رنج و غم اسباب اور علاج

(2)

علاج

علم و آگاہی

رنج وغم اوراضطراب سے بچنے کے لیے علم و آگہی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ علم حق کا ، اپنی ذات کا اوراپنے دور کے احوال وکوائف کا ، جس دنیا میں انسان رہتا ہے اورجن چیزوں سے اس کا واسطہ پڑتا ہے ، ان سے واقفیت ضروری ہے ۔ آج انسان کائنات اورکائنات کی چیزوں کے بارے میں بہت باریکی سے مطالعہ کررہا ہے ۔ مگر اپنے بارے میں اسے کچھ نہیں معلوم۔ وہ اپنے سے واقف ہونا چاہتا بھی نہیں۔

اس عدم واقفیت اوربے خبری کی وجہ سے وہ حقیقی سکون سے نا آشناہی رہتا ہے ۔ حقیقی سکون و مسرت کے لیے خود آگہی ضروری ہے ۔

اس دنیا کواللہ تعالیٰ نے آزمائش گاہ بنایا ہے ۔ انسان کوخیر و شر کی تمیز بخشی گئی ہے ۔ اس سے اس کا امتحان لینا مقصود ہے ۔ انسان کی حیثیت دنیا میں ایک امتحان دینے والے طالب علم کی سی ہے ۔ امتحان میں  اگروہ کامیابی حاصل کرتا ہے تو آخرت اسی کے لیے ہے ۔ اگر وہ خدا کی رہنمائی میں زندگی بسر کرتا ہے تواس کے لیے کسی خوف کی کوئی بات نہیں۔اسے خدا پر یقین بھی ہوگا اور اس کی کتنی ہی امیدیں اپنے رب سے وابستہ ہوںگی ۔ یا س اورنا امیدی اس کے پاس نہیں آسکتی۔ حُسن ظُن باللہ (اللہ سے اچھی اُمید ) اس کی زندگی کا سرمایہ ہوگا۔

علم کے بعد ہی انسان کے درجات بلند ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مقصد زندگی سے واقف ہوکر آگے بڑھتا اورکامیابی کے مراحل طے کرتا چلا جاتا ہے ۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ۝۰ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ۝۰ۭ (مجادلہ:۱۱)

’’ اللہ ان لوگوں کے درجات بلند کرے گا جوتم میں سے ایمان لائے اورجنہیں علم عطا کیا گیا ہے۔‘‘

حسد سے اجتناب ، وسعت قلبی

دُکھوں اور غموں سے نجات پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے اندر وسعت قلبی، کشادہ دلی اور وسعت نظر پیدا کرے ۔ ساری دُنیا کواللہ کا کنبہ سمجھے ۔ اللہ تعالیٰ کے انعامات اوراس کی نوازشوں کی وسعتوں کوپیش نظر رکھے۔ اسی طرح انسان حسد سے بچ سکتا ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔

اِیَّاکُمْ وَالْحَسَدَ فَاِنَّ الْحَسَدَ یَاکُلُ الْحَسَنَاتِ کَمَا تَاکُلُ النَّارُ الْحَطَبَ(ابوداؤد)

’’حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کواس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑی کوکھا جاتی ہے ۔‘‘

انسان کوجاننا چاہئےکہ کسی کے برا چاہنے سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا ۔اگر اللہ کی مشیت نہیں ہے تو حاسد کے برا چاہنے سے اس کے دشمن کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔ حاسد کوسوائے رنج وغم کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔ لہٰذا حسد سے اپنے آپ کومحفوظ رکھنا چاہئے ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا ہے ۔

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللہُ بِہٖ بَعْضَكُمْ عَلٰي بَعْضٍ (نساء : ۳۲)

