امانت کا بوجھ

اس وقت میں چھوٹا تھا، پردے کے پیچھےجو کچھ ہوتا میں اسے نہیں سمجھتا تھا، لیکن میں اپنے مرحوم ابّو کو بے چین اور بجھا بجھا سا پاتا، جب جب میں مدرسہ سے واپس آتا،”کتاب مقدس” سے حفظ کیے ہوئے حصے کو انھیں سناتا اور جتنا اسپینی زبان سیکھتا اس کے بارے میں بتاتا، پھر وہ مجھے چھوڑ کر اپنے اس کمرے میں چلے جاتے، جو گھر کے آخری گوشے میں تھا، جس کے دروازے سے قریب ہونے کی کسی کو اجازت نہ دیتے، وہ اس میں گھنٹوں پڑےرہتے، مجھے نہیں معلوم اس میں کیا کرتے، پھر اس میں سے نکلتے اس حال میں کہ ان کی آنکھیں سرخ ہوتیں، ایسا لگتا کہ خوب خوب روئے ہوں، اسی عالم میں وہ کئی کئی دن گزاردیتے، میری طرف غمگین اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے، کچھ کہنے کا ارادہ کرنے کی طرح اپنے ہونٹوں کو جنبش دیتے،میں جیسے ہی انھیں غور سے سننے کے لیے کھڑا ہوتا، وہ مجھ سے پیٹھ پھیر لیتے اور کچھ کہے بغیر مجھ سے دور ہوجاتے۔

جب جب میں مدرسہ جاتا ،میری امی غمگین اور اشک بار ہوکر مجھے رخصت کرتیں، بڑے شوق وسوز سے مجھے بوسہ دیتیں، پھر بھی ان کاجی نہیں بھرتا، مجھے بلاتیں اور دوبارہ بوسہ دیتیں اوررورو کر مجھ سے جدا ہوتیں، میں دن بھر اپنے رخسار پر ان کے آنسؤوں کی گرمی محسوس کرتا، مجھے ان کے رونے پر بڑا تعجب ہوتا، لیکن اس کی کوئی وجہ نہیں جانتا، پھر جب میں مدرسہ سے واپس لوٹتا ،تو وہ بڑی بے قراری اور بڑے شوق سے میرا استقبال کرتیں، گویا میں ان سے دس سال سے دورتھا۔میں امی ، ابو کو اپنے سے دور اورآہستہ آہستہ اسپینی زبان کے علاوہ ایسی زبان میں باتیں کرتے دیکھتاجسے میں نہ جانتا تھا اور نہ سمجھتا تھا، جب میں ان کے قریب جاتا تو وہ گفتگو بند کردیتے اور اس کا رخ بدل دیتے اور اسپینی زبان میں باتیں کرنے لگتے، مجھے تعجب اور دکھ ہوتا، میں دل ہی دل میں طرح طرح کی باتیں سوچنے لگتا، مجھے یہاں تک گمان ہوتا کہ میں ان کابیٹا نہیں ہوں، بلکہ راستہ سے اٹھایا ہوا بچہ ہوں، پھر تو میں شدید تکلیف میں مبتلا ہوجاتا اور گھر کے ایک الگ تھلگ کونے میں جا پڑتا اور درد بھرے انداز میں پھوٹ پھوٹ کر روتا۔

میں پیہم ایسے دردوالم کا شکار ہوا کہ جس نے مجھے ایک خاص مزاج کا عادی بنادیا، جومیرے ہم سن بچوں سے بالکل مختلف تھا، میں ان کے کسی کھیل کود میں شریک نہیں ہوتا، بلکہ ان سے الگ تھلگ رہتا،کسی جگہ جاکر تنہا بیٹھ جاتا،ہتھیلی میں سر رکھ کر اپنے خیالات کی دنیا میں ڈوب جاتا،ان مشکلات کا کوئی حل مل جائے، اس کی کوشش کرتا،یہاں تک کہ ‘الخوری’  میری قمیص کی آستین کے اندر سے مجھے پکڑ کر کھینچتا تاکہ میں نماز کے لیے  چرچ جاؤں۔

ایک بار امی کے یہاں ولادت ہوئی، انھوں نے ابّو کو ایک خوب صورت بچے کی جب خوش خبری سنائی تو انھیں نہ تو کوئی خوشی ہوئی اور نہ ان کے ہونٹوں پر کوئی مسکراہٹ کھلی،وہ اپنا پیر گھسیٹتے ہوئے،سوز وغم کی حالت میں کھڑے ہوئے اور‘الخوری’  کے پاس گئے، اسے بلایا تاکہ وہ بچے کو نصرانی بنائے، پھر اپنا سر نیچےجھکائے ہوئے،اس کے پیچھے پیچھے واپس آئے، ان کے چہرے پر شدید غم اور تباہ کن ناامیدی کے آثار نمایاں تھے، اسے گھر لے کر آئے اور امی کے پاس لے کر گئے۔۔۔اس وقت میں نےدیکھا کہ امی کےچہرے پر بے حداداسی چھائی ہوئی ہے اور ان کی آنکھیں پھٹی پھٹی سی ہیں،میں نے دیکھا کہ وہ بچے کو چوکنا ہوکر اور ڈرتے ہوئے اس کی طرف بڑھا دیتی ہیں اور پھر اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہیں۔ میںحیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ آخر ماجرا کیا ہے اورمزید میرےدرد والم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

یہاں تک کہ جب ایسٹرکی رات آئی اور پورا غرناطہ خوشبؤوں میں بسا ہوا اور نور میں ڈوبا ہوا تھا،قصر الحمراء قندیلوں اورروشنی سے چمک رہا تھااورصلیب اس کی گیلریوں اور گنبدوں میں چمک رہی تھی،تو میرے ابو نے رات کے اندھیرے میں مجھے بلایا، جبکہ گھر کے سارے لوگ سورہے تھے، وہ خاموشی سے مجھے اپنے کمرےلے گئے یعنی اپنےمقدس حرم۔بس میرا دل زورزور سے دھڑکنے اور بے چین ہونے لگا،لیکن میں نے اپنے آپ کو قابو میں کیااور ہمت سے کام لیا، پھر جب مجھے کمرے کے بیچ لے کر پہنچے تو دروازہ خوب اچھی طرح بند کردیااورچراغ ڈھونڈنے لگےاور میں اندھیرے میں چند لمحےکھڑا رہا، جو مجھ پرکئی سالوں سے زیادہ طویل تھے، پھر انھوں نے ایک چھوٹا سا چراغ روشن کیا جو وہاں پڑا تھا،میں نے اپنے ارد گرد دیکھا تو کمرہ خالی پایا، اس میں کوئی ایسی حیرت انگیز چیز نہیں تھی جس کے دیکھنے کی مجھے توقع تھی،اس میں ایک دری، الماری پر رکھی ہوئی ایک کتاب اور دیوار سے لٹکی ہوئی ایک تلوار کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ پھر انھوں نے مجھے اس دری پر بٹھایااور چپ چاپ مجھے ٹکٹکی باندھ کرتعجب کی نگاہوں سے دیکھنے لگے، یہ نگاہیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں، اس جگہ کا خوف مجھے لگا ہوا تھا اور رات کا سکون چھایا ہواتھا،پھر میں نے ایسا محسوس کیا کہ اس دروازے کے پیچھے جو دنیا میں چھوڑکر آیا ہوں ،اس سے میں جدا ہوچکا ہوں اور کسی دوسری دنیا میں منتقل ہو چکا ہوں، ایسی دنیا جس میں میں نے جو کچھ محسوس کیا تھا اسے بیان کرنا میری استطاعت سے باہر تھا۔

پھر میرے ابو نے محبت وشفقت بھرے انداز میں اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ ااور دھیمی آواز میں مجھ سے کہا:اے میرے پیارے بیٹے!اس وقت تمہاری عمر دس سال ہےاور تم ایک مرد ہوگئے ہو، آج میں تمھیں ایک ایسے راز کے بارے میں بتاؤں گا جسے میں نے تم سے اب تک چھپائے رکھا، تو کیا تم اسے اپنے سینے میں محفوظ رکھو گے؟کیا تم اسے اپنی ماں، اپنے گھر والوں، اپنے دوستوں اور تمام لوگوں سے چھپائے رکھو گے؟کیونکہ اس راز کی طرف  تمھارا ایک اشارہ بھی تمھارے ابوکے جسم کومحکمۂ تفتیش کے جلّادوں کی تعذیب کا نشانہ بنادے گا۔

میں نے جیسے ہی محکمۂ تفتیش کا نام سنا، سر سے پاؤں تک لرز اٹھا۔فی الواقع میں چھوٹا تھا، لیکن مجھے معلوم تھا کہ محکمۂ تفتیش کیا ہے،اس کی بھینٹ چڑھنے والوں کو روز انہ دیکھتا، جب میں مدرسہ آتا اور جاتا،کتنے ہی مرد ایسے تھے جنھیں سولی پر لٹکا دیاجاتااور کتنے ایسے تھے جنھیں زندہ جلادیا جاتا، کتنی عورتیں ایسی تھیں جنھیں ان کے بالوں سے لٹکادیاجاتایہاں تک کہ وہ مرجاتیں یاان کے پیٹ چیر دیے جاتے۔۔۔اس لیے میں خاموش رہااور جواب نہ دے سکا۔

تب میرے ابو نے مجھ سے کہا:تمھیں ہوکیا گیا ہے، تم جواب کیوں نہیں دیتے!کیا تم چھپاسکو گےجو کچھ میں تم سے کہوں گا؟

میں نے کہا: ہاں

ابو نے کہا:کیا تم اسے اپنی ماں اور اپنے سب سے قریبی شخص سے بھی چھپاؤ گے؟

میں نے کہا: ہاں

ابو نے کہا: میرے قریب آؤ، اچھی طرح کان لگاؤ کیونکہ میں اپنی آواز بلند نہیں کرسکتا،کیو نکہ مجھے اندیشہ ہےکہ دیواروں کے کہیں کان نہ ہوں کہ وہ سن لیں اورمحکمۂ تفتیش میں شکایت لگادیں۔۔۔اور وہ مجھے زندہ جلادیں۔

تو میں ان کے قریب گیا اورکہا:میں بالکل متوجہ ہوں اے ابو جان۔

تب انھوں نے الماری پر رکھی ہوئی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا:کیا تم اس کتاب کو جانتے ہو ، میرےپیارے بیٹے؟

میں نے جواب دیا: نہیں

ابو نے فرمایا: یہ اللہ کی کتاب ہے۔

میں نے  پوچھا: کیا وہی کتاب مقدس جسے ‘یسوع ابن اللہ’ لے کر آئے تھے؟

وہ بے چین ہوگئے،کہا: ہرگز نہیں، یہ وہ قرآن ہے جسےاللہ نےاتارا ہے،جویکتا ہے،بے نیاز ہے،جس کی کوئی اولاد نہیں، جس کا کوئی باپ نہیں، جس کا کوئی ہمسر نہیں، اس نےاسے اپنے سب سے افضل ترین بندے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے۔

خوف کے مارے میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں، مگر میری سمجھ میں کچھ نہ آیا۔

فرمایا:یہ اسلام کی کتاب ہے،وہ اسلام جسے اللہ نے محمد کو دے کر تمام انسانوں کے لیے بھیجا تھا،جس کا ظہور دور دراز خشک صحراؤں میں، سمندروں اور جنگلوں کے پار، مکے کی سرزمین میں، ایک ایسی قوم میں ہوا جوبادیہ نشین تھے،جو طبقوں میں بنٹے ہوئےتھے،جو مشرک اور جاہل تھے، اسی اسلام کی بدولت اللہ نے انھیں توحید کی ہدایت بخشی،اتحاد وقوت کی نعمت عطاکی اور علم وتہذیب کی روشنی دی،پھر اسی اسلام کی بدولت وہ مشرق ومغرب فتح کرتے چلے گئے، یہاں تک کہ وہ اسپین کے اس جزیرہ تک پہنچ گئے۔اسپین کا بادشاہ بڑا ظالم اور سرکش تھا،اس کی حکومت ظالمانہ اور غاصبانہ تھی،اس کی قوم مظلوم، تہی دست، ناخواندہ اور پسماندہ تھی،ان بادیہ نشینوں نے اس ظالم بادشاہ کو قتل کردیا،ظالمانہ حکومت کو ختم کردیا اور اسپین کی باگ ڈورکواپنے ہاتھوں میں لے لیا، انھوں نے لوگوں کے درمیان عدل کیا،ان کے ساتھ حسن سلوک کیا،ان کی جان ومال کا تحفظ کیا،انھوں نے یہاں آٹھ سوسال حکومت کی۔۔۔ہاں آٹھ سو سال،انھوں نے اسے دنیا کا سب سے ترقی یافتہ اور خوب صورت ملک بنادیا۔ہاں اے میرے پیارے بیٹے،ہم عرب مسلمان۔۔۔

میںحیرت، تعجب اور خوف کے مارے اپنی زبان پر قابو نہ پاسکا اور زور سے بول پڑا:کیا؟! ہم؟۔۔۔عرب مسلمان!

