پُر فتن دور میں تعمیر سیرت

معمول کے حالات میں تعمیرِسیرت کے مواقع اور ذرائع بہت ہیں۔ خصوصاً دین کے بنیادی تعلیمات، عقائد، عبادات اور اخلاق کی روشنی میں تعمیرسیرت کرنا بہت سہل ہے۔ مگر پُرفتن دور میں خاص طور سے جب ہر طرف قتل و غارت گری مچی ہو، ایک دوسرے کی گردنیںاڑائی جارہی ہوں، افراتفری کاماحول ہو، ایک دوسرے کے بارے میں شکوک وشبہات ہوں اور اختلاف و انتشار کا ماحول ہو۔ اسی طرح جب معاشرے میں اخلاق اور قانون کی بنیادیں ہل چکی ہوں توایسے حالات میں سیرت کی تعمیر کرنا مشکل ہے۔ بدقسمتی سے پوری دنیا میں کم وبیش اسی طرح کے حالات ہیں۔ ان حالات میںاپنے کو دین، اقدار اور اخلاق سے وابستہ رکھنا بہت مشکل ہے۔ دین کی جامعیت کاایک مظہر یہ بھی ہے کہ اس میں ہر طرح کے حالات کے لیے رہ نما خطوط موجود ہیں۔ چنانچہ قرآن وحدیث میں پرفتن دور کےلیے بھی کافی رہ نمائی موجود ہے۔ خاص کر احادیث میں اس کی کافی تفصیلات موجود ہیں۔ ذیل میں اس تعلق سے چند رہ نما خطوط کی نشان دہی کی کوشش کی جارہی ہے۔

۱۔آدمی جب خود ایمان پر ثابت قدم رہے تو دوسرے کی گمراہی اس کو نقصان نہیں پہنچائے گی

شریعت میںبُرائیوں پر نکیر کرنےاور معروفات کی ترویج کی تعلیمات دی گئی ہیں۔ بلکہ اس کو ایک فریضہ کے طوپر امت پر عائد کیاگیاہے۔ درجہ بدرجہ علم وصلاحیت کے مطابق معروف و منکر کا فریضہ انجام دینا تمام لوگوں پر ضروری ہے اور اس سے پہلوتہی تباہی کا باعث ہے مگر اس کے باوجود لوگ بُرائیوں کو ترک نہیں کررہے ہیں اور اللہ اور رسولؐ کی نافرمانیوں پر اڑے ہوئے ہیں تو ایسے لوگوں کی بُرائیاں اہل ایمان کو کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گی ۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنی فکر کرو،کسی دوسرے کی گمراہی سے تمہارا کچھ نہیں بگڑتا۔ اگر تم خود راہ راست پر ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم سب کو پلٹ کر جانا ہے۔‘‘ (المائدہ:۱۰۵)

اہل ایمان کو فتنے میں نہ ڈالو

آج کفار و مشرکین اور اہل باطل یہود ونصاریٰ مسلمانوں پر ایسے ٹوٹ پڑے ہیں جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ ایسے حالات میں اہل ایمان کو بصیرت اور سمجھ داری سے کام لینے کی ضرورت ہے اور بنیان مرصوص بن کر باطل کامقابلہ کرناہے۔ لیکن مسلمان ایسا نہ کرسکیں تو کم از کم اتنا ضرور کریں کہ وہ ایک دوسرے کے لیے فتنے نہ کھڑا کریں، ان کو فتنے میں نہ ڈالیں، ان کی گردنیں نہ اڑائیں، ان کی مصیبتوں پرخوشی کااظہار نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

’’جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ستم توڑا اور پھر اس سے تائب نہ ہوئے، یقیناً ان کے لیے جہنم کاعذاب ہے اور ان کے لیے جلائے جانے کی سزا ہے۔‘‘ (البروج:۱۰)

رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اہل ایمان کی گردنیں اڑانا کفر کی طرف پلنے کے مترادف ہے۔ ارشاد ہے:

