نماز کے اختلافات اور ان کا حل

ماہنامہ زندگی نو، جون ۲۰۱۶ء کے شمارے میں میری کتاب ’’ نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل ‘‘ کے سلسلے میں جناب غلام نبی کشافی صاحب کا مضمون شائع ہوا ۔ میں کشافی صاحب  کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کواپنی تحریر کا موضوع بنایا ، مزید اس وجہ سے بھی ان کا شکر گزار ہوں کہ ان کی تحریر پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں کچھ نئے خیالات آئے۔

میرا ارادہ تویہ تھا کہ تمام تبصروں پرکتاب کے اگلے ایڈیشن میں گفتگو کروں، لیکن مجلہ کے متعدد قارئین نے مجھ سے رابطہ کرکے اصرار کیا کہ مجلہ میں ہی میری طرف سے وضاحت آجانی چاہئے، اس کے علاوہ کچھ باتیں مضمون میں ایسی آگئی تھیں جن کی فوری وضاحت کی مجھے بھی ضروری محسوس ہوئی۔

میں کشافی صاحب سے واقف نہیں ہوں، لیکن تحریر پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ مطالعہ کا ذوق، لکھنے کا شوق اوردین کی حفاظت کا جذبہ ان کے اندر موجود ہے، اس جذبے کے ساتھ اگر کچھ اورباتوں پر بھی توجہ دیں تو دین کی خدمت کا بڑا کام کرسکتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تحقیق وتنقید کے عمل کے دوران نتیجہ اخذ کرنے میں جلد بازی سے اور الفاظ کے استعمال میں بے احتیاطی سے پرہیز کرنا چاہیے۔

کشافی صاحب کے یہاں مبالغہ آرائی بہت ہے ، اوراستدلال کا طریقۂ عجیب نظر آتا ہے ، مثال کے طور پر وہ اپنے مضمون میں دعویٰ کرتےہیں کہ ’’ آج کل اکثر مسلمان نمازکی صحیح صورت وہیئت اور اس کے احکام وآداب سے قطعی طور پر بے خبر نظر آتے ہیں ‘ ‘ ان کا کہنا ہے کہ ایسے علاقے ہیں’’ جہاں صدیوں سے چلے آئے اکثر مسلمان نماز ا ور ا س کے احکام وآداب سے مطلق بے خبر نظر آتے   ہیں اور وہ جس طرح کی نماز پڑھتے ہیں ، اس کی صورت یا نسبت حقیقی نما ز سے قطعی طو ر پر نہیں ملتی ۔‘‘ مزید یہ بھی کہ ’’عوام الناس سےزیادہ ائمہ مساجد نماز کے بنیادی مسائل سے بے خبر ہیں ’’ ان جملوں میں قطعی ، اور مطلق اوربنیادی جیسے لفظوں کا جس فیاضی سے استعمال کیا گیا ہے ، اس سے میں نے سوچا کہ بنیادی مسائل سے نابلد ہونے کی مثال وہ دیں گے کہ فلاں گاؤں کی مسجد میں لوگ ایک سجدے سے نماز پڑھتے ہیں ، یا بغیر رکوع کئے سجدے میں چلے جاتے ہیں ، لیکن انہوں نے مثال یہ دی کہ وہ ایک مسجد میں نماز پڑھنے گئے ، امام نے بھول کرتین رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دیا ، اور جب لوگوں نے بتایا ، تو امام صاحب نے بقیہ ایک رکعت پڑھنے اور سجدہ سہو کرنے کے بجائے نئے سرے سے پوری نماز پڑھائی ۔ پہلی عجیب بات تویہ ہے کہ یہ نماز کا بنیادی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ دوسری عجیب بات کشافی صاحب یہ خیال ہے  امام چونکہ نماز کے احکام سے واقف نہیں تھا ، اس لئے اس نے غلط طریقے پر عمل کیا ۔ حالانکہ بات یہ نہیں ہے امام نے غلط طریقے پر عمل نہیں کیا بلکہ حنفی مسلک کے لحاظ سے بالکل صحیح طریقے پر عمل کیا ، احناف کی مسجدوں میں ایسا ہی کیا جاتا ہے ۔ کشافی صاحب کےعلم میں غالباً یہ بات نہیں ہے اس لئے انہوں نے سمجھ لیا کہ مسجد والوں کو صحیح طریقہ معلوم ہی نہیں ہے اور پھر سجدہ سہو کے اس اختلافی مسئلہ کی بنیاد پر انہوں نے اتنا بڑا دعویٰ کیا کہ ائمہ مساجد نماز کے بنیادی مسائل سے بے خبر ہیں۔ویسے یہ اس زمانے کا بہت بڑا مسئلہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں ، کہ بس وہ صحیح نماز پڑھتے ہیں، باقی سارے مسلمان صحیح نماز سے قطعی اورمطلق اوربالکل بے خبر ہیں ، میں نے اپنی کتاب در اصل اسی کجی کا علاج کرنے کے لئے لکھی ہے ۔

