اسلامی تہذیب کے احیا میں نوجوانوں کا کردار

(علی گڑھ لٹریری فیسٹیول میں کیا گیا خطاب )

علی گڑھ لٹریری فیسٹیول کے کام یاب انعقاد پر میں ایس آئی او علی گڑھ اور سی ای آر ٹی کے ذمے داران کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ رنگار نگ، دل چسپ اور علم و فن کی متنوع کرنوں سے منور فیسٹیول یقیناً طلبہ اور تمام شرکا کے لیے یادگار رہے گا۔ مجھے یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی کہ بہت سنجیدہ اور گہرے موضوعات اس پروگرام میں زیر بحث لائے گئے اور کئی اہم ملکی و بین الاقوامی شخصیات سے استفادہ کیا گیا اور ان کی فکر انگیز باتیں سنی گئیں۔عالمی استعمار، کرونی کیپٹلزم، اسلاموفوبیا، بہوجن اتحاد وغیرہ جیسے سیاسی اور سماجی کشمکش سے متعلق موضوعات پر بھی بڑی اہم تقریریں ہوئیں اور اسلامک سولائزیشن، نالج اسٹرکچر، اپیسٹیمولوجی، وغیرہ جیسے فلسفیانہ موضوعات پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ان سب بحثوں سے روشنی حاصل کرتے ہوئے ہمیں عملی کاموں کی طرف متوجہ ہونا ہے۔ اور ایک بہتر سماج کی تشکیل کے خواب کو پورا کرنا ہے۔

آج میں اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے اسلامی تہذیب، اس کی خصوصیات اور اس کےا حیا میں نوجوانوں کے مطلوب رول پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ تہذیب کا سوال اس وقت بہت ہی بنیادی سوال ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ مستقبل کا عالمی منظر نامہ بھی تہذیبوں کے انٹرایکشن،یعنی مختلف تہذیبی قوتوں کے سافٹ پاور کے زیر اثر تشکیل پائے گا۔ ہمارے ملک میں بھی تہذیب اور تہذیبی قوم پرستی کا ظہور یہاں کا سب سے اہم اور defining featureبن چکا ہے۔

ان حالات میں، اسلام کی نشأة ثانیہ میں اسلام کی تہذیبی خصوصیات بہت اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ اسلامی تہذیب اصلاً ایک عالمی تہذیب ہے۔ اس کا تعلق کسی خاص جغرافیہ یا خاص قومی و نسلی گروہ سے نہیں ہے۔ دنیا کے ہر حصے کو اور انسانوں کے ہر طبقے کو دینے کے لیے اس کے پاس بہت کچھ ہے۔ اور جو کچھ اسلامی تہذیب کے پاس ہے، واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا کو اس کی بڑی ضرورت ہے۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کے تہذیبی وسائل کو صحیح طور پر روبہ کار آنے کا موقع ملے۔ اس کے لیے ایک طرف یہ ضروری ہے کہ مسلم معاشرے میں یہ تہذیب اپنے مکمل حسن و جمال کے ساتھ جلوہ گر ہو دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی روشنی سے باقی دنیا بھی متعارف ہو اور اس سے کسب فیض کرے۔

اس لیے محترم دوستو، اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا کے مسائل کو حل کرنے میں تہذیبی اور تمدنی محاذوں پر توجہ مرکوز کی جائے۔ ایک ہمہ گیر تہذیبی و تمدنی تبدیلی،اسلامی جدوجہد کا ہدف بنے۔اسلام کے ایک ایسے تہذیبی بیانیہ کو سامنے لایا جائے جس میں موجودہ دور کے اٹھائے ہوئے تہذیبی اور تمدنی سوالات کے اطمینان بخش حل موجود ہوں۔

بحث کو آگے بڑھانے سے پہلے اس بات کا ریویو کرنا ضروری ہے کہ اسلامی تہذیب کیا ہے؟ غالباً اس فیسٹیول میں اس موضوع پر بھی پروگرام ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں اپنے خیالات کا خلاصہ میں چند نکات کے تحت بیان کرنا چاہوںگا۔ 