’’اللہ نے جوتم میں سے ایک کودوسرے پر برتری دے رکھی ہے اس کی تمنا نہ کرو‘‘

اور حاسد وں سے بچنے کے لیے اللہ نے جودعا سکھائی ہے اس کا وِرد کرتے رہنا چاہئے ۔

سورہ فلق ؍ الناس

سخاوت، فیاضی ، ایثار

دکھوں، غموں ، کا ایک علاج یہ ہے کہ انسان اپنے اندر فیاضی ، ایثار پسندی کے اوصاف پیدا کر ے ۔ فیاضی جودو سخاوت ، ایثار وقربانی یہ بہت اہم اورمطلوبہ صفات ہیں جن سے خیر کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ انسان اپنے کسی حق کوبخوشی کسی دوسرے کوبخش دے ، اپنا حق چھوڑدے ، اپنے حق کا مطالبہ نہ کرے ، اپنا بچا ہوا مال دوسروں پر خرچ کردے یا اپنی ضروریات کے باوجود دوسروں پر خرچ کرے ان تمام صورتوں میں انسان کونہ صرف یہ کہ غم سے نجات ملے گی بلکہ اسے وہ روحانی خوشی حاصل ہوگی جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ اس سے خوشگوار تعلقات بھی پیدا ہوں گے ۔ آخرت میں درجات بھی بلند ہوںگے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗیكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ( تغابن: ۱۶)

ترجمہ: اوراپنے مال خرچ کرویہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے ۔ جواپنے  دل کی تنگی سے محفوظ رہ گئے بس وہی فلاح پانے والے ہیں ۔‘‘

وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ كَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۝۰ۭۣ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗیكَ ھمُ الْمُفْلِحُوْنَ (حشر: ۹)

ترجمہ: اوراپنی ذات پر دوسروں کوترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کہ جولوگ اپنے دل کی تنگی سے بچالیے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :

رَحِمَ اللہُ رَجُلاً سَمْحًا اِذَا بَاعَ وَاِذَا اشْتَریٰ وَاِذَا اقْتَضٰی (بخاری)

’’اللہ اُس شخص پر رحم فرمائے جوفیاض ہے اورجب وہ بیچے جب خریدے اورجب وہ اپنے حق کا مطالبہ کرے ۔‘‘

اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کودعادی ہے جوزندگی میں مختلف مواقع پر فیاضی وایثار سے کام لیتا ہے یعنی جب گاہک کوتول کردیتاہے توترازو کا پلڑا جھکا رکھتا ہے ۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ کم نہ تولے بلکہ زیادہ تولے ۔ جب خود خریدتا ہوتا ہے تو زیادہ کا حریص نہیں ہوتا ۔ اسی طرح جب کسی سے اپنے حق کا تقاضا کرتا ہے تونرمی سے کام لیتا ہے اورضرورت محسوس ہوتی ہے تومعاف بھی کردیتا ہے۔

السَّخِیُّ قَرِیْبٌ مِّنَ اللہِ ، قَرِیْبٌ مِّنَ النَّاسِ ، قَرِیْبٌ مِّنَ الْجَنَّۃِ بَعِیْدٌ مِّنَ النَّارِ (ترمذی )

’’سخی خدا سے قریب ہے ، لوگوں سے قریب ہے ، جنت سے قریب ہے دوزخ سے دور ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اسی بات کی تعلیم دی ہے کہ لوگ دوسروں کے حقوق کے ادا کرنے میں فیاضی کوپیش نظر رکھیں۔ معاملات میں خوشگواری اسی سے پیدا ہوسکتی ہے ۔

وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ (بقرہ: ۲۳۷)

’’اورآپس میں حق سےبڑھ کردینا نہ بھولو۔ یقیناً اللہ اسے دیکھ رہا ہے جوکچھ تم کرتے ہو۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اَنْفِقِیْ وَلَا تُحْصِیْ (بخاری مسلم) خرچ کرو گنومت

انسان پر اللہ کی اتنی نعمتیں ہیں کہ ان کا شمار بھی نہیں کیا جاسکتا ، جب انسان ان نعمتوں کا احساس نہیں کرتا توناشکر ی کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انسان کی اس کمزوری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

آتٰكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ۝۰ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَا۝۰ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ (ابراہیم :۳۴)

’’جس نے وہ سب کچھ یا تمہیں دیا جوتم نے مانگا اگر تم اللہ کی نعمتوں کوشمار کرنا چاہوتو نہیں کرسکتے۔ حقیقت یہ کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اورناشکر ا ہے۔‘‘

اگر ان ہدایات پر عمل کیا جائے توحسد کی بیماری کے پیدا ہونے کی گنجائش نہیں رہتی۔

احساس نعمت

دکھ وغم سے نجات کا ایک ذریعہ احساس نعمت ہے ۔ کسی بھی چیز کواس کی ضد سے آسانی سے پہچانا جاتا ہے ۔ اگر اندھیرا نہ ہوتا توروشنی کا احساس نہ ہوتا ، اگر ٹھنڈک نہ ہوتی توگرمی کا مزانہ ہوتا، اگر بھوک نہ ہوتی توکھانا کھانے کا کوئی لطف نہ تھا۔ اگرپیاس نہ ہوتی توپانی پینے سے ہمیں کوئی لذت حاصل نہ ہوتی۔ اگر دکھ تکلیف نہ ہوتی توخوشی ومسرت کا احساس بھی نہ پاتا۔ اسی طرح جونعمتیں ہمیں میسر ہیں جب یہ ہم سے چھن جاتی ہیں یا ان میں کمی آتی ہے توہم دکھ میں پڑجاتے ہیں۔

انسان کو جومختلف مصیبتیں پیش آتی ہیں ان سے اسے ان نعمتوں کی قدر وقیمت کا احساس ہوتا ہے جوخدا نے دے رکھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ دنیا کی تمام نعمتوں سے تمام انسانوں کونہیں نوازتا۔ کچھ کوعلم وحکمت سے سرفراز کرتا ہے توکچھ کودولت وثروت سے ، کسی کو خطابت کافن عطا کرتا ہے توکسی کوفن تحریر ، کسی کواچھا وخوبصورت قوی جسم عطا کرتا ہے توکسی کو پستہ قد اورکمزور پیدا کرتا ہے  اس میں بڑی حکمت پائی جاتی ہے ۔ اگر یہ حکمت پیش نظر نہ ہوتوجوکچھ آدمی کو ملا ہے اس کی بھی وہ قدر نہیں کرسکتا ۔ اس کو حقیر سمجھے گا اورصبر وشکر کے جذبات اس کے دل میں پیدا نہیں ہوسکتے۔ وہ ہمیشہ دکھی ہی رہے گا ۔

اس دکھ کا بہترین علاج یہی ہے کہ انسان ان نعمتوں کا ادراک کرےجواس کواللہ نے عنایت کی ہیں۔ یہ غم کا علاج بھی ہے اوراسی سے اس کے اندر شکر کا جذبہ بھی پیدا ہوگا اورشکر اور قدر شناسی کی وجہ سے اللہ اس کومزید نوازے گا ۔

وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ  (النحل : ۵۳)

’’تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اس کی دی ہوئی ہیں۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ  وسلم نے حصولِ قناعت کا طریقہ بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اُنْظُرُوْا اِلٰی مَنْ ہُوَا اَسْفَلُ مِنْکُمْ وَلاَ تَنْظُرُوْ ا اِلٰی مَنْ ہُوَفَوْقَکُمْ فَہُوَ اَجْدَرُ اَنْ لَّا تَزَدَرُ وْ ا نِعْمَۃَ  اللہِ عَلَیْکُمْ (مسلم)

’’تم ان لوگوں کی طرف دیکھو جوتم سے فرو تر ہوں ، اُن لوگوں کی طرف مت دیکھو جو (دنیوی پہلو سے ) تم سے بڑھ چڑھ کر ہوں۔ یہ طرزِ عمل اس بات کے حصول کے لیے زیادہ مناسب ہے کہ تم پراللہ کی جونعمت ہے وہ تمہاری نگاہ میں حقیر نہ ہو۔‘‘

اِذَا نَظَرَ اَحْدُکُمْ اِلٰی مَنْ فُضِلَ عَلَیْہِ فِی الْمَالِ وَالْخَلْقِ فَلْیَنْظُرُ اِلٰی مَنْ ہُوَاَسْفَلَ مِنْہُ ( بخاری مسلم)

’’تم میں سے جب کوئی ایسے شخص کودیکھے جومال ودولت وجسمانی ساخت کے لحاظ اس سے بڑھ کر ہو تواُس کو چاہئے کہ کسی ایسے شخص کو دیکھ لے جوان چیزوں میں اس سے کمتر ہو۔‘‘

