تعلیم کے ساتھ اگر تربیت نہ ہو تو تعلیم فتنہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔، پھر اولاد بھی مال و دولت کی طرح فتنہ کا سبب بن سکتی ہے۔ قدریں پامال ہو جاتی ہیں ، انسانیت شرمسار ہوتی ہے، قلب ایمان و یقین سے خالی ہو جاتا ہے، عمل ،علم سے بے تعلّق ہو جاتا ہے، محبّت اپنے خالق و رازق کے بجائےمادّی چیزوں سے ہوجاتی ہے۔ انسان کی پہچان اس کے اخلاق کے بجائے مال ودولت اور جاہ و حشمت سے کی جانے لگتی ہے۔ گھر، والدین، رشتےدار، پڑوسی، غرباء و مساکین اور سماج کے حقوق بوجھ لگنے لگتے ہیں۔
یقین جانیے بچّے والدین کو اپنا ’’ہیرو‘‘ مانتے ہیں، ہر بچّے کی نظر میں اس کے ابّا اور اس کی امّی سب سے اچھّے ہیں، اس کا یہ یقین کبھی ٹوٹنے نہ دیں۔ اپنے بچّے کو ایک بہتر سے بہتر انسان بنانے کے لئے خود کو ایک بہتر سانچے میں ڈھال کر پیش کریں۔ انشاءاللہ اولاد کبھی آپ کو مایوس نہ کرے گی۔ اولادیں اصل میں اللہ کی امانت ہے۔ یقین رکھیئے یہی اولاد ہمارے لئے روزِمحشر جنّت میں داخلے کا سبب ہو گی انشاءاللہ۔
تربیت کیسے؟
کوشش کریں کہ بچّے ان باتوں پر عمل کریں اور اللہ ہم سب کو توفیق عطاکرے۔
1۔ بسمِ اللہ کہہ کر ہر کام کی شروعات کرنا۔
2۔ نماز وقت پر ادا کرنا جماعت کے ساتھ ہو ۔
3۔ زبان پر ہمیشہ شکریہ کلمات ہوں، با ت بات پر فلاں فلاں چیزوں کے نہ ہونے کا رونا رونے کے بجائے موجود نعمتون(چیزوں) کا شکر ادا کرتے رہنا۔ اللہ کا شکر، والدین کا شکر، جس کسی سے بھی تھوڑی سی مدد ملے اسکا شکریہ ادا کرنا۔ الحمدللہ، جزاک اللہ ، کے جملے زبان پر ہمیشہ رہنے چاہئے ۔
4۔ ڈر صرف اللہ کا پیدا کریں، کوئی دیکھے نہ دیکھے اللہ دیکھ رہا ہے، اکیلے میں بھی وہ نیک و صالح رہے گا۔
5۔ سب سے زیادہ محبّت ہم سے ہمارا اللہ کرتا ہے، یہ بات ذہن میں بیٹھی رہے، اللہ ہم سب سے ہماری محبوب ماؤں سے بھی ہزار گنا زیادہ محبّت کرتا ہے، یہ بات بچّوں کے دل ودماغ میں بس جائے تاکہ وہ کبھی مایوس یا نا امّید نہ ہو، خود کو زندگی کے کسی مشکل سے مشکل لمحے میں بھی اکیلا محسوس نہ کرے ۔
6۔ پانی نعمت ہے اس کی قدر کرنا سکھا ئیں۔ پانی برباد نہ ہو، ضرورت سے زیادہ بالکل نہ لیں نہ بہائیں، وضو میں، برش کرتے وقت، واش روم میں، پینے میں احتیاط برتیں۔ پیتے وقت بیٹھ کر پئیں، تین سانسوں میں داہنے ہاتھ سے پئیں جتنا پینا ہو اتنا ہی لیں ( ایک بڑی آبادی ہندستان میں پانی کے لئے ترستی ہے اور بارش کے موسم میں پانی کو اسٹور جمع کر کے سال بھر پینے کے لئے رکھتی ہے، کہیں کہیں لوگ میلوں چل کر پانی لاتے ہیں، کہیں کہیں دن بھر میں گھنٹے دو گھنٹے کے لئے ہی پانی آتا ہے۔ہمارے یہاں بہت آسانی ہے، نعمت کی قدر کریں)۔
7۔ماں باپ کی خدمت۔ ان کے پیر دبانا، سر میں مالش کر دینا، ان کے کام خود سے آگے بڑھ کر کردینا، ان کا کہا ماننا، ان کو کبھی جھڑکنا نہیں، گھر کے کام میں امّی کا ہاتھ بٹادینا، کھانا دسترخوان پر یا ڈائننگ ٹیبل پر لگانے میں مدد کر دینا، کھانے کے بعد پلیٹ اٹھالینا، پلیٹ دھونے میں امّی کی مدد کردینا، جھاڑو لگانے میں شرمانا نہیں، ابّو امّی کے اپنے جوتے یا سینڈل میں پالش کر دینا، نہاتے وقت پانی چلا دینا یا تولیہ لا دینا۔یہ اور اسطرح کے کام بڑھ چڑھ کر کرنا۔
8۔ سلام کو عام کرنا۔ ہر کسی کو سلام کرنا، گھر میں جتنی بار داخل ہونا یا گھر سے جتنی بار نکلنا سلام کرنا، گھر میں کوئی ملنے آئیں یا آپ کہیں جائیں سلام کریں،راستے میں کوئی ملے تو سلام کرنا، چھوٹے بڑے سب کو سلام کرنا، سلام میں پہل کرنا۔
9۔ گھر میں مدد کرنے والا یا مدد کرنے والی(کوئی کام کرنے والا یا کام کرنے والی) ہو تو اسے بوا، خالہ، چچا، بھیّا، کہہ کر پکاریں، اسے عزّت دیں، اس کی خیریت پوچھتے رہیں، اس کا پورا خیال رکھیں، اللہ نے جسے بھی ہمارے ماتحت کیا ہے اس کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کریں۔
10۔گھر میں سارے بڑوں کا احترام کریں، ان کا کہنا مانیں، ان کی عزّت کریں، ان کے کام خود سے کر دیں، دادا، دادی، نانا، نانی، چاچا، چاچی، ماما، مامی ، بھائی، بہن ۔سب کی قدر کریں، ان کو وقت دیں، خاص کر ضعیفوں کے پاس وقت نکا ل کر بیٹھیں، ان کی بات محبّت سے سنیں۔ چھوٹوں سے پیار کریں، ان کے ساتھ کھیلیں، ان کو اچھی اچھی کہانیاں سنائیں، ان کو قریب کریں، رسولﷺ بچّوں سے بہت بہت پیار کرتے تھے۔
11۔ رشتے داروں کو پہچانیں، خواہ وہ امیر ہوں یا غریب ان کو یکساں عزّت دیں، سب کے ساتھ محبّت سے پیش آئیں، ان کی مدد کو تیّار رہیں، رسول اللہؐ رشتے داروں کی بڑی عزّت کیا کرتے تھے۔ جو رشتے اللہ نے بنا دئے ہیں ان کی قدر ہر حال میں ضروری ہے۔
12۔ پڑوسیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں، ان کا پورا خیال رکھنا، یاد رکھیں اللہ نے پڑوسیوں کے اتنے حقوق دئے ہیں کہ ہمارے گھر کے پکوان (کھانے)میں بھی ان کا حصہ رکھا ہے، ان کی مدد کو تیّار رہنا، ان کو تکلیف نہ دینا، ان کے یہاں کچھ نہ کچھ بھیجتے رہنا، ان کی خبر خیریت لیتے رہنا۔ ہر طرح کے پڑوسیوں کا خیال رکھنا، غریب ونادار پڑوسیوں کا زیادہ خیال رکھنا، ان کے بچّوں کےسامنے اپنے قیمتی کھلونے یا کپڑوں کی نمائش سے بچنا، اپنے امیر ہونے کا احساس یا ان کے غریب ہونے کا احساس نہ ہونے دینا۔
13۔ غیبت سے بچیں۔ یہ بیماری عام ہے، ہم اپنی بات سے زیادہ دوسروں کی بات کرتے ہیں، والدین بچّو ںکے سامنے دوسروں کی یا اپنے کسی رشتے دار کی برائیاں کریں توبچّوںمیں نفرت پروان چڑھتی ہے۔ غیبت سے ہم بھی بچیں اور اپنی اولاد کو بھی روکیں۔، جب تک ہمیں اس مہلک مرض (غیبت) سے گھن نہیں آئیگی ہم رک نہیں سکتے، اللہ نے غیبت کے لئے قرآن میں فرمایا کہ یہ’’اپنے سگے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے جیسا کام ہے‘‘۔ اللہ ہم سب کو بچائے ۔ آمین۔
14۔صفائی کا خاص خیال رکھیں۔دل کے ساتھ ساتھ کپڑے، گھر، دروازہ، آس پڑوس اس کی صفا ئی کا خاص خیال رکھیں، جب بھی کوڑا دکھے، کوئی بھی گندگی دکھے، پلاسٹک دکھے اسے فوراََ خود سے ڈسٹ بن میں ڈالیں ، ادھر اٗدھر نہ تھوکیں اور اگر کوئی تھوکے تو اسے اچھے طریقے سے روکیں، ناک بھی نل کے پاس صاف کریں، برش صبح اور رات سونے سے پہلے ضرور کریں، ٹوائلٹ کے بعد ہاتھ صابن سے اچھی طرح سے صاف کریں۔
15۔ کھانا مہذّب طریقے سے کھائیں، دانے (رزق) کو عزّت دیں۔بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کریں، کھانے کی برائی نہ کریں، ہر حلال چیز خوشی سے کھانے کی کوشش کریں اگر پسند نہ ہو تو خاموشی سے کچھ اور کھا لیں لیکن برائی نہ نکالیں، جتنا کھائیں اتنا ہی لیں، برباد بالکل نہ کریں(یاد رکھیں اب بھی ہندستان مین 25-30 کڑوڑ کی آبادی ایسی ہے جسے دو وقت کا کھانا نہیں مل پاتا ہے اور اللہ کا کرم ہے کہ ہم ان میں سے نہیں ہیں)،کھانا بیٹھ کر سکون سے کھائیں، سامنے سے کھائیں، کھاتے وقت بنا ضرور ت بات نہ کریں، منھ بند کر کے کھائیں تا کہ منھ سے آواز بھی نہ نکلے اور سامنے والے کو چبایا ہوا کھانا بھی نہ دکھے، کھانے میں بات کریں گے تو سامنے والے کے پلیٹ میں آپ کے منھ کے کھانے کا چھینٹا (کھانے کا ٹکڑا) ان کی پلیٹ میں یا ان کے چہرے پر پڑسکتا ہے۔ کھانے کے بعد اللہ کا شکر ادا کرنا نہ بھولیں، اگر کسی کے یہاں دعوت پر ہوں تو ان کا بھی شکریہ ادا کریں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں۔
16۔ چلنے کا طریقہ پُروقار رکھیں۔ اکڑ کر نہ چلیں، چال میں اعتدال رکھیں، پیر گھسیٹ کر نہ چلیں، راستے کے بھی حقوق ہیں وہ ادا کرتے چلیں(کوئی نقصاندہ چیز دکھے تو اسے راستے سے دور کر دیں جیسے پتھر، کانٹا، کیلے کا چھلکا وغیرہ، کوئی بوڑھا، بوڑھی یا بیمار وزنی سامان کے ساتھ دکھے تو اس کی مدد کر دیں، کوئی راستہ بھٹک گیا ہو تو اسے راستہ تلاشنے میں اس کی مدد کر دیں، کوئی ملے تو سلام کریں۔ راستے میں کھیلیں کودیں نہیں، ایک طرف سے چلیں، دوسری گاڑیوں کا خیال رکھیں۔
17۔ قرآن روزانہ ضرور پڑھیں۔ اللہ نے جو کتاب ہم انسانوں کے لئے بھیجی ہے اسے ضرور پڑھیں۔
18۔ جھوٹ سے ہر حال میں بچیں۔ بات چھوٹی ہو یا بڑی ، ہنسی میں بھی جھوٹ بولنے سے پرہیز کریں، آپﷺ نے فرمایا مسلمان سب کچھ ہو سکتا ہے لیکن جھوٹا نہیں ہوسکتا۔
19۔ محبّت عام کریں نفرت سے دور رہیں۔ ہر کسی سے محبت کریں، نفرت کو اپنے قریب نہ لائیں، نفرت،حسد و جلن، کینہ بغض، انتقام(بدلہ)، ان سب سے دور رہیں۔ محبت، آپسی بھائی چارہ، ہمدردی ، شفقت، مدد، درگزر(معافی) جیسے صفات پیدا کریں۔
20۔ صدقے خوب کریں۔ کسی کے چہرے پر خوشی لا دینا، اداس چہرے کو ہنسا دینا، کسی کو دیکھ کر سلام کرنا اور مسکرا دینا، کسی کو پانی پلا دینا، پودے لگا دینا، کسی پیاسے جانور کو پانی پلا دینا، چھت پر یا کسی اونچی جگہ پر پرندوں کے لئے دانہ پانی رکھ دینا، کسی کا سامان اٹھا دینا، کوئی رکشے والا یا ٹھیلا والا گھر پر آئے تو اسے پانی پلا دینا، اسے سلام کردینا، اس کی خیریت پوچھ لینا ۔ ۔ ۔ روز کرنے کے کام ہیں، یہ سکون بھی دیںگے، ثواب بھی ملے گا اور آپ کی آنے والی مصیبتیں بھی ٹلیںگی انشاءاللہ۔
21۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت شروع سے بنائیں۔ دل مال کی محبت سے خالی اور اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبت سے بھر ا ہو۔
یہی وہ راستہ ہے جس سے آپ کو بےشمار دعائیں ملیں گی، ہم سب سے بہت سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں ایسے میں یہی دعائیں ہم سب کی کامیابی کا سبب بنیں گی انشاءاللہ۔
ہم اپنے بچّوں کو دونو ں جہان میں کامیاب ، خوش وخرّم اور پرسکون دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کی مدد کرنی ہوگی، تربیت کرنی ہوگی، یہ ہر بچّے کا ہم پر پیدائشی حق ہے۔ جب ہم ان کے حق صحیح طور پر ادا کریںگے تبھی ہم ان سے یہ توقّع کر سکتے ہیں کہ بچّے والدین کے حقوق کو سمجھیں گے اور ادا بھی کریں گے انشاءاللہ۔ اللہ ہم سب کو اپنے اولاد کی صحیح نہج پہ تعلیم و تربیت کی سمجھ و توفیق عطا کرے۔ آمین۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2018