تمہید:
اسلامی تصوف اسلام کی روح، شریعت کاخلاصہ، کتاب وسنت سے کشید کردہ عطر اور ایمان واسلام کا لازمی تقاضا ہے، کیونکہ اس کی بنیاد کتاب و سنت کی پیروی، حلال کھانے، اذیت رسانی سے رکنے، معصیتوں سے اجتناب، توبہ اور حقوق کی ادائی پر ہے، چنانچہ امام ابو عبداللہ سہل بن عبداللہ تستری ﴿و:۲۷۳ہجری﴾ رقم طراز ہیں:
أصول طریقتنا سبعۃ: استمسک بالکتاب والاقتدائ بالسنۃ وأکل الحلال وکف الأذی وتجنب المعاصی و التوبۃ وأدائ الحقوق ﴿نتائج الأفکار القدسیہ ۱/۱۱﴾
’’ہمارے طریقے کے اصول سات ہیں: ﴿۱﴾کتاب اللہ پر مضبوطی سے عمل ﴿۲﴾سنت کی اقتداء ﴿۳﴾حلال روزی کھانا ﴿۴﴾دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے رُکنا ﴿۵﴾معصیت و نافرمانی سے دور رہنا ﴿۶﴾توبہ کرتے رہنا اور ﴿۷﴾حقوق ادا کرنا۔
اور ظاہر سی بات ہے کہ ان ساتوں اصول میں سے ہر اصل کی دعوت کتاب و سنت کی بہت ساری نصوص دیتی ہیں جو محتاج بیاں نہیں۔ حاملین اسلامی تصوف کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کی زندگی قول وفعل کے تضاد سے دور رہتی ہے، وہ گفتار کے غازی نہیں بلکہ مجسمۂ کردار ہوتے ہیں، وہ جو کچھ کہتے ہیں اسے کرکے دکھاتے ہیں، چنانچہ قرآن کریم سے جس قدر شغف صوفیۂ کرام کو رہاہے، اس کی نظیر کسی دیگر دینی جماعت کے یہاں نہیں ملتی ہے، بلکہ یہی وہ جماعت ہے جو تلاوت کے دوران تدبر اور تفکر قرآن فہمی کے لئے بنیادی شرط قرار دیتی ہے۔ اس خصوصیت کے پیش نظر کتنی سچی بات ہے جو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمائی ہے:
’’مجھے یقینی طورپر معلوم ہوگیاکہ صوفیائ ہی اللہ کے راستے کے سالک ہیں، ان کی سیرت بہترین سیرت، ان کا راستہ سب سے زیادہ سیدھا اور ان کے اخلاق سب سے زیادہ پاکیزہ ہیں، بلکہ اگر عقلائ کی عقل، حکمائ کی حکمت اور شریعت کے رمز شناسوں کا علم مل کر بھی ان کی سیرت و اخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں ، کیونکہ ان کے تمام ظاہری و باطنی حرکات وسکنات مشکوٰۃ نبوت سے ماخوذ ہیں، اور نور نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں، جس سے روشنی حاصل کی جائے۔‘‘﴿المنقذ من الضلال ص ۱۳۲﴾
ڈاکٹر عبدالحق رحمۃ اللہ علیہ اور تصوف
ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ تصوف کے اس امتیاز سے بخوبی واقف تھے، چنانچہ وہ اسلامی تصوف کے نہ صرف مداع اور داعی تھے بلکہ ایک نشست میں میں نے ایک طالب علم کے سوال کے جواب میں ان کو یہ کہتے ہوئے سناکہ بہت سے لوگوں نے یہ غلط فرض کرلیاہے کہ امام مودودیؒ تصوف کے مخالف تھے، انھوں نے تو صرف فلسفیانہ اورملحدانہ تصوف کی مخالفت کی ہے، جہاں تک صحیح اسلامی تصوف کا تعلق ہے تو وہ نہ صرف اس کے داعی تھے بلکہ اس سلسلے میں ان کی کتابیں شاہد عدل ہیں، ضرورت ہے کہ ان نظریات کو کھنگال کر لوگوں کے سامنے لایاجائے تاکہ صدق، قنوت، اخلاق، احسان، عبادت، خشوع وخضوع، فقرو توکل، صبر، شکرورضا، توبہ وانابت، خوف ورجاء اور مشاہدہ و یقین کی قرآنی صفات لوگوں کی زندگی میں جلوہ گر ہوں۔