اس سے آدمی کے اندر حرص ، طمع کے بجائے صبر وشکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔

اللہ تعالیٰ اس بات کوپسند کرتا ہے کہ بندے اس کے شکر گزار رہیں ۔ ارشاد ربانی ہے وَاِنْ تَشْکُرُوْ ا یَرْضَہُ  لَکُمْ (زمر:۷)’’اگرتم شکر کرو تووہ تمہارے لیے پسند کرے گا ۔ اللہ کی نعمتوں کا اعتراف جذبہ تشکر اور اظہار ممنونیت کے ساتھ کیا جائے ۔ اس بات کا اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے ۔وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ(الضحی: ۱۱) اپنے رب کی نعمتوں کوبیان کرو ۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کوانسان کوشعور حا صل کرنا چاہئے تاکہ اس کا دل جذبۂ تشکرسے لبریز ہوجائے۔ کیونکہ احساس نعمت کے بغیر انسان ان نعمتوں کی قدر نہیں کرسکتا اورناقدری کا انجام برا ہوتا ہے ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ نعمتوں کے بارے میں پوچھ گچھ کرے گا ۔ارشاد ربانی ہے : ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ (سورہ تکاثر) ’’پھر اس دن تم سے ضرور نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا کفران نعمت اورناشکر پرسخت عذاب کی وعید ہے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِيْ لَشَدِيْدٌ (ابراہیم: ۷) اگرتم ناشکر ی کروگے تویقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے ۔

شکر گزاری کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ مزید برکتوں اورانعامات سے نوازتا ہے ۔

وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ  (ابراہیم:۷)

’’جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کردیا کہ اگر تم شکر گزاری کروگے توبیشک میں تمہیں زیادہ دوںگا۔‘‘

وَمَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِہٖ (نمل: ۴۰)

’’شکر گزار اپنے ہی نفع کے لیے شکر گزاری کرتا ہے ۔‘‘

ناشکری کا انجام اس دنیا میں بھی براہوتا ہے چنانچہ جولوگ یاقومیں ناشکری اورکفرانِ نعمت پر اتر آتی ہیں اللہ تعالیٰ ان کوہلاک کردیتاہے ارشاد ہے :

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ بَدَّلُوْا نِعْمَتَ اللہِ كُفْرًا وَّاَحَلُّوْا قَوْمَہُمْ دَارَ الْبَوَارِ۝۲۸ۙ (ابراہیم: ۲۸)

’’تم نے دیکھا ان لوگوں کوجنہوںنے اللہ کی نعمت پائی لیکن شکر کوکفرسے بدل ڈالا تووہ خود بھی ہلاک ہوگئے اوراپنے ساتھ اپنی قوم کوبھی ہلاک کے کھڈ میں گرادیا ۔‘‘

ناپسندیدہ باتوں کوہلکے پھلکے انداز میں لینا

عفو ودر گزر

غموں اور دکھوں کا ایک علاج یہ ہے کہ آدمی کواپنی حساس طبیعت پر کنٹرول ہو۔ وہ معاملات اور باتوں کوجذباتی انداز میں ہر گز نہ لے ، نہ ان کوبڑھا چڑھا کردیکھے اورنہ ان کو طول دے ۔ ایسی چیزوں کو حقیقت پسندی کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز میں لے۔ اس سے اس کے اندر منفی جذبات پیدا نہیں ہوں گے ۔ پھر وہ ریشا ن ہونے سے محفوظ رہے گا۔

مشکلات اوردشواریاں سبھی کوپیش آتی ہیں۔ اگر آدمی ان میں الجھے گا توالجھتا ہی جائے گا ۔ صدمہ پر صدمے انسان کوبیکار کردیتاہے ۔ اس لیے ان پر زیادہ توجہ دینے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ توجہ دینے  اورکرنے کے کام زندگی میں بہت سے ہیں۔جب کسی کی طرف سے کوئی ایسی بات آئے جوآپ کے شایانِ شان نہ ہو تو در گزر سے کام لیں ۔ اس کی پروا نہ کریں۔کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ کسی سے کوئی معاملہ کررہے ہیں یا اس سے اپنے کسی حق کا مطالبہ کررہے ہوتے ہیں تووہ شور وغل کرنے لگتا ہے ۔ چیخ پکار پر اترآتا ہے توآپ ایسے موقع پر صبر وضبط سے کام لیں۔ مشتعل ہر گز نہ ہوں۔

