علمی وتحریکی حلقے دُنیا کی معروف شخصیت پروفیسر ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری ۳/اکتوبر۲۰۱۲م کو بدھ کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون، اسلامی کیلینڈر کے لحاظ سے یہ حادثہ حرمت والے مہینے ذی قعدہ کی۱۷/تاریخ کو پیش آیا، جس سے یقینا مرحوم کے حسن عاقبت کی امید کی جانی چاہیے۔ یہ غم انگیز خبر بہت تیزی کے ساتھ علمی حلقوں سے ہوتی ہوئی سوشل میڈیا میں بھی پھیل گئی۔ جس نے بھی پڑھا، اپنے رنج وغم کااظہار کیا۔ بہ ہرحال یہ واقعہ پیش آنا تھا اور پیش آکر رہا۔ اب بارگاہِ رب العزت میں صرف دُعا ہی کی جاسکتی ہے کہ وہ مرحوم کی دینی وعلمی خدمات کو قبول فرما کر ان کا بہترین بدلہ عطا فرمائے اور کوتاہیوں سے درگزر فرمائے۔ آمین۔
ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری رحمۃ اللہ علیہ یکم ستمبر۱۹۳۱ م کو مشرقی اُترپردیش کے ضلع دیوریا کے ایک چھوٹے سے قصبے تمکوہی میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۷م میں ہائی اسکول اور ۱۹۴۹ م میں انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد وہ علم دین حاصل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے۔ کچھ وقت دارالعلوم ندوۃ العلماء ، لکھنؤ میں گزارا وہاں کے علما وصلحا سے کسبِ فیض کیا اور جب جماعت اسلامی ہند نے رام پور میں ثانوی درس گاہ قائم کی تو اس میں داخلہ لے لیا اور۱۹۵۳ م میں وہاں سے عالمیت کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے مسلم یونی ورسٹی ، علی گڑھ میں داخلہ لیا۔ وہاں سے ۱۹۵۷ م میں عربی سے بی اے ۱۹۵۹م میں فلسفے سے ایم اے اور ۱۹۶۲ میں فلسفے ہی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ پھر ۱۹۷۲م میں ہارورڈ یونی ورسٹی امریکا سے تقابل ادیانِ اور فلسفے کے موضوع پر ایم ٹی ایس کی ڈگری حاصل کی ۔ اس کے بعد سوڈان یونی ورسٹی ، ظہران یونی ورسٹی ﴿سعودی عربیہ﴾ اور امام محمد بن سعود یونی ورسٹی ﴿سعودی عربیہ﴾ میں مختلف اوقات میں ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پروفیسر رہے اور اس طرح علمی وتحقیقی لحاظ سے ایک کام یاب زندگی گزار کراکیاسی ﴿۸۱﴾ برس کی عمر میں سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔
ڈاکٹرعبدالحق انصاری تعلیم کے ابتدائی دور میں ہی جماعت اسلامی کی دعوت سے متاثر ہوئے اور۱۹۵۲ م میں اس کے رکن ہوگئے۔ حلقے کی مجلس شوریٰ اور مرکزی مجلس نمایندگان کے رکن رہے۔ مرکزی مجلس شوریٰ کے بھی رکن منتخب ہوتے رہے اور ۲۰۰۳تا ۲۰۰۷ م امیر جماعت اسلامی ہند منتخب ہوے ۔ اس دوران آپ نے جماعت کی اہم خدمات انجام دیں۔
ڈاکٹر عبدالحق انصاری رحمۃ اللہ علیہ بنیادی طور پر ایک فلسفی تھے۔ فلسفے سے ان کو مزاجی مناسبت بھی تھی اور یہی ان کا اختصاصی موضوع بھی تھا۔ فلسفے کے گہرے مطالعے اور مسلسل وابستگی کی وجہ سے ان کی پوری شخصیت فلسفے ہی میں رچ بس گئی تھی۔ گفتگو کرتے تو بہت ناپ تول کر ، دواوردوچار کی طرح بہت اصولی باتیں کرتے اور پھر ان سے نتائج اخذ کرتے۔ لکھتے تو بڑے اصولی اور مرتب انداز میں لکھتے اور نتائج اخذ کرتے ۔ زبان وبیان پر پوری طرح فلسفے ہی کا غلبہ رہتاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف اور خطبات میں عوام کے لیے کوئی خاص کشش نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اس سے ان کی تصانیف ومقالات کی اہمیت ہرگز کم نہیں ہوتی۔ ان کی گفتگو خواہ وہ تحریری شکل میں ہو یا تقریری شکل میں، نہایت معتدل اور اصولی ہوتی تھی۔ ان کے سامنے کوئی مسئلہ یاکوئی سوال پیش کیاجاتا تو پورے اطمینان کے ساتھ اُسے سنتے اور بغیر کسی جوش اور جلد بازی کے اس کامرتب و مربوط جواب دیتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کے دور امارت کی بات ہے۔ ایک صاحب کے ذہن میں جماعت کے کام اور طریقۂ دعوت کے متعلق بہت سے اعتراضات تھے۔ انھوں نے میرے سامنے امیر جماعت ﴿ڈاکٹرعبدالحق انصاری﴾ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ہم لوگوں نے امیر جماعت سے وقت لیا اور مقررہ وقت پر حاضر خدمت ہوئے۔ خیریت دریافت کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب فوراً موضوع پر آگئے اور کہا: ’’جی! فرمائیے‘‘ ۔ ان صاحب نے خاصی ناراضی اور جذبہ و جوش کے ساتھ جماعت پر اعتراضات کرنے شروع کردیے۔ ڈاکٹر صاحب بڑی خاموشی کے ساتھ ان کا ہراعتراض سنتے رہے اور پوری یک سوئی کے ساتھ ان کے ایک ایک اعتراض کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر جواب دے دیتے رہے۔ معترض کے ایک اعتراض کے وہ خود ہی اتنے گوشے نکال لیتے تھے کہ تین چار سوالات کے بعد ان صاحب کے تمام اعتراضات ختم ہوگئے اور وہ مطمئن ہوگئے۔ حالاں کہ جب ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کے لیے چلے تھے تو ان کے ذہن میں اعتراضات کا ایک ہجوم تھا، جس کو وہ میرے سامنے تفصیل سے بیان بھی کرچکے تھے۔ لیکن جیسے ہی وہ اپنا ایک اعتراض پیش کرتے، ڈاکٹر صاحب اس اعتراض کو ایک کلیہ بنا کر اس سے نکلنے والے بہت سے فروعی اعتراضات خود ہی سامنے رکھ دیتے اور پھر ان تمام فروعی اعتراضات کا جائزہ لے کر ان کا بھی جواب دے دیتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تین چار سوالات کے بعد ان صاحب کے تمام اعتراضات ختم ہوگئے۔ اِس لیے کہ ان تین چار سوالات کے ضمن میں ہی ان کو اپنے تمام سوالات کے جواب مل چکے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان صاحب کو عصر سے مغرب تک کا وقت دیا تھا اور ابھی مغرب کی اذان میں خاصا وقت باقی تھا۔ اُنھیں پورے طور پر سوال وجواب سے فرصت مل چکی تھی۔
مذکورِبالا مجلس میں ان صاحب کے اظہار اطمینان کے بعد جب ڈاکٹر صاحب خاموش ہوئے تو میں نے موقع غنیمت جان کر تفسیر کے متعلق ایک دوسوالات ان کے سامنے رکھے۔ اپنے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے عربی میں امام ابن جریر، امام ابن کثیر اور علامہ زمخشری کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا۔ اُردو کی طرف آئے تو اُردو زبان میں قرآن کی شرح و ترجمانی کے امام شاہ عبد القادر محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا خصوصیت کے ساتھ تذکرہ کیا۔ بیسویں صدی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی تفسیر تفہیم القرآن کو سب سے زیادہ سراہا ۔ اور بتایا کہ اِس پوری تفسیر میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ نے کہیں بھی اسلاف کی آراء سے انحراف نہیں کیاہے۔ بلاشبہ اِسے تفسیر ماثور کہناچاہیے۔ ایک صاحب نے مولانا امین احسن اصلاحی کا ذکر کیا تو ڈاکٹر صاحب نے اُن کے نظریۂ عمود سے سخت اختلاف ظاہر کیا۔ ان کی نظر میں یہ ایک غیر فطری بات تھی کہ ہر سورت کا ایک عمود تلاش کیا جائے۔ خلاف معمول ہنستے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ ’’اس طرح تو ہم پورے قرآن کا بھی عمود نکال سکتے ہیں، یعنی ’’کلمۂ طیبہ‘‘ ۔
