اللہ کے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کے فریضۂ منصبی کی وضاحت کے لیے قرآن کریم میں بہت سی اصطلاحات آئی ہیں۔ مثلاً دعوت الی اللہ، انذار وتبشیر، شہادت علی الناس، اصلاح ونصیحت، تذکیر وتبلیغ، جہاد فی سبیل اللہ، اظہار دین، اقامت دین، اعلائے کلمۃ اللہ، تواصی بالحق اور تعاون علی البر وغیرہ۔ ان ہی میں سے ایک اصطلاح ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ بھی ہے، یعنی لوگوں کو معروف کا حکم دینااور منکر سے روکنا۔ اس اصطلاح کے تعلق سے متعدد سوالات پیدا ہوتے ہیں ۔ مثلاً معروف سے کیا مراد ہے اور منکر میں کیا کیا چیزیں شامل ہیں؟ یہ کام فرائض میں داخل ہے یا محض استحباب کا درجہ رکھتا ہے؟ اگر فرض ہے تو ہر صاحب ایمان پر فرض ہے یا مسلمانوں کے کسی مخصوص طبقے یا گروہ پر؟ یہ ایک جامع اور ہمہ گیر کام ہے یااس کی نوعیت محدود ہے؟ اس کے حدود وشرائط کیا ہیں اور یہ کن صفات کا تقاضا کرتا ہے؟
مولانا سیدجلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے تقریباً نصف صدی قبل اس بحث کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا تھا اور بہت تفصیل سے اس کے تمام پہلوؤں پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ ’معروف ومنکر‘ کے نام سے اس کتاب کی تکمیل مصنف کے قلم سے جنوری ۱۹۶۶ء میں ہوئی اور اس کا پہلا ایڈیشن مئی ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا تھا۔ یہ اپنے موضوع پر پہلی علمی تصنیف تھی۔ اس عرصے میں ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ اس کے متعدد ایڈیشن نکلے، اسے بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل ہوئی، عربی ، ترکی اور انگریزی کے علاوہ ہندی، بنگلہ اور تمل میں بھی اس کاترجمہ ہوا، کویت میں قائم طلبہ تنظیموں کے عالمی اسلامی اتحاد (IIFSO)نے اسے شائع کرکے پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر تقسیم کیا۔ اس طرح اس کتاب کو دنیا بھر میں اپنے موضوع پر ایک مستند علمی وتحقیقی کتاب کی حیثیت سے شہرت ملی۔ اس پورے عرصے میں مصنف کو اس پر نظر ثانی کا موقع نہیں ملا تھا۔ اب ان کی نظرثانی او رکہیں کہیں نئے مواد کے اضافے کے ساتھ اس کا نیاایڈیشن اچھی کمپوزنگ اور عمدہ طباعت کے ساتھ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے منظر عام پر آیا ہے۔
سورۂ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ (آیت:۱۰۴)(تم میں ایک جماعت ضرور ہی ایسی ہونی چاہئے جو خیر کی طرف بلائے، معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے) اس آیت میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ساتھ دعوت الی الخیر کو بھی امت کا فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مناسبت سے دونوں میںایک طرح کا ربط بھی ہے۔ کتاب کے آغازمیں دعوت الی الخیر کی مختصر اور جامع وضاحت کی گئی ہے، اس کے بعد پوری کتاب میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی انداز میں بحث کی گئی ہے۔
کتاب کی پہلی بحث امر المعروف ونہی عن المنکر کے وجوب اور اہمیت پر ہے۔ اس میں بتایاگیا ہے کہ یہ ایک پیغمبر انہ کام ہے۔ اللہ کے دوسرے نیک بندوں نے بھی اس کی تاکید کی ہے۔ مثلاً لقمان کی اپنے بیٹے کو نصیحت میں اس کا ذکر موجود ہے۔ گزشتہ امتوں کے نیک لوگ اس خدمت کو انجام دیتے تھے۔ قرآن اور حدیث میں اسے امت مسلمہ کا بھی فریضہ قرار دیاگیا ہے اور اس کی فرضیت پر پوری امت کا اتفاق ہے، البتہ فرضیت کی نوعیت میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض علماء اسے فرض عین کہتے ہیں، یعنی یہ امت کے ہر فرد پر فرض ہے، لیکن جمہور علماء اسے فرض کفایہ قرار دیتے ہیں، یعنی یہ ایسا فرضـ ہے جسے اگر امت کے کچھ افراد انجام دیں تو پوری اُمت سے ساقط ہوجائے گا۔ مولانا نے دونوں نقطہ ہائے نظر کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور ان کے دلائل بھی نقل کیے ہیں، پھر ان کا تجزیہ کرتے ہوئے صحیح نقطۂ نظر اس کو قرار دیا ہے کہ یہ فرض پوری امت پر عائد ہوتا ہے کہ وہ اس کام کی انجام دہی کے لیے بعض افراد کو تیار کریں اور ان کا ہر طرح سے تعاون کریں۔
