جدید ڈیجیٹل ترقی نے ’’ہمسائیگی‘‘ کے تصور میں زبردست تبدیلی پیدا کردی ہے۔ آج کے ہنگامہ خیز ڈیجیٹل منظر نامے میں کروڑوں لوگوں کی صبح ان ورچوئل کمیونٹیوں کی اطلاعات اور ترسیلات سے ہوتی ہے جوجغرافیوں اور سرحدوں کی پابند نہیں۔ ہمارا پڑوس اب ہمارے گھر وں سے ملحق یا اس کے آس پاس کے گھروں تک محدود نہیں رہا بلکہ ہمارے ہمسایوں میں اب وہ افراد بھی شامل ہیں جن کے ساتھ ہمارا مستقل تعامل فیس بک، وہاٹس ایپ، سلیک اور دیگر پلیٹ فارموں کے ذریعے قائم ہوتا ہے۔ یہ پلیٹ فارم وہ ڈیجیٹل محلے ہیں جن پر کبھی کبھی حقیقی پڑوس کا گمان ہوتا ہے کیوں کہ لوگوں سے لین دین، معاملات اور تعلقات کی وہی دنیا یہاں بھی آباد ہے جو حقیقی پڑوس میں ہوتی ہے۔ فرق صرف فزیکل اور ورچوئل کے ڈیجیٹل پردے کا ہے۔
’’ڈیجیٹل ہمسائیگی‘‘ سے مراد کسی بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم، آن لائن گیمنگ کمیونٹی، یا پیشہ ورانہ نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم پر لوگوں کا کسی خاص یا عمومی مقصد سے عارضی یا دیرپا رابطے کے لیے یکجا ہونا ہے۔ یہ ایک ایسا ورچوئل اسپیس ہے جہاں مشترکہ مفادات، اہداف، یا شناخت والے لوگ تعامل، تعاون اور تعلقات استوار کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ جغرافیائی ہمسائیگی کے برعکس، یہ ڈیجیٹل برادریاں طبیعی سرحدوں، ٹائم زون اور ثقافتی رکاوٹوں سے بے نیاز ہیں، جس سے عالمی اتحاد اور تعاون کے بے مثال مواقع پیدا ہوتے ہیں۔
ذرا یہ اعداد و شمار دیکھیے۔ فیس بک ماہانہ 3 ارب سے زائد صارفین کی میزبانی کرتا ہے جب کہ واٹس ایپ روزانہ 100 ارب سے زائد پیغامات کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ لنکڈ ان جیسے پیشہ ورانہ پلیٹ فارم کیریئر کی تعمیر کے ضروری اوزار بن گئے ہیں، جو دنیا بھر میں 930 ملین پیشہ ور افراد کو آپس میں جوڑتے ہیں۔ ڈیجیٹل اسپیس نے مسلم امت کو بھی اسلامی اخوت کے رشتوں کو استوار ، دینی علوم کی اشاعت اور سرحدوں سے ماورا ایک دوسرے کی مدد کرنے کے قابل بنایا ہے جن کا اس سے پہلے کبھی تصور نہیں کیا گیا تھا۔
انسانوں پر اجتماعی زندگی میں جو سماجی ضابطے اور اصول عائد ہوتے ہیں ، ڈیجیٹل اسپیس میں وہ ساقط نہیں ہو جاتے۔ لیکن جب ڈیجیٹل ہمسائے ان ضابطوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری نہیں کرتے تو اس کے نتائج ذاتی تعلقات کی خرابی سے کہیں زیادہ سنگین ہوتے ہیں۔ بگڑے ہوئے پڑوسی حقیقی زندگی کی طرح ہمسایوں کی تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔
سائبر کرائم بھی بگڑے ہوئے پڑوسیوں ہی کا شاخسانہ ہیں جن کے عالمی معاشی نقصان سالانہ 7 سے 10 ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جب کہ کام کی جگہ پر رویوں کے بگاڑ سے – جو اب بیشتر ڈیجیٹل فارمیٹس میں انجام پاتا ہے – صرف امریکی کاروباروں کو ہر سال 20 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوتا ہے۔ کووڈ-19 کی وبا کے بعد عالمی سطح پر انٹرنیٹ کے استعمال میں 50-70 فیصد اضافہ ہو گیا، لیکن اس کے ساتھ سائبر ہراسانی اور ڈیجیٹل انتشار میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا۔ بعض ڈیجیٹل پلیٹ فارم بدترین انسانی رویوں کا آلہ کار بن گئے – جن میں ٹرولنگ، ہراسانی، رازداری کی خلاف ورزیاں، اور برق رفتاری سے جعلی معلومات کا پھیلاؤ شامل ہیں۔
ان رویوں کا معاشی نقصان چشم کشا ہے۔ آن لائن ہراسانی پر آمدنیوں کا شدید نقصان ہو رہا ہے۔ ڈیجیٹل رویوں کی بنا پر ہونے والے ذہنی صحت کے مسائل پر کروڑوں ڈالر کے اخراجات ہو رہے ہیں۔ کام کی جگہ پر اہانتی رویے (workplace bullying ) انفرادی بلنگ ڈیجیٹل چینلوں پر تیزی سے ظاہر ہو رہی ہے جس سے اوسطاً سالانہ پیداواری صلاحیت میں چار سے پانچ ہزار ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ سائبر بلنگ کے متاثرین میں خودکشی کی کوشش کرنے کا امکان 3.44 گنا زیادہ پایا گیا ہے۔
یہ محض اعداد و شمار نہیں ہیں۔ لاکھوں تباہ کیریئر، معاشی اتھل پتھل، منتشر ذہنی صحت ڈیجیٹل اسپیس کے وہ اثرات ہیں زبان حال سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ جب ڈیجیٹل دنیا کے اصولوں کو پامال کیا جاتا ہے اور ڈیجیٹل ہمسایوں کے حقوق نظر انداز کیے جاتے ہیں تو حقیقی دنیا بھی اس کے بحرانی عواقب سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔
یہ اعداد و شمار ایک بنیادی حقیقت کی نشان دہی کرتے ہیں، وہ یہ کہ ہمارے ڈیجیٹل پڑوس کا معیار بلا واسطہ نہ صرف ہمارے آن لائن تجربے کو بلکہ ہماری جسمانی صحت، معاشی خوشحالی اور سماجی استحکام کو بھی متاثر کرتا ہے۔
ٹرولنگ: ڈیجیٹل اذیت رسانی
ڈیجیٹل اسپیس کے تاریک ترین پہلوؤں میں ایک ایسا رجحان مضمر ہے جو براہ راست باہمی حقوق کی پامالی کا نتیجہ ہے: ٹرولنگ۔ ٹرولنگ 1980 اور 1990 کی دہائی میں نسبتاً بے ضرر چھیڑ چھاڑ کے طور پر شروع ہوئی تھی لیکن آج ایک مذموم رویے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جدید ٹرول جان بوجھ کر اشتعال انگیز، بدنیتی پر مبنی، یا بدسلوکی والے مواد کے ساتھ افراد کو نشانہ بناتے اور انھیں نفسیاتی نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ ڈیجیٹل کمیونی کیشن کی گمنامی اور فاصلے کا فائدہ اٹھاکر ایسے رویے میں مشغول ہوتے ہیں کہ حقیقی زندگی میں شاید اس سے گریز برتیں۔ حالیہ تحقیق سے ٹرولنگ کی تباہ کن طاقت کی حقیقی شدت کا پتہ چلتا ہے۔ ایک مطالعے کے مطابق یونیورسٹی کے 74 فیصد طلبا ہفتے میں کم از کم ایک بار آن لائن ٹرولنگ کا شکار ہوتے ہیں جب کہ 16 سے 18 سال کی عمر کے 42.8 فیصد نوعمر افراد سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر ٹرول کیے جانے کی اطلاع دیتے ہیں۔ اس کے نفسیاتی نتائج شدید اور دیرپا ہیں۔ ٹرول نوعمروں میں سے 67٪ ڈپریشن کی علامات پیدا کرتے ہیں، جس میں ٹرولنگ کے تجربات اور ڈپریشن کے وقوعات کے مابین ایک مضبوط ارتباط پایا گیا ہے۔ اس کے معاشی مضمرات بھی حیران کن ہیں۔ پیداواری صلاحیت میں کمی، غیر حاضری میں اضافہ، اور صحت کی دیکھ بھال پرمصارف کی وجہ سے تنظیموں کو سالانہ ایک لاکھ ڈالر تک کے اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آن لائن مواد بنانے والے جو جدید ڈیجیٹل معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کہلاتے ہیں، ٹرولنگ کی وجہ سے وسیع پیمانے پر سیلف سنسرشپ، ترغیب میں کمی اور تخلیقی اظہار سے گریز کرتے ہیں۔ بہت سے لوگ اپنے پلیٹ فارم کو مکمل طور پر ترک کر دیتے ہیں، جو انسانی تخلیقی صلاحیتوں اور معاشی صلاحیت کا بڑے پیمانے پر خسارہ ہے۔
