صبر
اُردو والوں نے صبر کے مفہوم کو بہت محدود کردیا ہے۔ عام طورپر اِسے رنج وغم کے حالات اور ظلم و تعدّی کے مقابلے میں چپ رہنے اور سب کچھ برداشت کرنے کے معنی میں بولا جاتاہے۔ یہ باتیں بھی صبر کے دائرے میں ٓتی ہیں، لیکن یہ ایک وسیع المفہوم لفظ ہے۔ اس کے معنیٰ میں بڑی وسعت اور گہرائی ہے۔ قرآنِ مجید میں یہ لفظ متعدد مقامات پر آیا ہے۔ علما اور مفسرین نے ان مقامات کے پس منظر میں صبر کی جو تشریح کی ہے، اس سے اس کی وسعت و گیرائی کا بہ خوبی اندازہ کیاجاسکتا ہے۔
صبر کے لغوی معنیٰ روکنے، رُکنے، باندھنے، بندھنے اور مصائب ومشکلات میں اپنے مشن اور نصب العین پر جمے رہنے کے ہیں۔ اس سے مراد ارادے کی مضبوطی و پختگی اور عزم وحوصلہ کا وہ استحکام ہے، جس سے کوئی بھی شخص نفسانی ترغیبوں، حرص وہوس اور مصائب و مشکلات کے مقابلے میں اپنے سوچے، سمجھے نصب العین کے حصول کی طلب میں ثابت قدم رہے۔ دنیا کی کوئی بھی طاقت اُسے اس راہ سے یک سرِمو نہ منحرف کرسکے۔
صبر قرآن وحدیث میں زندگی کے بہت سے اعلیٰ واخلاقی اوصاف کے لیے ایک جامع عنوان کے لیے مستعمل ہے۔حقیقت میں یہ کام یابی وکام رانی اور فلاح وترقی کی ایک ایسی کلید ہے، جس کے بغیر کسی بھی کام یابی و کام رانی یا فلاح و ترقی کاتصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔
صبر ایک عظیم اسلامی صفت ہے۔ اگر داعی اس سے مزین ہوتو دعوت وتبلیغ کے راستے کی تمام مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔ داعی کے لیے اس وصف کا حامل ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس لیے کہ لوگوں کے طبائع، مزاجوں اور فطرتوںمیں بڑی گوناگونی ہوتی ہے۔ کبھی داعی کی دعوت سے ان کے پارینہ راسخ اعتقادات اور قدیم رسوم اور رواج پر ضرب پڑتی ہے تو کبھی آبائ واجداد کے مسالک اور نظریات کے سلسلے کے ان کے جذبات و احساسات مجروح ہوتے ہیں۔پھر ردّعمل کے طورپروہ انتقاماً داعی کو طعن و تشنیع اور دشنام طرازیوں سے نوازتے ہیں۔بسااوقات زدوکوب کا بھی نشانہ بناتے ہیں۔غرض کہ اس کی مخالفت و معاندت کا کوئی بھی دقیقہ وہ فروگزاشت نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں ان تمام حالات سے نمٹنا اور تلخ و ناخوش گوار ماحول کو مساعد اور خوش گوار بنانا اسی شخص کے لیے ممکن ہے، جو صبر کا متحمل ہواور تحمل و استقامت کے اوصاف اس کی شخصیت کا نمایاں جوہر ہوں۔اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں اور داعیانِ اسلام کی خدمات اور کارناموںپر نگاہ ڈالیں تو پتا چلے گا کہ صبر ہمیشہ اور ہر دور میں اہم انسانی جوہر تسلیم کیاجاتارہاہے اور یہی جوہر ان کی فلاح وکام یابی کا زینہ رہا ہے۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وصیت کی اور فرمایا:
یَا بُنَیَّ أَقِمِ الصَّلَاۃَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنکَرِ وَاصْبِرْ عَلَی مَآ أَصَابَکَ انَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُور ﴿لقمان:۱۷﴾
’اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا اور بُرے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تجھ پر آجائے صبر کرنا۔ یقین مان کہ یہ وہ کام ہیں، جن کی بڑی تاکیدہے۔‘
انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام، اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے معززصحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگیاں صبر کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ مشہور صحابی رسول حضرت خبّاب بن ارت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کعبے کے سایے تلے تشریف فرما تھے۔ہم نے آپ کے سامنے اپنے مصائب پیش کیے۔ عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آپ ہمارے لیے دعاے نصرت نہیں کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری باتیں غور سے سماعت فرمائیں اور ارشاد فرمایا:
’تم سے پہلے لوگوں میں کسی شخص کو پکڑا جاتا تھااور گڑھے میں نصف مدفون کردیاجاتا تھا،پھر آرے سے اس کے جسم کوچیردیاجاتاتھا اور کبھی لوہے کی کنگھیوں سے اس کے جسم کو نوچا جاتاتھا۔ لیکن یہ ساری مشکلات انھیں دین سے برگشتہ نہ کرسکیں۔ اللہ ضرور اس دین کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گا۔ یہاں تک کہ کوئی سوار صنعا سے حضرموت تک جائے گا اور سواے اللہ کے کسی سے نہ ڈرے گا۔ لیکن تم لوگ عجلت بازہو۔‘ ﴿بخاری، باب علامات النبوۃ﴾
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر مکی زندگی میں مختلف النوع مظالم کیے گئے اوربے پناہ مشکلوں اور مصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے۔ کبھی استہزا کیاگیا، کبھی زدوکوب کا عمل ہوا، کبھی بہ حالت نماز جسم اطہر پراوجھڑی ڈال دی گئی اور کبھی قتل کی سازشیں رچی گئیں۔ لیکن آپﷺ صابر وشاکر اور رب اعلیٰ کی نصرت وامدادسے پُرامید رہے۔
داعی کو چاہیے کہ وہ مصائب و مشکلات پرصبر و استقامت کاخوگر ہو۔ اُسے رب العزت کی نصرت پر کامل یقین ہو اور وہ ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنے مشن کی کام یابی کے لیے ہمہ تن ساعی و کوشاں رہے۔ خاص اوقات میں دعاؤں کا بھی اہتمام کرے۔ یہ نہایت مفید اور کارگر عمل ہے۔ لیکن کسی بھی صورت میں مزاج میں عجلت یا بددلی کونہ داخل ہونے دے۔
شجاعت اور ثابت قدمی
داعی کے اوصاف میں ایک اہم وصف شجاعت اور ثابت قدمی بھی ہے۔ وہ یقین کامل رکھے کہ موت و حیات، نفع ونقصان اور جملہ امور کا مالک صرف اللہ ہے۔ حق کے برملا اظہار میں کوئی جاہ و منصب، مال وثروت، قرابت واخوت اور خوف وخطر آڑے نہ آئے اور وہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کو حرزجاں بنالے:
آپ نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے فرمایا:
یا غلام اعملک بکلمات احفظِ اللّٰہِ یحفظک اذا سالت فاسئل اللہ اذا استغت فاستعن باللہ واعلم أن الامۃ لو اجتمعت علٰی ان ینفعوک بشیٔ لم ینفعوک الاما کتبہَ اللہ لک ولواجتمعت علی ان یضروک بشیٔ لم یضروک الا ان کتبہ اللہ علیک رفعت الاقلام وجفت الصحف۔
’اے بیٹے! میں تجھے کچھ کلمات سکھاتا ہوں۔ حقوق الٰہی کی حفاظت کر، اللہ تیری حفاظت کرے گا، جب بھی کوئی چیز مانگ، اللہ ہی سے مانگ، مددطلب کر تو اللہ ہی سے طلب کر اور یاد رکھ کہ اگر ساری انسانیت مل کر بھی تجھے کچھ نفع پہچانا چاہے تو سواے اس کے کوئی نفع نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تیرے حق میں لکھ دیا ہے، اسی طرح اگر وہ تجھے کوئی ضرر پہنچانا چاہے تو سواے اس کے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی جو تیرے لیے مقدر کردیاگیا ہے۔ قلم اٹھالیے گئے اور تقدیر کے صحیفے خشک ہوچکے۔‘
داعی کو بزدلی ،پس و پیش اور گو مگو جیسی منافقانہ روش سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اُسے خداے واحد پر یقین کامل کے ساتھ سیرت نبویﷺ اور سلف صالحین کے مردانہ کارناموں کو نمونہ بناکر بے خوف و خطر اِظہار واعلان کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔ اس کے بغیر اِس راہ میں کام یابی نہیں مل سکے گی۔یہ فلاح وکام یابی کا کام یاب اور بہترین ہتھیار ہے۔
