۱۲، نومبر ۲۰۲۲ء کی صبح ڈاکٹر محمد نجات اللہ صدیقیؒ کا انتقال ہوگیا۔ آپ عالمی سطح کے عالم و مفکر تھے۔ آپ کا شمار اسلامی معاشیات کی داغ بیل ڈالنے والوں میں ہوتا ہے۔ اسلامی فکر کی تشکیل اور اسلامی تحریک کی فکری رہ نمائی کے حوالے سے وہ اپنے عہد کی ممتاز شخصیتوں میں تھے۔ زیر نظر تحریر ان کا ایک معرکۃ الآرا مقالہ ہے، جو انھوں نے ۱۹۷۷ء میں خاص طور سے ارکانِ جماعت اسلامی ہند کے لیے بطور تجاویز و نکات غور و فکر لکھا تھا۔ موجودہ حالات میں اس مقالے کی غیر معمولی اہمیت و افادیت کے پیش نظر اسے شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
***
ہندوستان میں اقامتِ دین کی راہ
ہندوستان میں اقامت دین کا انحصار دعوت اسلامی کے قبول عام پر ہے جس کی راہ میں تین بڑی رکاوٹیں ہیں:
- جدید دنیا کا عام لادینی رجحان، بالخصوص یہ رجحان کہ اجتماعی زندگی کے امور سے مذہب کو بے دخل رکھا جائے۔
- ملک کی حالیہ تاریخ نے جو مذہب کی بنیاد پر قومیت اور اس بنیاد پر تقسیمِ ملک سے دوچار ہوئی ہے عام اہل ملک، بالخصوص اکثریتی فرقہ کے ذہن میں مسلمانوں کے مذہبی رجحان کی طرف سے بے زاری اور اندیشہ کی فضا پیدا کردی ہے۔
- پڑوسی ملک سے ہندوستان کے تعلقات کی وہ کشیدگی جو دشمنی تک جا پہنچتی ہے۔ اس ملک کے اسلامی نظام کی علم برداری کے دعویٰ نے ہمارے ملک میں احیا نظامِ اسلامی کے نعرہ سے سخت توحّش پیدا کر دیا ہے۔
ان رکاوٹوں کو دور کیے بغیر دعوتِ اسلامی کے قبول عام کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے عرصہ دراز تک غلط فہمیوں کے ازالہ، حسن ظن پیدا کرنے اور حکومت کے ساتھ اپنی دعوت کی تفہیم کی ضرورت ہے۔ عجلت پسندی کا اثر الٹا ہو سکتا ہے۔ اسی طرح حکیمانہ طور پر دعوت کی بنیادوں کو لے کر آگے چلنے کی بجائے اس کے ضمنی اور جزئی یا عارضی اور ثانوی تقاضوں پر اصرار اصل مقصد کا حصول دشوار تر بنا سکتا ہے۔ دعوت اسلامی کا فروغ اسی طور پر ممکن ہے کہ مذکورہ بالا رکاوٹوں کے پیش نظر حسب ذیل کام کما حقہ انجام پائیں:
- الف: مذکورہ بالا لادینی رجحان کے تاریخی اسباب کو اچھی طرح سمجھ کر، جدید انسان کو یہ سمجھایا جائے کہ ہم اس طرح کے مذہب کی دعوت نہیں دے رہے ہیں جس سے یوروپ میں علم وتجربہ کا ٹکراؤ لادینی رجحان پیدا کرنے کا سبب بنا تھا۔ اسلام کا تعارف ٹھیک طرح سے کرایا جائے جس سے یہ بات ابھر کر سامنے آئے کہ دین سائنٹفک تحقیق و تفتیش کے دائرہ میں کوئی مداخلت نہیں کرتا، بلکہ انسانی عقل و تجربہ کو آزاد چھوڑتا ہے۔ یہ دین ان اجتماعی امور میں تفصیلی ضابطہ بندی سے گریز کرتا ہے جو بدلتے ہوئے حالات میں ضوابط کی تبدیلی چاہتے ہیں بلکہ ان امور میں اصولی رہ نمائی پر قناعت کرتا ہے اور تفصیلات کی ترتیب کے لیے انسانی عقل و تجربہ کو آزاد چھوڑتا ہے اور یہ کہ یہ دین انسان کو کائنات کے بنیادی حقائق سے آگاہ کرکے ان کے روحانی تزکیہ اور اخلاقی تربیت کا اہتمام کرتا ہے۔ نیز فرد کی شخصیت اور خاندان کی صحت مند تعمیر عمل میں لاکر ایک پاکیزہ معاشرہ برپا کرتا ہے۔ چناں چہ اس دین کے غیر مبدّل ضوابط کا تعلق تمام تر فرد کی روحانی اور اخلاقی تربیت نیز خاندانی زندگی اور معاشرہ کی پاکیزہ تعمیر سے ہے۔ ان حقائق کے پیش کرنے کے ساتھ اگر تحریک اسلامی سے وابستہ افراد بالخصوص اور امت مسلمہ ہند بالعموم اپنے فکر و عمل سے آزادی کے دائرہ میں آزادی کا اور منضبط دائرہ میں اس انضباط کے اچھے نتائج یعنی پاکیزہ کردار کا مظاہرہ کر سکیں تو امید کی جاتی ہے کہ عوام اس کا اثر لیں گے اور لادینی رجحان کی جگہ ہدایت الہی کی طرف رجوع پیدا ہو سکے گا۔
- ب: یہ بھی ضروری ہے کہ دین کے صحیح تعارف کا یہ کام پوری دنیا میں انجام پائے۔ بالخصوص اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مغربی افکار و اقدار کے بالمقابل اسلامی افکار و اقدار کی موزونیت اور برتری ثابت کی جائے اور ہر چہار سو تسلیم کی جانے لگے۔ کیوں کہ اس میدان میں علیحدہ سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ کم از کم افکار و اقدار کے میدان میں دنیا ایک ہے۔ غیر سودی معیشت ہو یا سماج میں عورت کا مقام، اسلامی موقف کی برتری اور مغربی طرز کی خرابیاں واضح ہوں گی تو سب پر واضح ہوں گی۔ اس معاملہ میں تحریک ملکی حدود کو زیادہ اہمیت نہ دے۔ خاص طور پر اس بات کی ضرورت ہے کہ مغربی دنیا کے مراکز فکر میں اسلام کا تعارف ہو اور وہاں اسلامی افکار کو بحث کا موضوع بنا دیا جائے تاکہ ہمارے ملک کے ارباب فکر اس کی طرف متوجہ ہوں۔ اس کام میں مغربی ممالک میں اسلامی کارکنوں کے ساتھ ہمارا تعاون ہونا چاہیے۔
