نا خوشگوار باتوں اور مصیبت کے وقت نرمی کا رویّہ اختیار کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : ’’ جولوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اللہ تعالیٰ ان نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (عمران :۱۳۴) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’’اے عائشہ! اللہ نرم خو ہے ، نرم خوئی کوپسند فرماتا ہے اورنرم خوئی پر وہ کچھ عطا کرتا ہے جودرشتی وسختی پر عطا نہیں کرتا اورنہ نرم خوئی کے سوا کسی دوسرے وصف پر عطا کرتا ہے ۔‘‘ (مسلم)’’جوشخص نرمی سے محروم ہے وہ تمام بھلائیو ں سے محروم ہے ۔‘‘ (مسلم)
قناعت
دکھ ورنج سے نجات دلانے والی چیز قناعت بھی ہے ۔ جس شخص کو قناعت کی دولت نصیب ہوگئی اس کوکوئی رنج وغم چھو نہیں سکتا۔ کیونکہ جوکچھ اسے ملا ہے اس پر وہ اللہ کا شکر گزار رہے گا اور جواس کو نہیں ملےگا اس کے لئےفکر مند نہیں ہوگا ۔ دولت کی فراوانی اورعیش وعشرت کی آرزو اگر نہیں ہے اور نہ عزت وشہرت کی کوئی تمنا ہے توپھر تو آدمی کتنے ہی غم وآلام سے نجات پاچکا ہوگا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’فلاح کامرانی سےہمکنار ہوگیا وہ شخص جس نے اسلام اختیار کیا ۔ رزق بھی بقدر ضرورت اسے ملا اور خدا نے جوکچھ عطا کیا اس پر اسے قانع بنادیا ۔‘‘ (مسلم)
موجودہ دور میں انسان کی پریشانی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے اپنا معیار زندگی بہت بلند کرلیا ہے ۔ ہرفرد اونچے محلوں کا خواب دیکھتا ہے ۔ ہر بیوی اپنے شوہر سے تاج محل کا مطالبہ کرتی نظر آتی ہے ۔ جب شوہر شاہجہاں نہیں تو لال قلعہ، آگرہ کا قلعہ کیسے تعمیر ہو ، تاج محل کیسے بنے۔ اولاد اپنے والدین سے شاہانہ ٹھاٹ باٹ کا مطالبہ کرتی ہے ۔ آخر کسی کی بھی توساری چاہتیں دنیا میں نہ پوری ہوئی ہیں اور نہ ہوسکتی ہیں ۔ سب کوسب نعمتیں نہیںملتیں۔ پر سکون زندگی گزارنے کے لیے سوائے قناعت کے کوئی چارہ نہیں ہے ۔
ایمان ، توکل، تقسیم رزق کاضابطہ
دکھوں اورغموں سے نجات کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ انسان اللہ پر ایمان لائے ، اس پر توکل کرے اوراللہ کے تقسیم رزق کے ضابطے کو سمجھے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’یقینا جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے ، پھر اس پر جم گئے ، ان کےلیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوںگے ۔ ایسے لوگ جنت میں جانے والے ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ (سورۃ الاحقاف :۱۳۔۱۴)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اے لوگو! اللہ کی نا فرمانی سے ڈرتے رہنا اورروزی کی تلاش میں غلط طریقہ مت اختیار کرنا ۔ اس لیے کہ کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرسکتا جب تک کہ اسے پورا رزق نہ مل جائے۔ اگر چہ اس کے ملنے میںتاخیر ہوسکتی ہے ۔‘‘ (ابن ماجہ)
’’اگرتم لوگ اللہ پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس پرتوکل کرنے کا حق ہے توتم کووہ اس طرح روزی دے گا جس طرح کہ پرندوں کودیتا ہے۔ وہ صبح کوبھوکے اپنے آشیانوں سے نکلتے ہیں اورشام کوپیٹ بھرے واپس آتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
’’جواللہ سے ڈرے گا وہ اس کوغم ورنج ، دکھ وتکلیف سے نجات دے گا اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا کرے گا جہاں اس کا وہم وگماں نہیں پہنچے گا۔‘‘ (سورہ طلاق :۲۔۳)
’’زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔‘‘ (سورہ ہود:۶)
’’کتنے ہی جانور ہیں جواپنا رز ق اُٹھائے نہیں پھرتے ، اللہ اُن کو رزق دیتا ہے اورتمہارا رازق بھی وہی ہے وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ (سورۃ عنکبوت: ۶۰)
’’اللہ ہی ہےجواپنے بندوں میںسے جس کوچاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اورجس کا چاہتا ہے تنگ کرتاہے ، یقیناً اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے ۔‘‘ (سورۃ عنکبوت: ۶۲)
وقت کا صحیح استعمال
