دعوت الی اللہ اور مذہبی خود اختیاری

(ہندوستانی سماج کے تناظر میں )

پہلی قسط

دعوت الی اللہ بنیادی طور پر انسانی عقل و جذبات کو رب کائنات سے آشنا کرنے اور اس کی کبریائی پر غور و فکر کرنے کی طرف متوجہ کرنے کا عمل ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دعوت ایک جاری و ساری عمل ہے۔ انسان کے ارد گرد پھیلی ہوئی کائنات دعوت غور و فکر دے رہی ہے کہ اس کا ایک ہی خالق، مالک اور رب ہے۔ کائنات ہر آن انسانوں کے سامنے فطری دلیل کے ساتھ دعوت الی اللہ کے عمل میں مصروف ہے۔ چناں چہ خود خالق کائنات نے انسان کو اپنے وجود اور اس وسیع و عریض کائنات میں غور و فکر کرنے کی طرف بار بار متوجہ کیا تاکہ وہ اپنے رب کی عظمت و قدرت کے احساس سے سرشار ہو۔ رب کائنات نے فرمایا:

‘‘آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، دن اور رات کے آنے جانے میں اہل دانش کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو لوگ اٹھتے بیٹھتے اور اپنے پہلوؤں کے بل اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں، نیز آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہوئے (پکار اٹھتے ہیں) ہمارے پروردگار! یہ تو نے فضول پیدا نہیں کیا، تو ہر عیب سے پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔”(آل عمران: ۱۹۰-۱۹۱)

ہر فرد فطری طور پر عقل و شعور اور آزادئ ارادہ (Freewill) کا حامل ہے اس لیے اسے خود ہی فیصلہ کرنا ہے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے انبیائے کرام کے ذریعے ہدایت و رہ نمائی کا سلسلہ انسان کی فطری طلب کو پورا کرتا ہے لیکن اسے اپنی عقل اور ارادے سے اس ہدایت کو قبول کرنے یا نہ کرنے کی آزادی بھی ہے۔ غلط فیصلے کے غلط نتائج سے ہر شخص آگاہ ہے۔ فکر و عقیدہ اور طرز زندگی کے انتخاب کی آزادی خود اللہ تعالی کی عطا کردہ ہے۔ یہ اس کا فطری اور پیدائشی حق ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کے اندر فطری طور پر خیر اور شر دونوں کی صلاحیت ودیعت کی ہے۔ اسی کے ساتھ انسان کو غور و فکر سے کام لینے کی صلاحیت بھی بخشی گئی ہے۔ یہ تینوں اوصاف انسان کو اخلاقی طور پر ایک جواب دہ مخلوق کا اعلی ترین مقام عطا کرتے ہیں۔ جواب دہی کس حیثیت سے؟ خود اختیاری کے ساتھ اللہ کا بندہ اور خلیفہ ہونے کی حیثیت سے۔ اللہ کی بندگی کوئی جبری عمل نہیں ہے جسے مادی لالچ یا بزور قوت منوایا جائے۔ ہدایت الہی سے واقف کرانا ایک بات ہے اور ماننا نہ ماننا دوسری بات ہے۔ اس اعتبار سے دعوت نام ہے پیغام پہنچانے کے عمل کا، نہ کہ اسے کسی بھی طرح منوالینے کی تدبیر کا۔

دعوت الی اللہ اور انبیائے کرام

دعوت کی کامل و اکمل صورت تو انبیائی دعوت ہے۔ اس دعوتی عمل میں دین کو اس دعوے کے ساتھ پیش کیا گیا کہ کامل صداقت یہی ہے (إِنَّ الدِّینَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ)۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ راستہ ہے، یہ وہ طریق زندگی ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق ہے۔ اس دین کے علاوہ جن دوسرے طریقوں کو لوگوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ بے آمیز صداقت نہیں ہیں۔ ان میں بہت کچھ باطل افکار و عقائد، غلط طور طریقے، رسوم و رواج کی غیر ضروری بندشیں اور غیر عادلانہ قوانین و ضابطے انسانوں نے اپنی جہالت و ظلمت کی وجہ سے داخل کردی ہیں۔ انسانی خواہشات کی آلودگی سے پاک ہدایت وہ تھی جسے مختلف ادوار میں رسول پیش کرتے رہے۔ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ کی ہدایت پیش کردی گئی اور اسے قیامت تک کے لیے قرآن مجید کی صورت میں محفوظ کر دیا گیا اور رسول اکرم نے اسے عملاً برت کر بطور اسوۂ زندگی امت کے سامنے پیش کر دیا۔

اس دعوت کا دوسرا بنیادی عنصر رسول کا دعوائے صداقت ہے۔ اللہ کے رسول اپنی اس حیثیت کو علانیہ طور پر اپنی قوم کے سامنے ٹھیک اسی طرح پیش کرتے ہیں جس کا حکم اللہ نے دیا ہے (إِنِّی لَكُمْ رَسُولٌ أَمِینٌ)۔

تیسری اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنے غور و فکر کے نتیجے میں اور اپنے ذاتی فیصلے کے تحت دعوت کے لیے اٹھ کھڑے نہیں ہوتے بلکہ اللہ تعالی انھیں خود منتخب کرتا ہے (اللَّهُ یصْطَفِی مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِیعٌ بَصِیر۔ الحج: ۷۵)۔ وہ اللہ کے حکم سے اپنی قوم کے سامنے رب کائنات کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں(قُمْ فَأَنْذِرْ. وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ.  المدثر)۔

نکتہ چہارم یہ ہے کہ خدا کے رسول راست طور پر بندگئ رب اور اپنی اطاعت کی طرف قوم کو بلاتے ہیں (فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِیعُونِ۔الشعراء)۔ اس دعوتی عمل کا بنیادی عنصر رسول کا شخصی کردار ہوتا ہے۔ وہ بہترین اوصاف کا مالک ہوتا ہے۔ وہ صادق و امین ہوتا ہے۔ وہ جس بات کی طرف بلاتا ہے اس کی شخصیت اس کا نمونۂ کامل ہوتی ہے (وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِیمٍ۔القلم)آپ بیشک اخلاق کے اعلی مقام پر فائز ہیں)۔ لہذا! دعوت کی پشت پر خود رسول کی ذات بھی سراپا دلیل ہوتی ہے۔ اس طرح دعوت اور داعی دونوں حجت بن جاتے ہیں۔

انبیائی دعوت کا ایک بنیادی وصف یہ بھی ہے کہ کار دعوت میں وہ مسلسل اللہ کی نگرانی میں ہوتے ہیں۔ کار دعوت کے دوران معمولی سی کمی پر بھی اللہ تعالی فوراً متوجہ کرتا ہے (عَبَسَ وَتَوَلَّى أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى)۔ اس طرح اس کی ذات ہر خطا و لغزش سے محفوظ و مامون رہتی ہے۔

رسول کی دعوت کا یہ وصف بھی نمایاں ہے کہ دین کے فہم، تعبیر، تشریح، اور اطلاق میں انھیں کوئی مغالطہ، کوئی ابہام لاحق نہیں ہوتا۔ وہ کلی حق پر ہوتے ہیں اور ترجمان حقیقت بن کر اپنی قوم کو واضح پیغام دیتے ہیں — قول سے بھی (وَمَا ینْطِقُ عَنِ الْهَوَى.النجم)، اور عمل سے بھی (وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِینَ.حم السجدة)۔

ان ساری خصوصیات پر مشتمل کار دعوت صرف اللہ کے رسولوں کے لیے مخصوص ہے۔ دعوت کی یہ مخصوص صورت تاریخ کے مختلف ادوار میں اللہ کے منتخب کردہ رسولوں کے تذکروں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض کا تذکرہ تو قرآن مجید میں کردیا گیا ہے۔ لیکن دنیا کے مختلف خطوں میں پائے جانے والے تذکروں اور دیگر مذہبی صحائف میں بھی اس کے آثار پائے جاتے ہیں۔ تاریخی واقعات میں ابہام اور رطب و یابس کی وجہ سے صحیح اور غلط کی تمیز کرنا تو مشکل ہے لیکن ان سے یہ اندازہ تو کیا جا سکتا ہے کہ انبیائی دعوت کا سلسلہ کسی ایک زمانے یا خطے تک محدود نہیں رہا ہے۔

دعوت دین اور متبعین رسول

قرآن مجید میں دعوت الی اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کی پیروی کرنے والوں کا راستہ قرار دیا گیا ہے۔ اللہ کی طرف بلانے کا عمل شعور و بصیرت کے ساتھ ہوتا ہے۔ رسول تو مامور من اللہ ہونے کی وجہ سے کامل بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی شعور و بصیرت کے ساتھ یہ کام کرتے رہے۔ (قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِیرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِینَ۔ یوسف)۔ (اے پیغمبر!) کہہ دیں کہ : ‘‘یہ میرا راستہ ہے۔ میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اﷲ کی طرف بلاتا ہوں، اور جنھوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی۔ اور اﷲ (ہر قسم کے شرک سے) پاک ہے، اورمیں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔’’

