نبی کریم ﷺ کی ایک نمایاں خوبی انسانی صلاحیتوں کو فروغ دینا human resource development) ہے۔ روز ِاول سے آپ ﷺ نے وہ متنوع صلاحیتیں جن کی تحریک اسلامی کو ضرورت تھی، کبھی پیدا کیں اور کبھی سماج میں میسر صلاحیتوں کو اپنے قریب کیا اور ان کے ذریعہ مشن کی طرف پیش قدمی کو تیز تر کر دیا۔
آپ ﷺ کی دعوت کا جب آغاز ہوا تو ایک ایسی شخصیت کی ضرورت تھی جو آپ ﷺ کے پرسنل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے سکے۔ اس کے لیے حضرت علیؓ سے زیادہ موزوں کوئی نہیں تھا، جن کے ذریعہ آپ مہمانوں کی ضیافت کا اہتمام فرماتے، لوگوں تک اپنی بات کو پہنچانے کا واسطہ بناتے۔ ہجرت کی رات مشرکین کو غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کے لیے کسی شخص کا آپ ﷺ کے بستر پر سونا ضروری تھا، اس صورت میں سونے والے پر حملہ ہونے کا قوی اندیشہ موجود تھا، اس لیے اس ذمہ داری کو سرانجام دینے کے لیے حضرت علیؓ جیسے بہادر اور سرفروش شخص کا انتخاب بہترین فیصلہ تھا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد وقتاً فوقتاً دشمن قبیلوں کے لوگ رات میں مدینے پر حملہ آور ہوتے اور موقع پاکر مدینہ کے مویشیوں کو ہانک لے جاتے، صورت حال کی نزاکت کا تقاضا تھا کہ پورے شہر کے علاوہ کوئی خود آپﷺ کے گھر کے اطراف رات بھر پہرہ دے۔ اس کام کے لیے حضرت علیؓ نے خود کو پیش کیا ،اور ہجرت کے بعد مسلسل ڈیڑھ سال تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔
حبشہ کی طرف ہجرت کے لیے ایک قافلہ روانہ ہوا، اس کے پیشِ نظر دو مقصد تھے: ایک یہ کہ ظلم وستم کا نشانہ بننے سے کچھ برسوں تک دور رہا جائے اور دوسرا یہ کہ قریش تجارت پیشہ قبیلہ تھا، اس کے نئے ایمان لانے والے افراد نے تجارت کی غرض سے حبشہ کی طرف سفر کا ارادہ کیا۔ اس مہم میں آپ ﷺ نے حضرت جعفرؓ بن ابی طالب کو مہاجرین کا امیر منتخب فرمایا ،اور حضرت جعفرؓ کے نجاشی کے ساتھ ہونے والے مکالمے نے اس انتخاب کے درست ہونے کا عملی ثبوت پیش کردیا۔
پہلے دن سے آپ ﷺکا ہدف مختلف طبقوں میں کام کرنا تھا اور اس کی عملی شکل یہی تھی کہ تاجر تاجروں میں ، قبیلے کے سردار سرداروں میں ، غلام غلاموں میں کام کریں۔ آپﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ذریعے مکہ کے تاجروں پر کام کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اور ان جیسے اور بہت سے صاحبِ ثروت تاجر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے۔ اسی طرح آپ ﷺ کی ہجرت میں رفاقت اور سفر میں مصاحبت کے لیے کسی ہستی کا انتخاب ہونا تھا۔ اس کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا، جنھوں نے ہمیشہ آپ کے قائم مقام کی حیثیت سے کام کیا۔ آپﷺ نے بالکل آغاز سے ہی حضرت ابوبکرؓ کو اس منصب پر فائز فرمایا اور وہ آخر تک اس پر فائز رہے، اور ہمیشہ یہ بات روزِ روشن کی طرح ظاہر رہی کہ آپ ﷺکا انتخاب شروع سے آخر تک درست تھا۔
جب مدینہ پر عرب کا متحدہ لشکر اٹھ کر آیا اور حملہ آور ہونے کے لیے مدینے کا گھیراؤ کرلیا، تو اس وقت بنوقریظہ کی طرف سے جو مدینے میں آپ ﷺ کے حلیف تھے، عہد شکنی کے آثار نظر آنے لگے۔ اسی بیچ حضرت نعیم بن مسعودؓ اسلام لے آئے، اور آپ ﷺ کے سامنے انھوں نے پیش کش رکھی کہ ان سے جو کام لینا چاہیں لے لیں۔ وہ قبیلہ بنو غطفان سے تعلق رکھتے تھے۔ اسلام کے خلاف متحدہ محاذ میں بنو غطفان قبیلہ بھی قریش کے ساتھ تھا۔ آپ ﷺ نے نعیمؓ بن مسعود کو ذمہ داری دی کہ وہ دشمنوں کے درمیان پھوٹ ڈال دیں۔ آپ کا یہ انتخاب بالکل درست ثابت ہوا۔ آپ ﷺ ہمیشہ اہل افراد کو ذمہ داریاں سونپنے کے اصول پر کاربند رہتے تھے۔ اسی جنگ میں آپ ﷺ نے حضرت حذیفہؓ کو دشمنوں کی اس مجلس میں بھیجا جہاں جنگ کی اسٹریٹجی زیر ِبحث تھی۔۔ جان جوکھم میں ڈال کر حذیفہؓ دشمنوں کے لشکر میں پہنچے اور معلوم کرلیا کہ اب ان کے پاس لڑنے کی ہمت نہیں ہے اور ان میں سے بڑی تعداد کوچ کرچکی ہے۔ آپ ﷺکا یہ انتخاب بھی صحیح ثابت ہوا۔
انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے سلسلے میں نبی ﷺ کا فارمولا کچھ اس طرح سے تھا جس کا ذکر اس سے پہلے ہوچکا ہے کہ : build, buy and borrow یعنی صلاحیتوں کو نشوونما دینا، سماج کے باصلاحیت افراد کو متاثر کرنا اور بعض مخصوص صلاحیتوں سے بوقت ضرورت استفادہ کرنا۔
انسانی ذہن اور خیالات کو بدلنا، سماج کی اقدار کو نئے پیمانوں میں ڈھالنا، فکر کے زاویے کو صحیح سمت دینا اور پوری زندگی کے اندر ایک صالح انقلاب برپا کرنا گوناگوں صلاحیتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور آپ ﷺ نے اس عظیم مشن اور ہمہ گیر و ہمہ جہت تبدیلی کے عمل کے لیے اعلی انسانی صلاحیتوں کو فروغ دیا۔ اس سلسلے میں اوپر ذکر کیے گئے فارمولے کی کارفرمائی آپ کے تیئیس سالہ نبوی دور میں واضح طور پر ہم دیکھتے ہیں۔ ہم ذیل میں اس فارمولے کے تحت تینوں اپروچ کی مثالیں پیش کریں گے تاکہ یہ اہم فارمولا روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے، جس کے بعد ہمارے قائدین شرح وبسط کے ساتھ اپنے اپنے میدانوں میں انھیں اپنا کر تحریک کی تقویت کا سامان کرسکیں۔
انسانوں کے سلسلے میں آپ ﷺ کا نظریہ یہ تھا کہ لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح ہیں۔ سوناچاندی مادی وسائل ہیں تو لوگوں کی صلاحیتیں اور قابلیتیں وہ انسانی وسائل ہیں جو مادی وسائل سے زیادہ قیمتی اور دور رس نتائج پیدا کرسکتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے معزز آدمی کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا :
جو اللہ کا خوف زیادہ رکھتا ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر سب سے زیادہ معزز اللہ کے نبی یوسف ؑہیں ، جن کے باپ نبی، دادا نبی اور پردادا اللہ کے خلیل ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے سوال کا مقصد یہ بھی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ عرب کے خانوادوں کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہو۔ دیکھو! لوگوں کی مثال کانوں کی سی ہے ( کسی کان میں سے اچھا مال نکلتا ہے کسی میں سے برا) جو لوگ تم میں سے زمانہ جاہلیت میں معزز اور بہتر اخلاق کے ہیں ، وہی اسلام کے بعد بھی اچھے اور معزز ہیں جب کہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں۔ (صحیح بخاری)
اس حدیث میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئیں :
١. انسانوں میں سب سے زیادہ قیمتی وہ لوگ ہیں جن کے پاس اعلی صلاحیتیں ہوتی ہیں ، قطع نظر اس کے کہ وہ دائرہ اسلام میں ہیں یا اس سے باہر ہیں۔
٢. صرف صلاحیتیں انسانیت کے لیے مفید نہیں ہوتیں ، اگر وہ ایمان اور تقوی سے عاری ہوں۔ سب سے زیادہ اچھے انسان وہ ہیں جن میں سب سے زیادہ اللہ تعالی کا خوف پایا جاتا ہو۔
ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:
لوگ سونے چاندی کی کانوں کی طرح کانیں ہیں ، جو زمانہ جاہلیت میں اچھے تھے وہ اگر دین کو سمجھ لیں تو زمانہ اسلام میں بھی اچھے ہیں۔ اور روحیں ایک ساتھ رہنے والی جماعتیں ہیں جو آپس میں ( ایک جیسی صفات کی بنا پر ) ایک دوسرے کو پہنچاننے لگیں تو ان میں الفت پیدا ہوجاتی ہے، اور جو (صفات کے اختلاف کی بنا پر) ایک دوسرے سے گریزاں رہیں ، وہ ایک دوسرے سے متنفرہوجاتی ہیں۔ (صحیح مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باصلاحیت لوگ اگرچہ وہ جاہلیت کے علم بردار ہی کیوں نہ ہوں اور ظالموں اور اسلام دشمنوں کی صفوں میں ہی کیوں نہ ہوں ، اگر وہ ایمان لے آئیں تو یہاں بھی وہ بہت قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گے۔ اس کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ میں ملتی ہیں ، جن میں سب سے نمایاں نام حضرت عمرؓ کا ہے۔ حضرت عمرؓ دلیر اور بہادر انسان تھے، طبیعت کے جری اور ارادے کے قوی تھے۔ سماج انھیں اسی حیثیت سے جانتا تھا۔ بہادری میں پورے مکہ میں ان کا اونچا مقام تھا۔ اسلام کو ایک ایسی ہی دلیر اور شجاع شخصیت کی ضرورت تھی جو کفار کے بیچ میں اسلام کا پرچم بلند کرسکے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کی دلیری کو ان کے شایان شان ایک ایسے میدان کی ضرورت تھی کہ جہاں وہ تاریخ میں اپنے انمٹ نقوش چھوڑ جائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے خصوصی دعا کی اور اللہ تعالی کے ہاں وہ دعا مقبول بھی ہوئی، اور اللہ کی توفیق نے دونوں میں ایک تاریخ ساز رشتہ قائم کردیا۔ جب حضرت عمرؓ اسلام لے آئے تو اپنی شجاعت اور دلیری ساتھ لائے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کی صلاحیتوں کی قدر کی اور انھیں استعمال کرنے کی صحیح جگہ بتائی۔ حضرت عمرؓ نے انھیں ٹھیک جگہ صرف کر کے فارس و روم کی شہنشاہیت کو اسلام کے قدموں پر لاجھکایا۔ وہ جاہلیت میں بھی شجاع اور دلیر تھے اور اسلام لانے کے بعد بھی ویسے ہی بلند عزم اور بہادر ثابت ہوئے۔
اس حدیث سے ایک لطیف بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ روحوں میں آپس میں ایک غیر مرئی رشتہ اور غیر محسوس کشش ہوتی ہے اس لیے سعید روحوں کے ساتھ سعادت مند وابستہ ہوتے ہیں اور شقی لوگوں کے ساتھ بدبخت جڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہر صلاحیت مند کے ارد گرد اسی قسم کی صلاحیتوں کے لوگوں کی موجودگی ہوتی ہے، جس سے متعلق میدان میں خواہ وہ علمی وادبی ہو یا تہذیبی وسائنسی ہو، ارتقاہوتا ہے۔
جس طرح سونے چاندی کی کانیں دنیا کے بہت سے ملکوں میں پائی جاتی ہیں اور انسانوں کے بس کی بات نہیں کہ ان کو اپنے محبوب وطن اور اپنے مقدس ملک کے ساتھ مخصوص کردیں ، اسی طرح جوہر انسانیت کی کانیں اور انسانی صفات وکمالات کے دفینے بہت سے ملکوں میں پائے جاتے ہیں۔ الناس معادن كمعادن الذهب والفضه . انسان بھی اعلی صفات اور قابلیتوں کی کانیں ہیں جیسے سونے چاندی کی کانیں ہوتی ہیں ، ویسی ہی قدیم جو ہزاروں برس سے چلی آرہی ہیں ، ویسی ہی فطری جس میں انسان کی صفت کو دخل نہیں ، ویسی ہی بھرپور اور بیش قیمت جو پورے پورے ملک اور انسانی حد بندیوں سے بے نیاز ہوتی ہیں ، ویسی ہی مخفی جو بغیر خدمت ومحنت اور تہذیب وتنظیم کے مٹی میں ملی ہوئی ہیں ، ویسی ہی کھری اور اصلی اپنی قیمت اپنے ساتھ رکھنے والی، جو ہر بازار اور ہر صرافہ میں موتیوں کے تول تلیں اور سونے کے مول بکیں۔
اس میں عقیدے کا اختلاف حارج ہے نہ مذہب وملت کا فرق، سونا سونا ہے اگرچہ کافر کے ہاتھ میں ہو یا مومن کے ہاتھ میں ، ہیرے کا دام ایک ہے، جوہری میلا کچیلا اور بد اخلاق ہو یا صاف ستھرا اور مہذب۔ گوہر شب چراغ بڑھیا کے جھونپڑے اور بادشاہ کے محل دونوں کو روشن کر سکتا ہے، فخیارهم فی الجاهلیۃ خیارهم فی الاسلام، جو جاہلیت میں اپنے ذہن و ذکاوت اور فہم و فراست میں ممتاز تھا، وہ اسلام میں بھی ان چیزوں میں ممتاز رہے گا۔ جو جاہلیت میں حمیت وغیرت اور قوت وشجاعت میں امتیاز رکھتا تھا وہ اسلام میں بھی ان کمالات میں ممتاز رہے گا، عمل میں اور میدانی جہاد میں دوسروں سے سبقت لے جائے گا البتہ اس کی ضرورت ہے کہ جاہلیت کی ان صفات میں اسلام توازن واعتدال اور نظم وتہذیب پیدا کردے، سونا بہرحال سونا ہے، لیکن بازار میں جانے سے پہلے ضرورت ہے کہ اس کو مٹی سے صاف کرکے اور رگڑ کر اور چمکا کر اس کو زیور بنانے کے کام کا بنادیا جائے، فخیارهم فی الجاهلیۃ خیارهم فی الاسلام اذا فقهوا فی الدین، جو ان میں سے جاہلیت میں سب سے بہتر تھے، اسلام میں بھی بہتر رہیں گے، بشرطیکہ انھیں دین میں درجہ فقاہت (جس کا لازمی نتیجہ اعتدال، تہذیب اور اشیاء کا صحیح تناسب معلوم ہونا ہے) حاصل ہوجائے۔ (نیا خون: مولانا سید ابوالفضل حسینیؒ)
انسانی صلاحیتوں کے فروغ کے ضمن میں سب سے پہلا ضروری کام یہ ہے کہ اپنی ہی صفوں میں جو مخلص کارکنان ہمہ دم دین کے لیے ہر کام کی انجام دہی کے لیے تیار رہتے ہیں اور اپنی زندگی اسی کاز کے لیے وقف کردینے کا تہیہ کیے ہوئے تحریک میں شامل ہوتے ہیں ، ان پر پہلی توجہ دی جائے۔ ان کا تزکیہ ہو، ان کی صلاحیتیں پروان چڑھیں ، ان کی شخصیت سازی ہو اور وہ اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچانیں ، تاکہ انھیں درجہ کمال تک پہنچاسکیں۔ اسی کا نام تزکیہ ہے۔ سورہ عبس میں نبی کریم ﷺ کو دعوت کا یہ فن سکھایا گیا کہ اپنی صفوں میں وہ احباب جن کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ سماجی لحاظ سے پس ماندہ ہیں ، ان باطل پرستوں پر فوقیت رکھتے ہیں ، اگرچہ وہ سماج کے سرکردہ مانے جاتے ہوں۔ اس سلسلے میں اسلام کا پیمانہ بہت انوکھا ہے۔ آخر وہ صلاحیت کیا فائدہ دے گی، جو انسانوں کے لیے نفع بخش بننے کے بجائے خدا کے راستے سے لوگوں کو روکنے کے لیے کام آئے۔ ظالموں کو جن چیزوں نے گم راہ کیا ان میں ان کا مال، اقتدار اور صلاحیتیں پہلی وجہ ہیں۔
فَإِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُورِ ¡ فَذَٰلِكَ یوْمَئِذٍ یوْمٌ عَسِیرٌ ¡ عَلَى الْكَافِرِینَ غَیرُ یسِیرٍ ¡ ذَرْنِی وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیدًا ¡ وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا ¡ وَبَنِینَ شُهُودًا ¡ وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِیدًا ¡ ثُمَّ یطْمَعُ أَنْ أَزِیدَ ¡ كَلَّا ۖ إِنَّهُ كَانَ لِآیاتِنَا عَنِیدًا ¡ سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا ¡ [سورہ المدثر]
اچھا، جب صور میں پھونک ماری جائے گی، وہ دن بڑا ہی سخت دن ہوگا، کافروں کے لیے ہلکا نہ ہوگا۔ چھوڑ دو مجھے اور شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا، بہت سا مال اس کو دیا، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے دیے، اور اس کے لیے ریاست کی راہ ہم وار کی، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ ہرگز نہیں ، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عن قریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواؤں گا۔
اسی قسم کے سرداران قریش ایک مرتبہ نبی ﷺ کی مجلس میں بیٹھے تھے، اور آپس میں یہ باور کرا رہے تھے کہ انھیں بھی اسلام سے دل چسپی ہے اور وہ کچھ آپ سے سننا چاہتے ہیں ، اسی موقع پر ایک نابینا صحابی عبداللہؓ بن ام مکتوم حاضر ہوئے اور آپ سے کچھ سوالات کررہے تھے، آپ نے ان کی طرف عدم التفات کیا تو اللہ تعالی نے آپ کو دعوت کا یہ سبق سکھایا کہ اسلام کی دعوت اور اس کی خدمت انتہائی بلندی وعظمت والا کام ہے، اور اس کام کو انجام دینے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ سماج کے مغرور ومتکبر لوگوں کی رعایت کے لیے دعوت کے اونچے مقام سے نیچے اتر کر آئیں ، یہ قرآن اور پیغام رسالت کا استخفاف ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:
عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ¡ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ¡ وَمَا یدْرِیكَ لَعَلَّهُ یزَّكَّىٰ ¡ أَوْ یذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ ¡أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ¡ فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ¡ وَمَا عَلَیكَ أَلَّا یزَّكَّىٰ ¡ وَأَمَّا مَن جَاءَكَ یسْعَىٰ ¡ وَهُوَ یخْشَىٰ ¡ فَأَنتَ عَنْهُ تَلَهَّىٰ ¡ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَةٌ ¡ فَمَن شَاءَ ذَكَرَهُ ¡ (سورۃ عبس)
