وقار و تہذیب :اسلام کا تقاضا

مختلف خصوصیات و امتیازات میں سے اسلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے ماننے والوں کو اخلاق و تربیت سے آراستہ کرتاہے اور بدخلقی و غیرشایستہ حرکات سے بچنے کی تلقین کرتاہے۔ اس کی یہ تعلیمات تمام شعبہ ہاے حیات میںہیں، چاہے انفرادی زندگی ہو یااجتماعی، خوشی کا موقع ہو یا غم کا، ہر موقعے اور ہر معاملے میں اسلام نے کرامت انسان کی حفاظت کی ہے اور ایسی ہدایات دی ہیں جو اس کو عام مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں۔

قرآن وحدیث میں اخلاق کی عام تعلیمات دی گئی ہیں ، جن میں فضائل اخلاق ، صدق، سخاوت، عفت، دیانت داری، شرم وحیا، عہد کی پابندی، رحم، احسان، عفو ودرگزر، حلم وبردباری، تواضع، خوش کلامی، ایثار، اعتدال، خودداری، استقامت اور حق گوئی جیسی دوسری صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی طرح رذائل اخلاق منکر، بغی، فواحش، جھوٹ، خیانت، غیبت، چغل خوری، بدگمانی، بخل، فخر وغرور، ریا، حرص، بے ایمانی، چوری، غیظ وغضب، حسد، بغض وکینہ، خوشامد اور ظلم جیسی خرابیوںسے بچنے کا حکم دیاگیاہے۔ آیندہ سطور میں چند مثالیں ملاحظہ کریں، جن سے ثابت ہوتاہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو خصوصیت کے ساتھ تہذیب و وقار کی تلقین کی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ہے اور اس کی تکریم کی ہے۔ اس اعتبار سے اس کی جان کی کافی قدرو قیمت ہے۔ ہر شخص اس کی حفاظت کے لیے کسب معاش کرتاہے اور دشمنوں سے مقابلہ کرتاہے۔ لیکن اگر انسان خود ہی اپنی جان کے درپے ہوجائے اور اس کو ختم کرلے تو یہ اس کی ذلت و رسوائی ہے۔ ہمارے عہدمیں مختلف اسباب سے خودکشی کرنے والوں کی ذلت آمیز موت اس کی شاہد ہے۔ اس لیے اسلام نے خودکشی کو حرام قراردیا ہے۔ اس سے جہاں بے شمار قباحتیں پیداہوتی ہیں، وہیں انسان کی تذلیل و تحقیر بھی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَلاَ تَقْتُلُوآْ أَنفُسَکُمْ اِنَّ اللّہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْماً  ﴿النساء : ۲۹﴾

اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانوکہ اللہ تمہارے اوپر مہربان ہے۔

ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:

وَلاَ تُلْقُواْ بِأَیْْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ وَأَحْسِنُوَآ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ﴿البقرہ:۱۹۵

اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، احسان کاطریقہ اختیار کرو اللہ محسنوں کو پسند کرتاہے

ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مومن کو زیب نہیں دیتاکہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ ﴿مسند احمد۵/۴۰۵، ترمذی نمبر:۲۲۵۴﴾

غیراللہ کی عبادت کرنابھی نفس کی ذلت ہے۔ کیوں کہ انسان اس کے سامنے سرجھکاتا اور اپنی مرادیں مانگتاہے جو اس کو نفع و نقصان پہنچانے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس وقت اس کی ذلت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے، جب وہ غیراللہ کے لیے اپنی جان نچھاور کردیتاہے۔ جاپان میں بدھ مذہب کے بہت سارے لوگ محض اس لیے خودکشی کرلیتے ہیں کہ مرنے کے بعد وہ اللہ کے بیٹے بن جائیں گے۔ ۲۰۰۳میں ۳۴۴۲۷ افراد نے محض اس عقیدے کی بنیادپر خودکشی کرلی، جن میں سے اکثر بیس سال کی عمر کے تھے۔﴿المستقبل الاسلامی برطانیہ ﴿عربی﴾ ستمبر ۲۰۰۴، شمارہ۱۵۹﴾ اسی طرح ہندستان میں انسانوں کی خصوصاً بچوں کی مختلف توہمات کی بنیاد پر بلی دی جاتی ہے۔ ﴿عالمی سہارا ہفت روزہ نئی دہلی، ۹ اپریل ۲۰۰۵﴾ قرآن میںاس صورت حال کو اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب قرار دیاگیا ہے۔ ارشاد ہے:

قُلْ ہَلْ أُنَبِّئُکُم بِشَرٍّ مِّن ذٰلِکَ مَثُوبَۃً عِندَ اللّٰہِ مَن لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَغَضِبَ عَلَیْْہِ وَجَعَلَ مِنْہُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُوْلٰ ئِٓکَ شَرٌّ مَّکَاناً وَأَضَلُّ عَن سَوَاء  السَّبِیْلِ ﴿المائدہ:۶۰﴾

اے نبی! کہہ دیجیے کیا میں ان لوگوں کی نشان دہی کردوں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بدتر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اس کاغضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سور بنائے گئے، جنھوں نے طاغوت کی بندگی کی، ان کا درجہ اور بھی زیادہ بُرا ہے اور وہ سواء  السبیل سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تکریم اس معنی میں بھی کی ہے کہ اس کے لیے نہ صرف پاکیزہ روزی فراہم کی، بلکہ دنیا کی تمام چیزیں مسخر کردیں۔ تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے۔ مگر انسان نے اس پہلو سے بھی اپنے آپ کو ذلیل کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے صحیح طریقے سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنے آپ ہی کو پکاکر یا تل کر کھانے لگ گیا۔جیساکہ بعض ممالک میں انسانوں خصوصاً نوزائیدہ بچوں کے اعضا بھون کر یا تل کر کھائے جاتے ہیں۔ چین، تائیوان، تھائی لینڈ اور میانمار وغیرہ میں انسانی ڈش بہت مرغوب سمجھی جاتی ہیں۔ اُن میں سے بعض ڈشوں کے نام اس طرح ہیں: پورٹ روسٹ منٹ، میٹ لوف، ایڈماس گریک، میٹ پالس اور بوائے اسکاؤٹ ان جیسی سینکڑوں ڈشیں دنیا کی مختلف کمپنیاں تیار کرتی ہیں، جن کی قیمت ۴ امریکی ڈالر سے ہزاروں امریکی ڈالر تک پہنچتی ہے۔ ہندستان میں بعض علاقوں کے مرگھٹوں پرآباد بعض افراد اور قومیں بھی مردہ اور ادھ جلی لاشوں کاشوق رکھتی ہیں۔

اسلام میں مردے کا مثلہ کرنے، اس کی توہین اور اس کے ساتھ بُرا سلوک کرنے سے منع کیاگیاہے۔ ساتھ ہی وہ ہر شخص کے اندر طبیعی نفاست و نظافت کے شعور کو بیدار کرتاہے، تاکہ وہ ایسے کریہہ فعل کے ارتکاب سے اجتناب کرے۔ شریعت اسلامیہ میں مرے ہوئے شخص کی ایذا رسانی اور اس کے جسم کے اعضا ء  کی توڑپھوڑ کو زندہ کی ایذا رسانی قرار دیاگیاہے۔ ’حضرت عائشہؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺنے فرمایا: مردے کی ہڈی کو توڑنا زندہ ہڈی کے توڑنے کے مانند ہے‘ ﴿ابوداؤد: کتاب الخبائز باب فی الحفّاریجد العظم ھل یتنکب ذلک المکان﴾

انسان کسی غم اور مصیبت کے موقع پر بھی ادب و تہذیب کے دامن کو چھوڑدیتاہے ۔ آہ و زاری اور سینہ کوبی کرنے لگتاہے۔ بلکہ بسااوقات بال نوچنے اور کپڑے پھاڑنے لگتاہے۔ خاص طور سے عورتوں کی طرف سے ایسی حرکات زیادہ سرزد ہوتی ہیں۔ کسی بھی غم یا مصیبت میںدل و دماغ کامتاثر ہونا فطری بات ہے، مگر اسلام اس حالت میں بھی صبر و ضبط کاحکم دیتاہے اور ایسی باتوں سے منع کرتاہے، جن سے آدمی کا وقار مجروح ہو۔ چنانچہ ایک حدیث میں وارد ہے:

’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ﴿غم میں﴾ گال پیٹے، دامن چاک کرے یا جاہلیت کی باتیں کرے۔‘ ﴿بخاری، کتاب الجنائز: ۱۲۹۴، ۱۲۹۷، ۱۲۹۸﴾

بعض اوقات اظہار غم کے لیے سر کے بال منڈوادیے جاتے ہیں یا اور کوئی مخصوص حلیہ اختیار کرلیاجاتاہے، اسلام نے اس کو بھی تہذیب کے خلاف قرار دیاہے۔

صبرو ضبط کی اہمیت اس وقت ہے جب آدمی صدمے اور غم کا شکار ہو۔ اس لیے اسلام نے اس کی بھی تعلیم دی ہے کہ اول مرحلے میں غم پر قابو پایاجائے اور تہذیب کے دائرے سے تجاوز نہ کیاجائے۔ ایک حدیث میں ارشاد نبوی ہے:

صبر کی اہمیت صدمہ لاحق ہونے کے وقت ہے، ﴿بخاری:۱۲۸۳﴾

سخاوت ایک اچھی صفت ہے جو شخص دوسرے کو نوازے وہ اعلیٰ ظرف کہلاتاہے، قرآن وحدیث میں اس کی بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، مگر اس وصف کے ساتھ ایک انتہائی نازک مسئلہ جڑا ہواہے کہ ایک شخص کسی کو کوئی چیز تحفے میں دے، پھر اس کو واپس مانگ لے۔ حدیث میں ایسے شخص کو اس کتّے سے مثال دی گئی ہے، جو قے کرکے پھر اسی کو دوبارہ چاٹ لے۔ ارشاد نبوی ﷺہے:

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنیی ھبہ کردہ چیز کو واپس لینے والا اس ﴿کتّے﴾ کی طرح ہے جو اپنی قے دوبارہ کھالیتاہے۔ ﴿ابوداؤد:۳۵۳۸، کتاب البیوع باب الرجوع فی الھبۃ﴾

بدتہذیبی یہ بھی ہے کہ آدمی عنایت کردہ چیز کو واپس تو نہ لے مگر اس کے بدلے میں اس شخص کی ایذا رسانی کرے یا اس پر احسان جتائے۔ قرآن میں اس کی بھی مذمت کی گئی ہے:

الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لاَ یُتْبِعُونَ مَآ أَنفَقُوا مَنّاً وَلآَ أَذًی لَّہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَo قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَۃٌ خَیْْرٌ مِّن صَدَقَۃٍ یَتْبَعُہَآ أَذًی وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْم        ﴿البقرہ:۲۶۲،۲۶۳﴾

جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کرکے پھر احسان نہیں جتاتے، نہ دکھ دیتے ہیں، ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو، اللہ بے نیاز ہے اور بردبار ی اس کی صفت ہے

انسان کے وقار و تہذیب کاایک مظہر اس کالباس ہے۔ بے لباسی اور عریانی فطری طورپر انسانی شرم وحیا کے خلاف ہے۔ اسی لیے انسان کی اکثریت اس کو پسند نہیںکرتی۔ اسلام نے بے لباسی کو ہر حال میں ناپسند کیاہے۔ حتیٰ کہ ان مواقع پر بھی جب بے لباسی ایک ضرورت ہوسکتی ہے، جیسے غسل یا بیوی سے مباشرت کے وقت۔ ایک موقعے پر ایک صحابی نے غسل کے حوالے سے دریافت کیاکہ اگر آدمی غسل کررہاہو تو کیا وہ عریاں ہوسکتاہے تو اس کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ لوگوں کے مقابلے میں اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے حیا کی جائے۔ ﴿بخاری، کتاب الغسل، باب فی المتسل عریانا وحدہ فی خلوۃ﴾

بیوی سے مباشرت کے موقع پر بالکلیہ بے لباس ہوجانے سے متعلق مختلف احادیث میں ممانعت وارد ہے ایک روایت میں ہے:

جب کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس جائے تو پردہ رکھے اور بالکل برہنہ نہ ہوجائے۔  ﴿ابن ماجہ ابواب النکاح، باب التسرا عندالجماع﴾

بالکلیہ بے ستری و بے لباسی تہذیب و مروت کے خلاف تو ہے ہی، اِس سے کم درجے کی بے پردگی کو بھی اسلام میں پسندیدہ نہیں سمجھاگیاہے۔ جیسے مردوں کا جانگھ کھول کر رکھنا وغیرہ۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاایک جگہ سے گزر ہوا۔ دیکھاکہ ایک صاحب اپنی جانگھ کوکھولے ہوئے ہیں۔ آپﷺنے فرمایا: اپنی جانگھ کوڈھانک لو کیوں کہ یہ بھی قابل ستر ہے۔  ﴿ترمذی ابواب الادب باب ماجائ فی حفظ العورۃ﴾

بے لباس اور بے ستری کی طرح انسان کے وقار کو مجروح کرنے والی ایک چیز یہ بھی ہے کہ مرد عورت کا لباس پہنے اور عورت مردانہ لباس زیب تن کرے۔ دونوں صورتیں ناپسندیدہ اور ممنوع ہیں:

حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے ایسی عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیارکرتی ہیں اور ایسے مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیارکرتے ہیں۔ ﴿بخاری: کتاب اللباس،ص:۵۸۸۵﴾

اسلام نے لباس کے مسئلے میں انسانی وقار کی رعایت اس درجے میں کی ہے کہ اس نے آدمی کو ایسا حلیہ، ایسی وضع قطع اختیارکرنے سے منع کیاہے، جس کو دیکھ کر لوگ اس کا مذاق اڑائیں یا وہ مضحکہ خیز بن جائے۔ جیسے ایک پاؤں میں جوتا پہننا وغیرہ۔ ایک حدیث وارد ہے:

‘‘حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک جوتی پہن کر نہ چلے یا تووہ دونوں پہنے یا دونوں اتارلے’’۔

﴿بخاری، کتاب اللباس، باب:لایمشی فی فعل واحدۃ، ص:۵۸۵۵﴾

اسلام میں پیشاب اورپاخانے کے شایستہ طریقے بھی بتائے گئے ہیں۔ عہد نبویﷺمیں کفار ومشرکین جملے کستے تھے کہ یہ کیسے نبی ہیں جو لوگوں کو پیشاب پاخانے کے طریقے بتاتے ہیں۔ اس کے جواب میں کہاگیاکہ نبی اپنی قوم کے لیے باپ کے مانند ہوتاہے، جو اپنی اولاد کو مختلف آداب سکھاتاہے۔

‘‘حضرت عبدالرحمن بن زید بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلمان سے کہاگیاکہ تمہارے نبی نے ہمیں ہر چیز کی تعلیم دی ہے یہاں تک کہ پاخانے کی بھی۔ تو حضرت سلمان نے کہاکہ جی ہاں! آپﷺنے ہمیں منع فرمایاہے کہ ہم قبلے کی طرف پیشاب یاپاخانے کے وقت رخ کرکے نہ بیٹھیں اور دائیںہاتھ سے استنجا نہ کریں اور ہم کم ازکم تین پتھروں سے استنجا کریں اور یہ کہ ہم لید ﴿گوبر﴾ یا ہڈی سے استنجا نہ کریں۔’’

﴿ترمذی، کتاب الطہارۃ، باب الاستنجاء  بالحجارۃنمبر۶۱﴾

پیشاب پاخانہ کرنے کے مختلف آداب ہیں، لیکن موضوع کی مناسبت سے یہاں صرف دو آداب کاتذکرہ کیاجاتاہے، جن کو برتنے سے انسانی وقار میںاضافہ ہوتاہے۔ سوال یہ ہے کہ قضائے حاجت کے وقت آدمی بے ستر کب ہو؟ انسانی وقار کے حوالے سے اس پر غور کریں تو اس کا جواب ہوگاکہ جب وہ زمین پر بیٹھنے کے قریب ہوجائے۔ ٹھیک یہی تعلیم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے:

’حضرت انس ؓ سے مروی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قضائے حاجت کا ارادہ فرماتے تھے تو اپنا تہبند اس وقت اٹھاتے تھے، جب زمین کے بالکل قریب ہوجاتے تھے۔‘ ﴿ترمذی: کتاب الطہارۃ، باب ماجاء  فی الاستتارعندالحاجۃنمبر۱۴﴾

پانی ذخیرہ کرنے کا ایک طریقہ تالاب ہے۔ اس سے لوگ اپنی مختلف ضرورتیں پوری کرتے ہیں جن میں غسل کرنا بھی شامل ہے۔ غسل کرتے وقت پانی کے اندر پیشاب کردینا یا تالاب کے کنارے پیشاب کرناکہ وہ پانی میں شامل ہوجائے تو یہ طہارت و نظافت کے خلاف ہونے کے ساتھ انسانی وقار کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے اس سے منع کیاگیا ہے۔ ارشاد ہے:

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے کیوں کہ پھر ایسے پانی میں غسل کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ ﴿بخاری: کتاب الوضوء  باب البول فی الماء  الدائم نمبر ۲۳۸﴾

عصر حاضر میں انسانیت کاایک اہم مسئلہ گندگی ہے۔ شہروں اور خاص طور سے بڑے شہروں میں صفائی ستھرائی کامسئلہ سنگین اور پے چیدہ ہوتاجارہاہے۔ کثیرآبادیاں گندے علاقوں اور صحت کے اعتبار سے انتہائی نامناسب ماحول میں جینے پر مجبور ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی صفائی ستھرائی سے متعلق عوام کاشعور افسوس ناک ہے۔ گندگی اور کوڑا کرکٹ کو عوامی مقامات پر ڈال دینا اور صفائی ستھرائی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنا لوگوں کی عادت بن گئی ہے۔ اسلام اس بارے میں اپنے ماننے والوں کے شعور کو بیدار کرتا ہے اور ان کو تاکید کرتاہے کہ ایسے مقامات پر گندگی نہ پھیلائی جائے جو عوام الناس کے لیے کسی بھی پہلو سے قابل استعمال ہوں۔ جیسے عام گزرگاہیں، گلیاں اوردیگر عوامی مقامات وغیرہ۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے:

’لعنت بھیجے جانے والے تین مقامات سے بچو وہ ہیں گھاٹ، عام راستے، سایہ دار جگہ میں پاخانہ کرنا ﴿یا گندگی پھیلانا﴾ ﴿ابوداؤد: کتاب الطہارۃ باب المواضع التی نھی عن البول فیہا﴾

اسلام ہرمردمومن میں یہ شعور پیداکرناچاہتاہے کہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اور مومن کو بھی پاک صاف رہنا چاہیے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ستودہ صفات، شریف کریم اور جواد ہے۔ لہٰذا اس پر ایمان رکھنے والوں کو بھی انھی صفات کاحامل ہونا چاہیے۔

﴿ترمذی: ابواب الآداب ، باب ماجاء  فی النظافۃ﴾

ظاہر ہے کہ اس شعور کالازمی تقاضا ہے کہ مسلمان صفائی ستھرائی سے متعلق انتہائی حساس ہواور صحت کو نقصان پہنچانے والے طور طریقوں سے اجتناب کرے۔

انفرادی زندگی میں فرد کے وقار و تہذیب کاایک مظہر اس کی گفتگو بھی ہے۔ کثرت گفتگو، بے فائدہ باتیں، جلدی جلدی بولنے کی عادت، چیخ چلاکر بات کرنا یا فحش گوئی اور سبّ و شتم کا لب و لہجہ اختیارکرنا، یہ سب فرد کی شخصیت کو مجروح کرنے والی چیزیں ہیں۔ اسلام نے ان سے بچنے کی واضح ہدایات دی ہیں۔ قرآن میں ارشاد ہے:

وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِکَ اِنَّ أَنکَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْر ﴿لقمان:۲۹﴾

اپنی چال میں اعتدال اختیارکر اور اپنی آواز پست رکھ، سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھے کی آواز ہوتی ہے۔

ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ اچھی بات بولے یا خاموش رہے۔

﴿بخاری، کتاب الادب، باب :۱۳، نمبر۸۱۰۶﴾

ایک روایت میں غصے کو قابو میں رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ آپﷺنے فرمایا:

پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسروں کو پچھاڑدے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے کو قابو میں رکھے۔      ﴿بخاری، کتاب الادب، باب الحذر فی الغضب﴾

صحیح بات یہ ہے کہ آدمی کو غصے کے وقت اپنے وقار و شرافت کی حفاظت کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔ اس تعلق سے اسلام میں مختلف تدابیر بھی بتائی گئی ہیں،جن کو کام میں لاکر غصے پر قابو پایاجاسکتا ہے۔ انسان کے ادب و تہذیب کا ایک مظہر یہ ہے کہ وہ جب کسی سے ملاقات کرنے جائے تو اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس سے اجازت لے اور اس کو سلام کرے۔ پھر اپنی آمد کی وجہ بتائے۔ ایسا نہ ہوکہ وہ سیدھے گھر میں داخل ہوجائے اور اس طرح گھر والوں کو پریشانی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس کی خصوصی ہدایت دی ہے۔ ارشاد ہے:

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُیُوتاً غَیْْرَ بُیُوتِکُمْ حَتَّی تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلٰی أَہْلِہَا ذَلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَo فَاِن لَّمْ تَجِدُوا فِیْہَآ أَحَداً فَلَا تَدْخُلُوہَا حَتَّی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَاِن قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا ہُوَ أَزْکَی لَکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیْمٌo﴿النور:۲۷،۲۸﴾

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروںمیں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کاخیال رکھوگے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو، جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے اور اگر تم سے کہاجائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

احادیث میں اس سلسلے میں مزید تفصیلات بیان کی گئی ہیں، جن میں کہاگیاہے کہ کسی شخص کے گھر میں بلااجازت داخل نہ ہواجائے۔ حتیٰ کہ قریبی رشتے داروں کے گھروں میں بھی داخلے سے قبل اجازت لے لی جائے۔ ایک روایت میں وارد ہے:

ایک شخص نے حضرت حذیفہؓ سے پوچھا: کیا میں اپنی ماں سے بھی ان کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت لوں۔ انھوںنے جواب دیاکہ اگر تم اجازت نہیں لوگے تو تمھیں وہ چیز دیکھنی پڑسکتی ہے، جو تمھہارے لیے ناگوار ہو۔ ﴿باب بستاذن علی امہ﴾

حضرت جابر سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ آدمی اپنے والدین سے بھی اجازت لے گا اگرچہ وہ بوڑھے ہوں اور اپنے بھائی بہن سے بھی اجازت لے گا۔ ﴿حوالہ سابق ۲/۵۰۱ باب بستاذن علی ابیہ وولدہ﴾

آدمی کسی ضرورت سے بازار جائے تو وہاں بھی مختلف آداب کو ملحوظ رکھے۔ خصوصاً نگاہوں کی حفاظت کرے اور راستا چلنے والوں کے لیے اس سے کوئی پریشانی پیدا نہ کرے۔ اس بارے میں احادیث میں واضح تعلیم دی گئی ہے:

حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گزرگاہوں پر بیٹھنے سے احتراز کرو۔ لوگوں نے کہاکہ ہمارا وہاں بیٹھنا ضروری ہے کیوں کہ ہم وہاں باتیں کرتے ہیں۔ آپﷺنے فرمایا: اگر بیٹھنا مجبوری ہے تو راستے کاحق ادا کرو۔ لوگوں نے دریافت کیا: راستے کاحق کیا ہے؟ آپﷺنے فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا، راستا گزرنے والوں کی ایذارسانی سے بچنا، سلام کاجواب دینا اور معروف کا حکم دینا اور منکر سے منع کرنا۔           ﴿بخاری کتاب الاستئذان نمبر :۹۲۲۶،۵۶۴۲﴾

مجلس کے بھی آداب ہیں، جنھیں ملحوظ رکھنے کاحکم دیاگیاہے۔ ان میں سے ایک اہم ادب یہ ہے کہ اگر کسی مجلس میں تین افراد ہوں تو ایک فرد کو تنہاچھوڑکر دولوگ آپس میں سرگوشی نہ کریں۔ کیوں کہ اس طرح اس شخص کو بدگمانی پیدا ہونے کا اندیشہ رہے گا ارشاد ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تین لوگ ہوں تو دو لوگ تیسرے کوچھوڑکر سرگوشی نہ کریں۔                     ﴿بخاری، کتاب الاستئذان :۶۲۸۸﴾

اسلام نے کھانے پینے کے بھی آداب بتائے ہیں۔ اگر آدمی ان پر عمل کرے تو اس کے وقار و وجاہت میںاضافہ ہوتاہے۔ لیکن اگر ان پر عمل نہ کرے تو بہت سی بدتہذیبیاں رونما ہوتی ہیں۔ ذیل میں بعض اہم آداب بیان کیے جاتے ہیں۔

انسان کے دو ہاتھ ہیں ان میں سے کھانے پینے کے لیے وہ کوئی بھی ہاتھ استعمال کرسکتا ہے۔ مگر بائیں ہاتھ کو عام طورپر پیشاب اورپاخانے میں پاکی وصفائی حاصل کرنے کے لیے استعمال کیاجاتاہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتاہے کہ کھانے پینے میں آدمی اپنا دایاں ہاتھ استعمال کرے۔ اسلام نے یہی تعلیم دی ہے۔ ارشاد ہے:

حضرت عمربن ابوسلمہ سے مروی ہے فرمایاکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرپرورش ایک نوخیزلڑکاتھا، کھانے کے دوران میرا ہاتھ برتن کے ادھر ادھر گردش کرتا رہتاتھا۔ آپﷺنے مجھ سے فرمایا: اے بچے! اللہ کا نام لو۔ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور تمھارے قریب جو چیز ہو وہی کھاؤ۔ ﴿بخاری کتاب الاطمعۃ باب :۲،نمبر:۱۷۳۵﴾

کھانے کاایک ادب یہ ہے کہ آدمی ٹیک لگاکر نہ کھائے۔ یہ کھانے کا نامناسب ڈھنگ ہے اور اس سے متعدد قباحتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ٹیک لگاکر کھارہاتھا تو آپﷺنے فرمایا:

’میں ٹیک لگاکر نہیں کھاتا‘ ﴿بخاری کتاب الاطمۃ باب الاکل تیکیا﴾

اسی طرح کھڑے ہوکر کھانا پینا بھی تہذیب کے خلاف ہے۔ اس سے بھی منع کیاگیا ہے۔ ارشاد ہے:

حضرت انس سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکرکھانے پینے پر ڈانٹ لگائی ہے۔ ﴿مسلم کتاب الاشربۃ باب فی اشرب قائما﴾

ایک دوسری روایت میں وارد ہے:

حضرت انس سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایاہے حضرت قتادہ نے حضرت انس سے پوچھاکہ کھڑے ہوکر کھانا کیسا ہے تو انھوںنے جواب دیاکہ یہ زیادہ بُرا اور نازیبا ہے۔ ﴿حوالہ سابق﴾

افسوس کہ آج دعوتوں میں کھڑے ہوکر کھانے اور کھلانے کا رواج عام ہوتاجارہاہے۔ علما اور مصلحین کو اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح حدیث میں پینے کے برتن میں سانس لینے سے بھی اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔  ﴿مسلم کتاب الاشربۃ باب کراھیۃ التنفس فی نفس الاناء ﴾

کھانے پینے کی بعض اشیاء  میں ناپسندیدہ بو پائی جاتی ہے۔ ان کو کھاکر عوامی مقامات پر آنا تہذیب کے خلاف ہے، اسی لیے حدیث میں ایسی چیزوں کو کھاکر مسجدمیں آنے سے منع کیاگیا ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے لہسن یا پیاز کھایاہوتو وہ ہم سے یا ہماری مسجدوں سے دور رہے۔ ﴿بخاری کتاب الاطمعۃ باب مایکرہ فی الثوم بالبقول نمبر:۵۴۵۲﴾

آدمی کے وقار و تہذیب کاایک مظہر اس کی سنجیدگی اور فضولیات سے اجتناب بھی ہے۔ اگر آدمی ہر وقت غیرسنجیدہ رہے یا اپنے آپ کو فضول باتوں میں لگائے رکھے تو اس سے اس کی شخصیت بُری طرح مجروح ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ ارشاد ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نے قیل قال، کثرت سوال، رضاعت مال،لومت و لائم، والدین کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ درگو کرنے سے منع فرمایاہے۔     ﴿بخاری کتاب الرقاق باب ما یکرہ من قیل و قال﴾

اس طرح کی اور بھی بعض باتیں ہیں جن سے آدمی کی شخصیت مجروح ہوتی ہے جیسے دورُخاپن، چغل خوری،خوشامد، حرص، ریا نمود کی خواہش اور ہر وقت باآواز قہہقے لگانا وغیرہ احادیث میں ان سے صریح طورپر روکاگیاہے۔

خلاصۂ بحث

شریعت اسلامیہ نے ایسی بے شمار تعلیمات دی ہیں، حن سے آدمی ایک مہذب، باوقار اور سنجیدہ فرد بنتاہے اور ایسی باتوں سے روکا ہے، جن سے اس کی شخصیت مجروح ہوتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ دین لوگوں کو تہذیب و ادب سکھانے والا دین ہے۔ اگر اس کی تعلیمات پر آدمی عمل کرے تو مہذب بنتاہے اور اگر ان کو ترک کردے تو تہذیب کرے دائرے سے نکل جاتاہے جیساکہ آج اسلام سے دور قوموں میں بدتہذیبی کے آثار دیکھے جاتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223