قرآن کریم نے آہِ سحر گاہی کے نفع بخش ہونے کی بشارت دی ہے اور بندوں کو اپنے رب سے قریب ہونے کی راہ دکھا کر ان پر احسانِ عظیم کیا ہے ۔ علامہ اقبالؒ نے’’ کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحرگاہی‘‘کہہ کر گویا اِسی کلامِ خدا وندی کی دل نشین شعری تفسیر کی ہے ۔ یہ آہِ سحر گاہی مولانا محترم عبدالرشید عثمانی صاحب کی سرشت میں داخل تھی، ۱۰؍اپریل ۲۰۰۶ء کوٹھیک اُسی وقت، جب وہ رات کے اندھیرے میں صبح نمودار ہونے سے قبل آہِ درازی کرتے ہوئے خود کو اپنے رب کی بارگاہ میں جھکاتے رہتے تھے، ۷۲سال کی عمرمیں اُس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جاملے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ اسی روزسہ پہر میں ۳ بجے کے قریب اپنےشہر مالیگاؤں (مہاراشٹر) کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے مرکز جماعت اسلامی ہند دہلی سے انتقال کی خبر کے بعد روانہ ہوئے سکریٹری جماعت جناب اشفاق احمد صاحب، امیر جماعت مہاراشٹر جناب نظر محمد مدعو صاحب سمیت شہر کے عام مسلمانوں اور قریب کے بہت سے اضلاع اورممبئی کے رفقائے جماعت کی بہت بڑی تعداد تدفین میں شریک تھی۔ شہر سوگوار تھا ۔ ہر طرف مولانا رشید عثمانی کا تذکرہ تھا۔ اللہ مغفرت کرے، درجات بلند فرمائے۔
مولانا رشید عثمانی نے نوجوانی ہی میں ہائی اسکول پاس کرکے رامپور (یوپی) میں جماعت اسلامی ہند کی قائم کردہ ثانوی درس گاہ سے اعلیٰ دینی تعلیم ہی حاصل نہیں کی بلکہ ہندوستان کے جلیل القدر علماء کرام سے بھر پور استفادہ کیا جورامپور میں جماعت کے آل انڈیا مرکز میں موجو د تھے۔ رامپور سے مالیگاؤں واپسی پر سیماب صفت نوجوان مولانا رشید عثمانی نے اپنی تمام تر صلاحتیں اللہ کی راہ میں لٹادینے کا اس طرح فیصلہ کیا کہ تمام سردو گرم جھلسنے اورمشکلات ومسائل کا سامنا کرنےکے باوجود اقامتِ دین کی جدو جہد میں کبھی پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔
مولانا رشید عثمانی صاحب سے راقم الحروف کا اس وقت سے انتہائی قریبی تعلق رہا جب وہ ۱۹۷۰ء سے پہلے جماعت کے ناسک ڈویژن کے ناظم تھے۔ کبھی امیر حلقہ محترم شمس پیرزادہ صاحب سے رہنمائی وہدایت کے لیے اورکبھی حلقے کی مختلف میٹنگوں میں شرکت کے لیے ممبئی میں جماعت کے آفس تشریف لایا کرتے تھے ۔ سادگی واخلاص کا ایسا پیکر کہ نثار جائیے اورنرم خو، ملنسار اور خوش اخلاق ایسے کہ ایک بار ملنے والے کونہ وہ کبھی بھولتےاور نہ ملنے والا ان کو فراموش کرسکتا تھا ۔ لوگوں سے اس طرح ٹوٹ کر معانقہ کرتے کہ دورر ہنے والے کوبھی قریب ہوجانے پر مجبور کردیتے تھے ۔ مالیگاؤ ں سے لے کر ملک وبیرون ملک کے رفقاء کا نام اس محبت سے لیتے تھے کہ اپنائیت پھوٹی پڑتی تھی ۔ ان کے جنازے میں ایک بڑا ہجوم ہر ایک کو گرویدہ کرنے والی ان کی شخصیت کا گواہ تھا ۔ فروری ۲۰۰۶ء میں اورنگ آباد میں جماعت اسلامی ہند حلقہ مہاراشٹر کا عظیم الشان اجتماع عام مہاراشٹر میں جماعت کے کاموں کی وسعت کا انتہائی خوبصورت منظر پیش کررہا تھا، جس میں خود مولانا رشید عثمانی صاحب بھی اپنی گزشتہ کئی مہینوں کی علالت اورغیر معمولی ضعف کے باوجود شریک رہے اورتکلیف کے ساتھ ہی سہی مجمع کثیر کو خطاب بھی کیا ۔ مہاراشٹر میں تحریکی کام کو اس خوش گوار مقام تک لانے میں جن تحریکی رفقاء کی جدوجہد اورایثار وقربانی خاص طو ر پر قابل ذکر ہے ا ن میں مولانا رشید عثمانی کا اسم گرامی نمایاں ہے۔
اللہ سے تعلق، رسولؐ سے سچی محبت، رفقائے تحریک سے والہانہ رشتہ، باہمی مشاورت، مستعدی وفعالیت، نظم کی پابندی، اطاعت گزاری اورصبر وشکر جیسی اعلیٰ صفات کی جوغیر معمولی اہمیت ہے اس سے مولانا رشید صاحب نہ صرف پوری طرح آگاہ تھے بلکہ ان کے بہترین حامل بھی تھے۔ مرحوم ہمہ وقت باوضو رہنے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ فرض نمازوں میں تکبیرتحریمہ کے حصول کا اہتمام کرتے۔ محترم امیر جماعت مولانا محترم سید جلال الدین عمری صاحب نے، جوان کی زندگی کو ثانوی درس گاہ سے ہی قریب سے دیکھتے رہے ہیں، فرمایا کہ مرحوم سفر تک میں تہجد ادا کرنے کا موقع نکال لیتے تھے ۔
ناظم ڈویژن ناسک کی حیثیت سے اسلام کا پیغام اورتحریک کی دعوت کوعثمانی صاحب مسلسل ڈویژن کے قریہ قریہ پہنچانے کی ہر ممکن جدوجہد کرتے رہے ۔ ۱۹۷۵ء میں ملک میں ایمر جنسی نافذ ہوئی اور جماعت اسلامی ہند پر بھی پابندی عائد کی گئی توجماعت کے تقریباً ایک ہزار وابستگا ن کے ساتھ مولانا رشید عثمانی کوبھی قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا۔ اسی دوران راقم مختلف ریاستوں کا سفر کرتا ہوا مالیگاؤں بھی احباب کے حالات معلوم کرنے کے لیے پہنچا تو رشید عثمانی صاحب جیل میں تھے اوران کا ۱۲۔۱۰سال کا ایک بیٹا حیات وموت کی کشمکش میں تھا!میں اس کی عیادت کرکے شہر سے اپنے گھر ممبئی کے لیے رخصت ہوا اور(بعد میں اطلاع ملی کہ وہ بچہ اپنے رب کی طرف )چلا گیا ۔
ایمرجنسی ختم ہوئی اورجماعت بحال ہوئی توتھوڑے دنوں بعد ہی امیر حلقہ مہاراشٹر محترم شمس پیر زادہ صاحب کا جماعت سے ضابطے کا تعلق بحال نہ رہ سکا تومولانا رشید عثمانی صاحب کو مہاراشٹر کا امیر حلقہ مقر ر کیا گیا جہاں ۱۹۹۰ء (میں آل انڈیا سکریٹری کی حیثیت سے دہلی منتقل ہونے) تک انتہائی سرگرمی کے ساتھ امارت ِ حلقہ کی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے ۔ جماعت کا مراٹھی ترجمان’ شانتی مارگ‘ایمرجنسی کی نذر ہوگیا تھا، چنانچہ مرحوم کی خصوصی توجہ اوردلچسپی سے دوسرا مراٹھی ہفت روزہ جریدہ شودھن، جاری ہوا جوآج بھی مراٹھی داں عوام تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہا ہے ۔ اسی طرح مولانا رشید عثمانی صاحب کی ایک اہم خدمت مالیگاؤں کے معروف تعلیمی ادارہ’ جامعۃ الہدیٰ‘کا قیام ہے، جہاں موصوف نے ایک نیا تجربہ کرتے ہوئے دینی وعصری علوم کا بہترین امتزاج قائم کیا یہاں طلبہ عالمیت کی سند کے حصول کے ساتھ ہی گورنمنٹ بورڈ سے ایس ۔ ایس ۔ سی کا امتحان دے کر ہائی اسکول کا سرٹی فیکٹ بھی حاصل کرلیتے ہیں ۔ ریاست میں دیگر تعلیمی اداروں کے قیا م میں بھی مرحوم کی مسلسل دلچسپی رہی جس کے لیے وہ ہمیشہ یاد رکھے جائیںگے۔
۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۳ء تک تقریباً ۱۴سال مرکز جماعت میں بحیثیت آل انڈیا سکریٹری کے خد مت کا زمانہ بھی قابل رشک رہا ۔ اگرچہ مرحوم شعبہ تربیت کے سکریٹری کی حیثیت میں اپنا فریضہ انجام دیتے رہے لیکن مرکز میں تفویض کی جانے والی دیگر ذمہ داریاں بھی پورے خلوص اورلگن سے انجام دیتے ر ہے ۔ ا یف ۔ ڈی ۔ سی۔اے کی نشستوںمیں شرکت ، بین المذاہب کارواں کے ساتھ سفر، مسلم وغیر مسلم معززین سے ملاقاتیں ، ہر جگہ ان کا خلوص نمایاں رہتا تھا ۔ مرکز میں ان کی نگرانی میں منعقد کئے گئے دینی تربیتی اجتماعا ت اپنی افادیت کے لیے رفقاء کو برسوں یاد رہیں گے۔
مولانا رشید عثمانی صاحب ان چودہ برسوں میں ہندوستان کے گوشے گوشے کا دورہ کرتے رہے اوران کے ولولہ انگیز، پر سوز خطابات سے ملک کے لاکھوں افراد مستفید ہوئے ہوں گے ۔ ان کا خطاب طویل ہو یا مختصر ، عام طورپر وہ اس کوترتیب سے پیش کرتے اوراختتام پر پھر اپنی پوری گفتگو کا خلاصہ بیان کردیتے کہ سامعین آسانی سے ذہن نشین کرسکیں۔
اپنے قائدین کا حد درجہ احترام کرتے اوران سے بے پناہ محبت وعقیدت رکھتے تھے ۔ نظم کی پابندی کا پورا لحاظ کرتے تھے ۔ نوجوانوں سے بے حد شفقت ومحبت کرتے اوران کو آگے بڑھنے اور جماعت کی رکنیت اختیار کرنے کے لیے ابھارتے رہتے تھے ۔ ان کی فکر مندی سے بہت سے نوجوانوں کو حوصلہ ملا بلکہ تحریک میں شامل ہوکر اہم مناسب پر فائز ہوئے۔ وہ ایس ۔ آئی ۔ او اور جی۔ آئی ۔ او کے طلبہ وطالبات کی تحریک اسلامی کے لیے سرمایہ بننے کی خواہش رکھنے کے ساتھ ہی خود اپنے بچوں کی بھی اسلامی تربیت کا خصوصی خیا ل رکھتے تھے۔
چندسال قبل مالیگاؤں مولانا کے ساتھ ہی جانا ہوا تو مسجد سے فجر کی نماز کے بعد گھر واپسی پر اس خاکسار سے تمام بچوں کے سامنے تذکیری گفتگو کی خواہش فرمائی۔ اندازہ ہوا کہ جب مولانا گھر ہوتے تھے تویہ ان کا معمول ہوتا تھا۔
محترم رشید عثمانی صاحب شاعر وادیب نہیں تھے لیکن وہ شعروادب کوسماج اورتحریک کی اہم ضرورت سمجھتے تھے۔ تحریک کے فنکاروں سے والہانہ محبت کرتے اورتحریک ادب اسلامی کی ہر ممکن حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کے مزاج کا یہ دل کش پہلو اب یاد آکر تڑپا رہا ہے ہمار ی شعری محفلوں میں ٹھیک وقت پرسامعین کی پہلی صف میں آکر تشریف فرما ہونے والے محترم مولانا عبدالرشید عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کونگاہیں تلاش کرتی پھریں گی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تحریک اسلامی کے اس عظیم فرزند کی مغفرت کرے اوراپنے دامن رحمت میں سمیٹ کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2016