العروۃ الوثقیٰ
قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی تعلیمات کو عام فہم بنانے اور ہر خاص و عام تک اسے پہنچانے کی کوشش زمانۂ نزول سے اب تک جاری ہے۔ مختلف زبانوں میں بے شمار تفسیریں اسی مقصد سے لکھی جاتی رہی ہیں۔ بعض تفسیریں بہت طویل اور کئی جلدوں پر مشتمل ہیں تو بعض مختصر بھی ہیں۔ نئی تفسیروں کا سلسلہ بھی ابھی بند نہیں ہوا ہے۔ تفسیروں کی کثرت اس پہلو سے بہت مفید ثابت ہوئی ہے کہ ہرنئی اہم تفسیر قرآنی آیات کے نئے معانی و مفاہیم کو سامنے لاتی ہے، جس سے قاری کو آیات کے اصل مفاہیم کے قریب پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔اسی لیے قرآنی تعلیمات سے بہرہ مند ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تفسیروں کی مدد سے قرآن کے مطالب کو سمجھنے والا خود کو ایک تفسیر تک محدود نہ رکھے۔
نئے علوم کی دریافت اور جدید سائنسی تحقیقات بھی قرآنی آیات پر غور وفکر کے نئے زاویے فراہم کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ سماجی و معاشرتی علوم اور معاشرتی زندگی میں آنے والی جدید تبدیلیاں بھی بار بار قرآن کے محیط سمندر میں غوطہ لگانےکی ترغیب دیتی اور معانی و مطالب کے نئے گوہر تلاش کرنے پر آمادہ کرتی ہیں۔ اسی لیے ہر دور میں اس د ور کے ذہن کوسامنے رکھ کرنئی تفاسیر مرتب کرنا وقت کی ضرورت بھی قرار پاتا ہے۔
ہر تفسیر تک رسائی ہر انسان کے لیے ممکن نہیں ہوپاتی۔اس لیے اہل علم حضرات نے تفاسیر کے خلاصے کا چلن عام کیا۔یہ خلاصے یا تو کسی ایک تفسیر کے ہوتے ہیں یا مختلف تفاسیر کے اہم نکات کو یک جا کرکے پیش کرتے ہیں، دونوں ہی قسم کے متعدد خلاصے اب تک منظر عام پر آ چکے ہیں۔
’العروۃ الوثقیٰ‘ کے نام سے منتخب آیات کا خلاصہ کئی دوسرے پہلوؤں سے بہت اہم ہے۔ مصنف کے بیان کے مطابق اس کتاب میں انھوں نے ۴۵ مختلف تفاسیر کے اہم نکات کا خلاصہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے عربی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھی جانے والی تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے خاص طور سے امت کے نوجوانوں کو قرآن کی اہم بنیادی تعلیمات کا یہ ’مضبوط سہارا‘(العروۃ الوثقیٰ) فراہم کیا ہے۔ہر تفسیری رائے کا ساتھ تفسیر کا حوالہ بھی دیا گیا ہے۔
ایک اہم پہلو اس کتاب کا یہ ہے کہ یہ ایک موضوعاتی خلاصہ ہے، جس میں عقائد (توحید، رسالت اور آخرت)، اخلاقیات، معاشرت، جہنم، جنت اور دعا کے موضوعات پر ہی توجہ کو مرکوز رکھا گیا ہے۔ کتاب کا یہ خاص پہلو اس لیے اہم ہے کہ اسے امت کے نوجوان طبقے کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، تاکہ وہ دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف ہو سکیں۔
اس خلاصے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں فکری اور عملی دونوں نکات پیش کیے گئے ہیں۔ متعلقہ آیات پر غور و فکر کے لیے جو نکات ہو سکتے ہیں، ان کے علاوہ وہ نکات بھی پیش کیے گئے ہیں جنھیں عملی طور پر اختیار کیا جانا چاہیے۔اس طرح سے یہ خلاصہ فکری بھی ہے اور عملی بھی۔
مصنف: محمد عبداللہ جاوید
ناشر/تقسیم کار: وہائٹ ڈاٹ پبلشرز، نئی دہلی/ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
قیمت: ۶۰۰ روپے۔
اسلام ہی کیوں؟