عفودر گزر اور شفقت و مروت جیسی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جوباتیں بالعموم جھگڑے کا سبب بنتی ہیں ان کوہنسی اور پر لطف طریقے سے ٹالا جاسکتا ہے ۔

چند واقعات اس سلسلے میں ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔

حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہاتھا ۔ اس وقت آپ کے جسم پر نجران کی بنی ہوئی موٹے کنارے کی چادرتھی ۔ ایک اعرابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا  ۔ اس نے نہایت سختی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کوپکڑ کر کھینچا ۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پرچادر کے کنارے کا نشان پڑ گیا۔ پھر اس نے کہا مجھے بھی اللہ کے اس مال میں سے جوتمہارے پاس ہے کچھ دینے کا حکم دو ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے اور ہنسے اوراس کو کچھ دینے کا حکم فرمایا۔ (بخاری)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدوی کی بد تمیزی کا نوٹس نہیں لیا بلکہ ہنس کر ٹال دیا اوراس کا مطالبہ بھی پورا کردیا ۔اسی طرح ایک یہودی کے بارے میں آتا ہے ۔

ایک  یہودی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سختی سے پیش آیا اور بولا محمد! میرا قرض ادا کردو مجھے معلوم ہے کہ بنوہاشم (قرضوں کی ادائیگی میں ) بہت ٹال مٹول کرتے ہیں۔

(قریب تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اس کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرتے )۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواور آپ کے خاندان کومطعون ٹھہرایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے صرف مسکرا کر ٹال دیا اس کا قرض ادا کرنے کا حکم دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بُرد باری اورتحمل کودیکھ کر وہ یہودی مسلمان ہوگیا۔

امیرالمومنین حضرت عمربن عبدالعزیزؒ کا گزر ایک شخص کے پاس سے ہوا ۔ دھوکے سے آپ اس شخص سے ٹکرا گئے ۔ اس نے برجستہ کہا:’’ اندھے ہو؟‘‘ امیر المومنین نے کہا ۔ ’’نہیں‘‘ ان کے مصاحب وزیر نے اس شخص کوڈانٹنا چاہا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ بولے : اس نے توکچھ بھی نہیں کیا ہے ۔ اس نے تومجھ سے بس اتنا ہی پوچھا تھا کہ آپ اندھے ہیں تو میںنے اسے جواب دے دیا کہ نہیں (میں اندھا نہیں ہوں۔)

ایک شخص امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے پاس آیا اورزور وشور سےکہا کہ ’’خدا سے ڈرو‘‘ امام صاحب کے مصاحبین نے اسے ڈانٹنا پھٹکارنا چاہا ۔ امام صاحب نے فرمایا :’’ چھوڑو اسے جانے دو، ہم ایسی بات کے زیادہ محتاج ہیں۔‘‘سیرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم، اصحاب رسول، بزرگانِ دین کے اس طرح کے واقعات اگر جمع کئے جائیں توایک کتاب مرتب ہوسکتی ہے ۔

خود مولانا مودودیؒ کی زندگی کا یہ بہت روشن پہلوہے کہ آپ کی مخالفت میں لوگوں نے تحریک چلائی، فتوے جاری کیے، مسجدو محراب کا استعمال کیا گیا ، پمفلٹ وکتابچے لکھے گئے ، جلسے وجلوس کیے گئے اورجب آپ کے رفقاء نے کہا کہ ان کا جواب دیا جائے تومولانا نے کہا کہ ’’اس کے لیے میرے پاس وقت نہیں ہے ۔ دوسرے، امت کا اگر کچھ لوگوں پر بھروسہ ہے توباقی رہے گی ۔ اگر میں ان کے خلاف جوابی کارروائی شروع کردوںگا توپھر امت کس طرح بھروسہ کرے گی؟

(جاری)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2016

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223