موجودہ دور میں انسانوں کی اکثریت کی ذہنیت ایسی بن گئی ہے یا حالات نے انھیں مجبور کردیا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔صبح اٹھنے کے بعد سے رات کو بستر پر جانے تک انھیں ہر لمحہ یہی دھن سوار رہتی ہے کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسہ آئے، اپنے لیے دنیاوی آسائشیں اور سہولیات فراہم ہوں، بینک بیلنس ہو،کشادہ مکانات، فلیٹس، جائیدادیں، لگژری کاریں اور دنیاوی عیش و آرام کے دیگر وسائل حاصل ہوں۔جو شخص جس پوزیشن میں ہے، اس کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اس سے بہتر پوزیشن میں ہو جائے۔اس کوشش میں اسے قوانین و ضوابط توڑنے اور اخلاقی حدود پامال کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں ہوتااور رفاہی کام کرنے اور ضرورت مندوں ، محتاجوں اور پریشان حال لوگوں کی مدد کرنے میں بھی کوئی دل چسپی نہیں ہوتی۔ذاتی مفاد ،خود غرضی اور نفسانیت ہر وقت اس کے پیش نظر رہتی ہیں۔دوسری طرف کچھ ایسے لوگ بھی سماج میں پائے جاتے ہیں جو مال ودولت کمانے کی فکرکرنے کو ناپسندیدہ سمجھتے ہیں ۔ان کے نزدیک یہ دنیاداری ہے،جو مذہبیت،دین داری اور تقویٰ کے مغایر ہے۔اس کے مقابلے میں فقروفاقہ کی زندگی گزارنا اور تنگی و ترشی سے رہنااجرو ثواب کا باعث ہے اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔یہ دونوں نقطہ ہائے نظر دوانتہائوں پر ہیں۔راہِ اعتدال ان کے درمیان ہے اور اسی کی اسلام نے تعلیم دی ہے۔
سطور ذیل میں مال و دولت کے تعلق سے اسلام کا نقطۂ نظر پیش کیا جارہا ہے۔
مال ودولت دنیاوی زندگی کی زینت ہے
دنیا میں زندگی گزارنے کے لیے مال و دولت ضروری ہے۔وہ نہ ہو تو جینا دوبھر ہوجائے۔اس لیے کہ معمولی سے معمولی چیز کا حصول مال کے بغیر ممکن نہیں ۔اسی بنا پر انسان کی فطرت میں اس کی محبت شامل ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہب وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۰ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا (آل عمران:۱۴)
’’لوگوں کے لیے مرغوباتِ نفس___ عورتیں، اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،چیدہ گھوڑے، مویشی، اور زرعی زمینیں___ بڑی خوش آیند بنادی گئی ہیں۔مگر یہ سب دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ ‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِيْنَۃُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا (الکھف :۴۶)
’’مال اور اولاد دنیاوی زندگی کی زینت ہیں‘‘
مال و دولت کی محبت انسان کے دل میں اس حد تک بیٹھ جاتی ہے کہ وہ اس کو عزت وعظمت کا معیار سمجھنے لگتا ہے۔مال انسان کی بڑائی کا پیمانہ بن جاتا ہے اور جو اس سے محروم ہو اسے سماج میں کچھ اہمیت نہیں دی جاتی۔ قرآن نے بنی اسرائیل کا ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ جب ان کے نبی نے ایک موقعہ پر انھیں اطلاع دی کہ اللہ تعالی نے طالوت نامی ایک شخص کوان کا بادشاہ بنا دیا ہے ،تاکہ وہ اس کی سربراہی میں اپنے دشمنوں سے جنگ کریں تو انھیں اس تقرر پر اس وجہ سے اعتراض ہوا کہ اس کے پاس تو مال و دولت کی فراوانی نہیں ہے۔انھوں نے اپنا اعتراض ان الفاظ میں ظاہر کیا:
اَنّٰى يَكُوْنُ لَہُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْہُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ (البقرۃ: ۲۴۷)
’’ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حق دار ہو گیا؟اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں ۔وہ تو کوئی بڑا مال دار آدمی نہیں ہے۔ ‘‘
مال و دولت وجہِ آزمائش ہے
اسلام کہتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو جو کچھ حاصل ہے وہ برائے آزمائش ہے۔اس کے ذریعے اللہ تعالی دراصل یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ ان نعمتوں کو پا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہے یا ان پر اترانے یا گھمنڈ کرنے لگتا ہے۔یہ دنیا درحقیقت انسانوں کے لیے دارالعمل ہے۔یہاں کچھ انسانوں کو دے کر اور کچھ کو محروم کرکے آزمایا جارہا ہے ۔ مال و دولت،زمین جائیداد،بیوی بچے اور دنیا کی تمام آسائشیں انسانوں کے لیے سامانِ آزمائش ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ (الانفال:۲۸)
