مولانا سید جلال الدین عمری امیر جماعت اسلامی ہند نے آل انڈیا اجتماع ارکان منعقدہ وادی ہدیٰ حیدرآباد، ۱۱؍تا ۱۴ ؍دسمبر ۲۰۱۵ء میں جو اختتامی خطاب فرمایا تھا اس کی اشاعت بروقت نہ ہوسکی تھی۔ اس سے کارکنانِ تحریک کے لیے موجودہ حالات میں رہ نمائی حاصل ہوتی ہے ۔ اس لیے عمومی افادیت کے پیش نظر اسے ذیل میں شائع کیا جارہا ہے (ادارہ)
رفقاء محترم! اللہ تعالی کا شکر و احسان ہے کہ ہمارا یہ اجتماع بہ حسن و خوبی اختتام کو پہنچا۔ اب آپ اپنے اپنے مقامات پر ان شاء اللہ واپس ہوں گے اور اپنی شب و روز کی مصروفیات میں لگ جائیں گے۔ اس موقع پر بعض باتیں عرض کی جارہی ہیں۔یہ باتیں نئی نہیں ہیں، بارہا آپ سن چکے ہیں۔یہاں ان کی محض تذکیر اور یاددہانی مقصود ہے۔ اس کا مخاطب سب سے پہلے میں خود ہوں۔
تقویٰ
ایمان کے بعد اللہ تعالی سے انسان کا ایک خاص طرح کا تعلق پیدا ہوجاتا ہے ۔اسی کوتقویٰ کہا جاتا ہے ۔ تقویٰ اگر پیدا ہوجائے تو آدمی ہردم اللہ کی رضا کا طالب اور اس کی ناخوشی سے مجتنب رہنے لگتاہے۔ وہ اس سے ایک طرف شدید محبت کرتا ہے، دوسری طرف اس کا خوف اور اس کی خشیت ہر وقت اس پر طاری رہتی ہے۔ وہ اس کی تمنائوں اور امیدوں کا مرکز ہوتاہے۔ وہ ہر معاملہ میں اس پر توکل اور اعتماد کرتا ہے اور ہرنازک مرحلہ میں اس کی طرف رجوع کرتا اور اس سے ہدایت کا طالب ہوتا ہے۔ وہ سراپا تسلیم و رضا ہوتا ہے اور اس کے لیے ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہتاہے ۔ یہی تقویٰ ہے ۔ یہ اسلام کی روح ہے۔ اسے پیدا کرنے اور مضبوط کرنے کی کوشش کیجئے۔ قرآن نے اہل ایمان کو حقِ تقویٰ اداکرنے کا حکم دیا ہے۔ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ حَقَّ تُقَاتِہِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُون۔آل عمران: ۱۰۲۔ (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اس طرح جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔)
اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ کا حق اس وقت اداہوگا جب انسان کی زندگی اسلام کی تصویر بن جائے اور وہ تا حیات اللہ کی اطاعت و فرماں برداری پر قائم رہے۔ ایک دوسرے مقام پر کہا گیا :فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔التغابن:۱۶۔(اللہ سے ڈرو جس حد تک تمہارے بس میں ہے) مطلب یہ ہے کہ اپنی استطاعت کی حد تک تقویٰ کا اہتمام کیا جائے اور اللہ کی عبادت و اطاعت سے انحراف نہ کیا جائے ۔ ہاں، اگر کوئی بات آدمی کی طاقت اوراستطاعت سے باہر ہے تو اللہ تعالی معاف فرمائے گا۔
اللہ تعالی سے آپ کا تعلق جتنا قوی ہوگا تحریک سے رشتہ بھی اتنا ہی مضبوط ہوگا۔ آپ اس راہ میں صبر و ثبات اور استقامت دکھائیں گے۔ رسول اکرم ﷺ کوبعثت کے بعد نماز تہجد کی ہدایت کی گئی ۔ یہ اسی تعلق کو مضبوط کرنے کے لیے تھی۔سورۂ مزمل کا آغاز ان الفاظ سے ہورہا ہے: یَا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ إِلَّا قَلِیْلاً ۔اے چادر میں لپٹنے والے! رات میں قیام کرو، مگر تھوڑا حصہ۔ آگے فرمایا : إِنَّ لَکَ فِیْ اَلنَّہَارِ سَبْحاً طَوِیْلاً وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ إِلَیْہِ تَبْتِیْلاً ۔المزمل :۷۔۸۔ مطلب یہ کہ آپ کو دن میں مسلسل اور لگاتار مصروفیت رہتی ہے،لیکن آپ ہر حال میں اللہ کے نام کاذکر کرتے رہیے ۔آیت میں ’تبتل‘ کا لفظ آیا ہے۔ اس کے اندر انقطاع اور یکسوئی کا تصور ہے۔یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اپنی تمام مصروفیت اور جد و جہد کے باوجود اللہ تعالی کی طرف متوجہ رہیے اور آپ کا رخ ہمیشہ اس کی طرف رہے۔
ایک اور موقع پر فرمایا:فَاصْبِرْ عَلَی مَا یَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ ِ (ق: ۳۹۔۴۰ ۔)’’یہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کیجئے اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے رہیے، طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اور رات کے اوقات میں اس کی تسبیح کیجئے اورسجدوں کے بعدبھی ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ راہ حق میں جومخالفت ہو رہی ہے اس کا صبر و ثبات سے مقابلہ کیجئے۔ اس کے لیے اللہ سے تعلق پیدا کیجئے۔ فرض اورنفل نمازوں کے علاوہ تہجد کا اہتمام کیجئے اور مسلسل اللہ کی تسبیح کرتے رہیے ۔
حضرت موسی ٰپر پہلی وحی وادی مقدس طوی میں نازل ہوئی ۔اس پہلی ہی وحی میںاللہ واحد کی عبادت اور نماز کا حکم دیا گیا اور آخرت کی طرف متوجہ کیا گیا۔إِنِّیْ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ إِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی وَأَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوحَی إِنَّنِیْ أَنَا اللَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَأَقِمِ الصَّلَاۃَ لِذِکْرِیْ إِنَّ السَّاعَۃَ ء اَتِیَۃٌ أَکَادُ أُخْفِیْہَا لِتُجْزَی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَی فَلاَ یَصُدَّنَّکَ عَنْہَا مَنْ لاَ یُؤْمِنُ بِہَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَتَرْدَی۔طہ:۱۲۔۱۶۔(بے شک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں۔پس تم میری عبادت کرو اور مجھے یاد رکھنے کے لیے نماز قائم کرو۔ قیامت کی گھڑی یقیناآنے والی ہے۔ میں اسے پوشیدہ ہی رکھوں گا، تاکہ ہر نفس کو اس کی جد وجہد کا بدلہ دیا جائے۔پس جو شخص اس پر ایمان نہیں رکھتا اور جو اپنی خواہش پر چل کر تباہ ہو رہا ہے وہ اس کی فکر سے تمہیں باز نہ رکھے۔)
حضرت موسیٰ کی درخواست پر حضرت ہارون کو بھی نبوت عطا کی گئی۔ حضرت موسیٰ اللہ کے ذکر و تسبیح میں ان کا ساتھ چاہتے تھے، تاکہ دونوں مل کر زیادہ اہتمام کر سکیں:کَیْْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْراً وَنَذْکُرَکَ کَثِیْراً۔طہ:۳۳۔۳۴۔(تاکہ ہم کثرت سے تیری تسبیح کریں اور کثرت سے تجھے یاد کریں)
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کوحکم ہوا کہ وہ فرعون کو دعوتِ حق پہنچائیں۔ساتھ ہی اس مہم میں اللہ کے ذکر کے اہتمام کی ہدایت کی گئی:اذْہَبْ أَنتَ وَأَخُوکَ بِآیٰتِیْ وَلَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ اذْہَبَا إِلَی فِرْعَوْنَ إِنَّہُ طَغَی۔ طہ:۴۲،۴۳۔ (جائو تم اور تمہارا بھائی میری نشانیوں کو لے کر۔ میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرو۔جائو فرعون کے پاس، اس نے سرکشی کی ہے) ’ میرے ذکر میں کوتاہی نہ کرو‘ کے معنی ٰبہت وسیع ہیں۔ اللہ کو مستقل یاد رکھنا، صبر و ثبات کے ساتھ بغیر کمی بیشی کے اللہ کادین پہنچانا اور حق کی تبلیغ میں کوتاہی نہ کرنا اس میںشامل ہے ۔
حلقوں کی صورت حال
رفقائے محترم !ہمارے بعض حلقوں میں دعوت و تحریک کی رفتار اچھی ہے۔ انہوں نے نئے تجربات کیے ہیں۔جن علاقوں میں کام نہیں تھا ان میں نفوذ کی راہیں نکالی ہیں،نئے حلقوں سے روابط پیدا کیے ہیںاوران کے درمیان تحریک کے تعارف کی اچھی کوشش کی گئی ہے۔اسی کے ساتھ تعلیمی اور رفاہی کاموں کو وسعت دی ہے۔قدیم اداروں کے ساتھ حسب حال نئے ادارے کھولے ہیں۔ توقع ہے کہ آئندہ ان کی پیش رفت اسی طرح جاری رہے گی۔ بعض دوسرے حلقوں میں کام کی یہ رفتار نہیں ہے۔ وہ ہماری زیادہ توجہ چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے خود ان حلقوں کو بھی مزیدسعی و جہد کرنی ہوگی۔حلقوں کی رفتار کار کو آگے بڑھانے میں امرائےحلقہ کے اجتماعات معاون ہوسکتے ہیں۔ ان اجتماعات کی نوعیت رسمی نہ ہو،بلکہ انہیں زیادہ مفید اور کارگر بنایا جائے ۔ان اجتماعات میں حلقوں کی کارکردگی کی رپورٹ پیش ہوتی ہے۔ یہ صرف سننے اور سنانے کی حد تک نہ رہے، بلکہ تبادلۂ خیال کے ذریعہ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے اور حسب حال انہیں اختیار کیا جائے۔اس طرح کے اور مواقع بھی پیدا کیے جائیں، تاکہ سب ہی حلقے ایک ساتھ ترقی کرسکیں۔ اس کے لیے حلقوں کے ذمہ داروں کے درمیان باہم ربط و تعاون کی صورتیں نکالی جانی چاہئیں۔
خواتین میں کام کی رفتار
ہمیں خوشی ہے کہ خواتین کے درمیان ہمارا کام حوصلہ افزا ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ منظم طریقہ سے انجام پا رہا ہے۔ جماعت کے اندر خواتین کے تناسب میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ نوع انسانی کے اس نصف حصہ کو آگے بڑھنا چاہیے اور معاشرہ کی تعمیر میں اپنا کردارلازماً ادا کرنا چاہیے۔ شعبۂ خواتین کی کل ہند ناظمہ عطیہ صدیقہ صاحبہ اپنی ٹیم کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ مرکز کا انہیں پورا تعاون حاصل ہے۔ حلقوں کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہیے۔ خواتین کے کام میں ان کی ہمت افزائی ہونی چاہیے اور ممکنہ تعاون فراہم کرنا چاہیے۔ یہ کیفیت جہاں کہیں ہے، خواتین کے کام میں اضافہ ہوا ہے اور جہاں اس میں کمی ہے، وہاں کام متاثر ہے۔ یہ صورت حال صحیح نہیں ہے۔ ذمہ دار خواتین کو بھی حلقوں سے ربط بڑھانا چاہیے اور دونوں کے کاموں میں ایک طرح کی ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ ہمارے ارکان جماعت کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان کے بیوی بچے اور اہلِ خاندان تحریک سے وابستہ ہوں اور اس کے کاموں میں حصہ لیں۔ اس میں ان کی ہمت افزائی اور ان کاتعاون ہونا چاہیے۔G.I.Oجماعت کی براہ راست نگرانی میں بعض حلقوں میں قائم ہے۔ اسے ملک کے تمام حلقوں میں قائم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے سب ہی حلقوں کو کوشش کرنی ہوگی۔ شعبہ خواتین اور G.I.Oکے درمیان تعاون اور اشتراکِ عمل ہے۔لیکن اس کی باضابطہ شکل نہیں ہے ۔یہ تعاون ان شاء اللہ مفید ثابت ہوگا۔
S.I.O
S.I.Oہماری قائم کردہ نوجوانوں کی تنظیم ہے جس کا دائرہ عمل زیادہ تر علمی ادارے ہیں ۔ S.I.O کے ساتھ مرکز جماعت کابھر پورتعاون ہے۔ حلقوں کو بھی ان کے ساتھ ممکنہ تعاون کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی اس طرح کی شکایت ملتی ہے کہ حلقوں اور S.I.O کے درمیان روابط میں کمی ہے۔ جہاں کہیں یہ صورت حال ہو ،اسے تبدیل ہونا چاہیے۔امرائے حلقہ اپنے حلقوں میںS.I.Oکے سرپرست ہیں۔ ان کی فکری اور دینی و اخلاقی تربیت کی طرف ان کی توجہ ہونی چاہیے۔انہیں اس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ S.I.Oکے نوجوان تحریک کو اچھی طرح سمجھ لیں اور تحریک سے ان کی وابستگی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے اور وہ اس قابل ہوں کہ مستقبل میں تحریک کے دست و بازو بن سکیں ۔ S.I.Oکو بھی حلقوں کے ذمہ داروں سے ربط بڑھانا چاہیے اور ان سے استفادہ کی تدابیر کرنی چاہئیں ۔ جماعت اور S.I.O کے درمیان اجنبیت کا نہیں، قربت اور یگانگت کا ماحول ہونا چاہیے۔
ہمارا اتحاد واتفاق
رفقائے محترم! ہمارا اتحاد ہماری طاقت ہے۔ آج آپ کا مسلم تنظیموں میں وزن محسوس کیا جاتا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ آپ کا اتحاد و اتفاق ہے۔اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور اس کے احکام کے سامنے سر جھکادینے کا جذبہ ہمارے درمیان مشترک ہے۔ اسی سے ہم ’بنیان مرصوص‘ ہوں گے اور مخالف طاقتوں سے نبرد آزماہوسکیں گے۔ اس جذبہ کو باقی رہنا چاہیے، بلکہ اسے پروان چڑھانا چاہیے۔ آپس کا نزاع اور اختلاف کسی بھی جماعت کو کم زور کرتا ہے اور اس کاملک اور ملت میں وزن باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید کی ہدایت ہے : وَأَطِیْعُواْ اللّہَ وَرَسُولَہُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُواْ إِنَّ اللّہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔الانفال:۴۶۔ (اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، آپس میں اختلاف نہ کرو، ورنہ کم زور ہوجائو گے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی۔ صبر کرو(جمے رہو) بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ثابت قدم رہتے ہیں۔)
آیت کے آغاز میں اتحاد کی بنیاد بتائی گئی ہے۔ وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت۔ یہ بنیاد کم زور ہوگی تو ہمارا اتحاد باقی نہیں رہے گا۔ اسی کے ساتھ اختلاف و نزاع کے نقصانات سے بھی آگاہ کیاگیا ہے کہ اس سے تمہاری ہوا اکھڑجائے گی اور تم بے وزن ہوکررہ جائوگے۔اللہ کے دین پر استقامت اور ثابت قدمی کے لیے آپس کا اتحاد ضروری ہے، ورنہ قدم قدم پر لغزش کھانے اور اپنی جگہ سے ہٹ جانے کا اندیشہ ہے۔
ہمارے درمیان بعض امور و مسائل میں اختلاف ہو سکتا ہے۔ یہ اختلاف اپنے فطری حدود میں روا ہے۔ اس کا اظہار اور اس پر تبادلۂ خیال جماعت کے متعین اداروں میں ہونا چاہیے۔ اس سے باہر گفتگو اور بحث و مباحثہ سے بسا اوقات جماعت کے اصل ہدف اور اس کے پیش نظر منصوبہ سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور یہ جماعت میں انتشار کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ اس میں ہم سب کا نقصان ہے۔
رفقائے محترم!ہمارے سامنے بہت بڑا مقصد اور طویل سفر ہے۔ یہ سفر اسی وقت طے ہو سکتا ہے جب کہ ہمارے درمیان الفت و محبت اور ہم آہنگی کی فضا ہو اور ہم سب دوش بدوش ایک دوسرے کا تعاون کرتے ہوئے آگے بڑہیں۔
ہماری تنظیمی طاقت
ارکان جماعت کے ہمارے اس اجتماع سے قبل دہلی میں نومبر۲۰۱۰ء میں ارکان کا اجتماع ہوا تھا۔اس وقت ارکان جماعت آٹھ ہزار کے قریب تھے۔ اب ہماری تعداد دس ہزار ہے۔ اسی طرح ہمارے پچاس ساٹھ ہزار کارکن ہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہمارے ساتھ ہے۔ ہمارا الکٹرانک میڈیا ہے۔ کیرالہ میں Media One Chanelکام کررہا ہے۔مرکز میں جدید آلات سے لیس میڈیا ہائوس ہے،ہمارے چالیس اخبارات ہیں جو اردو، ہندی اور علاقائی زبانوں میں نکلتے ہیں۔ ملک کی ہر بڑی زبان میں ہمارے اشاعتی ادارے ہیں،جہاں سے ہمارا لٹریچر شائع ہورہاہے۔
گزشتہ میقات میں بنگال، بہار ،اترپردیش مشرق، اتر پردیش مغرب،راجستھان، آندھرا اور مہاراشٹر میں ہماری کام یاب دعوتی مہمات رہیں۔اس میں ہم نے لاکھوں کا لٹریچر تقسیم کیا،سیکڑوں انسانوں سے روابط قائم کیے،اُمت کے مختلف حلقوں سے تعلقات کو مزید مضبوط کیا اور ہماری سعی و جہد میں ان کا تعاون بھی کسی نہ کسی درجہ میں حاصل رہا۔خدمت خلق کے کام بھی ہم نے بڑے پیمانے پر کیےاور کر رہے ہیں۔ اس سے ہزارہا بندگان خدا کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ ساری کوششیں بڑی حوصلہ افزا ہیں۔ فطری طور پر ان سے احساس ِمسرت ابھرتاہے۔ اس پر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔
ملکی صورتِ حال
رفقائے محترم! اب آپ اس ملک پر غور کیجئے جس میں آپ کو اقامت دین کا فرض انجام دینا ہے۔ ہمارا یہ وسیع و عریض ملک، جس کی لمبائی دو ہزار کلومیٹر اور چوڑائی دو ہزار کلومیٹر ہے، جس کی آبادی ایک سو پچیس(۱۲۵) کروڑ سے تجاوز کررہی ہے اور جو نوعِ انسانی کے چھٹے حصے کو اپنے آغوش میں لیے ہوئے ہے، اس میں مذہبی، لسانی اور تہذیبی تنوع ہے، جس سے بسا اوقات کش مکش اور نزاع کا ماحول پیدا ہوجاتاہے۔رواداری اور تحمل کی فضا ختم ہونے لگتی ہے اور مختلف اکائیاںایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیںہوتیں۔ یہاں خواندہ و ناخواندہ، خوش حال و بدحال طبقات ہیں، یہاں شہروں اور دیہاتوں کے معیار ِزندگی میں نمایاں فرق پایا جاتا ہے،یہاں کے مختلف گروہوں کے درمیان معاشی اور سماجی تفاوت اور دولت و ثروت اور غربت و افلاس کے فاصلے بڑھ رہے ہیں، یہاں ملکی وسائل پر مخصوص افراداور طبقات کا قبضہ ہے، یہاںجس کسی کے پاس طاقت ہے اس کے حقوق محفوظ ہیں اور کم زوروں کے حقوق پامال ہورہے ہیں۔ یہاں ظلم و زیادتی اور استحصال ہے۔ یہاں کسی بے کس اور لاچار شخص کے لیے عدل و انصاف کا حصول آسان نہیں ہے۔
اسلام کی رہ نمائی
اسلام ہمارے ملک کے ان تمام مسائل کو حل کرتاہے۔ وہ فرد کو آزادیِ فکر و عمل عطا کرتاہے۔ وہ اس بات کو جائز نہیں سمجھتا کہ جبر و اکراہ کے ذریعہ کسی کی یہ آزادی سلب کرلی جائے ۔ وہ بنی نوع انسان کو ایک وحدت قرار دیتا ہے۔ وہ ہر انسان کی جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی ذمہ داری لیتاہے۔ وہ انسانوں کے درمیان بلندی اور پستی کے جھوٹے معیارات کو ختم کرتااور مساوات کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ ہر طرح کے ظلم اور نا انصافی کے خلاف ہے اور معاشرہ کو اس سے پاک کرنا چاہتاہے۔ وہ استحصال کی جگہ خدمت اور ہم دردی کا جذبہ پیدا کرتاہے۔ وہ ان تمام اعلیٰ اقدار کی حفاظت کرتا اور انہیں فروغ دتیا ہے جن کے بغیر معاشرے میں امن و سکون قائم ہوسکتا اورنہ وہ صحیح معنیٰ میں ترقی کرسکتا ہے۔ اس کے لیے وہ عدل و انصاف پر مبنی قوانین فراہم کرتا اور معاشرے میں ان پر عمل کا جذبہ پیدا کرتاہے۔ لیکن مسائل میں گھری ہوئی یہ دنیا اس پہلو سے اسلام پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ،بلکہ اس کاپورا علمی ، تہذیبی اور سیاسی ماحول اس کے خلاف ہے ۔ وہ اسلام کو ایک حریف اور دشمن طاقت کی حیثیت سے دیکھتی ہے۔ ہمارا ملک بھی اس میں شامل ہے۔ اس ملک میں ہزارہا درس گاہیں اور علمی اور تحقیقی مراکز ہیں۔ یہاں میڈیا۔پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا۔ کی زبر دست قوت ہے۔ یہ سب ملک کی ذہن سازی کررہے ہیں۔ یہاں عوامی طاقت ہے جو فیصلہ کن سمجھی جاتی ہے اور جس کے سامنے ہر ایک سرجھکاتاہے۔ اسلام کی طرف اس کی توجہ نہیں ہے، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلام کے بارے میں اس کا رویہ منفی ہے۔ان حالات میں آپ کی کوششیںقابل قدر ہونے کے باوجود ایک محدود دائرے میں ہیں۔یہ وسعت کا تقاضا کرتی ہیں۔ اٹھیے، اس ملک کے چاروں طرف پھیل جائیے اور اللہ کے نازل کردہ دینِ رحمت کی طرف دعوت دیجئے۔اس ملک کو اسلام کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کی تکمیل کا سامان آپ ہی کرسکتے ہیں۔ انسان کی فطرت اللہ تعالیٰ تک رسائی چاہتی ہے۔ اسے بتائیے کہ اس کا واحد ذریعہ اسلام ہے۔ اس ملک کے مختلف طبقات میں سچے دین کی طلب پائی جاتی ہے۔ ان کی روحیں پیاسی ہیں ۔ اسلام کے آب زلال ہی سے ان کی تشنگی دور ہوسکتی ہے۔ یہی خدمت آپ کو انجام دینی ہے۔کتنے ہی سرکل اور حلقے ہیں جن تک آپ کی رسائی نہیں ہوئی ہے۔ جن حلقوں تک آپ نہیں پہنچ سکے ہیں ان تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ جو دروازے بظاہر بند ہیں ان پر دستک دیجئے۔ اللہ نے چاہا تو یہ دروازے کھلیں گے۔ آپ کو ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔ اپنی رفتار کو تیز سے تیز تر کیجئے اور اپنی منزل کو پانے کی کوشش کیجیے۔
بلا شبہ اس مختلف الاطراف اور متنوع الجہات مہم کے لیے آپ کی طاقت بہت کم اور آپ کے وسائل بہت محدود ہیں۔ لیکن آپ کے پیش نظر ایک پاک اور مقدس مقصد ہے۔ آپ اللہ کے دین کی خدمت کے لیے کھڑے ہیں۔ اس لیے یقین رکھیے، اس کی نصرت و تائید آپ کو حاصل ہوگی اور ان ہی تھوڑے سے وسائل سے آپ پیش قدمی جاری رکھ سکیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ اور حضرت ہارونؑ کوحکم دیا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں اور اس سے کہیں کہ وہ خدائی کا دعویٰ ترک کردے اور اللہ واحد کے سامنے سر جھکا دے تو انہوں نے عرض کیا : خداوند! ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ زیادتی کرے گا اور اس کی سرکشی اور بڑھ جائے گی۔ ارشاد ہوا: لَا تَخَافَا إِنَّنِیْ مَعَکُمَا أَسْمَعُ وَأَرَی۔طہ:۴۶۔(تم ڈرو نہیں، یقین رکھو، میں تم دونوں کے ساتھ ہوں۔ سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں)
حضرت موسیٰؑ بنو اسرائیل کو لے کر دریائے نیل پار کرنا چاہ رہے تھے کہ پیچھے سے فرعون اپنی فوج کے ساتھ پہنچ گیا۔ بنواسرائیل پر خوف اور دہشت طاری ہوگئی۔ کہنے لگے: اب ہم بچ نہیں سکتے۔ حضرت موسیٰ ؑنے اطمینان سے جواب دیا : کَلَّا إِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ ۔ الشعراء:۶۲۔(ہرگز نہیں، میرا رب میرے ساتھ ہے۔ وہ -اس مشکل وقت میں- ضرور میری رہ نمائی کرے گا)چنانچہ اللہ کے حکم سے دریائے نیل شق ہوگیا اور راستہ نکل آیا۔ حضرت موسیٰ ؑاپنے ساتھیوں کے ساتھ دریا پار کرگئے اور فرعون اپنے لائو لشکر کے ساتھ اسی دریا میں غرق ہوگیا۔
ہجرت کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ ﷺ حضرت ابو بکرؓ کے ساتھ غار ثور میں روٗپوش تھے۔ مشرکین آپ کی تلاش میں غار کے دہانے تک پہنچ گئے۔ حضرت ابو بکرؓ نے تشویش ظاہر کی کہ اگر یہ لوگ نیچے جھک کر دیکھیں تو ہم نظر آجائیں گے۔ اس نازک صورت حال میں رسول اللہ ﷺ نے اطمینان کے ساتھ فرمایا: لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّہَ مَعَنَا۔ التوبۃ:۴۰۔(غم نہ کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے) چنانچہ مشرکین اپنی تلاش میں ناکام رہے اور آپ مدینہ ہجرت کرگئے۔
رفقائے محترم!اپنی گفتگو ختم کرنے سے پہلے مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ آپ اس ملک میں جو تبدیلی چاہتے ہیں وہ کوئی معمولی تبدیلی نہیں، بلکہ بنیادی تبدیلی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اس تبدیلی کا آغاز خود آپ کی ذات سے ہو۔ آپ کا نصب العین اقامت دین ہے۔ اسی کے لیے آپ اسلام کی دعوت دے رہے ہیں اور اسے دنیا میں سربلند دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ صرف تقریر و تحریر اور وعظ و نصیحت ہی سے نہیں، بلکہ اپنے پورے وجود سے اس کی شہادت دیں۔ تقوی و طہارت آپ کا امتیاز ہو، آپ ہر معاملہ میں اسلام کی تعلیمات کو پیش نظر رکھیں اور آپ کی سیرت و کردار ٹھیک اس کے مطابق ہو۔ آپ کی ملازمت، آپ کا کاروبار اور آپ کی معاشی مصروفیات شریعت کے تابع ہوں۔ آپ گھر میں ہوں یا بازار میں، اسکول اور کالج میںہوں یا دفتر میں،جو بھی آپ کی تگ ودو ہو،آپ کا ہر عمل اور آپ کی ہر مصروفیت شہادت دے کہ آپ اسلام کے علم بردار ہیں ۔ اسی وقت آپ اقامت دین کے تقاضے پورے کرسکیںگے۔ حالات کبھی سازگار ہوسکتے ہیں اور کبھی ناسازگار حالات سے سابقہ پیش آسکتاہے، لیکن ہر حال میں آپ کو اپنا فرض انجام دینا ہے۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے دین کی حمایت میں کھڑے ہوں گے تواس کی نصرت وحمایت بھی یقیناً رب کوحاصل ہوگی ۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللہَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ(محمد:۷) اللہ تعالیٰ میری اور آپ کی مدد فرمائے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2017