دعوت الی اللہ کے حوالے سے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز واضح، راست اور تبشیر و انذار پر مشتمل تھا جو مقام رسالت کے تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ انھوں نے دعوتی سرگرمیوں کا آغاز ہی دعوائے رسالت سے کیا یعنی یہ کہ وہ خود بخود اس کام کے لیے نہیں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں بلکہ اللہ تعالی نے انھیں اس کام پر مامور کیا ہے۔ چناں چہ کار دعوت میں رسول راست خدا کی نگرانی میں اپنی ذمہ داری ادا کرتے رہے اور نصرت خداوندی ہمیشہ ان پر سایہ فگن رہی۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اشاعت اسلام کی سرگرمیوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور تک توسیع حکومت اور اشاعت دین کا عمل ساتھ ساتھ جاری رہا جس میں غیر مسلم آبادی کے سامنے دین بھی پیش کیا گیا اور انھیں آزادی بھی حاصل رہی کہ چاہیں تو ہدایت الہی قبول کرلیں، چاہیں تو اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ جنھوں نے اپنے مذہب پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا انھیں پوری مذہبی آزادی دی گئی۔ ان کے جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کے ساتھ رہنے کی ذمہ داری اسلامی حکومت نے قبول کی۔ حکومت کی اطاعت اور ضمانتی ٹیکس کی ادائیگی غیر مسلم رعایا کی ذمہ داری قرار پائی۔ جب کہ صاحب استطاعت ہونے پر زکوة کی ادائیگی اور بیرونی خطرات کا ازالہ مسلم رعایا کی ذمہ داری قرار دی گئی۔ لیکن اس ضمانتی ٹیکس سے بچوں، بوڑھوں، عورتوں، معذوروں، مذہبی پیشواؤں کو مستثنی قرار دیا گیا اور ان نوجوانوں کو بھی جو از خود ریاست کے دفاع کے لیے اپنی خدمات پیش کریں۔ اس کے علاوہ انھیں بھی اس ٹیکس سے مستثنی قرار دیا گیا جو اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں۔

دور صحابہ کے بعد مسلمانوں کے ذریعے دعوت الی اللہ کا کام شعور و بصیرت کے ساتھ انجام دینے والوں نے حالات و مواقع کے اعتبار سے دعوتی سرگرمیاں انجام دیں اور قرآن کی اس جامع رہ نمائی کو پیش نظر رکھا کہ( ادْعُ إِلَى سَبِیلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِی هِی أَحْسَنُ. النحل: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی تلقین کے ساتھ بلاؤ اور ان سے بھلے انداز میں بحث و گفتگو کرو)۔ اس طرح حالات و مواقع کے لحاظ سے اسلام کی پیغام رسانی کی مختلف النوع کوششیں ہیں جو تاریخ کے مطالعہ سے سامنے آتی ہیں۔ ان کوششوں میں سے ایک کوشش وہ ہے جسے مبلغانہ تلقین و نصیحت کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اشاعت اسلام کی تاریخ میں اس نوعیت کے دعوتی عمل کے بے شمار نمونے نظر آتے ہیں۔ اس طرح کے نمونوں میں عام طور پر بعض علمائے کرام اور اکثر صوفیائے عظام کی کاوشیں نمایاں نظر آتی ہیں۔ مبلغانہ تلقین و نصیحت کے لیے ضروری ہے کہ اخلاق و کردار کے اعتبار سے اس میں شریک افراد کی زندگی قول و فعل کے تضاد سے پاک اور اخلاقی لحاظ سے پرکشش ہو۔ ایسے افراد کا رویہ ان کی واقعی کیفیت کا فطری ترجمان ہو۔ اس میں بناوٹ اور تصنع کی آمیزش نہ ہو۔ ان سب خوبیوں کے باوجود یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ اس دعوتی عمل میں دین کی بنیادی صداقتیں تو یقینی ہوتی ہیں لیکن اس عمل میں شریک افراد کے فہم، تشریح، طریق کار، کردار میں تفاوت بھی ہوگا اور کچھ نہ کچھ کم زوریاں، کمیاں بھی ہوں گی۔ چناں چہ اشاعت اسلام کی ایسی کاوشوں میں نمایاں کردار ادا کرنے والے افراد اپنے احتساب و تزکیہ پر بھی مسلسل توجہ دیتے رہے۔

اشاعت اسلام کا تنوع

خلافت راشدہ کے بعد کے ادوار میں اشاعت اسلام کی سرگرمیوں میں حالات و مواقع کے اعتبار سے بہت زیادہ تنوع پایا جاتا ہے۔ تاہم اس تنوع میں دو بنیادی باتیں مشترک نظر آتی ہیں: اوّل، غیرمسلم آبادی کے ساتھ سماجی، انتظامی یا تجارتی روابط کے دوران توحید، رسالت، آخرت، کتاب الہی وغیرہ بنیادی عقائد، سیرت نبوی اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی وضاحت؛ اور دوم، دعوت دین میں جبر و لالچ سے گریز کا رویہ اور لا اکراہ فی الدین (دین کے معاملہ کوئی جبرجائز نہیں) کی پابندی۔ اشاعت اسلام سے متعلق سرگرمیوں میں تنوع کا اندازہ مختلف علاقوں اور ادوار میں اسلام کی توسیع کے پیچھے کارفرما اسباب و عوامل کے مطالعہ سے ہوتا ہے۔ اشاعت اسلام کی تاریخ میں عام طور پر چھ مظاہر نمایاں نظر آتے ہیں:

(۱) غیر مسلم رعایا کے ساتھ انصاف کا رویہ اور ان کی مذہبی آزادی کا تحفظ

مسلم حکم رانوں کی انتظامی پالیسی کا یہ پہلو بہت نمایاں ہے کہ انھوں نے مفتوحہ علاقوں میں عام طور پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے لیے سرکاری مداخلت نہیں کی اور ذمی رعایا کی جان و مال کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کی مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کو بھی تحفظ فراہم کیا۔ اگر کسی حکمراں نے اس پالیسی سے انحراف کا عندیہ بھی دیا تو علمائے امت نے اسے قبول نہیں کیا۔ ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے آخری اموی حکمراں مروان کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اس نے مصر کے باشندوں کو اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں سخت کارروائی کی دھمکی دی تھی لیکن اشاعت اسلام کی اصل پالیسی پر اس کا کوئی اثر نہ پڑا (The Preaching of Islam (1913), p.8 : T W Arnold) – اصل پالیسی کے بنیادی خد و خال اسوۂ رسول میں موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کے عیسائی قبائل کو مذہبی آزادی اور عبادت گاہوں کے تحفظ کا باضابطہ تحریری حکم نامہ جاری فرمایا تھا۔ آزادئ مذہب سے متعلق اسوۂ رسول کی پیروی ابتدائی ادوار میں جزیرة العرب سے ملحق علاقوں میں اور بعد کے ادوار کی مسلم فتوحات میں دیکھی جا سکتی ہے۔ چناں چہ اموی فتوحات کے بعد ۷۰۰ عیسوی تک ایشیا کی کل آبادی میں مسلم آبادی کا تناسب تقریباً ۴.۳ فیصد تھا جو عباسی دور کے اواخر میں تقریباً ۱۴ فیصد تک پہنچا۔(حوالہ: The World Muslim Population – History & Prospect (2014) : Houssain Kettani)۔ یہی حال دیگر مفتوحہ علاقوں شمالی افریقہ، چین وغیرہ کا بھی رہا کہ مسلم فتوحات کے بعد وہاں کی آبادی کو اپنے مذہب پر قائم رہنے کی آزادی حاصل رہی اور ان کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا گیا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حکومتی مداخلت اور دباؤ کے بجائے دیگر اسباب و عوامل نے قبولیت اسلام کی راہ ہم وار کی۔

(۲) فطری سماجی روابط کے دوران مسلمانوں کے اسلامی طرز عمل، حسن سلوک، اور ان کے طرز معاشرت کی اثر پذیری

اسلام کی ترویج و اشاعت میں عام مسلمانوں کے مقامی آبادی کے ساتھ اچھے سماجی تعلقات، برتاؤ اور عام میل جول کے دوران اسلامی تعلیمات کی پیغام رسانی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ عجمی علاقوں میں زرتشتی مذہب اور مختلف عیسائی فرقوں کے پیروکاروں کے ساتھ مسلمانوں کے خوشگوار سماجی روابط نے بتدریج اسلام کی طرف انھیں مائل کیا۔ مقامی آبادی کے ساتھ اچھے سماجی روابط، اسلامی عقائد و طرز زندگی کی سادگی اور مصلحین و مبلغین کی کوششوں سے مفتوحہ علاقوں میں بتدریج غیر مسلم آبادی مسلم سماج کا حصہ بنتی چلی گئی۔ چناں چہ ۶۹۵ء تا ۷۶۲ء کے دوران شہری آبادی میں مسلمانوں کا تناسب ۱۰% تھا۔ لیکن طویل سماجی رابطے کے نتیجے میں عباسی دور حکومت میں قبولیت اسلام میں تیز رفتار اضافہ ہوا۔ بولیٹ (Bulliet) کے مطابق ۶۹۵ء تک قبولیت اسلام کی رفتار دھیمی رہی۔ لیکن ۶۹۵ سے ۷۶۲ء کے دوران اس میں تیزی آئی یہاں تک کہ ۱۰ فیصد شہری آبادی حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ عباسی دور حکومت میں اس تبدیلئ مذہب میں تیز رفتار اضافہ ہوا۔ چناں چہ ۸۵۰ء تک نصف شہری آبادی نے مذہب اسلام کو اختیار کر لیا۔ اس تیز رفتار تبدیلئ مذہب کے حوالے سے تاریخ کو جانچنے کا ایک طریق کار یہ ہے کہ ساتویں صدی کے اواخر تک شام کے عیسائی علما کے نزدیک ارتداد ایک اہم مذہبی معاملہ رہا۔ لیکن آٹھویں صدی کے نصف تک تبدیلئ مذہب کی رفتار بتدریج تیز ہوتی چلی گئی اور ارتداد کی بحثیں ماند پڑتی چلی گئیں۔ عراق، شام اور مصر کے قلعہ بند شہروں میں بڑی تعداد میں لوگوں نے از خود اسلام کو اپنا مذہب بنایا۔ تاہم قلعہ بند شہروں سے باہر کے علاقوں کے عوام اپنے آبائی مذاہب کے پیروکار رہے۔ (حوالہ: A History of Islamic Societies (3rd Ed), p.135 – I. M. Lapidus)

(۳) دور دراز علاقوں میں تجارتی تعلقات کے دوران امانت داری اور اسلام کی عملی اور قولی گواہی

تجارتی روابط نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تجارتی روابط نے مقامی آبادی کے ساتھ کئی طرح کے فطری تعلقات کو مستحکم کیا اور مسلم تاجروں کے عقیدہ اور طرز زندگی کو قریب سے سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے نتیجے میں غیر مسلم مقامی آبادی اسلام سے مانوس ہوتی چلی گئی۔ ہندوستان کے ساحلی علاقوں اور جنوب مشرقی ایشیا جاوا، سماترا، ملایا، انڈونیشیا وغیرہ جزائر اور چین میں اشاعت اسلام کا سب سے مؤثر عامل یہی رہا ہے۔ مالابار اور سری لنکا کے ساتھ عربوں کے تجارتی تعلقات کی تاریخ قبل از مسیح سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن اسلام کی آمد کے بعد ساتویں صدی سے مسلمان عرب تاجروں اور ہندوستان کے ساحلی علاقوں کے مسلم تاجروں اور شافعی المسلک شیوخ نے جزائر ملایا تک تجارتی رسائی حاصل کر لی تھی جو آنے والی صدیوں میں مستحکم ہوتی چلی گئی اور جنوب مشرقی ایشیا کے مختلف جزائر میں ان کی تجارتی بستیاں قائم ہو گئیں۔ اسی طرح چین سے بھی تجارتی اور سفارتی تعلقات کی ابتدا اسلام کے اولین دور میں ہو گئی تھی۔ مقامی آبادی کے ساتھ شادی بیاہ اور سماجی تعلق کے دوران ان تاجروں اور مسلم شیوخ نے اسلام کی اشاعت کا کام بھی تندہی سے انجام دیا۔ جاوا، سماترا، ملایا جزائر سے فلپائین تک مسلم حکم رانوں کی آمد کے بغیر ہی ساتویں صدی سے سولہویں صدی کے دوران مقامی ہندو آبادی اور دیگر بت پرست قبائل میں اسلام تیزی سے پھیلتا چلا گیا اور بیرونی مسلم حکم رانی کے بجائے مقامی حکم رانوں نے اسلام قبول کرکے اسلام کے فروغ کو تقویت بخشی۔ (The Preaching of Islam, p.363-407)۔

(۴) غیر مسلم آبادی خاص طور پر عیسائیوں کے متفرق فرقوں کے داخلی مذہبی مناقشات و تنازعات سے عوام کی بے زاری

