صلہ رحمی اور اسلامی تعلیمات

انیس الرحمن ندوی اعظمی

خاندان کی شیرازہ بندی و نگہ داشت اور اس کے قیام و بقا کے لیے قرآن و سنت میں جوہدایات دی گئی ہیں، ان میں صلہ رحمی کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔

صلہ رحمی دو لفظوں صلہ اور رحم سے مرکب ہے۔ صلہ کے معنیٰ جوڑنے کے ہیں،لیکن جب اس کے ساتھ رحم کااستعمال ہوگاتو اس کے معنیٰ بدل جائیںگے۔ رَحْمٌ ورَحِمَّ بطن مادر میں اس مقام کو کہتے ہیں،جہاں جنین کااستقرار اور اس کی نشوونما ہوتی ہے۔ مجازاً اسے رشتے داری کے معنیٰ میں استعمال کیاجاتاہے ۔یہ اللہ تعالیٰ کے نام رحمن سے مشتق ہے۔ امام اصفہانی ؒ  نے اس کی تائید میں یہ حدیث پیش کی ہے :

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فر ماتے ہوئے سنا ہے:

قال اللّٰہ تبارک وتعالی: ’’اَنااللّٰہُ وَأَنَاالرَّحْمٰنُ، خَلَقْتُ الرَحِمَ وَشقَفْتُ لَھا مِنْ اسْمِیْ فَمَنْ وَصَلَھَا وَصَلْتَہ’ وَمِنْ قَطعھا بتتُّہ’ ‘‘

﴿ترمذی : باب ماجاء فی قطیعۃالرحم: ۱۹۰۷ اصفہانی ؒ نے جوروایت ذکر کی ہے اس کے الفاظ کچھ مختلف ہیں ملاحظہ کیجیے : ص ۱۴۷﴾

’’اللہ تعالی نے فرمایا: ‘‘میں ہی اللہ ہوں اور میں ہی رحمن ہوں میں نے رحم ﴿رشتے داری ﴾ کو پیدا کیا، میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ہے، جو اس کو جوڑے گامیں اس کو جوڑوں گا اور جو اس سے قطع تعلق کرے گا، میں بھی اسے ٹکڑے ٹکڑے کردوںگا‘‘

لغوی اعتبار سے رحم کے معنی شفقت’ رأفت اور رحمت کے ہیں۔ جب یہ بندوں کے لیے استعمال ہوتاہے تو اس کے معنی شفقت و رأفت کے ہوتے ہیں اور جب اللہ کے لیے استعمال ہوتاہے تو اس کے معنیٰ رحمت کے ہوتے ہیں﴿ابن منظور، لسان العرب،ج:۱۷، ص:۲۳﴾

قرآن میں رشتے داری کا مقام

قرآن کریم کی آیات اسلام میں رشتے داری کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں، رشتے داری کا احترام کرنے اور ان کے حقوق کی ادائی پر ابھارتی ہیں اور انھیں پامال کرنے سے روکتی ہیں۔ ارشاد باری ہے:

’’وَاتَّقُوااللّٰہ الَّذِیْ تَسآئَ لُوْن بہٰ وَالْاَرْحَامَ‘‘ ﴿النساء:۱﴾

’’اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ رشتے داری اور قرابت کے، تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیزکرو‘‘

قرآن کریم میں قطع رحمی کا تذکرہ فساد فی الأرض کے ساتھ کیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ دونوں کا باہم گہرا تعلق ہے۔ چند آیات ملاحظہ ہوں:

فَاِذَا عَزَمَ الْأَمْرُ فَلَوْ صَدَقُوا اللَّہَ لَکَانَ خَیْْراً لَّہُمْ oفَہَلْ عَسَیْْتُمْ اِن تَوَلَّیْْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِیْ الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَکُمْ ﴿محمد:۲۱-۲۲ ﴾

مگر جب قطعی حکم دیاگیا، اس وقت وہ اللہ سے اپنے عہدمیں سچّے نکلتے تو انھی کے لیے اچھا تھا۔ اب کیا تم لوگوں سے اس کے سوا کچھ اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر تم الٹے مُنہ پھرگئے تو زمین میں فساد برپاکروگے اور ٓپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹوگے

سورۂ رعد میں ارشاد باری ہے:

وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُوْلَئِٓکَ لَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوٓئ ُ الدَّارِ  ﴿الرعد:۲۵﴾