یہ بھی ضروری ہے کہ “مسلم ممالک” بالخصوص پڑوسی ملک میں اسلامی تحریکیں قومی عصبیتوں سے آزاد ہوکر خالصۃً اسلامی طریقہ سے چلائی جائیں۔ اس پر ہماری اس ملک میں کام یابی کا اس قدر انحصار ہے کہ ہم اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ تنقید وتبصرہ، مشورہ وغیرہ کے ذریعہ جو علی الاعلان ہونے چاہئیں، ہمیں اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر پڑوسی ملک میں خصوصًا اور مسلم ممالک میں عمومًا اسلام کے نام پر غلط طریقے اختیار کیے جاتے رہے تو اپنے ملک والوں کو اسلام کے نام پر بلانا کیسے آسان ہو سکتا ہے؟
- ج: اس ملک میں تحریک اسلامی، اسلام کے کارکنوں اور عام مسلمانوں کا عملی رویہ ایسا ہونا چاہیے کہ ان کو ملک کے بہی خواہ معماروں کی حیثیت سے جانا جانے لگے اور ان کے خلاف علیحدگی پسندی یا ملک دشمنی کے شبہات ختم ہو جائیں۔ اس کی خاطر ملکی مسائل میں تعمیر و ترقی سے متعلق سرگرمیوں کے سلسلہ میں ایجابی فعّال رویہ اختیار کرنا ضروری ہے اور اپنے تحریکی پروگرام میں ایسے نکات پر زور دینا ضروری ہے جن کا تعلق ملک کی فلاح و بہبود، اس کے مسائل اور ملک کے استحکام و ترقی سے ہو۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعض تاریخی اسباب کی بنا پر عام مسلمانوں کا رویہ اس معاملہ میں کسی حد تک منفی ہے یا لاتعلقی اور بے نیازی کا ہے۔ اس سلسلہ میں اس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ مسلمان کسان، تاجر، صناع یا ملازمت پیشہ آدمی وقت آنے پر ملکی اداروں اور اسکیموں سے تعلق پیدا کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے سے گریز نہیں کرتا۔ خود غرضی پر مبنی ان اقدامات کے پیچھے جو ذہنیت کام کر رہی ہے اس کی عکاسی اس مجلس کی گفتگو میں ہوتی ہے جو مسلمانوں کے درمیان ہو اور جس میں ملکی منصوبے، ملک کا مستقبل وغیرہ زیر بحث ہو۔
مجھے اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اپنے مخصوص استدلال کی بنا پر جماعت اسلامی ہند نے ملک کے موجودہ نظام سے عدم تعاون اور لا تعلقی کا جو منفی رویہ اختیار کیا تھا اسے ایک طرف تو مسلمانوں کی اس عام نفسیاتی کیفیت نے تقویت بخشی دوسری طرف اس نے عام مسلمانوں کے مذکورہ بالا رویہ کو مزید تقویت عطا کی۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے اس حقیقت کا جائزہ لینا چاہیے۔ اور تحریک اسلامی کے مقاصد ومصالح کی روشنی میں اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے جیسا کہ آگے عرض کیا جائے گا۔
اس شق کے تحت کہنے کے لائق ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حکمت کا تقاضا ۔ ماضی قریب کی تاریخ اور مذکورہ بالا رکاوٹوں کے پیش نظر۔ یہ ہے کہ اپنے مقاصد کے اعلان اور دعوت وخطاب میں ایسا لہجہ اور انداز نہ اختیار کیا جائے جس سے اکثریتی فرقہ اور عام ارباب حل و عقد کو یہ شبہ یا شبہ کو تقویت حاصل ہو کہ ہمیں اس ملک یا اس کے کسی حصہ میں مسلمانوں کا اقتدار مطلوب ہے یا مسلمانوں اور نو مسلموں کے تعاون سے اسلامی حکومت کا قیام مطلوب ہے۔ ایسا ہوا تو مذکورہ بالا رکاوٹوں (۲، ۳) کو مزید قوت حاصل ہوگی اور ہمارے مقصد کو نقصان پہنچے گا۔
دوسرے الفاظ میں ہمارا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ جمہورِ ہند میں اس طرح سے دعوت اسلامی کو متعارف کرائیں جس طرح اوپر “الف” میں بیان کیا گیا ہے اور کوشش کریں کہ وہ اس دعوت کو قبول کرلیں۔ جہاں تک اسلامی حکومت اور اسلامی نظام کے اس ملک میں قیام کا تعلق ہے ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے بلکہ اس کی راہ جمہورِ ہند کے قبول دعوت پر ہے۔ پس جہاں تک حکومت کا تعلق ہے ہمیں جمہوری طرز حکومت پر ہی اعتماد ظاہر کرنا ضروری ہے کہ اس طرح جمہورِ ہند کے قبول دعوت پر فطری طور پر اسلامی نظام اور اقامت دین کا مقصود حاصل ہو سکے گا۔
اس بارے میں تذبذب کا اظہار ہماری پوزیشن کو مشکوک بنانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ مذکورہ بالا رکاوٹوں کے سبب جمہوری طرز حکومت کے واسطہ کے بغیر اس ملک میں اقامت دین کا تصور محال ہے لہذا ہمیں بے جھجک جمہوری طرز حکومت پر اعتماد کامل کا اظہار و اعلان کرنا چاہیے۔ اس سے غیروں کے شبہات دور ہوں گے، اپنوں کے ذہنی تذبذب اور غیر حکیمانہ لہجہ کا علاج ہوگا اور یہی حقیقت کے مطابق حکیمانہ طریقہ ہے۔
ایسا کرنے کے لیے سلف سے کسی نظیر کی تلاش لا حاصل ہے کیوں کہ آج ہم جس تاریخی صورت حال سے دوچار ہیں وہ اپنی کوئی نظیر رکھتی ہی نہیں۔ یہ اسلامی تاریخ میں پہلی بار پیش آئی ہے اور اس کے لیے نئے اجتہاد کی ضرورت ہے اگر ہمیں حالات کے مذکورہ بالا مطالعہ پر اطمینان ہے اور اللہ سے اپنی وفاداری اور نصب العین سے اپنی وابستگی پر اعتماد ہے تو اس اجتہاد پر اطمینان کرنا چاہیے اور یہی طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔
جن لوگوں کو اس طریقہ پر اطمینان نہ ہو، ان سے میں جاننا چاہوں گا کہ ان کو مذکورہ بالا تجزیہِ حالات کے کس جز سے اختلاف ہے۔ کیا وہ جمہورِ ہند کے قبولِ دعوت کے سوا اقامت دین کی کوئی اور راہ تصور کر تے ہیں؟ اگر نہیں تو جمہوری حکومت پر اعتماد کے اظہار میں کیا مانع ہے جب کہ یہی اسلامی حکومت کے قیام کی واحد راہ ہے؟ آخر قرآن و سنت کی کس نص سے ہم اس کے پابند ہیں کہ مقصودِ آخر کا انحصار جن ذیلی مراحل و مقاصد پر ہو ان کی مقصودیت کا اعلان و اظہار نہ کریں اور ہر حال میں مقصودِ آخر کی بھی صراحت کرتے رہیں خواہ اس سے تاریخی اسباب کی بنا پر اس مخصوص مرحلہ و دعوت میں غلط فہمیاں ہی کیوں نہ پیدا ہوسکتی ہوں۔
اوپر کی بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ ہمارا کام دعوتِ اسلامی کو جمہورِ ہند میں مقبول بنانے کی کوشش اور ملک میں جمہوری طرزِ حکومت کا بقا و تسلسل چاہتا ہے۔ یہ دونوں ہی اقامت دین کے لیے لازمی ہیں۔ پہلا کام بھی مطلوب ہے اور دوسرا کام بھی اقامت دین ہی کی خاطر مطلوب ہے۔
موجودہ نظام کے سلسلہ میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے؟
اب تک ہم نے موضوع کے پہلے جز یعنی ہندوستان میں اقامت دین کی راہ سے تعرض کیا ہے۔ اب ہم براہ راست اس بات کو موضوع گفتگو بنائیں گے کہ ملک کے موجودہ نظام کے سلسلہ میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں جو رائے میں رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمیں ملک کے موجودہ نظام میں شرکت کرنی چاہیے اور اس سے اسلامی مقاصد کی خاطر اور اسلامی اصول و آداب کے تحت فعال تعاون کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں ہمیں صرف ان آداب و حدود کا پابند ہونا چاہیے جو قرآن و سنت کے منصوص احکام پر مبنی ہوں نہ کہ انفرادی اجتہادات پر۔ ذیل میں اسی رائے کے دلائل پیش کیے جائیں گے۔
ملک کے موجودہ نظام کے سلسلہ میں تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کا رویہ ہمیشہ ملک میں دعوت اسلامی اور تحریک کے مصالح پر مبنی ہونا چاہیے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ کون سا رویہ ملک میں دعوت کے صحیح تعارف اور اسے مقبول بنانے میں ممد ومعاون ہوگا۔ اور کون سا رویہ اس کام میں رکاوٹ بنے گا۔ اس طریقہ کی بجائے کوئی اور طریقہ اختیار کرنا غلط ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر زمانہ اور ملک کا نظام، ملک کے حالات، تاریخی پس منظر جدا جدا ہوتے ہیں۔ لہذا تحریک اسلامی کے علمبرداروں کو اس بارے میں کوئی دائمی ہدایت بجز اس کے نہیں دی گئی ہے کہ ان کی دعوت توحید کھری اور بے آمیز ہو، وہ غیر اللہ کے آگے کہیں سر نہ جھکائیں اور کوئی ایسا طریقہ نہ اختیار کریں جو اخلاقی اصولوں کے خلاف ہو۔ اور ان کی نظریں ہمیشہ آخری مقصود اقامت دین پر جمی ہوئی ہوں۔ جب ہم انبیا علیہم اسلام کے طریقہ کار کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ نظامِ وقت کے سلسلہ میں ان کا لہجہ اور ان کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی اور مدنی ادوار میں اور ان کے تربیت یافتہ رفقا نے حبشہ کے دربار میں جو لہجہ اور رویہ اختیار کیا اس کا مطالعہ اس سیاق میں موزوں ہوگا۔
جس طرح کے نظام سے آج ہم ہندوستان میں دو چار ہیں وہ کسی نبی کے زمانہ میں نہیں پایا گیا۔ نہ ہمارے کسی فقیہ کے زمانے میں۔ اس لیے حذو النعل بالنعل قیاس و استنباط ممکن نہیں صرف عام روشنی حاصل کی جا سکتی ہے۔
یہ طریقہ کہ فقہ مرتب کی روشنی میں، جو وحی الہی یا سنت نبوی نہیں، انسانی ذہن کی پیداوار ہے، ہندوستان کی شرعی حیثیت دار الحرب، دار الاسلام وغیرہ جیسی اصطلاحات کی روشنی میں متعین کی جائے، پھر متعلقہ فقہی احکامات منطبق کرتے ہوئے اپنا طریقہ کار وضع کیا جائے اور رویہ متعین کیا جائے، صحیح نہیں ہو سکتا۔ نہ اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا پابند بنایا ہے۔
اسی طرح یہ طریقہ بھی غلط ہوگا کہ جماعت اسلامی کے بانی نے برٹش اقتدار کے زمانہ میں، تحریک خلافت سے متاثر ہوکر اور ۱۹۳۸ سے ۱۹۴۷ تک ہندوستان کی مخصوص سیاسی فضا کے زیر اثر جو رویہ اختیار کیا تھا اور جو لہجہ استعمال کیا تھا اسی کو آنکھ بند کرکے نئے جمہوری دور میں اختیار کر لیا جائے جب کہ تحریک اقامت دین کی راہ کے مخصوص روڑے وہ ہوں جو اس مقالہ کے آغاز میں بیان ہوئے۔ یہ رویہ اور لہجہ بھی سابق فقہ مرتب کی طرح انسانی ذہن کی پیداوار ہے اور قرآن و سنت سے استفادہ اور رہ نمائی حاصل کرنے کی ہر انسانی کوشش کے باوجود اپنے مخصوص حالات ہی کے لیے موزوں ہو سکتا تھا۔
آج ۱۹۷۱ء میں تحریک اسلامی ہند کے کارکنوں کا دینی فریضہ ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اس ملک میں اقامت دین کے مقصد کو سامنے رکھ کر اس ملک کے موجودہ نظام کے سلسلہ میں اپنا رویہ از سر نو متعین کریں جس سے اس ملک کے جمہور میں دعوت اسلامی کے قبول کی راہ میں روڑے دور ہوں اور راہیں کھلیں۔
اب اس بات کا جائزہ لیجئے کہ موجودہ نظام میں شرکت اور اس سے فعال تعاون سے کس طرح دعوت اسلامی کی راہیں کھلتی ہیں پھر ہم اس بات کا بھی جائزہ لیں گے کہ ملک کے موجودہ نظام سے کنارہ کشی اور اس سے عدم تعاون سے کس طرح رکاوٹیں بڑھتی ہیں اور مقصد کو نقصان پہنچتا ہے۔ ملک کے موجودہ نظام میں شرکت اور اس کے ساتھ فعال مقصدی تعاون کا مطلب یہ ہے کہ ہر دوسرے شہری کی طرح ہم بھی پارلیمنٹ، مجالس قانون ساز، مناصب حکومت، تعلیمی اداروں، ریڈیو، اخبارات وغیرہ، ترقیاتی اسکیموں وغیرہ میں داخل ہوں، رائیں دیں، منتخب کریں اور منتخب ہوں، منصب پر فائز ہوں، اسکیمیں چلانے والے بنیں اور ان سے فائدہ اٹھانے والے بنیں۔ تعلیم دیں اور حاصل کریں اور اس غور وفکر میں حصہ لیں کہ تعلیم کیا اور کس طرح دی جائے وغیرہ۔ ان تمام امور میں جہاں کہیں ایسا کام آ جائے جو منصوص احکام کی خلاف ورزی پر مبنی ہو اس سے ہم احتراز کریں اور علی الاعلان اسباب بتا کر اس کی حکمت واضح کرکے احتراز کریں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں سماج کے تمام گوشوں میں، ہر سطح کے لوگوں میں نفوذ و رسوخ کے مواقع ملیں گے۔ عوام سے ہمارا ربط بیش از بیش ہوگا اور موثر طریقہ پر ہوگا، ہماری سیاسی طاقت بڑھے گی ہم اپنی رائیں پیش کرنے اور منوانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ہماری معاشی قوت بڑھے گی کیوں کہ ہم جملہ ترقیاتی اور رفاہی کاموں میں شریک و سہیم ہونے کے سبب افادہ و استفادہ کر سکیں گے۔ سماجی طور پر ہمارا اثر بڑھے گا کیوں کہ ہم سے بھی کچھ لوگوں کو اپنے کام نکلتے نظر آئیں گے اور وہ ہماری طرف رجوع کریں گے۔ سیاسی اثر، معاشی قوت، سماجی حیثیت اور عوام سے ربط میں یہ اضافے ہمیں تحریک کے لیے مطلوب ہیں۔ اس اثر کو ہم اسلامی قوت کے تعارف کے لیے استعمال کر سکیں گے۔ ہم کو مختلف امور ومعاملات میں اسلامی اصولوں کو برتنے اور اسلامی کردار کے مظاہرہ کے مواقع ملیں گے۔ چوں کہ ہم اس ملک کی عام زندگی کو غیر اسلامی اقدار کے اثر سے پاک کرکے اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں اس لیے ان مواقع کو ہاتھ میں لینا اور ان سے پورا فائدہ اٹھانا ہمارے لیے ضروری ہے۔
اگر تحریک اسلامی نے خود یہ رویہ اختیار کیا اور اس کے زیر اثر عام مسلمانوں نے بھی یہی رویہ اختیار کیا تو وہ قابل لحاظ حد تک اس ملک کے نظام میں دخیل ہو سکتے ہیں اور اس بات کا اہتمام کر سکتے ہیں کہ موجودہ نظام کی وہ داخلہ اور خارجہ پالیسیاں تبدیل ہوں جو مفاد اسلام کے منافی ہو سکتی ہیں اور آئندہ ملک اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کو اس طرح وضع کرے کہ اسلام کے مصالح کو فروغ ہو۔ اس بات میں کام یابی کا انحصار اس پر ہے کہ ہم حق کو سمجھانے اور موثر قوت کے ساتھ جمہوری ڈھانچہ پر اثر انداز ہونے کی کتنی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہر حال قابل لحاظ کام یابی کے امکانات موجود ہیں خواہ اس کے شرمندہ تعبیر ہونے میں ہماری سست روی، کوتاہی اور ماضی کی تاریخ کی بنا پر دیر ہو۔
اب ہم یہ واضح کریں گے کہ نظام وقت سے کنارہ کشی اور اس کے ساتھ عدم تعاون کا رویہ دعوت اسلامی کے مصالح کے منافی ہے۔ اس کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے اور مقصد کا حصول دشوار تر بنا رہا ہے۔
کنارہ کشی اور عدم تعاون کا مفہوم واضح ہے کیوں کہ ہمارا موجودہ رویہ کم و بیش یہی ہے۔ الیکشن میں حصہ نہ لینا، پارلیمنٹ اور مجالس قانون کی رکنیت سے احتراز، مناصب حکومت سے احتراز، ترقیاتی منصوبوں وغیرہ کاموں سے عملًا بے تعلقی وغیرہ۔
الف: اس رویہ کی وجہ سے ارباب حکومت، اصحاب فکر، عامۃ الناس اور خاص طور پر اکثریتی فرقہ کے لوگوں میں تحریک کے طریق کار اور مقاصد کے بارے میں ایسے شکوک وشبہات پیدا ہو رہے ہیں جن کا ازالہ اس رویہ کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ مثلا یہ کہ یہ تحریک تبدیلی وانقلاب کے غیر جمہوری طریقوں کا سہارا لے سکتی ہے جو زبان سے جو بھی کہتی ہو۔ یا یہ لوگ ہندوستان میں بہر صورت اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں خواہ جمہور ان کی سنیں یا نہ سنیں۔ ان کا اصلی سہارا ہندوستانی عوام کی تائید و ہمدردی نہیں بلکہ بیرونی طاقتیں ہیں اور انھی پر تکیہ کرکے ان کے لیے زمین ہم وار کر رہے ہیں وغیرہ۔
ب: اس رویہ کی بنا پر تحریک اسلامی سے وابستہ لوگ بھی اسی شکایت کا ہدف بنتے ہیں جو ملک کو عام مسلمانوں سے ہے یعنی اس ملک کی معاشی ترقی اور استحکام و بہبود سے لا تعلقی۔
ج: ہم یہ رویہ اختیار کرکے مسلمانوں کی اس غلط ذہنیت کو مزید تقویت پہنچا رہے ہیں جس کی طرف اوپر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ اس طرح ایک مسلم جماعت قرار پاکر ہم اس الزام کا مورد بنتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں علیحدگی پسندی پیدا کر رہے ہیں اور ان کو قومی دھارے سے الگ رکھنے کا سبب ہیں۔
د: جماعتی طور پر ہم سیاسی اعتبار سے بے اثر اور نظر انداز کیے جانے کے قابل بنتے جارہے ہیں کیوں کہ جمہوری سیاسی عمل (democratic polical process) سے ہم الیکشن اور مجالس قانون ساز کی ممبری کے بارے میں موجودہ موقف کی بنا پر کٹ کر کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ حکومت اور عوام دونوں ہمیں نظر انداز کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں۔
ہ: تحریک اسلامی سے وابستہ حضرات کی معاشی حالت گرتی جا رہی ہے اور نئے آنے والے پست معاشی طبقات میں سے ہی آرہے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام وقت سے کنارہ کشی اور اس سے عدم تعاون کے بعد معاشی ترقی و اقدام کی اکثر راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ ہم خود بھی کم زور ہو رہے ہیں اور مسلم سماج کی کم زوری میں بھی مزید اضافہ کر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں ہماری قوت کار گھٹ رہی ہے کیوں کہ اس کا بیشتر حصہ روٹی کی فراہمی پر صرف ہو رہا ہے اور وہ فراغ و سکون کم ہوتا جارہا ہے جو عرصہ دراز تک ایک فکری اور عملی تحریک چلانے کے لیے ناگزیر ہے۔
اگر تحریک اسلامی کو کسی ہنگامی بحرانی حالات سے عہدہ بر آ ہونا ہوتا جس دور کی عمر چند برس یا ایک نسل (generation)سے زائد نہ ہوتی تو ہم اس مخصوص معاملہ میں۔ معاشی قوت اور مالی حالت۔ دوسرا رویہ اختیار کرتے۔ مگر ہمارا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ عصر حاضر کے حالات پوری دنیا میں اور ہمارے ملک کے حالات قطعی طور پر بتاتے ہیں کہ عرصہ دراز تک ایک ایسی جدوجہد جاری رکھنی ہے جس کا بیشتر تعلق فکری تبدیلی اور صالح کردار کے مظاہرہ سے ہے نہ کہ عملی کشمکش، ہجرت، جنگ وغیرہ سے اور اس حقیقت کے پیش نظر مالی اور معاشی قوت کی بڑی اہمیت ہے اور تحریک کو ایسا رویہ اختیار نہ کرنا چاہیے جو اس قوت سے محروم کر دے یا اس میں اضافہ ناممکن بنادے۔