مصر اور شمالی افریقہ میں عیسائیت کے داخلی مذہبی مناظروں نے بھی قبولیت اسلام کی طرف عیسائی آبادی کو مائل کیا۔ مصر کی یعقوبی عیسائی آبادی نے مسلم عرب حکم رانوں کا ساتھ تو دیا لیکن قبول اسلام میں توقف کیا۔ اس زمانے میں عیسائیت کے داخلی مذہبی مناظروں کی وجہ سے یعقوبی عیسائی آبادی میں مذہبی بے اطمینانی پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے بدلتے حالات میں اسلام کا اثر و نفوذ بتدریج ان میں بڑھتا چلا گیا۔ (حوالہ: Lapidus)۔ اسی طرح شمالی افریقہ کے مختلف خطوں میں مقامی عیسائی آبادی کے اندرونی مذہبی مناظروں نے انھیں عیسائیت سے بد دل اور اسلام کی سادہ تعلیمات کی طرف مائل کیا اور لوگ بڑی تعداد میں مشرف بہ اسلام ہوتے چلے گئے۔ مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کو عیسائی بنانے کے لیے عیسائی حکم رانوں نے مسلم مردوں کے جبری بپتسمہ کا طریقہ اختیار کیا اور مساجد و دیگر اسلامی شعائر پر پابندی لگا دی۔ تاہم عورتیں اس پابندی سے مستثنی قرار دی گئی تھیں۔ ان مسلم عورتوں میں سے جن کی شادیاں شاہی گھرانوں میں ہوئیں انھوں نے اشاعت اسلام میں نمایاں کردار ادا کیا (Lapidus)۔ بعد کے ادوار میں بھی مشرقی افریقہ کے وہ لوگ جو ریلوے کی تعمیرات اور کاشتکاری کے لیے چھ ماہ سے زائد عرصہ تک اپنے علاقوں سے باہر لے جائے گئے انھوں نے مسلم عورتوں سے عارضی شادی (متعہ) کا طریقہ اختیار کیا۔ لیکن مسلم عورتوں کی شرط کے مطابق انھیں ختنہ کرانا لازم تھا۔ اس طرح علامتی طور پر اسلامی شعار اپنا کر جن لوگوں نے شادیاں کیں بعد میں وہ حلقہ بگوش اسلام ہوتے چلے گئے اور اپنے قبائل میں واپس جا کر انھوں نے اپنے قبیلے کو مشرف بہ اسلام کیا۔ افریقہ کے علاوہ منگول، تاتاری اور ترک قبائل میں بھی اسلام کے اثر و نفوذ میں مسلم عورتوں کا کردار نمایاں نظر آتاہے (The Preaching of Islam, p. 410)۔

(۵) ضمانتی ٹیکس سے استثنا، حکومتی عہدوں کا حصول اور سماجی برابری کی کشش

قبولیت اسلام میں ان عوامل کا کردار یوں تو مسلم حکم رانی کے ابتدائی دور سے ہی نظر آتا ہے۔ لیکن خاص طور پر عباسی دور حکومت میں ایرانی زعما کے قبول اسلام میں ان عوامل کو صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ چناں چہ زرتشتی آبادی کے اسلام میں داخل ہونے کے واقعات تو ۶۶۶ء تک نمایاں طور پر سامنے آنے لگے تھے۔ لیکن ۷۲۰ء کی دہائی میں سمرقندی آبادی عوامی پیمانے پر حلقہ بگوش اسلام ہو گئی۔ اس عوامی تبدیلئ مذہب کے پیچھے ممکنہ طور پر سماجی مساوات اور ضمانتی ٹیکس سے استثنا کا عمل دخل رہا ہے۔ ۷۲۳ سے ۷۳۸ء کے درمیان صرف مرو میں ۳۰ ہزار لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ (حوالہ: Lapidus)۔

(۶) مسلم علما اور صوفیاکی مبلغانہ سرگرمیاں

مسلم حکم رانوں نے غیر مسلم آبادی کے درمیان اشاعت اسلام کے لیے سرکاری سطح پر مشنری طرز کی سرگرمیوں سے گریز کیا۔ مقامی آبادی کو اپنے مذہب پر چلنے اور مسلمانوں کی طرح اپنے مذہبی اور دنیوی امور کو انجام دینے کی پوری آزادی دی۔ (حوالہ: اشاعت اسلام- حبیب الرحمان، ص-۳)۔ عیسائی مشنری کے منظم مذہبی ڈھانچے کے برخلاف، اسلام کی ترویج و اشاعت میں حکمراں، علما اور عام مسلمان انفرادی حیثیت میں شریک رہے۔ تاہم عیسائی مشنری سے کسی قدر مشابہ سرگرمیاں مختلف صوفیانہ سلسلوں میں پائی جاتی ہیں لیکن وہ بھی کسی مرکزی مذہبی نظام کے طور پر نہیں بلکہ انفرادی طور پر۔ صوفیائے کرام کے مختلف سلسلے اپنے ارادتمندوں کے ذریعے دنیا کے مختلف علاقوں میں اسلام کی مبلغانہ سرگرمیوں میں مصروف عمل نظر آتے ہیں (The Preaching of Islam).۔ اشاعت اسلام کے اس مظہر کو خاص طور پر وسط ایشیائی علاقوں، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیائی جزائر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تاریخی ماخذ سے پتہ چلتا ہے کہ حنفی مبلغین کی کوششوں سے آٹھویں صدی کے اواخر تک فرغانہ، شاش اور بلخ کے ایک لاکھ سے زائد لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ (حوالہ: Lapidus)۔ اسی طرح افریقہ کے وہ قبائل جو دور دراز کے جنگلوں اور پہاڑوں کے درمیان الگ تھلگ زندگی گزارتے تھے، ان تک اسلام کی پیغام رسانی کے لیے سنوسی سلسلہ کے صوفیا نے اپنے مریدوں کو مقرر کیا جو طبیب بھی تھے اور اسلام کے مبلغ بھی۔(The Preaching of Islam – Chapter on Islam in Africa)

