اس مضمون کے مخاطب وہ نوجوان بھی ہیں جو اسلامی تحریک میں شامل ہونے کے لیے عمر کے ڈھلنے کا انتظار کررہے ہیں۔ جوانی دنیا کی نذر کردینے کے بعد بڑھاپا دین کے لیے وقف کرنا نہ دین کے شایان شان ہے اور نہ جوانی کے۔
دنیا میں بڑی تبدیلی لانے کے لیے تبدیلی لانے والی قوت درکار ہوتی ہے، اور اسی لیے بڑی تبدیلی کے لیے برپا ہونے والی تحریک کا جوان ہونا اور اپنی مشن کی تکمیل تک جوان رہنا ضروری مانا جاتا ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں یوروپ اور پھر امریکہ میں اٹھنے والی انقلابی تحریکوں کا نام ہی جوانی سے ماخوذ ہوا کرتا تھا۔ جیسے Young Italy اور Young Hegelians اور Young America Movement گاندھی جی نے ہندوستان میں اپنی تحریک عدم تشدد کا آغاز Young India نامی اخبار جاری کرکے کیا تھا۔ اسلامی تاریخ کی اصلاحی کوششوں کا مطالعہ کرنے والے کی سماعت سے یا معشر الشباب (اے جوانوں کے گروہ) کے الفاظ بار بار ٹکراتے ہیں۔
اسلامی تحریک کسی بھی تحریک سے زیادہ بڑی تبدیلی کے لیے برپا ہوتی ہے، اس لیے اس کا طاقت ور اور جوان ہونا بے حد ضروری ہے۔ چوں کہ اسلامی تحریک کا راستہ لمبا ہوتا ہے اور اسے مطلوبہ تبدیلی کے لیے بہت طویل مدت تک جدوجہد کرنی ہوتی ہے اس لیے بہت طویل مدت تک اس کا قائم اور جوان رہنا ضروری ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت پر نو صدیاں بیت گئیں مگر ان کی دعوت کم زوری اور نقاہت کا شکار نہ ہوئی، اسی طرح اسلامی تحریک میں اگر نو نسلیں بھی بوڑھی ہوکر گزر جائیں تو بھی تحریک کا جوان اور تازہ دم برقرار رہنا ضروری ہے۔
جوان تحریک وہ تحریک ہے جس میں ہر چیز سے جوانی کا رنگ جھلکتا ہو۔ کہیں سے بھی پیرانہ سالی کا اظہار نہیں ہوتا ہو۔ تحریک کے زیادہ تر افراد جواں سال ہوں، ان کی ہمتیں جوان ہوں، تحریک میں جوانوں کو کام کے مواقع حاصل ہوں، ان کے جذبات، صلاحیتوں اور توانائیوں کی قدر کی جاتی ہو، ان کے مزاج کی پوری رعایت ہوتی ہو غرض یہ کہ تحریک کے اندر کا ماحول اور باہر کا میدانِ کار جوانوں کے شایان شان اور ان کے لیے موزوں ہو۔
الجیریا کے اسلامی رہ نما شیخ بشیر ابراہیمی (وفات 1965) جوانوں کی اہمیت کو بہترین انداز سے بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’قوم کے جوان اس کی زندگی کی ضمانت لینے والے نئے خون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اس کی تاریخ کا صحیح تسلسل ہوتے ہیں۔ وہ اس کے کارناموں کی حفاظت کرنے والے اصلی وارث ہوتے ہیں۔ وہ اس کی غلطیوں کو درست کرنے والے اور اس کے بہکے ہوئے رجحانات کو راہ راست پر لانے والے ہوتے ہیں۔ وہ اس کی خصوصیات کے امین اور انھیں بعد میں آنے والی نسلوں تک پہنچانے والے ہوتے ہیں۔‘‘
امام حسن البناؒ نے جب عین نوجوانی میں اسلامی تحریک شروع کی تو جوانوں کو پکارا:
’’جوانو! نظریہ کو کامیابی اسی وقت ملتی ہے جب اس پر مضبوط ایمان ہو، اس کے راستے کے لیے اخلاص ہو، اس کے خاطر بڑھا ہوا جوش و جذبہ ہو اور وہ استعداد پائی جائے جو نظریہ کو حقیقت بنانے کے لیے قربانی اور جدوجہد کی راہ پر دوڑادے۔ یہ چار ستون ہیں: ایمان، اخلاص، جوش و جذبہ اور سعی و عمل۔ یہ جوانوں کی خصوصیات لگتے ہیں۔ کیوں کہ ایمان کی اساس پاکیزہ قلب ہے، اخلاص کی اساس صاف ستھرا دل ہے، جوش کی اساس طاقت ور شعور ہے اور سعی و عمل کی اساس تازہ عزم ہے، اور یہ سب جوانوں ہی کے نصیب میں آتے ہیں۔ اور اسی لیے پرانے اور نئے زمانوں میں جوان ہر امت کی اٹھان کا ستون، ہر بیداری کی قوت کا راز اور ہر نظریہ کے علم بردار تھے۔
اسی لیے تمھارے فرائض زیادہ ہیں، اسی لیے تمھاری ذمہ داریاں بڑی ہیں، اسی لیے تمھاری امت کے تم پر حقوق کئی گنا ہیں، اسی لیے تمھاری گردنوں پر بھاری امانت ہے اور اسی لیے تم پر واجب ہے کہ طویل غور و فکر کرو، زیادہ کوشش و محنت کرو، تم کو کس کے ساتھ کھڑے ہونا ہے یہ طے کرو، آگے بڑھو اور اپنی اس جوانی میں سے امت کو پورا پورا حق ادا کرو۔‘‘
اس مضمون میں جوان اسلامی تحریک کے کچھ خدوخال واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جوانوں کی بھاری اکثریت
تمام نبی جواں سال تھے۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں: اللہ نے ہر نبی کو جوانی کی حالت میں مبعوث کیا، اور ہر عالم کو جوانی ہی میں علم عطا ہوا۔ (ما بعث الله نبيا الا وهو شاب ولا أوتي عالم علما الا وهو شاب۔)
تمام صحابہ جواں سال تھے۔ أبو حمزة الشاري نے کہا: اللہ کے رسولﷺ کے تمام اصحاب جوان ہی تو تھے۔ (وهل كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا شباباً)۔
موجودہ زمانے میں دنیا میں دو بڑی اسلامی تحریکوں نے دین قائم کرنے کا علم بلند کیا، عرب میں الاخوان المسلمون اور ہندوستان میں جماعت اسلامی نے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ دونوں ہی تحریکیں اپنی ابتدا میں بالکل جوان تحریکیں تھیں۔ ان کے بانی بھی جوان تھے اور بانی کے تقریبا تمام ساتھی بھی جوان تھے۔ اسلامی تحریکوں کے بڑے اکابر کی اس وقت کی عمروں کو جان کر اب حیرت ہوتی ہے کہ کس کم سنی میں انھوں نے کتنے بڑے کام کا بیڑا اٹھایا تھا۔ حالاں کہ اس میں حیرت کی بات نہیں ہے، اتنا بڑا کام اسی عمر کا تقاضا کرتا ہے۔
غرض مثالی اسلامی تحریک وہ ہے جس میں ایمان والے اپنی جوانیوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے جمع ہوں اور اس تحریک کا افرادی چہرہ جوانوں سے تخلیق پاتا ہو۔
جواں سال افراد کی بھاری اکثریت کا ہونا وہ نشانہ ہے جو ہمیشہ اسلامی تحریک کے سامنے رہنا چاہیے، ورنہ تحریک پر بڑھاپا طاری ہوجاتا ہے اور بڑھاپے سے جوانی کی طرف واپسی بہت مشکل ہوتی ہے۔
جوانوں کو بھرپور مواقع حاصل ہوں
مکہ میں اللہ کے رسول ﷺ کی دعوت پر لبیک کہنا آسان کام نہیں تھا، یہ جان جوکھم میں ڈالنے والا اقدام تھا، شاید اسی لیے اس وقت اسلام قبول کرنے والوں کی بھاری اکثریت جوانوں کی تھی۔ جیسے ابوبکر صدیقؓ نے اسی وقت اسلام قبول کیا اور ان کے والد نے فتح مکہ کے بعد قبول کیا۔ پیارے نبی کے چچا زاد بھائیوں نے اسی وقت اسلام قبول کیا جب کہ چچا عباسؓ نے بعد میں اسلام قبول کیا۔ ایسی اور بہت سی مثالیں مل سکتی ہیں۔
مدینہ میں، خاص طور سے ہجرت کے بعد، اسلام قبول کرنا اس قدر پرخطر نہیں تھا۔ بہت کم وقت میں وہاں کی بڑی آبادی میں اسلام پھیل گیا۔ ان میں جوان اور بوڑھے سب شامل تھے۔ البتہ جوانوں کی اکثریت تھی اور اللہ کے رسولﷺ نے جوانوں کو خصوصی مقام دیا تھا۔
اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے قبائلی معاشرے میں نوجوانوں کی حیثیت صرف حکم کی تعمیل کرنے والوں کی تھی۔ مشاورت اور فیصلہ کرنے نیز حکم جاری کرنے کے اختیارات بڑے بزرگ اپنے پاس رکھتے تھے۔
اللہ کے رسولﷺ نے مشاورت اور فیصلہ سازی میں بھی جوانوں کو اہمیت دی اور قیادت میں بھی ان کو آگے بڑھایا۔ منافقین نے، جو اعتراض کے موقع کی تاک میں رہا کرتے تھے، ان دونوں موقعوں پر فتنے کی آگ بھڑکانے کی کوشش کی۔
احد کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے مشاورت کی، جوانوں پر مشتمل اکثریت نے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرنے کی رائے دی، کثرت رائے کی بنا پر آپ نے فیصلہ لے لیا۔ منافقوں کا سرغنہ عبداللہ بن أبي اس رائے کے حق میں نہیں تھا، اس موقع پراس نے بزرگوں اور جوانوں کے درمیان عصبیت کو ابھارنے کی کوشش کی، اس نے کہا: “انھوں نے تو لونڈوں اور ناسمجھوں کی بات مان لی، ہم یہاں اپنی جان کی بازی کیوں کر لگائیں؟” (أطاع الولدان ومن لا رأي له، فما ندري علام نقتل أنفسنا ها هنا؟)
دوسرا موقع وہ تھا جب اللہ کے رسولﷺ نے وفات سے پہلے اپنی زندگی کی آخری مہم کے لیے ایک بڑا لشکر تیار کیا اور اسے رومی سلطنت کی طرف پیش قدمی کا حکم جاری کیا۔ اس لشکر میں مہاجرین و انصار کے بڑے بڑے بزرگ شامل تھے۔ یہاں ذکر کرنے کے لیے خاص بات یہ ہے کہ آپ نے اس لشکر کا سالار اسامۃ بن زیدؓ کو بنایا جو اس وقت کم سن نوجوان تھے۔ منافقوں نے اسے مسئلہ بناکر فتنہ پھیلانے کی کوشش کی۔ ابن اثیر اور طبری جیسے مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ منافقین ان کی سالاری پر تبصرے کرنے لگے اور کہنے لگے تمام مہاجرین اور انصار پر ایک لڑکے کو امیر بنادیا۔ اس موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے زبردست تقریر کی اور ان کی فتنہ پردازیوں کا منھ بند کردیا۔
پہلے واقعہ میں آپ نے جوانوں کی رائے کو وزن دیا اور دوسرے واقعہ میں ایک نوجوان کو قیادت دی۔ اللہ کے رسولﷺ نے جوانوں کو قیادت اور بڑی ذمے داری دینے کے جو نمونے قائم کیے، ان کی گونج بہت زمانے تک سنائی دیتی رہی۔
مسعودی نے مقامات کی شرح میں ذکر کیا ہے کہ جب عباسی خلیفہ مہدی بصرہ میں داخل ہوا تو اس کے استقبال کے لیے شہر کے علماء کا ایک گروپ آیا، گروپ کے آگے ایک کم سن نوجوان تھا اور اس کے پیچھے چارسو علما اور مشایخ تھے، مہدی نے کہا ان کے یہاں کوئی بزرگ نہیں تھے جو اس لڑکے کے بجائے آگے رہتے؟ پھر مہدی اس نوجوان کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا اے نوجوان تمھاری کیا عمر ہے؟ نوجوان نے کہا اللہ آپ کی عمر لمبی کرے میری عمر اتنی ہی ہے جتنی اسامہ بن زید کی تھی جب اللہ کے رسولﷺ نے انھیں اس فوج کا امیر بنایا تھا جس میں ابوبکر اور عمر بھی تھے۔ یہ نوجوان مشہور زمانہ قاضی شریک کے پوتے ایاس بن معاویہ تھے۔
ایک اور واقعہ خطیب بغدادی نے ذکر کیا ہے کہ یحیی بن اکثم بصرہ کے قاضی مقرر ہوئے تو ان کی عمر کم تھی۔ لوگوں نے انھیں چھوٹا سمجھ کر طنزیہ کہا: قاضی صاحب کی عمر کتنی ہے؟ انھوں نے کہا: میں عتاب بن اسید سے بڑا ہوں جنھیں فتح مکہ کے موقع پر اللہ کے رسولﷺ نے مکہ پر قاضی بناکر بھیجا تھا، میں معاذ بن جبل سے بڑا ہوں جنھیں اللہ کے رسولﷺ نے یمن والوں پر قاضی بناکر بھیجا تھا اور میں کعب بن سور سے بڑا ہوں جنھیں عمر بن خطاب نے بصرہ پر قاضی بناکر بھیجا تھا۔
ضروری وضاحت
یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ قیادت کے لیے مطلوبہ ضروری صفات میں جوانی کی صفت شامل نہیں ہے۔ اصل مطلوب تو صلاحیت اور صالحیت (دوسرے لفظوں میں قوت اور امانت) میں دوسروں سے بہتر ہونا ہے۔ یہی وہ صفات ہیں جن کی بنا پر امت نے خلفاء راشدین کا انتخاب کیا تھا اور خلفاء راشدین نے مختلف مناصب کے لیے اہل افراد کا تقرر کیا تھا۔ لیکن اس وقت کے عرب معاشرے میں جوانوں کو قیادت کے لیے نا اہل سمجھ لیا گیا تھا اور قیادت کو بزرگوں کے لیے خاص مان لیا گیا تھا۔ اس لیے اللہ کے رسول ﷺ نے خاص طور پر نوجوانوں کو قیادت کے لیے آگے بڑھایا، تاکہ لوگ عمر کے عامل (factor) کو نظرانداز کرتے ہوئے اصل مطلوبہ صفات کو سامنے رکھیں۔ آج عالم اسلام کی کئی اسلامی تحریکوں میں قیادت کو لے کر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ایسے میں سنتِ رسول اور اسوہ صحابہ میں رہ نمائی کا وافر سامان موجود ہے۔
بزرگوں کی پشت پناہی جوانوں کی پیش قدمی
ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جنگ بدر کے موقع پر کہا: جو فلاں جگہ پہنچے یا فلاں کام کرے گا اس کے لیے انعام ہے۔ جوان اس طرف دوڑ پڑے اور جو بزرگ تھے جھنڈوں تلے جمے رہے، جب اللہ نے فتح سے نواز دیا تو جوان اپنا انعام لینے پہنچے، تب بزرگ حضرات نے کہا: ہمیں چھوڑ کر تنہا انعام نہ لے جاؤ، ہم تمھاری پشت پناہی کررہے تھے۔ (سنن نسائی)
اس واقعہ میں اسلامی تحریک کے لیے بڑا سبق ہے۔ تحریک میں جوانوں کی بھی اہمیت ہے اور بزرگوں کی بھی۔ پیش قدمی کرنے کا کام جوانوں کا ہے سو انھیں اس کے بھرپور مواقع اور طاقت ور ترغیب ملنی چاہیے، جب کہ بزرگوں کی ثابت قدمی اور پشت پناہی بھی ضروری ہے کیوں کہ اس کے بغیر پیش قدمی خطروں سے خالی نہیں رہتی۔ تیز پیش قدمی میں لغزشوں کا امکان بڑھ جاتا ہے، اور ایسے میں دور اندیش اور تجربہ کار بزرگوں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے، جو ٹھوکر لگنے سے پہلے ہی خبردار کردیں اور ٹھوکر لگنے پر فوراً سہارا دے دیں۔
بزرگوں کی موجودگی میں جوانوں کی تیاری
پیارے نبی ﷺ نے اپنی مبارک زندگی میں نوجوانوں کو علمی اور روحانی پہلوؤں سے تیار کیا۔ رسول پاک ﷺ کی تربیتی مجالس میں نوجوانوں کو خصوصی مقام حاصل تھا۔
جندبؓ بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے ساتھ تھے، اس وقت ہم کم سن نوجوان تھے، ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کا علم حاصل کیا، پھر قرآن کا علم حاصل کیا، اس سے ہم ایمان میں نکھرگئے۔ (كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ونحن فتيان حَزَاورة، فتعلمنا الإيمان قبل أن نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازدانا به إيماناً) (سنن ابن ماجہ)
مالکؓ بن حویرث اپنا حال بتاتے ہیں کہ ہم نبی ﷺ کے پاس آئے ہم نوجوان تھے اور ہماری عمریں قریب قریب تھیں، ہم نے آپ کے پاس قیام کیا۔ (أتينا النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شبيبة متقاربون فأقمنا عنده).
آپ ﷺ کے بعد صحابہ کرام نے بھی نوجوانوں کی تیاری اور تربیت پر زور دیا۔
عبداللہؓ بن مسعود جب نوجوانوں کو علم طلب کرتے دیکھتے تو کہتے: خوش آمدید ہے، حکمت کے چشموں کو، تاریکی کے چراغوں کو، تمھارے کپڑے بوسیدہ ہیں لیکن تمھارے دل نئے ہیں، تم گھروں کی زینت ہو اور ہر قبیلے کا گل سرسبد ہو۔
یوسف بن ماجشون کہتے ہیں: میں تھا میرے ساتھ میرا بھتیجا اور میرا چچا زاد بھائی تھا، ہم سب کم سن نوجوان تھے، ہم ابن شہاب زہری کے پاس حدیث سننے پہنچے، انھوں نے ہمیں نصیحت کی: اپنی کم سنی کی وجہ سے خود کو کم تر نہ سمجھنا، عمرؓ بن خطاب کو جب کوئی مشکل معاملہ درپیش ہوتا تو نوجوانوں کو بلاتے اور ان سے مشورہ کرتے، ان کا مقصد یہ ہوتا کہ اس طرح ان کے دماغوں کو تیز کریں۔
عمروؓ بن عاص نے ایک بار دیکھا کہ قریش کے کچھ لوگ خانہ کعبہ کے پاس مجلس آراستہ کرکے بیٹھے ہوئے ہیں، اور انھوں نے نوجوانوں کو وہاں سے ہٹایا ہوا ہے، وہ ان کے پاس جاکر کھڑے ہوئے اور کہا: میں یہ کیوں دیکھتا ہوں کہ تم لوگوں نے ان نوجوانوں کو اپنی مجلس سے دور کیا ہوا ہے؟ ایسا نہ کرو، ان کے لیے جگہ کشادہ کرو، انھیں قریب کرو، انھیں باتیں سناؤ اور سمجھاؤ، آج وہ کم سن ہیں لیکن جلد ہی وہ بڑے ہوجائیں گے، ہم بھی تو کم سن تھے پھر آج بڑی عمر والے ہوگئے ہیں۔ (طبقات ابن سعد)
عروۃ بن زبیرؓ اپنے بیٹوں کو جمع کرتے اور کہتے: میرے بچو، خوب علم حاصل کرلو، اگر تم ابھی چھوٹے ہو تو جلد ہی بڑے ہوجاؤ گے اور بڑے ہوکر علم سے تہی دامن رہ جانا بڑی خراب بات ہے۔
ایک طرف بزرگوں کو فکر تھی کہ اپنی موجودگی میں ہی نوجوانوں کو تربیت یافتہ بنادیں، دوسری طرف کچھ نوجوانوں پر بھی یہ دھن سوار تھی کہ بزرگوں کی موجودگی میں ہی علمی تیاری سے آراستہ ہوجائیں۔
عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول ﷺ کی وفات ہوئی تو میں نے انصار کے ایک ساتھی سے کہا: چلو رسول اللہ کے صحابہ سے علم حاصل کرتے ہیں ابھی وہ بہت ہیں۔ اس نے کہا ابن عباس کیسی باتیں کرتے ہو! اتنے زیادہ صحابہ کے ہوتے ہوئے لوگوں کو بھلا تمھاری کیا ضرورت پڑے گی، یہ تو ہمارے کھیل کود کا وقت ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں وہ تو یہ کہہ کر چلتا بنا اور میں علم کی طلب میں نکل گیا، میری دھن کا حال یہ تھا کہ مجھے جیسے ہی یہ معلوم ہوتا کہ کسی بزرگ کے پاس علم ہے تو میں ان کے پاس جاتا، دوپہر میں آرام کا وقت ہوتا تو ان کے دروازے پر اپنی چادر کا تکیہ بناکر لیٹ جاتا، ہوا کے چلتے میرے اوپر دھول اٹ جاتی، پھر جب وہ باہر نکلتے اور مجھے دیکھتے تو کہتے: رسول اللہ کے چچا زاد بھائی، مجھے بلوالیا ہوتا میں آپ کے پاس آجاتا؟ میں کہتا میرا زیادہ حق ہے کہ آپ کے پاس آؤں اور پوچھوں۔ پھر ایک وقت وہ آیا کہ لوگ میرے پاس جمع ہونے لگے، اس وقت وہ ساتھی کہتا تھا یہ نوجوان مجھ سے زیادہ عقل مند نکلا۔ عبداللہ بن عباسؓ نے بروقت تیاری کرکے بزرگ صحابہ کی خالی جگہ کو پُر کیا۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی کم سن صحابہ اس زمانے میں اپنی علمی تیاری میں مصروف رہے۔
غرض جوان تحریک میں ایک طرف بزرگ نوجوانوں کی تیاری کا انتظام کرتے ہیں دوسری طرف خود نوجوان بھی اپنی تیاری کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
تحریک کے جوان توسیع کے نقیب ہوتے ہیں
جوان تحریک کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ پھیلتی اور پھولتی پھلتی ہے۔ تحریک کے ٹھیرنے اور سمٹ جانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پر بڑھاپا آگیا۔ وہ تحریک کے جوان ہی ہوتے ہیں جو تحریک کی توسیع کا بیڑا اٹھاتے ہیں۔ اس حوالے سے سیرت پاک کا ایک واقعہ قابل ذکر ہے، ہوا یوں کہ ہجرت سے چند ماہ پہلے حج کے موقع پر مدینہ سے آئے ہوئے ستر افراد عقبہ کے مقام پر رات کی تنہائی میں اللہ کے رسولﷺ سے ملے، آپ سے بیعت کی، آپ نے ان میں سے بارہ نقیب منتخب کیے جو مدینہ کے تمام بڑے خاندانوں کی نمائندگی کررہے تھے، اور ان نقیبوں کا نقیب اسعدؓ بن زرارۃ کو مقرر فرمایا۔ ان لوگوں نے واپس لوٹ کر مدینہ کو اسلامی ریاست کا پہلا مرکز بنانے کے لیے زمین ہم وار کی۔ اس تاریخی بیعت کے سلسلے میں جو تفصیلات ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ستر افراد کم سن نوجوان تھے، اور ان میں سب سے کم عمر اسعدؓ بن زرارۃ تھے جنھیں اللہ کے رسول ﷺ نے مدینہ کی قیادت سونپی تھی۔
اللہ کے رسول ﷺ کے ہاتھ پر اس وقت بیعت کرنا کتنی جرأت و شجاعت کا کام تھا اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جب لوگ بیعت کرنے اٹھے تو اسعد بن زرارۃ نے جو ان ستر لوگوں میں سب سے کم عمر تھے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا: یثرب والو ٹھہرو، بلاشبہ ہم اتنا لمبا اور پرمشقت سفر کرکے ان کے پاس آئے ہیں تو بس یہ جان کر کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ انھیں آج نکال لے جانے کا مطلب تمام عربوں سے رشتہ کاٹ لینا ہے، اپنے بہترین آدمیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہے اور یاد رکھو تلواریں تمھیں چبانے آئیں گی، اس لیے اگر تم تیار ہو کہ لوگوں کی تلواروں پر صبر کرو جب وہ تمہارے سروں پر چمکیں، اپنے بہترین آدمیوں کا قتل گوارا کرو اور تمام عربوں کی دشمنی برداشت کرو، تو آپ کو لے چلو، تمہارا اجر اللہ پر ہے اور اگر تم لوگ اپنے سلسلے میں کچھ بھی ڈرتے ہو تو انھیں چھوڑ دو، یہ اللہ کے نزدیک زیادہ چھوٹا گناہ ہوگا۔
اس بیعت سے پہلے بارہ افراد نے آکر بیعت کی تھی وہ بھی جوان تھے، اور ان کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ نے مصعبؓ بن عمیر کو مدینہ تبلیغ وتعلیم کے لیے بھیجا وہ بھی جوان تھے۔ انھوں نے دن رات محنت کرکے مدینہ کے گھر گھر اسلام کی روشنی پہنچادی تھی۔
بعد میں تو مدینہ کی بڑی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا تھا، لیکن شروع میں اسلام کو مکہ سے مدینہ تک پہنچانے کے لیے جن طاقت ور کندھوں نے خود کو پیش کیا وہ سب جوان کندھے تھے۔
جوان تحریک جوانوں میں زیادہ مقبول ہوتی ہے
اسلامی تحریک طاقت ور اور بڑی تبدیلی لانے کا مشن رکھتی ہے۔ جتنی بڑی تبدیلی کی دعوت لے کر یہ تحریک اٹھتی ہے، اس پر لبیک کہنا ان جوانوں کے لیے تو آسان ہوتا ہے جن کے اندر جوانی کا جوہر خالص اور تازہ دم ہوتا ہے، البتہ بوڑھوں میں صرف وہی لوگ اسے قبول کرتے ہیں جن کا باطن ابھی جوان اور بڑی تبدیلیوں کے لیے آمادہ ہوتا ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسلام کی دعوت کو قبول کرنے والے عام طور سے جوان رہے ہیں۔ درج ذیل دو مثالوں کے ذریعہ اس کی وضاحت ہوتی ہے۔
ایک طرف موسی علیہ السلام تھے اور دوسری طرف فرعون اپنے پورے لاؤ لشکر اور ظلم و جبروت کے ساتھ تھا، ایسے میں فرعون کے خوف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے موسی علیہ السلام کی پیروی کا اعلان کرنے والے کچھ نوجوان تھے۔ ( فَمَا آمَنَ لِمُوسَى إِلَّا ذُرِّيَّةٌ مِنْ قَوْمِهِ)
معروف مفسر شیخ عبدالرحمن سعدی لکھتے ہیں:
یعنی بنی اسرائیل کے کچھ نوجوان، وہ خوف کے سامنے ڈٹ گئے، کیوں کہ ایمان ان کے دلوں میں راسخ ہوگیا تھا۔ موسی کی بات ماننے والے صرف نوجوان تھے، اس میں حکمت کا پہلو یہ ہے کہ نوجوان حق کو بڑھ کر قبول کرنے والے اور اس کی پیروی میں تیز چلنے والے ہوتے ہیں۔ (تفسير السعدي)
کہف کے واقعہ میں کافر قوم کے ظلم وجبروت کے باوجود ایمان لانے والے چند نوجوان تھے۔ نَّحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى ( الكهف: 13)
مؤرخ ومفسر علامہ ابن کثیر کہتے ہیں:
’’ اللہ نے ذکر کیا کہ وہ نوجوان تھے، وہ حق کو بڑھ کر قبول کرنے اور راہ راست کو پانے میں ان بوڑھوں سے آگے ہوتے ہیں جو باطل کی راہ میں بہت بڑھ چکے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی دعوت پر لبیک والوں کی اکثریت جوانوں کی تھی، جہاں تک قریش کے بڑوں کی بات ہے عام طور سے وہ اپنے مذہب پر باقی رہے اور ان میں سے بہت تھوڑوں نے اسلام قبول کیا۔‘‘ (تفسير ابن كثير)
اسی لیے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ درج ذیل حدیث سند کے اعتبار سے تو ثابت نہیں ہے لیکن اس کے متن کا مفہوم تاریخ اور فطرت کے مطابق ہے:
’’استوصوا بالشباب خيرا، فإنهم أرق أفئدة وألين قلوبا، وإني لما بعثت آمن بي الشباب وكفر بي الشيوخ‘‘
(تمھیں جوانوں کے ساتھ بھلائی کی نصیحت کی جاتی ہے، ان کے دل نرم ہوتے ہیں، اور جب مجھے بھیجا گیا تو جوان مجھ پر ایمان لائے اور بوڑھوں نے مجھے جھٹلادیا)
غرض اسلامی تحریک کا فوکس ایریا نوجوان نسل ہونی چاہیے، وہاں اس کے پیغام کی قبولیت کے امکان بھی زیادہ ہیں، اور وہیں سے اسے بہترین مردان کار بھی مل سکتے ہیں۔ جوانوں میں کام کرنے اور پھیلنے والی تحریک سدا جوان رہتی ہے، اور انھیں نظر انداز کرنے والی تحریک خود بڑھاپے اور ضعیفی کا شکار ہوجاتی ہے۔
نوجوانوں پر بھرپور توجہ دینے کے سلسلے میں مولانا علی میاں ندوی ؒنے داعیان دین کی بہت خوب رہ نمائی کی ہے:
’’ہم نوجوانوں سے الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں، ہمارے درمیان بہت زیادہ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں ہیں، ہم اس صورت حال سے آگاہ نہیں ہیں جس میں نوجوان جی رہے ہیں، اس لیے اگر پیروں اور جوانوں کے درمیان کھائی کو پاٹ دیا جائے، داعیان دین اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان دوری کو قربت سے بدل دیا جائے تو ہم ان کی بڑی تعداد کو اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں اور انھیں اس دعوت پر اطمینان رکھنے والے، اس پر لبیک کہنے والے اور اس کے لیے جوش و جذبہ رکھنے والے بناسکتے ہیں۔ لیکن یہ کام گہری باریک منصوبہ بندی اور سائنٹفک نقشہ کار چاہتا ہے، یہ نیا کتب خانہ چاہتا ہے، یہ نوجوانوں کے ساتھ گفتگو کا جدید اسلوب چاہتا ہے، یہ وہ حکمت چاہتا ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے۔یہ چاہتا ہے کہ ہمارے پاس قوی اور بلیغ قلم ہوں، بیان کی قدرت، ادب کی کشش اور تعبیر کی چاشنی ہو۔ یہ راستہ اختیار کیے بغیر کوئی دعوت پیش قدمی نہیں کرسکتی اور نہ ہی نوجوانوں کے دل ودماغ تک رسائی حاصل کرسکتی ہے۔‘‘ (نحو التربیۃ الاسلامیۃ الحرۃ سے ترجمہ)
بزرگوں کے تجربات کی قدر، جوانوں کو تجربات کا موقع
مثالی صورت میں بزرگوں کے پاس تجربات اور آگہی کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے، جب کہ نوجوانوں کے پاس جدید ترین معلومات زیادہ ہوتی ہیں اور تجربات کرنے کا موقع اور شوق ہوتا ہے۔ ان امور کے درمیان توازن رکھنا تحریک کے استحکام و ترقی کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
قدیم نسل تجربہ رکھتی ہے اور جدید نسل تجربہ کرتی ہے۔ اسلامی تحریک میں دونوں کی قدر کرنا ضروری ہے۔ قدیم تجربہ جدید تجربات کا بدل نہیں ہوسکتا، اور قدیم تجربات سے فیض اٹھائے بغیر نئے تجربات کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بزرگوں کا تجربہ تحریک کو استحکام دیتا ہے اور نوجوانوں کے تجربات تحریک کے لیے تازگی اور پیش قدمی کا سامان کرتے ہیں۔
کندھوں پر کھڑے ہونے کے تقاضے
تحریک میں شامل ہونے والے نئے جوان اسی وقت بلندی پر پہنچتے ہیں جب وہ سابقین کے کندھوں پر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے دو طرفہ تقاضے ہیں۔
ایک طرف جوانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر تبصرہ نہ کریں کہ بزرگوں نے کہاں تک نہیں دیکھا، وہ اس کی قدر کریں کہ انھوں نے اپنے کندھے پیش کرکے اور کچھ دور تک سہی دیکھ کر ان کے لیے زیادہ دور تک دیکھنے کا انتظام کیا۔
دوسری طرف بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ نہ چاہیں کہ نوجوان وہاں تک دیکھیں جہاں تک انھوں نے دیکھا ہے، بلکہ ان کی خواہش یہ ہونی چاہیے کہ بعد میں آنے والے نوجوان وہاں تک دیکھ لیں جہاں تک دیکھنے کا انھیں موقع نہیں مل سکا۔
جوانوں کی قدر شناسی
جوان تحریک میں جوانوں کی قدر ان کی جوانی ہی میں پہچان لی جاتی ہے اور ان کی خوبیوں اور صلاحیتوں کے اعتراف کے لیے بڑھاپے کا انتظار نہیں کیا جاتا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ خوبیوں اور صلاحیتوں والے فرد کا جتنی جلدی اعتراف کرلیا جائے اتنا زیادہ وہ تحریک کے لیے مفید ہوتا ہے۔
کم سن نوجوانوں کو اگر اس نظر سے دیکھا جائے کہ وہ ابھی چھوٹے بچے ہیں تو وہ بہت بڑی عمر تک چھوٹے ہی نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر ان کی عمر کو نہ دیکھ کر ان کی صلاحیت کو دیکھا جائے تو بہت سے نوجوان اپنی کم سنی ہی میں بڑے نظر آتے ہیں، امام احمد بن حنبل کے زمانے کی بات ہے، اس وقت علماء میں حدیثوں کو جمع کرنے کا شوق سب سے زیادہ تھا، جو عالم جتنا زیادہ عمر دراز ہوتا اس کے پاس اتنی ہی مختصر سند (عالی سند) کی حدیثیں مل جاتیں۔ ایسے میں یحیی بن معین نے دیکھا کہ احمد بن حنبل شافعی کے خچر کے پیچھے چل رہے ہیں، انھوں نے کہا: سفیان کی عالی سند والی حدیثوں کو چھوڑ کر آپ اس نوجوان کے پیچھے چل رہے ہیں اور اس کی باتیں سننے میں لگے ہیں۔ احمد بن حنبل نے ان سے کہا اگر آپ کو معلوم ہوجائے تو اس خچر کے دوسری طرف آپ چلیں۔ سفیان کا علم اگر مجھے عالی سند سے نہیں مل سکا تو غیر عالی سند سے مل جائے گا، لیکن اس نوجوان کی دانائی اگر مجھ سے چھوٹ گئی تو کسی طرح نہیں ملے گی۔”
اس مثال میں بزرگوں کی کہکشاں کے ہوتے ہوئے ایک نوجوان دوسرے نوجوان کی قدر پہچان لیتا ہے۔ جب کہ نیچے کی مثال میں ایک بزرگ ایک نوجوان کی عظمت کا ادراک کرتا ہے۔
دور حاضر کے مشہور ترین مفسرین میں ایک نام طنطاوی جوہری (پیدائش: 1862 وفات: 1940) کا ہے، انھوں نے سائنسی علوم اور دریافتوں کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیر کی۔ ان کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ہم یہاں ذکر کریں گے۔
ان کی ملاقات حسن البنا سے ہوئی، اس وقت ان کی عمر تقریبا ستر سال تھی اور حسن البنا کی عمر تقریبا پچیس سال تھی۔ انھوں نے حسن البنا سے پوچھا تمھارا مشن کیا ہے؟ حسن البنا نے تفصیل سے بتایا اور طنطاوی جوہری مطمئن ہوگئے۔ تب حسن البنا نے ان سے مؤدبانہ عرض کیا: استاذ محترم آپ ہمارے اور سب کے استاذ ہیں۔ آپ حکیم الاسلام ہیں۔ اور آپ اس تحریک کی قیادت (مرشد عام) کے لیے زیادہ حق دار ہیں۔ آپ ہاتھ بڑھائیے میں بیعت کرتا ہوں۔ شیخ نے کہا: نہیں میرے بھائی، تم اس مشن کے علم بردار ہو، تم اس کی زیادہ قدرت رکھتے ہو، تم اس کے لیے زیادہ موزوں ہو، میں تم سے اس کے لیے بیعت کرتا ہوں اور اپنا ہاتھ بڑھایا اور بیعت کرلی۔ بعد میں ایک عالم نے ان سے پوچھا: آپ اتنے جلیل القدر عالم ہیں، آپ اس کے لیے کیسے آمادہ ہوگئے کہ اپنے سے کم رتبے والے ایک مدرس کے مامور بن گئے؟ انھوں نے جواب دیا: میں اس شخص کے بارے میں جو جانتا ہوں اگر تم جان لو تو تم بھی اسلام کی نصرت کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے خود کو مجبور پاؤ گے۔
خاص بات یہ ہے کہ اس بزرگ نے سب سے پہلے یونیورسٹی کے طلبہ پر کام کیا اور ان کے ایک گروپ کو تحریک میں شامل ہونے پر آمادہ کیا اور اس طرح ایک ستر سالہ بزرگ کی کوشش سے اسلامی تحریک میں پہلی بار طلبہ کا گروہ تشکیل پایا۔
جوانوں اور بزرگوں کی تقسیم کے لیے جگہ نہ رہے
جب تحریک میں نیا جوان خون تیزی کے ساتھ شامل ہوتا ہے، اور تحریک کی بڑی اکثریت جوانوں کی ہوتی ہے، جوانوں کو تحریک کے راستے اپنے عزائم کی تکمیل کے بھرپور مواقع ملتے ہیں، ان کے شوق اجتہاد اور جوش جہاد کے سامنے رکاوٹیں حائل نہیں ہوتی ہیں تو پوری تحریک جسد واحد کی طرح ہوتی ہے۔
لیکن جب نوجوانوں میں کام کی طرف سے غفلت ہوتی ہے تو تحریک کی اکثریت ادھیڑ عمر والوں اور بوڑھوں کی ہوجاتی ہے، ایسے میں لازمی طور پر پوری تحریک کی سوچ، مزاج اور ماحول پر بڑھاپے کا اثر چھا جاتا ہے۔ گزرے ہوئے کل کے جوان آج بوڑھے ہوچکے ہوتے ہیں وہ گزرے ہوئے کل کی یادداشت کو سینے سے لگائے ہوتے ہیں، جب کہ آج کے جوان یادداشت سے زیادہ یافت پر مچلتے ہیں۔ ایسے میں جوانوں کے اندر بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ اس بے چینی کا تدارک نہ کیا جائے تو شیوخ اور شباب کے درمیان خلیج قائم ہوجاتی ہے اور تحریک میں بزرگ اور جوان دو مقابل فریق بن جاتے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام کی کئی اسلامی تحریکیں اس تقسیم کا پریشانی کے ساتھ سامنا کررہی ہیں۔
جوانی کے جدید مظاہر کو اہمیت دی جائے
فاعلیت اور جدت دونوں ہی چیزیں جوانوں کو متاثر کرتی ہیں۔
پرانے زمانے میں تیغ آزمائی، تیر اندازی اور گھڑ سواری جیسے مشغلے جوانی کو تسکین دیا کرتے تھے۔ دور جدید میں جوانی کے مظاہر مختلف ہیں۔
دور جدید کا ایک مظہر ٹکنالوجی کا استعمال ہے۔
دور جدید کا ایک اور مظہر مختلف کاموں کی انجام دہی میں جدید مہارتوں کا استعمال ہے ۔
کام شروع کرنے سے پہلے تفصیلی پلاننگ اور منصوبہ بندی بھی دور جدید کے مظاہر میں سے ہے۔
ابھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے لوگ ان مظاہر کو اختیار کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ جب کہ نئی نسل کے کم سن نوجوان ان کا شوق اور مہارت رکھتے ہیں۔
ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں ہر عمر کے لوگوں میں یہ سب کچھ عام ہوجائے۔ اور نوجوانی کا تعارف ترقی کی دوسری شکلوں سے ہونے لگے۔
بہرحال، دور حاضر میں اسلامی تحریک کے جوان رہنے کے لیے ایسی جدید چیزوں کا استعمال اہمیت رکھتا ہے۔ تحریک میں جوانی کی روح کو بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ان چیزوں کا کثرت سے اہتمام کیا جائے جو جوانوں کے مزاج کے مناسب ہوتی ہیں۔
جوانوں کو میدان کار دیا جائے
جوانوں کو تحریک میں شامل کرنا کافی نہیں ہے، یہ بھی ضروری ہے کہ انھیں میدانِ کار کی رہ نمائی کی جائے اور نصب العین کے حصول کے لیے انھیں زیادہ سے زیادہ پروگرام اور مہمات دی جائیں۔
اللہ کے رسول ﷺ نے نوجوان صحابی حضرت مصعبؓ بن عمیر کو اسلام کی دعوت اور تعلیم دینے کے لیے مدینہ بھیجا، یہ بہت اہم اور بہت مشکل مہم تھی۔
آپ نے حضرت جعفر طیارؓ کو جوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ حبشہ دعوتی مہم پر بھیجا۔
آپ نے حضرت علیؓ کو ایک مہم پر بھیجتے ہوئے کہا: اللہ تمھارے ذریعے ایک آدمی کو ہدایت دے دے تو یہ تمھارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔
ایک خاص واقعہ روایتوں میں ملتا ہے کہ انصار کے ستر جوان مرد تھے، انھیں قرآن کے قاری کہا جاتا، وہ مسجد میں رہا کرتے، جب شام ہوجاتی تو شہر کے ایک کنارے چلے جاتے، باہم پڑھتے پڑھاتے اور نمازیں ادا کرتے، ان کے گھر والے سمجھتے وہ مسجد میں ہیں اور مسجد والے سمجھتے کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس ہیں، یہاں تک کہ جب صبح نمودار ہونے کو ہوتی تو میٹھا پانی لیتے، لکڑیاں جمع کرتے اور لاکر اللہ کے رسولﷺ کے حجرے کے پاس رکھ دیتے۔ نبی ﷺ نے ان سب کو ایک تعلیمی مہم پر بھیجا، اور وہ معونہ نامی کنویں کے پاس شہید کردیے گئے، نبی ﷺ نے ان کے قاتلوں کے خلاف پندرہ دن تک فجر کی نماز میں بددعا کی۔ (احمد)
غرض تحریکی زندگی میں جوانوں کو زیادہ سے زیادہ کام کے مواقع ملنے چاہئیں، اور خود جوانوں کے شایان شان ہے کہ وہ یہ مواقع خود بڑھ کر پیدا کریں اور ان میں خود کو مصروف رکھیں۔ جو لوگ اس کا انتظار کرتے ہیں کہ دسترخوان بچھاکر ان کے سامنے کام کے مواقع چن دیے جائیں گے، وہ انتظار ہی میں پوری جوانی گزار دیتے ہیں۔ جن جوانوں پر مقصد کی دھن سوار ہوجائے وہ خود مواقع پیدا کرتے ہیں۔
جوان تحریک ناسٹلجیا سے دور رہتی ہے
ناسٹلجیا اس کیفیت کو کہتے ہیں جب آدمی حال سے غیر مطمئن اور مستقبل سے مایوس ہوکر ماضی کی حسین یادوں سے دل بہلاتا ہے۔
ناسٹلجیا بوڑھی تحریک کی علامت ہے، جوان تحریک اپنے موجود افراد میں خوبیوں کو تلاش کرتی ہے۔ ناسٹلجیا میں اچھے افراد ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتے یا نگاہ کو نہیں بھاتے۔
اسلامی تحریک میں ایسی کیفیت کا پیدا ہونا اچھی علامت نہیں ہے۔ ماضی کی تابناک شخصیتوں اور کارناموں کا تذکرہ حال سے مایوس کرنے کے لیے ہرگز درست نہیں ہے، وہ حال کو جوش اور توانائی سے بھرنے کے لیے ہی درست ہوسکتا ہے۔
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے ایک اور نکتے کا خیال رکھنا ضروری ہے، وہ یہ کہ تحریک کو ویسا بنانا مطلوب نہیں ہے جیسا بانی تحریک نے بنایا تھا، بلکہ وہاں پہنچانا مطلوب ہے جہاں پہنچانے کا بانی تحریک نے خواب دیکھا تھا، یا اس سے بھی آگے، جہاں پہنچانے کا خواب آپ دیکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر تحریک کے سابقین سینما کے قریب نہیں پھٹکتے تھے، لیکن ان کا خواب یہ تھا کہ سینما کو اسلام کے رنگ میں رنگ دیا جائے اور اسلام کی خاطر اس کا استعمال کیا جائے۔ اس لیے مطلوب وہ نہیں ہے جو وہ کرتے تھے مطلوب وہ ہے جس کا وہ خواب دیکھتے تھے، یا ان کے خواب سے بھی اور آگے بڑھ کر جس کا خواب آپ دیکھتے ہیں۔
اسی طرح ماضی کی وہ روایات جن کا تعلق وسائل اور طریقہ کار سے ہے ان کا زمانے کے ساتھ تبدیل ہونا فطری بات ہے۔ ٹھوس اصول اور ابدی اقدار کی پابندی پر اکسانے والی روایات کو سینے سے لگانا مطلوب ہے۔
کئی کئی گھنٹے تک تحریک کے لیے کام کرنے کی دھن ضرور مطلوب ہے، ماضی میں وہ میلوں سائیکل چلاکر گاؤں گاؤں ملاقات کرنے اور لٹریچر پہنچانے کی شکل میں تھی، اور اب وہ سوشل میڈیا کا نتیجہ خیز استعمال کرنے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے۔
بہترین نمونوں کی اہمیت ہے
جوان تحریک میں مثالی جوانوں کے تذکرے اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ جوانوں کے جوش و جذبے کو مہمیز لگانے میں مفید ہوتے ہیں۔ علامہ ابن رجب نے اس راز سے پردہ اٹھایا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کے بیٹے عبدالملک اپنے وقت کے بے مثال جوان تھے، دنیا سے بے رغبتی اور پرہیزگاری میں اپنے والد سے بھی بڑھے ہوئے تھے، نوجوانی ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ عزیمت سے بھرپور ان کے واقعات ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن رجبؒ لکھتے ہیں: “وہ اپنی کم سنی کے باوجود عبادت میں محنتی تھے، دنیا ان کے سامنے بچھی ہوئی تھی پھر بھی وہ اس سے بے نیاز رہتے ہوئے پرہیزگاری کا پیکر بنے رہے۔ اللہ کی توفیق سے امید ہے کہ ان کے واقعات سن کر دوسرے جوانوں کو نمونہ حاصل ہوجائے۔”
جوانو یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے
جوان تحریک میں جوانوں کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ہے بلکہ محبت اور دردمندی سے انھیں اپنا مخاطب بنایا جاتا ہے۔ جب اسلامی امت جوان اور تازہ دم تھی تو جوانوں کو خاص اہمیت حاصل تھی، اور امت کے مربی ومعلم حضرات جوانوں کو خصوصی خطاب کرتے تھے، ہم ذیل میں کچھ مثالیں ذکر کریں گے، یہ نصیحتیں نوجوانوں کے لیے بہت قیمتی ہیں اور اس لائق ہیں کہ ہر مسلم نوجوان انھیں اپنے دل کی دیواروں پر آویزاں کرے۔
ميمون بن مهران: يا معشر الشباب قوتكم اجعلوها في شبابكم، ونشاطكم في طاعة الله. (جوانو! اپنی طاقت کا استعمال اپنی جوانی میں کر ڈالو اور اپنی چستی کو اللہ کی اطاعت میں لگاؤ)
حسن بصري: يا معشر الشباب، عليكم بالآخرة فاطلبوها. (جوانو! آخرت کی طلب میں نکل جاؤ)
سري: يا معشر الشباب، اعملوا فإنما العمل في الشبيبة (جوانو! محنت کرو، محنت تو جوانی ہی میں ہوپاتی ہے)
سفيان ثوري: يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ تَعَجَّلُوا بَرَكَةَ هَذَا الْعِلْمِ. (جوانو! اس علم کی برکت کو پانے میں جلدی کرو)
يوسف بن أسباط: يا معشر الشباب بادروا بالصحة قبل المرض (جوانو! بیماری سے پہلے صحت ہی میں جلدی کرلو)
ابن جوزي: يَا معشر الشَّبَاب هَذَا زمَان ربيعكم فَأَيْنَ زهر علومكم (جوانو! یہ تمھارا موسم بہار ہے، پھر تمھارے علم کے پھول کہاں ہیں)
حسن بصري: يا معشر الشباب أما تشتاقون إلى الحور العين. (جوانو! تمھارے اندر حوروں کے لیے شوق کی بیتابی کیوں نہیں ہے)
حسن بصری: يا معشر الشباب إياكم والتسويف: سوف أفعل، سوف أفعل. (جوانو! ٹال مٹول سے دور رہو، یہ نہ کہو کہ میں کرلوں گا، میں کرلوں گا۔)
حفصہ بنت سيرين: يا معشر الشباب! اعملوا، فإنما العمل في الشباب.(جوانو! عمل کرو، عمل تو جوانی ہی میں ہوتا ہے)
بے داغ جوانی
عبداللہؓ بن مسعود کہتے ہیں: ہم نبی ﷺ کے ساتھ رہتے تھے، ہم لوگ نوجوان تھے اور تنگ حال تھے، نبی ﷺ نے ہم سے کہا: جوانو! جو قدرت رکھتا ہو وہ شادی کرلے، اس سے نگاہ اور شرم گاہ کی خوب حفاظت ہوتی ہے، اور جو شادی نہ کرسکے وہ روزے رکھے اس سے بھی نفس قابو میں رہتا ہے۔ (تشریح: نوجوانوں کو اپنی نگاہ اور شرم گاہ کی حفاظت کے لیے فکرمند رہنا چاہیے)
اسلامی تحریک کو ایسے ہی جوانوں کی ضرورت ہے جو اپنے شباب پر داغ نہ لگنے دیں۔
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری
واقعہ یہ ہے کہ اسلامی کاز کو بہت بڑا نقصان ان جوانوں سے پہنچا ہے جو اپنے نفس کو قابو میں نہیں رکھ سکے۔
بہت ضروری ہے کہ جوان اسلامی تحریک کا دامن بھی بے داغ رہے اور اس کے جوانوں کے دامن بھی پاک و صاف رہیں۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2021