’’اور جان رکھو کہ تمہارے مال اور تمھاری اولاد حقیقت میں سامانِ آزمائش ہیں ۔‘‘
عقل مند انسان وہ ہے جو اس آزمائش میں کام یاب ہونے کی کوشش کرے۔ اسے دنیا میں جو نعمتیں حاصل ہیں ان میں کھو کر نہ رہ جائے ،بلکہ انھیں اللہ کی خوشنودی کے راستے میں استعمال کرے اور ہمیشہ اس کا ذکر کرتا رہے۔جو لوگ ایسا نہیں کرتے، حقیقت میں وہ ناکام و نامراد لوگ ہیں ۔اسی لیے اہلِ ایمان کو ہوشیار کیا گیا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ (المنافقون:۹)
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو!تمہارے مال اور تمہاری اولادیں تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں۔‘‘
انفاق کا حکم
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ انسان جائز طریقے سے مال کمائے اور جائز کاموں میں اسے خرچ کرے۔اسے جو کچھ مال حاصل ہو اسے اپنی ذات پر،اپنے متعلقین پراور اپنے ماتحتوں پر خرچ کرے اور اس میں اللہ کے دوسرے بندوں کا بھی حق سمجھے۔اس نے جو کچھ کمایا ہے اس میںاگر چہ اس کی محنت اور جدوجہدشامل ہے،لیکن اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ایسا ممکن ہوا ہے۔دوسرے بہت سے انسان ہیں جو صحت مند ہیں، صلاحیتیں بھی رکھتے ہیں، لیکن مال و دولت سے محروم اور فقر و فاقہ سے دوچار ہیں ۔اس لیے شکر گزاری کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے مال میں دوسرے انسانوں کا بھی حق سمجھے۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
اٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِيْنَ فِيْہِ۰ۭ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَاَنْفَقُوْا لَہُمْ اَجْرٌ كَبِيْرٌ (الحدید:۷)
’’ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے۔جو لوگ تم میں سے ایمان لائیں گے اور مال خرچ کریں گے ان کے لیے بڑا اجر ہے۔‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ (البقرۃ:۲۵۴)
’’اے لوگو،جو ایمان لائے ہو! جو کچھ مال متاع ہم نے تم کو بخشا ہے،اس میں سے خرچ کرو۔‘‘
جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،قرآن میں جا بجا ان کی فضیلت بیان کی گئی ہے،ان کے کام کو تحسین کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور ان کے لیے بڑے اجرو انعام کا وعدہ کیا گیا ہے:
اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّيْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ۰ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرۃ:۲۷۴)
’’جو لوگ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں۔‘‘
اہل ایمان کے جو اوصاف قرآن کریم میں بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک وصف یہ بھی ہے:
وَالَّذِيْنَ فِيْٓ اَمْوَالِہِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ (المعارج:۲۴)
’’جن کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔‘‘
حرام کمائی جائز نہیں
اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان ہمیشہ یہ بات اپنے پیش نظر رکھے کہ جن ذرائع سے اس کے پاس مال آرہا ہے وہ جائز ہے یا نہیں؟ حلال و حرام کی پروا کیے بغیر مال و دولت سمیٹنا بڑے خسارے کا باعث ہے۔اس سے یہ تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس دنیا میں ہر طرح کی آسائشیں حاصل کرلے،لیکن آخرت کی زندگی میں وہ اس کے برے انجام سے نہیں بچ سکتا۔اس لیے اہل ایمان کو تاکید کی گئی ہے کہ حرام مال کھانے سے بچیں۔اللہ تعالی فرماتا ہے:
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (النساء:۲۹)
’’اے لوگو، جو ایمان لائے ہو!آپس میں ایک دوسرے کے مال باطل طریقوں سے نہ کھائو۔‘‘