اسی تفسیری گفتگو کے دوران میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے تفسیری فوائد کا بھی ذکر آگیا۔ امام ابن تیمیہ کا فکر وفلسفہ ڈاکٹر صاحب کا اختصاصی موضوع تھا۔ ابن تیمیہ کے علوم ومعارف کو وہ ہمیشہ بہت اہمیت دیتے تھے۔ اذانِ مغرب تک وہ اُنھی کا تذکرہ کرتے رہے۔ ان کے تفسیری فوائد کے ساتھ ساتھ ان کے طریقۂ دعوت اور اصول فکر کی اہمیت واضح کرتے رہے۔ شاید اس دل چسپی ہی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے امام ابن تیمیہ کے متعلق انگریزی زبان میں ایک مستقل کتاب لکھی جو Ibn Taymiyah Expounds on Islamکے نام سے۲۰۰۰م میں واشنگٹن ، امریکہ سے شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ انھوں نے ابن تیمیہ کے مقبول عام مقدمۂ تفسیر کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرکے اس پر حواشی لکھے، جسے ملک سعودیونی ورسٹی ﴿ریاض، سعودی عرب﴾ نے ۱۹۸۹م میں An Introduction to the Exegesis of the Quran کے نام سے شائع کیا۔ ساتھ ہی عبادت کے متعلق ابن تیمیہ کی معروف اور اہم کتاب الرسالۃ العبودیۃ کا بھی انگریزی ترجمہ کیا۔ اس طرح انھوں نے اہم علمی خدمات بھی انجام دیں اور امام ابن تیمیہ کے علوم کی اشاعت کا ذریعہ بھی بنے۔ فلسفے پر انگریزی زبان میں ان کی دو اہم کتابیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پریس نے بھی شائع کیں۔ ان میں سے ایک کتاب مسکؤیہ اور دوسری فارابی کے فلسفے پر تھی۔ ابھی حال ہی میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز ، نئی دہلی سے ان کا ایک کتابچہ ’’علم کلام میں مولانا مودودی کے افادات‘‘ بھی شائع ہواہے۔
علم کلام اور تصوف کو ہمیشہ سے ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھا گیاہے۔ چناںچہ فلسفے کا ایک رمز شناس ہونے کی حیثیت سے ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری نے تصوف اور حضراتِ صوفیہ کی طرف بھی توجہ کی اور عمر عزیز کا خاصا حصہ اس کے مطالعے پر صرف کیا۔ اس موضوع پر بھی انھوں نے ہمیشہ اصولی بحث کی۔ نہ تو نادان دوست بن کر تصوف کے ذخیرے میں موجود ہر رطب ویابس کی تحسین کی اور نہ اندھے دشمن کی طرح اُسے سرے سے ایک مستقل باطل مذہب ہی قرار دیا۔ خالص علمی انداز میں اس کا سنجیدہ مطالعہ کیااور جب بھی کچھ کہا یا لکھا، معروضی انداز میں کہا یالکھا۔ صوفیۂ کرام کے افکار واقوال کو ہمیشہ اہمیت دی۔ اس کی بہت واضح دلیل یہ ہے کہ اپنی کتاب ’’مقصد زندگی کااسلامی تصور ‘‘ میں انھوں نے اسلامی مقاصد زندگی کی تعیین کرکے ان کا جامع مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں وہ ہر موضوع پر اپنی گفتگو کرنے سے پہلے اس موضوع کے متعلق سلف کی آراء نقل کرتے ہیں۔ ان آراء میں وہ بالترتیب اہل لغت، مفسرین اور محدثین کے ساتھ صوفیۂ کرام کے اقوال بھی نقل کرتے چلتے ہیں۔ اس عمل کے ذریعے سے انھوں نے ایک مفید علمی روایت قائم کی ہے ۔ ایسی علمی روایت جس کی کوئی دوسری نظیر خاص طور پر جماعت کے حلقے میں مشکل ہی سے ملے گی۔ اسی کتاب میں انھوں نے عبادت، خلافت، تزکیۂ نفس، تقویٰ، احسان، رضاے الٰہی اور طلب آخرت کے متعلق جو متوازن گفتگو کی ہے، وہ بھی ان کے اصولی اور قابل تقلید فلسفیانہ طرز بحث وطرز استدلال کی دلیل ہے۔
ماضی قریب میں ان کی ایک کتاب ’’مجددین امت اور تصوف‘‘ بھی سامنے آئی ہے۔ اس میں انھوں نے چند مجددین کا تذکرہ کرکے تصوف سے ان کی گہری وابستگی کا جامع انداز میں تذکرہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ تصوف پر ان کی سب سے اہم اور ان کی تمام کتابوں میں سب سے ضخیم کتاب ’’تصوف اور شریعت‘‘ ہے۔ یہ کتاب دوجلدوں میں ہے۔ اس میں انھوں نے مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کے افکار کا علمی مطالعہ پیش کیا ہے۔ شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ علیہ پر بہت سے لوگوں نے لکھاہے، لیکن ان کے ملفوظات اور ان ملفوظات میں بکھرے ہوئے بے نظیر علوم ومعارف کا اس سے بہتر مطالعہ شاید اب تک پیش نہیں کیاگیا۔ جس طرح شیخ سرہندی کے ملفوظات ومکتوبات علم ومعرفت کا بے بہا خزانہ ہیں، اُسی طرح ان کے افکار کا یہ مطالعہ بھی حکمت وآگہی کا گنجینہ ہے۔ یہ کتاب Sufism and Shariah: A Study of Shayakh Ahmad Sirhindi’s Effort to Reform Sufismکے نام سے اسلامک فاؤنڈیشن لیسٹر، برطانیہ سے دو مرتبہ شائع ہوئی۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ فلسفہ ڈاکٹر عبدالحق انصاری کا اختصاصی موضوع ہی نہیں، اُن کی شخصیت کاجزء بھی بن گیا تھا۔ وہ وہی کام کرتے تھے، جس کو درست سمجھتے تھے۔ کسی مصلحت کا خیال کرکے کسی بھی کام یا بات کو کرنے یاکہنے سے وہ نہیں رُکتے تھے، جس کو وہ درست سمجھتے ہوں۔ ان کے دور امارت میں بڑی دھوم دھام سے ملک گیر پیمانے پر اسلامی خاندان مہم منائی گئی۔ اس مہم کا افتتاحی اجلاس انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر، نئی دہلی کے مرکزی ہال میں ہوا۔ اجلاس میں میڈیا اور خواص کے علاوہ کی بھی بہت بڑی تعداد شریک تھی۔ مختلف مقررین نے اپنے خیالات کااظہار کیا۔ خاص طور پر مرحوم سید غلام اکبر سکریٹری جماعت اسلامی ہند کی تقریر بہت پسند کی گئی۔ آخر میں صدارتی خطاب کے لیے جب ڈاکٹر صاحب مائک پر پہنچے تو زبانی گفتگو کی بہ جائے مقالہ پیش کرنا شروع کیا۔ اس طرح کے اجتماع میں ایک تو مقالے کی پیش کش اور اس پر ڈاکٹر صاحب کا بھاری بھرکم آواز میں رُک رُک کر نہایت سنجیدگی کے ساتھ پڑھنے کا انداز۔ چناںچہ مجمع بکھرنا شروع ہوگیا۔ لوگوں نے بات چیت اور چہ می گوئیاں شروع کردیں۔ عوام تو عوام، خواص میں سے بھی بہت سے لوگوں نے اس عمل کو پسند نہیں کیا۔ ہوسکتا ہے ڈاکٹر صاحب کو بھی اس بات کااندازہ ہوا ہو، لیکن انھوں نے اپنے لیے جو بہتر سمجھا وہی کیا۔
اسی طرح ڈاکٹر صاحب ہی کے دور امارت میں مشہور عرب مصنف شیخ مصطفی طحان کی آمد کے موقعے پر مرکز کے کانفرنس ہال میں اجتماع ہوا۔ پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ افتتاحی تقریر امیر جماعت ﴿ڈاکٹرانصاری﴾کی تھی۔ انھوں نے اپنی گفتگو میں اسامہ بن لادن کے خلاف مصطفی طحان کا ایک بہت سخت تبصرہ بھی بیان کیا اور اس تبصرے پر ان کی تحسین بھی کی۔ اس سے بہت سے لوگوں کو سخت شکایت ہوئی۔ خود بانیِ جماعت مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے متعلق اپنے کچھ تنقیدی علمی خیالات کا سرعام اظہار کرکے انھوں نے اپنی غیر مصلحت آمیز شخصیت، ذہنی یک سوئی اور فکری اصول پسندی کا تو پورا پورا ثبوت دیا، لیکن ایک بڑی تعداد کو اپنا مخالف بنالیا۔ ان کی اس روش سے میں بھی کسی قدر متوحش ہوا تھا۔ لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ ان کا یہ مزاج قائدانہ مصالح کے خلاف توہوسکتا ہے اور تھا بھی لیکن علمی وتحقیقی تقاضوں کے خلاف ہرگز نہیں تھا۔
ڈاکٹر محمدعبدالحق انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے میری آخری ملاقات ۲۰۱۰میں نئی دہلی میں ہونے والے کل ہند اجتماع ارکان کے موقع پر ہوئی تھی۔ میری خواہش تھی کہ ڈاکٹر صاحب قدیم وجدید فلسفے کے مطالعے کے لیے کچھ رہنما خطوط متعین فرمادیں اور اسلامی وغیر اسلامی فلاسفہ کی کچھ کتابوں کی ایک مختصرلیکن جامع فہرست بیان کردیں، تاکہ اس کی روشنی میں ہم جیسے طلبہ فلسفے کامطالعہ کرسکیں۔ میں وقت لے کر مغرب بعد ان کے آفس میں پہنچا۔ وہ کچھ دوائیں نکال رہے تھے۔ بستر پر بہت سی دوائیں اور کچھ معالجاتی آلات بھی رکھے ہوے تھے۔ میں نے پہلے ان کی کتاب ’’مقصد زندگی کااسلامی تصور‘‘ پر لکھی ہوئی اپنی ایک تحریر پیش کی۔ ﴿یہ تحریر ماہ نامہ زندگی مئی ۲۰۱۲م کے شمارے میں دیکھی جاسکتی ہے﴾ ڈاکٹر صاحب نے اسے پڑھا اور کہا: ’’خوشی ہے کہ آپ نے میری کتاب پوری پڑھی۔‘‘ کچھ اور باتوں کے بعد میں نے اپنا مقصد ظاہر کیا تو ڈاکٹر صاحب نے گفتگو شروع کردی۔ فارابی، ابن رشد، غزالی، ابن تیمیہ اور ابن قیم کے مطالعے پر بہت زور بھی دیا اور ان کی خصوصیات بھی بیان کیں۔ ساتھ ہی موجودہ دور میں فلسفے کی اہمیت بھی واضح کی۔ فلسفے کے مطالعے کے لیے کچھ بڑی رہنما باتیں بیان کیں۔ لیکن افسوس کہ کتابوں کی کوئی مختصر فہرست بھی تیار نہ ہوسکی۔ وجہ یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر بیماری کے آثار صاف جھلک رہے تھے۔وہ باتیں کرتے کرتے بھول رہے تھے کہ وہ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ حتی کہ اپنی کسی کتاب کا ذکر کرنا چاہتے تھے، لیکن ذہن پر خاصا زور دینے کے باوجود اس کا نام نہ بتاسکے۔ زیادہ دیر تک میں نے انھیں تکلیف دینا مناسب نہ سمجھا اور اجازت لے کر واپس آگیا۔ واپسی کے وقت انھوں نے کچھ ضیافت نہ کرپانے پر افسوس کااظہار کیااور ایک پھل ہی بہ طور ضیافت عطا فرمادیا۔ یہ ان کی بڑائی کاایک انداز تھا، جس میں ہم خُردوں کی ہمت افزائی کا بڑا سامان موجود ہے۔ افسوس کہ ہم جیسے خُرد ان کی قدر نہ کرسکے اور ان سے کماحقہ، استفادہ نہ کرسکے۔
آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رُخ زیبا لے کر
مختصر یہ کہ ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاری رحمۃ اللہ علیہ قدیم وجدید اور اسلامی وغیر اسلامی فلسفے پر پورا عبور بھی رکھتے تھے اور ہر مسئلے پر خود اپنی بھی ایک مضبوط رائے رکھتے تھے۔ انھوں نے مغربی اور اسلامی فلاسفہ کے فکر وفلسفے کو ان کے اصل ماخذ سے سمجھا تھا۔ اسی لیے وہ فلسفے کے علمی ذخیرے کے حسن وقبح سے پوری طرح واقف تھے۔ ان کے جانے کے بعد مغربی فلسفے سے واقفیت رکھنے والے بھی مل جائیں گے اور اسلامی فلسفے کو جاننے والے بھی۔ لیکن ایسے لوگ خال خال ہی ملیں گے جو فلسفے کی ان دونوں قسموں کو ان کے اصل مصادر سے اخذ کرکے اس میں اچھے اور برے کی تفریق کرسکیں اورفلسفے کااستعمال کرکے موجودہ زمانے کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ برصغیر ہندوپاک میں اگر اس طرح کے اعلیٰ دماغ اور بلند پایہ اسلامی فلسفیوں کی فہرست تیار کی جائے گی، تو ان میں ایک نہایت اہم نام ڈاکٹر عبدالحق انصاری کا بھی ہوگا۔
میں نے ایک مرتبہ ڈاکٹر صاحب سے اپنی ڈائری پر کوئی نصیحت لکھنے کی درخواست کی تھی۔ آخر میں اس نصیحت کو صرف اس لیے نقل کررہاہوں کہ اس کو امت مسلمہ اور خاص طور پر اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنے والے، ایک قائد کی وصیت کے طور پر دیکھیں اور نصیحت حاصل کریں۔انھوں نے تحریر فرمایا:
’’وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ، اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ، وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ، وَتَوَاصَوْبِالصَّبْرِo
اس سے بڑی نصیحت نہیں ہوسکتی۔‘‘
عبدالحق ۳/۴/۲۰۰۶م
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2012