عام مسلمان اور دعوت دین

عرب مسلم حکومت کی توسیع و استحکام کے بعد قبولیت اسلام کا عمل بہت آہستہ روی کے ساتھ جاری رہا۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ تبدیلئ مذہب کے عمل میں زور زبردستی سے تیز رفتاری لانے کی کوشش کی گئی ہو یا بڑے پیمانے پر عوامی تبدیلئ مذہب کے واقعات رونما ہوئے ہوں۔ (حوالہ: Lapidus)۔

موجود شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ سماجی اور مذہبی تبدیلی کا یہ عمل سست روی اور اتار چڑھاؤ کے ساتھ جاری رہا۔ مزید برآں آج کی طرح تبدیلئ مذہب کے مظاہر اس دور کے تاریخی عمل سے مماثلت نہیں رکھتے جس میں ایک شخص بہت سارے سیاسی، معاشی اور سماجی اسباب کی بنا پر خود کو مسلمانوں میں شامل کر لیتا تھا۔ اسلام کی قبولیت میں لازماً کسی غیر معمولی روحانی تبدیلی کا عمل دخل ہو ایسا ہونا بھی ضروری نہ تھا۔ کئی دوسرے محرکات بھی اس تبدیلی کے پیچھے کارفرما نظر آتے ہیں۔ بہر حال مسلم تاریخ میں اشاعت اسلام کی سرگرمیوں میں جبر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ (حوالہ: Lapidus)۔ بلکہ اموی دور میں تبدیلئ مذہب کی حوصلہ شکنی کی مثالیں بھی نظر آتی ہیں۔ اس پالیسی کے پیچھے دو وجوہات دکھائی دیتی ہیں: ایک یہ کہ عرب سرداران بحیثیت مسلم اپنے خصوصی مقام و مرتبہ کو محفوظ رکھنا چاہتے تھے اور دوسرے یہ کہ مملکت کو غیر مسلم رعایا سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی آمدنی میں کمی گوارہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اس پالیسی کو حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دور خلافت میں ختم کرکے عرب اور غیر عرب تمام مسلمانوں کو برابری کا مقام اور یکساں مراعات کا مستحق قرار دیا۔ (حوالہ: Lapidus)۔

رسول اکرم کی رحلت کے بعد جزیرة العرب سے باہر کے عربوں میں اسلام کی اشاعت کا ایک سلسلہ تو ان قبائل تک دراز ہوا جو پہلے بازنطینی حکومت کے تابع اورعیسائیت کے پیروکار تھے۔ اسلامی حکومت کی وسعت نے ان میں سے بہت سے قبائل کو حلقہ بگوش اسلام ہونے کی طرف مائل کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس تبدیلئ مذہب میں کوئی بڑی مذہبی اور تہذیبی رکاوٹ حائل نہیں تھی کیوں کہ عیسائیت اور یہودیت کے بنیادی عقائد و عبادات میں اسلام سے قریبی مماثلت پائی جاتی تھی اور اسی وجہ سے قبولیت اسلام کو کسی بنیادی تبدیلی کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اس کے باوجود بعض عرب قبائل جیسے بنوتغلب عیسائیت پر قائم رہے اور ابتدائی عباسی دور تک وہ اپنی عیسائی شناخت کے ساتھ حکومت کی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان خدمات کی بنا پر انھیں بھی مسلمانوں کی طرح ضمانتی محصول (جزیہ) کی ادائیگی سے مستثنی رکھا گیا۔ جن قبائل نے اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہا ان پر نہ تو قبولیت اسلام کے لیے دباؤ ڈالا گیا نہ ہی ان کے مذہبی اعتقادات اور عبادت گاہوں سے تعرض کیا گیا۔ مسلم حکومتوں نے ان کی مذہبی آزادی کا تحفظ بھی کیا اور مذہبی طبقے کو مراعات بھی فراہم کیں۔

بازنطینی سلطنت کے باجگذار بلاد شام کے عرب عیسائی قبائل کے برخلاف مصر کی یعقوبی عیسائی آبادی نے مسلم عرب حکم رانوں کا ساتھ تو دیا لیکن قبول اسلام میں توقف کیا اور بتدریج بدلتے حالات کے مطابق اسلام کی طرف مائل ہوئے۔ (حوالہ: Lapidus)۔

