عصر حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنج

(یہ مقا لہ ادار ہ تحقیق و تصنیف علی گڑ ھ کےسیمینا رمارچ   2020 بطو رکلید ی خطا ب پیش کیا گیا)

عصرحاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجوں کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے عصر حاضر کو سمجھنا ضروری ہے۔ چیلنجوں اور مسائل کے حوالے سے عصر حاضر کو دیکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ آج کے علاوہ آنے والے کل کو بھی یعنی قریبی مستقبل کو بھی دیکھا جائے۔ اس حوالہ سے جب ہم دنیا پرنظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دور معمولی تبدیلیوں کا دور نہیں ہے بلکہ بہت بڑی، دوررس، ہمہ گیر اور تیز رفتار تبدیلیوں کا دور ہے۔

۱۔ عصر حاضر کی کچھ انقلاب آفریں خصوصیات

گذشتہ چند صدیوں سے دنیا کے حالات پر ٹکنالوجی کا بڑا گہرا اثر ہے۔ تمدن اور تمدنی احوال ہی نہیں بلکہ افکار و نظریات اور سیاسی و معاشی فلسفے بھی ٹکنالوجی کے ذریعہ ہونے والی تمدنی تبدیلیوں سے متاثر ہوتے رہے ہیں۔ یہ کہا جاتا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی ایک ایسے تمدن کی پیداوار تھی جو بھاپ کے انجنوں ، تیل کے کارخانوں اور ٹیلی ویژن و ٹیلی فون کی ایجادات کے ذریعہ وجود میں آیا تھا۔ عصر حاضر کی ٹکنالوجی، انفارمیشن ٹکنالوجی اور بایو ٹکنالوجی ہے۔ اس انفوٹیک اور بایو ٹیک انقلاب کے نتیجہ میں ایک بالکل نئی دنیا پیدا ہورہی ہے اوریہ کہا جارہا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی، اس نئی دنیا اوراس کی ترقیوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے ایک نئے نظام، نئے اصولوں اور قدروں کی ضرورت ہے۔۱؎

بایو ٹیک اور انفو ٹیک کے امتزاج کے نتیجہ میں آنے والا انقلاب ایک ہمہ گیر انقلاب ہوگا۔ اندازہ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی سماجی، سیاسی، تہذیبی اور اخلاقی تبدیلیاں ، اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور ہمہ گیر ہوں گی جو صنعتی انقلاب نے پیدا کی تھیں۔ صنعتی انقلاب نے انسانوں کو فطرت اور فطری وسائل پر غیر معمولی کنٹرول عطا کیا تھاجبکہ بایوٹیک اور انفوٹیک انسانوں کے اندرونی نظاموں پر کنٹرول فراہم کررہے ہیں۔ حتی کہ انسانی خیالات کو مشینوں کے زیر سایہ لارہے ہیں۔ ہم بہت تیزی سے ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں بگ ڈاٹاbig data ۲؎سب سے بڑی تمدنی قوت بن جائے گا۳؎ اور ایک ایک انسان کی ایک ایک لمحہ نگرانی ( surveillance)، اور اس کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت فراہم کرے گا، جہاں حکمرانی اور بڑے فیصلے الگورتھم۴؎ کریں گے اور اس کے نتیجہ میں الگو کریسی(algocracy )بلکہ اس سے آگے بڑھ کر الگورتھمک ڈکٹیٹر شپ(algorithmic dictatorship )کی راہیں ہموار ہوں گی، جہاں آگمینٹیڈ رئیلٹی (augmented reality ) ۵؎کا انقلاب میڈیا کو انسانی افکار و خیالات بلکہ تصورات پر تک غیر معمولی کنٹرول فراہم کرے گا، جہاں بلاک چین(block chain )مالیات۶؎، سارے مالیاتی نظاموں اور لین دین کے تمام معروف طریقوں کو درہم برہم کرکے رکھ دے گی، اور جہاں مصنوعی ذہانت(artificial intelligence)کی حامل مشینوں پر انسان کا ہر چھوٹے سے چھوٹا قدم منحصر ہوگا۔ ۷؎ اس میں کیا شک ہوسکتا ہے کہ اس نئی دنیا میں ، دور جدید کی، یعنی صنعتی انقلاب کے بعد پیدا ہونے والے دور کی ہر چیز غیر متعلق ہوتی جارہی ہے۔ جن لوگوں کی ٹکنالوجی کے ان انقلابات پر نظر ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ صورتِ حال بہت زیادہ دور نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سی تبدیلیاں پہلے ہی کافی آگے بڑھ چکی ہیں اور جانے انجانے ہم سب کی زندگیوں پر اس کے اثرات پڑرہے ہیں۔ آزادی، جمہوریت، ملکوں کی خود مختاری، پرائیویسی اور اس جیسی بے شمار قدریں جنھوں نے بیسویں صدی پر حکومت کی تھی، اور جن پر جدید انسان کو فخر تھا، اب تیزی سے ٹکنالوجی کی حرارت میں تحلیل ہوتی جارہی ہیں۔ صنعتی انقلاب نے ماحولیاتی بحران پیدا کیا تھا۔ یہ بحران آج بھی انسانیت کا سنگین مسئلہ ہے۔ لیکن اب جبکہ ٹکنالوجی کی رسائی انسانی دماغ، انسانی اعصاب اور انسانی نفس کے انتہائی اندرون تک ہونے لگی ہے، اس کے نتیجہ میں انسانیت کا ماحولی نظا م (ecosystem)کس بحران سے دوچار ہوگا؟ اس کا تصور کرنا بھی آج ممکن نہیں ہے۔

