معروف اسلامی دانشور اور سابق مدیر زندگی نو جناب فضل الرحمن فریدی صاحب کا علی گڑھ میں ۲۵/جولائی ۲۰۱۱کی صبح کو انتقال ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے۔ اُن کے درجات کو بلند کرے اور اُن کے پس ماندگان کو صبرِجمیل عطافرمائے آمین۔
ڈاکٹر فریدی صاحب کاتعلق جماعت اسلامی ہند کی دوسری نسل سے تھا، جس کے افراد نے ۱۹۶۰کے بعد سے جماعت کی سرگرمیوں میں اہم رول ادا کیا۔ ملک کی آزادی اور جماعت اسلامی ہند کی تشکیلِ نوکے بعد جب مرکز جماعت نے جدید تعلیم یافتہ طلبائ کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے ثانوی درس گاہ قائم کی تو فریدی صاحب اوّلین استفادہ کرنے والوں میں شامل تھے۔ اُس کے بعد آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ ہوگئے اور علی گڑھ کے اساتذہ وطلبائ میں اسلامی تحریک کے فروغ کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں۔ علی گڑھ میں اسلامی خطوط پر علمی و تحقیقی سرگرمیوں کو منظم کرنے کے لیے اِسلامی تحریک سے وابستہ احباب نے ’’اسلامی ریسرچ سرکل‘‘ قائم کیا۔ فریدی صاحب اُس کے ایک سرگرم رُکن تھے اور سرکل کے ترجمان ’’اِسلامک تھاٹ‘‘ (Islamic Thought) میں آپ کے مضامین شائع ہوتے رہے۔
اسلامک ریسرچ سرکل علی گڑھ کا ایک اہم کام مسلم پرسنل لائ پر کل ہند سمینار کا انعقاد ہے۔ یہ سمینار۱۹۷۰میں علی گڑھ میں منعقد ہوا اور اس میں مُلک کے معروف اہلِ علم و فکر نے حصہ لیا۔ فریدی صاحب اور محترم نجات اللہ صدیقی صاحب نے اِس سمینار کی روداد مرتب کی جو مسلم پرسنل لا کے موضوع پر مسلمانانِ ہند کی جانب سے پہلی باقاعدہ علمی پیش کش تھی۔ مسلم پرسنل لا کا مسئلہ اور مسلمانوں کے موقف کامدلل تعارف کرایاگیا۔ اِس سمینار میں جِن اہلِ علم نے اردو زبان میں اپنے مقالات پیش کیے اُن کے انگریزی ترجمے کی خدمت جناب فریدی صاحب اور نجات اللہ صدیقی صاحب نے انجام دی۔ سمینار کی مطبوعہ روداد کو یقینا ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔
۱۹۷۵ میں اُس وقت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کردی۔ بہت سی اور تنظیموں کے ساتھ جماعت اِسلامی ہندپر بھی پابندی لگادی گئی اور اُس کے وابستگان کو جیلوں میں بندکردیاگیا۔ دیگر رفقائے جماعت کے ساتھ فریدی صاحب نے بھی کئی ماہ جیل کی زندگی گزاری۔ اللہ کے فضل سے جماعت کے وابستگان اِس آزمائشی دور میں ثابت قدم رہے۔ ۱۹۷۷میں جب ایمرجنسی ختم ہوئی اور جماعت کی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ پورے ملک میں رفقائے جماعت متحرک ہوگئے۔
فریدی صاحب نے جماعت اِسلامی ہند کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رُکن کی حیثیت سے ایک طویل عرصے تک خدمات انجام دیں۔ آپ شوریٰ کے ہر اِجلاس میںپابندی کے ساتھ شریک ہوتے اور اپنی گرانقدر آرائ پیش کرتے تھے۔ اہم مسائل پر غوروفکر کے لیے مجلس شوریٰ جو کمیٹیاں تشکیل دیتی تھی، فریدی صاحب عموماً اُن کمیٹیوں کے ایک رُکن ہوتے اور آپ کی وسیع معلومات اور گہرے تجزیے سے کمیٹیوں کے افراد کو استفادے کاموقع مِلتاتھا۔
۱۹۷۸ میں جماعت کی مجلس نمائندگان اور منتخب ارکان کاایک اہم اجتماع بھوپال میں منعقد ہوا۔ کئی سو کی تعداد میں ارکانِ جماعت اِس اجتماع میں شریک ہوئے۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد اجتماع تھا اور اِس طرز کا اجتماع اس کے بعد منعقد نہ ہوسکا۔ اِس میں اہم فکری مسائل پر مقالات پیش کیے گئے اور ارکانِ جماعت کو سوالات اور اظہارِ خیال کا موقع دیاگیا۔ اِس اجتماع کا مرکزی موضوع ’’نظامِ حاضر سے تحریک اسلامی کا تعلق‘‘ تھا۔ دیگر اہلِ علم کے علاوہ جناب فریدی صاحب نے بھی مقالہ پیش کیا اور اظہارِ خیال میں حصہ لیا۔ اِس اجتماع کی روداد شائع ہوچکی ہے اور فریدی صاحب کافکرانگیز مقالہ بھی اس میں شامل ہے۔
فریدی صاحب متعدد علمی و تحقیقی اداروں سے وابستہ تھے۔ آپ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے تاسیسی رُکن تھے اور آخر عمر میں ادارہ کے سکریٹری کی خدمات بھی آپ نے انجام دیں۔ آپ ادارے کے نائب صدر بھی رہے۔ ادارے کے کاموں میں آپ گہری دلچسپی لیتے تھے اور اُس کی مجالس میں پابندی سے شریک ہوتے۔ اسلامی اکیڈمی اور تصنیفی اکیڈمی کے بھی آپ رُکن تھے۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیواسٹڈیز دہلی اور اِسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے منعقد ہونے والی علمی مجالس اور مذاکروں میں فریدی صاحب کو بالالتزام مدعو کیاجاتاتھا۔ مختلف اداروں و انجمنوں کی جانب سے منعقد ہونے والی علمی سرگرمیوں کو عموماً فریدی صاحب کی سرپرستی حاصل رہتی تھی۔
طلباء کے درمیان اِسلامی کام سے فریدی صاحب نے ہمیشہ گہری دلچسپی لی۔ آل انڈیا ایس آئی او کے قیام سے قبل ملک کے مختلف علاقوں میں اور خصوصاًعلی گڑھ میں جاری طلباء کی اِسلامی سرگرمیوں کی آپ نے سرپرستی فرمائی اور حوصلہ افزائی کی۔ ایس آئی او کے قیام کے بعد اُس کے آل انڈیا پروگراموں میں اکثر آپ سے استفادہ کیاجاتاتھا۔ باضابطہ اجتماعات کے علاوہ بھی طلبا آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ اُن کی رہنمائی فرماتے تھے۔
فریدی صاحب نے جس میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں وہ اِسلامی معاشیات کا میدان ہے۔ ‘‘ِسلامی معاشیات ایک تعارف’’آپ کا ایک مختصر مگر جامع کتابچہ ہے جِس کے مطالعے سے اِسلامی معاشیات کے بنیادی خدوخال قاری کے سامنے آجاتے ہیں۔ اِسلامی معاشیات کے موضوع پر فریدی صاحب بجاطورپر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے۔ مُلکی و بین الاقوامی سطح پر اسلامی معاشیات کو ایک مستقل علمی موضوع کے طورپر تسلیم کرانے میں آپ نے کلیدی رول اداکیا۔ اِسلامی معاشیات سے متعلق آپ کے متعدد مقالے علمی مجالس کی رودادوں میں موجود ہیں۔ آپ انڈین ایسوسی ایشن فار اسلامک اکنامکس کے بانی اور سرپرست تھے۔ چھ سال قبل دہلی میں اسلامی معاشیات پر جماعت کے زیراہتمام بین الاقوامی سمینار منعقد کیاگیا۔ اِس سمینار کا کلیدی خطبہ فریدی صاحب ہی کاتھا۔ اب دنیا کی متعدد یونیورسٹیوں میں اسلامی معاشیات کو ایک مستقل علمی شعبے کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
فریدی صاحب نے دیگر اسلامی موضوعات پر بھی قلم اُٹھایا۔ یہ تصنیفی کام زیادہ تر اُس دور سے متعلق ہے جب آپ زندگی نو کے مدیر رہے۔ ﴿یعنی ۱۰۰۹کے اختتام تک﴾۔ آپ نے جن اہم موضوعات پر لکھا اُن میں چند کاتذکرہ کیاجاسکتاہے: اقامتِ دین کے تقاضے، اِسلامی تحریک کے مراحل، عصرِحاضر کے چیلنجز، احیاء اُمت کامسئلہ، تحریک اسلامی اور خواتین، تکثیری معاشرہ اور مسلمان، استعمار کا چیلنج اور گلوبلائزیشن کامسئلہ۔
فریدی صاحب کی علمی خدمات سے اِن شاءاللہ اُمت مسلمہ اور اِنسانیت عامہ تادیر استفادہ کرتی رہے گی اور آپ کی کمی کو شدت سے محسوس کیاجائے گا۔ ہم بہرحال اللہ کی مشیت پر راضی ہیں اور اُس سے دعا کرتے ہیں کہ اُمتِ مسلمہ کو ہمارے مرحوم بزرگوں کا نعم البدل عطا فرمائے۔ ادارہ زندگی نو سے متعلق تمام احباب فریدی صاحب کے متعلقین کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2011