اسلامی ریاست کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ا س کے قیام کے لیے جدوجہد مسلم امت پرفرض ہے، یا مستحب؟ ضروری ہے،یا غیر ضروری ؟ عصر حاضر میںاسلامی ریاست کے قیام کی مہم چلانا اسلام اور اہل اسلام کے حق میںمفید ہے،یا نقصان دہ ؟
یہ مختلف سوالات ہیں،جو علماے امت کے درمیان شروع سے ہی موضوع بحث رہے ہیں۔ علما کی ایک جماعت اسلامی ریاست کے قیام کو فرض اور واجب قرار دیتی ہے،اور ایک زمانے سے اس کی راہ میں جاں بازی وسرفروشی کی نئی نئی داستانیں رقم کر رہی ہے ۔
اس کے بالمقابل علما کی ایک دوسری جماعت ہے، جواسے فرض یا مستحب کے بجائے غیر ضروری، بلکہ نقصان دہ قرار دیتی ہے ۔
پیش نظر تحریر،جو استاذ احمد ریسونی (رئیس الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین)کی عربی تحریر کا ترجمہ ہے، یہ دوسرے نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتی ہے، یہ اسلامی ریاست کے لیے جدو جہد کرنے کی اہمیت گھٹاتی ہے، اور اسے منصوص حکم شریعت ماننے کے بجائے علماےعلما امت کا اجتہاد و استنباط قرار دیتی ہے۔
ظاہر ہے علماے کرام کا اجتہاد واستنباط کوئی قطعی اورآخری چیز نہیںہوتی ہے، اس پر ہمیشہ نظر ثانی کی گنجایش رہتی ہے۔
استاذ احمد ریسونی اسلامی نظام کے قیام کی جدو جہدسے اگر سیاسی جدو جہد، یاسیاسی جوڑ توڑ، یا دہشت گردی اورتخریب کاری مرادلیتے ہیں، جو سیاسی پارٹیاں ملکوں میں ہونے والے الیکشنوں کو جیتنے، اور حریف پارٹیوں کو ہرا کر خودبرسر اقتدار آنے کے لیے کیاکرتی ہیں،تو یقینا ان کی باتوں میں وزن ہے۔اس طرح کی سیاسی یاغیرسیاسی جدوجہد اسلامی تحریکات کے لیے ہمیشہ نقصان دہ رہی ہے۔
اس طرح کی سیاسی یا غیر سیاسی جدوجہد اسلامی تحریکات کے لیے ہمیشہ آزمایشوںکا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔وہ دیکھتے دیکھتے ان کے سارے کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی،اور ا ن کی سالہا سال کی کوششوں کو خاک میں ملا دیتی ہے۔
لیکن اگراستاذ احمد ریسونی کی منشا یہ ہے کہ اسلامی نظام کے قیام کے لیے کسی بھی طرح کی جدوجہد سرے سے غیر مطلوب ہے، اور اس کے لیے کسی طرح کی پلاننگ اور منصوبہ بندی صحیح نہیں ہے،تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔
اسلامی نظام کی تمنا، اور اس کے لیے بے چینی ایک غیرت مند مومن کے ایمان کافطری تقاضا،اور اس کے زندہ ایمان کی علامت ہواکرتی ہے،جس دل میں یہ تمنا نہ ہواس دل کی مثال اس خزاں دیدہ چمن کی سی ہوتی ہے،جو بالکل ہی مرجھا یاہوا ہو۔یا اس بجھے ہوئے چراغ کی سی ہوتی ہے،جس میں روشنی کی کوئی رمق باقی نہ رہ گئی ہو۔کہنے والے نے صحیح کہا ہے:ع
کیا اب حیات وموت کی قدریں بدل گئیں کچھ لوگ زندہ ہیں غم جاناں ترے بغیر!