جب مسلم حکومت کی وسعت غیر عرب غیر مسلم علاقوں تک پہنچی تو ان لوگوں سے نہ تو اسلام قبول کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور نہ ہی عام باشندگان مملکت سے ان کے غیر مسلم ہونے کی بنا پر زیادتی کی گئی۔ مملکت کے خزانے میں معمولی ٹیکس ادا کرنے کے وہ اسی طرح پابند تھے جس طرح وہ سابق حکومت کو ٹیکس دینے کے پابند تھے اور جس طرح مسلمان زکوة جمع کرنے کے پابند تھے۔ باشندگان مملکت سے بلاواسطہ یا بالواسطہ ٹیکس کی وصولی آج کی جدید قومی ریاست کی طرح رائج تھی۔ غیر مسلم باشندگان پر ٹیکس عائد کرنے میں ان کی استطاعت کا لحاظ رکھا گیا اور اسی کے ساتھ انھیں لازمی فوجی خدمت سے بری الذمہ قرار دیا گیا۔

تبدیلئ مذہب کے محرکات

تبدیلئ مذہب بنیادی طور پر ایک شخص کی ذاتی اور آزادانہ پسند اور ناپسند کا معاملہ ہے۔ لیکن اس عمل کے پیچھے کئی طرح کے محرکات کارفرما ہو سکتے ہیں۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کا قلب کسی مذہب کی سچائی پر یقین کی کیفیت سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ اپنا آبائی مذہب ترک کرکے نئے مذہب کو قبول کر لیتا ہے۔ اس تبدیلئ مذہب سے اس کا ظاہر و باطن یکسر بدل جاتا ہے۔ نئے مذہب کو قبول کرکے اس کا دل اور دماغ پوری طرح مطمئن ہوتا ہے۔ دل و دماغ کی اس کیفیت کے پیچھے نہ تو کوئی مادی مفاد کارفرما ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی راہ میں کوئی جبر رکاوٹ بن سکتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص خارجی حالات و ماحول سے متاثر ہوتا ہے اور ان خارجی اثرات سے اس کا دل و دماغ تبدیلئ مذہب کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اثر انداز ہونے والے خارجی عوامل میں تہذیبی، سماجی، سیاسی، معاشی کئی طرح کے عوامل ہو سکتے ہیں۔ تبدیلی کا یہ عمل خارج سے شروع ہوتا ہے لیکن بتدریج سوچ، رویے اور داخلی کیفیت کو نئے مذہبی سانچے میں ڈھالتا چلا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ خارجی اثرات کسی جبر یا لالچ سے تعلق رکھتے ہوں۔ تبدیلئ مذہب کی تاریخ میں دونوں طرح کے مظاہر سبھی مذاہب کے ماننے والوں میں نظر آتے ہیں۔ Susan Jacoby نے تبدیلئ مذہب کی تاریخ میں عیسائیت کی ترویج و اشاعت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ ابتدا میں عیسائیت کی تبلیغ ایک فلسفیانہ اور روحانی جدوجہد تھی جو کئی برسوں تک جاری رہی، لیکن اسی کے ساتھ عیسائیت کے پھیلاؤ میں بہت سارے دنیوی، سیکولر اثرات کی مثالیں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ تبدیلئ مذہب کے اسباب میں مخلوط شادیاں بھی شامل ہیں؛ سیاسی عدم استحکام کا بھی عمل دخل ہے جس نے ذاتی عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دیا؛ اور بدلتے معاشی حالات کا بھی کردار رہا جس نے قسمت آزمائی کی نئی راہیں پیدا کیں اور نئے مذہبی اداروں کی ثروت مندی کے امکانات روشن کیے (حوالہ: Strange Gods: A Secular History of Conversation, p. 24)۔

دیگر مذاہب کی طرح اسلام کی ترویج و اشاعت میں بھی یہ دونوں طرح کے مظاہر نظر آتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر ایمان لانے والے سابقون اولون اور بعد کے ادوار میں بھی بہت سارے افراد میں تبدیلی کی ابتدا قلبی یقین کی کیفیت سے ہوئی۔ لیکن ایسے بہت سارے لوگ بھی ہوئے جو خارجی حالات و ماحول کے زیر اثر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے اور بتدریج ان کی سوچ، رویہ اور قلبی کیفیت اسلام کے سانچے میں ڈھلتے چلے گئے۔ چناں چہ قرآن نے دیہاتی عربوں کے قبول اسلام پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: (قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یدْخُلِ الْإِیمَانُ فِی قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِیعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا یلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَیئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِیمٌ.الحجرات: صحرا نشینوں نے کہا : ہم ایمان لائے، آپ کہیے کہ تم ایمان نہیں لائے، ہاں ! یہ کہو کہ ہم نے اسلام قبول کیا اور ابھی تک تمھارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا ہے، اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، تو اللہ تمھارے (نیک) اعمال سے کوئی کمی نہیں کرے گا، بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے۔) (جاری)

مشمولہ: شمارہ جولائی 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223