اسلام ایک مکمل دستور حیات ہے، اس میں قیامت تک رونما ہونے والے تمام ممکنہ مسائل کا حل موجود ہے، انہیں میں سے ایک مسئلہ غیر مسلموں کی ایک مخصوص جماعت سے عدم موالات کا بھی ہے، معترضین اسلام کے لیے یہ ایک اہم حربہ ہے جس کو بنیاد بناکر وہ دنیا کے سامنے اسلام کا غلط تعارف پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
عدم موالات کا مفہوم
مولاۃکا مادہ ’’و ل ی ‘‘ ہے ۔ ابن فارس کہتے ہیں ’’و لا ء ‘‘،’’ ولی‘‘ سے مشتق ہے جس کے معنیٰ قربت اور نزدیکی کے ہیں ، اسی سے ’’وَلِیٌّ‘‘ ہے جس کے معنیٰ دوستی کے ہیں ۔ اور ’’موالاۃ ‘‘ کے معنیٰ محبت کے ہیں(لسان العرب)
’’ولاء‘‘کا مفہوم یہ ہے کہ دویا دوسے زائد چیزیں اس طرح یکجاہوں کہ ان کے درمیان کو ئی ایسی چیز نہ ہوجوان سے مغائر ہو۔ اسی سے استعارۃٌیہ لفظ قربت کے معنیٰ میں استعمال ہونے لگا، یہ قربت خواہ جگہ کی ہو یا تعلق کی ، مذہب اور عقیدے کی ہو یا تعاون اور دوستی کی ‘‘۔ (المفردات فی غریب القرآن، ص: ۵۵۵)
محمد سعید قحطانی لکھتے ہیں کہ ’’کفار سے موالات کا مطلب یہ کہ ان سے تقرب حاصل کیا جائے ، اور اقوال وافعال اور دل سے ان کی محبت کا اظہار کیا جائے‘‘۔(الولاء والبراء فی الاسلام، ص: ۹۰)
علامہ یوسف القرضاوی لکھتے ہیں : ’’ ملت کے مفادات کو نظر انداز کرکے دوسروں کے ساتھ تعلق اختیار کرنے کو موالات کہا جاتا ہے ‘‘۔ (اسلام مسلمان اور غیر مسلم، ص:۱۲۲)
مولانا سید جلال الدین عمری لکھتے ہیں : ’’ (موالات اور اس جیسے ) الفاظ پر غور کرنے سے معلوم ہو تا ہے کہ اسلام نے اعدائے دین سے قلبی تعلق رکھنے اور انہیں اپنا ہمدرد ، سر پر ست اور مددگار بنانے سے منع کیا ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ اس کے ماننے والے مخالفین سے جڑے رہیں ، جو لوگ ان کی جڑ کا ٹنے میں لگے ہوئے ہیں ان سے وہ قریب ہو تے چلے جائیں اور ان کو ہمدرداور بہی خواہ سمجھ کر خفیہ امور مملکت بھی ان پرظاہر کردیں‘‘۔(غیر مسلموںسے تعلقات اور ان کے حقوق ،ص:۳۰۱)
عدم موالات کا پس منظر
اسلام، اپنے متبعین کو سارے انسانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے اور ہر ایک کے ساتھ ہمدردی ، خیر خواہی اور حسن سلوک سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں تیرہ سال تک ایسے لوگوں کے درمیان رہے جنہوں نے ہر ممکن طریقے سے آپ کو اور آپ کے اصحاب کو اذیتیں پہنچائیں ، ظلم وستم کے پہاڑ توڑے، وطن عزیز میں جینا حرام کردیا، آپ کے قتل کی بار بار کوششیں کیں۔ ایسے جانی دشمنوں کے درمیان آپ نہ صرف مقیم رہے بلکہ ان سے ہر طرح کے تعلقات بھی بر قرار رکھے ۔ انہیں تعلقات کو بنیاد بناکر ان کو دین اسلام کی طرف دعوت بھی دیتے رہے۔ پھر حالات مجبور ہوکر آپ کو مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنا پڑا۔ ہجرت مدینہ کے بعد اہل مکہ نے آپ کو سکون سے رہنے نہیں دیا ، کبھی دھمکیاں دی گئیں ، کبھی مدینہ کے باشندوں کو ڈرا دھمکا کر مسلمانوں کے خلاف اکسا یا گیا اور عرب کے مختلف قبائل کی مدد سے باربار جنگ چھیڑی گئی۔ مسلمانوں نے عمر ے کا ارادہ کیا تو کعبۃ اللہ کی زیارت سے ان کو روکا گیا۔ آخر کار صلح ہوئی۔ اس میں دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ۔ اسی معاہدے کی ایک شق یہ تھی کہ جو قبیلہ جس کا چاہے حلیف بن سکتاہے ۔ چنانچہ اس شق کے تحت بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنو بکر قریش کے حلیف بن گئے۔ لیکن جلدہی بنو بکر نے بنو خزاعہ پر یورش کردی۔ قریش نے ان کی اسلحہ اور افرادکے ذریعے ان کی پشت پناہی کی اور معاہدے کو توڑ کر بنو خزاعہ کے خلاف ظلم وزیادتی میں شریک ہوگئے۔ یہ بین الاقوامی ضابطہ کی صریح خلاف ورزی تھی‘‘۔
(ملخص:غیر مسلموںسے تعلقات اور ان کے حقوق ،ص:۲۹۲)
یہود کی مکاریاں
یہودایک مکار اور عیار قوم ہے ۔ غداری، دھوکہ دہی ، عہد ے شکنی اور اللہ اور ا س کے رسول کی مخالفت ان کی فطرت بن چکی تھی۔ مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اکرم ﷺ نے سب سے پہلے ان سے معاہدہ کیا، ’’ جس میں انہیں دین ومذہب اور جان ومال کی مطلق آزادی دی گئی تھی اور جلاوطنی ، ضبطیٔ جائیدادیا جھگڑے کی سیاست کا کوئی رخ اختیار نہیں کیا گیا تھا۔( الرحیق المختوم ، اردو:۲۹۹)مگر یہودی اپنی سازشی فطرت اور اسلام دشمن طبیعت کی وجہ سے اس معاہدے پر قائم نہ رہ سکے اور مشرکین مکہ سے مدد طلب کر کے مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لیے آمادہ ہوگئے۔ (اسلام، امن وآشتی کا علمبردار:۱۲۷) ایک تیسرا گروہ منافقین کا تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جو ظاہر میں اسلام کا دم بھر دیتے تھے اور انہوں نے خود کومسلمانوں میں شامل کررکھا تھا، لیکن حقیقت میں وہ کافر وں کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کو کامیابی ملتی تو ان کے سینوں پر سانپ لوٹتے تھے اور انہیں کچھ نقصان پہنچتا تو خوشیاں مناتے تھے۔ (حقائق اسلام:۶۹) ان تینوں قسم کے لوگوں سے اسلام مسلمانوں کو عدم موالات کا حکم دیتا ہے ۔ عقل سلیم کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ ایسے لوگوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا نا دین وایمان سے ہی نہیں بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھنے کے مترادف ہے۔
مولانا سید جلال الدین عمری رقمطراز ہیں: اسلام کے ان کھلے اور چھپے دشمنوں سے تعلقات ایمان کے منافی بھی تھے اور خالص سیاسی نقطۂ نظر سے بھی بے حد مہلک اور تباہ کن تھے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت دشمن سے تعلقات قائم کرنے، اس سے رازدارانہ معاملات کرنے، اسے خفیہ معلومات فراہم کرنے اور بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کی سازشوں میں شریک ہونے کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتی۔ (غیر مسلموںسے تعلقات اور ان کے حقوق ،ص:۲۸۴)اسلام ، مسلمانوں کو اس کی کیسے اجازت دے سکتاہے؟
عدم موالات کے اسباب قرآنی آیات کی روشنی میں
قرآن کی جن آیات میں غیر مسلموں سے دوستی اور موالات سے روکا گیا ہے، انہیں میں اس کے اسباب اور وجوہات بھی بتا دیے گئے ہیں ، جن میں سے چند یہ ہیں ۔ ٭وہ اللہ کے بھی دشمن ہیں اور تمہارے بھی جیساکہ ارشاد ہے۔ ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ(الممتحنہ:۱)’’اے ایمان والو!تم میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ‘‘۔٭ انہوں نے تم کو تمہار ے گھر وں سے نکالا اور دین کی بنیاد پر جنگ چھیڑدی۔: اِنَّمَا یَنْھٰئکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْوَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔(الممتحنہ: ۹)’’ اللہ انہی لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں اوروں کی مدد کی تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے وہی ظالم ہیں‘‘۔٭وہ ایمان کی بجائے کفر کے علمبردار ہیں۔ سورۂ توبہ میں فرما یا گیا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّواالْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔اے ایمان والو! اپنے باپوں کو ، اپنے بھا ئیوں کو (اپنا)رفیق مت بناؤ ، اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلۂ ایمان کے(ایسا) عزیز رکھیں ( کہ ان کے ایمان لانے کی امید نہ رہے ) اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا ، سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں‘‘۔ ٭ وہ اپنی اسلام دشمنی کی وجہ سے اللہ کے غضب کے مستحق ہیں۔ ارشاد ربانی ہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ قَدْیَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ(الممتحنہ: ۱۳)’’ اے ایمان والو! ان لوگوں سے (بھی ) دوستی مت کرو جن پر اللہ نے غضب فرمایا ہے کہ وہ آخرت (کے خیر وثواب) سے ایسے ناامید ہوگئے ہیں جیسے کفار أصحاب قبور سے ناامید ہیں‘‘۔ ٭ وہ دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں : اہل کتاب اورکفار ومشرکین کے بارے میں فرمایا گیاہے: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآئَ۔(سورۂ مائدہ:۵۷)’’اے ایمان والو! جن لوگو ں کو تم سے پہلے کتاب مل چکی ہے جو ایسے ہیں کہ جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی اور کھیل بنارکھا ہے ان کو اوردوسرے کفار کو دوست مت بناؤ‘‘۔
٭وہ تمہیں بھی دین اسلام سے پھیرنا چاہتے ہیں: منافقین کے بارے میںفرمایا گیا : وَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ کَمَا کَفَرُوْا فَتَکُوْنُوْنَ سَوَآئً فَلاَ تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ۔(النساء:۸۹) ’’وہ اس تمنا میں ہیں کہ جیسے وہ کافرہیں تم بھی کافر بن جاؤ، جس میں تم اوروہ سب ایک طرح کے ہوجائیں ، سو ان میں سے کسی کو دوست مت بناؤ‘‘۔ کفارومشرکین کے تعلق سے کہا گیا: یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ بَلِ اللّٰہُ مَوْلٰئکُمْ وَھُوَ خَیْرُ النّٰصِرِیْنَ ۔(آل عمران:۱۴۹، ۱۵۰) ’’اے ایمان والو!اگر تم کہنا مانو گے کا فروں کا تو وہ تم کو الٹا پھیردیں گے ، پھر تم ناکام ہو جاؤگے، بلکہ اللہ تعالیٰ تمہارا دوست ہے اوروہ سب سے بہتر مدد کرنے والا ہے‘‘۔ یہود ونصاری کے بارے میں فرمایا گیا : وَدَّ کَثِیْر’‘ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّوْنَکُمْ مِّنْ م بَعْدِ اِیْمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِہِمْ ۔’’ان اہل کتاب(یعنی یہود ) میں سے بہتیر ے دل سے یہ چاہتے ہیں کہ تم کو تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر کفر کی حالت میںلے آئیں ، محض حسد کی وجہ سے جوان کے دلوں میں ہے‘‘۔ ٭وہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ چنانچہ فرمایا گیا: لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَھُمْ اَوْاَبْنَآئَھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْعَشِیْرَتَہُمْ ۔(المجادلہ:۲۲) ’’جو لوگ اللہ پر اور قیامت کے دن پر (پوراپورا)ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ پڑھیں گے کہ وہ ایسے لوگوںسے دوستی رکھتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے بر خلاف ہیں ، گووہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے ہی سے کیوں نہ ہوں‘‘۔
عدم موالات کے مظاہر
جن معا ملات میں دوستی اور قریبی تعلق رکھنے کی ممانعت آئی ہے ، اس کی چند صورتیں یہ ہیں:٭ کفار ومشرکین کو کافر نہ قرار دینا ، ان کے مذہب کو صحیح سمجھنا ، ان کے کفر پر راضی رہنا یا ان کے کفر میںشک کر نا۔ ٭اسلامی شریعت کی بجائے ان کے فیصلے پر راضی ہو جانا۔ مذہب اسلام کی بجائے دیگر مذاہب اور طریقہ ٔ زندگی کو بہتر سمجھنا ۔ ٭ ان سے ایسی محبت ، قلبی دوستی اور رازدارانہ تعلقات رکھنا جو ایمان کے منافی ہو۔ ٭مسلمانوں کے سر بستہ رازوں سے انہیں مطلع کرنا ۔ ٭ ان کی نجی محفلوں میں شریک ہونا جن میں اسلام کا مذاق اڑایا جا تاہو۔ ٭ اقوال وافعال ، اخلاق وکردار اور رہن سہن میں ان کی مشابہت اختیار کر نا ۔ ٭ ان کی تعظیم وتو قیر کرنا۔ ٭ ان سے مداہنت بر تنا اور دینی معاملات میں نرم پہلو اختیار کرنا ۔ ٭دار الحرب میں رہائش اختیار کرنا۔
غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک
اسلام نے غیر مسلموں سے ہر طرح کے تعلق سے منع کیا ہے بلکہ ممانعت صرف موالات یعنی مخصوص قسم کے قریبی تعلق کی ہے (جس کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے ) جہاں عام انسانی اور سماجی تعلقات رکھنے کی بات ہے وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہیں۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں : ’الاحسان والھبۃ مستثناۃ من الولایۃ ‘‘ (تفسیر قرطبی: ۸/۹۴) ’’غیر مسلموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اورانہیں تحفے تحائف دینا ولایت میں شامل نہیں ہے‘‘۔ (حقائق اسلام:۷۳)
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں :’’ غیر مسلموں کے ساتھ صلہ رحمی ، حسن سلوک ، تعاون اور ہمدردی کرنا موالات میں داخل نہیں ہے‘‘۔ (فتح الباری ۵/۲۳۳)
ہندوستانی غیر مسلموں سے مسلمانوں کے تعلقات
ہندوستان ، ایک جمہوری ملک ہے ۔ دور حاضر کے جمہوری ممالک قانونی اعتبار سے دارالحرب کے حکم میں نہیں آتے (یہ اور بات ہے کہ انہیں ان ممالک میں پوری طرح امن بھی حاصل نہیں ہے مگر اس کی ذمہ داری صرف حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی ، اس میں مسلمانوں کے غلط کردار کو بھی دخل ہے) کیونکہ ان ممالک میں مسلمانوں کو جانی ، مالی اور دینی تحفظ حا صل ہے ۔ ان ممالک کے غیر مسلموں کو ہم تین حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ (۱) عوام۔ (۲) آزادرفاہی تنظیمات۔ (۳) سیاسی تنظیمات۔
عوام
ہندوستانی عوام کی اکثریت مسلمانوں کے معاملے میں غیر جانبدار ہے ، وہ مسلمانوں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں ، ان پر ہونے والی زیادتیوں کے مخالف بھی ہیں ۔ ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اس کے خلاف حسب استطاعت اور حسب موقع آواز اٹھاتے ہیں ، ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں سے تعلقات مستحکم کیے جائیں اور انہیں اسلام سے قریب لانے او ردین کے پیغام سے متعارف کرانے کی کوشش کی جائے۔
آزاد رفاہی تنظیمات
اسلام عدل وانصاف کے قیام اور ظلم وستم کے خاتمے کا علمبردار ہے ، اور وہ مسلمانوں کو اسلامی حدود میں رہتے ہوے ملکی اور عالمی پیمانے پر کام کرنے والی رفاہی تنظیمات (خواہ وہ غیر مسلم ہی کیو ں نہ ہوں ) میں حصہ لینے پر ابھارتا ہے۔ بعثت نبوی سے قبل مکہ میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے جو تنظیم قائم ہوئی تھی، حضور ﷺ بھی اس کے ایک رکن تھے ۔ بعثت نبو ی کے بعد آپ ﷺ اس کی تعریف کر تے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر مجھے آج بھی اس جیسے مقاصد کی تکمیل کے لیے دعوت دی جائے تو میں ضرور اس کا ساتھ دوں گا۔ (رواہ البزار) دور حاضرمیں ہمارے اس ملک میں ایسی بہت سی آزاد تنظیمیں ہیںجو انسانیت کی بے لوث خدمت میں لگی ہوئی ہیں ، ا ن کا تعاون کرنا اور ان کا ساتھ دینا مسلمانوں کا دینی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
سیاسی تنظیمات
سیاسی تنظیمات ، اپنے مفادات کے غلام ہو تی ہیں ۔ ان میں سے اکثر اسلام اور مسلمانوں کے دشمن واقع ہوئے ہیں ۔ لیکن جمہوری ممالک میں مسلمانوں کے لیے اس کے علاوہ کوئی نہیں ہو تاکہ وہ ان میں سے کسی ایک کاساتھ دیں ۔ ایسے حالات میں اخف الضررین کے تحت مسلمانوں پر ضروری ہے کہ ان میں سے جو مسلمانوں کے لیے کم نقصان دہ ہو، اس کے ساتھ مسلمان اپنے تعلقات استوار رکھیں ۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ یہ تمام امور اسلامی حدود میں رہ کر انجام دیے جائیں ۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2013