اسلامی تہذیب کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اساس توحید ہے۔خدائے واحد پر یقین اور اسے مختار کل سمجھنا، اس کی محبت سے دلوں کو آباد رکھنا،اس کی مرضی کو زندگی کا اہم ترین ریفرنس بنانا، اس سے امید و خوف کا تعلق قائم رکھنا، اس کی عبادت اور خلافت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھنا، مشکلات و مصائب میں اسے پکارنا اور اس کے فیصلوں پر راضی رہنا، صرف اسی سے ڈرنا، صرف اسی سے مانگنا، اس کے ذکر سے طمانیت قلب حاصل کرنا، یہ سب کیفیات اس عقیدہ کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ان سے وسعت نظری اور عالی ظرفی، شجاعت و بہادری، حوصلہ مندی، رجائیت اور مثبت طرز فکر، صبر و شکر، توکل اور سکون و اطمینان جیسی نفسیاتی قوتوں سے انسان مالا مال ہوتا ہے۔ اس طرح اسلامی تہذیب زندگی کے ہر میدان میں حوصلہ مندی اور بلند ہمتی کی افزائش کرتی ہےاور مایوسی، قنوطیت، تناؤ اور خود کشی کے رجحان سے ہمیشہ پاک رہی ہے۔

اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس تہذیب کا ہر عنصر بامقصد ہوتا ہے۔ جدید مغربی تہذیب پر نظر ڈالیے۔صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اونچا مقصد اور آدرش نہیں ہے۔ تعیشات، تفریح اور جنسی جذبات کی تسکین کے علاوہ یا تو یہ تہذیب عالمی سرمایہ داروں کی خدمت میں مصروف رہتی ہے یاوقتی اور سطحی سیاسی و سماجی مقاصد کی تکمیل میں۔ پاپ اور راک کے نام پر بے ہنگم موسیقی، کلب اور پب کی بے ہودہ روایات، عریاں آرٹ اور فحش لٹریچرجیسے ان سب مظاہر تہذیب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس تہذیب کا کوئی مقصد نہیں ہے۔

 اسلام فرد کو بھی اور سماج کو بھی ایک مقصد اور آدرش دیتا ہے۔ خدا کی بندگی اور خدا کے خلیفہ کی حیثیت سے انسانی زندگی کو ظاہری و معنوی اعتبار سے بہتر بنانا اور خلق خدا کی خدمت کرنا، انسان کا مقصد ہے۔ چناں چہ اسلامی تہذیب کا ہر عنصراس مقصد کے تحت ہوتا ہے۔ ٹکنالوجی ہوگی تو ایسی ٹکنالوجی ہوگی جس سے انسانوں کے حقیقی مسائل حل ہوں۔ ادب اور فنون لطیفہ ہوں گے تو ان کے ذریعے انسانوں کے مسائل اور اسلام کی ابدی قدروں کی ترجمانی ہوگی۔سیاست و معیشت بھی انھی مقاصد کے تابع ہوگی۔

 ہر فضول اور بے کار چیز (لغو)سے اسلامی مذاق نا گواری محسوس کرتا ہے۔چوسر اور معمہ بازی کے کھیل اسی لیے ممنوع ہیں کہ ان سے کوئی ذہنی یا جسمانی ورزش یا کوئی اور مفیدمقصد حاصل نہیں ہوتا۔اسلامی تہذیب نہ بے مقصد تفریحات کو وجود میں لاتی ہے نہ وقت گزاری کی ٹکنالوجیوں کو۔ نہ اس کے جلو میں پروان چڑھنے والی شاعری فضول ہوسکتی ہے اور نہ آرٹ اور پینٹنگ۔ ہر چیز ایک اونچے مقصد کے تابع ہوتی ہے۔

تیسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ تہذیب ایک ذمہ دار(responsible) تہذیب ہوتی ہے۔ خلافت کا تصور، امانت کا تصور اورخدا کو جواب دینے کا تصور انسان کو غیر ذمہ دار رویوں سے دور رکھتا ہے۔قرآن میں مومنوں کی صفت بتاتے ہوئے کہا گیا ہے: وَالَّذِینَ هُمْ لِأَمَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ (جو اپنی امانتوں کی حفاظت اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں۔) جدید مغربی تہذیب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک نہایت غیر ذمہ دار تہذیب ہے۔ اسی غیر ذمہ داری کی وجہ سے انھوں نے ایسے معاشرتی اور اخلاقی رویے اختیار کیے جن سے خاندان کا ادارہ تباہ ہوگیا۔ ایسی ٹکنالوجی اختیار کی جس سے خطرناک ہتھیار وجود میں آئے اور بنی نوع انسان کا وجود خطرے میں پڑگیا۔ وسائل کی ایسی لوٹ مچائی کہ فضا اور پانی زہر آلود ہو گئے اور اگلی نسلوں کی بقا پر سوالیہ نشا ن کھڑا ہوگیا۔اسلامی تہذیب انسان کواور انسانی اداروں کو ذمہ دار بناتی ہے۔ ایک مسلمان دریا کے کنارے بھی وضو کرتے ہوئے پانی کا اسراف نہیں کرتا۔جنگ کی حالت میں دشمن کے معاملہ میں بھی اصول شکنی نہیں کرتا۔وَلَا یجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا  (کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ۔) اُ ن راستوں سے بھی اپنے دامن کو بچاکر رکھتا ہے جو بدکاری کی طرف اور اس کے نتیجہ میں خاندان کے ادارہ کی تباہی کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں۔ وَلا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ (اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ۔ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی) قرآن نے لہو الحدیث سے منع کیا ہے۔ہر ایسی غیر سنجیدہ لیکن دل فریب تفریح جو انسان کو زندگی کے سنجیدہ مسائل سے غافل اور بے پروا کردیتی ہے، اسلام کے نزدیک سخت ناپسندیدہ ہے۔اس لیے اسلامی تہذیب میں ایک انجنیئر، ایک ادیب، ایک آرٹسٹ اور ایک فن کار ہر ایک اپنے فن کے استعمال میں محتاط اور ذمہ دار ہوتا ہےاور اپنے فن کا کوئی ایسا استعمال نہیں کرتا جس سے انسانوں کی جان، مال، عزت و آبرو یا اخلاق اور دین کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

 چوتھی اور بڑی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کچھ دائمی قدروں (permanent values)پر مبنی ہے۔ وہ اخلاقی اصول جو قرآن وسنت سے ثابت ہیں، دائمی اصول ہیں۔ مغربی تہذیب کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی دائمی قدریں نہیں۔ لباس کی طرح اخلاقی اصول بھی ضرورت کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔ اسلام نے نہ صرف اخلاقی قدروں کو دوام بخشا ہے بلکہ کچھ قوانین اور ضوابط بھی اسلام کے یہاں دائمی ہیں۔ اسلامی تہذیب میں سود کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ ہم جنسی کے لیے کوئی رواداری نہیں۔یہ تہذیب حیا کا ایک مستقل تصور رکھتی ہے اور اس تصور پر کسی مصالحت کے لیے تیار نہیں۔اسی طرح غریبوں کی کفالت اور ان کے حق زندگی کا نیز ایک فلاحی ریاست کا اس کا اپنا تصور ہے اور یہ تصورات بھی دائمی ہیں۔یہ دائمی تصورات قرآن و حدیث میں با قاعدہ تحریری صورت میں موجود ہیں۔ جس طرح کسی ملک کا دستور ملک کے معاملات پر کنٹرول رکھتا ہے، اسلام کی یہ دائمی قدریں (permanent values)پوری تہذیب کو کنٹرول میں رکھتی ہیں۔

 ان پائیدار اور دائمی قدروں کی وجہ سے اسلامی تہذیب کو بہت مستحکم بنیادیں میسر ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ افراد کی ناپاک نفسانی خواہشات اور لذت پرستی یا گروہوں کے گندے عزائم اس تہذیب میں کبھی کوئی جواز حاصل کرسکیں۔

اس کے بالمقابل پانچویں خصوصیت لچک اور اچھی باتوں کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے۔ دائمی قدروں کے دائرےکے اندر وہ نئے تجربات اور دیگر قوموں کی اچھی باتوں کے قبول و انجذاب کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ جن قوموں کے پاس دائمی (permanent) اور تغیر پذیر(variable) قدروں کا امتیاز نہیں ہوتا، انھیں نئی چیزوں کو قبول کرنے میں تأمّل ہوتا ہے۔ اپنی تہذیبی شناخت کھونے کا اندیشہ رہتاہے۔اسلامی تہذیب کی شناخت اپنی دائمی قدروں اور اصولوں کے ساتھ وابستہ ہے۔اور یہ فرق اسلام میں بہت واضح ہے کہ کون سی چیزیں بدل سکتی ہیں اور کون سی چیزیں نہیں بدل سکتیں۔اور کیا قبول کیا جاسکتا ہے اور کیا قبول نہیں کیا جاسکتا۔اس لیے ایک مسلمان اپنے عقیدے اور اصولوں کے دائرے میں ہر اچھی بات کو اپنی متاع گم گشتہ سمجھتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔

 چناں چہ اسلامی دنیا نے کبھی خواتین کے عریاں لباس کو قبول نہیں کیا کہ یہ اس کے اصولوں سے متصادم ہے۔ انڈونیشیا سے یورپ و امریکہ تک آج مسلمان خواتین کے درجنوں قسم کے باحجاب اسلامی لباس موجود ہیں۔ (جب کہ مغربی تہذیب ساری دنیا کو اسکرٹ اور کوٹ ٹائی پہنادیتی ہے)اور اکثر جگہ لبا سوں کی یہ تراش خراش مقامی تہذیبوں سے لی گئی ہے اور اس میں اسلامی اصولوں کے مطابق ضروری ترمیمات کرلی گئی ہیں۔ جب یونانی فلسفہ مسلمانوں میں رائج کرنے کی کوشش کی گئی تو اسلامی تہذیب کے حسّاس مزاج نے اسے قبول نہیں کیا کہ یہ اس کے اصولوں سے متصادم تھا۔ لیکن ہندو پنڈتوں سے عربوں نے ریاضی کا علم سیکھا اور اعداد کے ہندی علم کو پوری دنیا میں عام کیا کہ نافع علم او ر حکمت کی بات مومن کی متاع ہے۔ اسلامی تہذیب چوں کہ کسی مخصوص قوم یا جغرافیائی خطہ کی تہذیب نہیں ہے، اس لیے اچھی باتوں کو قبول کرنے اور جذب کرنے میں وہ بڑی روادار ہے۔

پھر یہ تہذیب عالمگیر اخوت اور انسانی مساوات کے اٹل اصولوں پر قائم ہے۔ اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ سارے انسان خدا کے پیدا کردہ ہیں اور ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں ہے۔اسلامی تہذیب نہ صرف رنگ، نسل، ذات، پات کے فرق کو ختم کرتی ہے بلکہ قومیتوں کی بنیاد پر تفاخر اور اونچ نیچ کے جذبات کو بھی ختم کردیتی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر پروٹوکول کی اور اسٹیٹس کی تفریق کو بھی بے اثر کردیتی ہے۔

 ایک بڑی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی تہذیب کی اہم بنیاد حیا کا احساس ہے۔ إِنَّ لِكُلِّ دِینٍ خُلُقًا وَخُلُقُ الإِسْلاَمِ الْحَیاءُ ‏ (ہر دین کا ایک امتیاز اور ایک کیرکٹر ہوتا ہے اور اسلام کا کیرکٹر حیا ہے۔) رسول اللہ ﷺ نے حیا کو خیر کل قرار دیا ہے۔ایک بندہ مومن، صرف سماج اور دوسرے انسانوں سے ہی نہیں اپنے آپ سے بھی حیاکرتا ہے۔اپنے خدا سے بھی حیاکرتا ہے۔یہ فطری حیا، لباس، انسانوں کے باہمی تعلقات،پرائیویسی وغیرہ سے متعلق دسیوں معاملات میں ایک بالکل مختلف اور پاکیزہ طرز زندگی کو جنم دیتی ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اخلاق و معاشرت سے متعلق کئی امور میں ایک خاص طرح کے رویے کو جنم دیتی ہے جو اسلام کی امتیازی خصوصیت ہے۔

چوں کہ اس تہذیب کا مقصد ہی اللہ کی خلافت ہے، اس لیے تکریم آدمیت اس تہذیب کی ایک اہم قدر ہے اور فلاح انسانیت اس کا ایک اہم مقصد۔ ایک انسان کی جان کا اتلاف اس کے نزدیک پوری انسانیت کا اتلاف ہے۔ وہ رحم مادر میں جنین کے قتل کو بھی انتہائی گھناونا اور شدید قابل نفرت جرم سمجھتی ہے۔ کسی انسان کا بھوکا سوجانا اس کے نزدیک پوری بستی کو مجرم بنادیتا ہے۔ اس لیے کہ بھوک اور فاقہ انسانیت کی توہین ہے۔ غریب پروری اور انسان دوستی اس تہذیب کے بنیادی اجزا ہیں۔ چناں چہ یہ تہذیب ایسے سخی پیدا کرتی ہے جو اپنا سب کچھ لٹاکر خوش ہوتے ہیں۔ ایسے ماہرین علم و فن پیدا کرتی ہے جن کی صلاحیتیں انسانیت کے دکھ درد کو دور کرنے کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ ایسے ادیب اور فن کار پیدا کرتی ہے جن کا فن محض تفریح طبع کا ذریعہ نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے حقیقی مسائل کا ترجمان ہوتا ہے۔

دوستو،یہ چند خصوصیات میں نے گنائی ہیں۔ اسلام کے روشن دور میں ان سب خصوصیات کی حامل ایک پاکیزہ تہذیب دنیا کے افق پر نمودار بھی ہوئی اور دنیا کی مختلف تہذیبوں کو متاثر بھی کیا۔ ہمارے ملک کی تہذیب پر بھی اس نے بہت سے اچھے اثرات ڈالے۔ لیکن آج ایک طرف تو اس تہذیب کی روشنی خود مسلم معاشرے میں دھند لاگئی ہے اور دوسری طرف دنیا کے پیچیدہ مسائل اس تہذیب کے احیا کا فوری تقاضا کرتے ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلم معاشرے میں اس تہذیب کو زندہ کیا جائے اور باقی دنیا کے ساتھ اس تہذیب کا موثر انگیجمینٹ ہو۔ اس کے لیے ہمارے نوجوانوں کو چند باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اس کے لیے پہلی ضرورت تو یہ ہے کہ مسلم معاشرے میں اس تہذیب کو اس کی تمام وسعتوں اور اس کے حسن و جمال کی تمام ضیا پاشیوں کے ساتھ زندہ کیا جائے۔ اکیسویں صدی کے سماج میں اس تہذیب کے عملی اور تمدنی مظاہر کیا ہوسکتے ہیں، ان پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔ اس محاذ پر سب سے بڑا کام علمی محاذ کا کام ہے۔موجودہ مادہ پرست تمدن، سرمایہ پرست تمدن اورہوس پرست تمدن کی جگہ اسلامی تمدن کے مظاہر کیا ہوں؟ میں ہمیشہ کہتا رہا ہوں کہ ہم اپنے بچوں اور نوجوانوں کو خواب دیکھنے کا عادی بنائیں۔ موجودہ صورتِ حال پر بے چینی و اضطراب اور ایک متبادل تمدن کا خواب۔ آپ سوچیں کہ اکیسویں صدی میں ایک مومن کے خوابوں کی دنیا کیسی ہوسکتی ہے۔ شہر کیسے ہوں گے؟ عمارتوں کا طرز کیا ہوگا؟ کالجوں میں کیا پڑھایا جائے گا؟ ٹکنالوجی کیسی ہوگی؟بہترین دماغ کس محاذ پر لگیں گے؟ ایک فرد کے لیے خوشحال زندگی کا راستہ کیا ہو؟ خاندان اور جنسی رویوں کو کن قدروں کا پابند ہونا چاہیے؟ میڈیا اور سوشل میڈیا کی اخلاقیات کیا ہوں ؟ جدید ترین ٹکنالوجی کے حوالے سے اسلامی موقف کیا ہو؟ انسانوں کی نگرانی اور ان کے حق انتخاب نیز ان کے ضمیر اور ان کی رائے پر ٹکنالوجی کے کنٹرول کے سلسلے میں اقدارکیا ہوں؟ ٹکنالوجی کے موجودہ دور میں شہری تنظیم کے اصول کیا ہوں ؟ عصری مالیاتی طریقوں کے سلسلے میں اسلامی اپروچ کیا ہو؟ فنون لطیفہ اور تفریحات کا اسلامی پیرا ڈائم کیا ہو؟ اسلامی تہذیب کی جو خصوصیات میں نے بیان کی ہیں، جو ساری انسانیت کے لیے نجات کا ذریعہ بن سکتی ہیں، ان کو سامنے رکھ کر ان سب سوالات پر تخلیقی طریقوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

تمدن کی تعمیر میں اینٹ اور گارےکی حیثیت تخیلات (ideas)کی ہوتی ہے۔ دورِ جدید کی ساری رنگا رنگی وہی ہے جس کا آج سے دو ڈھائی سو سال پہلے مغربی دنیا کے افسانہ نگاروں نے خواب دیکھا تھا۔ جولز ورن (Jules Verne) نے ۱۸۷۶میں چاند کے سفر کا تخیل پیش کیا تھا۔ آرتھر کلارک نے ۱۹۴۵ءمیں کمیونی کیشن سٹیلائٹ، رابرٹ ہیلین نے سیل فون ای ایم فاسٹر نے ٹیلی ویژن، ایم آر آئی مشین وغیرہ (The Machine Stops -1909) اور جیورج آرویل نے انٹرنیٹ کے تخیلات اپنے ناولوں میں پیش کردیے تھے۔ ہگسلے(Aldous Huxley) کا ناول The Brave New World (1931تو شاہ کار ناول ہے جس نے ہمارے عہد کی پوری تصویر نوے سال قبل کھینچ دی تھی۔

اس کے مقابلے میں اسلامی تمدن کے متبادل تخیلات کہاں ہیں؟ تحریکات ِ اسلامی کے اولین نظریہ سازوں نے ہمیں ایک نئے تمدن کی تعمیر کا وژن دیا تھا۔ مولانا مودودی طلبہ کو “مقلدوں کا سا نہیں” بلکہ “مجتہدوں کا سا”کمال پیدا کرنے کے لیے کہتے تھے۔ سائنس، معاشیات اور سماجیات میں اجتہادی کمال کا کیا مطلب ہے؟ یہی کہ ہم فکرو نظر کا دھارا بدل دیں۔ جزوی تبدیلیاں نہیں، علوم وفنون کی اساسیات کو نیا رخ دیں(paradigm change)۔موجود ٹکنالوجیوں میں ترقی نہیں، نئی ٹکنالوجیوں اور علوم کے نئے شعبوں (disciplines of knowledge) کے بانی بنیں۔ ہمارے درمیان بھی ہگسلے، ہینلین اور آرتھرکی طرح اہل تخیل پیدا ہوں اور اسلامی دنیا کی تصویر دکھائیں۔ 

ہمیں ایسا تہذیبی بیانیہ درکار ہے جو عصر حاضر کی سوچ اور رائج طریقوں پر نقد کرے اور وہیں نئے رجحانات اور طریقوں کی ایجاد و اختراع کا ذریعہ بنے، یعنی صرف رد عمل پر مبنی (reactive)نہ ہو بلکہ اقدامی( proactive) بھی ہو۔ اس سلسلے میں سب سے اہم مثال اسلامی معاشیات کی دی جاسکتی ہے۔ اسلامی معاشیات، اسلام کے انسان دوست اصولوں اور قدروں کو روبہ کار لانے کا ایک موثر ذریعہ بن سکتا تھا۔ آج سے نصف صدی پہلے آپ کے شہر علی گڑھ میں،اسلامی معاشیات کا جو خواب دیکھا گیا تھا وہ بڑی تمدنی تبدیلی کا خواب تھا۔ لیکن اب اسلامی معاشیات دھیرے دھیرے اسلامی مالیات تک محدود ہوگئی اور اسلامی مالیات بھی اسلام کے معاشی مقاصد کے حصول کا انقلابی ذریعہ بننے کے بجائے، جدید سرمایہ دارانہ معیشت ہی کے آلات و وسائل میں فقہی حیلوں کے سہارے پیوند کاری تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اس وقت جو تہذیبی چیلنج درکار ہے وہ اعلیٰ درجہ کی تخلیقی اور اجتہادی سوچ کا تقاضا کرتا ہے۔

جن لوگوں نے علامہ اقبال کو گہرائی کے ساتھ پڑھا ہے انھیں ان کے اشعار میں قدم قدم پر اس وژن کی جھلک ملتی ہے۔

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

اٹھا نہ شیشہ گر ان فرنگ کے احساں

سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر

جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا

خودی میں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے

اس آبجو سے کیے بحر بیکراں پیدا

خودی کی موت سے مشرق کی سرزمینوں میں

ہوا نہ کوئی خدائی کا راز داں پیدا

دیکھے تو زمانہ کو اگر اپنی نظر سے

افکار منور ہوں ترے نور سحر سے

 اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی

کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی

بدقسمتی یہ ہے کہ سارے دعووں کے باوجود ابھی تک ہم اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی ہی میں مصروف ہیں۔ ہمارے عہد ساز بزرگوں نے ہمیں فکر کی بنیادیں ضرور دیں لیکن ان بنیادوں پر بھی آئیڈیاز کی تشکیل کا کام ابھی بھی باقی ہے۔

ان سوالوں پر سنجیدگی سے غور کی ضرورت ہے۔ یہ اور اس طرح کے متعدد سوالات نہایت عمیق غور و فکر کے متقاضی ہیں۔بڑی سخت ذہنی ریاضت اور علمی پتہ ماری کے بعد ہی ہم قابلِ عمل اسلامی متبادلات تشکیل دینے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ یہ کام خاص طور پر ہمارے ذہین وفطین نوجوانوں کی توجہ کا طالب ہے۔ اس کے لیے ہمارے نوجوانوں کا ذہن زندگی کے مقاصد کے بارے میں واضح رہنا چاہیے۔ ان کا مطالعہ وسیع ہونا چاہیے۔ جدید لٹریچر کے ساتھ ان کا رشتہ اسلامی علم و حکمت کے قدیم سرچشموں سے بھی بہت گہرا ہونا چاہیے۔ دنیا میں جو متبادل طرزہائے فکر پائے جاتے ہیں ان پر اچھی نظر ہونی چاہیے۔

بے شک ہم اچھی باتیں جہاں پائیں گے انھیں ضرور قبول کریں گے۔ الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَحَیثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا (حکمت مومن کی متاع ہے، وہ اسے جہاں مل جائے، وہی اس کا زیادہ حق دار ہے) دوسری تہذیبوں کے جائز عناصر سے استفادہ کرتے ہوئے یہ بات ہم ہرگز نہیں بھولیں گے کہ ہر تہذیب اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اختراع و ایجاد کی ضرورت مند ہوتی ہے۔ کسی بھی تہذیب کا محل صرف مانگے کے دیوں سے روشن نہیں ہوسکتا۔ اسلام کے تہذیبی مقاصد اس کے اپنے تہذیبی ذرائع چاہتے ہیں۔ اور ان ذرائع کی کھوج، ذہانت، اپج اور اختراعی صلاحیتوں کا مطالبہ کرتی ہے۔

آج امت میں ہر میدان کے ایسے ماہرین کی کوئی کمی نہیں ہے جو بنی بنائی لکیریں پیٹ رہے ہیں۔ جس شیطانی تہذیب پر وہ صبح شام لعنت بھیجتے ہیں اسی کے بنائے ہوئے معیارات اور طریقوں کے مطابق اندھا دھند اپنے اپنے پیشوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی کو کام یابی سمجھ رہے ہیں اور انھیں اس کا شعور ہی نہیں ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے ان کا اصل فرض ایک نئی اسلامی تہذیب کی بنیادیں کھڑی کرنا ہے۔ ہمارے پاس ایسے نوجوانوں کی بھی کمی نہیں ہے جو تھوڑا سا پڑھ لکھ کر اپنا راستہ کھودیتے ہیں کبھی دائیں بازو کے مصنفین کی کتابیں انھیں اپیل کرتی ہیں تو کبھی بائیں بازو کی۔اسلامی جذبہ زور مارتا ہے تو انھی باتوں کو عین اسلام کہنے لگتے ہیں۔

اسلامی تہذیب کو ضرورت ایسے نوجوانوں کی ہے جو صحیح معنوں میں غزالی،ابن تیمیہ اورسید مودودی کے وارث ہوں۔ جن کا ذہن حاضر و موجود سے پرے سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جو اپنے عہدکے اثرات اور اس کی شبیہوں (Images) سے آزاد ہوکر ایک نئے عہد کے تانے بانے اپنے ذہن میں بننے کی لیاقت رکھتے ہوں۔جو انجینیر ہوں تو ایک نئی ٹکنالوجی کا وژن رکھتے ہوں، ڈاکٹر ہوں تو ایک نئے نظام صحت کے خواب ان کی آنکھوں میں مچلتے ہوں اورطالب علم یا معلم ہوں تو ان کی آنکھیں ایک نیا تعلیمی منظر نامہ دیکھتی ہوں۔

پیرانِ کلیسا ہوں کہ شیخانِ حرم ہوں

نے جدتِ گفتار ہے نے جدتِ کردار

دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت

ہو جس کی نگہ زلزلہ ِ عالمِ افکار

مشمولہ: شمارہ جون 2023

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau