بیسویں صدی کے اوائل میں مغرب اپنی سیاسی قوت کے بل بوتے پر، بیشترمشرقی ممالک پر حکمرانی کررہا تھا۔ اس نے برعظیم میں جدید تعلیم اور مغربی فلسفے کو فروغ دیا تو یہاں دو طرح کے ردِعمل سامنے آئے۔ ایک ردعمل اسلام اور مغرب کے درمیان امتزاج پیدا کرنے اور اسلام کو مغرب کے معیار پر رکھ کر، اس کی ایسی تعبیر کرنے کا تھا جس سے مغرب اور اسلام کے درمیان حائل خلیج کو عبور کیاجاسکے۔ جب کہ دوسراردِ عمل تردید اور مزاحمت کا تھا۔
سرسید احمد خاں پہلے ردعمل کے نمائندہ تھے اگرچہ سرسید تقلید کے زبردست مخالف اور اجتہاد کے داعی تھے۔ لیکن پیروی مغرب میں انہوں نے اس کے برعکس روش اختیار کی۔
دوسرے ردِ عمل کے نمائندہ روایتی علما کرام تھے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ان دونوں رجحانات کے برعکس، ایک تیسرا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے مغربی تہذیب کی حقیقت کو اس کے صحیح تناظر میں اُجاگر کیا۔ سید مودودی نے تہذیب مغرب کا تجزیہ کرکے اس کے تاریک پہلوؤں کو عملی پیرائے اور سائنٹی فک اسلوب میں پیش کیا ان کی تحریریں ’’جلوہ افرنگ‘‘ کے خیرہ کن اثرات کا تریاق بن گئیں۔ اور نوجوان نسل یہ ماننے کو تیار ہوگئی کہ تہذیب حاضر تو محض فریب کاری ہے۔
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
سید مودودی سے پہلے یہی کوشش مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کی تھی البتہ ان کی تحریروں سے تہذیب مغرب کی حقیقت اِس درج میں واضح نہ ہوسکی تھی تہذیب مغرب پر تنقید کے لیے استدلالی اسلوب ، قطعیت اور اعتماد کی ضرورت تھی۔ سید مودودی نے ایسا پیرایہ اظہار اختیار کیا، جو فکر مغرب کےاستدلال سے متاثر نوجوانوں کو قائل کرنے میں اثر انگیز ثابت ہوا۔ سید مودودیؒ کے ہم عصر اقبال نے بھی تہذیب مغرب پر علمی وعقلی اور استدلالی قوت کے ساتھ نشر زنی اور اس کے لیے انہوں نے شعری پیکر اختیار کیا۔ اقبال نے امت مسلمہ کی مغلوبیت کے اسباب کا تعین کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو قوم فکر و عمل سے محروم ہو جاتی ہے، وہ بالآخرمغلوب ہو جاتی ہے۔ اس لیے اقبال نے امت مسلمہ کے عروج کے لیے ایسے کلچر کا تصور پیش کیا جو اندھی تقلید سے بے زار ہو، اور اپنے اندر تخلیقی صلاحیت رکھتا ہو۔ سید مودودی نے تہذیب مغرب کے محاکمے کے لیے عقل و دلیل کا راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے تو تہذیب کے معنی کی وضاحت کرتے ہوئے تہذیب ،علم اور تحقیق کی نشاندہی کی تہذیب مغرب کے مقابل تہذیب اسلامی کی آفاقیت اور ہمہ گیریت کے خدوخال کو نمایاں کیا اسلامی تہذیب سے برتر اور بلند تر نظر آنے لگی۔ سید مودودی نے تہذیب کے تعامل کا تذکرہ اِس طرح کیا:
’’جہاں تک حقائق اشیاء کا تعلق ہے (یعنی جو کچھ دنیا میں موجود ہے جہاں تک اس کے بارے میں معلومات کا تعلق ہے) اس میں کوئی فرق نہیں۔ فرق اس میں واقع ہوتا ہے کہ معلومات کو جمع اور مرتب کرنے والا کس طرز پر سوچتا ہے اور جو نظریہ رکھتا ہے اوراس کے مطابق ان (معلومات)کو مرتب کر کے کون سا فلسفہ زندگی بناتا ہے۔ اسی نظام فکر و عمل کا نام ایک خاص تہذیب ہے‘‘۔ (تہذیبی کش مکش میں علم وتحقیق کا کردار)
سید مودودی نے اپنے تصور تہذیب میں واضح کیا کہ فکری جمود کی شکار قوموں پر دوسری قوموں کا غلبہ ہو جاتا ہے پھر غالب قوم کی تہذیب مغلوب قوم کی تہذیب پر غالب آ جاتی ہے یہ اس لیے ہوتا ہے کہ تہذیبیں کبھی برابری کی سطح پر سفر نہیں کرتیں۔ سید مودودی کے الفاظ میں:
’’ذہنی غلبہ اور استیلا صرف فکری اجتہاد اور علمی تحقیق سے ہی قائم ہو سکتا ہے اور جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے وہی دنیا کی رہنما اور امام بن جاتی ہے، اور اسی کے افکار دنیا پر چھا جاتے ہیں‘‘۔ (تنقیحات)
قیادت کا منصب مسلمانوں کے پاس اس وقت تک رہا جب تک مسلمانوں میں روح جہاد اور اجتہاد زندہ رہی وہ قلم اور تلوار سے فرماں روائی کرتے رہے۔ لیکن جب انھوں نے خود ہی منصب امامت سے دست برداری اختیار کر لی تو مسلمانوں کے افکار اور علوم کی جگہ مغربی افکار اور تہذیب نے لی۔ تلوار، زورِ استدلال اور علمی تائید سے مغرب نے جو افکار پیش کیے، آرام طلب دماغوں اور مرعوب ذہنیت نے انھیں ایمان کا درجہ دے دیا۔ پھر مسلمانوں کے ہاں دین و ایمان ، افکار و تخیلات ،تہذیب و اخلاق، انسانیت و شائستگی، قدامت و جدت کے سارے پیمانے بدل گئے اور پھر وہی حق ٹھہرا جسے مغرب نے حق کہا اور وہی باطل قرار پایا جسے مغرب نے باطل کہا‘‘۔ (ایضاً)
سید مودودی نے بتایا کہ تہذیب صرف علوم و آداب، فنون لطیفہ، صنائع بدائع، اطوارِ معاشرت، انداز تمدن یا طرزِ سیاست کا نام نہیں کیونکہ یہ تو تہذیب کے مظاہر ہیں، نفس تہذیب نہیں۔ اور تہذیب تو دنیاوی زندگی کے تصورِ حیات، نصب العین، اساسی عقائد و افکار، تربیت افراد اور نظام اجتماعی جیسے عناصر سے ترتیب پاتی ہے اور دنیا کی ہر تہذیب ان ہی عناصر سے بنی ہے۔ (اسلامی تہذیب)
سید مودودی نے مغرب کی ہر چیز کو غلط قرار نہیں دیا۔ سائنسی ایجادات سے مرعوب ہونے کی بجائے بر ملا اس بات کا اظہار کیا کہ کسی قوم کے علمی و تحقیقی نتائج اور اس کی تخلیقی قوتوں کے ثمرات انسانیت کی مشترکہ میراث ہوتے ہیں۔ سید مودودی نے واضح کیا کہ تہذیب مغرب جن بنیادوں پر قائم ہے اس کی تہہ میں حکمتِ الٰہی کا کوئی صافی چشمہ نہیں۔ چونکہ یہ تہذیب کسی اخلاقی ،روحانی بنیادوں پر قائم نہیں اسی لیے اس تہذیب کے دانش وروں نے اپنی دانست میں جب اپنی اصلاح کرنا چاہی تو صورت حال کچھ یوں ہوگئی کہ ’’سرمایہ داری پر جب تیشہ چلا یا تو اشتراکیت نمودار ہوگئی، جمہوریت پر ضرب لگائی تو ڈکٹیٹرشپ پھوٹ نکلی۔ اجتماعی مشکلات کو حل کرنا چاہا تو نسوانیت اور برتھ کنٹرول کا ظہور ہوا‘‘۔ (ایضاً)
سید مودودی نے تہذیب مغرب سے پھوٹنے والے فکری چشموں، نیچریت مادیت، ڈارونیت کا بھی تجزیہ کیا۔ مغرب کے نظریہ ’’ضبط ولادت‘‘ کو مسترد کیایہ نظریہ مغرب کے مخصوص تہذیبی، سماجی اور اقتصادی ماحول میں پروان چڑھا ہے اورقوانین فطرت کے خلاف ہے۔ انھوں نے بے پردگی کو ایک فتنہ قرار دے کر ’’پردہ‘‘ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
سید مودودی نے تہذیب مغرب اور اس کے مظاہر کی حقیقت بیان کرتے ہوئے علمی، عقلی، استدلالی اور تجزیاتی اندازاختیار کیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مسلمانوں کا مرض دل میں نہیں بلکہ دماغ میں ہے۔ اور تعلیم یافتہ طبقہ مغربی طرز استدلال سے مرعوب ہے اس لیے ضروری ہے کہ ایسا سائنٹی فک اور مدلل انداز اختیار کیا جائے جو اس طبقے کی ذہنی آسودگی کا باعث بنے، چنانچہ سید مودودی نےاستدلال کی تیز کدال سے ان بنیادوں کو ڈھا دیا جن پر تہذیب مغرب کی بلند عمارت قائم تھی‘‘۔
سید مودودی سے پہلے امام غزالی اور امام رازی نے یونانی منطق پر تنقید کی تھی یہ وہ دور تھا جب اہل مغرب بالعموم اور اہل یونان بالخصوص انحطاط اور کمزوری کا سامنا کر رہے تھے۔ مگر جب سید مودودی نے تہذیب مغرب کو تجزیہ و تحقیق کی سان پر چڑھایا تو اس وقت مغربی نظریے اور طرز فکر کی پشت پر بڑی بڑی مضبوط سلطنتیں اور سیاسی قوتیں تھیں۔ اور ’’ان کا یہ طے شدہ ایجنڈا تھا کہ اپنی سیاسی قوت کو نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے‘‘۔
سید مودودی نے اس ’’ایجنڈے‘‘ کو نا قابل عمل بنانے کے لیے یہ اندازہ کر لیا کہ مغرب اور اسلام کی کش مکش کی نوعیت ذہنی اور علمی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تہذیب مغرب کی مبادیات میں اتر کر دیکھا جائے اور نوجوان نسل کو، اس تہذیب کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے پھردو اہم کام مزیدکیے جائیں۔ ایک یہ کہ اسلام کے تہذیبی ڈھانچے کو نئے سرے سے کھڑا کیا جائے اور دوسرا یہ کہ تہذیب مغرب کے مقابل تہذیب اسلامی کے خدوخال ترتیب دیے جائیں۔
یہ وضاحت کی کہ اسلام بذاتِ خود ایک جامع تہذیب رکھتا ہے اور یہ تہذیب ابتدا ہی سے ان عناصر پر قائم ہے جو اس کے لیے متعین کیے گئے تھے۔ اس تہذیب کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ کائنات میں انسان کی حیثیت خدا کے نائب کی ہے، خدا کی اطاعت بندے کی ذمہ داری ہے۔ اور خدا صرف معبود ہی نہیں، حاکم مطلق بھی ہے۔ رسول اس کا نمائندہ اور قرآن اس کا آئین ہے، یہ دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ہے،جہاں انسان کو انفرادی حیثیت سے پیش ہونا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی تہذیب کے برعکس تہذیب مغرب میں نہ خوفِ خدا کا کوئی تصور ہے نہ نبوت وحی الہام کی ہدایت کا کوئی وزن ہے نہ انسان کی ذمہ داری کا کوئی خیال ہے۔ یوں یہ خالص مادی تہذیب ہے جو خدا ترسی راست روی، صداقت پسندی، حق گوئی، دیانت، امانت، حیا، نیکی، پرہیز گاری اور پاکیزگی جیسے اوصاف سے خالی ہے اس اعتبار سے مغرب کا نظریہ تہذیب اسلام کے تصورِ تہذیب کی ضد ہے۔ (تنقیہات)
تہذیب کے تشکیلی عناصر میں تصورِ حیات اور نصب العین کلیدی اہمیت رکھتے ہیں اور انسان کی ساری تگ و دو اسی نصب العین کے حصول کے لیے ہوتی ہے۔ تہذیب میں نصب العین شخصی نہیںبلکہ اجتماعی ہوتا ہے۔ اسی اصول کے تحت مسلمانوں کا نصب العین اللہ کی خوشنودی حاصل کر کے آخرت میں کامیاب ہونا ہے۔ اِس کے برعکس تہذیب مغرب کے پاس حیوانی مقصد سے بلند تر کوئی نصب العین ہی نہیں۔ اسلامی تہذیب میں نصب العین کی بلندی، اسلامی تہذیب کو نہ صرف دوسری تہذیبوں سے نمایاں کرتی ہے بلکہ اطاعت خدا، خوفِ خدا، ایمانیت کے اوصاف پیدا کر کے انھیں زبردست ڈسپلن کا پابند بنا کر صالح معاشرہ وجود میں لاتی ہے۔ اسلامی تہذیب اجتماعیت کی علمبردار ہے اور اجتماعیت کا تصور اسلام کے سوا کسی اور دین میں نہیں۔ باقی تمام مذاہب انسان کی انفرادی زندگی سے بحث کرتے ہیں۔ ان ہی خصوصیات کی بنا پر مغربی تہذیب کے مقابلے میں اگر آج بھی کوئی تہذیب پیش کی جا سکتی ہے تو وہ اسلامی تہذیب ہی ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2014