’’اور جو لوگ اللہ کے عہد کو باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور اس چیز کو کاٹنے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیاہے اور زمین میں فساد برپاکرتے ہیں، وہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے اور ان کے لیے بُرا انجام ہے۔‘‘

قرآن میں کفارکی فساد انگیزیوں کو مختلف پہلوسے اجاگر کیاگیاہے۔ ان میں سے ایک پہلو قطع رحمی بھی ہے۔ ارشاد ہے:

الَّذِیْنَ یَنقُضُونَ عَہْدَ اللَّہِ مِن بَعْدِ مِیْثَاقِہٰ وَیَقْطَعُونَ مَآ أَمَرَ اللَّہُ بِہٰٓ أَن یُوصَلَ وَیُفْسِدُونَ فِیْ الأَرْضِ أُولٰ ئِٓکَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ  ﴿البقرہ: ۲۷﴾

’’جو اللہ تعالیٰ کے عہد کو اس کے باندھنے کے بعد توڑتے ہیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیاہے اس کو کاٹتے ہیں اور روئے زمین میں فساد مچاتے ہیں یہی لوگ نامراد ہیں‘‘

اس آیت کی تفسیرمیں شیخ محمد علی الصابونی نے لکھاہے:

’’جس چیز کے جوڑنے کا حکم دیاگیاہے اس سے مراد رشتہ اورقرابت ہے اور جس چیز کو اہل کفروم مناد کے اوصاف میں توڑنے کاذکر کیاگیاہے، اس سے مراد رشتے داری کے تعلقات ختم کرنا اورنبی اور مومنین سے الفت ومحبت کو ختم کرنا اور ان سے تعلق توڑنا مراد ہے۔‘‘ ﴿صفوۃ التفاسیر: ج:۱،ص:۳۱﴾

اللہ تعالیٰ نے سورۂ نحل میں جن چیزوں کا حکم دیاہے ان میں عدل اور احسان کے بعد تیسری چیز اہل قرابت کے حقوق کی ادائی ہے۔

اِنَّ اللّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالاِحْسَانِ وَاِیْتَآئ ذِیْ الْقُرْبٰی ﴿نحل:۹۰﴾

’’اللہ تعالیٰ انصاف اور حسن سلوک اورقرابت داروں کو دینے کاحکم دیتاہے‘‘

صلہ رحمی کاحکم احادیث میں

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم منصب نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل ہی سے صلہ رحمی پر عمل پیرا تھے۔ اس کاثبوت ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی گواہی ہے کہ جب غارِ حرا میں جبریل(ع) نے آکر پہلی وحی آپﷺکوسنائی اور نبوت کا ، بار ٓپ پر ڈالا تو اس کی وجہ سے آپ پر ایک اضطراری کیفیت طاری تھی۔ وہاں سے آپﷺسیدھے گھر تشریف لائے، پورا واقعہ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ کوسنایا اور فرمایا مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ اس وقت حضرت خدیجۃ الکبریٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایاتھا:

کَلَّا واللّٰہِ مَا یَحْزُنُکَ اللّٰہُ اَبَداً، اِنَّکَ تَصِلُ الرَحِمَ تَحْمِلُ الکَلَّ تَکْسِبُ المَعْدُوم تقری الضیف وتعین علیٰ نوائب الحق  ﴿بخاری، بداَلوحی:۳﴾

’’ہرگزنہیں ہوسکتااللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رنجیدہ نہیں کرے گا۔ کیوں کہ آپ رشتے داروںکے ساتھ اچھابرتائو کرتے ہیں، بے سہاروں کاسہارا بنتے ہیں، محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، مہمانوں کی تواضع کرتے ہیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘

صلہ رحمی، شریعت اسلامی کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ جس کے ساتھ یہ دین روز اوّل ہی سے دنیاوالوں کے سامنے ظاہر ہوا۔ اس کی تائید ہرقل کے ساتھ ابوسفیان کی گفتگو سے بھی ہوتی ہے، جس میں ہے کہ جب ہرقل نے ابوسفیان سے پوچھا: ’’تمھارے نبی تمہیں کن چیزوں کاحکم دیتے ہیں؟‘‘، اس کا جواب یہ تھا :

بامرنالصلاۃ والزکاۃ والصلۃ والعفافٍ ﴿مسلم: باب کتب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِلی ہرقل ملک الشام بدعوہ’ الٰی الاسلام:۴۶۰۷﴾