شاید سب سے زیادہ پریشان کن بات ٹرولنگ کی انٹرنیٹ پر وائرل ہونے کی نوعیت ہے۔ اسٹینفورڈ اور کارنیل یونیورسٹیوں کی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ٹرولنگ کا رویہ متعدی (infectious)ہے، جو ڈیجیٹل کمیونٹیوں کے اندر کسی فرد سے دوسرے میں پھیلتا ہے۔ ٹرول پوسٹوں کا شکار ہونے والے صارفین میں خود ٹرولنگ کے رویے میں مشغول ہو جانے کا امکان نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے، جس سے ایسے اثرات پیدا ہوتے ہیں جو پورے آن لائن ماحول کو زہرناک بنا سکتے ہیں۔ مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ خراب موڈ اور سابقہ ٹرولنگ سے سابقہ کسی شخص کے ٹرولنگ کے رویے میں ملوث ہونے کی بنیادی شرح کو دوگنا کر سکتا ہے۔ بیشتر افراد کسی نہ کسی شکل میں ڈیجیٹل جارحیت (digital bullying) کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ توسیع پاکر ایک اجتماعی کوشش بن جاتی ہے، جس میں سب سے عام ٹرولنگ رویہ لائک، شیئر اور ری شیئر کرنا ہوتا ہے، گویا اس کے ذریعے ٹرولنگ کے تبصروں کی تائید اور اشاعت کی جاتی ہے۔ اس ’’اجتماعی ٹرولنگ‘‘ سے مضر مواد کی اصل مجرم کی کم سے کم کوشش کے ساتھ بڑے پیمانے پر تشہیر و تبلیغ ہو جاتی ہے۔
ڈیجیٹل اذیت رسانی کی نفسیات
عام لوگ ڈیجیٹل اذیت رساں کیوں کر بن جاتے ہیں؟ نفسیاتی تحقیق ایسے کئی اہم عوامل کی نشان دہی کرتی ہے۔ انٹرنیٹ پر چوں کہ غیراخلاقی واردات انجام دینے والا مزعومہ گمنامی (anonymity) میں ہوتا ہے جسے لگتا ہے کہ اس کی شناخت پردے میں رہے گی۔ یہ یقین ایک ایسے احساس کو جنم دیتا ہے جسے ماہرین نفسیات disinhibition effect کہتے ہیں یعنی مذموم حرکت انجام دینے میں شناخت ظاہر ہونے کا جو اندیشہ تھا وہ باقی نہ رہا، اور گویا ٹرولنگ کرنے میں یہ آخری رکاوٹ بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اس بنا پر ایک عام فرد ایسے رویے میں ملوث ہوجاتا ہے جسے غالباً حقیقی زندگی میں وہ کبھی انجام دینے کا خیال دل میں نہ لائے۔ ٹرول اور شکار کے درمیان پردہ اور دوری وہ نفسیاتی فاصلہ پیدا کرتے ہیں جو احساسِ ہمدردی اور اخلاقی ضبط کو ختم کر دیتے ہیں۔ اقبال کے الفاظ میں
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ٹرول اکثر اسی بے مروتی (low empathy) کا مظاہرہ کرتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے انھیں مسرت ہو سکتی ہے۔ تاہم اسٹینفورڈ-کارنیل کی تحقیق اس مفروضے کو چیلنج کرتی ہے کہ ٹرولنگ بنیادی طور پر کوئی فطری شخصی خصوصیت (personality trait)ہے۔ ان کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ حالات مثلاً خراب موڈ، پہلے سے ٹرولنگ سے سابقہ پڑنا، اور بحث کا سیاق و سباق ، عام صارفین کو بھی ٹرول جیسے رویے میں مشغول ہونے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔
اس تحقیق کے ڈیجیٹل ہمسائیگی کے لیے گہرے مضمرات ہیں۔ اگر ٹرولنگ شخصی خصوصیت سے زیادہ حالات کی بنیاد پر کی جاتی ہے تو پلیٹ فارم ڈیزائن، کمیونٹی کی تعدیل، اور ثقافتی اصولوں میں تبدیلیاں ڈرامائی طور پر اس کے پھیلاؤ کو کم کرسکتی ہیں۔ گویا اس کا حل کی کلید ایسا ڈیجیٹل ماحول پیدا کرنے میں مضمر ہے جو اس طرح کے تباہ کن محرکات اور رویوں کی پذیرائی کرنے کے بجائے مثبت رویوں کو فروغ دے۔
ڈیجیٹل ہمسایوں کے لیے اسلامی رہ نمائی
ڈیجیٹل خرابی کی اس افراتفری میں اسلام اخلاقی رویوں کے لیے ایک جامع فریم ورک پیش کرتا ہے جو ہمارے عصری چیلنجوں کا حل پیش کرتا ہے۔ حقوق ہمسایہ کے بارے میں سورہ نساء کی آیت 35، ڈیجیٹل کمیونٹیوں کے لیے ایک روشن اصول فراہم کرتی ہے۔ ’’اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ اور قرابت دار ہمسائے اور اجنبی ہمسائے کے ساتھ اور ہم نشین ساتھی اور مسافر کے ساتھ نیک سلوک کرو۔‘‘
یہ الہی فرمان قریب و دور کے پڑوسیوں کے لیے سماجی ذمہ داری کا ایک سلسلہ مراتب (hierarchy) تشکیل دیتا ہے۔ ہمارے ڈیجیٹل دور میں، ہمارے ’’قریبی پڑوسی‘‘آن لائن ورک گروپوں میں وہ افراد ہو سکتے ہیں جن سے ہمارا سابقہ زیادہ کثرت سے ہوتا ہے، جب کہ ’’دور کے ہمسایوں‘‘ میں وہ وسیع تر کمیونٹیاں شامل ہیں جن کے ساتھ ہم کبھی کبھار سوشل پلیٹ فارموں پر مشغول ہوتے ہیں۔