ڈاکٹر صاحب کی کتاب ’’تصوف اور شریعت‘‘ حکمت وآگہی کا بیش بہا خزانہ ہے جس میں شیخ مجدد الف ثانیؒ ، احمد فاروقی سرہندیؒ کے افکار کا علمی مطالعہ پیش کیاگیا ہے۔ اسی طرح ان کی ایک کتاب ﴿مجدددین امت اور تصوف﴾ بھی ہے۔ نیز ڈاکٹر صاحب نے اپنی کتاب ’’مقاصد زندگی‘‘ کے سلسلے میں اہل لغت ، مفسرین اور محدثین کے ساتھ صوفیائ کرام کے اقوال نقل کرنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔
ان تمام کتابوں کو دیکھنے سے یہ بات کھلے طورپر محسوس ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے دیگر موضوعات کی طرح تصوف پر بھی اصولی بحث کی ہے اور تصوف کامطالعہ معروضی انداز میں کیا ہے، چنانچہ وہ تصوف کو نہ ہی بالکل باطل اور دین وشریعت سے علاحدہ شے خیال کرتے ہیں اور نہ ہی تصوف کی ہر چیز کو داخل دین سمجھتے ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر صاحب نے افراط و تفریط سے پاک اور متوازن و معتدل ایک ایسی علمی روایت قائم کی ہے، جس کی کوئی دوسری نظیر مشکل ہی سے ملے گی۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب نے عمرعزیز کاایک اچھا خاصا حصہ بحرتصوف کی شناوری میں گزارا اور اس سلسلے میں افراط و تفریط سے پاک رہے، لہٰذا ان کے نظریۂ تصوف کی بڑی اہمیت ہے جس کے پیش نظر اس موضوع پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کا نظریۂ تصوف
ذیل کی سطورمیں ڈاکٹر عبدالحق انصاری ؒ کے نظریۂ تصوف کو ان کی کتاب ’’تصوف اور شریعت‘‘ کی روشنی میں نمبر وارپیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے:
- تصوف اولاً: تزکیۂ نفس کاایک طریقہ ہے، ثانیاً:قرب الٰہی کے ایک خاص مفہوم کا علمبردار ہے۔ ثالثاً:علم وعرفان کی ایک مخصوص راہ تجویز کرتا ہے اور رابعاً:زندگی کے بارے میں ایک مخصوص نقطۂ نظر اور مثالی زندگی کاایک خاص نقشہ پیش کرتا ہے۔ ﴿ص۵﴾ڈاکٹر صاحب کی رائے میں ان سارے ہی شعبوں میں کچھ چیزیں وہ ہیں جو عین قرآن و سنت ہیں، جب کہ کچھ ان سے مختلف ہیں اور کچھ متعارض۔
- شریعت اپنے وسیع معنی میں تصوف کو شامل ہے۔ ﴿ص۷﴾
- شیخ مجددالف ثانی پہلے شخص ہیں جنھوںنے یہ بات کہی کہ صوفیہ کے طریقۂ تزکیہ و احسان اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ تزکیہ و احسان میں بنیادی فرق ہے کیونکہ صوفیہ کا طریقہ فنا و بقا سے عبارت ہے جو کہ ایک روحانی تجربہ ہے، جب کہ طریقۂ نبوت میں اس تجربے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ﴿ص۸﴾
- صوفیہ نے تصوف کی عمارت قرآن و سنت اور صحابہ کے عمل پر ہی اٹھائی، لیکن بعد میں دیگر روحانی مسالک سے بھی متاثر ہوا، چنانچہ ذکر کے لئے تسبیح کا استعمال استفادۂ حسنہ کی ایک مثال ہے جب کہ نام ونمود سے بچنے کے لئے بعض صوفیہ کا رہن سہن میں قبیح چیزوں کا استعمال ایجاد کی بری مثال ہے۔ ﴿صفحہ۱۲-۱۳﴾
- محققین صوفیہ نے ہمیشہ ناپسندیدہ رجحانات، اعمال اور آرائ پر تنقیدی نظر ڈالی ہے۔ ﴿ص۳۱-۴۱﴾
- یقینا صوفیہ میں ہر سطح پر ایسے لوگ بھی رہے ہیں جن کی زندگیوں میں بڑا اعتدال رہاہے، ان کاطریقہ سنت سے قریب اور ان کا عمل شریعت کا پابند رہا ہے۔ ﴿ص۷۱﴾