’’حضرت عبداللہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس کا قتل کرنا کفر ہے۔‘‘(بخاری، کتاب الفتن ، باب لاترجعوابعدی کفاراً یضرب بعضکم وتاب بعض)

ایک دوسرے روایت میں ہے:

’’حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے انہوںنے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سناکہ تم لوگ میرے بعد کفر کی طرف مت پلٹ جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردنیں اڑانیں لگے۔ (حوالہ سابق)

گردنیں اڑانا فتنے کی ایک شکل ہے۔ قرآن وحدیث میں اس کی سخت مذمت کی گئی ہے مگر اسلام نے بجائے خود فتنے کو قتل سے سنگین جرم قراردیا ہے۔ارشاد ہے:

’’اوران کو وہاں سے نکالو جہاں سے انھوںنے تم لوگوں کو نکالاتھا اور فتنہ انگیزی قتل سے سخت جرم ہے۔‘‘ (البقرہ:۱۹۱)

اہل ایمان کو فتنوں میں ثابت قدم رہنا ہے

ایمان کے ساتھ آزمائش ضروری ہے۔ آزمائش مختلف شکلوں میں ہوتی ہے۔ فتنوں کے ذریعے بھی آزمائش ہوتی ہے، اہل ایمان ان میں صبر کی روش اختیار کرتے ہیں جب کہ اہل کفر اہل نفاق ان میں بے صبرا ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ ایمان والا بڑے بڑے مصائب کو جھیل لیتا ہے جب کہ کافر منافق مصائب میں جزع فزع کرنے لگتا ہے۔ ارشاد ہے:

’’اور لوگوںمیں بعض ایسے ہیں جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتے ہیں۔ اگر فائدہ حاصل ہوا تو مطمئن ہوگیا اور جو کوئی مصیبت آگئی تو الٹا پھر گیا۔ اس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی۔ یہ ہے صریح خسارہ۔(الحج:۱۱)

فتنوں میں مایوسی سے بچنا ہے

جب فتنے آسمان سے بارش کی طرح نازل ہورہے ہوں تو اہل ایمان پر بھی مایوسی کی کیفیت طاری ہونے لگتی ہے اور وہ سوچنے لگتے ہیں کہ ان فتنوں سے کیسے بچاجاسکتا ہے۔ ایسے موقع پر مایوسی کی کیفیت طاری ہوتی ہے، اہل ایمان کو اس سے بچنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کہتاہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر مگر جب وہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔‘‘(العنکبوت:۱۰)

اللہ تعالیٰ نےقرآن مجید میں ارشاد فرمایاہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتاہے اللہ اس کے لیے فتنوں سے نکلنے کاراستہ سُجھادیتا ہے۔ ارشاد ہے:

’’اور جو اللہ سے ڈرے تو اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ بتادیتا ہے۔‘‘ (الطلاق:۲)

قرب قیامت میں مختلف فتنے ظاہر ہوں گے

رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے بموجب بہترین زمانہ وہ ہے جس میں آپؐ موجود تھے پھر جس میں صحابہ کرام رہے پھر تابعین اور تبع تابعین کازمانہ تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ خیرکم ہوتاجائے گا اور شرکا ظہور ہوگا حتیٰ کہ قرب قیامت میں طرح طرح کے شرور ظاہر ہوںگے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’حضرت ابوموسیٰ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرب قیامت میں ایک مرحلہ ایسا ہوگا جس میں علم اُٹھ جائے گا اور جہل کا نزول ہوگا اور ہرج یعنی قتل و غارت گری کی کثرت ہوگی/ہرج سے مراد قتل ہے۔‘‘ (بخاری کتاب الفتن باب ظہور الفتن : ۷۰۶۴)