’’وہ ہمیں نماز، زکوٰۃ، صلہ رحمی رحمی اور پاک دامنی کا حکم دیتے ہیں‘‘

اس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ صلہ رحمی دین کی ممتاز خصوصیات میں سے ہے۔ سیدنا عمرو بن عنبسہؓ سے یہ ایک طویل حدیث مروی ہے، اس میں اسلام کے جملہ اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ یہ آغاز نبوت کازمانہ تھا، میں نے عرض کیا: ‘آپ کیا ہیں؟’ فرمایا: ‘نبی ہوں۔’ میں نے عرض کیا: ‘نبی کسے کہتے ہیں؟’ فرمایا: ‘مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجاہے۔’ میں نے کہا: ‘اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا چیز دے کر بھیجاہے؟’ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘ارسلنی بصلۃ الارحام وکسرالاوثان وان یّوحداللّٰہ لا یشرک بہ شیٔ’ ﴿اللہ نے مجھے رشتوں کو جوڑنے اور بتوں کو توڑنے کے لیے بھیجاہے اور اس بات کے لیے بھیجاہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایک سمجھاجائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیاجائے۔‘‘

یہ بات بالکل عیاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میںاسلام کے اہم اصول ومبادی کی تشریح کرتے ہوئے صلہ رحمی کو مقدم رکھاہے۔ اس سے دین میں صلہ رحمی کے مقام اورمرتبے کابہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔سیدنا ابوایوب انصاریؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول(ص)! مجھے ایسا عمل بتائیے جس سے میں جنت میں داخل ہوجائوں ’‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

تعبُدُاللّٰہُ لاتُشْرِکَ بِہٰ شَیْٲً وتُقِیمَ الصَّلاَۃَ وَتُؤتِی الزکَاۃَ وَتَصِلُ الرَحِمَ ﴿بخاری: باب فَضْلِ صَلَۃِ الرَحِم: ۵۹۸۳﴾

’’اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کا شمار بھی ان اعمال میں ہے جو انسان کو جنت کا مستحق بناتے ہیں۔

قطع رحمی پر وعید

حضرت جبیر بن نطعمؓ سے مروی ہے انھوںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

’’لایُدْخُلُ الجَنَّۃَ قَاطِعٌ   ﴿بخاری: باب اِثم القاطع: ۵۹۸۳﴾

’’جنت میں قطع رحمی کرنے والا نہیں جائے گا‘‘

صلہ رحمی کرنے والے سے اللہ تعالیٰ کا تعلق مضبوط ہوتاہے اور قطع رحمی کرنے والے سے اللہ کاتعلق ٹوٹ جاتاہے ۔حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الرحِمُ شَجِنَۃٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ، فَقال اللّٰہُ: مَنْ وَصَلَکِ وَ صَلْنُہ’ وَ مَنْ قَطَعَکِ قَطَعْنُہ’ ﴿بخاری:۵۹۸۴﴾

’’رحم ﴿رشتے داری﴾ رحمن سے بندھی ہوئی ہے ﴿یعنی رحمن سے ایسی پیوستہ ہے جس طرح رگیں آپس میںایک دوسرے سے ملی ہوتی ہیں﴾ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جو تجھے جوڑے گا میں اسے جوڑوںگا اور جو تجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوںگا۔‘‘

قطع رحمی کرنے والے پر آخرت سے قبل دنیا ہی میں گرفت ہوتی ہے۔ ایک حدیث ملاحظہ ہو:

مَامِنْ ذنبٍ أجَدَرُ بُعَجَّلَ اللّٰہُ لِصَاحِبہٰ العُقُوْبَۃَ فی الدُنْیآمَع یَا یُوْخِّرُ لَہ’ فِی الآخرۃ مِنَ الْبَغْیِ وقَطِِیْعَۃِ الرَّجمِ   ﴿ترمذی: باب فی عظم الوعید علی البغی وقطیعۃ الرحم:۲۵۱۱﴾

’’دوسرے گناہوں کے مقابلے میں بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیں کہ ان کے ارتکاب کرنے والے کو اللہ تعالیٰ دنیا ہیں میں عذاب دیتاہے آخرت میں ان پر جو سزا ہوگی وہ تو ہوگی ہی۔‘‘