- طریقۂ نبوت میں مسافر کی منزل نہ فنا ہے نہ بقا، نہ جمع نہ اتحاد، انسان اللہ کا بندہ، غلام یا قرآن کی زبان میں عبد ہے، اسی حقیقت کا گہراشعور اور اعتراف، زندگی کے ہر شعبے اور ہر عمل میں ہر سانس اور ہر لمحہ اس کا اظہار انسان کا مقصد وجود ہے اس معنی میں بندگی اور عبادت اس کی منزل اورغایت ہے۔﴿ص۲۱﴾
- اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان قرب کا تعلق ہونا چاہیے اور قرب دو شخصیتوں میں گہرے اور پائیدار تعلق کا نام ہے، نہ کہ اتحاد و انضمام کا۔ بندگی کی تکمیل اپنی ذات سے فانی اور اللہ کی ذات میں منضم ہونے میں نہیں ہے، بلکہ ان صفات عالیہ و اخلاق حمیدہ سے متصف ہونے اور ان اعمال کو انجام دینے میں ہے جس کا اللہ تقاضا کرتا ہے۔ ﴿ص۲۲﴾
- معرفت کا وہ جز جو قرآن و سنت اور عمل صحابہ میں تدبر کا نتیجہ ہے اس میں بے شمار ہیرے اور جواہر ہیں جن کا بہ شوق مطالعہ کرنا چاہیے، مگر کچھ پتھر اور کوئلے بھی ہیں جن سے گزرجانا چاہیے۔ ﴿ص۲۳﴾
- تصوف کا تعلق اصلاً انسان کے داخل سے ہے، نہ کہ خارج سے، اس کا مقصد صبر، توکل اور اخلاص جیسے فضائل ، خوف، خشیت اور محبت جیسی کیفیات، دنیا سے بے نیازی، خاموشی، بیداری اور ذکرو فکر جیسے اعمال پیدا کرنا ہے تاکہ روح میں مطلوبہ صفات پیدا ہوسکیں۔ ﴿ص۵۵﴾
- سلوک کا ایک مقصد شریعت کے معارف میں یقین جازم پیدا کرنا ہے تاکہ سالک تمام شبہات سے بلند ہوجائے۔
- فنائے حقیقی رضائے الٰہی میں خود کو مٹادینا ہے اور بقائے حقیقی اپنی خواہشوں کو رب کے حکم کے تابع بنالینے کانام ہے۔ ﴿ص۶۸﴾
- کچھ صوفیہ کی زندگی قابل رشک صلاح و تقویٰ کی تھی۔ ﴿ص۰۹﴾
- شیخ مجدد وہ پہلے صوفی ہیں جنھوںنے اسلام کی روشنی میں پورے تصوف کا جائزہ لیا اور بتایاکہ تصوف میں کیا نئی چیزیں شامل ہوئیں اور ان میں سے کون سی چیزیں شریعت کے دائرے میں آتی ہیں اورشریعت کے مقاصد کی تکمیل میںمعاون ہیں اور کون سی اس کے خلاف ہیں۔ ﴿ص۹۱﴾
- ابن تیمیہ ﴿۷۲۸ھ/۱۳۲۸﴾ نے انبیاءکی روحانیت اور صوفیہ کی روحانیت کے درمیان امتیاز کرنے کی سعی کی، لیکن ان کی آرائ کو یہ کہہ کر نظرانداز کردیاگیاکہ وہ تصوف سے ناآشنا تھے۔ ﴿ص ۱۹﴾
- شیخ مجدد کے بعد تصوف کی اصلاح کرکے اسے شریعت کے قریب لانے کی سعی تیزترہوگئی اور قرب الٰہی کا نبوی طریقہ ہی تصوف کا غالب مظہر بن گیا۔ ﴿ص۹۴-۹۶﴾
- صوفیہ جس قسم کا تقرب حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ شریعت کے بتائے ہوئے تقرب سے الگ ہے، ان کا حب﴿حب عشقی﴾ ہے جو وجد و مگن میں مبتلا کرتا ہے، جب کہ نبوی حب ﴿حب ایمانی﴾ ہے جو مذاہب کی حقیقتوں کو سالک کے قلب پر القا کرتا ہے، اس کو دنیا میں شہادۃ علی الناس کے منصب پر فائز کرتا ہے اور اس سے دین کی تبلیغ و اشاعت اور حمایت و نصرت کاکام لیتا ہے۔ ﴿ص۷۹-۹۹﴾
- دنیا کے کاروبار، کسب معاش کی تگ و دو، انسانوں کی خدمت، اجتماعی زندگی میں شرکت، نظام عدل کے قیام کے لئے جدوجہد اور دعوت و جہاد، حکومتی عہدوں اور اجتماعی مناصب، خلافت کی ذمہ داریوں اور سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ بھی ایک آدمی تزکیہ اور احسان کے مراحل طے کرسکتا ہے۔ ﴿ص۱۰۷﴾