اس کتاب کا مختصر ترین تعارف یہ ہے کہ یہ کتاب اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ دنیا بھوک، غربت، سماجی نابرابری، طبقاتی کشمکش وغیرہ جیسے مسائل سے جوجھ رہی ہے تو اس کی صرف ایک وجہ ہے، اور وہ ہے دنیا میں موجود انسانی ضرورتوں کی اشیا اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم۔ دولت و نعمت کی منصفانہ تقسیم کا تصور دنیا کی کسی تہذیب کے پاس نہیں ہے۔ یہ تصور صرف اسلام کے پاس ہے۔ اس لیے دنیا کو امن و امان اور سکون سے آراستہ اگر کوئی کر سکتا ہے تو وہ اسلام ہے۔
کتاب کے مصنف ڈاکٹر انیس الدین احمدؒ(۱۹۱۶ء۔۱۹۷۲ء)نے اسلامی لٹریچر کے علاوہ مغربی افکار و نظریات کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور اسی مطالعے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا تھا کہ دنیا کے لیے بہتر نظام صرف اسلام ہی پیش کرسکتا ہے۔ اپنے اسی حاصل مطالعہ کو انھوں نے ’اسلام ہی کیوں؟‘ کے قالب میں پیش کیا ہے۔
دنیا میں انسان کی ضرورت کی جو بھی چیزیں ہیں وہ ہمیشہ فراوانی کے ساتھ میسر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر دنیا کی غذائی دولت انسان کی ضرورت سے کم از کم چار گنا زیادہ تو لازمی طور پرہے، یہ تناسب اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے، کیوں کہ آج زراعت اور آلاتِ زراعت کے میدان میں دنیا نے جو ترقی کی ہے، اس نے لازمی طور پر ضرورت کے مقابلے غذائی اجناس کی پیداوار کو مزید بڑھا یاہی ہے۔انسان کی دیگر ضروریات کا بھی یہی حال ہے، لیکن اس کے باوجود دنیا ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف دنیا علمی و فکری میدان میں ترقی کر رہی ہے۔ نئے نظریات و افکار جنم لے رہے ہیں۔ دوسری طرف نفس پرستی، خود غرضی، حرص و ہوس، باہمی عناد و منافرت اپنے شباب پر ہے۔انسان خود کو ہلاک کرنے والے تباہ کن سامانوں کا ذخیرہ کر تا جا رہا ہے۔اقوام اپنی سطح پر اور افراد اپنی سطح پر اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ دنیا کے تمام وسائل کے وہی مالک کل بن جائیں۔ غذائی و دیگر ضروری اجناس کی اس قدر فراوانی کے باوجود دنیا کی کثیر آبادی انتہائی غربت سے دوچار ہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے جاری کردہ غربت کے اعداد وشمار کے مطابق مارچ ۲۰۲۱ء میں بھی انتہائی غربت سے دوچار افراد کی تعداد ۶۹۶ ملین تھی، جب کہ ستمبر ۲۰۲۰ء میں ۶۸۹ ملین تھی۔ معروف صحافی وسعت اللہ خان نے اپنے حالیہ مضمون میں اس المیے کا اظہار کیا ہے کہ دس برس پہلے دنیا کا ہر’ ایک سو انسٹھواں‘ انسان در بدر تھا، لیکن آج ہر پانچواں انسان دربدر ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ دنیا کے وسائل و ذرائع پر ایک ایسی تہذیب کا قبضہ ہے جو علمی ترقی کے باوجود اخلاقیات و روحانیت سے عاری ہے، یعنی موجودہ مغربی تہذیب۔ مغربی تہذیب کی اساس ان فکری کج رویوں پر ہے جنھوں نے اسے خود غرض، آوارہ و بے مہار، حریص اور انسانیت سے عاری بنا دیا ہے۔ الحاد، فلسفہ افادیت، فلسفہ لذت پرستی، لبرلزم، لادینیت،قوم پرستی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت اس تہذیب کی اساس ہیں۔ ان فلسفوں اور نظریات نے انسان کو خود مختار اور کسی بھی قسم کی جواب دہی اور محاسبے سے آزاد کر دیا ہے۔ اپنی ذات کے لیے دنیاوی اور مادی فائدوں کے سوا اس کے نزدیک کوئی دوسری چیز قابل اعتنا نہیں رہی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان خدا اور آخرت دونوں کے تصور سے آزاد ہو گیا ہے۔ اس آزادی و بے مہاری نے اسے شرم و حیا سے عاری اور برائی کے لیے بے جھجک بنا دیا ہے۔حلال و حرام، جائز و ناجائز، اور عدل و انصاف کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رہی ہے۔عیاری و مکاری، دجل و فریب ایک فن کی حیثیت سے اس کا وسیلہ بن گئے ہیں۔جدیددین بے زار جمہوریت نے ’جمہور کے اقتدار اعلیٰ‘ کا جھانسا دے کر انسان کو انسان کا ہی غلام بنا دیا ہے۔