اگلی بحث میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے معنی ومفہوم کابیان ہے اور اس کی وسعت و جامعیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں بتایاگیا ہے کہ یہ محض اخلاقی اصطلاح نہیںہے۔ اسے صرف اخلاقیات کی نصیحت سمجھنے میں انبیاء کی بعثت کا مقصد محدود ہوکر رہ جاتا ہے۔ اس بحث میں قدماء کے حوالے سے اس کی تردید کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ معروف ومنکر اخلاق اور بداخلاقی کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں پورا دین شامل ہے۔ امر ونہی وعظ وتبلیغ تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہ اقتدار اور حکومت کابھی تقاضا کرتا ہے۔ مصنف نے بجا طور پر لکھا ہے: ’’امر بالمعروف ونہی عن المنکرقرآن وحدیث کی ایک اصطلاح ہے۔ یہ کتاب بہ ظاہر اسی اصطلاح کی تشریح وتفسیر ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس میں اسلام کا پورا نظامِ عقائد واعمال زیر بحث آگیا ہے اور اس کی ایک جامع تصویر مرتب ہوگئی ہے۔ (ص۱۵) اس کااندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کتاب میں دعوت دین، جہاد فی سبیل اللہ ،اسلامی سیاست اور تجدید واصلاح جیسے تمام موضوعات زیر بحث آئے ہیں۔
امربالمعروف نہی عن النکر کا کام امت اپنے دائرے سے باہر بھی انجام دے گی اور اس کے اندر بھی۔ اوّل الذکر کو دعوت و تبلیغ کہا جاتا ہے اور موخرالذکر کو تنظیم وتربیت سے تعبیر کیا جاتاہے۔ آگے کی دو بحثوں میں ان دونوں پہلوؤں کی توضیح وتشریح کی گئی ہے۔امربالمعروف ونہی عن المنکر کی وسعت وجامعیت کے ذیل میں بتایا گیا ہے کہ یہ تین مختلف کاموں پر مشتمل ہے (۱) دعوت وتبلیغ (۲) جہاد فی سبیل اللہ (۳)اسلامی ریاست کا قیام۔ ان میں سے ہر کام امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ سورۂ اعراف، جو مکی ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ آپؐ معروف کا حکم دیتے ہیں اور منکر سے روکتے ہیں ۔ (آیت۱۵۷) اس کامطلب یہ ہے کہ آپؐ نے مکی دور میں دعوت وتبلیغ کا جو بھی کام انجام دیا وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذیل میں آتا ہے۔ پھر مدینہ ہجرت کرنے کے بعد آپؐ نے اللہ کی راہ میں جہاد کیااور دشمنانِ اسلام سے جنگ کی، نیز اسلامی ریاست کے استحکام کے لیے اقدامات کیے۔ یہ دونوں کام بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذیل میں آتے ہیں۔
دوسرا کام جو اُمت اپنے افراد کے درمیان انجام دیتی ہے، یعنی افراد کی اصلاح اور دین کی تجدید وہ بھی امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے دائرے میں آتا ہے۔ اس ضمن میں مولانا نے قرآن میں مذکور ’اصحاب سبت‘ کے واقعے سے استدلال کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ برے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنا نیک لوگوں کا فرض ہے۔ اس سے دونوں فریقوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل نے اپنے درمیان یہ کام چھوڑ دیا تو ان کی مذمت کی گئی۔ اُمت مسلمہ کے مصلحین نے ہر دور میں اس کام کوانجام دیا ہے۔ یہ حقیقت میں ’تواصی بالحق والصبر‘ اور ’نصیحت‘ ہے ، جس کا قرآن وحدیث میں حکم دیاگیاہے۔
آخر میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے شرائط ، وسائل وذرائع اور حدود وآداب سے بحث کی گئی ہے۔ اسے کتاب کا سب سے اہم حصہ قرار دیاجاسکتا ہے اور موجود دور میں اس کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ شرائط کی دو قسمیں ہیں: شرائط صحت اور شرائط وجوب۔ شرائط صحت دو ہیں: ایک یہ کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اسی شخص کو حق ہے جو مومن ہو اور دوسری شرط یہ کہ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جو خود بھی معروف پر عمل کرے اور منکر سے باز رہے۔ اسی طرح شرائط وجوب بھی دو ہیں: ایک مکلّف ہونا اور دوسری قدرت ہونا۔ عدم قدرت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً آدمی جسمانی طور پر کم زور اور معذور ہو، اسے دین کے اوامر ونواہی کا علم نہ ہو، اس کام کی انجام دہی کی صورت میں وہ اپنے لیے یا اپنے متعلقین کے لیے کسی طرح کا ضرر یا خطرہ محسوس کرنے یا اسے کسی حاصل شدہ فائدہ کے چھن جانے کا اندیشہ ہو، یا ایک برائی سے روکنے کی کوشش میں کسی دوسری برائی کے پیداہوجانے کا خطرہ ہو، یا اسے اس کی عدم افادیت کاظنِّ غالب ہو، وغیرہ ۔مولانا نے عدم قدرت کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے بحث کی ہے اور اس سلسلے میں علماء کے اختلافات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا عمدہ تجزیہ کیاہے۔