- عزلت نشینی، یکسوئی، فنا، وجد اور جمع تک رسائی کے لئے صوفی کو جسمانی ضروریات میں تقلیل کرنی پڑتی ہے اور انسانوں سے قطع تعلق رکھنا پڑتا ہے، اس طرح ایک غیرمطلوب زہد و ورع کو فروغ ملتاہے چنانچہ شریعت اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتی۔ ﴿ص۳۱۱﴾
- وہ ولی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زیادہ اتباع کرتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو آگے بڑھانے کی کوشش کرتا ہے اور اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کی جدوجہد کرتاہے، وہ زیادہ افضل و اعلیٰ اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ قریب ہے۔ ﴿ص۱۲۱﴾
- جس صوفی کی زندگی شریعت کے خلاف ہو اس کا اتباع کرنا ناجائز ہے۔ ﴿ص۱۲۴﴾
- فلسفیانہ نظریۂ اقدار کی تصوف میں آمیزش غلط ہے۔ ﴿ص۱۱۳﴾
- نکلسن جیسے مستشرقین کا یہ خیال کہ الوہیت میں شرکت کا حصول ہی تصوف کی غایت ہے، بالکل غلط ہے، کیونکہ صوفیہ کا ملین مقام جمع ﴿سالک کا اللہ کے ساتھ اس طرح متحد ہونا کہ اس کی مشیت، صفات حتیٰ کہ اس کا وجود بھی اس کی ذات کے ساتھ ضم ہوجائے﴾ سے آگے فرق مطلق یعنی اللہ اور بندے الگ الگ ہیں کے قائل ہیں۔ ﴿ص۸۴-۸۵﴾
- وحدۃ الشہود کا بنیادی تصور یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کائنات سے بالکل مختلف ہے اور کلیتاً غیر ہے، اور کائنات کسی معنی میں اللہ کے ساتھ متحد نہیں ہے اور صوفی کو اپنے تجربے میں جو وحدت نظر آتی ہے، وہ صرف مشاہدے کی چیز ہے نہ کہ کوئی معروضی حقیقت۔ ﴿ص۳۴۱-۵۴۱﴾
- تصوف کا مقصد وحی کے بیان کردہ حقائق پر کسی تبدیلی یا حذف و اضافے کے بغیر پختہ ایمان اور گہری بصیرت حاصل کرنا ہے۔ ﴿ص۱۵۳﴾
- یعنی انسان اللہ تعالیٰ کا پکا اور سچا بندہ بن جائے۔ گویا عمودیت کی تکمیل تصوف کا نصب العین ہے۔
- انسانی زندگی کا مقصد ہو یا زندگی کی دیگر اقدار ان میں ترجیحات وہی قابل قبول ہوںگی، جو قرآن وسنت کے مطابق ہوں۔ ﴿ص۱۶۰﴾
- تصوف پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے مختلف زندگی گزارنے کا نام نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح ایک عام انسان کے لئے نمونہ ہیں۔ اسی طرح ایک صوفی کے لئے بھی۔ ﴿ص۱۶۰﴾
- تصوف اللہ تعالیٰ کی پُرخلوص عبادت کا نام ہے، اس کا مقصد اسرار رموز کائنات کی معرفت یا الوہیت میں شرکت نہیں ہے۔ ﴿ص۱۶۱﴾
- طریقہ صوفیہ میں اصلاً انحصار ذکر وفکر پر ہے، اس کی امتیازی چیز جو اسے طریقۂ نبوی سے ممتاز کرتی ہے، فنا، بقا اور جمع و تفریق کا تجربہ ہے۔ ﴿ص۱۶۲﴾
- تبلیغ و اشاعت، اقامت دین اور جہاد جو طریقہ نبوی میں تزکیۂ نفس کے لازمی ذرائع ہیں، انھیں طریقۂ تصوف میں یا تو نظرانداز کردیاجاتاہے یا ان کی اہمیت گھٹادی جاتی ہے۔ ﴿ص۱۶۲﴾
- تصوف اگر قرآن وسنت کے حدود کاپابند ہو، تو وہ بلاتکلف اسلامی تصوف ہے اور یقینا اسلام میں اس کاایک مقام ہے۔ ﴿ص۱۷۲۱﴾
یہ ہیں ڈاکٹر عبدالحق انصاریؒ کے نظریۂ تصوف کے اہم نکات جو اس بات پر واضح طور سے دلالت کرتے ہیں کہ ان کا نظریۂ تصوف افراط و تفریط سے پاک ہے جو تصوف کی صحیح اور اچھی باتوں کو سراہتا ہے اور مخالف شریعت امور کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن یہ بات مخفی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس وقت برصغیر ہند وپاک اور دنیا کے دیگر خطوں میں علماء حق کے یہاں نبوی طریق پر مبنی اسلامی تصوف ہی رائج ہے جس کے مطابق ایک سالک اپنے دل کو مصفی اور مزکی کرنے نیز ہر طرح کی بندگی سے منہ موڑکر صرف اللہ کی بندگی اور فرمانبرداری اور قول وعمل کی ہم آہنگی کی کوشش کرتا ہے اور دین کی تبلیغ و دعوت اور اعلائ کلمۃ اللہ کی کوششوں میں بھی بھرپور حصہ لیتا ہے، چنانچہ ہر ملک کی تاریخ شاہد عدل ہے کہ مغربی استعمار کے خلاف جہاد میں یہی اہل اللہ کا طبقہ پیش پیش رہا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قدیم صوفیہ بھی جو عشق الٰہی میں راہ سلوک کے مختلف مراحل : فنا وبقا، جذب و استغراق، ضم وفرق، عروج ونزول اور وجد و سکر کی کیفیت سے دوچار ہوئے ان کے پیش نظر یہ بات نہیں تھی کہ تمام مسلماں بے خود اور مدہوش ہوجائیں اور کاروبار دنیا کو کفار و مشرکین کے حوالے کردیں، چنانچہ ﴿طبقات الصوفیۃ﴾ اور ﴿سیرو تراجم و طبقات﴾ کی کتابیں اس پر گواہ ہیں کہ صوفیہ کی ایک بڑی تعداد جہاد، اصلاح معاشرہ اور دعوت دین میں ہمہ تن مصروف ہی نہیں رہی بلکہ ہمیشہ آگے آگے رہی ہے۔
البتہ عشق الٰہی کے غلبے کی وجہ سے مجذوب ہوجانے والے حضرات معذور ہیں اور اس حالت میں ان کی زبان سے جاری ہونے والی شطحات قابل عفو ہیں اور اس وقت وہ نمونہ نہیں ہیں، بلاشبہ قابل تقلید ونمونہ محققین اور صوفیہ کاملین ہی ہیں۔
بہرحال تصوف کے مطالعے اور تصوف کے موضوع پر لکھنے کے سلسلے میں عام طور سے لوگ افراط و تفریط کے شکار ہوجاتے ہیں، چنانچہ بعض حضرات تصوف کو تزکیہ نفس کا ایک طریقہ قرار دے کر تفصیلات اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بیشتر چیزیں عین سنت معلوم ہوتی ہیں، اور متعارض سنت چیزوں کو مجذوب الحال صوفیہ کی بدعت کہہ کر چشم پوشی کرلیتے ہیں اور بعض حضرات قلبی اعمال و کیفیات جیسے توبہ و انابت، خوف محبت، صبر و شکر اور تسلیم و رضا کو روح تصوف قرار دے کر قرآن و سنت کے مطابق ان کی تشریح کرتے ہیں۔ اور تیسرا فریق تصوف کی امہات کتب میں سے کسی ایک کتاب کے صرف متفق علیہ نکات کی تخلیص کتاب و سنت کے مطابق کرتا ہے۔ اور چوتھا فریق تصوف کو خلاف کتاب و سنت اور بدعت و گمراہی قرار دیتا ہے۔
اس افراط و تفریط کی فضا میں ڈاکٹر محمد عبدالحق انصاریؒ نے توازن و اعتدال اور انصاف کے ساتھ تصوف کے سارے پہلوؤں کو جیسے کہ وہ ہیں قاری کے سامنے لانے کی سنجیدہ کوشش کی ہے، جوہر طرح سے قابل تحسین ہے اور ان شائ اللہ تعالیٰ یہ چیزیں ان کی میزان حسنات میں شامل ہوگی۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2013