ان حالات میں بے شک دنیا کو ایک نئے نظام اور نئی اقدار کی ضرورت ہوگی۔ مستقبلیات کے ایک مشہور ماہر یوال نو ہیراری کی مشہور کتاب اکیسو یں صدی کے اکیس سبق (21Lessons for the 21st Century)کے پہلے باب کا عنوان ہے، مایوسی (disillusionment)۔ مصنف نے گذشتہ صدی کے احوال کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ دوسری عالمی جنگ سے پہلے دنیا کے حالات تین بڑے عالمی نظریات ( grand stories ) کی کشمکش سے عبارت تھے، یعنی فسطائیت (ایک قوم کے غلبہ کا نظریہ)، کمیونزم (معاشی مساوات کا نظریہ) اور لبرلزم (آزادی اور جمہوریت) دنیا میں اپنی بالادستی کی لڑائی میں مصروف تھے۔ اس طرح۱۹۳۹ میں تین نظریات دنیا پر حکومت کا خواب دیکھ رہے تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد فسطائیت دنیا کے اسٹیج سے غائب ہوگئی۔ اور۱۹۶۹ میں صرف دو نظریات باقی رہ گئے۔ ۱۹۹۱ کے آتے  آتے کمیونزم بھی غائب ہوگیا اور صرف لبرل ڈیموکریسی باقی رہ گئی اور تاریخ کے خاتمہ کی پیش گوئی کی جانے لگی۔ لیکن ۲۰۰۸کے مالیاتی بحران اور ۲۰۱۶ میں ٹرمپ کے انتخاب اور بریگزٹ وغیرہ جیسے واقعات نے بالآخر لبرل ڈیموکریسی کو بھی دنیا کے اسٹیج سے رخصت کردیا ہے اور۲۰۱۹ کے آتے آتے یہ صورتِ حال بن گئی کہ دنیا سے سارے عالمی نظریات رخصت ہوگئے اور دنیا ایک نئے عالمی نظریہ کی تلاش میں ہے۔ ۸؎

۲۔ نئے عالمی نظریہ میں مذہب کا رول

یہ نیا عالمی نظریہ کیا ہوگا؟ اس کے سلسلے میں کم از کم یہ بات اب بڑے پیمانہ پر تسلیم کی جانے لگی ہے کہ اس کی تشکیل میں مذہب اور مذہبی قدروں کی اہمیت بہت زیادہ ہوجائے گی۔ سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیر نے چند سال قبل کہا تھاکہ اکیسویں صدی کی دنیا میں مذہب اور مذہبی عقیدہ کی وہی مرکزی اہمیت ہوگی جو بیسویں صدی میں سیاسی نظریات کی تھی۔ اور یہ کہ آج کی دنیا کو جن قدروں کی ضرورت ہے وہ مذاہب ہی فراہم کرسکتے ہیں۔ ۹؎

Religious faith will be of the same significance to the 21st century as political ideology was to the 20th century

بین الاقوامی امور کے ماہر مشہور مصنف اور دانشور اسکاٹ ایم تھامس نے اپنی شہرہ آفاق کتاب The Global Resurgence of the Religion میں دعوی کیا ہے کہ مذہب اور مذہبی عقیدہ اکیسویں صدی کے’عالمی نظام کی روح ‘(soul of the world) ہوگااور یہ کہ بیسویں صدی ’آخری جدید صدی‘(the last modern century ) ثابت ہوگی، یعنی وہ نظریات جنھوں نے صنعتی انقلاب کے بعد کے جدید دور پر حکومت کی تھی اکیسویں صدی میں غیر متعلق ہوجائیں گے۔ ۱۰؎

یہ دو حوالے ہم نے بطور نمونہ نقل کیے ہیں۔ اس طرح کے متعدد حوالے نقل کیے جاسکتے ہیں۔ ہر شعبہ حیات میں اب مذہب، مذہبی عقیدہ اور مذہبی قدروں کی ضرورت کو شدت کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے۔ جس نئی دنیا کی طرف ہم تیزی سے بڑھ رہے ہیں ، گہری روحانیت اور مضبوط مذہبی بنیاد کے بغیر اس دنیا کا چلنا بالکل ناممکن ہوگا۔