اسلامی نقطۂ نظر سے وہ زندگی کیا زندگی ہے جو اللہ تعالی کے دین، اور اس کی بھیجی ہوئی شریعت کی بالادستی کے لیے جدوجہد نہ کر رہی ہو ؟
بد قسمتی سے اس امت پر سیکڑوں سال ایسے گذرے ہیں،جو خلافت راشدہ کے تصور سے خالی تھے،یہ سیکڑوں سال اسلام کی کمزوری اور غربت کے سال تھے،جس سے نبی اکرم ﷺ نے پہلے ہی خبردار کردیاتھا:(بدأ الاسلام غریبا وسیعود کما بدأغریبا)(صحیح مسلم۔رقم ۱۴۵)
ان صدیوں میں حکومت کرنے والے گومسلمان تھے، مگردین اسلام مظلوم تھا!مسلم امت اس عرصے میں اپنی ساری آب وتاب کھوچکی تھی۔
استاذ احمد ریسونی کی اس بات سے اتفاق کرنا مشکل ہے، کہ ریاست اور اسلامی نظام سے دور رہتے ہوئے مسلم امت پرمتعدد صدیاں گزری ہیں، جن میں (اسلام کی قوت میں اضافہ ہوتا گیا، وہ دن بدن پھیلتا گیا، اسلامی اقوام متحد ہوکرآگے بڑھتی گئیں،اور دنیا کوفیض پہنچاتی رہیں، حالانکہ ان کے نظام ہاے حکومت کو بیماریاں اور خرابیاں لاحق رہیں)
ظالم اورخدا فراموش حکمرانوں کے سایہ میںرہتے ہوئے اسلام کی قوت میں اضافہ ہونے کا کیا سوال؟اسلام ایسے حالات میں پھلتا پھولتا نظر آتا ہے،مگر وہ خطۂ زمہریر کی دھوپ ہوتی ہے،جس میں کوئی حرارت نہیں ہوتی ۔ وہ پھیلتا ہوا نظرآتاہے، مگر اس میں کوئی جان نہیں ہوتی ہے۔ اس میںعظمت کی کوئی شان نہیں ہوتی ہے۔آج بھی اسلام پھیل رہا ہے،پوری دنیا میں پھیل رہا ہے، اس کے باوجود وہ اپنوں اور پرایوں کے درمیان میں اجنبی بنا ہوا ہے۔مسلم امت اس سے بے گانہ ہوکرنہ جانے کب سے ذلت ونکبت کے انگاروں پرلوٹ رہی ہے!
اسلامی نظام کے بغیرمسلم اقوام کبھی متحد نہیں ہوسکتیں۔اسلامی نظام کے بغیر مسلم اقوام کا متحد ہوجاناسوئی کے ناکے میںاونٹ کے داخل ہوجانے سے کم مشکل نہیں ہے!مسلم امت کو دوسری قوموں پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔دوسری قومیں کسی بھی بنیاد پر متحد ہوسکتی ہیں،مگر مسلم امت کواسلام کے علاوہ کوئی دوسری چیز متحد کرنے والی نہیں ہے ۔
آج کی امت مسلمہ جس خوفناک انتشار کا شکار ہے،یہ ا نتشار اچانک نہیں آگیاہے۔خلافت راشدہ سے محرومی کے بعد رفتہ رفتہ اس امت کا مزاج بگڑتاچلاگیا،اس کے اندر سے اجتماعیت اور اسلامی اخوت کے احساسات ختم ہوتے چلے گئے،للہیت اوردینی غیرت و حمیت کے سوتے خشک ہوتے چلے گئے،یہاں تک کہ پوری امت،خواہ عوام ہوں یا خواص، حاکم ہوں یا محکوم، بھیڑوں بکریوں، یا زرخرید غلاموں کی زندگی گذارنے کی عادی ہوگئی۔
استاذ احمد ریسونی کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ حکومت اسلام کی کڑیوں میں سب سے کمزور کڑی ہے،جس حدیث کا انہوں نے حوالہ دیا ہے، اس سے یہ بات نہیں نکلتی ہے ۔اگر حکومت کی کڑی سب سے پہلے ٹوٹتی ہے،تو اس سے حکومت کی کمزوری نہیں،حکومت چلانے والوں کی نااہلی اورکمزوری ظاہر ہوتی ہے۔امام حاکم نے المستدرک میں حضرت حذیفہ کے حوالہ سے روایت کی ہے:
اول ما تفقدون من دینکم الخشوع،وآخر ما تفقدون من دینکم الصلاۃ۔ (المستدرک علی الصحیحین ۔رقم الحدیث: ۸۴۴۸)
’’سب سے پہلی چیزجس سے تم محروم ہوجا ؤ گے،وہ خشوع کی دولت ہوگی،اور سب سے آخری چیزجس سے تم محروم ہو گے وہ نماز ہوگی۔‘‘
ظاہر ہے یہ خشوع سے خالی نماز ہوگی،جو ہماری کمزوری اور حکومت سے محرومی کا سبب بنے گی،جس کا ذکرابوامامہؓ کی روایت میں آیاہے۔