مصنف نے ذاتی مشاہدے میں آنے والا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ایک ہندو ارتھی پر برسانے والے سکّوں کو لوٹنے کے لیے کچھ لوگ ارتھی کے ساتھ چل رہے تھے۔ ایک چوَنّی (بچیس پیسے کا سکہ) کچھ دور نالی کے قریب جا گرا۔ دو لڑکے اسے اٹھانے کے لیے باہم بھڑ گئے اور دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ گتھم گتھا رہے، جب کہ چونی اپنی جگہ پڑی ہوئی تھی۔ اس واقعے کو مثال کے طور پر پیش کرکے وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی اصل صورت حال یہی ہے۔ ’’تمام نعمتیں ایک طرف رکھی ہوئی ہیں اور انسان انسان میں جنگ جاری ہے، ہر قوم اور چھوٹے چھوٹے دائروں میں ہر شخص چاہتا ہے کہ تمام سرمایے پر اسی کا قبضہ ہو جائے اور ساری دنیا اس سے محروم ہو جائے۔اس وقت بڑی طاقتوں میں سرد جنگ کا سبب یہی ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کی یہی ناجائز خواہش و حرص دنیا کی تباہی و بربادی کا سبب بنی ہوئی ہے۔ دولت کی تقسیم کے سلسلے میں کمیونزم اور سرمایہ داری کے جو نظریات ہیں، ان کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔
اس صورت حال کا حل پیش کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ دنیا میں دو ہی نظریے وجود میں آ سکتے ہیں۔ ایک خداپرستانہ اور دوسرا خدا ناآشنا دنیا میں دونوں ہی نظریات سے وجود میں آنے والےفرد اور سماج کی مثالیں موجود ہیں۔خدا پرستانہ نظریے، یعنی اسلامی تہذیب نے انسان کے اندر جواب دہی کا احساس کیا ہے۔ آخرت کی فکر میں دوسروں کی حق تلفی سے باز رہنے کے لائق بنایا ہے۔ نیک رحم دل، حرص و ہوس سے متنفر، مخلص، ظاہر و باطن میں یکساں، باحیا، باغیرت، متحمل اور صلح و آشتی کا پیمبر بنایا ہے، جب کہ خدا نا آشنا، یعنی جدید مغربی تہذیب نے انسان کو غیر جواب دہ، نفس پرست و خود غرض، ظالم، بے رحم، حرص و ہوس کا غلام، بے حیا، بے غیرت، نشہ خور، بدکار اور دوسروں کے دکھ میں اضافہ کرنے والا بنایا ہے۔
دونوں نظریات کا یہ موازنہ اس بات کو مدلل بناتا ہے کہ دنیا کے لیے اگر کوئی نظام بہتر اور قابل عمل ہوسکتا ہے تو وہ صرف اسلام ہے۔ یہ کتاب کی اشاعت دوم ہے۔ اس کا انگریزی ایڈیشن بھی Islam the Only Way کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہو رہا ہے۔
مصنف: انیس الدین احمدؒ
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
قیمت: ۸۵ روپے۔
اہم عصری مسائل: تجزیہ اور حل
انسانی زندگی کا موجودہ دور شاید وہ دور ہے جب کہ حد سے زیادہ نفسیاتی وجسمانی صحت کے مسائل، ماحولیاتی و اخلاقی آلودگی کے مسائل، جرم و تشدد، ذہنی و قلبی سکون سے محرومی انسان کی زندگی کا خاصہ بن گئے ہیں۔ بلکہ عصری مسائل کا ذکر ہوتا ہے تو مذکورہ مسائل کا شماربجا طور پر سرفہرست ہوتا ہے۔ مادی ترقیات نے جہاں انسان کو ان سہولتوں سے ہم کنار کر دیا ہے، جن کا تصور بھی گذشتہ ادوار کے انسان کے لیے ناممکن تھا۔ علاج و معالجے اور طبی سہولتوں کی فراہمی کے میدان میں انسان نے جس قدر ترقی کی ہے، اس کے بالمقابل صحت و تن درستی کے مسائل عجیب قسم کی حیرت سے دوچار کرتے ہیں۔ یہ مسائل انسان کی زندگی پر اس قدر غالب آچکے ہیں کہ اب ان کے حل کے لیے سنجیدگی سے سوچاجانے لگا ہے، اور اگر جلد ہی ان مسائل کا درست حل تلاش نہ کیا گیا تو انسانی زندگی ایسے عظیم خطرات سے دوچار ہوگی جن سے کبھی خوف ناک جنگوں اور قدرتی آفات کے نیتجے میں بھی دوچار نہیں ہوئی ہوگی۔
پرفیسر سید مسعود احمد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں فیکلٹی آف لائف سائنسز کے ڈین اور شعبہ بایو کیمسٹری کے صدر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اس کتاب میں موجودہ دور سے تعلق رکھنے والے اسی قسم کے چند اہم مسائل کا تجزیہ اور ان کا حل پیش کیا ہے۔ کتاب آٹھ ابواب اور ۶۱۲ صفحات پر مشتمل ہے۔’ ذہنی تناو‘ٔ، ’تشدد اور جرائم کی کثرت‘، ’سکونِ قلب کا حصول‘، ’خدا کو مانے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں‘، ’قرآن کا تصور امن‘، ’ماحولیاتی بحران‘، ’پیہم ترقی کا قیام کیسے‘، اور’پائید ار اور حقیقی ترقی: کیا اور کیسے‘ عنوانات کے تحت اہم عصری مسائل کا تجزیہ و حل پیش کیا گیا ہے۔عام انسان کی زندگی کچھ اس طرح کی ہو کررہ گئی ہے کہ اسے کسی نہ کسی مرحلے میں ذہنی تناؤ سے لازماً گزرنا پڑتا ہے۔نوجوان طبقہ اگرچہ اس کا زیادہ شکار ہے، لیکن بڑی عمر کے لوگوں میں بھی اس کی شرح بڑھنے لگی ہے، جو کہ موجودہ طرز معاشرت کی وجہ سے ہے۔ کیوں کہ جدید طرز معاشرت نے بڑی عمر کے لوگوں کی وقعت اور مقام و مرتبے کو تقریباً صفر کرکے انھیں اولڈ ایج ہوم کی راہ دیکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ذہنی تناؤ کی وجہ سے لوگوں میں ڈپریشن اور خودکشی کا رجحان اس قدر بڑھا ہے کہ دنیا بھر میں سڑک حادثوں سے اتنی موتیں نہیں ہوتیں جتنی ذہنی تناؤ کے نتیجے میں خودکشی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔جرم و تشدد، زنا و بدکاری میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔جرائم کی نئی نئی اقسام و انواع کا ظہور ہو رہا ہے۔انسان فی زمانہ جس قدر سکونِ قلب سے محروم ہے، شاید کبھی نہیں رہا ہوگا۔ تمام قسم کی آسائشِ حیات فراہم ہونے کے باوجوددن کا چین اور راتوں کی نیند غائب ہے اور نیند اور سکون کی گولیاں لیے بغیر زندگی ممکن نہیں رہی ہے۔مادی ترقیوں کے ساتھ دنیا کا امن ناپید سا ہو گیا ہے۔ ایک ملک دوسرے ملک کے خلاف مہلک ہتھیاروں سے لیس نظر آتا ہے۔ ماحولیاتی بحران اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے اور دنیا خود انسان کے ہاتھوں تباہ ہوتی ہوئی صاف نظر آنے لگی ہے۔مصنفِ کتاب نے ان تمام مسائل کا تجزیہ کیاہے اور ان کا ممکنہ عملی حل پیش کیا ہے۔
دنیا جس انداز میں ترقی، یعنی صنعتی ترقی کے حصول کی راہ پر گام زن ہے،اس نے انتہائی پیچیدہ اور ناقابل حل ماحولیاتی مسائل کو جنم دے دیا ہے۔ ان مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے دنیا کے ممالک اور عالمی ادارے اور تنظیمیں سر جوڑ کر غور وفکر کرنے میں مصروف ہیں، لیکن انھیں کام یابی نہیں مل پا رہی ہے۔اس ضمن میں مصنف نے یہ بتانے کی بھی کوشش کی ہے کہ پائیدار اور حقیقی ترقی دراصل کیا ہے اور اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔انھوں نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ محض مادی و فکری ترقی ہی اہم نہیں ہے، روحانی و اخلاقی ترقی بھی ضروری، بلکنہ حقیقی ترقی یہی ہے۔
مصنف: پروفیسر سید مسعود احمد
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
قیمت: ۱۵۰ روپے
مشمولہ: شمارہ اگست 2021