ایک طرف مذہب کی یہ بڑھتی ہوئی اہمیت ہے اور دوسری طرف مختلف عالمی مذاہب کا تیز رفتار زوال ہے۔ اس زوال کے تجزیہ کا اس وقت موقع نہیں ہے۔ لیکن اس بات کے متعدد شواہد موجود ہیں کہ مختلف عالمی مذاہب نے گذشتہ صدیوں میں جدیدیت اور جدید مغربی تہذیب کے آگے سپر انداز ہوکر اپنی روح کھودی ہے۔ اب میدان میں یا تو اسلام ہے یا مختلف نیم مذہبی روحانی فلسفے اور تحریکیں۔ اسلام جدیدیت کے طوفان کے سامنے بھی اپنے واضح عقیدہ اور نہایت پائیدا ر بنیادوں کی وجہ سے ٹکا رہا۔ گذشتہ صدیوں میں اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے بنیاد پرستی کی تہمت کا سزاوار بھی ہوا لیکن واقعہ یہ ہے کہ آج اسلام کی یہی خصوصیت اس کی سب سے بڑی طاقت ثابت ہورہی ہے۔ اور جیسے جیسے اکیسویں صدی کے پر پیچ احوال انسانی زندگی کو نت نئے چیلنجوں سے دوچار کریں گے، اسلام کا یہ ثبات، دنیا کی بڑی ضرورتوں کی تکمیل کا سامان فراہم کرے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔ یہ صورتِ حال اہل اسلام کے لیے ایک بڑے موقع کی بھی حیثیت رکھتی ہے اور ایک بڑے چیلنج کی بھی۔

۳۔ اسلام کی قدریں اور ان کی کشش: خاندانی نظام بطور مثال

اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی قدریں ، سماجی اور تاریخی روایات کی ناپائیدار بنیادوں پر کھڑی ہوئی نہیں ہیں۔ یہ بنیادیں کتنی ہی مضبوط ہوں ، جدید تہذیب اور استعمار کے طاقتور ہتھکنڈوں کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔ اسلام کی قدروں کی بنیاد نہایت مستحکم عقائد پر رکھی گئی ہے۔ قریبی زمانہ میں اس کی ایک نمایاں مثال خاندان اور خاندانی زندگی ہے۔ مغربی دنیا میں ، مرد وزن کے درمیان غیر فطری مساوات کی کوششوں نے سب سے زیادہ خاندان کے ادارہ کو تباہ کردیا۔ خاندان کی تباہی نے سماجی زندگی کے پر پہلو پر اثر ڈالا۔ اور دنیا بھر کے معاشرے اس طوفان سے متاثر ہوتے چلے گئے۔ ایک مسلمان معاشرہ خاندانی زندگی کی قدروں اور عورت کے نسوانی کردار کا تحفظ کرتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہوتی کہ اس معاشرہ کی قدیم روایتیں اس کا تقاضہ کرتی ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ معاشرہ اس پر پختہ ایمان رکھتا ہے کہ یہ خدا کے احکا م ہیں جن میں تبدیلی کا اسے کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ پختہ ایمان ہی اْس طوفان بلاخیز کا مقابلہ کرسکتا ہے جو جدید مغرب کی دانش گاہوں سے اٹھا اور اب ساری دنیا کے روایتی ڈھانچوں کو ملیامٹ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ اب خاندان اور عورت کے نسوانی وجود کی آخری پناہ گاہ، اسلام ہی بچی ہوئی ہے۔

ایک طرف یہ صورتِ حال ہے اور دوسری طرف مختلف وجوہ سے موجودہ دنیا میں خاندان کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ چنانچہ اسلام کا خاندانی نظام بہت سے لوگوں کے لیے زبردست کشش کا باعث ہے تو اسلام مخالف طاقتوں کے لیے اسلام سے خوف کا بھی ایک اہم سبب ہے۔ مشہور نومسلم دانشور مراد ولفریڈ ہافمین نے اپنی فکر انگیز کتاب۱۱؎ Religion on the Rise: Islam in the Third Millenium بہت تفصیل سے واضح کیا ہے کہ خاندانی نظام اور خاندانی قدریں اسلام کی بہت بڑی طاقت ہیں اور مستقبل میں یہ مغربی دنیا میں اسلام کے لیے بہت بڑی کشش پیدا کریں گی۔

چند سال پہلے کیمبرج یونیورسٹی کے سینٹر فار اسلامی اسٹڈیز نے ایک دل چسپ اسٹڈی کی تھی۔ اس نے نومسلم برطانوی خواتین سے انٹرویو کیے اور وجہ جاننے کی کوشش کی کہ انھوں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ چنانچہ یہ اسٹڈی مکمل ہوئی اور مارچ ۲۰۱۳مِیں اس کی تہلکہ مچادینے والی رپورٹ۱۲؎ Narratives of Conversion to Islam: Female Perspectives کے نام سے شائع ہوئی۔ اس میں ان اعلی تعلیم یافتہ خواتین نے قبول اسلام کے جو اسباب گنائے ا ن میں سے بیشتر کا تعلق عورت اور خاندان سے متعلق اسلام کی تعلیمات سے ہے۔ مئی ۲۰۱۷ میں نیویارک ٹائمز نے خاندان سے متعلق مطالعات کے ایک اہم ادارہ کے حوالہ سے سروے کی رپورٹ شائع کی جس کے مطابق امریکہ میں اب نئی نسل یعنی ۱۷ سال سے ۳۴ سال کے درمیان کی عمر کے افراد (millenials) روایتی صنفی رول کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے قبل کی نسلوں میں فیمینسٹ تصورات مقبول تھے لیکن اب نئی نسل کے امریکی، خاندان کے روایتی تصور کی طرف تیزی سے پلٹ رہے ہیں۔ ۱۳؎

اسلامی خاندان اس بدلی ہوئی دنیا میں انسانیت کے لیے بہت بڑی کشش کا باعث بن سکتا ہے۔ لیکن اس کی دو ضرورتیں ہیں۔ پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ اسلام کی خاندانی تعلیمات اور قدروں کو مستحکم دلائل کے ساتھ دنیا کے سامنے لایا جائے اور خاندان کے حوالے سے ایک طاقتور ڈسکورس کھڑا کیا جائے۔ اس وقت خاندان اور خاندانی قدریں ، دنیا بھر میں موضوع بحث ہیں۔ جدیدیت نے خاندان کے ادارہ کا استخفاف کیا تھا۔ اب خاندان کی ضرورت کا انکار ممکن نہیں رہا لیکن خاندان کے نام پر ایسے رجحانات کی ہمت افزائی کا سلسلہ برابر جاری ہے جو خاندانی نظام کے لیے سم قاتل ہیں۔ بوائے فرینڈ او ر گرل فرینڈ اور لیو ان ریلیشن کے خاندان، گے اور لیسبین خاندان جس میں ایک ہی جنس کے جوڑے بچوں کو گود لے کر نام نہاد خاندان کی تشکیل کرتے ہیں ، یہ سب رجحانات بھی خاندانی ادارہ کے خاتمہ ہی میں مدد دینے والے ہیں۔ ان سب پر مدلل تنقید اور اسلام کے اصول خاندان کی مدلل وضاحت کے ذریعہ اہل اسلام کو خاندان اور نظام خاندان کے سب سے بڑے وکیل کے طور پر سامنے آنا چاہیے۔

دوسری ضرورت یہ ہے کہ خواتین او ر خاندان سے متعلق بعض اہم امور میں اجتہاد کی اُس ضرورت پر فوری توجہ دی جائے جن کے بغیر اسلام کا خاندانی نظام عصر حاضر کے مسائل سے نبر آزما نہیں ہوسکتا اور خاندان سے متعلق نئے پیش آمدہ مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور ان کے حل تلاش کیے جائیں۔ ان امور کی تفصیل میں جانے کا اس وقت موقع نہیں ہے۔

خاندانی نظام کی قدروں کو ہم نے بطور مثال پیش کیا ہے۔ اسی طرح کی کشش اسلام کی معاشی قدروں ، ماحولیاتی قدروں اور دیگر بہت سی قدروں میں پائی جاتی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ عصری فلسفہ، سماجیات، اجتماعی نفسیات اور قدریات کے اصولوں کو سامنے رکھ کر ان قدروں کی معقولیت اور معنویت کو دنیا کے سامنے لایا جائے۔

۴۔ ہمہ تہذیبی معاشرہ کے چیلنج

نئی دنیا کی ایک اہم خصوصیت اس کی ہمہ تہذیبیت ہے۔ اس وقت بھی عالمی مسلم آبادی کا تقریباً ایک تہائی حصہ ان ملکوں میں آباد ہے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مہاجرت کے تیز رفتار سلسلے اس تناسب کو اور بڑھائیں گے۔ عالم اسلام کی آبادی میں نوجوانوں کا بڑا تناسب اور دوسری طرف یورپ اور جاپان جیسے ملکوں میں بوڑھوں کا تیزی سے بڑھتا ہوا تناسب، مہاجرت کے رجحان کو تیزی سے فروغ دے رہے ہیں۔ متعدد مطالعات میں یہ اندازہ کیا جارہا ہے کہ مستقبل قریب میں فعال اور باصلاحیت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یورپ، امریکہ و کناڈا اور آسٹریلیا و نیوزی لینڈ جیسے مغربی ملکوں میں آباد ہوگی۔ یورپ کے کئی ملکوں میں مسلمان بہت جلد ایک بااثر اقلیت بن جائیں گے اور پورے بر اعظم یورپ میں مسلمانوں کا تناسب تقریبا ً وہی ہوگا جو اس وقت ہمارے ملک ہندوستان میں ہے۔ ۱۴؎ خود ہمارے ملک میں مسلمان ایک بڑی اقلیت کے طور پر رہ رہے ہیں۔ پھر اس وقت دنیا کے مختلف معاشرے ٹکنالوجی اور ایک دوسرے پر انحصار کی وجہ سے باہم جڑ رہے ہیں اور مسلمان ملکوں میں بھی وہ تہذیبی حصار تیزی سے ختم ہوتا جارہا ہے جس کے ہم صدیوں سے عادی رہے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں پوری دنیا ایک واحد ہمہ تہذیبی سماج کا روپ لیتی جارہی ہے۔ ان حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ایک ہمہ تہذیبی معاشرے میں اسلامی زندگی کے خد و خال اور اسلامی نصب العین کی صورت گری وضاحت کے ساتھ ہو۔

اسلامی تاریخ کے لیے ہمہ تہذیبی معاشرہ کوئی نا مانوس چیز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷺ کے زمانے ہی میں مدینہ اور اس کے اطراف میں مشرک قبائل بھی تھے اور ان کے علاوہ بااثر یہودی قبائل بھی تھے جن کی معاشرت اور تہذیب اور دین و طرز زندگی، دیگر عربوں سے بالکل مختلف تھا۔ خود مسلمانوں میں مہاجرین و انصار کے رہن سہن اور تہذیبی طور طریقوں میں بڑا فرق تھا۔ خلفاء راشدین کے ادوار میں جب فارس و روم کے علاقے فتح ہوئے، اور اس کے بعد امویوں اور عباسیوں کے دور میں تو غیر معمولی تہذیبی تنوع (cultural diversity)اسلامی علاقوں میں پیدا ہوگیا۔ مذہبی اعتبار سے مسلمانوں کے ساتھ، یہودی، عیسائی، زرتشی، ہندو، مشرکین اور افریقہ و ایشا کے بہت سے مقامی مذاہب کے ماننے والے اسلامی علاقوں میں رہنے لگے۔ امام ابن تیمیہؒ، مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہ ؒجیسی بلند پایہ اسلامی شخصیتوں کو ایک ہمہ تہذیبی سماج کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ترکی کی سلطنت عثمانیہ اور ہندوستان کی سلطنت مغلیہ نے کئی سو برسوں تک مختلف مذاہب کے ماننے والوں پر حکومت کی ہے۔ چنانچہ تکثیری سماجوں کے تجربہ کے معاملہ میں اسلامی تاریخ، بہت مالامال ہے اور غالباًعہد وسطی(medieval period )کی کوئی اور تاریخ اس معاملہ میں اتنے تجربات نہیں رکھتی جتنے اسلامی تاریخ کے پاس ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ہمارے دینی و علمی سرمائے میں ایک ہمہ تہذیبی سماج کے بہت سے مسائل ابھی بھی حل طلب ہیں۔

اس بحث کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے اہم پہلو فکری اور تصوراتی ہے۔ ایک ہمہ تہذیبی سماج کو دیکھنے کا اسلامی زاویہ کیا ہو؟ اس کی اسلامی تھیوری کیا ہوسکتی ہے؟ ایسے سماج میں اسلامی مقصد و نصب العین کیا ہونا چاہیے؟ ریاست کے ساتھ تعلق کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ سماج کی قدروں سے ہمارا رشتہ کیا ہونا چاہیے؟ ان سوالات کا ہندوستان کی اسلامی تحریک کو برسوں سے سامنا ہے۔ اور تحریک نے اپنے عمل سے ان کا جواب بھی فراہم کیا ہے لیکن جب تک یہ سوالات فکر اور نظریہ کی اونچی سطح پر ایڈریس نہیں ہوں گے الجھنیں باقی رہیں گی۔ ان الجھنوں کی سنگینی کا اندازہ ان مباحث سے ہوسکتا ہے جو گذشتہ کئی دہوں سے یورپ میں جاری ہیں اور جہاں ایک جداگانہ’یورپی اسلام‘(European Islam)کا تصور پیش کیا جارہا ہے۔ ہمارے ملک کی حالیہ احتجاجی مہمات سے معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ بحثیں ہمارے ملک کے نوجوانوں میں بھی چل پڑی ہیں۔ اگر ان سوالات کو فوری ایڈریس نہیں کیا گیا تو یورپی مسلمان جس فکری بحران سے گذرے ہیں اندازہ یہ ہے کہ وہ بحران ہمارے ملک میں بھی درآمد ہوگا۔

بحث کاایک پہلو فقہی ہے۔ ہمارے فقہی سرمائے کا بیشتر حصہ مسلم اکثریتی علاقوں اور زمانوں میں اور مسلمان حکومتوں کے زیر سایہ وجود میں آیا ہے۔ ایک ہمہ تہذیبی معاشرے سے متعلق بہت سے سوالات کا اطمینان بخش اس سرمائے میں نہیں ملتا۔ اسی صورتِ حال نے فقہ الاقلیات جیسے مباحث کو جنم دیا ہے۔ ابھی بھی ہمارے ملک اور یہاں کے حالات کے تناظر میں یہ بحث بہت ابتدائی ہے۔ اس کو بہت کچھ آگے بڑھانے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

بحث کا تیسرا اہم پہلو سماجیاتی ہے۔ یعنی ایسے سماجوں کا اسلامی نقطہ نظر سے سماجیاتی مطالعہ، اسلامی نصوص اور سماجیات و اجتماعی نفسیات وغیرہ کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں ایسے سماجوں کا تہلیل و تجزیہ۔

۵۔ ایک نئے بیانیہ اور نئے اپروچ کی ضرورت

ان سب حالات کی وجہ سے اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اسلامی فکر کا بدلے ہوئے حالات سے مطابقت رکھنے والا نیا بیانیہ تشکیل پائے۔ یہ بیانیہ نئے احوال سے مطابقت رکھنے والا اور اجتہادی روح کا حامل بھی ہو اور اس معذرت خواہانہ اور مصالحت پرستانہ انداز سے بھی پاک ہو جس کا ماڈریٹ اسلام کے نام پر اس وقت غلغلہ ہے۔

اس نئے بیانیہ کی خصوصیات کیا ہوں ؟ یہ بڑا اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اس سوال پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ کچھ باتیں جو اس وقت بطور مثال ذہن میں آرہی ہیں ، انھیں عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں۔

الف) نظام یا تہذیب؟

جدیدیت نے دنیا کو نظریات اور نظاموں کی حکمرانی فراہم کی تھی۔ قومی ریاست، قوت و طاقت کا سب سے بڑا مرکز تھی۔ قومی ریاست کے اقتدار اعلیٰ(sovereignty) کا تصور جدید سیاست کا اہم ترین تصور تھا۔ ان حالات میں اسلامی مفکرین نے بجا طور پر ریاست اور سیاسی نظام کو اپنے بیانیہ کا بھی اور اسلامی نصب العین کا بھی اہم ترین عنوان قرار دیا تھا۔ بدلی ہوئی دنیا میں جبکہ سیاست کے بالکل نئے روپ سامنے آرہے ہیں ، نیشن اسٹیٹ کی آہنی دیواریں تیزی سے زمین بوس ہورہی ہیں ، افکار و نظریات کے بڑے نظام معدوم ہوتے جارہے ہیں ، اور تجارتی مفادات، ٹکنالوجی کے کرشمے اور تہذیبی قدریں زیادہ تر نئی دنیا کی صورت گری کررہی ہیں ، یہ سوال نہایت اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ اسلامی فکر کی پیشکش کا موثر طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟ اقامت دین یعنی مکمل اسلامی زندگی کے خواب میں کیا اب بھی ریاست مرکزی اہمیت کی حامل ہے؟ ایک خیال یہ ہے کہ اس بدلے ہوئے دور میں تہذیب اور تمدن پر بہت زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے۔ یعنی ایک ہمہ گیر تہذیبی و تمدنی انقلاب اسلامی جدوجہد کا ہدف بنے اور اس انقلاب کے لیے درکار فکری کمک فراہم کی جائے۔ اسلام کے ایک ایسے تہذیبی بیانیہ کو سامنے لایا جائے جس میں موجودہ دور کے اٹھائے ہوئے تہذیبی اور تمدنی سوالات، اسلام کی روشنی میں اطمینان بخش حل فراہم کیا جائے۔

ایک فرد کے لیے خوشحال زندگی کا راستہ کیا ہے؟ خاندان اور جنسی رویوں کو کن قدروں کا پابند ہونا چاہیے؟ میڈیا اور سوشل میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوں ؟ جدید ترین ٹکنالوجی کے حوالے سے اسلامی موقف کیا ہو؟ انسانوں کی نگرانی اور ان کے حق انتخاب پر نیز ان کے ضمیر اور ان کی رائے پر ٹکنالوجی کے کنٹرول کے سلسلے میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے؟ ٹکنالوجی کے موجودہ دور میں شہری تنظیم کے اصول کیا ہوں ؟ عصری مالیاتی طریقوں کے سلسلے میں اسلامی اپروچ کیا ہو؟ فنون لطیفہ اور تفریحات کا اسلامی پیرا ڈائم کیا ہو؟ الگورتھم کی حکمرانی کو اسلامی فلسفہ کس نگاہ سے دیکھتا ہے؟ یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات نہایت عمیق غور و فکر کے متقاضی ہیں۔ ان کے سلسلے میں فتوے مطلوب نہیں ہیں بلکہ گہرے سماجیاتی حل اور اطمینان بخش کلامی مباحث مطلوب ہیں۔

یہ تہذیبی بیانیہ جہاں عصر حاضر کی سوچ اور رائج طریقوں پر نقد کرے وہیں نئے رجحانات اور طریقوں کی ایجاد و اختراع کا بھی ذریعہ بنے یعنی صرف رد عمل پر مبنی (reactive)نہ ہو بلکہ اقدامی( proactive) بھی ہو۔ اس سلسلے میں سب سے اہم مثال اسلامی معاشیات کی دی جاسکتی ہے۔ اسلامی معاشیات، اسلام کے انسان دوست اصولوں اور قدروں کو روبہ کار لانے کا ایک موثر ذریعہ بن سکتا تھا۔ اسی علی گڑھ میں اسلامی معاشیات کا جو خواب دیکھا گیا تھا وہ بڑی تمدنی تبدیلی کا خواب تھا۔ لیکن اب اسلامی معاشیات دھیرے دھیرے اسلامی مالیات تک محدود ہوگئی اور اسلامی مالیات بھی، اسلام کے معاشی مقاصد کے حصول کا انقلابی ذریعہ بننے کے بجائے، جدید سرمایہ دارانہ معیشت ہی کے آلات و وسائل میں فقہی حیلوں کے سہارے اسلامی پیوند کاری تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اس وقت جو تہذیبی چیلنج درکار ہے وہ اعلیٰ درجہ کی تخلیقی اور اجتہادی سوچ کا تقاضا کرتا ہے۔

ب) قانون یا اقدار؟

گذشتہ صدی میں قومی ریاست اور اس کا قانونی نظام، ایک ہمہ گیر قوت کے طور پر سامنے آیا تھا۔ دنیا کے سامنے یہ سوال سب سے اہم سوال بن گیا تھا کہ جدید دنیا کا قانونی نظام کیا ہو؟ اس وقت ہمارے بزرگوں نے اسلامی شریعت اور اسلام کے قانونی نظام کو وضاحت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اب دنیا ایک ایسے دور میں قدم رکھ رہی ہے جہاں انسانوں پر حکومتوں کے قوانین سے زیادہ غیر حکومتی عناصر( non state players) یعنی کارپوریٹ، ٹکنالوجی، میڈیا وغیرہ کا استبداد بڑھ رہا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کی قدریں یا جسے عصری اصطلاح میں نرم قوت (soft power) کہا جاتا ہے، اس کو نمایاں کیا جائے۔

ج) روحانی تسکین

ٹکنالوجی کے اس دور میں انسان کی بڑی ضرورت روحانی تسکین ہے۔ اس ضرورت کا بہت سی غیر اسلامی تحریکیں بری طرح استحصال کررہی ہیں۔ روحانیت کے نام سے دسیوں ادارے اب عالمی برانڈ بن چکے ہیں۔ عہد وسطٰی میں اسلام کی کشش کا ایک بڑا سبب اس کی روحانی طاقت تھا۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ جدید حالات و مسائل کے تناظر میں اسلام کو روحانی ارتقاء اور روحانی تسکین کے ایک موثر فلسفے کے طور پر پیش کیا جائے۔

د) مذاہب کو مخاطب کرنے کی ضرورت

بیسویں صدی کے تحریکی ڈسکورس میں اصلاًجدید نظریات کو مخاطب کیا گیا تھا۔ جیسا کہ اوپر کی سطروں میں واضح کیا گیا ہے، بدلتے ہوئے حالات میں مذہب کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور مذہب پر مبنی روحانی، اخلاقی، تہذیبی اور تمدنی فلسفے دنیا کو متوجہ کررہے ہیں۔ ان حالات میں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ مذہب اور مذہبی فلسفوں کو مخاطب کیا جائے۔ عیسائیت کے ساتھ ساتھ، بدھ مت، ہندوازم، اور چین و جاپان کے مذہبی اور نیم مذہبی فلسفے، کہیں روحانیت کے نام پر، کہیں تناو سے پاک خوشگوار زندگی کے نام پر، کہیں ماحولیات کے تحفظ کے نام پر اور اس طرح مختلف عنوانات سے ایک نئے عالمی تمدن کی صورت گری میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ان سب کا جواب دینا تو دور کی بات ہے، ان کا سنجیدہ، گہرا مطالعہ بھی ابھی ہماری جانب سے باقی ہے۔

خود ہمارے ملک میں قوم پرستی کے نام پر احیا پرستی اور نسل پرستی کی ایک طاقتور تحریک غیر معمولی، سیاسی و سماجی قوت سے مالا مال ہوچکی ہے۔ اس تحریک کے اثرات ا ب ہمارے ملک سے نکل کر ساری دنیا میں عام ہونے لگے ہیں۔ اس تحریک کا ایک پہلو تو سیاسی ہے لیکن ایک بہت بڑا پہلو تہذیبی، تمدنی اور سماجی ہے۔ اس تحریک کا اسلامی ریسپانس ابھی بھی وقتی سیاسی اختلاف یا اس کے اختلاف میں اٹھنے والی سیکولر آوازوں میں آواز ملانے سے آگے نہیں بڑھ پایا ہے۔ یہ صرف ہندوستان کی حد تک نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلامی فکر کی بہت بڑی کمی ہے۔

۶۔ نئے افکار، نئے نظریات اور نئے آئیڈیاز

یہ تفصیلی بحث اس موقع پر میں نے اس لیے چھیڑی ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت اسلام کو درپیش فکری اور علمی چیلنج بہت بنیادی اور بہت گہرا ہے۔ ہماری ضرورتیں نہ سوالات کے فقہی جوابات اور فتووں سے پوری ہوسکتی ہیں اور نہ محض پرانی کتابوں کی باتوں کو نئی زبان میں دہرانے سے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اہل فکرعصر حاضر کے مسائل اور افکار و نظریات کا انتہائی گہرا مطالعہ کریں اور نئے افکار اور نئے آئیڈیاز کے ساتھ سامنے آئیں۔

ان پیچیدہ چیلنجوں کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اُن نوخیز ذہنوں سے بھی مدد لی جائے جن کی فکری توانائیاں ابھی تازہ دم ہیں اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی ہوئی اس دنیا کی پیچیدگیوں کو جو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ اس طرح کے سیمیناروں میں نوجوان اہل علم، مرکزی یونیورسٹیوں کے نوجوان فضلاء اور طلبا کی ایک تعداد ضرور شریک ہونی چاہیے۔ عالم اسلام کے مختلف علاقوں کے حالیہ تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان خواتین کو بھی جب موقع فراہم کیا جاتا ہے تو وہ غیر معمولی علمی وتحقیقی کام کرتی ہیں۔ ان کی شرکت بھی بڑھنی چاہیے۔ ■