ریاست کے قیام اور امت کے قیام کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔دونوں میں لازم وملزوم کا رشتہ ہے۔امت کا قیام اسی وقت ممکن ہے،جب اس کے سامنے کوئی اونچا نصب العین ہو۔کیااس سے اونچا کوئی دوسرانصب العین ہوسکتاہے جوہمارے رب نے ہمارے لیے متعین کردیا ہے؟ اور وہ ہے خلافت الہی کا نصب العین۔
اللہ تعالی نے اس زمین پر صالحین کو اپنا خلیفہ بنایا ہے،اور جب تک حکومت کی باگ ڈور صالحین کے ہاتھوں میں نہیں آتی،نہ صالحین کو راحت مل سکتی ہے،نہ عام انسانوں کو۔ اس زمین پر بسنے والی پوری انسانی آبادی آج تباہی وبربادی کے دہانے پر کھڑی ہے، سر پر منڈلانے والے خطرات سے اسی وقت اسے نجات مل سکتی ہے، جب وہ اپنے رب کے بھیجے ہوئے اسلامی نظام کے سایے میں آجائے۔
اسلامی نظام کے قیام کا مسئلہ علمائے کرام کے اجتہاد واستنباط پر مبنی نہیں ہے،یہ قرآن پاک کا صریح حکم ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ومن لم یحکم بما أنزل اللہ فأولئک ہم الکافرون۔ ( سورہ مائدہ: ۴۴ )
’’جولوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی شریعت کے مطابق فیصلے نہ کریں، وہ پکے کافر ہیں۔‘‘
ظاہر ہے، شریعت کے مطابق فیصلے کرنا اسی وقت ممکن ہے جب خلافت راشدہ کے قیام کے لیے جدو جہد ہو۔اور یہ جد و جہداس وقت تک جاری رہے، جب تک خلافت راشدہ قائم نہ ہوجائے۔
یہ کہنے کی کوئی دلیل نہیںہے کہ اسلامی ریاست کا قیام واجب لغیرہ ہے۔ وہ واجب لغیرہ نہیں،واجب لذاتہ ہے۔اور اس وجوب کا تعلق مقاصد سے ہے، وسائل سے نہیں ہے۔اس زمین پر اللہ کا قانون نافذ ہو،اور اس کی شریعت کی عمل داری ہو،یہ کوئی وسیلہ نہیں ہے،یہ بجائے خود مطلوب ہے،جس کی خاطر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔فرمایا: وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
وہ خطرناک دلدل جس میں بعض اسلامی تحریکیں گری ہیںیا گررہی ہیں، وہ اسلامی نظام کے قیام کا نصب العین نہیں ہے،بلکہ غلط پالیسی اور غلط طریق کار ہے۔ اس نصب العین کے حصول کے لیے جو حکیمانہ انبیائی طریقۂ کار ہمیں اختیار کرنا تھا، وہ ہم نے نہیں کیا ۔
اسلامی حکومت عام حکومتوں کی طرح کی کوئی حکومت نہیں ہوتی۔اسلامی نظام کسی بھی طور سے حکومت کے ایوانوں اور سرکاری خزانوں پر قابض ہوجانے کا نام نہیں ہے۔ اسلامی حکومت زمین پر قائم ہونے سے پہلے انسانی ذہنوں، انسانی دماغوں، اورانسانی زندگیوںپر قائم ہوتی ہے۔
اسلامی حکومت کبھی اوپر سے مسلط نہیں ہوتی،بلکہ یہ اچھے اور خدا پرست مسلم سماج کے دل کی آواز ہوتی ہے۔
اسلامی حکومت کا خواب دیکھنے، یا زبان پر اس کا نام لانے سے پہلے اچھے مسلم سماج کا قیام ضروری ہے۔محبت اور دل سوزی کے ماحول میںوسیع پیمانے پرلوگوں کی ذہن سازی اور کردار سازی ضروری ہے ۔
تحریک اسلامی میںدعوت وتربیت کا یہ عمل مسلسل جاری رہنا چاہیے،اس لیے نہیں کہ تحریک کوحکومت کی کنجیاں اورا قتدار کی گدیاں حاصل ہوجائیں، بلکہ اس لیے کہ خدا کے بندوں کو خدا سے جوڑا جائے، انہیں تاریکی سے نکال کر روشنی میں لایا جائے، اور ظالم طاقتوں کے ظالمانہ قوانین سے نجات دلاکرانہیں اسلام کی آغوش رحمت میں پہنچایا جائے ۔
اسلامی حکومت ہمیشہ طویل دعوتی و تربیتی جدوجہد کا ثمرہ ہوتی ہے۔یہ جدوجہد اسی وقت نتیجہ خیز ہوتی ہے،جب عام انسانوں سے محبت کی جائے،خواہ مخواہ کسی کو اپنا حریف نہ بنایا جائے، اسلامی اخلاق اور اسلامی کردار سے ان کے دل جیتنے کی کوشش کی جائے۔ ان کے سلسلے میں کبھی کوئی ایسا رویہ نہ اختیار کیا جائے، جو نفرت اوردشمنی پر مبنی ہو، یاجس سے بیگانہ پن ظاہر ہوتا ہو۔
ہمارے دلوں میں یہ تمنا تومچل رہی ہوکہ اللہ کا دین غالب ہوجائے،اور حق کا بول بالا ہو،مگر مخاطب قوم کی نفسیات، اور ماحول کا لحاظ کرتے ہوئے اپنی گفتگووں اور اپنی تحریروں میںاس کا چرچا کر نا ضروری نہیں ہے۔دل میںاقامت دین اور غلبۂ اسلام کی آرزو رکھیں، مگر زبان کے بجائے اپنی نیکی وخداپرستی کو اس کا ترجمان بنائیں ۔یہ بات یاد رکھیں کہ ہراچھی بات ہر جگہ، اور ہر وقت کہنے کی نہیں ہوتی ۔ اور دل کی ہربات ہر جگہ زبان پر لانے کی نہیں ہوتی۔دین کی دعوت ہمیشہ حکمت پر مبنی ہوتی ہے،وہاں جذباتیت کے لیے کوئی گنجایش نہیں ہوتی ۔
حکومتیںچاہے نسلی مسلمانوں کی ہوں،یا غیر مسلموں کی، وہ ہمیشہ ظلم واستبداد کی خوگر، اوراپنے جاہ و منصب کی پاسبان ہوتی ہیں،انہیں نرم انداز میںکوئی نصیحت تو کی جاسکتی ہے،انہیں شیریںانداز میںکوئی نیک مشورہ تودیا جاسکتا ہے،مگر ان سے کسی اصلاح کا مطالبہ کرنا کسی آہنی دیوار سے سر ٹکرانے کے مترادف ہوتاہے۔ان حکومتوں کو کسی اصلاح سے غرض نہیں ہوتی،بلکہ انہیں اپنی کرسی کی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ کشتوں کے پشتے،اور لاشوں کے انبار لگا سکتی ہیں، جس کے دردناک نظارے ہم آئے دن دیکھتے رہتے ہیں۔
اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہوتا ہے کہ کسی حکومت کے خلاف اشتعال انگیزی کیے بغیر خاموشی سے عوام کواپنے اعتماد میں لیا جائے ۔محبت کے ماحول میںسماج کی اصلاح کی جائے،اور اتنے وسیع پیمانے پر کی جائے، کہ پورا ملک جاہلی نظام سے بے زار ہوجائے،اوروہ صالح نظام کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔
جب تک ہم محبت اور دل سوزی کا شیوہ نہیں اپنائیں گے،اور جب تک آپس کی دوریاں اور بے اعتمادیاں ختم نہیں کریں گے،اس وقت تک ہم بھٹکے ہوئے انسانوں کو روشنی نہیںدکھا سکیں گے،نہ ان کے شر سے محفوظ ر ہ سکیں گے۔
عام انسانوں سے محبت اور دلسوزی،دلآویز انداز میں لوگوں کی صحیح رہنمائی، اور اپنی سیرت و کردار سے اسلام کی سچی ترجمانی، یہی ہماری پالیسی اور یہی ہماری سیاست ہے، جو ہمیں کبھی کسی بند راستے، یا بند گلی سے دوچار نہیں کرے گی۔
ہر وہ سیاست جو داعی گروہ کو اپنی قوم کا حریف بنادے، وہ اس کے لیے تباہ کن ہوتی ہے!جمہوری سیاست کے طریقے کتنے ہی دل فریب ہوں، وہ اسلامی تحریکات کو راس نہیں آتے،اسلامی تحریکات جب جمہوری انتخابات کی دوڑ میں شریک ہوجاتی ہیں، تووہیں سے ان کا زوال شروع ہوجاتا ہے،اوروہ ناکامی ومظلومی کی عبرت ناک داستان بن جاتی ہیں! اس طرح کی سیاست سے ہمیشہ تحریکات کودور رہنا چاہیے۔
ساتھ ہی ہمیںاپنی اور اپنی قوم کی علمی،فکری اور اخلاقی سطح بلند کرنے کی فکر کرنی چاہیے،داعی گروہ کے لیے ضروری ہے، کہ وہ جس قوم کی رہ نمائی کرنی چاہتا ہے،اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ اس سے بلند ہو۔ وہ اس سے لینے کے بجائے اسے کچھ دینے کی پوزیشن میں ہو۔عہد رسالت میں جب کہ ہر طرف جہالت اور جاہلیت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی،اس گھٹاٹوپ تاریکی میں صحابۂ کرام کی مثال ایسی ہی تھی، جیسے جنگل کی اندھیری رات میںجگنووں کی بارات۔ صحابۂ کرام ہر حیثیت سے اپنی قوم سے،بلکہ وقت کی تمام اقوام سے زیادہ بلند، بہتر اور باصلاحیت تھے، اسی لیے وہ مختصرسی مدت میںاپنے عظیم مقاصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ وما علینا الا البلاغ۔
ڈاکٹر محمد رفعت
استاد محترم احمدریسونی کا مضمون ’’اسلام کا مستقبل، عوام اور حکومتیں‘‘ پیش نظر ہے۔ اس مضمون کے مندرجات فکر انگیز ہیں۔ چند گوشوں پر تبصرہ پیش خدمت ہے۔
۱) استاذمحترم نے مشہور حدیث کا تذکرہ کیا ہے۔ حدیث کے مطابق اسلام کے اجتماعی نظام کی کڑیاں ایک ایک کر کے ٹوٹتی جائیں گی۔ جب کوئی ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کڑی پر قناعت کر لیں گے۔ سب سے پہلے حکومت صالحہ والی کڑی ٹوٹے گی اور سب سے بعد میں اقامت صلوٰۃ کی۔
استاذ ریسونی نے اس حدیث سےیہ نتیجہ نکالاہے کہ جو کمزور کڑی تھی (یعنی نظام حکومت) وہ ٹوٹ گئی، گویا خود کمزور ہونے کی بنا پر اسے ٹوٹنا ہی تھا۔ لیکن حدیث کے طرز بیان پر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس حدیث میں لوگوں کی غفلت کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ ایک کڑی ٹوٹ جاتی ہے تو لوگ اس کی بحالی کی فکر نہیں کرتے بلکہ موجودہ کڑیوں کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ جسم کا ایک عضو بیمار ہو جائے تو اس کے علاج کی فکر نہیں کرتے بلکہ صحت مند اعضا کی موجودگی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کی موجودگی کی بدولت جسم زندہ تو ہے۔ اس ناقص زندگی پر وہ قانع ہیں۔
چنانچہ استاذ ریسونی کا یہ خیال درست نہیں معلوم ہوتا کہ اس حدیث سے نظام حکومت کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ اس کے برعکس یہ حدیث اجتماعی نظام کی ہر کڑی کو اہم قرار دیتی ہے۔ امت کے اسلامی مزاج کا تقاضا ہے کہ غائب کڑیوں کو دوبارہ وجود میں لانے کی کوشش کی جائے۔ چنانچہ جن مفکرین اور جماعتوں نے اسلامی نظام حکومت کو اہم قرار دیا، ان کے نقطۂ نظر کی یہ حدیث تائید کرتی ہے۔ استاذ محترم کو اپنے خیال پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔
مسلمانوں کے اجتماعی امور کی انجام دہی بہرحال ضروری ہے۔ ان امور میں بعض داخلی ہیں (یعنی امت کے افراد کے مابین انجام دیے جائیںگے۔) اور بعض خارجی ہیں۔ یعنی عام مسلمانوں کے درمیان، ان امور کو انجام دینا ہوگا۔ اہم داخلی امور یہ ہیں کہ مسلم معاشرے میں اقامت صلوٰۃ اور ایتاےزکوٰۃ کا اہتمام ہو، معروف کا حکم دیا جائے، منکر سے روکا جائے۔ نظام قضا قائم ہو، تعلیم کا نظم ہو، تزکیہ نفوس پر اجتماعی توجہ کی جائے۔ مسلمانوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنایا جائے۔ کمزوروں اور محروموں کو ان کے پیروں پر کھڑا کیا جائے، صحت و صفائی کا نظم ہو اور اسلامی ثقافت کو فروغ دیا جائے۔
اسی طرح مسلمانوں کے لیے اہم خارجی امور یہ ہیں کہ عام انسانیت کو اللہ کی طرف بلانے کا اہتمام کیا جائے۔ انسانیت عامہ کو معروف کی تلقین کی جائے اور منکر سے روکا جائے۔ خارج سے ہونے والے اقدامات کے مقابلے میں مسلمانوں کے جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی جائے۔ مسلمانوں کی حکومتوں کی آزادی بحال کی جائے۔ مسلمانوں کے اجتماعی اداروں کا تحفظ کیا جائے۔
ان داخلی و خارجی امور کے سلسلے میں ضروری کام اگر موجودہ مسلمان حکومتیں انجام دے دیں توفبہا۔ لیکن مسلمان حکومتیں اگر ان اہم امور سے غافل ہوں یا ان میں سے بعض پر توجہ کریں تو مسلم معاشرے میں موجود اسلامی تنظیموں، انجمنوں اور اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان اجتماعی امور کو (اپنی استطاعت کے مطابق) خود انجام دیں۔ اس طرح گویا مسلمان حکومتوں کی غفلت کی تلافی کر دیں۔ اس کے ساتھ حکومتوں کو یاد دہانی کراتی رہیں اور تمام امور خیر میں ان کو تعاون بھی پیش کریں۔ اس سلسلے میں استاذ ریسونی نے اسلامی جماعتوں کو زندگی کے اجتماعی گوشوں میں زیادہ متحرک اور سرگرم ہونے کا جو مشورہ دیا ہے، وہ بالکل صحیح ہے۔
۳) لوگ یہ سوال پیش کرتےہیں کہ ’’کیا اسلامی حکومت کا قیام مطلوب ہے؟‘‘ استاذ موصوف نے بھی سوال کو اسی طرح پیش کیا ہے۔ لیکن سوال کی یہ صورت صحیح نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ آج دنیا میں بہت سے آزادمسلمان ممالک موجود ہیں اور وہاں حکومت مسلمان حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ سوال کی صحیح صورت یہ ہے کہ ’’جہاں حکومت مسلمانوں کے پاس ہو، وہاں ان کا دین، حکومت کے امور انجام دینے کے سلسلے میں کوئی ہدایت دیتا ہے یا نہیں؟ اگر دین، اس سلسلے میں رہنمائی کرتا ہے تو وہ رہنمائی کیا ہے؟ اس کا اتباع واجب ہے یا نہیں؟
ان سوالات کا جواب واضح ہے۔زندگی کے ہر معاملے کی طرح کار حکومت کے سلسلے میں بھی اسلام ہدایات دیتا ہےاور رہنمائی کرتا ہے۔ان ہدایات کی پیروی، یقیناً مسلمان حکمرانوں پر لازم ہے یعنی مسلمانوں کے نظام حکومت کو اسلام کے مطابق ہونا چاہیے۔ اگر حکمراں ہدایت الہٰی کی اتباع کرنے میں کوتاہ ہوں تومسلم عوام کی ذمہ داری ہے کہ ان کو توجہ دلائیں۔
چنانچہ اسلامی تحریکوں نے نظام حکومت کو ایک اہم موضوع قرار دیا تو کوئی بےجا کام نہیں کیا۔ یہی اسلام کی جامعیت کا تقاضا تھا۔
۴) اسی طرح یہ سوال بھی کیا جانا چاہیےکہ
’’ جس ملک میں حکومت، مسلمانوں کے پاس نہ ہو، مگر اس ملک میں مسلمان موجود ہوں، تو مسلمانوں کی یہ دینی ذمہ داری ہے یا نہیں کہ وہ نظام حکومت کی اصلاح کریں؟‘‘ اس سوال کا جواب بھی واضح ہے، مسلمان جہاں بھی ہوں، حکومت ان کے پاس ہو یا نہ ہو، بہرحال معروف کی تلقین اور منکر سے روکنا، ان کا فرض ہے۔ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے مخاطب محض افراد نہیں ہیں بلکہ اجتماعی ادارے بھی ہیں۔ اجتماعی اداروں میں ایک اہم ادارہ حکومت ہے (چاہے مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو یا غیر مسلموں کے)۔ اس نظام حکومت کے تحت رہنے والے مسلمانوں کی دینی ذمہ داری ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ نظام حکومت کی اصلاح کریں اور اسے ممکن حد تک خیر اور معروف کا پابند بنائیں، انصاف کا قیام اور ظلم کے ازالے کی کوشش کریں۔
اسلامی تحریکیں ان امور کی طرف توجہ کرتی ہیں تو بالکل ٹھیک کرتی ہیں۔ نظام حکومت کی اصلاح کے بغیر، اجتماعی زندگی کو درست کرنا بہت دشوار ہے۔
مفتی صباح الدین ملک قاسمی
ریاست اور اس کے قیام کو دینی مقاصد کی فہرست سے خارج کر دینا، دین کو انسانی تمدن، علمی تمدن اور عمرانیات سے بے تعلق کر دینا ہے،یہ دین کا غیر متمدن تصور ہے۔ یہ خیال دین کو زندگی کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی صلاحیت میں دین کو ’ناقص‘ قرار دیتا ہے۔
وہ دین جو اپنے متبعین کو بادشاہت اور فوجی آمریت پر مطمئن رہنے کی بات کرتا ہو، اس کے متبعین دنیا کے متمدن، جمہوریت پسند اور آزادی پسند افراد اور قوموں کو شاہ پسند اور آمریت پسند دین کی طرف کس منہ سے دعوت دے سکتے ہیں؟
مسلمان عرب جو متمدن و مہذب اقوام کے درمیان، بادشاہت اور آمریت کے غلامانہ سیاسی وفسطائی اداروں کے تسلط میں جی رہے ہیں، اسلام سے بھی پہلے ان کی انسانی شرافت اور عزت نفس کی بحالی کا مسئلہ ہے۔
عرب دنیا کے احوال ایک زمانے سے معمول پر نہیں ہیں۔(الف) ساری دنیا بادشاہوں کی غلامی سے آزاد ہوئی اور آزادی کی نعمتوں سے سرفراز ہوئی۔ مگر عرب دنیا کا نصیب نہیں کھلا۔ خاندانی راجاؤں اور فوجی آمروں کی غلامی اور تسلط نے عرب دنیا کو ایک جیل خانہ بنا دیا۔ بظاہر جمہوریت پسند اور حقوق انسانی کی علم بردار طاقتوں نے عرب عوام کے ہی خلاف انہی راجاؤں اور آمروں کے ساتھ دوستی کا ہاتھ ملایا۔ (ب) مسئلہ فلسطین کے معاملے میں یورپی اور امریکی استعماریوں کے دوغلے پن، ظالمانہ رویے اور سواد بازی نے قلبِ عرب میں اسرائیلی خنجر گھونپ دیا اور زخم ناسور ہوگیا۔ (ت) تعلیم، تمدنی شعور اور ارد گرد دنیا کی آزاد فضا نے، اپنے ہی ملک میں ان کی محرومی اور ذلت کے احساس میں اضافہ کیا ہے۔ نئی نسل کی قومی امنگوں کو پورا ہونے، آزاد فضا میں سانس لینے کا کوئی موقع موجود نہیں ہے۔ عرب قوم ایک بند گلی میں ہے جہاں سے نکلنے کا راستہ انھیں دہائیوں اور صدیوں سے نہیں مل رہا ہے۔ عرب جانور نہیں ہیں کہ کھانے پینے کی فراوانی سے بہلائے جاتے رہیں۔
عرب قوم کی اس گھٹی فضا میں مذہبی اسلام اور سیاسی اسلام کو الگ کرنے کی کوشش ہمیشہ ناکام ہوگی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ باشعور اور تعلیم یافتہ نوجوان نسل کو صرف مذہب اور اس کی تبلیغ پر قانع کرکے انھیں جمہوریت اور آزادی جیسی قدروں کے مطالبہ سے روکا جائے۔
اصل مسئلہ حکمت عملی کا ہے۔ مضمون میں حکمت عملی کے بعض گوشوں کی طرف روشنی ڈالی گئی ہے۔بات حکمتِ عملی تک محدود رہتی تو ٹھیک تھی۔ حکمتِ عملی کے تحت یقیناً یہ ضروری ہے کہ بادشاہی اور فوجی نظاموں میں اسلامی تحریکیں، اکیلے اور براہِ راست سیاست کے امور میں شریک نہ ہوں۔ امت کی غیر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر سیاست میں شرکت کی جائے۔ عرب دنیا میں سیاسی اہداف میں بجائے اسلامی ریاست کے سب سے پہلا ہدف جمہوریت کے قیام کو بنایا جائے اور پوری قوم کے ساتھ مل کر اسے حاصل کیا جائے۔
مضمون پوری طرح عالم عرب کے موجودہ حوادث کے زیر اثر ہے۔ وسائل انسانی کی بے پناہ قربانی، فکر مندی کی انتہا پر پہنچ گئی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مضمون نگار نے ’اسلام میں ریاست کے قیام کا حکم کیا ہے؟‘ کا سوال اٹھا دیا ہے، تاکہ آئندہ اس کی ہول ناکی سے بچا جاسکے۔ یہ جواب ایک غلو ہے جو دوسرے غلو کے جواب میں دیا گیا ہے۔
مضمون میں کہا گیا ہے کہ شریعت میں کوئی ایسی نص صریح نہیں ہے کہ جو ریاست کے قیام کا حکم دیتی اور اسے لازم کرتی ہے۔ ریاست کے قیام کا وجوب، اجتہاد و استنباط پر مبنی ہے۔’’ اس کے استدلال میں شرعی مصالح اور قیاس کار فرما نظر آتا ہے۔ اس حکم کی شرعی بنا یہ ہے کہ رسولﷺ نے جس حال کو چھوڑا تھا، اسے جاری و ساری رہنا چاہیے۔‘‘
یہاں اعتراض یہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں، کیا اسلام میں کسی حکم کے اثبات و ایجاب کے لیے نص صریح کا نہ ہونا، اجتہاد و استنباط، شرعی مصالح اور قیاس نیز سنتِ رسول ﷺ کے اجراء و استمرار کے اصول کے ذریعہ حکم کے اثبات و ایجاب کو ضرر پہنچاتا ہے۔ یعنی حکم اجتہادی کی قانونی حیثیت کو کم کر دیتا ہے۔ اجتہاد تو کیا ہی اس وقت جاتا ہے جب نصوص نہ ہوں اور اجتہاد سے ثابت حکم کی عملی و قانونی حیثیت وہی ہے جو نص سے ثابت شدہ کی ہے۔
مضمون میں ’ریاست‘ کے درجہ کو بتانے کے لیے ایک دوسرے قاعدے سے مدد لی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ ’ریاست کے وجوب کا تعلق مقاصد سے نہیں بلکہ وسائل سے ہے۔ یہ مسئلہ شریعت کے اس اصول کے تحت آتا ہے کہ واجب کی ادائیگی کے لیے جو ضروری ہو، وہ بھی واجب ہے۔ یہ واجب لذاتہ نہیں ہے بلکہ واجب لغیرہ ہے اور اس کا درجہ اس سے کم ہے اور اس کی اہمیت بھی اس سے کم ہوتی ہے۔
اس سے دو نتائج نکلتے ہیں: ایک یہ کہ واجب لغیرہ کی کوشش واجب لذاتہ کو قربان کرکے نہیں ہونی چاہیے۔ نہ تو اس کی کوشش سے واجب لذاتہ کو نقصان پہنچے اور نہ وہ اس کی وجہ سے فوت ہو‘۔ دوسری بات یہ ہے کہ جس امر کا قیام، وسیلۂ ریاست کے قیام پر منحصر ہے۔ اگر اس امر کا قیام ریاست کے بغیر ممکن ہوجائے تو اس وسیلہ کاوجوب ضروری طور پر ساقط ہوجائے گا۔
مذکورہ استدلال میں مقصد اور وسیلہ اور واجب لذاتہ اور لغیرہ کی بات، عام بحث کی حد تک صحیح ہے۔ مگر ریاست کو واجب لغیرہ وسیلہ قرار دینا دلیل کا محتاج ہے۔ یہاں بات کو بہت سادہ کر دیا گیا ہے۔
انسانی تمدن اور اس کی تاریخ میں ’ریاست‘ مقصد اور وسیلہ کے بجائے ’ایک تمدنی ضرورت‘ کی اصطلاح میں زیر بحث آیا ہے۔ یہ انسانی اجتماعیت کی ایک طبعی ضرورت ہے۔ اسلام نے اس تمدنی ضرورت یعنی ریاست کو اسلامی یعنی عادلانہ بنایا۔ بہر حال اسے وسیلہ کہنا صحیح تعبیر نہیں ہے۔ جیسے آخرت مقصد ہے اور دنیا ایک ناگزیر طبعی ضرورت۔
مضمون میںآگے ہے کہ ’اسلامی ریاست کی اہمیت اور اس کی ضرورت اس قدر کم ہوجانی چاہیے کہ جس قدر ’موجودہ ریاست‘ دین کی اقامت کے اور دین کے احکام پر ذاتی اور اجتماعی زندگی میں عمل آوری کے مواقع اورا مکانات فراہم کرے‘۔ اس بات کو مضمون نگار نےقاعدہ تبعیض سے مؤید کیا ہے۔ یعنی ’موجودہ ریاست‘ جو کہ نظام شاہی یا فوجی آمریت ہے، اسے چھیڑا نہ جائے، وہ جتنا دین کے نام پر مواقع فراہم کرے، اس پر مطمئن اور احسان مند رہا جائے‘۔
بادشاہوں اور آمروں کو اسلام کے نام پر چھیڑنا تو واقعی حکمتِ عملی کے خلاف ہے۔ مگر پوری قوم اور متمدن قوموں کے ساتھ مل کر آزادی اور جمہوریت کے لیے مسلسل پوری جدو دجہد کرتے رہنا چاہیے۔
’ریاست‘ کو اسلامی زنجیر کی آخری اور سب سے کم زور کڑی والی بات کہنےسے بات نہیں بنتی ہے۔ کوئی زنجیر اپنی ساری کڑیوں سے مکمل ہوتی ہے اور قائم و سالم رہتی ہے۔ اسی طرح عمارت کی ہر منزل، عمارت کی تکمیل کرتی ہے، ورنہ عمارت ناقص کہلاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ہر عمل کے لیے حکمت عملی ہوتی ہے، جس کا سختی سے خیال رکھا جانا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2019