مجھے اس سے بحث نہیں ہے کہ احناف کا طریقۂ درست ہے، یا دوسروں کا ۔ أصل بات یہ ہے کہ حنفی مسلمان اگر حنفی طریقے کے مطابق اوراہل ِ حدیث مسلمان اہلِ حدیث طریقے کےمطابق نماز ادا کررہےہوں، توہمیں ان کی نماز پر نکیر نہیں کرنا چاہئے ۔ ہمارے مصلحین سے کبھی کبھی یہ غلطی ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے اختیا ر کردہ طریقے سے مختلف طریقے کویکسر غلط سمجھ بیٹھتے ہیں، اور اس کی اصلاح کے لئے کمر بستہ ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجہ میں مسلکی تشدد اور مسلکی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں ۔ اسی لئے اہلِ علم نے انکا ر منکر کے سلسلے میں ایک اصول یہ بھی بتایا ہے کہ اگر کوئی ایسا مختلف فیہ کام ہو جواختلافِ تنوع سے تعلق رکھتا ہو، یا اجتہادی مسئلہ سے تعلق رکھتا ہو، تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہیے ۔ میں نے پوری کتاب میں در أصل یہی بات پیش کی ہے کہ نماز کے اختلافات یا تو تنوع کے اختلافات ہیں یا اجتہادی مسائل ہیں، اس لئے کوئی کسی کی نماز کو غلط نہ کہے ۔

میں بد دیانتی کا الزام نہیں لگاتا، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کشافی صاحب تنقید کرنے کےسلسلے میں جلد باز اورغیر محتاط واقع ہوئے ہیں ۔ میری کتاب کے بارے میں لکھتےہیں:’’ پوری کتاب میں براہِ رأست طور پر صرف دو حدیثیں ایک صفحہ ۱۶پر المستدرک للحاکم کےحوالے سے اوردوسری صفحہ ۳۱پر مسند سراج کے حوالے سے نقل کی گئی ہیں ۔ ان سے بظاہر عملی تواتر کے مفروضہ پرروشنی پڑتی ہے، اوراسی وجہ سے ان دو احادیث کوقابل استدلال سمجھا گیا ہے ۔ اس طرح ان لوگوں کے نزدیک حدیث بھی وہی صحیح اورقابلِ استدلال بن جاتی ہے جس سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو، خواہ وہ حدیث مسند سراج جیسی غیر معروف وغیر مستند کتاب ہی سے اخذ کیوں نہ کی جائے ۔جبکہ اس کتاب میں بخاری ومسلم اورصحاح ستہ کی دوسری مستند ومعتبر کتب احادیث کویکسر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔‘‘

اس مختصر سے پیرا گراف میں کتنی بے احتیاطوں کا صدور ہوا ہے، ذرا خود دیکھئے ۔ موصوف لکھتے ہیں:

’’پوری کتاب میں براہِ راست طورپر صرف دو حدیثیں ایک صفحہ ۱۶ پر المستدرک للحاکم کے حوالے سے اوردوسری صفحہ ۳۱ پر مستندسراج کے حوالے سے نقل کی گئی ہیں ۔‘‘ یہ بات کتنی جلد بازی میں لکھی گئی ہے ، اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جس صفحے پر مسند سراج کی حدیث ہے ، اسی صفحے پر  اس سے بالکل متصل سنن ابن ماجہ کی حدیث بھی مذکورہے ۔ صاف صاف لکھا ہے : ’’ سنن ابن ماجہ کی روایت کے الفاظ یوں ہیں : انس بن مالک سے صبح کی نماز میں قنوت کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا : ہم رکوع سے پہلے بھی قنوت پڑھتے تھے ، اوررکوع کے بعد بھی ۔ سُئِلَ عَنِ الْقُنُوْتِ فِیْ صَلاَۃِ الْصُبْحِ ، فَقَالَ: کُنَّا نَقَنْتُ قَبْلَ الرُّکُوْعِ وَبَعْدَہٗ

کشافی صاحب، اس سے اتفاق کریںگے کہ سنن ابن ماجہ صحاح ستہ میں شامل ہے، چنانچہ امید ہے کہ اپنے اس إلزام سے رجوع کرلیں گے کہ ’’ اس کتاب میں بخاری ومسلم اور صحاح ستہ کی دوسری مستند ومعتبر کتب واحادیث کویکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔‘‘میں یہ إلزام نہیں لگاوں گا کہ قصداً غلط بیانی سے کام لیا گیا البتہ یہ ضرور کہوں گا کہ موصوف نے بہت جلد بازی سے کام لیا، جس کا یہ نتیجہ سامنے آیا ۔ کشافی صاحب کی یہ بات مجھے عجیب سی لگی کہ جب تک کوئی صحاح ستہ سے بڑی تعداد میں حدیثیں اپنی کتاب میں ذکر نہ کرے، وہ حدیث کا احترام کرنے والا نہیں مانا جائے گا؟ ۔ مو لانا مود ودی کی مشہور کتاب خطبات ہے، اس کا پہلا حصہ ایمان کے بارے میں ہے، اورتقریباً ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے ،  قابلِ ِذکر بات یہ ہے کہ اس میں ایک بھی حدیث کا حوالہ نہیں ہے ۔ کیا کسی کے لئے یہ کہنا درست ہوگا کہ مولانا مودودی نے خطبات کے فلاں فلاں حصوں میں حدیثیں ذکر نہیں کیں، اس لئے انہیں حدیث کی اہمیت کم کرنے والا قراردیا جائے؟ قابل ذکربات یہ ہے کہ مولا نا مودودیؒ پر انکار حدیث اورتوہینِ حدیث کا إلزام لگانے والوں نے یہ بات لکھی ہے کہ مودودی صاحب اپنی بیشتر کتابوں میں حدیثیں ذکر کرنے کا اہتمام نہیں کرتے۔

کشافی صاحب کوغالباً جلد بازی میں ایک غلط فہمی اورہوگئی، میں نے مسند سراج کی صحیح حدیث عملی تواتر کوثابت کرنے کے لئے ذکر نہیں کی ہے، جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے اورواقعہ یہ ہے کہ اس حدیث سے عملی تواتر ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ میں نے وہ صحیح حدیث یہ بتانے کے لئے ذکرکی ہے کہ مسنون نماز کے ایک سے زیادہ طریقے ہوسکتے ہیں ۔

میں نے مسند سراج کی بالکل صحیح حدیث ذکر کی تو موصوف نے تبصرہ کیا کہ ’’ ان لوگوں کے نزدیک حدیث بھی وہی صحیح اورقابلِ استدلال بن جاتی ہے جس سے ان کے موقف کی تائید ہوتی ہو ‘‘ ، اگر میں نے کوئی ضعیف حدیث ذکر کی ہوتی تب تو تنقیدی فقرہ بجا ہوتا ، لیکن میں نے تو بالکل صحیح حدیث ذکر کی ، اورساتھ ہی یہ بھی لکھا کہ اس روایت کوحدیث کے بہت  بڑے محقق شیخ ناصر الدین البانی نےصحیح قرار دیا، اور یہ بات توسب لوگ جانتے ہیں ، کہ شیخ البانی کے حدیث کوپرکھنے کے پیمانے کتنے سخت ہیں ۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایک صحیح حدیث سے میں استدلال کروں اورآپ اس پر نقد فرمائیں، یہ کہاں تک مناسب بات ہے؟ کشافی صاحب، نے مسند سراج کوغیر معروف قرار دیا ہے ۔ میرے نزدیک یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، طالب علمی کے زمانے میں میں نے بھی حدیثوں کے متعدد مجموعوں کے نام نہیں سنے تھے، اورمیری معلومات مشکوٰۃ اورصحاح ستہ تک ہی محدود تھیں، یہی نہیں، بلکہ فقہ کے سلسلے میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ فقہ کے بس چار امام ہیں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حدیث کے تو متعدد مجموعے ہیں جوعلمائے کرام کے یہاں معروف ہیں اورعام لوگوں کے لئے غیر معروف ہیں ۔ فقہ کے بھی متعدد امام گزر ے ہیں، لیکن عوام بس چار سے ہی واقف ہیں۔