 حواشی و حوالہ جات

۱؎ یہ بحث اب بہت عام ہے اور اس کے لیے کئی حوالے دیئے جاسکتے ہیں۔ دو دل چسپ کتابیں جن سے اس بحث کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے:

  1. i) Mounk Yascha; The People Vs. Democracy: Why our Freedom in in Danger and How to Save It? ; Harvard University Press; Massachusetts; 2018
  2. ii) Susskind Jamie; Future Politics; Oxford University Press; Oxford; 2018

۲؎ بگ ڈاٹا سے مراد معلومات اور اعداد و شمار کا بہت بڑا ذخیرہ جس کا ترقی یافتہ کمپیوٹرز کی مدد سے تجزیہ کیا جاتا ہے اور مختلف تجارتی، حکومتی اور جاسوسی کے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ مثلاً کسی فرد کے سوشل میڈیا، اس کی آن لائن خریدیاں ، گوگل سرچ وغیرہ سے متعلق معلومات جمع کرکے اس کے رجحان اور مزاج کو معلوم کیا جاتا ہے اور اس کے لحاظ سے اس کو اشیا فروخت کی جاتی ہیں یا اس پر سیکوریٹی ایجنسیاں نگاہ رکھتی ہیں۔

۳؎ Cathy O’Neil; Weapons of Math Destruction: How Big Data increases Inequality and Threatens Democracy; New York; Crown; 2016

۴؎الگورتھم ریاضی کی ایک شاخ ہے جو کمپیوٹر پروگرامنگ کی بنیاد ہے۔ اس میں مرحلہ بہ مرحلہ ہدایات درج کی جاتی ہیں اور انہی ہدایات کو کمپیوٹر پروگرامنگ کی مدد سے روبہ عمل لایا جاتا ہے۔ الگورتھم کی حکومت سے مراد ایک ایسانظام ہے جس میں ہدایات اور کام کے طریقے تفصیل سے طے کرلیے جاتے ہیں اور ان کو انسانی مداخلت کے بغیر مشینوں کی مدد سے روبعمل لایا جاتا ہے۔

۵؎ آگمینٹید رئیلٹی کا میڈیا میں استعمال ہوتا ہے تو ہولوگرام اور ہولولینس جیسی ترقی یافتہ ٹکنالوجی کے ذریعہ میڈیا کا مواد اس طرح سامنے لایا جاتا ہے کہ استعمال کرنے والے کے لیے یہ پیشکش حقیقی دنیا کے تجربہ (real life experience) کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔ یعنی جس واقعہ کو دکھانا مقصود ہو وہ واقعہ ناظر کے سامنے پیش آنے لگتا ہے۔ تینوں ابعاد میں اس کا نطارہ، آوازیں ، بو اور دیگر احساسات کے ساتھ اس کے حواس اس واقعہ کوایک حقیقت کے طور پر محسوس کرنے لگتے ہیں۔

۶؎ بلاک چین پبلک کمپیوٹر لیجرز ہیں جن میں لین دین کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ اس پیچیدہ ٹکنالوجی کی مدد سے کرپٹوکرنسی وجود میں آئی ہے۔ اس کے نتیجہ میں کسی بھی ملک کی باقاعدہ کرنسی کے استعمال کے بغیر بڑے بڑے لین دین ممکن ہوگئے ہیں۔ اس سے آئندہ مالیات، کرنیس، ٹیکس وغیرہ کے نظاموں میں بہت سی پیچیدگیوں اور دشواریوں کا نیز اس کے نتیجے میں بڑی تبدیلیو ں کا امکان ہے۔

Cathy O’Neil; Weapons of Math Destruction: How Big Data increases Inequality and Threatens Democracy; New York; Crown; 2016

۷؎Susskind Jamie; Future Politics; Oxford University Press; Oxford; 2018

۸؎Harari Yuval Noah; 21 Lessons for the 21st Century; Vintage; London; 2019 pp 13-14

۹؎ Blair Tony; Why We All Must DO God in New Statesman America; 19th March 2009

۱۰؎ Thomas Scott M.; The Global Resurgence of Religion and the Transformation of International Relations; Palgrave Macmillan; New York; 2005

۱۱؎Hoffmann Murad Wilfred; Religion on the Rise: Islam in the Third Millenium; Amana;Beltsville; 2001.

۱۲؎ Suleiman Yasir; Narratives of Conversion to Islam in Britain: Female Perspectives; University of Cambridge in Association with The New Muslim Project; Markfield; UK; 2013

۱۳؎ David Cotter and Joanna Pepin, Report “Trending Towards Traditionalism? Changes in Youths’ Gender Ideology” for Council on Contemporary Files, with refernce to NewYork Times, Sunday Review 31-03-2017

۱۴؎ Pew Researh Centre; The Future of World Religions:Population Growth Projections;2015; at https://assets.pewresearch.org/wp-content/uploads/sites/11/2015/03/PF_15.04.02_ProjectionsFullReport.pdf; retrieved on 19-02-2020

مشمولہ: شمارہ اپریل 2020

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223