مذہب اور دورِ جدید
حیاتِ انسانی جتنی قدیم ہے، مذہب سے انسان کی وابستگی بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ انسانی تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جو مذہب اور مذہبی خیالات و افکار سے خالی رہا ہو۔ مذہب کی تاریخ پر روشنی ڈالنے والے جو قدیم ترین آثار ماہرین آثار قدیمہ کو ملے ہیں، ان کی تاریخ کم از کم تین لاکھ برس پرانی ہے۔حجری دور کے عہدِ متوسط، بلکہ ابتدائی دور سے متعلق حاصل ہونے والے آثار بھی اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ انسان نے مذہب سے لاتعلقی کبھی نہیں رکھی ہے۔ موجودہ سائنسی دور میں بھی مذہب سے انسان کی دل چسپی کم نہیں ہوئی، بلکہ بڑھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنی اس دل چسپی اور تلاش و جستجو کے بعد کس نتیجے پر پہنچا ہے۔
مذہب سے انسان کی اس دل چسپی کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی مافوق الفطرت ہستی کے آگے سر تسلیم خم رکھنا انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ اس کی فطرت کو ایک ایسی ہستی کی ضرورت ہوتی ہے جسے وہ اپنا معبود مان کر اس کے آگے اپناسر جھکا سکے اور اپنی روحانی تسکین کا سامان کر سکے۔ انسان کی اسی فطرت نے اسے ہر دور میں نئے مذاہب کی ایجاد پر مجبور کیا ہے۔ انسان کے پیدا کرنے والے حقیقی خالق کی جانب سے بھی انسان کی اس ضرورت کی تکمیل کے لیے ہر دور میں انبیا کی بعثت اور آسمانی کتابوں اور صحیفوں کےنزول کا انتظام رہا ہے۔
جہاں تک جدید دور میں مذہب کی بات ہے، مذہبی سماجیات کے پروفیسر ’ روڈنی اسٹارک ‘ کا کہنا ہے کہ انسان کی مذہب سے وابستگی بڑھی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جدید دور میں مذہب کسی نہ کسی حوالے سے علمی و تحقیقی حلقوں میں زیربحث رہتا ہے۔مذہب سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ایک اہم اور تحقیق طلب سوال یہ بھی ہوتا ہے کہ کون سا مذہب برحق ہے، اور کون سا مذہب انسانی مسائل کے حل کے سلسلے میں صحیح اور مناسب رہ نمائی کرتا ہے۔
پروفیسر خورشید احمد کی کتاب ’اسلامی نظریہ حیات‘ اسی پہلو سے اسلام کا جامع تعارف پیش کرتی ہے۔۵۰۰سے زاید صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار ۱۹۶۳ میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک اس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اپنی جامعیت اور افادیت کے اعتبار سے اسے اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ بعض جامعات میں بطور نصاب بھی پڑھائی جاتی ہے اور پڑھے لکھے طبقے میں بھی اسے خاص مقام حاصل ہے۔
حال ہی میں یہ کتاب ہندستان سے بھی شائع ہوئی ہے۔ لیکن یک جا شائع کرنے کے بجائے اسے تین الگ الگ حصوں میں شائع کیا گیا ہے: ۱۔ مذہب اور دور جدید، ۲۔ اسلامی فلسفہ حیات، اور ۳۔اسلامی نظام حیات۔
پہلے حصےکا تعارف خود مولفِ کتاب نے اس طرح کرایا ہے:
’’پہلے حصے میں ان مسائل پر بحث کی گئی ہے جو دور جدید کی فکری اور علمی تحریکات نے پیدا کیے ہیں اور جن کا سطحی مطالعہ ہمارے کچھ نوجوانوں کے ذہن میں مذہب کے خلاف ایک ردعمل پیدا کرتا ہے۔ اس حصے میں غلط نظریات کا ابطال کیا گیا ہے اور مذہب کی ضرورت اور زندگی میں اس کے اصلی مقام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔‘‘
اسلامی نظریہ حیات کیا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس سےمراد فکر و تہذیب کا وہ نظام اور وہ تمدنی لائحہ عمل ہے جسے اسلام نے پیش کیا ہے۔ یعنی اسلام نے اپنے خاص نظام فکر کی روشنی میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق رہ نمائی کی ہے۔اس طرح ان سب کے مجموعے سے ایک مکمل ضابطہ فکر وعمل وجود میں آتا ہے، جو اسلامی نظام حیات کی حیثیت سے زندگی کے مسائل کا معقول اور سائنٹفک حل بھی پیش کرتا ہے اور تمدنی زندگی کے لیے مفصل لائحہ عمل بھی فراہم کرتا ہے۔
کتاب کے اس حصے میں بالترتیب مولانا سید ابولحسن علی ندوی، ڈاکٹر منظور احمد، جناب ظفر آفاق انصاری، پروفیسر عبدالحمید صدیقی اور خود مولف کا ایک مضمون شامل ہے۔ان مضامین کے توسط سے مذہب کے سلسلے میں پیدا ہونے والے سوالات، انسانی زندگی میں مذہب کی ضرورت و اہمیت بیان کی گئی ہے اور مختلف مذاہب مثلاً ہندومت، بدھ مت، یہودیت، عیسائیت اور اسلام کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جدید مغربی تہذیب اور اس کی فلسفیانہ بنیادوں پر تنقید کے ساتھ ا س تہذیب کی تباہ کاریوں سے بھی آگاہ کیا گیاہے۔ آخری باب ’اسلام اور تبدیلی زمانہ‘ میں اس سوال کا جواب فراہم کیا گیاہے کہ کیا زمانے کی تبدیلی کے ساتھ مذہب میں تبدیلی آنی چاہیے؟ عام طور پر سمجھا یہی جاتا ہے کہ کسی مذہب کی اہمیت و ضرورت کسی مخصوص زمانے تک ہوتی ہے، اس کے بعد اس میں حالات کی مناسبت سے تبدیلی ناگزیر ہوجاتی ہے۔ مولفِ کتاب کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی میں تغیر یقیناً ہوتا ہے لیکن ایک پہلو اس تغیر میں ثبات اور دوام کا بھی ہوتا ہے۔ تبدیلی آتی ہے لیکن حقیقت کبھی نہیں بدلتی۔ اس کی مثال انسانی جسم سے دی گئی ہے کہ انسانی جسم میں تبدیلی کا عمل ہر آن جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت آتا ہے جب انسانی جسم مکمل طور پر تبدیل ہوکر ایک نیا جسم بن جاتا ہے۔ لیکن اس تبدیلی کے باوجود بچپن سے لے کر بڑھاپے تک جسم کا نظام ایک ہی رہتا ہے۔انسانی وجود کے لیے اسلام بھی ایک ایسے ہی نظام کی حیثیت رکھتا ہے جو ہر آن بدلتی زندگی میں غیر تغیر پذیر رہتا ہے اور ہر دور میں اس کی ضرورت ہوا کرتا ہے۔
مولف: پروفیسر خورشید احمد
ناشر/تقسیم کار: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
قیمت: ۱۳۰ روپے
اسلامی فلسفہ حیات
یہ کتاب ’اسلامی نظریہ حیات‘ کے جز دوم پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں انسانی زند گی میں مذہب کی اہمیت و ضرورت کو واضح کیا گیاتھا۔ اس حصے میں دیگر مذاہب، تہذیبوں ا ور نظریات کے مقابل اسلام کا تعارف اس طور پر کرایا گیاہے کہ آج کے مسائل کو صرف اسلام ہی حل کر سکتا ہے۔اس کتاب کی ترتیب و تالیف کے لیے مولانا مودوی کی مختلف کتابوں، علامہ سید سلیمان ندویؒ کی سیرت النبی، مولانا امین احسن اصلاحی و مولانا صدرالدین اصلاحی کی بعض کتابوں سے خصوصی استفادہ کیا گیا ہے۔ اس میں کچھ مضامین ایسے بھی ہیں جنھیں مولف کتاب نے خاص اسی کتاب کے لیےتصنیف کیا ہے۔اس حصے میں اسلامی عقائد — توحید، رسالت اور آخرت — کو تفصیل سے پیش کیا گیا ہے۔ اسلام کے تصور عبادت اور اسلامی عبادات پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔
کتاب کے تمہیدی کی کلمات میں یہ بات کہی گئی ہے کہ انسانی زندگی میں نظم و ترتیب اسی وقت آتی ہے جب وہ ایک مستقل اور پختہ سیرت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی کی سیرت و کردار ایسے تصورات پر قائم ہو جو انسان کی ساری عملی قوتوں کو اپنے زیر اثر لے چکے ہوں۔ یہ پختہ تصورات وہ ہوتے ہیں جنھیں ایمانیات یا عقائد کہا جاتا ہے۔کسی مضبوط و مستحکم اجتماعی شکل کا وجود اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب اجتماعیت کے تمام افراد ایک ہی قسم کی ایمانیات اور عقائد پر ایمان رکھتے ہوں۔ایمانیات و عقائد (مذہب ) سے آزاد رہ کر انسانی تہذیب کسی اخلاقی بلندی کا نمونہ پیش نہیں کر سکتی۔ اسی طرح مذہب اور تہذیب میں بھی یکسانیت ضروری ہے۔ امت مسلمہ کی تہذیب اس کے مذہب سے ہی ماخوذ ہے، اس لیے اگر اس کی ایمانی اساس کم زور ہو جائے تو اس کے مذہب اور تہذیب دونوں کا تباہ ہو جانا یقینی ہے، یعنی اس کا دین ا ور دنیا دونوں تباہ ہو جائیں گی۔
گفتگو کا آغازکائنات اور انسان کے بارے میں اسلام کے تصورسے کیا گیا ہے، کیوں کہ ان دونوں کے درست تصور پر ہی مذہب یا کسی نظریے کی درستی کا انحصار ہے۔کائنات کے بارے میں اسلام کا تصور یہ ہے کہ یہ پوری کائنات کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ اللہ نے ایک خاص مقصد کے تحت اس کی تخلیق کی ہے۔ اسی طرح انسان کے بارے میں اسلام کا نظریہ ہے کہ وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ اس کی زندگی بے مقصد نہیں ہے۔ اسے ایک نصب العین دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان جس کا نائب و خلیفہ ہے اس کی رضا اور خوش نودی کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔
اسلام زندگی کے لیے ایک مکمل نظام پیش کرتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ دوسرے نظام ہائے زندگی کی طرح وہ انسانی عقل کی پیداوار نہیں ہے، بلکہ انسان اور کائنات کے خالق کی ہدایات کی بنیاد پر یہ نظام وجود میں آیا ہے۔ اس نظام کی خصو صیت یہ ہے کہ وہ زندگی کا ایک مکمل ضابطہ ہے۔ وہ محض انسان کے خارج میں ہی تبدیلی نہیں لاتا بلکہ خود انسان کے اندرون کی اصلاح کرتا ہے۔ اس کے نفس کی اصلاح کرتا ہے، جس سے اس کے سوچنے سمجھنے کے زاویے تبدیل ہوتے ہیں اورانسان اس درست زاویے سے سوچنے لگتا ہے جو اسے زندگی کے اصل ضابطے تک پہنچاتا ہے۔ یہ نظام دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلتا ہے اور دونوں کے درمیان توازن قائم رکھتا ہے۔یہ نظام دل و دماغ کو بند کرکے قبول کرنے کے بجائے اس بات پر زور دیتا ہے کہ سوچ سمجھ کر اور عقل کا استعمال کرنے کے بعد اسے قبول کیا جائے۔
اس کے بعد اسلامی عقائد کا تعارف کرایا گیا ہے اور یہ واضح کیا گیا ہے کہ انھی عقائد (ایمانیات) سے اسلامی تہذیب کا خاکہ تیار ہوا ہے، جس میں خدا کی حیثیت محض ایک ’معبود‘ کی نہیں، بلکہ حاکم مطلق کی ہے۔ یہ ایک آفاقی تہذیب ہے جو قومی یا نسلی نہیں، بلکہ انسانی تہذیب ہے۔ جو اس تہذیب کے بنیادی ارکان، عقائد و ایمانیات، پر ایمان لے آئے وہ اس تہذیب کا حصہ ہے، خواہ کسی قوم یا نسل سے تعلق رکھتا ہو۔اس تہذیب کا مقصد ایک ایسا سماج وجود میں لانا ہے، جہاں اسی حاکم مطلق کی فرماں روائی ہوتی ہو۔ اسی لیے اسلام نے جو عبادت و بندگی کا تصور دیا ہے وہ عام تصورات سے بالکل جدا ہے۔ اسلام کے تصور عبادت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اسلام کا تصورِ عبادت یہ ہے کہ انسان کی ساری زندگی خدا کی بندگی میں بسر ہو، زندگی کا کوئی لمحہ اس کی غلامی وبندگی سے خالی نہ ہو۔ اس کے ہر عمل کی بنیاد خدا کی شریعت اور اس کے احکامات اور قوانین ہوں اور اسلام کی مختلف عبادات میں یہی روح کارفرما نظر آتی ہے۔ اسلامی عبادات کا اصل مقصد بتاتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’یہ انسان کو اس ذمے داری کے لیے تیار کرتی ہیں جو خدا اور اس کے رسولﷺ نے ہمارے سپرد کی ہے‘‘ اوریہ کہ ’’ اس کی اطاعت و بندگی اور محبت ہر چیز پر غالب آ جائے۔‘‘
مولف: پروفیسر خورشید احمد
ناشر/تقسیم کار: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
قیمت: ۲۰۰ روپے
اسلامی نظام حیات
’اسلامی نظریہ حیات‘ سلسلے کی یہ تیسری اور آخری کڑی ہے۔ ایک پاکیزہ سوسائٹی کی تشکیل کے لیے انسان اور کائنات کا تصور، اعلیٰ انسانی تہذیب کا خاکہ، عبادت و بندگی کا ایک مخصوص تصور اسلام نے اس لیے پیش کیا ہے کہ انسان کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو اور اس کی زندگی مکمل طور پر اللہ کے احکام و قوانین کی پابند ہو۔ ضابطۂ زندگی کے طور پر اس نے ایک مکمل نظام زندگی فراہم کیا ہے، جو زندگی کے ہر شعبے اور گوشےسے متعلق انسان کی رہ نمائی کرتا ہے۔مولفِ کتاب کے مطابق اسلامی نظامِ حیات کی اصل بنیاد اخلاقی نقطۂ نظر پر ہے۔ یعنی اسلام ’’تمام اجتماعی مسائل کو اخلاقی نقطۂ نظر سے حل کرنا چاہتا ہے۔‘‘ عائلی مسائل ہوں یا معاشرتی، معاشی معاملات ہو ں یا سیاسی، ان سب کے حل کا وہ طریقہ بتاتا ہے جس میں اخلاقی اصولوں کو برتری حاصل ہو، انسانیت کا احترام، دوسروں کے حقوق کی پاس داری اور آخرت کی جواب دہی کا احساس انتہائی حد تک پہنچا ہوا ہو۔
زیرنظر کتاب میں اسلامی نظامِ حیات کا تعارف انھی پہلؤوں سے کرایا گیا ہے۔ شریعتِ اسلامی کے مآخذ کیا ہیں، ان کو واضح کیا گیا ہے اور اصل مآخذ یعنی قرآن وسنت کا تعارف کرانے کے ساتھ ساتھ ان کے مقام کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ کیوں کہ اسلامی نظام زندگی کی بنیاد اخلاقی اصولوں پر ہے، اس لیے اسلام کے اخلاقی نظام کو بطور خاص متعارف کرایا گیا ہے۔انسان ایک اجتماعیت پسند مخلوق ہے۔ اجتماعیت اس کی زندگی کا جز بھی ہے اور اس کی ضرورت بھی۔ اجتماعیت کی بنیادی اکائی سماج اور خاندان ہے۔ اس لیے اسلام نے خاندانی اور معاشرتی زندگی کے اصول بھی بیان کیے ہیں۔ اسلام کے معاشرتی نظام کا تعارف بھی کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔اسی طرح انسانی زندگی کے تین اہم پہلو اور بھی ہیں، یعنی تعلیم، معاش اور سیاست۔کتاب میں اسلامی نظریہ تعلیم اور اسلام کے معاشی وسیاسی اصول کا بھی تعارف کرایا گیا ہے۔یہ تمام کے تمام وہ اصول اور بنیادیں ہیں جو باہم مل کر اسلامی نظام حیات کی تشکیل کرتی ہیں۔