کہا: ہاں اے میرے پیارے بیٹے، یہی وہ راز ہے جسے میں تم پر عیاں کرنا چاہتا ہوں۔ہاں،ہم ہی اس ملک کے مالک ہیں۔ہم ہی نے ان محلوں کی تعمیر کی ہے،جو ہمارے تھے، مگر ہمارےدشمنوں کے ہوگئے،ہم ہی نے ان میناروں کو بلند کیا ہے، جن میں مؤذن کی آواز گونجتی تھی،مگر اب ان میں ناقوس(نصاریٰ کا گھنٹہ) بجایا جاتا ہے، ہمیں نے ان مسجدوں کی تعمیر کی ہے،جہاں مسلمان صف در صف اللہ کے حضورکھڑے ہوتے تھے،ائمہ ان کے سامنے محرابوں میں اللہ کے کلام کی تلاوت فرماتے تھے، مگر وہ چرچ میں تبدیل ہوگئے،جس میںپادری اورراہب کھڑے ہوکر ‘انجیل’ کا ورد کرتے ہیں۔۔۔ہاں اے میرے پیارے بیٹے،ہم عرب مسلمان،اسپین کے ہر ہر خطے میں ہماری نشانی ہے، اس کی ایک ایک بالشت زمین کے نیچے ہمارے کسی نہ کسی  جد امجد یا کسی نہ کسی شہید کی لاش دفن ہے۔ ہاں، ہم ہی نے ان شہروں کو بسایا ہے، ہم ہی نے ان پلوں کی تعمیر کی ہے، ہم ہی نے ان راستوں کو ہم وار کیا ہے،ہم ہی نے ان نہروں کو کھودا ہے، ہم ہی نے ان درختوں کو لگایا ہے۔ لیکن چالیس سال پہلے۔۔۔کیا تم سن رہے ہو؟چالیس سالپہلےمصیبت کا مارا بادشاہ ابو عبد اللہ صغیرجو اس علاقے میں ہمارا آخری بادشاہ تھا، اسپینی لوگوں کے وعدوں اور معاہدوں سے دھوکہ کھا گیا، غرناطہ کی کنجیاں ان کے حوالے کردی،اپنی امت کے اس حرم محترم اور اپنے آباء واجداد کے مقبروں کو ان کے لیے مباح کردیا اورمراکش کے خشک راستوں پر نکل گیا تاکہ وہاں یکہ وتنہا،بے یارو مددگار،بے ٹھکانا، دھتکارا ہوا موت کے منہ میں چلاجائے۔

اسپینی لوگوں نے ہم سے عدل وانصاف،آزادی اورخود مختاری کا وعدہ کیا تھا، لیکن جب انھوں نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو اپنے کیے ہوئے تمام وعدوں کے ساتھ خیانت کی، انھوں نے محکمۂ تفتیش قائم کیا، جس نےہمیں جبراً عیسائی مذہب میں داخل کیا، ہمیں اپنی زبان چھوڑنے پر مجبور کیا ،ہم سے ہماری اولاد چھین لی تاکہ ان کی عیسائی مذہب کے مطابق پرورش کرے۔ تم ہماری یہ عبادت چھپانے کی جو حالت دیکھ رہے ہو اس کا راز یہی ہے ، اپنا دین پامال کرنے اور اپنی اولاد کو کافر بنانے پر جو حزن وملال ہم دیکھ رہے ہیں، اس کا بھی راز یہی ہے۔چالیس سال سے، اے میرے پیارے بیٹے!جبکہ ہم اس تعذیب پر صبر کیے ہوئے ہیں، جس کی تاب مضبوط سے مضبوط چٹانیں بھی نہیں لاسکتیں،ہمیں اللہ کی نجات کا انتظار ہے، ہم مایوس نہیں ہیں، کیونکہ مایوسی ہمارے دین ، ہاں قوت والے دین، صبر والے دین اور جہاد والے دین میں حرام ہے۔یہی وہ راز ہے اے میرے پیارے بیٹے، بس تم اسے چھپائے رکھنا اور جان لو کہ تمھارے ابو کی زندگی تمھاری لب کشائی پر موقوف ہے۔بخدا میں اپنی جان چلی جانے سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہوں،بلکہ میں زندہ رہنا چاہتا ہوں تاکہ تمھیں تمھاری زبان اورتمھارا دین سکھاسکوں اورتمھیں ظلمت ِکفر سے نکال کر نورِ ایمان کی طرف لاسکوں، اب تم اپنے بستر پر جاؤ اے میرے پیارے بیٹے۔