لیکن کشافی صاحب، نے مسند سراج کو غیر مستند بھی قرار دیا، یہ البتہ سنگین بات ہے۔ غیر معروف کہنے کے لئے تو شاید کسی تحقیق کی ضرورت نہ ہو، لیکن حدیث کی کسی کتاب کو غیر مستند تو اسی صورت میں کہا جاسکتا ہے، جبکہ واقعی تحقیق سے اس کا غیر مستند ہونا ثابت ہوجائے۔ مسند سراج کے مصنف تو امام محمد بن اسحاق نیشاپوری ہیں جو امام بخاری کے ہم زمانہ تھے۔ اور ثقہ محدثین میں شمار کئے جاتے تھے۔اور مسند سراج کی حدیثوں کو محققین حدیث کے سردار حافظ ابن حجر اپنی کتاب میں جگہ جگہ کثرت سے ذکر کرتے ہیں۔ دیگر محققین کے علاوہ دور حاضر کے عظیم محقق حدیث علامہ ناصر الدین البانی بھی اپنی تحقیقات میں مسند سراج کا بڑے اہتمام سے جابجا حوالہ دیتے ہیں۔ مشہور اہل حدیث عالم شیخ ارشاد الحق اثری نے مسند سراج کی تحقیق وتخریج کا کام بھی انجام دیا ہے۔ اگر اس کے غیر مستند ہونے کا ثبوت ہو تو ضرورسامنے لایا جائے۔ ورنہ حدیث کے ایک اہم مجموعہ کوجس میں ڈیڑھ ہزار حدیثیں موجود ہیں، بلا تحقیق غیر مستند کہہ دینا بہت سنگین بات ہے۔ میں نے اپنی کتاب میں کسی ایک بھی حدیث کا انکار نہیں کیا اور مجھے منکرین حدیث میں شامل کیا جارہا ہے بلکہ ان سے بھی گیا گزرا قرار دیا، اور خود محترم نقاد نے حدیث کے پورے ایک مجموعہ کو غیر مستند قرار دے دیا جسے بڑے بڑے محققین مستند مانتے ہیں۔کشافی صاحب نے ایک مقام پر لکھا:’’ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے صحابہ کرام بھی ایک دوسرے کی نماز دیکھنے اور سیکھنے کے باوجود صحیح طریقے سے نماز نہیں پڑھ پاتے تھے‘‘پھر آپ نے اس آدمی کی مثال دی جس نے اللہ کے رسول ﷺ کے سامنے غلط طریقے سے نماز پڑھی۔

میں اس مثال پر توہین صحابہ کا إلزام نہیں لگاسکتا، کیونکہ یہ بہت سنگین إلزام ہے، لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ یہاں قلم چلانے میں حد سے زیادہ جلد بازی اور بے احتیاطی سے کام لیا گیا ہے۔مجھے ذرا بتائیے کہ وہ بہت سے صحابہ کرامؓ کون تھے جو دیکھنے اور سیکھنے کے باوجود صحیح طریقے پر نماز نہیں پڑھ پاتے تھے؟ آخر وہ کون سی روایتیں ہیں جن میں بہت سے صحابہ کرامؓ کے بارے میں یہ بات بیان کی گئی ہے۔

ایک گمنام آدمی، جس کے بارے میں یہ بھی نہیں معلوم کہ اس نے کتنے سال پہلے اسلام قبول کیا، اور نماز سیکھنے کا اسے کتنا موقعہ ملا، اس نے آکر غلط نماز پڑھی، اور پھر اللہ کے رسول نے جس طرح سب کو نماز سکھاتے تھے، اس کو بھی نماز پڑھنا سکھا دی، اور وہ یقینا سیکھ بھی گیا، اس کے واقعہ کا حوالہ دے کر یہ کہنا کہ بہت سے صحابہ کرام کو دیکھنے اور سیکھنے کے باوجود نماز پڑھنا نہیں آتا تھا، بڑی جسارت کی بات ہے۔ ایسے تو کوئی ایک بدو کے واقعہ کو دلیل بنا کر یہ نازیبا بات بھی کہہ سکتا ہے کہ بہت سے صحابہ مسجد کے فرش پر پیشاب کیا کرتے تھے۔ اللہ ہمیں ایسی بے احتیاطیوں سے محفوظ رکھے۔

میرا یقین ہے، کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ہر صحابی نماز کو صحیح ترین اور بہترین طریقے سے ادا کرتا تھا۔ پورے ذخیرہ حدیث میں کوئی ایک مثال ایسی نہیں ہے کہ کسی صحابی رسولؐ نے اللہ کے رسول سے یا اکابر صحابہ ؓسے نماز پڑھنے کا صحیح طریقہ ایک بار سیکھا ہو، اور اسے پھر دوبارہ سکھانا پڑا ہو۔میں نے یہ بات اپنی کتاب میں لکھی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺکے ساتھ صحابہؓ نے اٹھارہ ہزار سے زیادہ مرتبہ نماز پڑھی۔اور مدینے کی زندگی میں صحابہ دس سال تک اللہ کے رسول ﷺ کی نگرانی میں نماز پڑھنا سیکھتے اور سکھاتے رہے، او رہزاروں صحابہ کرامؓ نے لاکھوں تابعین کرام کو پچاس سال تک نماز پڑھنا سکھایا، اور بس یہی ہے وہ عملی تواتر، جس پربرہمی کا اظہار کیا جارہا ہے۔

کشافی صاحب لکھتے ہیں:’’حقیقت یہ ہے کہ پوری کتاب اسی طرح کے منتشر ومتضاد خیالات کا مرقع پیش کرتی ہے اور احادیث وروایات پر تیکھے حملے کرکے نماز کے انہی طریقوں کو درست قرار دیا گیا ہے جو عملی تواتر سے ثابت ہیں، جو کہ محدثین کی محنت شاقہ اور کتب احادیث کے ساتھ کھلا مذاق ہے‘‘ مجھے تو اپنے خیالات میں کوئی تضاد نظر نہیں آتا،اور دوسری بات یہ کہ میں نے اپنی پوری کتاب میں کسی ایک بھی حدیث پر کوئی حملہ نہیں کیا ہے۔میں خدا کی پناہ لیتا ہوں اس بات سے کہ کسی صحیح حدیث پر میں کوئی حملہ کروں۔میرے نزدیک کسی صحیح حدیث پر حملہ کرنے والا مسلمان ہی نہیں ۔میں نے کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ بس وہی طریقے درست ہیں جو عملی تواتر سے ثابت ہیں۔ میں نے تو بار بار یہ لکھا ہے کہ أمت میں نماز کے جتنے طریقے رائج ہیں وہ سب عملی تواتر سے أمت کو ملے ہیں اور وہ سب درست ہیں۔ میں نے اپنی پوری کتاب میں کسی ایک بھی صحیح حدیث کا انکار نہیں کیا ہے، اور کسی بھی ایسے طریقے کو غلط نہیں کہا ہے جس کے حق میں کوئی صحیح حدیث موجود ہو۔ میں نے جو کیا وہ ایک سنجیدہ کوشش ہے، کہ لوگ اپنے اپنے طریقے کو صحیح ثابت کرنے کے لئے احادیث کو تختہ مشق نہ بنائیں۔