ترش رو ہوا اور بےرخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمہیں کیا خبر، شاید وہ اپنا تزکیہ کرلے یا نصیحت حاصل کرے اور نصیحت اس کے لیے نافع ہو، جو شخص بے پروائی برتتا ہے، اس کے تو تم پیچھے پڑتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے، اور ڈر رہا ہوتا ہے، اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہرگز نہیں ، یہ تو ایک عظیم نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔
ان آیتوں سے معلوم ہوا کہ اللہ کی طرف بلانے والا ہر داعی اپنی دعوت کے دوران اس نکتے کا گہرا شعور رکھے کہ کون تزکیہ کے لیے آمادہ ہے اور کون گناہوں کے دلدل سے نکلنے کے لیے دل میں خلش رکھتا ہے، اور کس کے اندر معنوی اور اخلاقی ارتقاء کی پیاس اور تڑپ موجود ہے۔ یہی داعی کی گم شدہ پونجی ہے، یہی اس کا اصل مخاطب ہے، جس کسی میں غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کی آرزو نظر آئے، جو چاہتا ہو کہ اپنے ضمیر کے صفحات سے زنگ اور گرد وغبار کھرچ کر اپنی اصل اور سالم انسانی فطرت کی طرف رجوع کرے، داعی اس پر پوری توجہ دے۔ یہ آیات ہر داعی اسلام کو سکھاتی ہیں کہ عبداللہؓ بن ام مکتوم جیسا حق کا پیاسا اپنے ظاہر ہی سے نظر آتا ہے، کہ وہ تزکیہ اور تذکر کی تلاش میں آیا ہے۔
آپ ﷺ نے ان پر توجہ دی اور ان کی شخصیت کو سنوارا اور ابھارا، یہاں تک کہ مدینہ میں حضرت بلالؓ کے ساتھ وہ بھی اذان دینے کے منصب پر فائز تھے اور جب نبی ﷺ غزوات میں شرکت کے لیے مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے تو کبھی ان کو اپنا جانشین بنا کر جاتے اور وہ وہاں موجود مسلمانوں کی نماز کی امامت کرتے۔
نبی ﷺ کی سیرت سے انسانی صلاحیتوں کے فروغ کی ایک اور درخشاں مثال ہمیں حضرت بلالؓ حبشی میں ملتی ہے۔ اسلام لاتے وقت وہ امیہ بن خلف کے غلام تھے۔ غلام نہ صرف عرب معاشرے میں بلکہ دنیا کے ہر سماج میں سماجی پسماندگی کی آخری سطح پر ہوتا ہے، اس پر مزید سخت سزائیں شخصیت کے عزم وحوصلے کو توڑ دیتی ہیں۔ ایسے ہی ایک فرد بلال کو نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے توسط سے آزاد فرمایا۔ پھر دھیرے دھیرے ان کی صلاحیتوں کو بڑھاتے چلے گئے، یہاں تک کہ مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت بلالؓ کی تین نمایاں حیثیتیں ملتی ہیں۔ ایک یہ کہ مدینہ پہنچنے اور مسجد نبوی کے بنانے کے کچھ دنوں بعد جب اذان کا رواج شروع ہوا تو آپ ﷺ کی نگاہ انتخاب بلالؓ پر پڑی۔ اور بلالؓ نے اس ذمہ داری کو بڑی خوبی کے ساتھ آپ ﷺ کی رحلت تک نباہا۔ آج کی سائنسی دنیا سے تھوڑی دیر کے لیے باہر نکل کر عرب کے اس وقت کا تصور کریں جب وقت کو معلوم کرنے کے لیے آلات موجود نہیں تھے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اسلام نے نماز کے اوقات کو کائنات کی بڑی تبدیلیوں کے ساتھ وابستہ کیا ہے، اس لیے عبادت کو اپنے وقت پر انجام دینے کے لیے لازم ہے کہ کائنات کی تبدیلیوں سے واقفیت ہو، یعنی اگر آج کی اصطلاح میں کہا جائے تو علم فلکیات سے ایک مؤذن کے لیے واقف ہونا از حد ضروری تھا۔ نماز کے تمام اوقات مختلف علامتوں سے وابستہ کیے گئے ہیں۔ ان علامتوں کی پہچان آسان نہیں ہے، کیوں کہ موسمیات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے، جس میں آثار کائنات کو دیکھ کر نمازوں کے اوقات پر اذان دینی ہوتی، اور اس کی صلاحیت حضرت بلالؓ کے اندر پیدا کر دی گئی تھی۔
دوسری حیثیت یہ کہ وہ نبی ﷺ کے پرسنل اسسٹنٹ تھے۔ آپ ﷺ کی مالیات کا وہ حساب رکھتے تھے، آمدنی اور صرف آپ کے ہاتھوں سے ہوا کرتا تھا، کبھی کبھی آپ ﷺ بلالؓ سے پوچھتے کہ آپ کی کتنی رقم ان کے پاس ہے، اگر کچھ ہوتا تو بتا دیتے ورنہ سرور کائناتﷺ فرماتے کہ کہیں سے قرض لے کر فلاں شخص کی ضرورت پوری کر دی جائے۔
تیسری حیثیت یہ کہ مسجد نبوی سے ملحق ایک کمرہ تھا اور وہ نو مولود اسلامی ریاست کے خزانے کا کمرہ تھا۔ مدینہ میں لوگ اپنی زکوۃ، ٹٰیکس، صدقات وغیرہ جمع کیا کرتے تھے اور جب جب کوئی بڑی ضرورت پیش آ جاتی جیسے غزوات وغیرہ، تو انفاق فی سبیل اللہ کی ایک خصوصی اپیل جاری کر دی جاتی، جس کے جواب میں لوگ درہم و دینار اور اپنے پاس میسر سازو سامان لاکر اسلامی تحریک کے حوالے کر دیتے، ان سب کا حساب کتاب رکھنا، مجاہدوں میں تقسیم کرنا، مال غنیمت کا حساب رکھنا اور رسول اللہ کے بتائے ہونے طریقے پر انھیں حق داروں میں تقسیم کرنا، یہ سب کام بڑی صلاحیت چاہتا اور بلالؓ کے اندر اتنی استعداد پیدا ہوگئی تھی کہ وہ ان کاموں کو بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا کرتے تھے۔
واقعہ ہجرت میں ایک اہم مثال
ہجرت کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے غیر مسلم بدو، عبد اللہ بن اریقط کی خدمات حاصل کیں ، تاکہ وہ غیر معروف راستے سے یثرب کی طرف لے جائیں۔ روانگی کے لیے مقررہ وقت پر، ابن اریقط اونٹوں کے ساتھ غار میں ان سے ملنے آیا، اور وہ سیدھے شمال کی سمت میں یثرب کی طرف جانے کے بجائے جنوب مغرب کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ بہت ہی پرخطر سفر تھا، اور دوسری طرف قریش انھیں گرفتار کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے تھے۔ نبی ﷺ اور آپ کے ساتھی نے خود کو خدا کے سپرد کردیا تھا، تاہم انھوں نے راستہ بتانے والے کی مدد حاصل کرنے میں دریغ نہیں کیا، وہ شخص دشمنوں کا ہم مذہب یعنی مشرک تھا، لیکن وہ اسے اچھی طرح جانتے تھے، کہ وہ قابل اعتماد بھی ہے، اور راستوں کا غیر معمولی جان کار بھی ہے۔ اس لیے اس پر اعتماد کیا اور راستہ بتانے والے کی حیثیت سے اس کی صلاحیتوں سے استفادہ کیا گیا۔ آپ صلاحیتوں کی قدر کرتے تھے اور ان سے تحریک کے لیے خدمات حاصل کرنے میں دریغ نہیں کرتے تھے۔ آپ کے گردوپیش کے وہ مرد اور عورتیں جن سے آپ کا سماجی رشتہ تھا۔ گو وہ آپ کے ساتھ عقیدے میں شریک نہ تھے، لیکن آپ ﷺ ان کی اخلاقی خصوصیات اور ان کی انسانی صلاحیتوں کو پہچانتے تھے، اور ان پر بھروسا کرنے میں ہچکچاتے نہیں تھے۔ ان کی صلاحیت جہاں اسلام کے لیے کام آسکتیں ، ان سے ضروراستفادہ کرتے۔
مشمولہ: شمارہ اپریل 2020