غیرمسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے باہمی تعلقات کیسے ہوں؟ یہ موجودہ دور کا ایک حساس اور انتہائی اہم موضوع ہے۔ آج دنیا کے تمام ممالک میں، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیرمسلم، مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہیں۔ ان کے درمیان سماجی، کاروباری اور دیگر تعلقات پائے جاتے ہیں۔ اسلام ان تعلقات کو کس نظر سے دیکھتاہے اور اس کے کیا حدود متعین کرتا ہے؟ اس سے مسلمان بھی واقف ہونا چاہتے ہیں اور غیر مسلموں کو بھی اس سے دلچسپی ہے۔ خاص طور سے ہندوستان کے پس منظر میں اس موضوع کو کافی اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ اس لیے کہ فرقہ پرستوں نے اس سلسلے میں یہاں کے غیر مسلم عوام کے ذہنوں میں کافی غلط فہمیاں پیدا کردی ہیں۔ انہوں نے یہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کے علاوہ دوسروں کو موجبِ گردن زدنی قرار دیتا ہے اور اس میں مذہبی رواداری اور توسّع نہیں پایا جاتا۔ وہ مسلمانوں کو دوسروں سے الگ تھلگ رہنے کی تاکید کرتا ہے اور ان کو انفرادیت پسندی سکھاتا ہے۔ اس پس منظر میں ضرورت تھی کہ ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے، اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کی جائیں اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاشرتی، معاشی اور سیاسی تعلقات پر اسلامی نقطۂ نظر سے بحث کی جائے۔ مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند کی یہ کتاب اس ضرورت کو بہ خوبی پورا کرتی ہے۔ یہ سب سے پہلے ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس عرصہ میں اس کے تین ایڈیشن منظر عام پر آئے۔ حال ہی میں اس کا چوتھا ایڈیشن مصنف کی نظر ثانی اور بعض اضافوں کے بعد زیادہ اہتمام سے شائع ہوا ہے۔
موجودہ دور کے مسلم اصحابِ قلم اور مصنفین ومحققین میں مولانا جلال الدین عمری کا امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے عصری اہمیت کے حامل حساس موضوعات(Burning Topics)کو تحقیق و تصنیف کا میدان بنایا ہے اور ان پر اسلام کی رہنمائی فراہم کی ہے۔ اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ اور اس کے حقوق پر موجودہ دور میں بہت زیادہ بحث ومباحثہ ہوا ہے اور اعتراضات کیے گئے ہیں۔ اس موضوع کے مختلف پہلوؤں پر مولانا کی چھ کتابیں ہیں: عورت اسلامی معاشرہ میں، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، عورت اور اسلام،اسلام کا عائلی نظام، مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں، قرآن کا نظام خاندان۔ اس کے علاوہ مولاناکی کتابوں: اسلام ، انسانی حقوق کا پاسبان، غیر اسلامی ریاست اور مسلمان، کمزور اور مظلوم اسلام کے سایے میں، صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات، اسلام اور مشکلاتِ حیات، اسلام میں خدمت خلق کا تصور اور اسلام کا شورائی نظام میں سے ہر کتاب عصری اہمیت کے حامل کسی مسئلے کو چھیڑتی ہے اور پختہ دلائل کے ساتھ اسلامی نقطۂ نظر کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ کتابیں مولانا کی ان اہم تصنیفات کے علاوہ ہیں جو فکر اسلامی کے مختلف پہلوؤں سے بحث کرتی ہیں اور قرآن وسنت کی تعلیمات کو اعلیٰ تحقیقی پیرایے میں پیش کرتی ہیں۔ مثلاً تجلیات قرآن، خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں، معروف ومنکر، اسلام کی دعوت، تحقیقات اسلامی کے فقہی مباحث، انسان اور اس کے مسائل وغیرہ۔
زیر نظر کتاب (غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق) بنیادی طور پر دو طرح کے مباحث پر مشتمل ہے۔ اوّل: غیر مسلموں سے تعلقات۔ اس میں تکثیری سماج میں رہنے والے دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے ساتھ مسلمانوں کے تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق زیر بحث آئے ہیں اور اس سلسلے میں کیے جانے والے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیاگیا ہے۔
تعلقات کے ضمن میں مصنف نے خاندانی، انسانی، معاشرتی، سماجی اور کاروباری تعلقات سے بحث کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیوی معاملات میں اسلام نے اپنے ماننے والوں کو غیر مسلموں سے تعلقات قائم کرنے کی پوری اجازت دی ہے اور اس معاملے میں کوئی پابندی نہیں عائد کی ہے۔ کوئی شخص اسلام قبول کرلے اور اس کے ماں باپ اور رشتے دار غیر مسلم ہی رہیں تو بھی ان کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کی تاکید کی گئی ہے۔ اسی طرح غیر مسلم پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے، ان کی ضرورتوں میں کام آنے، حتی کہ ان پر مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ غیر مسلموں کا پانی ، غذائی اشیاء، برتن ، کپڑے اور دیگر چیزیں بلاکراہت استعمال کی جاسکتی ہیں۔ ان سے ملنا جلنا، ان کا اعزاز واکرام کرنا، انہیں مہمان بنانا، ان کی عیادت کرنا، ان کے جنازے میں
شریک ہونا، پسماندگان کی تعزیت کرنا، ان کاموںکی مسلمانوں کو اجازت ہے۔ غرض اسلام نے غیر مسلموں سے ہر طرح کے سماجی اور انسانی تعلقات رکھنے کی اجازت دی ہے، صرف چند معاملات کا استثناء ہے، مثلاً ان کا ذبیحہ مسلمانوں کے لیے حلال نہیں اور ان سے ازدواجی تعلقات رکھنا ممنوع ہے۔ مصنف نے ان دونوں موضوعات سے بحث کی ہے اور ان کی حکمت اور معقولیت واضح کی ہے۔
غیر مسلموں سے تعلقات کے ذیل میں بعض مسائل پر قدیم فقہاء کے درمیان ایک سے زیادہ آراء پائی جاتی ہیں۔ یہ آراء بسااوقات متناقض اور ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور بعض آراء موجودہ دور سے ہم آہنگ نہیں محسوس ہوتیں۔ مولانا عمری نے ’بعض مسائل کی تحقیق وتوضیح‘ کے عنوان کے تحت ایسے چار مسائل سے بحث کی ہے۔ وہ یہ ہیں: (۱) غیر مسلم کو سلام کا حکم (۲)مسجد میں غیر مسلم کاداخلہ (۳) غیر مسلم سے تحائف کا تبادلہ (۴)غیر مسلم کی شہادت۔ ان مسائل کے تحت مولانا نے فقہاء کی تمام آراء نقل کی ہیں، ان کا محاکمہ اور تنقیح کی ہے اور اس رائے کو ترجیح دی ہے جو موجودہ دور کے تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ مثال کے طور پر غیر مسلم کو سلام کرنے سے متعلق مختلف آراء ملتی ہیں۔ بعض کے مطابق انہیں سلام نہیں کرناچاہئے، بعض انہیں سلام کرنے میں پہل کرنے سے روکتی ہیں، بعض مخصوص حالات میں اجازت دیتی ہیں تو اس پر اختلاف ہوجاتا ہے کہ ان کا جواب کس طرح دیاجائے اور اس کے لیے کیا الفاظ استعمال کیے جائیں۔ تفصیلی بحث کے بعد اس کا خلاصہ مولانا نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’ان سب رایوں کی روشنی میں ہمیں ایک ایسے معاشرے کے بارے میں سوچنا چاہئے جو مسلمانوں اور غیر مسلموں کا ملا جلا اور مخلوط معاشرہ ہے۔ جہاں دونوں کے درمیان ثقافتی ، سماجی، معاشی، غرض مختلف نوعیت کے تعلقات موجود ہیں اور دونوں قانونی اور دستوری روابط میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس طرح کے معاشرہ میں غیر مسلموں کو مسنون طریقہ سے سلام کیا جائے تو یہ مخالف سلف عمل نہ ہوگا۔ ہوسکتا ہے ، اس طرح وہ آہستہ آہستہ اسلامی آداب سے مانوس ہوتے چلے جائیں اور ان کی معنویت ان پر زیادہ بہتر طریقہ سے واضح ہوجائے۔ اس میں قباحت محسوس ہو تو ان کے لیے عزت واحترام اور محبت و خیر خواہی کے دوسرے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ البتہ اس بات کا ضرور خیال رکھنا ہوگا کہ تعلقات کے اظہار میں ایسے طریقے نہ اختیار کیے جائیں، جو کسی مذہب یا تہذیب کے مخصوص شعار کی حیثیت رکھتے ہوں اور ایسے الفاظ نہ استعمال کیے جائیں جو اسلامی عقائد سے متصادم ہوں۔‘‘ (ص ۱۳۶،۱۳۷) اسی طرح کی تنقیح مولانا نے دیگر مسائل میں کی ہے اور ان کا یہ خلاصہ بیان کیا ہے کہ عام مساجدمیں غیر مسلم کے داخلہ کو جمہوراُمت نے جائز قرار دیا ہے۔ رہا حرم اور حدود حرم میں اس کا داخلہ تواگرچہ دیگر ائمہ اسے ممنوع قرار دیتے ہیں، لیکن امام ابوحنیفہ اسے صرف ایام حج کے ساتھ خاص مانتے ہیں، دیگر ایام میں ان کے نزدیک اس کی اجازت ہے۔ اسی طرح غیر مسلموں سے تحائف کا تبادلہ جائز ہے اور مسلمانوں کے مخصوص تعبّدی امور ومسائل کوچھوڑ کر عام دنیوی معاملات میں غیر مسلموں کی شہادت قبول کی جاسکتی ہے۔
کتاب کادوسرا حصہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق سے متعلق ہے۔ عموماً اس موضوع پر بہت زیادہ غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں اور بڑے سخت اعتراضات کیے گئے ہیں۔ مصنف نے قرآن وسنت کے دلائل سے ان غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے اور حقیقی اسلامی نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ ابتدا میں انہوں نے اسلامی ریاست کے بارے میں بعض اصولی باتیں بیان کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ اسلام عدل وانصاف کے قیام کا علم بردار ہے۔ وہ نہ تو دوسروں کو زبردستی اپنے عقیدہ اور فکر کا پابند بناناچاہتا ہے اور نہ انہیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی آزادی کی راہ میں حائل ہوں اور ان پر اپنی مرضی مسلط کریں۔ اسی پس منظر میں اگلی بحث ’جہاد اور اس کے احکام‘ سے متعلق ہے۔ اس میں واضح کیاگیا ہے کہ اسلام اصلاً فساد اور خونریزی کے خلاف ہے۔ اس کے نزدیک جنگ پرامن کو ترجیح حاصل ہے۔ اس نے جنگ کی اجازت صرف اسی صورت میں دی ہے جب اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو۔ وہ چوں کہ خدا پرستی کے لیے آزادی چاہتا ہے اور مشرکین عرب نے مسلمانوں سے یہ آزادی سلب کررکھی تھی، اس لیے متعدد مواقع پر جنگ کی نوبت آئی۔ دیگر ریاستوں کی طرح اسلامی ریاست کو بھی اپنے تحفظ اور دفاع کا حق ہے اور اسلامی ریاست نے جب بھی ضرورت پیش آئی اس حق کا استعمال کیا ہے۔ اس کے ساتھ اسلام جنگ کے جو ضابطے بنائے ہیں اور اپنے فوجیوں کو جن اُصول وقوانین کا پابند بنایا ہے، دنیا کے قوانین میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ کتاب کی ایک اہم بحث ’ذمیوں کے حقوق‘ سے متعلق ہے۔ اسلامی ریاست میں رہنے بسنے والے غیر مسلموں کو ’ذمی‘ کہتے ہیں۔ یہ اعتراض بڑے زور شور سے کیاجاتارہا ہے کہ ذمیوں کو دوسرے درجے کا شہری بنا کر رکھا گیا ہے اور وہ بہت سے بنیادی انسانی حقوق سے محروم رہے ہیں۔ مصنف نے اس پر طویل بحث کی ہے اور اس اعتراض کا مدلل رد کیا ہے۔ ان کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست میں رہنے والے غیرمسلموں کی جان مسلمانوں کی طرح محترم ہے۔ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کو قتل کردیتا ہے تو قصاص اور دیت کے معاملے میں اس کے ساتھ مسلمان مقتول کی طرح معاملہ کیا جائے گا۔ اسی طرح غیر مسلم کا مال بھی مسلمان کے مال کی طرح محترم ہے۔ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی پرانی عبادت گاہیں باقی اور محفوظ رہیں گی اور انہیں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنے کی بھی اجازت حاصل ہوگی۔ عام ریاستی امور میں ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ ان سے جنگی خدمات بھی لی جاسکتی ہیں۔ ایک بحث مولانا نے یہ کی ہے کہ اسلامی ریاست بین الاقوامی معاہدوں کی پابند ہوگی اور اسے اجازت حاصل ہوگی کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے ساتھ دیگر ریاستوں سے تعلقات استوار کرے۔
آخر میں مولانا نے قرآن کریم کی ان آیات کا تفصیلی مطالعہ پیش کیا ہے جن میں غیرمسلموں سے قریبی روابط اور راز دارانہ تعلقات نہ رکھنے کا حکم دیاگیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا ہے کہ صرف ان غیرمسلموں سے تعلقات رکھنے سے منع کیاگیا ہے جو مسلمانوں کے دشمن ہوں، ان پر ظلم وزیادتی کرتے ہوں اور اسلامی ریاست کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوں۔ رہے عام غیر مسلم تو ان سے بہتر روابط رکھنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے کہیں نہیں منع کیاگیا ہے۔
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس کے تمام مباحث میں قرآن وحدیث کو بنیاد بنایا گیا ہے اور ان کی تفسیر وشرح میں معتمد علماء اور شارحین کی کتابوں سے استفادہ کیاگیا ہے ۔ کسی مسئلہ میں اگر ایک سے زائد فقہی آراء پائی جاتی ہیں تو مصنف نے صرف اپنی پسندیدہ اور اپنے نزدیک قابل ترجیح رائے پیش کرنے پر اکتفاء نہیں کیا ہے۔ بلکہ تمام آراء کو نقل کیا ہے اور ان کا تجزیہ اور تقابلی مطالعہ کرکے اس رائے کو ترجیح دی ہے جو موجودہ حالات میں بہتر اور موزوں ہے۔ اس طریقۂ بحث وتحقیق میں یہ کہنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ مصنف نے ذاتی پسند اور رجحان کے تحت کسی رائے کو اختیار کیا ہے اور مخالف رایوں کو نظر انداز کردیا ہے، بلکہ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ کس بنیاد پر کسی رائے کو ترجیح دی گئی ہے اور دیگر رایوں کو مرجوح قرار دیا گیا ہے۔ مصنف کی کوشش رہی ہے کہ کوئی ایسی رائے نہ اختیار کی جائے جو بے دلیل ہو اور جسے سلف کی بالکل تائید حاصل نہ ہو۔
آج کل ہمارے ملک میں فرقہ پرست طاقتیں برابر مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے میں سرگرم رہتی ہیں۔ اس صورت حال میں ضرورت ہے کہ نہ صرف اس کتاب کو زیادہ سے زیادہ عام کیاجائے ، بلکہ دیگر زبانوں میں بھی اس کا ترجمہ کیا جائے، تاکہ صحیح اسلامی تعلیمات کا تعارف ہو اور شکوک وشبہات اور غلط فہمیاں دور ہوں۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2013