مشہور حدیث ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’تم میں سے جو شخص بھی کسی منکر کو دیکھے تو اسے ضرور اپنے ہاتھ سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان کے ذریعے اس کو بدل دے اور اس کی بھی اس میں طاقت نہ ہو تو اپنے دل ہی سے اس کو بدلے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم زور درجہ ہے۔‘‘ (مسلم،ترمذی) اس سے استدلال کیاجاتا ہے کہ منکر کو طاقت سے بدلنے کی کوشش کرنا افضل ہے۔ اس موضوع پر مولانا نے ’وسائل وذرائع‘ کے عنوان کے تحت تفصیل سے بحث کی ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ منکر کاارتکاب کرنے والا کوئی فرد ہو یا جماعت، اس کے ازالہ کے لیے طاقت کے استعمال کی کیا شرائط ہیں اور کب اور کس حد تک بہ زور اور قوت سے روکا جاسکتاہے؟
امربالمعروف ونہی عن المنکر کا کام انجام دینے کے لیے کچھ حدود وآداب ہیں، جن کی رعایت ضروری ہے۔ مثلاً کسی کی برائیوں کی ٹوہ میں نہ رہا جائے، بلکہ جب کھلم کھلا کسی برائی کا ارتکاب کیا جانے لگے تب اس سے روکنے کی کوشش کی جائے، غیر اختلافی منکرات ہی پر احتساب کیا جائےاور اختلافی امور میں ایک دوسرے پر نکیر نہ کی جائے۔ مولانا نے ان باتوں کی وضاحت کرنے کے ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ بیوی بچوں ، والدین اور رشتہ داروں کے درمیان امربالمعروف ونہی عن المنکر کا کام انجام دینے کے کیاحدودوآداب ہیں؟ کتاب کاخاتمہ اس موضوع پرہوا ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والوں کو کن اوصاف سے متصب ہوناچاہئے؟
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں نہ صرف ان تمام آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی کا استقصاء کیا گیا ہے، جن میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذکرہے، بلکہ معروف ومشہور قدیم وجدید تفاسیر اور شروح حدیث سے بھی بھرپور استفادہ کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ اصول فقہ، حکمت دین، عقائد وکلام، سیاست، فتاوٰی اور لغاتِ قرآن وحدیث کی اہم کتابیں بھی مولانا کے مطالعہ میں رہی ہیں۔ ان کتابوں میں علماء نے اس موضوع پر جو دقیق بحثیں کی ہیں ان کے مولانا نے نہ صرف کثرت سے حوالے دیتے ہیں، بلکہ اگر علماء کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف رہا ہے تو اس کا بصیرت افروز تجزیہ کیا ہےاور اس نقطۂ نظر کو ترجیح دی ہےجوموجودہ زمانے سے پوری طرح ہم آہنگ اور قابل عمل ہو۔ عام طور پر فکری مباحث کی زبان ثقیل اور بوجھل ہوتی ہے، لیکن مصنف کی زبان اس قدر شستہ اور اسلوب اس قدر رواں ہے کہ قاری کی دلچسپی آخر تک قائم رہتی ہے۔
منکرات کے ازالے کے لیے کیا تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں اور کس حد تک طاقت کا استعمال کیاجاسکتا ہے؟ اس موضوع کو موجودہ دور میں بعض اسباب سے بہت زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی ہے۔ یہ کتاب اس سلسلے میں صحیح رہ نمائی فراہم کرتی ہے اور اس سے افراط وتفریط کے درمیان اعتدال کی راہ نمایاں ہوتی ہے۔
معروف ومنکر دین کی ایک اہم اصلاح ہے۔ یہ کتاب اس کا ایک جامع مطالعہ ہے۔ اس بنا پر دینی لٹریچر میں اپنے موضوع پر یہ ایک قیمتی اضافہ ہے۔ امید ہے ، دینی وعلمی حلقوں میں اس سے خاطر خواہ استفادہ کیاجائے گا اور اس سے صحیح راہِ عمل اختیار کرنے میں مدد ملے گی۔
نام کتاب: معروف و منکر مصنف : مولانا سید جلال الدین عمری
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی
تاریخ اشاعت: دسمبر ۲۰۱۳ء ، صفحات:۳۱۲، قیمت۱۸۵روپے
مشمولہ: شمارہ جون 2014