نظریت اور حکمت عملی میں ٹھیک ٹھیک توازن قائم رکھنا اس شخص کے لیے ضروری ہے جو واقعات کی دنیا میں عملاً اپنے نصب العین تک پہنچنا چاہتا ہو۔ آئیڈل ازم کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی اپنے نصب العین کی انتہائی منزل سے کم کسی چیز کو آنکھ اٹھاکر بھی نہ دیکھے، اور جن اصولوں کو وہ پیش کرتا ہے، ان پر سختی کے ساتھ جما رہے۔ مگر واقعات کی دنیا میں یہ بات جوں کی توں کبھی نہیں چل سکتی۔ یہاں نصب العین تک پہنچنے کا انحصار ایک طرف ان ذرائع پر ہے جو کام کرنے والے کو بہم پہنچیں، دوسری طرف ان مواقع پر ہے جو اسے کام کرنے کے لیے حاصل ہوں، اور تیسری طرف موافق اور ناموافق حالات کے اس گھٹتے بڑھتے تناسب پر ہے جس سے مختلف مراحل میں اسے سابقہ پیش آئے۔ یہ تینوں چیزیں مشکل ہی سے کسی کو بالکل سازگار مل سکتی ہیں۔ کم از کم اہلِ حق کو تو یہ کبھی سازگار نہیں ملی ہیں اور نہ آج ملنے کے کوئی آثار ہیں۔ اس صورت حال میں جو شخص یہ چاہے کہ پہلا قدم آخری منزل ہی پر رکھوں گا، اور پھر دوران سعی میں کسی مصلحت و ضرورت کی خاطر اپنے اصولوں میں کسی استثنا اور کسی لچک کی گنجائش بھی نہ رکھوں گا، وہ عملاً اس مقصد کے لیے کوئی کام نہیں کر سکتا۔ یہاں آئیڈل ازم کے ساتھ برابر کے تناسب سے حکمت عملی کا ملنا ضروری ہے۔ وہی یہ طے کرتی ہے کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے راستے کی کن چیزوں کو پیش قدمی کاذریعہ بنانا چاہیے، کن مواقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، کن رکاوٹوں کے ہٹانے کو مقصدی اہمیت دینی چاہیے اور اپنے اصولوں میں سے کن میں بے لچک ہونا اور کن میں اہم تر مصالح کی خاطر حسب ضرورت لچک کی گنجائش نکالنا چاہیے۔
(رسائل و مسائل [تدوین نو]،جلد دوم، ص462)
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2020