حدیث بالا میں جن علامتوں کے ظہور کی پیش گوئی کی گئی ہے وہ علامات ظاہر ہونی شروع ہوگئی ہیں۔ عصر حاضر گوکہ علوم و فنون کا دور کہلاتا ہے مگر دینی علوم اٹھتاجارہا ہے اور علما کی قدر کم ہوتی جارہی ہے۔ اور جہل ونامرادی کی تاریکی پھیلتی جارہی ہے اور قتل و غارت گری بھی پیدا ہورہی ہے یہاں تک کہ ہندوستان میں ہر گھنٹے اوسطاً ۴ قتل ہوتے ہیں۔ امریکہ میں ہر آدھے منٹ میں قتل کاکوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا ہے۔ بعض مسلم ممالک میں بھی خانہ جنگی کا فتنہ پیدا ہوچکا ہے جہاں لوگ ایک دوسرے کی گردنیں اڑارہے ہیں۔

’’حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہےرسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عنقریب فتنے ظاہر ہوںگے (یعنی اختلاف رونماہوںگے) ان میں بیٹھا ہوا شخص کھڑے سے بہتر ہوگا اور کھڑا ہوا شخص چلنے والے سے بہتر ہوگا جو ان میں پڑے گا وہ ہلاک ہوگا۔ پس جس کو کوئی پناہ گاہ یاجائے پناہ بچاؤ نظرآئے تو اس میں پناہ لے لے۔‘‘بخاری کتاب الفتن باب تکون فتنۃ، القالدفیہا خیرمن التاکہ)

قرب قیامت میں مختلف و متنوع فتنے ظاہر ہوں گے جیساکہ ایک حدیث میںاس کی وضاحت تفصیل سے کی گئی ہے۔ ارشاد ہے:

’’حضرت ابوہریرہؓسے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ دو عظیم لشکر آپس میں عظیم جنگ نہ کرلیں۔ دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا۔ قیامت قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تیس دجال کذاب ظاہر ہوںگے جن میں سے ہر ایک اپنی نبوت کا دعویٰ کرے گا۔ علم قبض کرلیاجائے گا، زلزلوں کی کثرت ہوگی، فتنے ظاہر ہوںگے، قتل وغارت گری کی کثرت ہوگی، مالی خوش حالی ہوگی یہاں تک کہ ایک مالداراپنے مال صدقے میں دے گا مگر اسے قبول کرنے والا کوئی نہ ہوگا، اونچی عمارتوں پر لوگ فخر جتایا کریں گے، آدمی کسی کی قبر سے گزرے گا تو کہے گا کہ کاش میں تمہاری جگہ ہوتا، مغرب سے سورج طلوع ہوگا، جب سورج مغرب سے طلوع ہوجائے گا تو تمام لوگ ایمان لے آئیں گے مگر اللہ کے ارشاد کے بموجب : ’’ان کاایمان معتبر نہیں ہوگا جو اس سے پہلے ایمان نہ لاچکا ہو یا ایمان میں عمل صالح نہ کیا ہو۔‘‘ (الانعام:۱۵۸)

اور قیامت اتنی جلدی قائم ہوجائے گی کہ دو لوگ کپڑے کی خریدو فروخت کررہے ہوں گے تو وہ کپڑے تہہ بھی نہ کرسکیں گے نہ ان کی بیع و شراء پوری ہوسکے گی۔ اور قیامت اتنی جلد قائم ہوجائے گی کہ آدمی اونٹنی سے دودھ نکالے گا اور اس کو استعمال نہیں کرسکے گا۔ اور قیامت اتنی جلدی قائم ہوجائے گی کہ آدمی حوض سے پانی نکالے گا مگر اسے پی نہ سکے گا۔ اور قیامت اتنی جلدی قائم ہوجائے گی کہ آدمی کھانے کے لیے لقمہ اٹھائے گا مگر اسے کھا نہیں سکے گا۔ (بخاری کتاب الفتن باب ۷۱۲۱/۲۵)

ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ قرب قیامت میں تاریک رات کی مانند فتنے ظاہر ہوںگے اور ان فتنوں میں لوگ صبح ایمان کی حالت میں کریں گے تو شام کو کفر کا مرتکب ہوجائیں گے اور شام ایمان کی حالت میں ہوگی تو صبح کو کفر کردیں گے۔ ان فتنوں میں بیٹھا ہوا شخص (یعنی سرگرم) کھڑے شخص سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والا سے بہتر ہوگا۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2014

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223