اس کے بعد میری کیفیت یہ ہوگئی کہ میں جب جب حمراء کی گیلریوں یا غرناطہ کے میناروں کو دیکھتا تو مجھے سخت جھٹکا لگتا، میرے دل پر کبھی شوق چھاجاتا، کبھی غم طاری ہوجاتا، کبھی عداوت کی آگ بھڑک اٹھتی اور کبھی محبت کی لہر دوڑ جاتی، اکثر ایسا ہوتا کہ میں گھنٹوں حواس باختہ رہتا، جب ہوش آتاتو خود کو حمراءکے ارد گرد گھومتے، اسے مخاطب کرتے اور اسے سرزنش کرتے ہوئے پاتا، میں اس سے مخاطب ہوکر کہتا:

اے قصرِ حمراء۔۔۔اے لائق وفائق دوست!کیا تو اپنے ان معماروں اور اپنے ان دوستوں کو بھول گیاجنھوں نے اپنی جان اور خونِ دل سے تجھے غذا فراہم کیا، جنھوں نے اپنے خون اور آنسؤوں سے تجھے سینچا، کیا تو ان کے عہد کو بھول گیا، کیا تو نےان کی محبت کوفراموش کردیا؟کیا تو ان طاقتور بادشاہوں کو بھول گیا جوتیرے بڑے بڑے کمروں میں گشت لگاتے، تیرے ستونوں پر ٹیک لگاتے، تجھ پر تیری چاہ کے مطابق شرافت ، عظمت ، شان وشوکت  اورخوب صورتی کی دولت لٹاتے؟ ہاں وہی معزز ومکرم کہ اگر وہ کہتے تو دنیا ان کی بات بغور سنتی اور اگر حکم دیتے تو زمانہ لبیک کہتا۔(اے قصر حمراء) کیا تو اذان کے بعدچرچ کے گھنٹوں سے مانوس ہوگیا ہے؟ کیا اماموں کے بعد پادریوں سے راضی ہوگیا ہے؟!

پھر مجھے ڈر لگتا کہ دیوان کا کوئی جاسوس میری بات کہیں سن نہ لے، بس میں تیزی سے گھر کی طرف بھاگتا، تاکہ عربی کا وہ سبق یاد کروں جسے میرے ابو مجھے دیتے تھے، مجھے ایسا لگتا کہ میں انھیں اس وقت دیکھ رہا ہوں ،وہ مجھے حکم دے رہے ہیں کہ میں ان کے لیے عجمی حروف لکھوں اور وہ ان کے سامنے عربی حروف لکھیں اور مجھ سے کہیں: یہ ہمارے حروف ہیں اور پھر مجھے ان میں بولنا اور لکھنا سکھائیں، پھر مجھے دین کا درس دیں، مجھے وضو اور نماز کا طریقہ بتائیں تاکہ میں ان کے پیچھے اس خوف ناک کمرے میں چھپ کر نماز پڑھوں۔

اس بات کا اندیشہ تھا کہ مجھ سے کہیں لغزش نہ ہوجائے اور یہ راز کہیں فاش نہ ہوجائے ،جسے وہ کبھی جدا نہیں ہونے دینا چاہتے تھے، وہ مجھے آزمانے کی خاطر امی کو میرے پاس بھیجتے وہ مجھ سے پوچھتیں:تمھارے ابو تمھیں کیا سکھاتے ہیں؟