اسلام نے ہمسائے کے ساتھ حسن سلوک کے وہ اصول دیے ہیں جو آج ٹرولنگ اور ڈیجیٹل ہراسانی کے بحرانوں کا مداوا ہیں۔حدیث مبارکہ ’’اللہ کی قسم، وہ شخص مومن نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘ میں یہ تاکید اس بات کی غماز ہے کہ اسلام انسانوں کو انسانوں کے شر سے بچانے کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ ڈیجیٹل ماحول پر بھی یہ اصول یکساں زور کے ساتھ لاگو ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں اسی بات کو مزید تقویت دیتے ہوئے فرمایا گیا ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو۔‘‘
قرآن حکیم ان رویوں پر سخت گرفت کرتا ہے جن سے جدید ٹرولنگ غذا پاتی ہے۔ سورة الحجرات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! نہ مردوں کی کوئی جماعت دوسرے مردوں کا مذاق اڑائے ممکن ہے وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں کیا عجب وہ ان سے بہتر نکلیں۔‘‘ (الحجرات 11:49)
یہ آیت کریمہ براہ راست ٹرولنگ کے رویے کے بنیادی عناصر سے منع کرتی ہے:
- تمسخر یا مذاق اڑانا: اکسانے یا بھڑکانے کے لیے دوسروں کا مذاق اڑانا
- تحقیر: دوسروں کے کردار یا ساکھ پر حملہ کرنا
- برے القاب سے پکارنا: دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے تحقیر آمیز القاب کا استعمال کرنا
تمسخر، تحقیر اور برے القاب سے پکارنے کا رویہ خواہ وہ الفاظ کے ذریعے ہو، یا لطیف اشاروں، نقل وغیرہ کے ذریعے، اس عمومی نتیجہ دوسروں کی دل آزاری کرنا، انھیں حقیر ٹھہرانا۔ اس کی عام علت استکبار ہے یعنی خود کو دسروں سے برتر قرار دینا۔ قرآن حکیم نے اس طرف ایک بلیغ اشارہ کردیا ’’ہو سکتا ہے وہ تم سے بہتر ہوں۔‘‘ گویا یہ آیت ٹرولنگ کرنے والوں کی اس برتری کی نفسیات کو چیلنج کرتی ہے۔
اسلام کے نزدیک زبانی زیادتی اور جسمانی تشدد کی شدت و شناعت میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ایک حدیث ہے کہ’’کسی مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ (بخاری اور مسلم)۔ اس حدیث کا موازنہ جدید نفسیات کے اس مسلمہ سے کیجیے کہ بسا اوقات انسان کے الفاظ جسمانی چوٹوں سے زیادہ دیرپا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ایک اور حدیث سے ڈیجیٹل رویے کے لیے رہ نمائی ملتی ہے: ’’مومن نہ تو طعنے دینے والا ہوتا ہے اور نہ لعنتیں کرنے والا، نہ فحش کلامی کرنے والا ہوتا ہے اور نہ گالی گلوچ کرنے والا۔‘‘ (صحیح الادب المفرد)۔ مذاق کرتے وقت بھی اہل ایمان کو ایسی زبان سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے دوسروں کو تکلیف یا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو یا ان کی تذلیل ہو سکتی ہو۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے مزاح کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا: ’’میں سچ کے سوا کچھ نہیں کہتا‘‘ (ترمذی)
درج بالا گفتگو سے ڈیجیٹل ہمسائیگی کے لیے یہ واضح اصول تشکیل پاتا ہے: سچے مومن کے لیے ضروری ہے کہ اس سے اس کے آن لائن پڑوسی ڈیجیٹل نقصان سے محفوظ رہیں، یہ نقصان کسی بھی شکل میں ہو سکتا ہے : ٹرولنگ، ہراسانی، ڈیجیٹل ذرائع سے دوسروں کی دل آزاری اور تکلیف کا باعث بننا، رازداری کی خلاف ورزیاں اور غلط معلومات کا پھیلاؤ ۔‘‘
مشمولہ: شمارہ نومبر 2025