صلہ رحمی کے درجات

ایک متقی اور باشعورمسلم اسلامی تعلیمات کے مطابق صلہ رحمی کرتاہے۔ جس ذات باری نے اس تعلق کو قائم کیاہے اسی نے اہمیت اور قرابت کے مطابق اس کی درجہ بندی بھی کی ہے۔ چنانچہ پہلا درجہ والدین کا قرار دیا۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کو مستقل طورپر بیان کیاگیاہے۔ سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری ہے:

وَقَضٰی رَبُّکَ أَلاَّ تَعْبُدُواْ اِلآَّ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْْنِ اِحْسَاناً  ﴿بنی اسرائیل: ۲۲﴾

’’اور تیرے پروردگار نے حکم دے رکھاہے بجز اس ﴿ایک رب﴾ کے اور کسی کی پرستش نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنا‘‘

وَوَصَّیْْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حُسْناً ﴿العنکبوت:۲۸﴾

’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کاحکم کیاہے‘‘

اور سورہ لقمان میں ارشاد باری ہے:

وَوَصَّیْْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَیْْہِ حَمَلَتْہُ أُمُّہُ وَہْناً عَلَی وَہْنٍ وَفِصَالُہ’ فِیْ عَامَیْْنِ أَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْر  ﴿لقمان:۱۴﴾

’’ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق تاکید کی ہے ۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھاکر اس کو پیٹ میں رکھا اور دوبرس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوا کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر۔ میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘

اس آیت میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جہاں تک شکرگزاری اور خدمت کا تعلق ہے تو اس کی ہدایت ماں باپ دونوں کے لیے فرمائی گئی ہے۔ لیکن قربانیاں اور جانفشانیاں ، حمل، ولادت اور رضاعت صرف ماں کی گنائی گئی ہے۔باپ کی کسی قربانی کاحوالہ نہیں دیاگیاہے۔ اس سے معلوم ہواکہ ماں کا حق باپ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟‘‘ آپﷺنے فرمایا: ’’تمہاری ماں‘‘ اس نے پھر پوچھا: ‘اس کے بعد کون ہے؟’ آپﷺنے جواب دیا: ‘تمہاری ماں’ اس نے دریافت کیا: ‘پھر کون؟’ آپﷺنے فرمایا: ‘تمہارا باپ ’ اور دوسری روایت میں باپ کے بعد قریبی رشتے دار کابھی تذکرہ ہے۔

﴿مسلم، باب: بِرّالوالدین واَیّھُمَا احق بہ: ۲۵۴۸﴾

حدیث میں ماں کاتذکرہ تین بار کیاگیا ہے۔ پھر باپ کا۔ اس سے ماں کاحق زیادہ ثابت ہے۔

صلہ رحمی میں کوئی تفریق نہیں

دین اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ مسلمان صرف ان رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کریں جو ان کے ساتھ بھی صلہ رحمی کریں۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اُن رشتے داروں کے ساتھ بھی اچھا برتائو اور صلہ رحمی کرنے کاحکم دیتاہے، جو ان کے ساتھ کسی قسم کاتعلق نہیں رکھتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لیس والواصلُ بالمکافی ولکن الواصل الذی اذا قطعتْ رحمتہ’ وصلہا

﴿بخاری: کتاب الأدب، باب:لیس الواصل بالمکافی:۵۹۹۱﴾

صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں ہے جو احسان کابدلہ احسان سے ادا کرے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے‘‘

اسلام نے مسلم رشتے داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر زور دیاہے۔ ارشاد باری ہے:

’’وَانْ جَاھَداکَ عَلٰی اَن تُشرک بِیْ مَالَیْسَ بِہٰ عِلْمَ فَلاَ نُطِعْھُمَا وَ صَاحِبْھُمآفِی الدُنْیا مَعْرُوْفاً‘‘

’’اگروہ تجھ پر وہ دونوں اس کازور ڈالیں کہ تومیرے ساتھ ایسی چیز کو شریک ٹھہرائے جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہ ہوتو ان کاکہنا نہ ماننا اور دنیا میں ان کے ساتھ خوبی کے ساتھ بسر کرنا‘‘

اس آیت کی تشریح میں امام قرطبیؒ  نے لکھاہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کافر والدین کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے۔ اگر وہ غریب ہوں تو انھیں مال دیاجائے،ان کے ساتھ ملائمت کی بات کی جائے، انھیں نرمی کے ساتھ اسلام کی دعوت دی جائے۔ ﴿قرطبی الجامع الأحکام القرآن ، ج: ۱۴، ص:۶۵﴾