شریعت کا تعارف اس طرح کرایا گیا ہے کہ اس سے مراد وہ قوانین ہوتے ہیں جو ایک رسول اللہ کی اطاعت و فرماں برداری کے لیے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ شریعت کے اولین ماخذ، یعنی قرآن کا موضوع کیا ہے، اس کا مقصد کیاہے، اس پر گفتگو کے علاوہ اس کے انداز تخاطب پر بھی گفتگو کی گئی ہے۔ قرآن کی جمع و تدوین پر بھی مختصر کلام کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ دوسری آسمانی کتابوں کے برعکس یہ کتاب آج بھی اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کی تحریف یاتبدیلی نہیں کی گئی ہے۔دوسرے ماخذ، یعنی سنت کا تعارف کراتے ہوئے اس کی قطعیت اور حجیت کے ثبوت میں دو قسم کی شہادتیں پیش کی گئی ہیں۔ ایک قرآن کی اندرونی شہادت، یعنی حدیث و سنت کے حجت ہونے پر خود کی قرآن کی تصریحات۔ اور دوسرے خارجی شہادت، یعنی صحابہ کرامؓ کا حدیث کے تعلق سے رویہ، ہر دور میں علما و محدثین کا حدیث کو دینی سند تسلیم کرنا وغیرہ۔تیسرے ماخذ، یعنی اجتہاد کا بھی تعارف کرایا گیا ہے۔
اسلام کے نظامِ اخلاق کی اہم خصوصیات بیان کی گئی ہیں کہ اس کا مقصد رضائے الٰہی کو قرار دے کر ایک بلند ترین معیار فراہم کر دیا گیا، جس کی وجہ سے اخلاقی ارتقا کا عمل ہمیشہ جاری رہتا ہے، خوف خدا اور خوفِ آخرت کے ذریعے اخلاق کو وہ قوت نافذہ عطا کر دی گئی جو انسان کو کسی خارجی دباؤ کے زیر اثر نہیں آنے دیتی اور اسے اخلاقی ارتقا جاری رکھنے سے باز نہیں رکھ پاتی۔اسلام کے نظریہ تعلیم کا جو تعارف پیش کیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظامِ تعلیم کے لیے ضروری ہے کہ وہ عقیدے اور اخلاقی اقدار کی تعلیم سے خالی نہ ہو۔ بے عقیدہ تعلیم صرف مادی مطالبات کو پورا کر سکتی ہے، لیکن روح کے مطالبات کو چھوئے بغیر گز رجاتی ہے اور طلبا کے اندر اجتماعی تصوارت پیدا کرنے میں بھی ناکام رہتی ہے۔
بعض دینی حلقوں میں سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن مولف کتاب کے الفاظ میں: ’’اسلام اخلاق و سیاست کے اس فطری تعلق کو ایک بنیادی حقیقت کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے نظام فکر وعمل میں اس جاہلانہ تصور کے لیے کوئی گنجائش نہیں کہ دین اور سیاست دو علاحدہ چیزیں ہیں۔ ‘‘ اس باب میں اسلامی ریاست کی خصوصیات، لادینی ریاست اور اسلام، اسلام اور تھیاکریسی، اسلام او ر جمہوریت، اسلام اور اشتراکیت کے درمیان فرق کو واضح کیا گیا ہے۔
آخر میں اسلام کے تصور دین کو پیش کیا گیا ہے کہ اسلام نہ تو دنیا سے کنارہ کشی کو درست سمجھتا ہے اور نہ جسم کو تکلیف اور اذیتوں سے دوچار کرنے کو دین سمجھتا ہے۔ اسلام میں رہبانیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔انسان کی دینی زندگی کو پرائیویٹ اور انفرادی معاملہ تصور کرنا دین کا غلط تصور ہے۔ اسلام کا تصور دین تو یہ ہے کہ انسان انفرادی و اجتماعی، مکمل زندگی میں مکمل دین کا پابند ہو۔
یہ کتاب بھی مولانا مودودی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، سید قطب شہید، مولانا مناظر احسن گیلانی اور دیگر اکابر علما کے قیمتی اقتباسات سے مزین ہے، جب کہ خود مولف کے تحریر کردہ مضامین بھی اس میں شامل ہیں۔
مولف: پروفیسر خورشید احمد
ناشر/تقسیم کار: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
قیمت: ۱۹۰ روپے
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2021