موصوف کہتے ہیں:’’ عملی تواتر کے مفروضہ کی وکالت کرنا محض ایک فریب ہے۔ اور اس کے پیچھے أصل مقصد احادیث کی اہمیت کو گھٹانا ہے۔ حالانکہ سنت نبوی کا عملی تواتر صرف ایک نسل یعنی صحابہ وخلفاء راشدین تک محدود ومعروف رہا ہے ‘‘میں اللہ کو گواہ بناکر اعلان کرتا ہوں کہ میرا مقصداحادیث کی اہمیت کو گھٹانا نہیں ہے، بلکہ أمت کے دلوں میں نماز کا اعتماد بحال کرنا ہے، میرا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگ احادیث کی بنا پر اپنی نماز کو صحیح ضرور سمجھیں، لیکن بعض احادیث کو بنیاد بناکر ایک دوسرے کی نماز کو غلط قرار نہ دیں۔ کشافی صاحب، کی یہ بات کہ’’ سنت نبوی کا عملی تواتر صرف ایک نسل یعنی صحابہ وخلفاء راشدین تک محدود ومعروف رہا ہے ‘‘دلیل چاہتی ہے علماء اسلام اور محققین کرام میں سے کسی ایک کا حوالہ دیا جائے جس نے یہ بات کہی ہو۔

محترم نقادکہتے ہیں:’’ عملی تواتر کے مفروضہ کی صورت میں انھوں نے نئی نسل کو احادیث نبوی سے بدظن کرنے کی ایک ناپسندیدہ کوشش کی ہے‘‘یہ بات عملی تواتر کو سمجھے بغیر کہی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عملی تواتر کا صحیح احادیث سے کوئی تعارض ہوہی نہیں سکتا، بلکہ عملی تواتر سے تو حدیثوں کو اور قوت حاصل ہوتی ہے۔اگر اس کی دلیل چاہئے تو سنن ترمذی کا مطالعہ کریں، امام ترمذی جگہ جگہ اہل علم کے عمل کا حوالہ دے کر حدیثوں کو تقویت پہنچاتے ہیں۔

عملی تواتر تو ہم تک سنت رسول کے پہنچنے کا ایک نہایت معتبر ذریعہ ہے، عملی تواتر کے بارے میں امام ربیعۃ الرأی کا زبردست قول میری کتاب کی پیشانی پر چمک رہا ہے، کہ’’ ہزار کی ہزار سے روایت ایک کی ایک سے روایت کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہے‘‘عملی تواتر تو امام مالک کی فقہی بصیرت کا امتیاز ہے، اور اس کا ذکر تو عام طور سے ہر مسلک کے فقہاء کرام کی کتابوں میں موجود ہے۔ عملی تواتر تو سنت رسول ﷺ کو جاننے کا ایک نہایت مستند ذریعہ ہے، وہ کوئی مفروضہ ہرگز نہیں ہے۔

میں درخواست کرتا ہوں کہ میری کتاب کو پڑھنے کے بعد ہی میرے اور میری کتاب کے سلسلے میں کوئی رائے قائم کریں۔ میں نے اس یقین کے ساتھ کتاب لکھی ہے کہ اس کی وجہ سے ہرصحیح حدیث پر عمل کرنا آسان ہو گا۔ اور ہر سنت نبوی سے اپنا رشتہ مضبوط ہوگا۔ أمت میں جو سنت نبوی کی تقسیم ہوگئی ہے، اور لوگوں نے سنتوں کو آپس میں بانٹ لیا ہے، وہ تقسیم ختم ہوگی، ہر مسلمان جس سنت نبوی پر چاہے، شوق سے عمل کرسکے گا۔ لوگ اپنی نمازیں پورے اطمینان واعتماد کے ساتھ پڑھیں گے، اور دوسروں کی نمازوں کا احترام کریں گے۔ اور نماز کے ذریعہ امت میں اتحاد واتفاق کی فضا پیدا ہوگی۔ یہی میرا مقصد ہے۔