احادیثِ رسولﷺمیں بھی غیر مسلموں سے صلہ رحمی کی تلقین ملتی ہے۔

’’حضرت اسمائ بنت ابوبکر صدیقؓ بیان کرتی ہیں کہ میری ماں عہد نبویﷺمیں میرے پاس آئیں جب کہ وہ مشرک تھیں، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ میری ماں میرے پاس آئی ہیں اور وہ مجھ سے کچھ امید رکھتی ہیں تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘نَعَمْ صلِیْ اُمَّکِ’ ‘ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔’

﴿مسلم، کتاب الزکاۃ، باب: فضل النفقۃ والصدقۃ علی الاقربین: ۵۲۳۲﴾

صلہ رحمی کا مطلب بے جا طرف داری نہیں

شریعت میں صلہ رحمی پر بہت زور دیاگیاہے۔ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ کسی کی بے جا طرف داری کی جائے، رشتے داروں کی ہر صورت میں حمایت کی جائے، خواہ وہ حق پر نہ ہوں اور ان کی تائید کی جائے خواہ وہ ظالم کیوں نہ ہو۔ دین اسلام اس کی تعلیم نہیں دیتا ہے۔ قرآن مجید میں خاص طور سے اس پر تنبیہہ کی گئی ہے:

َتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْویٰ وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الاِثْمِ وَالْعُدْوَان ﴿المائدہ:۲﴾

’’ایک دوسرے کی نیکی اور تقوی میں مدد کرتے رہو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو‘‘

دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ کُونُواْ قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآئ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلَیٓ أَنفُسِکُمْ أَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْنَ اِن یَکُنْ غَنِیّاً أَوْ فَقَیْراً فَاللّٰہُ أَوْلَی بِہِمَا فَلاَ تَتَّبِعُواْ الْہَوَی أَن تَعْدِلُواْ وَاِن تَلْوُواْ أَوْ تُعْرِضُواْ فَاِنَّ اللّہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرا ﴿النساء: ۱۰۱﴾

’’اے ایمان والو! انصاف پر خوب رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے رہو، چاہے وہ تمہارے والدین اور عزیز کے خلاف ہی ہو اور امیر ہو یا مفلس، اللہ تعالیٰ بہرحال دونوں سے زیادہ حق دار ہے۔ خواہش نفس کی پیروی نہ کرنا کہ حق سے ہٹ جائو اگر تم کجی کروگے تو جو کچھ تم کہہ رہے ہو اللہ تعالیٰ اس سے خوب خبردار ہے۔‘‘

سورہ انعام کی آیت ملاحظہ ہو:

وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُواْ وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبَی وَبِعَہْدِ اللّہِ أَوْفُواْ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُم بِہٰ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُون ﴿الانعام: ۱۵۳﴾

’’جب بولو تو عدل کاخیال رکھواگر چہ وہ شخص، قرابت دار ہی ہو اور اللہ سے جو عہد کیاہے اسے پورا کرو، اس کااللہ تعالیٰ نے تمہیں دیاہے تاکہ تم یاد رکھو‘‘

اس طرح اسلام نے صلہ رحمی کے نام پر کسی ناانصافی اور اقربا پروری پر روک لگادی ہے۔ صلہ رحمی کامطلب یہ ہے کہ اپنے رشتے داروں کے ساتھ کسی کا حق تلف کیے بغیر حُسن سلوک کیاجائے۔

صلہ رحمی کی صورتیں

صلہ رحمی کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ رشتے داروں پر مال خرچ کیاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

َ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَیْْرٍ فَلِلْوَالِدَیْْنِ وَالأَقْرَبِیْن  ﴿البقرہ:۲۱۵﴾

’’آپ کہیے فائدے کی جو چیز تم خر چ کرو تو وہ ماں باپ رشتے داروں کے لیے‘‘

دوسری جگہ تصریح فرمائی گئی کہ مال و دولت کی محبت اور ذاتی ضروریات کے باوجود صرف خدا کی مرضی کے لیے اپنے قرابت داروں کی امداد اور حاجت روائی اصل نیکی ہے۔

وَاٰ تَی الْمَالَ عَلَی حُبِّہِ ذَوِیْ الْقُرْبٰی ﴿البقرہ: ۷۷۱﴾

’’﴿اصل نیکی اس کی ہے﴾ جس نے مال کی محبت کے باوجود قرابت مندوں کو دیا‘‘

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشادات میں صلہ رحمی پر زور دیاہے اور اس کے لیے ایسی شکلیں بتائی ہیں، جن میں کوئی زحمت ، پریشانی اور تکلیف نہیں۔ فرمایا:

بَلّوا اَرحامَکُمْ وَلَوْ بِالسَّلامِ ﴿الموسوعۃ الفقیہۃ، ج:۳،ص:۸۴﴾

’’ اپنے رشتوں کو تازہ رکھو خواہ سلام ہی کے ذریعے سے‘‘

صلہ رحمی کے دینی و دنیوی فوائد

رشتے داری کاپاس و لحاظ رکھنے سے رب العٰلمین کے احکام کی بجاآوری کے علاوہ بہت سے روحانی و مادی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں ۔مثلاً اس کاایک فائدہ یہ ہے کہ رشتے داروں پر خرچ کرنے میں زیادہ اجر وثواب ملتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

الصَدَقۃُ عَلٰی المِسْکِیْن صَدَقَۃٌ وَھِیَ عَلی ذی الرَحِمِ ث نْتَانِ صَدَقَۃُ وَصَلِۃ’

﴿ترمذی، باب: ماجائ فی الصدقۃ علی ذالقرأبۃ۶۵۸﴾

’’صدقہ مسکین پر صدقہ ﴿ثواب ہے﴾ اور رشتے دار پر کرنے کی وجہ سے دوہرا اجر ملتاہے۔ ایک صدقہ کرنے کا ،دوسرے صلی رحمی کا‘‘

ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ عمر میں درازی اور رزق میں وسعت ہوتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَنْ أحَبّ اَنْ یُبْیَطَ لَہ’ فی رزقہٰ وَیَشأ لَہ’ فِیْ أثْرِہٰ فلیصل رحمۃ

﴿مسلم، باب : صلۃ الرحم وتحربہم تطیعتہا۶۵۲۳﴾

’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور اس کی موت میں تاخیر اور عمر میں اضافہ ہوتو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے‘‘

اس کے علاوہ صلہ رحمی سے انسان بہت سے ان اجتماعی مسائل سے چھٹکارا پالیتا ہے، جو آج کے مغربی معاشرے کی پہچان بن گئے ہیں۔ مغربی معاشروں میں خاندان کے بوڑھے افراد ایک بوجھ ہوتے ہیں۔ چنانچہ انھیں ‘بوڑھوں کے گھر’ (Old Age House)کے حوالے کردیاجاتاہے ۔ جہاں وہ خوشیوں بھری زندگی سے محروم کس مپرسی کی حالت میں زندگی گزارتے ہیں، صلہ رحمی سے محروم ان افراد کے بیٹے سال میں ایک بار ’’یوم مادر‘‘ (Mother Day)یا یوم والدین (Parents Day)مناکر اور چند رسمی تحفے تحائف دے کر ان بے پایاں احسانات سے سبکدوش ہوجاتے ہیں، جو ان والدین نے ان کے ساتھ کیے تھے۔ صلہ رحمی سے آشنا اسلامی معاشرہ ان کو بوجھ سمجھنے کے بجائے ان کی خدمت کو جنت کے حصول اور ان کی رضا کو خدا کی رضا کے حصول کا سبب سمجھتاہے۔

اسلام میں یتیموں کی دیکھ بھال اور کفالت پر بہت زوردیاگیاہے اور یہ حکم دیاگیاہے کہ ایسے بچوں کو ان کے قریبی رشتے دار اپنے خاندان کے افراد میں شامل کرلیں اور ان کے ساتھ اپنے بچوں جیسامعاملہ کریں۔ بیوائوں کے لیے مغربی سماج میں Widow Houseبنائے گئے ہیں۔ اس کے برخلاف اسلام میں بیوائوں کے نکاح ثانی کی ترغیب دی گئی ہے اور جب تک نکاح نہ ہو ان کے اخراجات کی ذمے داری ان کے عزیز و قریب رشتے داروں پر عائد کی گئی ہے۔ ان کو اس طرح کے خیراتی اداروں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑاجاتاہے۔

سچ تو یہ ہے کہ آج کے خود غرض معاشرے میں صلہ رحمی اسلامی تعلیمات کا انمول تحفہ ہے۔ اس پر عمل کرکے آپسی تعلقات کو مضبوط بنایاجاسکتاہے اور بہت سے معاشرتی مسائل جو آج بڑی تیزی سے پیدا ہورہے ہیں، ان پر قابو پایاجاسکتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau