیب پر ڈاکہ ڈلا گیا ۔اس میں فرد کو مزہ آنے لگا ۔ قاتل کا کمال یہی ہے کہ جسے قتل کرناہووہ خود ہی برضا ورغبت قتل ہونے کے لیے تیار ہوجائے۔

جماعت ،معاشرہ اپنے مفاد کے لیے فرد کے حقوق پر جب ہاتھ ڈالنے لگا تو جواباً فرد بھی بے لگام اور خود غرض ہونے لگا۔اس سے سرمایہ دارانہ نظام  اور اخلاقی بے راہ روی کو تقویت ملی۔پھر اجتماعیت منتشر اور پارہ پارہ ہونے لگی تو سوشلزم اور فاشزم نے سراٹھایا۔ پھر  یوں ہوا کہ ایک انتہا سے دوسری انتہا کا علاج کیا جانے لگا۔یہ تصور جماعت کو فرد پر قربان کرتا ہے ۔ اس تصور اجتماعیت سے مسئلہ پیدا ہوا کہ فرد کو جماعت پر قتل و قربان ہو نا پڑا ان تمام افراط و تفریط میں انسان کی کامیابی اور فلاح کے لیےمتوازن نظریہ اور سوچ کی ضرورت پڑی۔

یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ جب ایک پہلو سامنے آتاہے اور اس پر عمل آوری ہوتی ہے تو دوسرا دب جاتا ہے یا نظر سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ کبھی کسی سے کوئی متاثر ہو جاتا ہے تو کبھی نظر دھوکہ کھا جاتی ہے۔ اس وجہ سے انسان اپنی زندگی کے مسائل کو حل کرنے کی جتنی کوشش کرتا ہے وہ ناکام ہوتا ہے۔ اس  کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے اعمال کی پشت پر مضبوط دلائل نہیں ہیں۔ صحیح حل اسی وقت ممکن ہے جب فرد ، خاندان،معاشرہ ،گروہ اور مسلک و مذہب اپنی زندگی کا صراط مستقیم نقطۂ عدل کو بنالے اور نقطۂ عدل اس وقت تک نہیں پایا جاسکتا جب تک یہ تصور رگوں میں رچ بس نہ جائےاورتمام حقائق نہ صحیح، کم ازکم معلوم حقائق کے سارے پہلو یکساں ،متوازن طور پر نگاہ کے سامنے نہ ہوں۔اسلام بڑے اچھے انداز میں توازن سکھاتا ہے ۔مثال کے طور پر بے تحاشا خرچ کو لے کر سو رۂ اسراء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:  ’’فضول خرچی نہ کرو، یقیناً فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘ تو دوسری طرف سورہ الا نعا م میں اس کا ارشاد ہے:’’اور حدسے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘قرآن قابل تعر یف مومنانہ کردار یہ بتاتا ہے کہ ’’ وہ نہ تو فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤ ں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتاہے۔‘‘(الفرقان:67)مزید سورۂ اسراء میں کہا گیا ہے:’’ نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل کھلا چھو ڑ د و ، کہ ملامت زد ہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ‘‘جس طرح اسلام خرچ کے معاملے میں توازن کی راہ دکھا تا ہے اسی طرح فرد اور معاشرہ ،فرد اور خاندان ،مرداور عورت ،فرد اور حکومت ،تمام سیاسی، سماجی، معاشی، تہذیبی و ثقافتی  میدانوں میں عدل اور توازن سکھاتا ہے  اور افراط و تفریط سے محفوظ ر کھتا ہے ۔

حل کی جانب

٭فرد کو اپنی آزادی کے دائرہ کار کو سمجھنا ہوگا ،خود کی آزادی میں دوسروں کی حق تلفی کو واضح رکھنا ہوگا۔

٭اپنی ذاتی زندگی کے محور سے بڑھ کر اسے سماج کا مطالعہ کرنا ہوگا ،مخلوط سماج کی سمجھ پیدا کرنی ہوگی۔

٭قانون فطرت کا غائر مطالعہ کر نا ہوگا۔

٭اعلیٰ انسانی اقدا ر کا ادراک پیدا کرنا ہوگا ۔

٭ صرف تصور’ آئی‘ (I) سے بڑھ کر تصور’ وی‘  (we) پر عمل آوری کرنی ہو گی۔

٭ ہر معاملہ میں ــ’ھل من مزید‘ کے تصور سے اعراض کرنا ہوگا۔

خصوصاً شہوانی خواہشات اور حیوانی جذبات کے ضمن میں   جہاں تک ملک ہندوستان کی بات ہے ، مرض بہت شدت سے پھیل گیا ہے۔ آزادی کے بعد اب تک  مذہبی بنیادپر ہزاروںفسادات ہوچکے ہیں ۔ یہاں گاجر مولی اور جانوروں کی قیمت انسانوں سے زیادہ ہے۔ چند فائدوں کے لیے انسانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے۔ کروڑوں کاجانی مالی نقصان آئے  دن اخباروں کی خبریں بنتا ہے۔ کبھی کسی مسجدپر حملہ ہوتا ہے اور کبھی چرچ عصبیت کا شکار ہوکر بھسم ہوجاتے ہیں۔ قتل و غارت گری مذہب کے نام پر فخر بن گیا ہے ۔ سیاست صرف اس کا شکار ہی نہیں ہوئی، بلکہ آج سیاست صرف اسی بنیاد پر ہورہی ہے۔ گورنمنٹ آفس میں مذہبی عصبیت کا یہ حال ہے کہ دوسروں کے کام ہی نہیں بنتے۔ آج سوشل میڈیا پر نفرت کا سبب سے بڑا عنوان مذہبی عصبیت ہے۔ آپسی رسہ کشی کئی کو اب تک جیل پہنچا چکی ہے۔ جس میں اصلی غنڈے باہر اور معصوم اندر ہورہے ہیں۔ اسکولوں میں ایڈمیشن مذہب کی بنیاد پر ملتے ہیں۔کمپنیوںمیں نوکری مذہب کی بنیاد پردی جاتی ہے۔ قابلیت اور ہنرکو پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا۔ انسان کے اخلاق، اس کی انسانیت سب فضول ہے۔ پرکھنے کا پیمانہ صرف مذہب اور اس کانام رہ گیا ہے۔ پھرانہی مسائل پر انسان  ایک طرفہ سوچ اور نظریہ کا قائل ہوتا جارہاہے، اس میں شدت آرہی ہے، قوت برداشت ختم ہورہی ہے ۔  اقلیت اور اکثریت کا تصور مزید شدت پکڑرہا ہے۔میڈیا کی کمائی کا عنوان مذہبیت ہورہا ہے۔ اس کا مرکزی عنوان صرف مذہب دشمنی ہے۔

اسلام اس تعلق سے بہترین ہدایتیں مزید فراہم کرتا  اور اعلی نمونہ چھوڑتا ہے ۔ اسلامی تصورِ آزادی  انسانیت کو ترقی کے بام عروج پر پہنچاتا ہے۔  اسلام مسئلے کی جڑ پروار کرتا ہے۔ وہ تمام ، بنی نوع انسان کو ’الخلق عیال اﷲ‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ سارے انسانوں کو ایک آدم اور حوا کی اولاد بتاتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وہ انسانوں کو مومن اور کافر کے خانوں میں تقسیم کرتا ہے، لیکن اس تقسیم میں جو لوگ آتے ہیں وہ شعوری بنیادوں پر تقسیم ہوتے ہیں۔ یہ تقسیم غیر شعوری بنیادوں پر نہیں ہوتی ۔  پھر اﷲ تعالیٰ تقسیم کے بعد اس بنیاد پر مادی اسباب و وسائل اور مادی ترقی اور بقائے زندگی کے مواقع کسی گروہ کو کم یا زیادہ نہیں عطا کرتا۔ انسان اﷲ کی مخلوق ہے۔ ایک کنبہ ہے۔اسلام میں صرف عقائد کی بنیاد پر تعصب نہیں برتا جائے گا۔ اسلام ’تعاونواعلی البروالتقویٰ‘ میں مذہب کی قید نہیں لگاتا۔ اس ضمن میں اﷲ کے نبیﷺ کی تعلیم نہایت اہم ہے۔  آپ ﷺ نے فرمایا:’’جس نے عصبیت پر جان دی وہ ہم میں سے نہیں ہے ، جس نے عصبیت کی طرف بلایا وہ ہم میں سے نہیں ہے، جس نے عصبیت پر جنگ کی وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘نسل ، وطن ، زبان اورر نگ کی تفریق کو آپﷺ نے یہ کہہ کر مٹادیا کہ ’’نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہے اور نہ عجمی کو عربی پر۔ تم سب آدم کی اولاد ہو۔ (بخاری)

اسلام ’ لا اکراہ فی الدین‘ کہہ کر مذہب کی  آزادی دیتا ہے اور ساتھ ہی صحیح ر۱ہ دکھاتا ہے۔

حل

۱۔                           ’لا ضررولا ضرار‘ نقصان اُٹھائو نہ نقصان پہنچائو۔

۲۔                           اندھی تقلید کی بجائے شعوری عمل آوری کی دعوت

۳۔           اجتماعی (پورے معاشرے کی) شعوری بیداری : اس سے مراد انفرادی آراء میں اختلاف کے باوجود کسی مخصوص نکتہ کے تحت سماجی عمل کو مجموعی شعور سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ یہ عمل خصوصی طور پر رضا مندی سے ہونا چاہیے، نہ کہ چوکیوں سے۔

۴۔                           مخلوط سماج کی سمجھ کے ساتھ سماج کے حقوق کو عملی زندگی میں بنیادی ستون کی حیثیت  دی جائے۔

۵۔                           نقصان پہنچانے والوں کی نشان دہی کرکے ان کی روک تھام کی جائے۔

۶۔                           مذہب میں غلو کرنے سے بچنا اور بچانا ہوگا۔

۷۔                           ذہن کی کشادگی اور وسعت قلبی پیدا کرنی ہوگی۔

۸۔                           حقوق اور ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔

۹۔                           صبرو تحمل اور برداشت پیدا کرنی ہوگی۔

۱۰۔                         انفرادیت پر اجتماعی تقاضوں کو اولیت دینی ہوگی۔

  سیاست کی اصلاح

موجودہ دور میں لفظ ’سیاست ‘سنتے ہی فرد کے ذہن میں منفی تصویر بنتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ ایک ایسی دلدل اور کیچڑ ہے جس میں پڑنا کسی شریف انسان کو زیبا نہیں۔ یہ کنارہ کشی موجودہ سیاست اور اس کے عملی رویوں کی وجہ سے ہے۔ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ تصور جمہوریت پر عمل آور ہے۔ اس کا  صاف تصور  یہ ہے کہ حکومت عوام کی ہے ،عوام کے لیے ہے اور عوام کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہندوستان کی صورت حال کا ایک پہلو یہاں قانون کی حکم رانی کا تصور ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ حکومت کے اداروں ، عدلیہ، منتظمہ اور انتخابات کا طرز عمل اداروں کے چلانے والے افراد کے رجحانات اور ان کے جذبات کے تابع نہ ہو اور افراد میں پائے جانے والے تاثرات سے متاثر نہ ہو، بلکہ قانون کے مطابق ہو۔ یہ بڑا اہم اور قابل قدر تصور ہے۔ انار کی اور جنگل راج کے بجائے قانون کا نفاذ کسی ملک میں امن و امان قائم رکھنے کیلئے ناگزیر ہے اور عدل و انصاف کی راہ ہموار کرتا ہے۔ ملک کی موجودہ فضا میں قانون کی حکم رانی خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔

لیکن عملی سیاست کی موجودہ صورت حال بالکل مختلف ہے۔ یہاں پر سیاست اخلاقی اقدار کے بجائے مذہب و مسلک ، فرقہ و گروہ اور تعصب سے بھری ہوئی ہے۔ ہر کوئی بے لگام ہوکر اپنے مفادات کی بات کررہا ہے۔ سیاسی لیڈران اپنے مفادات کی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ جب سیاست کا عملی عنوان مذہب ہوجائے اور اس کو  اپنی حکم رانی کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیاجائے تو نتیجہ اُمید سے الگ نہ ہوگا۔اگر مذہب کی سیاست اقدار کی سیاست ہوئی تو کوئی مضحکہ نہ ہوگا، لیکن اگر آپسی رسہ کشی ہو جا ئے ، سب ایک د وسرے کے خون کے پیاسے ہوجائیں، ایک دوسرے کے مذہبی جذبات ، تقدسات، عبادت گاہوں پر حملے ہورہے ہوں تو اس کے بعد وہ سیاست مذہب کی سیاست نہیں رہتی،  دہشت گردی کا اکھاڑابن جاتی ہے۔ یہ بہت عام امکان ہے۔ جب ایک گروہ اور اس کے لیڈران اپنی قوم کے مفادات کی بات کررہے ہوں تو دوسرا بھی اُسی راہ پر چلے گا۔ اور کچھ بعید نہیں کہ حصول مفاد کی جنگ اشتعال انگیز صورت اختیار کرلے۔

آج انسان میں اقتدار اور دولت کی بھوک بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ جب طاقت کی بھوک بڑھ جاتی ہے توفاشزم جنم لیتا ہے۔ جب نفس کو مال و طاقت کا مزہ آنے لگتا ہے تو نفس بے قید ہوجاتا ہے۔ پہلے سیاست طاقت کے حصول میں کروڑوں بانٹنے پر مجبور کرتی ہے، پھر حصولِ کامرانی پر وہ وصولی میں غبن کی بہترین مثال بنتی ہے۔

جب فرد کو طاقت و مال کی ہوس میں کامیابی و کامرانی نظر نہیں آتی تووہ سیاست میں فطرت کے خلاف جاکر ڈکٹیٹر بن جاتا ہے۔ اسلام کا سیاسی تصور ان تمام خیالات کے مقابلے میں راہ نما اصول پیش کرتا ہے۔ وہ سیاست سے ڈرتا نہیں، بلکہ بہترین قوانین کے ساتھ اپنالو ہا منواتا ہے اور معاشرے میں اس افراط و تقریط کو قابو میں رکھ کر عدل و توازن قائم کرتا ہے۔

اسلام سیاست کا ایک الگ ہی تصور دیتا ہے۔  وہ فرد کو آخرت میں جواب دہی کا احساس دلاتا  ہے ۔ فرد آزاد نہیں ہوتا کہ زمین میں فساد برپا کرے، بلکہ اسے ہر دم احساس رہتا ہے کہ قیامت میںاس کے ہر عمل کی جواب دہی ہوگی۔ قوم کے رہبر کو ’سید القوم خادمہم ‘ کے  الفاظ سے رہ نما ئی کی گئی ہے۔ یعنی سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ اس طرح عدل قائم ہوتا ہے۔ اسلام کے نظام سیاسی میں شورا ئیت کو اہم مقام حاصل ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’وامر ہم شوریٰ بینھم‘‘ یعنی اُن کے آپس میں معاملات مشورے سے طے پاتے ہیں۔ اسلامی سیاست جن اقدار پر کام کرتی ہے اس کو قرآن میں بہت احسن انداز میں بیان کیا گیا۔ ’’ تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔ اسلامی سیاست میں سب سے بڑی پولیس آخرت کاخوف اور خدا کو جواب دہی کا احساس  ہے۔ فرد کا دل پولس چوکی کا کردارادا کرتا ہے۔  اس کا ضمیر ، نفس لوامہ ہوتا ہے۔

حل

۱۔            قانون کی پاسداری اور عمل آوری کرنی ہوگی۔

۲۔           اقدار پر مبنی سیاست، اخلاقیات کا عملی مظہر پیش کرنا ہوگا۔

۳۔           باعلم افرادکو  سیاست میں دلچسپی لینی ہوگی۔

۴۔           معا ملات میں شفافیت لانی ہوگی۔

۵۔           حقوق کی سیاست کرنی ہوگی ،ذمہ داری کا احساس پیدا کرنا ہوگا۔

۶۔           اچھے لوگوں کوسیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنے کے بجائے میدان میں اُترنا ہوگا۔

۷۔           خوف کی نفسانیت کو ختم کرنا ہوگا۔

۸۔           سیاسی شعور کی بیداری پیدا کرنی ہوگی۔

۹۔           یہ ملک سب کا ہے۔ دوسرے درجہ کے شہری کا تصور ختم کرنا ہوگا۔

موجودہ دور کی خصوصیت  یہ ہے کہ ایک عام آدمی بھی سماج کو بدل سکتا ہے۔ اس موقع پر خود شناسی کے ساتھ مسائلِ دنیا کو حل کرنا ہوگا۔ان خیالات کی عوام میں ترسیل کرنی ہوگی اور انہیں سماج سے ہم آہنگ بنانا ہوگا ۔ ان اصولوں کو کیسے پروان چڑھانا ہے اس کا تعلق طریقہ مخاطبت سے ہے۔جو تقریر ، تحریر سے بڑھ کر کردار سے ممکن ہے۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2015

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223