دکھ وغم سے نجات کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ ہمارے پاس جووقت ہے اس کا صحیح استعمال کیا جائے اوریہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ہم شعوری طور سے اپنی زندگی کا کوئی مقصد ونصب العین متعین کریں، زندگی کا کوئی لائحہ عمل بنائیں۔ زندگی میں ہمیں جو مہلت عمل ملی ہے اگر ہم اس کی قدر نہیں کریں گے تودنیا میں بھی پچھتانا پڑے گا اورآخرت میں بھی ۔ کفِ افسوس ملیں گے ۔ وقت کا سب بہتر استعمال یہ ہے کہ ہم نوجو ا نی میں اللہ کے دین کو سیکھنے اور اسے سکھانے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کریں اور اس کی تبلیغ واشاعت کریں۔وقت اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے جو بہت تیز رفتاری سے گزرتا چلا جاتا ہے برف کے پگھلنے کی طرح خاموشی سے پگھلتا رہتا ہے ۔ ہرگزرنے والے لمحے کے ساتھ ہی انسان کی عمر گھٹتی رہتی ہے ۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ہی مہلت عمر کا ایک دن کم ہوجاتا ہے جوپھر کبھی واپس آنے والا نہیں ہے ۔ دنیا کے کامیاب ترین انسان وہی لوگ ہوں گے جنہوں نے وقت کا بر وقت صحیح استعمال کیا اور آخرت میں بھی وہی کامیاب قرار دیئے جائیں گے ۔ جن لوگوں نے وقت کا صحیح استعمال نہیں کیا وہ دنیا میں بھی ناکام ثابت ہوئے اور آخرت میں بھی نامراد ہوںگے ۔ اسی لیے باری تعالیٰ نے وقت کی قسم کھا کر متنبہ فرماتے ہوئے فرمایا : ’’ زمانے کی قسم بیشک تمام (ایسے انسان جووقت کا صحیح استعمال نہیں کرتے) گھاٹے میں ہیں۔‘‘(العصر )
نبی اکرم ﷺ نے بار بار تاکید کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی ہے ۔’’فراغت کومشغولیت سے پہلے غنیمت جانو۔‘‘
’’ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے ان کے سلسلے میں دھوکا کھاتے ہیں (۱) صحت وتندرستی (۲) فارغ البالی وفرصت (یعنی کام کاج سے فراغت اور فرصت کے لمحات) (البخاری)ایک بار حضرت عبداللہ بن عمرؓ کونصیحت کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تو شام کو صبح کا انتظار نہ کر اورصبح کوشام کا انتظار نہ کر تندرستی کی حالت میں (اللہ کی اطاعت اورنیکی کا اتنا ذخیرہ جمع کرلے جس سے بیماری کے وقت کوتاہیوں کی تلافی ہوسکے اور اپنی زندگی میں نیکی کا اتنا سرمایہ فراہم کرے جومرنے کے بعد تیرے کام آئے ۔ (بخاری ۔ترمذی)
رضا الٰہی پر خوش رہنا
غم اور دکھ کا سب سے اہم علاج ہے ایمان اوررضائے الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کردینا ۔ ایک انسان کی خوش بختی اوربدنصیبی کا دارو مداراس پر ہے کہ وہ اللہ کے فیصلوں کو برضا ورغبت تسلیم کرتا ہے یا نہیں۔ انسان کوخوشی اسی وقت نصیب ہوگی جب کہ وہ اللہ کے فیصلوں کوخوش دلی سے تسلیم کرلے۔ وہ اپنے بارے میں اتنا نہیں جانتا یقیناً اللہ اس کے متعلق اوراس کی ضروریات کے بارے میں جانتا ہے ۔ آدمی کا علم ناقص اور محدود ہے اس لیے اسے خدا کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے ۔ رب کائنات نے فرمایا:
’’ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو ۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اوروہی تمہارے لئے بری ہو ۔ اللہ جانتا ہے ، تم نہیں جانتے ۔‘‘ (بقرہ: ۲۱۶)
’’ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں نہ ناپسند ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلا رکھ دی ہو۔‘‘ ( نساء ۔۱۹)
جب معاملہ یہ ہے تو پھر انسان کو ہر معاملے میں خدا کی مشیت کے آگے سر تسلیم خم کردینا چاہئے ۔ بندے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے تواس کے ناراض وخوش ہونے سے اس میں تبدیلی نہیں آئے گی ۔ بلکہ یہ چیز اس کو دکھ، رنج اورغم پہنچانے والی بنے گی ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ یہ ابن آدم کی خوش نصیبی میں سے ہے کہ خدا کی جانب سے اس کے لیے جوبھی فیصلہ ہو وہ اس پرراضی رہے اوریہ کہ ابن آدم کی بدنصیبی میں سے ہے کہ وہ خدا سے خیر اور بھلائی طلب کرنا ترک کردے اور ابن آدم کی بد بختی ہے کہ خدا کا فیصلہ اس کے حق میں ہو اس پروہ ناخوش ہو۔‘‘
ایک مومن کا شیوہ تویہ ہے کہ جب اس پر مصیبت آتی ہے تووہ ہائے ہائےنہیں کرتا ، شکوے گلے نہیں کرتا ، بلکہ منجانب اللہ اس کو سمجھتا ہے اورصبر کرتا ہے ۔ صبر کے نتیجہ میں اس کے درجات بلند ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جب وہ کسی نعمت وخوشی سے نواز ا جاتا ہے تو آپےسے باہر نہیں ہوتا ، ڈینگیں نہیں مارتا بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے ۔ اس طرح بھی اس کے درجات بلند ہوجاتے ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ مومن کی نرالی شان ہے اس کے ہر کام میں بھلائی ہے اوریہ خصو صیت صرف مومن کو حاصل ہے ۔ اگر اسے خوشی ہو توشکر کرے ، یہ اس کے لیے بہتر ہے اورجب اُسے کوئی تکلیف پہنچے توصبر اختیار کرے، یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے ۔‘‘
دعا
دکھ ورنج سے نجات دلانے کا ایک اہم ذریعہ دعا ہے ۔دعا مومن کا ایک بہت ہی اہم ہتھیار ہے یہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے یوں تو ایک مومن بندہ ہر وقت اپنے رب کے حضور پلٹتا ہے اور اسی سے لولگاتا ہے مگر خاص طور سے جب کہ مصیبت وآزمائش کی گھڑیاں ہو، بے چینی و اضطراب ، الم ورنج سے دوچار ہو اس وقت تواس کرب وبے چینی سے نکالنے والی ، غم ودکھ کو دور کرنے والی دعا ہوتی ہے ۔ وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتا ہے اس کے حضور دعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے اس سے اس کو سکون، چین ، راحت ملتی ہے ، کرب واضطراب بے چینی کا فور ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بار بار اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کواخلاص کے ساتھ پکاریں
’’مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروںگا۔‘‘(المومن ۔۶۰)
’’اللہ کوپکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے ۔ ‘‘(اعراف :۲۹)
’’پس دین کواسی کے لیے خالص کرکےاُسے پکارو۔‘‘(المومن :۲۵)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحم کی دعا نہ ہو، تواللہ اسے تین صورتوں میں سے کسی صورت میں قبول کرلیتا ہےیا تو اس کی دنیا ہی میں دعا قبول کرلی جاتی ہے یا اُسے آخر ت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے یا اسی درجے کی کسی برائی کواس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے ۔ صحابہ ؓ نے عرض کیا اب ہم بہت دعا کریں گے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا فضل ہی بہت زیادہ ہے ۔‘‘ (احمد)
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’دعا بہر حال نافع ہے ان بلاؤں میں جونازل ہوچکی ہیںاوران کے معاملے میں بھی جوابھی نازل نہیں ہوئی ہیں ۔ پس اے خدا کے بندودعا کا اہتمام کرو۔‘‘(ترمذی ، احمد)ایک اور موقع پرفرمایا : ’’ قضا کوکوئی چیز ٹال نہیں سکتی مگر دعا اورعمر کوئی چیز بڑھا نہیں سکتی مگر نیکی۔‘‘(ترمذی)
مندرجہ بالا دونوں حدیثوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دعا ایک بہت ہی اہم چیز ہے جس سےبندے کے مسائل حل ہوجاتے ہیں مصائب ٹل جاتے ہیں ، خوشحالی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور سکون حاصل ہوتا ہے ۔
ذکر
دکھ ورنج سے نجات دلانے والی چیز ذکر اللہ ہے ۔ ذکر الٰہی سے دلوں کوسکون وطمانیت حاصل ہوتی ہے اوررنج والم وبے چینی کی کیفیت دور ہوجاتی ہے ۔ ذکر الٰہی اسلام وعبادات کی روح ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’یہ وہ لوگ ہیں جوایمان لائے اورجن کے دلوں کو اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔ سن رکھو اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔‘‘( الرعد:۲۸)’’جب تم نماز ادا کرلو تو اللہ کا ذکر کرو کھڑے ، بیٹھے اور اپنے پہلوؤں کے بل لیٹے۔‘‘(النساء: ۱۰۳)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب بھی لوگ اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور تولازما فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اوررحمت ان پر چھا جاتی ہے اوران پر سکینت نازل ہوتی ہے اوراللہ ان ( فرشتوں ) میں ان کا ذکر کرتا ہے جواس کے قریب ہیں۔‘‘(مسلم )
دکھ وبے چینی کی کیفیت سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ذکر الٰہی سے اپنی زبان کوتر رکھے ۔ ذکر سے بندہ رب سے قریب ہوتا ہے ۔ ایسے رب سے جو کریم ہے، رحیم ورحمٰن ہے ، شفیق ہے عفو در گزر کرنے والا ہے ۔ بندہ جب ذکر کرتا ہے تواس کے اندر یہ احساس بھی تازہ ہوجاتاہے جوکچھ بھی دکھ ہے رب کے حکم سے ہے اور وہی دو ر کرنے والا ہے ۔ یہ احساس بند ہ مومن کے لیے بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس احساس سے ہی سارا غم دور ہوجاتا ہے ۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2016