یتیم کو سماج میں سب سے کم زور حیثیت حاصل ہوتی ہے۔باپ کے انتقال کی وجہ سے وہ سرپرستی اور حفاظت سے محروم ہو جاتا ہے،چنانچہ قریبی رشتہ دار ہی اس کا مال ہڑپ کرلینے اور اسے دبا کر رکھنے کی فکر میں رہتے ہیں۔قرآن نے ان لوگوں کو سخت تنبیہ کی ہے،جو یتیموں سے ہم دردی کرنے اور ان کی مدد کرنے کے بجائے ان کے مال پر قبضہ کر لیتے ہیں:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا۰ۭ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْرًا (النساء:۱۰)
’’جو لوگ ظلم کے ساتھ یتیموں کے مال کھاتے ہیں،درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ ضرور جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔‘‘
دو عبرت ناک مثالیں
مال و دولت کے معاملے میں انسان کا کون سا رویہ اللہ تعالی کو محبوب ہے اور کون سا رویہ اس کے غضب کو دعوت دیتا ہے؟ قرآن میں اس کی متعدد مثالیں بیان کی گئی ہیں۔یہاں دو مثالیں پیش کی جاتی ہیں:
پہلی مثال سورۂ کہف کی ہے۔اس میں دو انسانوں کے کردار پیش کیے گئے ہیں ۔ایک کردار ایسے انسان کا ہے جس کو اللہ تعالی نے خوب مال و دولت سے نوازا تھا۔اس کے پاس انگور کے دو باغات تھے۔ان کے گرد کھجور کے درختوں کی باڑھ لگی ہوئی تھی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین تھی۔اس کے باغات خوب پھل دیتے تھے اور اس کے نتیجہ میں اس کے پاس کافی دولت اکٹھا ہو گئی تھی۔لیکن یہ سب کچھ پاکر اس کے اندر شکرگزاری کا جذبہ پیدا نہیں ہوا، بلکہ وہ گھمنڈ میں مبتلا ہو گیااور جن لوگو ں کے پاس اس سے کم تر دولت تھی ان کو خود سے حقیر سمجھنے لگا۔دوسرا کردار اس کے دوست کا ہے،جس کے پاس اگرچہ اس کے مقابلے میں کم دولت تھی،لیکن وہ تواضع،خاک ساری اور شکر گزاری کے اوصاف سے متصف تھا۔اس دوست نے اس گھمنڈی اور مغرور شخص کو سمجھانے کی بہت کوشش کی ۔اس نے کہا کہ اللہ تعالی کا شکر ادا کر،کیوں کہ تیرے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ تعالی کی توفیق سے ہے۔اگر وہ چاہے تو تجھ سے ان آسائشوں کو چھین بھی سکتا ہے۔مگر اس تنبیہ اور فہمائش کا اس گھمنڈی انسان پرکچھ بھی اثر نہیں ہوا اور وہ اپنی سابقہ روش پر قائم رہا۔بالآخر اللہ تعالی نے اس کے باغات کو تباہ و برباد کر دیا اور وہ ہاتھ ملتا رہ گیا۔(ملاحظہ کیجئے سورۂ کہف، آیات:۳۲۔۴۴)
دوسری مثال قارون کی ہے۔یہ حضرت موسی ؑ کی قوم کا آدمی تھا ،لیکن ان کی نافرمانی کرکے اللہ کے دشمن فرعون کے ساتھ جا ملا تھا۔اللہ تعالی نے اسے بے انتہا مال و دولت سے نوازا تھا۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے خزانوں کی کنجیاں طاقت ور آدمیوں کی ایک جماعت مشکل سے اٹھاسکتی تھی۔اس کی قوم کے لوگوں نے اسے سمجھایاکہ اللہ تعالی نے تجھے جن نعمتوں سے نوازا ہے ان پر اس کا شکر ادا کر اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کر۔جس طرح اللہ تعالی نے تجھ پر احسان کیا ہے اسی طرح تو دوسرے انسانوں کے ساتھ بھلائی کر۔دنیا سے بھی اپنا حصہ لے اور آخرت کی بھی فکر کر۔مگر ان باتوں کا اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔اس نے بڑے متکبرانہ انداز میں جواب دیا کہ جو کچھ میرے پاس ہے اسے میں نے اپنے علم و ہنر کے بل بوتے پر حاصل کیا ہے۔بالآخر اللہ کا عذاب نازل ہوا اور اسے اس کے خزانوں سمیت زمین میں دہنسادیاگیا۔ (القصص:۷۶۔۸۲)
مال و دولت کے معاملے میں اسلامی نقطۂ نظر سے صحیح راہ افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کی ہے۔اس کی نظر میں مال و دولت کی فراوانی تقویٰ کے منافی نہیں ہے ،بلکہ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ انسان مال حاصل کرنے میں حلال ذرائع اپنائے ،حرام طریقوں سے بچے اور جو کچھ اسے حاصل ہو اسے اپنی ذات پر اور اپنے متعلقین پر خرچ کرنے کے ساتھ اللہ کے دوسرے بندوں کا بھی اس میں حق سمجھے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2014