دنیا سے بے رغبتی
زُہد، داعی کی اہم ترین صفت ہے۔ اس سے مقصود یہ نہیں ہے کہ دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی جاے اور اچھا کھانے یااچھا پہننے سے اجتناب کیاجائے۔ بل کہ داعی کو یہ چاہیے کہ وہ اپنے دل کو دنیوی حرص و طمع سے پاک رکھے۔ مزاج میں توکل و قناعت پسندی ہو اور وہ دعوت دین کے کام سے دنیا طلبی کے لیے نہیں بل کہ خالصۃً لوجہ اللہ جڑا ہوا ہو ۔انبیاے کرام علیہم السلام کے اُسوے کو اس کی زندگی میں خصوصی اہمیت حاصل ہو۔ اس کے سامنے قرآنِ مجید کی یہ ٓیت ہو، جس میں بتایاگیا ہے کہ انھوںنے اپنی قوم کومخاطب کرکے کہاتھا:
وَمَآ أَسْأَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ أَجْرٍ انْ أَجْرِیَ الَّا عَلَی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ﴿شعراء:۱۰۹﴾
’میں اس دعوت پر تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا۔ میرا اجر تو اللہ کے پاس ہے۔‘
اگر داعی لوگوں کے مال وثروت پر نظر کرے گا اور اس کی حرص کرے گا تو اس کی شخضیت بھی مجروح ہوگی اور وہ دعوت بھی مشکوک اور بے اثر ہوجائے گی، جس کے لیے وہ جدوجہد کررہاہے۔ حضرت سلیمانؑ نے بلقیس کو دعوت اسلام پیش کی تو اس نے آپؑ کو ہدیہ پیش کیا۔ وہ اندازہ کرناچاہتی تھی کہ سلیمانؑ کوئی دنیادار بادشاہ ہیں یا اللہ تعالیٰ کے کوئی ایسے برگزیدہ بندے جو دین کی سربلندی چاہتے ہیں۔ اس نے سوچ رکھاتھاکہ اگر سلیمانؑ نے ہدیہ قبول نہ کیا تو یقینا ان کا مقصد دین کی اشاعت ہے، دنیا طلبی نہیں ہے۔ بہ صورتِ دیگر یہی سمجھا جائے گا مقصود دعوتِ دین نہیں کچھ اور ہے۔ چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہدیہ واپس کردیا۔ جب اسے یقین ہوگیاکہ سلیمانؑ اپنی دعوت میں برحق ہیں تو اس نے اسلام قبول کرلیا اور کہا:
ْ رَبِّ انِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمَانَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن ﴿النمل:۴۴﴾
’میرے پروردگار! میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ اب میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی فرماں بردار بنتی ہوں۔
داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی کے مال ومنال پر نگاہ نہ رکھے۔ اپنی ایسی شخصیت پیش کرے کہ لوگوں کو یہ محسوس ہو کہ اس شخص کو مال ودولت سے بے نیازی و بے رغبتی ہے اور دوسروں کی ترقی، کام یابی اور خوش حالی سے اسے خوشی و مسرت حاصل ہوتی ہے۔ یہ چیز مدعو کے دل پر اثر کرے گی اور اپنے اس رویّے کی وجہ سے داعی اپنی بات کو حسب منشا کسی دبائو یا تردد کے بغیر لوگوں کے سامنے پیش کرسکے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
اذھِدُ فی الدنیا یحبک اللہ وأزْھِدُ فی ایدی الناس یحبکُ الناس۔ ﴿سنن ابن ماجۃ باب الزھد فی الدنیا﴾
’دنیا سے بے رغبتی اختیارکرو ، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ لوگوں کے اموال سے بے زار رہو لوگ تم سے محبت کریں گے۔‘
تاریخ اِسلامی میں اس طرح کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں کہ اسلام کے داعی حضرات خلفا و امرا کے درباروں میں دعوت دین کے لیے پہنچے، خلفا وامرا نے اُنھیں ہدایا پیش کیے، لیکن انھوں نے لینے سے انکار کردیا۔ کہاہم آپ کو کچھ دینے کے لیے آئے ہیں ، لینے کے لیے نہیں آئے ہیں۔ہمارا مقصد دعوتِ دین ہے۔ آپ ہماری دعوت قبول کرلیں، یہ ہمارے لیے بہت بڑا تحفہ یا ہدیہ ہوگا۔ یہ بات ان کی دعوت کی قبولیت کا اہم سبب بنی۔ یہ ایک نہایت موثر رویہ ہے۔ داعی کا یہ وصف راہِ حق میں اس کی کام یابی کا بھی سبب بنے گا اور لوگ اُسے عزت و وقار کی نگاہ سے بھی دیکھیں گے۔
قول وعمل میں یکسانی
دعوتِ حق کا کام کرنے والوں کے لیے قول و فعل کی یکسانی بہت ضروری ہے۔ داعی اس وقت تک داعیِ صادق نہیں ہوسکتا اور لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت و بزرگی نہیں گھرسکتی، جب تک کہ اس کے قول وعمل میں یکسانی نہ ہو۔ اس لیے کہ داعی یا کسی بھی شخص کی گفتگو دل پزیر وموثر اور شخصیت لائق تعظیم و احترام گل افشانی گفتار سے نہیں،بل کہ خوبی کردار سے ہوتی ہے۔ہمارے عہد کے ایک مقبولِ عام شاعر حفیظ میرٹھی نے کہاہے:
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
یہ بات قرآن مجید کی اس آیت سے زیادہ واضح ہوجاتی ہے:
یآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ﴿الصف:۲﴾
’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو، جو کرتے نہیں ہو‘
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بھی زجروتو بیخ کی اور فرمایا:
أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَکُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْکِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ﴿البقرہ:۴۴﴾
’کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم کرتے ہو اور خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔ اس کے باوجود کہ تم کتاب پڑھتے ہو، کیا اتنی بھی تم میں سمجھ نہیں ہے۔‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انسانی رویّے کا انجام بدبھی واضح فرمادیا:
یجائ بالرجل یوم القیامۃ فیلقیٰ فی النار فتندلق اقتابہ فی النار فیدورکما یدور الحمار برحاہ فیجتمع اھل النار علیہ فیقولون یأفلاں ماشانک الیس کنت تامر بالمعروف و تنہاناعن المنکر قال کنت آمرکم بالمعروف ولا آیتہ وانھاکم عن المنکر والاآیتہ ﴿بخاری باب ماجائ فی صفۃ النار﴾
’قیامت کے روز ایک آدمی کو لایاجائے گا، پھر اسے جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔ اس کی آنتیں نکل پڑیں گی اور وہ اپنی انتڑیاں لیے ہوئے چکی کے گدھے کی طرح گھومتا رہے گا۔ سارے دوزخ والے اس کے پاس اکٹھا ہوں گے، کہیں گے اے فلاں یہ کیا معاملہ ہے؟ تم تو دنیا میں اچھے تھے، ہم کو اچھی باتوں کا حکم دیتے تھے، بُری باتوں سے روکتے تھے۔ وہ جواب دے گا بے شک میں تمھیں اچھی باتوں کا حکم دیتاتھا، لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتاتھا اور بُری باتوں سے منع کرتاتھا،لیکن میںخود ان کا ارتکاب کرتاتھا۔‘
لہٰذاداعی کوعامل بالکتاب والسنۃ اور قول وعمل میں یکساں ہونا چاہیے۔ اُسے گفتار سے زیادہ کردار کا غازی ہونا چاہیے۔ اُسے چاہیے کہ حسنِ اخلاق کی دعوت سے پہلے وہ خود بااخلاق ہو اور تقوے کی دعوت سے پہلے وہ خود متقی ہو۔ تاکہ اس کی دعوت موثر ہو اور اس کی کوششیں اس کے لیے دنیا و آخرت میں بارآور ہوں۔
دعوت دین سے الفت
داعی کے اوصاف میں سے ایک اہم ترین وصف یہ بھی ہے کہ اسے اپنی دعوت سے غایت درجہ لگاؤ ہو اور وہ لوگوں کی ہدایت کا حریص ہو۔ ان کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے اپنی ان تھک کوشش اورجدوجہد کے ساتھ وہ اپنی نمازوں میں بھی ان کی ہدایت و رہ نمائی کی دعا کرتا ہو۔ دعاۃ کے سردار نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کے ایمان نہ لانے کا اس قدر دکھ اور درد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے غم کو کم کرنے کے لیے تسلی دی اور فرمایا:
نَّفْسَکَ عَلَیٰٓ اٰثَارِہِمْ ان لَّمْ یُؤْمِنُوا بِہٰذَا الْحَدِیْثِ أَسَفاً﴿کہف:۶﴾
’﴿اے نبی! ﴾ اگریہ لوگ قرآن کریم پہ ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اِس رنج میں اپنی جان ہلاک کرڈالیں گے۔‘
اللہ تعالیٰ نے اس راہ میں آپﷺ کی غایت درجہ حرص اوربے چینی کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی ہے:
لَقَدْ جَآئ کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْم ﴿التوبہ:۱۲۸﴾
’تمھارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے جو تمھاری جنس سے ہیں جن کو تمھاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے، جو تمھاری منفعت کے لیے بے حد خواہش مند رہتے ہیں۔ ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں۔‘
یہ تو ہوتا ہے کہ داعی اپنی دعوت میں ناکامی کی صورت میں مغموم وملول ہوتاہے، لیکن دعوت دین کی ذمے داری کا احساس اور اس کی غایت درجے حرص اور یہ اعتقاد کہ ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس کی تکلیف کو کم کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خطاب کرکے فرمایا:
انَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ أَحْبَبْتَ وَلٰ کِنَّ اللَّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَآئ ﴿قصص:۵۶﴾
’آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے۔ بل کہ اللہ جسے چاہتاہے ہدایت دیتا ہے۔‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی ماں کی ہدایت کے لیے اتنے فکرمند اور حریص تھے کہ جب وہ انھیں اسلام کی دعوت دیتے اور وہ انکار کردیتیں تو فرط غم سے رونے لگتے تھے۔ ایک روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ میری ماں کی ہدایت کے لیے دعا فرمادیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
اللھم اھدام ابی ہریرۃ ’اے اللہ! ابوہریرہ کی ماں کو ہدایت دے دے‘
یہ بہ ہرحال آپﷺ کی دعا کی ہی تاثیر تھی کہ ان کی ماں مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ داعی کے اندر یہ احساس ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے کہ یہ اللہ و رسولﷺ کے حکم کی بجا آوری ہے اور اگر کوئی ایک شخص بھی میرے ذریعے سے ہدایت یاب ہوا تو اس کا اجر مجھے بھی ملتارہے گا۔ نبیﷺ نے فرمایا:
من دعا الٰی ھدی کان لہ من الاجر مثل احورمن تبعہ لاینقص ذالک من اجورھم شیئاً ﴿مسلم کتاب العلم﴾
’جس شخص نے کسی کو ہدایت کی جانب بلایا اور وہ راہ یاب ہوگیا تو داعی کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا عامل کو ملے گا۔ اور عامل کے ثواب سے کچھ بھی کم نہ کیاجائے گا۔ بل کہ دونوں کا ثواب مستقل ہوگا۔‘
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کے اندر دعوت دین کا جذبہ پیدا فرمائے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم خلوص وللہیت کے ساتھ محض خوش نودی رب کے لیے اس کے دین کے پیغام کو دور دور تک پہنچائیں، غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اورغلبۂ دین کی جدّوجہد اور فروغ و اشاعت اسلام کی سعی وکاوش ہی ہماری زندگی کا مشن ہو۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2012