حرص- ایک مہلک بیماری

حرص وہوس کامفہوم ہے دوسرے کے مال و جائداد کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا اور اس کو کسی نہ کسی طریقے سے حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگے رہنا۔ قرآن نے اس حرص و ہوس کے لیے شُح کا لفظ استعمال کیاہے جیساکہ قرآن و صاحت کرتاہے :

وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ  ﴿الحشر:۹﴾

‘‘جو بخل و حرص سے بچالیاجائے وہی لوگ کامیاب ہیں’’

حرص اور شح دونوں مترادف لفظ ہیں۔ لغت کے اندر دونوں معنی لیے گئے ہیں بخل کرنا ، حرص کرنا۔ اس سے پہلے آیت کے اندر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو یہ تاکیداً کہہ رہاہے :

اِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللَّہُ عِندَہُ أَجْرٌ عَظِیْمٌ ﴿التغابن:۵۱﴾

‘‘اور جان لوکہ تمھاری دولت اور تمھاری اولادایک آزمائش ہے اور اللہ کے پاس اجر عظیم ہے’’

پھر آگے کہا:

فَاتَّقُوا اللَّہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ’تم سے جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو‘

پھر کہا:

وَاسْمَعُوا وَأَطِیْعُوا وَأَنفِقُوا خَیْْراً لِّأَنفُسِکُمْ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ  ﴿التغابن:۶۱﴾

‘‘سنو اور اطاعت کرو اور اپنی بھلائی کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور جو شخص اپنے نفس کے بخل و حرص سے بچالیاجائے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔’’

ان دونوں آیتوں کے اندر اللہ نے مومنوں کو یہ حکم دیاہے کہ وہ مال واولاد کے فتنے میں نہ پڑیں، بلکہ ان کی محبت پر اللہ اور اس کے رسول کی محبت اور اس کی اطاعت کو ترجیح دیں اللہ نے جو مال تمھیں دے رکھاہے اس میں اس کی راہ میں خرچ کرو، اسی میں تمھارے لیے خیر وفلاح ہے۔

اسی طرح حدیث کے اندر شح کا لفظ استعمال کرکے اس کی قباحتوں اور شناعتوں کاذکر کیاگیاہے اور اس سے بچنے کی سخت تاکید کی گئی ہے:

وعن جابرٍ أن رسول اللہ قال اتقوا الشح فان الشح اہلک ھن کان قبلکم حملہم علی أن سفکوا دِمائ ہم واستحلوا محارمہم  ﴿مسلم کتاب البروالصلۃ﴾

‘‘حضرت جابرؓسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایاکہ بخل وحرص سے بچو اس لیے کہ اس شح نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کریاہے اسی شح نے اس بات پر آمادہ کیاکہ وہ آپس میں خوں ریزی کریں اور انھوںنے حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھ لیا۔’’

اس سے معلوم ہواکہ حرص ایک ہلاکت خیز بیماری ہے جو تمام نیکیوں سے محروم کردیتی ہے اس لیے اللہ کے رسولﷺ نے اس سے بچنے کی سخت تاکید کی ہے کہ انسان جب اس جیسی مہلک بیماری سے بچ جائے گا تو زیادہ سے زیادہ اسے نیکیاں کرنے کا موقع ملے گا۔ آخرت کی زندگی کو سنوارنے کا موقع ملے گا۔ چونکہ حریص آدمی ہمیشہ مال وجائیداد کو جمع کرنے کی دوڑ میں لگارہتا ہے، اسی میں اپنا وقت ضائع وبرباد کرتاہے تو ایسا شخص ضرور بضرور اللہ کی یاد سے غافل ہوکر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین نے سورہ تکاثرکے اندر کیا ہی عجیب نقشہ کھینچا ہے کہ تمہیں کثرت مال کی خواہش نے اللہ کی یاد سے اس کی عبادت و ریاضت سے اس کی تسبیح وتحلیل سے غافل کردیا پوری سورت کے اندر ایسے حریص و لالچی شخص کی مذمت کی گئی ہے اور اسے جہنم کی آگ سے ڈرایاگیاہے کہ اگر تم اسی دنیوی عیش وعشرت کی زندگی کو بنانے اور سنوارنے میں لگے رہے اور اللہ کی یاد سے غافل رہے تو یقینا تمہیں آگ کامزہ چکھنا پڑے گا کیونکہ تم سے ان کثیر نعمتوں کے بارے میں سوال کیاجائے گا۔

حرص کے نقصانات

حرص ایک ایسی بیماری ہے جو معاشرے کو فتنہ وفساد سے بھردیتی ہے۔ اسی کے ذریعے غریب شخص غریب تر ہوتاچلاجاتاہے اور مالدار شخص مالدار ہوتاچلاجاتاہے حقوق کی پامالی ہوتی ہے، مساوات و انصاف کا فقدان پایاجاتاہے اور یہی چیز آپسی اختلاف و انتشار کاسبب بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے گزشتہ قومیں تباہ وبرباد ہوئیں: ظالم وجابر حکمراں ہلاک و برباد ہوئے اور رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے باعث عبرت بنے۔

آج جب ہم اپنے معاشرے کاجائزہ لیتے ہیں تو یہ پتا چلتاہے کہ لوگوںنے دنیا کی زندگی کو دائمی زندگی سمجھ لیاہے جب کہ نبی کریم ﷺ نے یہ بات ساڑھے چودہ سو سال پہلے بتادی تھی:

یوان لابن آدم وادیین من مالٍ کتمنی وادیا ثالثا ولایملأ جوف ابن آدم الاالترابُ ﴿بخاری کتاب الرقاق﴾

‘‘اگر ابن آدم کے پاس دو وادی بھرکر مال ہوتا تو وہ تیسری وادی کی تمنا کرتاابن آدم کا پیٹ صرف مٹی سے بھرے گا۔’’

معلوم یہ ہواکہ انسان کی حِرص کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔جب یہ حرص اللہ کے ذکر سے غافل کردیتی ہے تو وہ طرح طرح کی بُرائیوں میں ملوث ہوجاتاہے۔ جیسے چوری، خیانت، سودخوری، رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی جب ایسے حریص شخص کے پاس کوئی امانت رکھی جاتی ہے تو اس میں خیانت کامرتکب ہوجاتاہے اس طرح حرص سود خوری ، رشوت خوری جیسی مہلک بیماریوں کے پروا ن چڑھنے میں مدد دیتی ہے۔غرض کہ اس کی بدولت طرح طرح کے جرائم جنم لیتے ہیں جو سماج اور معاشرے کے لیے تباہی و بربادی کاذریعہ بنتے ہیں۔ ایسا بھی ہواکہ جائیدادوں کے لالچ میں آکر لوگوں نے اپنے قریبی عزیزوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ معلوم ہواکہ حرص کتنی خطرناک بیماری ہے کہ اگر انسان اس سے بچ جائے وہ بے شمار گناہوں سے بچ جائے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرص کی قباحتوںکاتذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘جس شخص نے ذرا سی زمین بھی ناحق لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسادیاجائے گا۔’’ ﴿بخاری ﴾

حرص سے بچنے کی تدابیر

سب سے پہلے انسان اپنے اندر خوف خدا اور تقویٰ پیداکرے اور زیادہ سے زیادہ آخرت کی زندگی کو یاد کرے صرف یاد ہی نہ کرے، بل کہ اس کے لیے ہمہ تن تیاری کرتا رہے۔ موت کو کثرت سے یاد کرے اور اس دنیا کی زندگی کو حقیرتصور کرے، جس طرح صحابہ کرامؓنے اس دنیا کی حقیقت کو سمجھا۔ اور آپﷺ نے اس دنیا کی حقیقت کو ایک مردہ بکری کے بچے سے تشبیہ دے کر واضح فرمایا۔ جب ایسا شخص اپنے اندر یہ تصور پیداکرے گاتو صحیح راستہ تلاش کرنے میں آسانیاں پیدا ہوجائیں گی اور نیکیاں کمانے کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم ہوں گے۔

حرص وطمع کو ختم کرنے کے لیے رسولﷺ نے ایک بہترین اور انمول نسخہ بتایاہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اس دنیا کے اندر اپنے سے کم تر لوگوں کی طرف نظر رکھے۔ جب اپنے سے کم تر لوگوں کی طرف نظر رکھے گا تو ایسے شخص کے اندر تواضع وخاکساری اور دوسرے اوصاف حمیدہ جگہ لیںگے اور اس طرح سے دنیا کے مال وجائیداد کی حرص ختم ہوجائے گی۔

اس سلسلے میںاسلاف کرام و محدثین کرام کے نمونے سامنے رکھے کہ دولت مند ہونے کے باوجود ان کے اندر ذرا سی حرص نہیں تھی اگر حرص تھی تو صرف علم دین کی حرص تھی۔ وہ حقیقتاً علم دین کے بڑے حریص تھے۔ پیارے رسولﷺ کی پیاری پیاری باتوں کے حاصل کرنے کے حریص تھے۔ چنانچہ سید عبدالقادر جیلانیؒ ، امام اعظم ابوحنیفہؒ ، حضرت عبداللہ بن مبارکؒ ، امام المحدثین امام بخاری و امام مسلم وغیرہ دولت مند لوگ تھے، اسی طرح صحابہ کرامؓمیں حضرت عثمانی غنیؓاور حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ و غیرہم یہ معزز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دولت مند لوگ تھے، مگر ان کی دولت اللہ کی رضا سے سرفراز کرنے والے کاموں میں پانی کی طرح بہتی رہی اس دولت نے نہ انہیں متکبر بنایا ، نہ سرکش اور آج دنیا انہیں دولت مند کی حیثیت سے نہیں، بلکہ اللہ کے فرمانبردار بندوں کی حیثیت سے جانتی ہے۔

ہر شخص کے ذہن میں یہ بات ضرور ہونی چاہیے کہ اللہ کی نگاہ میں مال و جائیداد کی کوئی حیثیت نہیں ہے جیساکہ ایک حدیث میں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تمھاری ظاہری شکل و صورت کو اور تمھارے مال و جائداد کو نہیں دیکھتا، بلکہ وہ تمھارے اعمال و قلوب کو دیکھتا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دولت کے حریص نہ بنیں ، بلکہ اس دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کرکے اللہ کا مطیع و فرمانبرداربندہ بن کر زندگی گزاریں۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2011

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223