تکلیف دہ بات یہ ہے کہ کشافی صاحب نے اپنے مضمون میں تین جگہ میرے اوپر الزام لگایا کہ میں نے حدیث کو خارزار قرار دیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں:’’کس طرح مصنف کتاب احادیث نبوی سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ان کوخارزار قرار دیتے ہیں‘‘  دوسری جگہ لکھتے ہیں:’’کتب احادیث میں بعض جزوی اختلافات ، جو اصل میں تنوع وتوسع کے معنی میں ہیں، کو خارزار قرار دیا ہے‘‘ تیسری جگہ پھر لکھتے ہیں: ’’بدقسمتی سے مصنف کتاب نے منکرین حدیث سے دو قدم آگے بڑھ کر اختلافی امور کی آڑ لے کر حدیث کو خارزار قرار دیا ہے‘‘

اس اذیت ناک إلزام کے لئے میری کتاب سے جو حوالہ دیا گیا ہے، وہ میں یہاں ذکر کردیتا ہوں، تاکہ قارئین خود فیصلہ کرسکیں کہ میں نے خارزار کسے کہا ہے۔ میری عبارت کے الفاظ یہ ہیں:

’’سید مودودی کا یہ موقف واضح اور دو ٹوک ہے کہ نماز کے وہ تمام طریقے جو مختلف مسلکوں کی طرف منسوب ہیں، وہ سب طریقے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں، لیکن ان کا یہ کہنا کہ ’’ ہر ایک نے معتبر روایات ہی سے اس کو لیا ‘‘ محل نظر ہے، واقعہ یہ ہے کہ نماز کے متعلق بہت زیادہ اختلاف اسی امر میں ہے کہ کس کے طریقے کی پشت پر معتبر روایتوں کی قوت موجود ہے، نماز کے طریقے سے متعلق اہل حدیث حضرات کی کتابیں اٹھاکر دیکھیں، وہ جگہ جگہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ حنفی، یا شافعی ، یا مالکی طریقہ نماز کے سلسلے میں مذکور روایتیں کمزور اور غیر معتبر ہیں۔ آپ احناف کی کتابیں دیکھیں تو جگہ جگہ یہ بات ملے گی کہ دوسرے لوگوں کی نماز کے طریقہ سے متعلق حدیث اگر چہ صحیح اور معتبر ہے لیکن منسوخ ہے۔ اس لیے احادیث کی بنیاد پر نماز کے تمام طریقوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت قرار دینا وہ خارزار ہے جس میں داخل ہوجانے کے بعد خراشوں کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا، بلکہ بعض اعمال جیسے خواتین کی نماز کے مختلف طریقے سے متعلق تو کوئی صحیح روایت ہے ہی نہیں ، ایسی صورت میں یہ دعوی کرنا کہ نماز کے تمام طریقے معتبر احادیث سے ثابت ہیں، نہ تو تحقیق سے ثابت ہوتا ہے اور نہ تمام لوگوں کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عملی تواتر کی روشن اور قطعی دلیل کو سامنے رکھا جائے تو بلاشبہہ یہ ثابت ہوجاتاہے کہ نماز کے تمام طریقے درست ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں اور عین سنت کے مطابق ہیں۔‘‘

کشافی صاحب، خدا کے لئے میری عبارت کو ایک بار اور پڑھ کر بنائیں کہ آیا میں نے احادیث کو خارزار کہا ہے، یا ان لوگوں کے رویہ کو خارزار کہا ہے جواپنے مسلک کی یا ہر مسلک کی نماز کے ہر ہر طریقے  کے لئے یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ صحیح حدیث سے ثابت ہو، اور پھر زبردستی یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا طریقہ نماز یا سارے طریقہ ہائے نماز صحیح حدیث سے ثابت ہیں؟مجھے کامل یقین ہے کہ اللہ کی عدالت میں مجھے ضرور انصاف ملے گا۔ میں اللہ کو گواہ بناکر مدیر محترم اور مضمون نگار دونوں کی زیادتی کو معاف کرتا ہوں، اس امید پر کہ اللہ اس کے صلے میں میری بہت سی غلطیوں کو معاف کردے۔

یہ گزارش ضرور کروں گا، کہ قلم کے سلسلے میں احتیاط سے کام لیں، قلم خدا کی امانت ہے ۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2016

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223