میں کہتا: کچھ بھی نہیں

وہ کہتیں: وہ جو کچھ تمھیں سکھاتے ہیں مجھے اس کی خبر ہے۔

میں کہتا: حقیقت یہ ہے کہ وہ مجھے کچھ بھی نہیں سکھاتے۔

یہاں تک کہ میں نے عربی میں مہارت پیدا کرلی، قرآن سمجھ لیا اور دین کے احکام جان لیے ،پھر انھوں نے مجھ سے اپنے ایک دینی بھائی سے متعارف کرایا، اب ہم تینوں اپنی عبادت اور اپنے قرآن کے تئیں جمع ہونے لگے۔

اس کے بعدمحکمۂ تفتیش کی سختی اور بڑھ گئی اور بچے کھچے عربوں کی تعذیب میں مزید اضافہ ہوگیا، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں ہم ،بیس یا تیس لوگوں کو سولی پر چڑھتے ہوئے یا زندہ جلتے ہوئےنہ دیکھتے ہوں،کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جس میں ہم، سیکڑوں افراد کو سخت اور بھیانک سزا پاتے ہوئے نہ سنتے ہوں،ان کے ناخن اکھاڑ لیے جاتے اوریہ منظر وہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے،ان پر اس قدرپانی انڈیلا جاتا کہ ان کی سانس اکھڑنے لگتی،ان کے پیر اور پہلو آگ سے داغ دیے جاتے، ان کی انگلیاں کاٹ دی جاتیں، پھر انھیں بھون کر ان کے منہ میں رکھ دیا جاتا، ان پر اتنے کوڑے برسائے جاتے کہ ان کا گوشت جھڑنے لگتا۔

یہ سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا،پھر ایک دن میرے ابو نےمجھ سے کہا:اے میرے بیٹے! میں محسوس کررہا ہوں ، مجھے ایسا لگ رہا ہےکہ میری موت کا وقت قریب آگیا ہے اور میں اِن ظالموں کے ہاتھوں شہادت کا شدیدخواہش مند ہوں، امید کہ اللہ مجھے جنت نصیب فرمائے گا اور میں بڑی کام یابی سے ہم کنار ہوجاؤں گا،تمھیں کفر کے اندھیرے سے نکالنے اور اُس عظیم امانت کوتمھارے سپردکرنے کے بعد جس کے بوجھ تلے میں دبا جارہا تھا، اب دنیا میں میرے لیے کوئی ضرورت باقی نہیں ہے،اگر مجھے کچھ ہوگیا تو اپنے اِس چچا کی فرماں برداری کرنا اور کسی معاملے میں ان کی نافرمانی نہ کرنا۔

پھر اسی کیفیت اوروصیت پردن گزر تےگئے حتٰی کہ ایک دن مہینے کی آخری رات آئی، وہ رات کالی رات تھی،اچانک میں نے سنا کہ میرے چچا مجھے بلارہے ہیں اور اپنے ساتھ چلنے کے لیے مجھے کہ رہے ہیں، کہ اللہ نے مسلمانوں کے شہرمراکش کی جانب بھاگنے کا راستہ ہمارے لیےآسان کردیا ہے۔ ہم نکل پڑے، راستے میں میں ان سے کہتا: میرے ابو اور امی؟ تو وہ مجھ پر سختی کرتے ، میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کھینچتے اور کہتے: کیا تمھارے ابو نے میری اطاعت کا حکم نہیں دیا ہے؟ میں مجبوراً اور بادل ناخواستہ ان کے ساتھ چلنے لگا، یہاں تک کہ جب ہم شہر سے دور نکل گئے اور اندھیرا چھاگیا تو انھوں نے مجھ سے کہا:صبر کرو، میرے پیارے بھتیجے، اللہ تعالیٰ نے محکمۂ تفتیش کے ہاتھوں تمھارے مومن والدین کے حق میں شہادت باسعادت لکھ دی ہے۔

(اللہ کی رحمت سے وہ لڑکا اپنے چچا کے ساتھ مراکش کی سرزمین پہنچ جاتا ہے اور آگے چل کر مشہور زمانہ عالم اور مصنف، سیدی محمدبن عبد الرفیع الاندلسی کے نام سے جانا جاتا ہے۔)

مشمولہ: شمارہ فروری 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223