و: ظاہر ہے کہ سیاسی طور پر بے اثر اور معاشی طور پر پست ہو جانے والے لوگ رفتہ رفتہ تعلیم میں بھی پچھڑ جاتے ہیں اور سماجی حیثیت کے اعتبار سے بھی تنزل کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اگر ہم ہر اعتبار سے پس ماندہ ہو کر سماج کی سطح پر آگئے تو کیا امید کی جاسکتی ہے کہ ہماری اخلاقی اپیل اور انقلابی دعوت پر کوئی کان دھر سکے گا۔ زیادہ اندیشہ اس کا ہے کہ خود مسلمان بھی ہماری بات سننا چھوڑ دیں گے۔
س: آخری اور سب سے بڑا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ عوام سے ہمارا ربط کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ ہم تحریک اسلامی سے وابستہ افراد اپنے مدرسوں میں، مسلم محلوں کی دکانوں پر، مسلم بستیوں کے کھیتوں میں محصور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ تمدن کے مراکز سے، فیصلوں کے مقامات سے، ایسی مجالس سے جن میں ذہین اور تعلیم یافتہ اہل ملک سے ربط ہوسکتا ہم اپنے غلط رویہ اور موقف کی بنا پر نکلتے چلے جا رہے ہیں۔ نہ ہمارا وجود اخبارات کی دنیا میں ہے، نہ ریڈیو کی لہروں میں، نہ مجالس قانون ساز میں ہماری صدا بلند ہوتی ہے، نہ یونیورسٹیوں کے تدریسی کمروں میں، ہم گرتی ہوئی مسلم قوم کی نچلی سطح کی تاریک تہوں میں دھنستے دبتے چلے جا رہے ہیں جو اس تحریک کے لیے موت کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جس کی کام یابی کا انحصار جمہورِ ہند میں دعوت اسلامی کے تعارف اور مقبولیت پر ہے۔
ممکنہ شبہات کا ازالہ
موجودہ نظام کے سلسلہ میں مجوزہ ایجابی اور فعال رویہ کے حق میں دلائل دینے کے بعد ہم بعض ان شبہات کے ازالہ کی کوشش کریں گے جو اس موقف کے سلسلہ میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔
۱۔ پہلا شبہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہماری شرکت اور تعاون سے حق و باطل گڈمڈ ہو جائے گا۔ لوگوں کی نظروں میں یہ دعوت کہ موجودہ نظام کی جگہ ہدایت الہی پر مبنی نظام قائم کیا جائے مشکوک اور غیر معتبر ہو جائے گی۔ حق کو باطل سے ممتاز رکھنے اور تبدیلی نظام کی دعوت میں خود کو یکسو، حنیف اور مخلص منوانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس نظام سے کنارہ کش رہیں اور اس سے کسی قسم کا تعاون نہ کریں۔
یہ شبہ اس لیے بے جا ہے کہ ہم اپنی دعوت کی وضاحت و تقسیم اور اجتماعی امور زندگی کی تنظیم کی بابت اسلامی ہدایات بلا کم و کاست پیش کرتے رہیں گے۔ جن کاموں میں ہم عملًا شریک ہوں گے یا جن سے تعاون کریں گے ان میں سے غالب اکثریت، نوّے فیصد سے زیادہ، ان انتظامی امور کی ہے جن کی بابت کتاب وسنت میں کوئی دائمی ضابطہ نہیں دیا گیا ہے بلکہ عقل انسانی کو آزاد چھوڑا گیا ہے کہ حالات و ضروریات کے مطابق مقاصد و مصالح معتبرہ کو سامنے رکھ کر موزوں طریقے وضع کرے۔ ہماری شرکت و تعاون کا بیشتر تعلق اسی دائرہ آزادی سے ہے جس میں ہم بھی دوسرے انسانوں کی طرح جو سمجھ میں آئے گا تجویز کریں گے۔ اس دائرہ میں حق و باطل کے گڈمڈ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
رہا مقاصد اور بنیادی اصولوں کا سوال تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مساوات، آزادی، عدل، شورائیت وغیرہ اکثر آخری اسلامی قدروں کو ہندوستان بھی اختیار کر چکا ہے۔ اختلاف تعبیر، تقاضوں کی تعیین اور طریقہ حصول میں زیادہ ہے۔ ہمیں ان امور میں اسلامی فکر کے مطابق تعبیر کا پورا موقع ملے گا اور عوام پر یہ بات واضح رہے گی کہ ہمارا موقف کیا ہے اور کیوں ہے اور اگر ہماری وضاحت کے بغیر ملک نے کوئی دوسرا طریقہ اختیار کیا تو ہم یہ بھی واضح کریں گے کہ اس طریقہ نے کیا برے نتائج دکھلائے۔
آخر میں ان منصوص احکام کا سوال آتا ہے جو مجالس قانون ساز اور انتظامیہ و عدلیہ وغیرہ کے موجودہ قوانین و ضوابط سے ٹکراتے ہیں مثلا حرمت شراب، زنا، سود یا قمار وغیرہ تو ہم اوپر واضح کر چکے ہیں کہ انتظامی مشنری کے ان دائروں سے ہم کنارہ کش رہیں گے جن کا تعلق منصوص محرمات سے ہے۔ نیز ایسے کاموں میں تعاون بھی نہیں کریں گے جو ان معصیتوں کو مستلزم ہوں۔ مزید برآں مجالس قانون ساز میں ہم ان تمام امور سے متعلق اپنی تجاویز سامنے لائیں گے اور ان کی حکمتیں واضح کریں گے۔ اس طرح حق و باطل کے گڈمڈ ہونے کا شبہ ختم ہو جائے گا۔
یہ ایک حقیقت واقعہ ہے کہ نظام سے شرکت و تعاون نہ کرنے کے باوجود لاکھوں کروڑوں افراد پر مشتمل جماعت یا امت اس طرح زندگی نہیں گزار سکتی کہ اس کا مجالس قانون ساز، انتظامیہ، عدلیہ وغیرہ سے کبھی کوئی واسطہ ہی نہ پڑے۔ آج بھی روز ایسے واسطے پڑتے ہیں اور ہم نے فی الجملہ قانون کی پابندی کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ یہی نہیں بلکہ معروف کاموں میں تعاون بھی کرتے ہیں مثلا شراب بندی، پناہ گزینوں کی بحالی اور دوسرے رفاہی کام ۔ اس سے ہمارا عزم انقلاب اور تبدیلی کے حق میں اخلاص مشتبہ اور مشکوک نہیں ہوتا۔ یہی بات مجوزہ رویہ کے سلسلہ میں درست ہوگی۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم ان انسانوں کی تبدیلی نہیں چاہتے جن کے ہاتھوں نظام چلایا جا رہا ہے بلکہ خود نظام اور طور طریقوں کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ اندر رہ کر جس حد تک ممکن ہوگا تبدیلی لائیں گے اور جس حد تک نہیں بدل سکے عوام پر یہ واضح کریں گے کہ مزید تبدیلی کے لیے ہمیں مزید تائیدِ جمہور درکار ہے۔
دنیا میں بہت سی جماعتیں اور گروہ اپنے ملکوں کے موجودہ نظاموں کو تبدیل کرنے کا عزم رکھتے ہیں مگر یہ کسی نے ضروری نہیں سمجھا ہے کہ اس عزم میں خود کو مخلص ثابت کرنے کے لیے اس نظام سے کنارہ کش ہوجائیں، خود کو بے اثر اور کم زور بنا لیں۔ چناں چہ دنیائے اسلام کی کسی بھی اسلامی تحریک نے بجز جماعت اسلامی ہند کے، آج یہ رویہ نہیں اختیار کر رکھا ہے نہ کہیں اختیار کر رکھا ہے نہ کہیں اختیار کیا تھا۔ انڈونیشیا، مصر، شام، سودان وغیرہ کی مثالوں پر غور فرمایا جا سکتا ہے۔
۲۔ دوسرا شبہ یہ ہو سکتا ہے کہ مجوزہ رویہ منصوص احکام کی خلاف ورزی کو مستلزم ہے۔ اس سیاق میں مجھے بجز ایک نص کے کسی دوسری نص کا علم نہیں جس سے استدلال کیا گیا ہو یا کیا جا سکتا ہو۔ یہ ایک نص طاغوت سے کفر سے متعلق آیات قرآنی ہیں۔
میری رائے میں ان آیات سے استدلال اولا ًبے محل ہے، ثانیا ً ناقص ہے۔ یہ استدلال بے محل اس لیے ہے کہ یہ حکم اور متعلقہ آیات اس صورت حال سے متعلق ہیں جب اسلامی نظام قائم ہو اور کوئی شخص مسلمان ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود غیر اسلامی اتھارٹی کی طرف رجوع کرے۔ ہندوستان میں یہ صورت حال نہیں پائی جاتی۔ یہ استدلال ناقص اس لیے ہے کہ ہم غیر الہی نظام اطاعت کے علی الاعلان خلاف رہیں گے اور الہی نظام اطاعت قائم کرنے کے داعی ہوں گے۔ ملک کا موجودہ نظام جمہوری نظام ہے جس میں جمہوری طریقہ سے ہی نظام اطاعت کے قیام کا امکان ہے۔ اسی امکان کے پیش نظر ہم اس میں شرکت کریں گے تاکہ دینی دعوتی کوششوں، سیاسی اثر وغیرہ سے کام لے کر اسی جمہوری طریقہ سے اس نظام کو بدل دیں۔ ہمارے علانیہ مقصد، مذکورہ بالا امکان، اور اسی حقیقت کے پیش نظر کہ کنارہ کشی سے مصالح دعوت مجروح ہوتے اور مقصد کا حصول دشوار ہوجاتا ہے، مجوزہ رویہ کے خلاف کفر بالطاغوت والی آیات سے استدلال غلط ہوگا۔ چناں چہ یہی وجہ ہے کہ مصر وشام میں اخوان المسلمون نے اور انڈونیشیا میں ماشومی نے کہیں ان آیات سے استدلال کرکے اپنے ملکوں کے نظام کے سلسلہ میں وہ رویہ اختیار کرنا ضروری نہیں سمجھا جس کا ہم نے خود کو پابند کر رکھا ہے۔
۳۔ اسی شبہ کی ایک دوسری شکل یہ ہے کہ مجوزہ رویہ عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔ یہ ایک بے بنیاد دعوی ہے کیوں کہ مذکورہ بالا رویہ، اعلان مقصد اور مصالح کے پیش نظر شرکت کسی طرح کسی دوسرے عقیدے کے اختیار کرنے کے ہم معنی نہیں۔ ایک جموری نظام میں شرکت اور مجالس قانون ساز کی ممبری کسی عقیدہ کے اختیار و ترک کو مستلزم نہیں۔خاص طور پر ایسی صورت میں جب اسی عقیدہ توحید کے تقاضوں کی تکمیل کے لیے ہم اس نظام میں حصہ لے رہے ہیں۔
۴۔ آخری شبہ یہ ہو سکتا ہے کہ مجوزہ موقف جماعت اسلامی کے اس موقف سے بالکل مختلف ہے جو اس نے اب تک اختیار کر رکھا تھا اس لیے رویہ کی اس تبدیلی سے جماعت کی اخلاقی ساکھ مجروح ہوگی اور اسے زبردست صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس شبہے کے سلسلے میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ جہاں تک سابق موقف کے قبل تقسیم اور قبل آزادی موزوں یا غیر موزوں ہونے کا سوال ہے اس پر بحث یہاں غیر متعلق ہوگی۔ مگر آج کے حالات میں سابق موقف کا غلط، نقصان دہ اور تحریک اسلامی کے مفادات و مصالح کے منافی ہونا مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں بالکل واضح ہے۔ یہ طریقہ کسی طرح حق بجانب نہیں ہوسکتا کہ ہم اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد بھی ایک غلط رویہ کو صرف اس لیے اختیار کیے رہیں کہ لوگ ہم پر پھبتی نہ کس سکیں۔
حالات بدل چکے ہیں۔ اپنے رویہ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ رویہ کی تبدیلی اسلام اور تحریک اسلامی کی ہی خاطر مطلوب ہے۔ پھر ہمیں اپنا رویہ بدلنے میں مطلق جھجک سے کام نہیں لینا چاہیے۔ بالآخر معقول بات کا وزن ثابت ہوکر رہتا ہے۔ جو تنقید وطعن اس تبدیلی سے ہم پر ہو سکتا ہے وہ حباب بر آب ہوگی۔ ہم بالآخر سب کو سمجھا سکیں گے کہ یہ تبدیلی ضروری تھی اور مفید ہوگی۔
مزید برآں ہمیں اس پر بھی نگاہ رکھنی چاہیے کہ مذکورہ بالا دلائل کے ہوتے ہوئے سابق رویہ پر اصرار کا نتیجہ کیا ہو رہا ہے۔ سمجھ دار لوگ ہم پر سخت معترض ہیں۔ ہم مسلمانوں کے ذہین اور تعلیم یافتہ طبقہ کے تعاون و اشتراک سے زیادہ تر اسی سخت رویہ و غیر موزوں رویہ کی وجہ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری اپنی صفوں میں اس وجہ سے اضطراب ہے اور اگر ہم نے اپنا رویہ نہ بدلا تو یہ اضطراب انتشار میں بدل سکتا ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ یہ محض خوش فہمی ہے کہ موجودہ نظام کے سلسلہ میں ہمارا رویہ آج بھی وہی ہے جو ۱۹۴۱ء میں تاسیس جماعت کے وقت سوچا گیا تھا۔ حالات کے دباؤ، تحریک کے مصالح کے تقاضوں اور جزئی وقتی اجتہادات کے تحت لاتعداد جزئیات میں ہمارا رویہ بدل چکا ہے، جس سے اپنوں اور دوسروں کی نظر میں اب ہماری تصویر وہ نہیں رہ گئی ہے جو ۱۹۴۱ء اور مابعد کے قریبی زمانہ میں تھی۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ صرف چند یہ ہیں:
ملازمت، جدید تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا، عدالتی چارہ جوئی، حکومت کے انتظامیہ سے اپنے کاموں میں مدد چاہنا، حکومت کے انتظامیہ کو اپنا تعاون پیش کرنا، بنکوں میں حساب رکھنا یا ارکان حکومت اور ممبران مجالس قانون ساز سے ربط رکھنا، انتخابات میں رائے دہی کی مخالفت نہ کرنا۔ یہ آٹھوں مثالیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ جماعت بننے کے بعد ابتدائی چند برسوں تک ہمارا رویہ انتہائی شدید تھا مگر اب ایسا نہیں ہے۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ مجھے اطمینان ہے کہ ایسا کسی کم زوری یا مداہنت کی علامت نہیں بلکہ ٹھیک ہوا۔ یہ ہماری مخصوص نفسیات ہے کہ ہم جزئی اجتہاد کر گزرتے ہیں مگر کلی اجتہاد اور رویہ کی تبدیلی سے، جس کے حالات متقاضی ہیں جھجکتے ہیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ جھجک خوف خدا کی وجہ سے کم ہے انسانوں کے خوف اور لومۃ لائم کے اندیشہ سے زیادہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مذکورہ بالا جزئی تبدیلیوں نے ہماری جماعت کو بھی اور عامۃ المسلمین کو بھی اس کے لیے پوری طرح تیار کر دیا ہے کہ ہم موجودہ نظام کے سلسلے میں اپنا رویہ بدل دیں اور وہ رویہ اختیار کرلیں جو میں نے تجویز کیا ہے۔ اگر مناسب افہام وتفہیم کے ساتھ ایسا کیا جائے تو نہ اس سے جماعتی صفوں میں کسی انتشار کا اندیشہ ہے نہ دوسرے مسلمان طبقوں کی طرف سے کسی دیر پا ناخوش گوار رد عمل کا۔
اللَّهُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَأَرِنَا البَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ.
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2022